ہوم << شادی کی فضول رسومات، ہماری معاشی قاتل - عبدالحفیظ

شادی کی فضول رسومات، ہماری معاشی قاتل - عبدالحفیظ

عبدالحفیظ گرمیوں کی سخت دوپہر میں کسی مزدور کو دھوپ میں کام کرتے دیکھ کر یقیناً آپ کے دل میں اُس کے لیے ہمدردی کا جذبہ ضرور بیدار ہوتا ہوگا۔ آپ لمحہ بھر رُک کر اُس کے حالات پر درد مندانہ تبصرہ بھی کرتے ہوں گے۔ لیکن اگر آپ کو پتہ چلے کہ اُس مزدور نے سارے دِن کی مشقت کی کمائی، اپنی ذات یا خاندان پر خرچ کرنے کے بجائے رات کو کسی نشے وغیرہ میں لُٹا دی ہے تو آپ کا ردِعمل کیا ہوگا؟ آپ کو یقیناً اُس مزدور پر غصہ آئے گا۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اکثر مالی معاملات میں ہمارا طرزِ عمل بھی کچھ اِسی طرح کا ہے۔ ہم لوگ تمام عمر اپنی بیشتر ضرورتوں کو پسِ پشت ڈال کر پائی پائی جمع کرتے رہتے ہیں اور پھر کسی ایک موقع پر اُس ساری جمع پونجی کو پانی کی طرح بہا دیتے ہیں اور پھر کسی ایسے ہی اگلے موقع کے لیے دوبارہ پائی پائی جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ میں اِس مضمون کے ذریعے معاشرے میں رائج شادی سے جڑی اُن رسوم و رواج پر بحث کرنا چاہتا ہوں جو ہماری ذاتی/خاندانی معیشت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔
ہمارے ہاں لڑکے کے برسرِ روزگار ہو جانے اور لڑکی کے مناسب پڑھ لکھ جانے کے بعد گھر والے اُس کے لیے رشتے کی تلاش میں جُت جاتے ہیں۔ اگر لڑکا/لڑکی پسند آجائے تو پھر رسم و رواج سے بھر پور مراحل شروع ہو جاتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً آنا جانا اور ہر چکر میں کپڑوں اور تحائف کا تبادلہ۔ کچھ جیب ہلکی ہو جائے تو پھر منگنی کرنے کا سوچا جاتا ہے۔ پہلے تو دونوں گھروں سے دو چار بزرگ دوسرے گھر جا کر ”ہاں“ کر دیتے تھے لیکن اب تو منگنی بھی شادی کی تقریبات کا مستقل رُکن بن چکی ہے اور اِس پر خوب خرچ ہوتا ہے۔ پھر خدا خدا کر کے شادی کی تاریخ طے ہو جائے تو مہندی، بڑی بارات، پُرتکلف ولیمہ، پھر شادی کی دعوتیں، ان سب پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ مہندی کے نام پر اِک حشر بپا کرنا اور بارات کے نام پر ایک فوج ظفر موج ساتھ لے جانا، شادی کا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ بارات کی طے شدہ تعداد سے پچاس، سو آدمی زیادہ لے کر جانا تو ”لڑکے والے“ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ایک غریب آدمی بیٹے کی شادی پر اندازہ تین لاکھ روپے اور بیٹی کی شادی پر پانچ لاکھ روپے خرچ کرتا ہے۔ جیسے جیسے آدمی کی مالی حیثیت بڑھتی ہے، اخراجات بھی لاکھوں روپے کے حساب سے بڑھتے جاتے ہیں۔ اِسی حساب سے اندازہ لگائیں کہ تین سے پانچ بچوں (بیٹے، بیٹیوں) کی شادیوں پر ایک آدمی کتنی رقم خرچ کر دیتا ہے؟ آپ عموماً گھر میں ہونے والے اخراجات کا حساب کتاب رکھتے ہوں گے اور کسی ماہ معمول سے زائد خرچہ ہو جانے پر پریشان اور غصے بھی ہو جاتے ہوں گے لیکن کیا آپ نے کبھی شادی کی فضول رسومات پر ضائع ہوتے لاکھوں روپوں کا سوچا کہ وہ کس کھاتےمیں جا رہے ہیں؟
قرض کی نوبت
اِن رسومات کو ”شایانِ شان“ طریقے سے ادا کرنے کے لیے اکثر لوگ قرض کی دلدل میں جا گرتے ہیں اور پھر اگلے کچھ برسوں تک وہ قرض اتارتے رہتے ہیں۔ ان رسموں کی قباحت کا اندازہ لگائیں کہ انسان اپنی تمام جمع پونجی توضائع کرتا ہی ہے، ساتھ قرض کا بوجھ بھی اُٹھا لیتا ہے۔ قرض کا بوجھ کچھ ہلکا ہوتا ہے تو اُتنی دیر تک، دو تین برس کے وقفے سے، اگلے بچے کی شادی کا وقت آ جاتا ہے۔
اپنی خوشی یا بیٹے/بیٹی کی؟
لوگ شادی کی رسومات پر جو دولت کا ضیاع کرتے ہیں وہ کہنے کو تو اپنے بیٹے/بیٹی کے لیے کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ سب کچھ ذاتی انا اور نمود و نمائش کے لیے کرتے ہیں۔ آپ کے علم میں کتنی ایسی مثالیں ہیں کہ شادی کے بعد لڑکے کے والدین نے ایک مناسب رقم بیٹے کے ہاتھ پر رکھی ہو تاکہ وہ شادی کے پہلے ایک دو ماہ مالی معاملات سے بےفکر ہو کر اپنی ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہو سکے؟ البتہ شادی کے فوراً بعد قرض داروں کے نام بمع حساب کتاب اُس کو ضرور تھما دیے جاتے ہیں۔ یا کبھی ایسا دیکھا ہو کہ شادی کے وقت لڑکی کو معقول رقم دی جاتی ہو کہ وہ اُس رقم سے اپنی نئی زندگی کے بارے کوئی منصوبہ تشکیل دے سکے۔
خوشی نہیں، لوگوں کے طعنوں کا ڈر
شادی کو سادگی سے یا کم اخراجات میں کرنے کا کہا جائے تو اکثر لوگوں کا جواب ہوتا ہے کہ انسان پیسے اپنی خوشیوں پر خرچ کرنے کے لیے ہی تو کماتا ہے۔ میرا سوال ہے کہ انسان اگر واقعی یہ سب اپنی خوشی کے لیے کرتا ہے تو پھر شادی کی ہر رسم ادا کرنے سے پہلے ایک ہی بات سوچتے یا کہتے کیوں ہیں کہ ”اگر ایسے نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے؟“ یہ ”لوگ“ کون ہیں؟ یہ ہم ہی ہیں! ہم ہی نے ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس کرنا ہے اور اِن معاشرتی برائیوں سے مل جل کر لڑنا ہے۔
اخلاقی برائیوں کی جڑ
اِن رسوم و رواج کی وجہ سے ہمارے ہاں اخلاقی برائیاں مثلا ً لڑ کیوں کی دیر سے شادی، جھوٹ پر رشتے قائم کرنا، نمود و نمائش، پیسے کا بےدریغ ضیاع وغیرہ جنم لیتی ہیں۔ اگر ہم شادی صاف گوئی سے قائم کیے گئے رشتوں اور سادگی سے کریں گے تو پیسوں کی بچت کے ساتھ ساتھ ایسی بہت سی اخلاقی برائیوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کی ایک مختصر کہانی ”گھر سے گھر تک“ اِس موضوع پر ایک شاندار کہانی ہے۔
شادی پر آنے والے بڑے اخراجات
شادی کرنا ہمارے ہاں زندگی کے بڑے اخراجات میں شمار ہوتا ہے۔ شادی پر لڑکی والوں کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ سامان جہیز بنانے اور دوسرا اچھی خاصی تعداد کی بارات کی خاطر مدارت کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ سسرال والوں کے تحفے تحائف، شادی کے بعد کی رسومات الگ ہیں۔ اگر جہیز کی لعنت سے جان چھوٹ جائے اور بارات کی تعداد بھی مناسب ہو تو لڑکی کے گھر والوں کو بیٹی کی شادی کرنے سے برسوں پہلے ہی سے تیاری نہ شروع کرنی پڑے۔ ہمارے ہاں تو یہ بات بھی مشہور ہے کہ بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی اُس کی شادی، سامان جہیز کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ اِسی طرح لڑکے والوں کے بجٹ کا بڑا حصہ مہندی، پُرتکلف ولیمے، بَری کے سامان ، سسرال والوں کے لیے تحائف وغیرہ پر خرچ ہوتا ہے۔
نباہ نہ ہونے کی صورت میں پریشانیاں
شادی پر لاکھوں روپیہ لگا تو دیا جاتا ہے لیکن خدانخواستہ کسی بھی وجہ سے نباہ نہ ہونے کی صورت میں دو تین برس کے اندر ہی علیحدگی ہو جائے (ہمارے ہاں علیحدگی ہونے والوں میں خاصی تعداد شادی کے ایک سے تین برس کے دوران کی ہے) تو اِس صورت میں دونوں طرف سے گڑے مردے اُکھاڑے جاتے ہیں۔ شادی کے دوران دیے جانے والے تحائف تو ایک طرف، بات رشتہ دیکھتے وقت دیے جانے والے پانچ سو ، ایک ہزار روپوں کے تحائف کی واپسی کے مطالبے تک جا پہنچتی ہے۔ اگر آپ کو یہ بات مبالغہ لگے تو اپنے شہر کی فیملی عدالت میں جا کر کسی بھی ایک مقدمے کی فائل پڑھ لیں، آپ کو اِس بات سے بھی بڑی حیران کن باتیں ملیں گی۔ علیحدگی کی صورت میں لڑکے والے اپنی طرف سے دیے گئے تحائف اور چیزوں کی واپسی کی لسٹ بنا لیتے ہیں اور لڑکی والے سامان جہیز اور دوسرے تحائف کی۔ بعد میں اکثریت کو علیحدگی کا اتنا افسوس نہیں رہتا جتنی اپنا سامان واپس نہ ملنے کا۔ پھر سالہا سال اُن مقدمات کی پیروی کے بعد اگر دونوں فریقین کو مطلوبہ سامان مل بھی جائے تو کیا اُس وقت وہ اُتنا کارآمد رہ گیا ہوتا ہے جتنا وہ نئی حالت میں تھا؟
ملکی قوانین
پاکستان میں جہیز کی روک تھام کے لئے The Dowry And Bridal Gifts (Restriction) Act, 1976 اور شادی کی تقاریب کو سادگی سے کرنے کے لیے the Punjab Marriage Functions Act 2016 کے نام سے قوانین تو موجود ہیں لیکن حسبِ معمول یہ صرف کتابوں تک ہی محدود ہیں۔ ویسے یہ معاملات قانون کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کا احساس کرنے سے ہی بہتر ہوں گے۔
فضول رسموں کو کیسے ختم کریں؟
میرے خیال میں اِن فضول رسوم و رواج کے خاتمے کا واحد حل، مالی حیثیت، لڑکے لڑکی کی سوچ، اُن کے مستقبل کے ارادے اور دوسرے اہم معاملات کے حوالے سے دونوں خاندانوں کی طرف سے صاف گوئی سے کام لے کر رشتے قائم کرنا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ”بھرم“ قائم رکھنے کے لیے دونوں گھرانے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اخراجات کرتے ہیں اور بعد میں اُن اخراجات کا رونا بھی روتے ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی اِن رسموں کو چھوڑنے کی ہمت نہیں کرتا۔ کیونکہ اُنہیں ”لوگوں“ کے طعنوں کا ڈر ہوتا ہے۔ آپ ایک دفعہ اِن فضول رسموں کو چھوڑ کر یا اِن کو محدود کر کے دیکھیں، یقین مانیں نہ تو آپ پر آسمان گرے گا نہ کہیں آپ کے لیے زمین پھٹے گی۔ ہو سکتا ہے چند لوگ آپ کو تنقید کا نشانہ بنائیں لیکن زیادہ تر لوگ آپ کے اِس عمل کو سراہیں گے اور اپنے لئے مشعل راہ بنائیں گے۔
یہ رقم بچا کر کیاکریں؟
کیا ہی اچھا ہو اگر آپ اپنی جمع پونجی شادی کی فضول رسومات پر ضائع کرنے کے بجائے اپنی ذات، اپنے خاندان اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کریں۔ یہ بچائی ہوئی رقم آپ اپنے کاروبار میں لگا سکتے ہیں، نئے جوڑے کو تحفہ دے سکتے ہیں، اپنی رہائش بہتر کر سکتے ہیں، نئی گاڑی خرید سکتے ہیں، اپنی یا اپنے گھر والوں کی کوئی خواہش، جو کم رقم کی وجہ سے پوری نہیں کر سکے، وہ پوری کر سکتے ہیں۔
بارش کا پہلا قطرہ بنیں
اگر آپ خود شادی کرنے والے ہیں یا اپنے بیٹے/بیٹی کی شادی کے بارے سوچ رہے ہیں اور منگنی سے لے کر شادی کے ایک ماہ بعد تک کے اخراجات کی فہرست تیار کیے بیٹھے ہیں تو ایک لمحہ رُک کر اِن سارے اخراجات پر دوبارہ غور کریں اور جتنا ممکن ہو سکے اِن میں کمی کر کے وہ رقم اپنی بہتری پر خرچ کریں۔ آپ بارش کا پہلا قطرہ بن کر دیکھیں، آپ کے پیچھے ساون کی پوری رُت کھڑی ہے۔