ہوم << استاد کے نام چند نامور والدین کے خطوط - سید ثمر احمد

استاد کے نام چند نامور والدین کے خطوط - سید ثمر احمد

سید ثمر احمد تعلیم اگر کسی انسان کی تعمیر اور پختگی میں اپنا کردار ادا نہیں کرتی تو پھر چند خشک معلومات کا ایک بے کار ڈھیر ہے۔ اس عمارت کی تکمیل تین ستونوں سے مل کر ممکن ہوتی ہے یعنی طلبہ، والدین اور اساتذہ۔ ان میں سے کسی بھی غیر موجودگی یا بے تدبیری اس عمل کو بودا یا کمزور ثابت کرتی ہے۔ اس انفارمیشن ایج میں بھی جہاں معلومات کا سیلاب گھروں کے در توڑ کے گھس آیا ہے، استاد کی اہمیت قطعاََ کم نہیں ہوئی بلکہ کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ والدین جو بچے کو زمین میں لانے کا باعث ہوتے ہیں وہاں یہ استاد ان کو آسمانوں کی بلندیوں کا راستہ دوبارہ دکھاتا ہے۔ بچہ آج بھی استاد کو آئیڈیلائز کرتا ہے، اس کی نقل کرتا ہے۔ آج بھی اگر استاد، استاد ہے تو بچہ، بچہ ہے۔ راقم کو براہِ راست ایسیPTM's کنڈکٹ کرنے کا موقع ملا ہے جہاں والدین غلط قدم پہ بھی استاد کی پیروی کی شکایت بالخصوص چھوٹے بچوں کے حوالے سے لے کر آئے۔
ہماری تاریخ میں استاد کے لیے ایک لفظ ’مودب‘ بھی استعمال ہوا ہے ۔اس کی اصل ادب ہے جس میں ذہنی اور اخلاقی دونوں خصوصیات شامل ہیں۔ اور استاد کا فرض تھا کہ وہ بچے کی دونوں طرح کی صلاحیتوں کو اجاگر کرے۔ استاد کی طرح والدین بھی اس تکون کا اہم کونہ ہیں۔ یہ جتنا خود کو سنوار سکیں بچوں کے لیے اتنا متاثر کْن ہوسکتے ہیں۔ یہ جتنے بچوں کی ترقی میں دل چسپی لیں گے اسی قدر ایک توانا شخصیت کی تعمیر میں مدد ملے گی۔ ذیل میں تاریخ کی نامور شخصیات کے تین خطوط نقل کیے جاتے ہیں جو انہوں نے اپنے بچوں کے اساتذہ کے نام تحریر کیے۔ یہ تحریریں اس قابلے ہیں کہ ادارے ان کا عکس اپنے ٹیچرز روم میں آویزاں کریں اور والدین گھروں کو ان خوبصورت ہدایات سے مزیّن کریں۔
عمر بن عتبہ کی ہدایات اتالیق کے نام
میرے بچوں کو تعلیم دینے کے سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کو آپ خود اپنے اخلاق و عادات کی اصلاح کریں۔ میرے بچے آپ کے اقوال و اطوار کا گہرا اثر قبول کریں گے اور وہی چیز پسند کریں گے جو آپ کو پسند ہوگی۔ اور ان باتوں سے دور رہیں گے جن سے آپ پرہیز کریں گے۔ آپ انہیں قرآن پڑھائیے لیکن اس طرح کہ بارِ خاطر نہ ہو۔ دین کے احکام و عقائد اور شاعری کی شائستہ باتیں سکھائیں۔ لیکن جب تک ایک مضمون کی تکمیل نہ ہوجائے دوسرا مضمون شروع نہ کریں۔ انہیں دانشوروں کے اقوالِ زرّیں پڑھائیں اور عورتوں سے متعلق گفتگوں نہ کریں۔
ہارون الرشید کی جانب سے امین کے اتالیق احمر کے نام
اے احمر: میں نے اپنا لختِ جگر اور جوانی کا ثمر تمہارے حوالے کیا اور اس پر تمہیں اختیار دیا ہے۔ اسے تمہارا تابع دار بنایا ہے۔ اس لیے تم خود کو اس منصب کا اہل ثابت کرو۔ قرآن، تاریخ، شاعری، احکام و عقائد اور علم ِ بیان کی تعلیم دو۔ بےموقع و محل ہنسنے سے منع کرو۔ اسے اس بات کی تعلیم دو کہ وہ ہاشمی خاندان کے بزرگوں کا احترام کرے اور اگر سپہ سالار اس کی مجلس میں آئیں تو انہیں شایانِ شان طور پر جگہ دے۔ اس کا کوئی لمحہ علم و ہدایات سے خالی نہ رہے لیکن وہ افسردہ خاطر نہ ہونے پائے۔ اس کے ساتھ ضرورت سے زیادہ نرمی نہ برتنا ورنہ وہ لاپرواہ ہو جائے گا۔ اس کی تربیت اور اصلاح میں نرمی سے کام لینا لیکن اگر یہ کارگر نہ ہو تو تم اس کے ساتھ سختی سے بھی پیش آسکتے ہو۔
ابراہم لنکن کا خط
محترم استاد
٭ اسے سکھائیں کہ ہر باغی اور سرکش کے مقابلے میں ایک عبقری (ہیرو) بھی ہوتا ہے اور خود غرض سیاست دان کے مقابلے میں ایک مخلص راہ نما بھی ہوتا ہے۔
٭ اسے سمجھائیں کہ ایک بدخواہ اور دشمن کے مقابلے میں ایک دوست بھی موجود ہوتا ہے۔
٭ میں جانتا ہوں اس میں وقت لگے گا لیکن اگر آپ سکھا سکتے ہیں تو سکھائیں کہ محنت سے کمایا گیا پیسا زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے بہ نسبت بغیر محنت کے حاصل کی گئی دولت سے۔
٭ ہاں اسے ہارنا بھی سکھائیں اور جیت سے لطف اندو ز ہونا بھی۔اسے برے لوگوں کی صحبت سے دور رکھیں ۔نیز اگر ممکن ہو تو اسے اپنے دل میں اطمینان اور سکون محسوس کرکے مسکرانا بھی سکھائیں۔
٭ اسے کتابوں کے مطالعے کی عادت بھی ڈالیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے عادت بھی ڈالیں کہ وہ فضا میں اڑتے پرندوں، سورج کی روشنی میں نہائی مکھیوں اور سرسبز وادیوں میں کھلے پھولوں پر بھی غور کرنے کے لیے وقت نکالے۔
٭ سکول میں اسے اس بات کی تعلیم بھی دیں کہ دھوکہ دے کر حاصل کی گئی کامیابی سے ناکامی کہیں زیادہ قابلِ عزت ہے۔
٭ صبر اور برداشت کا جوہر پیدا کریں اور یہ کہ وہ اس وقت لوگوں کی تقلید نہ کرے جب سارے ایک ہی کام کررہے ہوں۔
٭ اسے سکھائیں کہ وہ سب کی باتوں کو سنے لیکن یہ بھی سکھائیں کہ وہ ان سب کو سچائی کے پیمانے پہ پرکھے اور صرف حق بات کوقبول کرے۔
٭ ممکن ہو تو اسے اداسی اور پریشانی میں مسکرانے کا ہنر سکھائیں نیز اسے یہ تعلیم بھی دیں کہ آنسو بہانے میں کوئی عار نہیں۔
٭ اسے تعلیم دیں کہ وہ چیختے چنگھاڑتے مجمع کی آواز پہ کان نہ دھرے اور مردانہ وار ڈٹ کر مقابلہ کرے اگر وہ حق پر ہے۔ یہ ایک بڑی خواہش ہے مگر آپ کر گزریے جو آپ کر سکتے ہیں۔ وہ بہت ہی پیارا بچہ ہے، میرا بچہ۔
آئیے پڑھیں بھی، لکھیں بھی اور آگے بڑھ کے اپنا چراغ بھی روشن کریں کہ:
روشنی کا سفر نہیں رکتا
تیز ہو جس قدر ہوا چاہے

Comments

Click here to post a comment