ہوم << قبة الصخرا - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

قبة الصخرا - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

الحرم الشریف (ٹمپل ماؤنٹ ) کی نیلے رنگ کی ہشت پہلو سنہرے گنبد والی عمارت قبة الصخرا کہلاتی ہے
فلسطین کے ماتھے کا جھومر القدس (یروشلم) ہے اور القدس کے ماتھے کا جھومر قبة الصخرا ہے ۔
القدس میں آپ کہیں بھی چلے جائیں کسی بھی اونچی جگہ پر کھڑے ہو جائیں سب سے پہلے آپ کو جو چیز نظر آئے گی وہ سنہرے گنبد والی یہ عمارت ہے جو پچھلے ڈیڑھ ہزار سال سے دنیا کی خوبصورت ترین عمارات میں سے ایک ہے
مسجد اقصٰی کے احاطے کو مسلمان الحرم الشریف یا حرم قدسی کہتے ہیں اور یہودی اسے ٹمپل ماؤنٹ Temple Mount کہتے ہیں
اس احاطے کے عین درمیان میں ایک بہت بڑا چبوترہ ہے جو باقی احاطے سے کئی فٹ اونچا ہے اس چبوترے کے مرکز میں یہ سنہرے گنبد والی ہشت پہلو عمارت ایستادہ ہے
آپ مسجد اقصٰی کے احاطے میں کسی بھی جانب سے داخل ہوں سب سے پہلے آپ کا واسطہ زیتون کے باغات سے پڑتا ہے
جب آپ زیتون کے ان درختوں کے درمیان سے گذر جاتے ہیں تو آپ کو اپنے سامنے ایک اونچا چبوترا نظر آتا ہے
اور پھر جب بیس پچیس سیڑھیاں چڑھ کر آپ محرابوں والے دروازے سے گذر تے ہیں اور جونہی اس چبوترے پر پہنچتے ہیں تو آپ کی نگاہ سب سے پہلے اس عمارت کے سنہرے گنبد پر پڑتی ہے
جس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے
اور انسان بے اختیار اس کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے
اور ہر بڑھتے قدم کے ساتھ اس کی خوبصورتی آپ پر آشکار ہوتی چلی جاتی ہے
یہ عمارت اسلامی فن تعمیر کا ایک ایسا شاندار شاہکار ہے کہ اس کی مثال پوری دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی
پچھلے پچاس سال سے اس چبوترے کی صفائی کرنے والے مسجد اقصٰی کے پرانے خادم ابو فواز نے اس کے دروازے
کے سامنے جھاڑو پھیرتے ہوئے سر اٹھایا اور مجھ سے کہنے لگا ۔
کہ “ ڈاکٹر تم جانتے ہو جنت تک جانے کا سب سے چھوٹا راستہ کون سا ہے ۔ “
میں نے نفی میں سر ہلایا تو اس نے اس گنبد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے کہا۔
کہ “ یہ گنبد دیکھ رہے ہو یہ جنت کا دروازہ ہے یہاں سے جنت تک جانے کا آسان اور سب سے چھوٹا رستہ نکلتا ہے کیونکہ میرے پیارے بنی اکرم ﷺ اسی راستے سے براق پر سوار ہو کر جنت کی طرف گئے تھے ۔ “
اس کے لہجے کی مضبوطی اور تیقن نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ گیا میں اندر سے ہل کر رہ گیا اور سوچنے لگا بلاشبہ جس طرح واقعہ اسراء اور معراج پر یقین رکھنا ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اسی طرح یہ ہشت پہلو سنہرے گنبد والی عمارت پچھلے ڈیڑھ ہزار سال سے اس واقعہ کا ناقابل فراموش اور ناقابل تردید ثبوت بن کر دنیا کے سامنے موجود ہے اس عمارت کے سنہرے گنبد کے نیچے موجود چٹان جسے صخرا معراج کہتے ہیں جس پر سے براق نے جنت کی طرف جست بھری تھی اور قبة صخرا کے بائیں جانب موجود وہ جگہ جہاں میرے پیارے بنی ﷺ نے اپنا براق باندھا تھا
یہ سب ہی گواہ ہیں کہ میرے پیارے رسول ﷺ اپنے محبوب سے ملنے سدرةالمنتہا کے اس پار گئے تھے
ان ڈیڑھ ہزار سالوں میں کئی موسم بدلے۔ کئی زلزلے آئے ۔ کئی حکومتیں آئی اور گئیں ۔ چشم کج رفتار نے کتنے ہی دور دیکھے ۔ صدیاں گذر گئیں لیکن میرے پیارے نبی ﷺ کی یہ نشانی قائم رہی اور انشاءاللّٰہ قائم رہے گی
ایک ہی رات میں ہونے والے اس واقعہ کے دو حصے ہیں جن کی گواہی خود اللّٰہ نے قرآن کی “ سورة اسراء ، سورة نجم ، سورة بنی اسرائیل “ اور کئی دوسری سورتوں میں دی ہے
اس سفر کا پہلا حصہ اسراء ہے جس کے مطابق ستائیس رجب ٦٢١ ء کی رات جب رسول اکرم ﷺ خانہ کعبہ میں موجود تھے تو جبرائیل علیہ السلام پچاس ہزار فرشتوں کی بارات لے کر براق کے ساتھ حاضر خدمت ہوئے اور آپ ﷺ کو براق پر سوار کرایا اور آن کی آن میں القدس پہنچ گئے
جہاں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آپ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے
آپ ﷺ نے اپنا براق الحرم الشریف ( ماؤنٹ ٹمپل ) کے مغربی حصے میں باندھا جہاں آجکل مسجد براق قائم ہے اور چبوترے پر تشریف لے آئے یہاں سب پیغمبروں نے آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی اور پھر آپ ﷺ حضرت جبرئیل کی ہمراہی میں براق پر سوار ہوئے براق صخرا معراج پر چڑھا اور جنت کی طرف پرواز کر گیا مقامی روائیت ہےکہ جب براق آسمان کی طرف اڑا تو چٹان نے بھی اس کے ساتھ اڑنے کی کوشش کی ۔ آپ ﷺ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا جس پر وہ چٹان ہوا میں معلق ہوگئی اور آج تک وہیں رکی ہوئی ہے ۔ چٹان کے اس طرح ہوا میں معلق ہونے سے زمین پر اس کے نیچے ایک کمرے جتنا خلاء پیدا ہوگیا جہاں اب ایک چھوٹی سی مسجد قائم ہے ۔ زائرین یہاں نفل نماز پڑھتے ہیں ۔آپ ﷺ نے پیغمبروں سے جنت کے مختلف درجوں پر انفرادی ملاقاتیں کیں اور پھر سدرةالمنتہا کے اس پار اپنے محبوب سے ملے اور رات ختم ہونے سے پہلے پہلے خانہ کعبہ میں واپس تشریف لے آئے
یہ اس سفر کا دوسرا حصہ ہے جو معراج کہلاتا ہے
۶۳۸ ء میں القدس فتح ہوا حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ ماؤنٹ ٹمپل پر تشریف لائے۔ اس وقت یہاں کوئی عمارت نہیں تھی ۔ چبوترے پر صخرا معراج کے گرد سکینڈ ٹمپل کے چند کھنڈرات تھے ۔ انہوں نے اپنی فراست سے اس جگہ کا انتخاب کیا جس جگہ پر ان کے خیال میں حضور اکرم ﷺ نے انبیاء اکرام کی امامت کی تھی ۔ انہوں نے وہاں اس جگہ پر نماز نفل اداکی جو اس چبوترے سے نیچے مغربی جانب واقع تھی ۔ اور وہاں ایک مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا ۔
چوتھے اموی خلیفہ مروان بن الحکم نے اس مسجد کی از سر نوتعمیر کی ۔ اس کو مسجد عمر یا قبلی مسجد کہتے ہیں عرف عام میں یہی مسجد ، مسجد اقصٰی کہلاتی ہے ۔ حالانکہ سارے تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ مسجد اقصیٰ کا نام دراصل اس سارے احاطے پر منطبق ہے جسے حرم قدسی یا حرم شریف کہتے ہیں اس احاطے کا رقبہ چونتیس ایکٹر ہے ۔
مشہور مسلم تاریخ دان سبط ابن الجوزي نے اپنی کتاب
“مرآة الزمان في تواريخ الأعيان”
میں لکھا ہے کہ مروان بن الحکم نے ۶۸۵ء میں صخرا معراج (HolyRock) کے اوپر ایک شاندار یادگار تعمیر شروع کروائی جس کے لئے اس نے ساری دنیا سے بہترین ماہر تعمیرات اور کاریگر اکٹھے کئے لیکن چند ہی مہینوں کے بعد اس کا انتقال ہو گیا تو اس کے بیٹے اور پانچویں اموی خلیفہ عبدالمالک بن مروان نے اور بھی ذوق وشوق سے اپنے باپ کی اس خواہش کی تکمیل جاری رکھی
اس نے اپنے بیٹے سعید بن عبدالمالک کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اس عمارت کی تکمیل میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے اس عمارت کی تعمیر کا انچارج رجاء بن حيوة تھا
ابن جوزی نے رجاء بن حيوة کی بارے میں لکھا ہے کہ جب مروان بن الحکم نے اسے طلب کر کے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ صخرا معراج پر ایسی یاد گار بنانا چاہتا تھا جو رہتی دنیا تک قائم رہے اور اسے اس عمارت کو بنانے کی ذمہ داری دی جاتی ہے تو وہ پریشان ہو گیا اور کئی دن تک سو نہ سکا اس سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیسے اتنی بڑی ذمہ داری سے عہد ہ براء ہوگا
پھر اس نے خواب میں یہ عمارت دیکھی اور اگلے ہی دن اس نے اس پر کام شروع کر دیا اور پھر اس نے اپنے اس خواب کو تعبیر دینے کے لئے دن اور رات ایک کر دئیے -
اس عمارت کی تکمیل پر رجاء نے کہا تھا کہ میری بخشش کے لئے یہی کافی ہے کہ میرے رب نے مجھے اپنے پیارے نبی اکرم کے قدموں کو محفوظ کرنے کی توفیق دی ہے
اس عمارت کی تکمیل میں سات سال لگے اور یہ ۶۹۲ ء میں مکمل ہوئی
اس کی تعمیر میں خرچ ہونے والی رقم مصر کی سات سال کی آمدنی کے برابر تھی
۸۰۸ء کے زلزلے میں اس عمارت کو شدید نقصان پہنچا
۸۱۵ء میں عباسی خلیفہ المامون الرشید نے اس عمارت کی
تعمیر نو کروائی اس کی اندرونی آرائش پر خصوصی توجہ دی
اس نے اس عمارت پر لکھے عبدالمالک بن مروان کے نام کو مٹا کر اپنا نام کندہ کروا دیا
۱۰۲۷ء کے زلزلے میں ایک بار پھر اس کے گنبد کو نقصان پہنچا اور چھٹے فاطمی خلیفہ الحاکم باامراللّہ نے اس کی مرمت کروائی
۱۰۹۹ء میں صلیبوں نے القدس پر قبضہ کرلیا اور انہوں نے قبة صخرا کو چرچ میں بدل دیا
اور یہ نائٹ ٹمپلرز Knight Templar کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ انہیں فرسان الہيكل یا صلیبی جانبازبھی کہتے ہیں ۔
اس دور میں اس کا نام ٹمپل آف سلیمان تھا۔
اس عمارت کی تصویر ان کے گرینڈ ماسٹر کی مہر پر لگی تھی۔
نائٹ ٹمپلرز اس عمارت کی خوبصورتی اور بناوٹ اور طرز تعمیر سے اتنے متاثر تھے کہ جلد ہی ساری دنیا میں ان کے چرچ قبة صخرا کی طرز پر تعمیر ہونے لگے گنبد صخرا ان کے چرچوں کی علامت بن گیا اور کئی صدیوں تک قبة صخرا کا گنبد یورپ میں یروشلم کے گنبد
Tomb of Jerusalem کے نام سے مشہور رہا
۱۱۸۷ ء میں صلاح الدین ایوبی نے القدس فتح کیا تو مسجد اقصٰی کے ساتھ ساتھ اس عمارت کو بھی عرق گلاب سے دھلوایا اور اس کی آرائش نو کروائی اس کو کفر کی علامتوں سے پاک کیا اور گنبد پر لگے صلیب کے نشان کو ہٹوا کر ہلال کا نشان ثبت کروایا
اس کے گنبد کی بیشتر اندرونی آرائش و جمال دور ایوبی کی ہی یادگار ہے
۱۲۹۳ء میں نویں مملوک سلطان المالک الناصر نے قبة صخرا کے چبوترے کے گرد چار محرابی دروازے بنوائے اور اس کا بیرونی صحن پختہ کروایا
اس نے ماؤنٹ ٹمپل کے چاروں کونوں پر چار مینار بھی بنوائے اور اس کی بیرونی دیواروں کے ساتھ ساتھ تعمیرات کروائیں جن میں علماء کی رہائش کے لئے مکان ، مدرسے اور انتظامیہ کے دفاتر قائم کئے گئے تھے
ایسی ہی ایک رہائش میں مسجد اقصٰی کے موجودہ سنئیر امام علی العباسی رہتے ہیں اور جب انہوں نے ہمیں اپنے گھر ظہرانے پر مدعو کیا توہمیں ان رہائشوں کو اندر سے دیکھنے کا موقعہ ملا
بیرونی دیوار کے ساتھ بنے عمارات کے اسی سلسلے کے ایک بڑے کمرے میں مولانا محمد علی جوہر کی قبر ہے
۱۵۱۷ء میں نویں عثمانی سلطان اور پہلے عثمانی خلیفہ سلیم اوّل نے مملوک سلطان الاشرف تومان کو جنگ الريدانية
Battle of Ridaniya
میں شکست دی تو مصر شام عرب اورفلسطین پر عثمانیوں کا قبضہ ہوگیا
سلطان سلیم اوّل کے بیٹے سلطان سلیمان عالیشان نے القدس اور مسجد اقصٰی پر خصوصی توجہ دی اس نے القدس ( یروشلم ) شہر کے گرد فصیل کی تعمیر کروائی مسجد اقصٰی کے احاطے کی فصیل کی مرمت کروائی دروازے بنوائے
اور قبةصخرا اور مسجد اقصٰی کی تزئین وآرائش کروائی اس کا نیلا رنگ اسی دور کی یادگار ہے
اس تزئین وآرائش میں سات سال لگے
قبة صخرا کی بیشتر موجودہ بیرونی اور اندرونی آرائش سلیمان عالی شان کے دور کی مرہون منت ہے
اس نے قبة صخرا کے گنبد پر اور اس کی بیرونی دیواروں پر نیلے رنگ کی ازمیر ٹائلزلگوائی اور پچی کاری ( موزیک) کروائی
قبةصخرا کی بیرونی دیوارو ں پرسورة یسین لکھوائی
وہ اس کے گنبد سے اتنا متاثر تھا کہ اس نے استنبول میں اپنی جامعہ سلیمانیہ کا مرکزی گنبد اس کی نقل پر تیار کروایا جہاں وہ بعد میں دفن ہوا
۱۹۵۵ء میں اردن کی حکومت نے ایک کثیر رقم سے اس عمارت کی ازسر نو تزئین وآرائش کروائی جو عرب ممالک اور ترکی کی گورنمنٹ نے دی تھی
اس کے گنبد پر المونیم کی پرت لگوائی اس دور میں اس کا گنبد سنہری نہیں نقرئی تھا
۱۹۹۳ء میں اردن کے شاہ حسین نے اسی کلو گرام سونا لگا کر اس کے گنبد کو سنہری شکل دی جس پر آٹھ (8.2) ملین ڈالر کی لاگت آئی اور اس کے لئے اس نے یو کے میں موجود اپنے گھر کو فروخت کیا
اس عمارت کی اندرونی دیواروں پر لگے سنگ مرمر کی سینکڑوں بڑی بڑی سلوں پر بنے ڈیزائن اور نقش ونگار اس خوبصورتی سے اور اتنے منفرد انداز میں بنائے گئے ہیں کہ کسی ایک کا بھی ڈیزائن دوسرے سے نہیں ملتا
ہر سل دوسری سل سے مختلف ہے
اس کی کھڑکیوں کے ڈیزائین بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں
اس کے ستونوں پر بنے نقش نگار اس کے کنبد کی اندرونی آرائش انسان کو مبہوت کر دیتی ہے گنبد کی اندرونی سمت اور دیواروں پر لکھی قرآنی آیات کی خوبصورتی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے اس کے فرش پر لگا موزیک اور اسکی پچی کاری بے مثال ہے
صخرا معراج ( Holy Rock ) کے گرد شیشے کی دیوار ہے
اس چٹان کے نیچے ایک بہت بڑی کمرہ نما غار ہے
اس غار کے اندر ایک چھوٹی سی مسجد قائم ہے
زائرین سیڑھیاں اتر کر اس غار جاتے ہیں اور دو نفل نماز ادا کرتے ہیں
کچھ لوگ اس چٹان کے گرد طواف کرتے بھی نظر آئے پتہ چلا کہ بوہری فرقہ کے لوگ ہیں جو بڑی تعدا د میں اس کی زیارت کے لئے آتے ہیں یہ لوگ مسجد اقصٰی کی با جماعت نماز میں شریک نہیں ہوتے بلکہ نماز کے اختتام کے بعد اپنی علیحدہ سے جماعت کرواتے ہیں اور اس چٹان کا سات مرتبہ طواف کرتے ہیں
یہ عمارت مسجد نہیں ہے اور نہ ہی یہاں با جماعت نماز اداکی جاتی ہے یہ دراصل مسجد اقصٰی کا ایک ہی ایک حصہ شمار ہوتی ہے
نماز کے اوقات میں اور خاص طور پر جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے وقت قبةصخرا اور اس کا چبوترا خواتین کے لئے مختص کر دیا جاتا ہے جہاں وہ امام مسجد اقصٰی کے پیچھے اپنی نماز ادا کرتی ہیں
یہودیوں کے عقائد کے مطابق یہ عمارت اس جگہ قائم ہے جہاں ایک ہزار سال قبل مسیح میں حضرت سلیمان نے ہیکل سلیمانی تعمیر کیا تھا جسے یہودی فسٹ ٹمپل کہتے ہیں
بعد میں پانچ سو سال قبل مسیح اور بیس مسیح میں قائم ہونے والا سکینڈ ٹمپل اور ہیروڈ ین ٹمپل بھی اسی جگہ قائم تھا
ان کے نزدیک پتھر کی یہی وہ چٹان ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسحاق علیہ السلا م کو ذبح کرنے کی نیت سے لٹایا تھا
لہذا وہ اسے ماؤنٹ مرائیا Mount Muriah (مروا) بھی کہتے ہیں
ان کے نزدیک یہی چٹان Holly of the Holiest بھی ہے جو ان کے فسٹ اور سکینڈ ٹمپل کا مرکزی حصہ Centre piece تھی جس پر تابوت سکینہ Ark of Covenant
رکھا تھا اس تابوت میں حضرت موسیٰ کا عصا ، حضرت داؤد کی تلوار اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی ، پتھر کی وہ تختیاں جن پر تورات نازل ہوئی تھی اور من وسلوٰی کے نمونے رکھے تھے ۔
یہودی اس جگہ اپنا تھرڈ ٹمپل بنانا چاہتے ہیں
یہ تاریخ اسلام کی وہ پہلی یادگار عمارت ہے جو ڈیڑھ ہزار سال سے آج تک قائم ہے
اور ڈیڑھ ہزار سال سے اس کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین عمارات میں ہورہا ہے
معراج کے اس سفر کے ذریعے جو عزت جو شرف اور مقام اللّٰہ نے میرے نبی ﷺ کو بخشا اتنی عزت اور مقام آج تک دنیا کے کسی انسان کو نہیں ملا
صدیاں گزر جانے کے بعد بھی یہ عمارت میرے پیارے نبی ﷺ کے اس تاریخ ساز سفر کی نشانی کے طور پر زندہ ہے
یہ عمارت ،اس کے گرد رہنے والے سینکڑوں کبوتر اس کے چبوترے کے نچلے احاطے میں موجود دہائیوں پرانے زیتون کے درخت ،
اس کا چمکتا سنہری گنبد ، اس کی خوبصورتی ، اس کی رعنائی آج بھی میرے خوابوں میں بستی ہے ۔ میرے دل کے نہاں خانوں میں محفوظ ہے
اسکے چبوترے پر چلنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی باد صبا مجھے آج بھی اپنی روح میں اترتی محسوس ہوتی ہے
تو لگتا ہے جیسے جنت کا دروازہ کھل گیا ہے اور یہ ہوا اسی دروازے سے نکل کر آ رہی ہو
ابو فواز کی بات آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے تو مجھے اس شخص کی قسمت پر رشک آتا ہے جسے میرے رب نے اس پاک جگہ کی خدمت کے لئے منتخب کیا ہے جہاں سے جنت کا دروازہ کھلتا ہے
“یہ مضمون میری کتاب اہل وفا کی بستی میں شامل ہے “