ہوم << حج 2016ء، حکومتی انتظامات کے آئینے میں - میاں عتیق الرحمن

حج 2016ء، حکومتی انتظامات کے آئینے میں - میاں عتیق الرحمن

میاں عتیق الرحمن حج اسلام کا پانچواں رکن ہے جو بیت اللہ اور اس کے گرد نواح میں ہی مکمل طور پر ادا کیا جاتا ہے۔ قدیم زمانے سے لوگ ایسا کرتے آرہے ہیں. نبی کریم ﷺ نے اسے اسلام کا بنیادی رکن قرار دیا، اور حج مبرور کا ثمر جنت بتلایا۔ اب ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسے یہ سعادت حاصل ہوجائے. اسی تحریک نے مکہ مکرمہ کی رونق افروزی میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ حج پہلے ہی سخت جدوجہد اور مشقت والی عبادت تھی، مگر حج کے لیے آنے والوں کی کثرت اور دنیا میں سہولیات کی فراوانی نے اس مشقت کو بہت زیادہ قابل احساس بنا دیا ۔گزرتے وقت نے حرم کو تنگی داماں کا شکار بھی کیا، جس پر بار بار توسیع حرم کی ضرورت پیش آتی رہی۔ سعودی حکومت نے توسیع کے ساتھ حجاج کی مشقت میں کمی اور سہولیات میں اضافے کی طرف توجہ دی، جسے جدید ٹیکنالوجی نے ممکن بنا دیا۔ خدائے قادر کی ذات اتنی رحیم و کریم ہے کہ اتنی آسانیوں کے باوجود ہمیں اگر حج میں کچھ مشقت اٹھانی پڑ بھی جائے تو وہ اسے بھی ہمارے لیے اجر وثواب میں اضافے کا ذریعہ بنا دیتی ہے۔ حج میں مشقت پر صبر کرنا اور کسی کو کوسے اور لعن طعن کیے بغیر حج کی مشکلات برداشت کر کے تمام جزئیات حج کو ادا کرنا اسے مبرور بنانے میں یقینی کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن خلاف صبر و برادشت جیسی عادات قبیحہ حج کی مقبولیت میں سخت رکاوٹ بھی بن سکتی ہیں، جو ہمیں نظر تو نہیں آئیں گی مگر ہمارے حج کا اجر ضائع کرنے کی پوری صلاحیت سے لیس ہوں گی۔
مجھ سے میرے ایک میرے ایک ٹائیگر فیلو تنقید بھرا رابطہ کرتے رہتے ہیں، رابطے کا ذریعہ عموما فیس بک کا ان باکس ہوا کرتا ہے۔ ٹائیگر پارٹی سے تعلق نے انہیں خوب دھاڑنے میں مہارت تامہ سکھا دی ہے۔ عید قربان کے مزے میں بیٹھا تھا کہ موبائل پر فیس بک میسینجر نوٹیفیکیشن کی بیل ہوئی، پہلے تو ان دیکھا کر دیا مگر فراغت نے پڑھنے پر مجبور کر دیا تھا، پڑھا تو اس کی ٹائیگرانہ طبیعت کا اظہار کچھ گراں گزرا اور دماغ میں کھلبلی سی مچی کہ ہم من حیث القوم مدح سرائی پر آئیں تو فساد فی الارض کو قومی بیداری قرار دے لیں اور تنقید و تنکیر کرنے پر آئیں تو دن رات کی محنت کو کرپشن کہہ دیں اور اسے قومی خدمت سمجھ لیں۔ میں بھی اس معاملے میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے نہیں ہوں بلکہ تعریف و توصیف میں بخیل اور تنقید و تنکیر میں سخی واقع ہوا ہوں، اور ایسے ہی لوگوں کے درمیان رہتا ہوں۔ اس کی پتہ نہیں کیا وجہ ہے۔ ہم بہت اچھے لوگ ہیں، پیارے لوگ ہیں، ایک دوسرے کے لیے اچھی خوش بختی کا سامان مہیا کرتے ہیں، مگرتعریف و توصیف کے معاملے میں بخل سے کام لیتے ہیں، ہمارے ہاں شاید یہ قومی رواج بن گیا ہے، اور ہم نے اس کے بارے میں کبھی غور و غوض کی زحمت گوارا نہیں کی کہ تعریف و توصیف بھی شکر ہے۔
بہرحال گراں گزرنے کی وجہ سہولیات سے بھرپور حج میں کچھ مشقت کا جھیلنا تھا۔ کہیں مرسل موصوف کو دوران حج کسی مقام پر بس کے انتظار میں کچھ دیر کھڑا ہونا پڑا تھا، اور اس تھوڑی دیر نے اسے سارے حج اور مشقت بھری عبادت میں ملنے والی قدم بقدم سہولیات کی شکر گزاری کے بجائے ناشکری کی انتہا کو پہنچا دیا۔ اس عادت مبارکہ سے مرسل موصوف ہی متاثر نہیں بلکہ معاشرے کے اکثر افراد اس بیماری کا شکار ہیں اور مرسل موصوف کی حالت معاشرے کی مجموعی صورت حال کی عکاسی کرتی ہے۔ سمجھنے سے قاصر تھا کہ ہمارے ہی آباؤ اجداد کے نیک طینت لوگ سفر حج کے لیے چار ،چار ماہ بلکہ اس سے بھی زائد صعوبت بھری مشقتیں برداشت کر لیا کرتے تھے اور زبان سے ناشکری کی اف بھی نہیں نکلتی تھی مگر مجال ہے کہ ہم سہولیات کے منبع میں بھی شکرگزاری کے چند کلمات ادا کر لیں۔ شکر گزاری تو درکنار سہولیات اور آسائشوں کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑ جائے تو ہم اپنے آپ کو دنیا میں سب سے زیادہ مشقت و صعوبت میں مبتلا شخص سمجھ لیتے ہیں اور پھر ناشکری کی انتہا تک ایسا پہنچتے ہیں کہ حج سے حاصل ہونے والے صبر بھرے سبق کو ہی بھول جاتے ہیں۔
حج ایک مقدس عبادت ہے، سعودی حکومت اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے اپنے تئیں سخت جدوجہد اور بہترین انتظام کرتی ہے، اس سال حج کے موقع پر عام انتظامات کے علاوہ اہم ترین مسئلہ سیکیورٹی تھریٹ تھا، جس سے نمٹنے کے لیے سابق روایات سے بڑھ کر بہت زیادہ تگ و دو کی ضرورت تھی، جس کے لیے اس سال کسی بھی غیر متعلقہ شخص کی حدود حرم میں انٹری اور غیر متعلقہ گاڑیوں کا داخلہ مکہ مکرمہ میں بند کیا گیا، 9 چیک پوسٹیں حدود حرم کے اطراف میں قائم کی گئیں، جن کی مدد سے ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ لوگ اور ہزاروں گاڑیاں بھاری جرمانوں کے ساتھ واپس موڑی گئیں۔ ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ سیکیورٹی اہلکار حجاج کی سیکیورٹی پر مامور ہوئے۔ ایام حج میں روزانہ مقامات حج کے گرد ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے ذریعے سو سے زائد بار سیکیورٹی کی نکتہ نگاہ سے پروازیں کی گئیں۔
سعودی حکومت کے ذمے دوسرا اہم ترین مسئلہ 15 لاکھ سے زائد حجاج کے لیے قربانیوں کے انتظام کا تھا جس کے لیے 30 لاکھ سے زائد جانوروں کا بندوبست کیا گیا تاکہ جانوروں کی کمی اور بلیک میں فروخت کا دھندہ نہ چل نکلے۔ تیسرا اہم ترین مسئلہ حجاج کی آمد روفت کا تھا جس کے لیے 4 ہزار سے زائد بسوں کا انتظام کیا گیا۔ چوتھامسئلہ بیمار حجاج کی بحالی کا تھا جس کے لیے سینکڑوں ایمبولینسز، درجنوں موبائل ہسپتالوں اور سینکڑوں ڈسپنسریوں کو قائم کیا گیا۔ پانچواں مسئلہ مختلف زبانوں اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ہینڈل کرنا تھا جسے 180 ممالک کی حکومتوں کے ساتھ مل کر طے کیا گیا اور حجاج کے بہت سے معاملات بالواسطہ یا بلا وسطہ انھی کی حکومتوں کے ذریعے ممکن بنائے گئے۔ اور ہر ملک نے اپنی بساط کے مطابق اپنے ملک کے حاجیوں کے لیے انتظامات کیے۔
انسان جو بڑا بےصبرا اور نا شکرا واقع ہوا ہے، اس کی ایک خاصیت ہے کہ چھوٹے سے دھبے کو پھیلا کر نہ صرف اپنی زندگی، اور اپنے علاقے پر، بلکہ ساری دنیا پر محیط کرلیتا ہے اور خود اس دائرے کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اگر آپ غور کریں گے تو مصائب اور مشکلات اتنی شدید نہیں لگیں گی جتنا کہ انہیں سمجھ اور بنا لیا گیا ہوتا ہے۔ یہ مشکلات ساری زندگی کا ایک حصہ ہوتی ہیں، ساری زندگی نہیں ہوتیں، بندہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ میری ساری کی ساری زندگی ہے جو برباد اور تباہ ہوگئی۔ بہرحال حج میں آسانیوں اور سہولتوں کے باوجود کچھ نہ کچھ مشقتیں برقرار رہتی ہیں، مگر جب صرف ان مشقتوں کا ہی رونا رویا جائے تو پھر انسان صبر کی آغوش سے ناشکری کے ہم آغوش ہو جاتا ہے۔انسانی بساط اور دستیاب وسائل کے تحت ہی ہر کام سر انجام دیا جاتا ہے، جہاں بساط انسانی اور وسائل کی دستیابی اختتام پذیر ہوجاتی ہے، وہاں سے مشکلات شروع ہوجاتی ہیں۔ مشکلات اور مشقتوں کو کم کرنے کے لیے ہر قدم پر یا قدم کے بعد سہولت آجائے تو مشکلات بھی انسانی بساط اور برداشت کے تحت آجاتی ہیں، اور اسے انسان کو بخوشی قبول بھی کر لینا چاہیے مگر انسان ہے کہ جو لالچی واقع ہوا، جو اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ جہاں برداشت کرنا پڑ بھی جائے وہاں بھی بغیر تنقید وتنکیر کے قبول نہیں کرتا۔
پاکستان سے 2012ء تک پونے دو لاکھ اور 13ء کے بعد لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ لوگ حج کے لیے جاتے رہے ہیں، لوگوں کا حج پر جانے کا جذبہ قابل قدر ہوتا تھا، مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب یہ جذبہ ماند پڑنے لگا، حتی کہ ‏2012ء میں تو کئی بار درخواست وصولی کی تاریخوں میں توسیع کے باوجود سرکاری کوٹہ سے بھی دو ہزار کم درخواستیں موصول ہو پائی تھیں، لگتا تھا کہ شاید لوگ حج پر جانا نہیں ‏چاہتے یا ان کا ایمان کمزور ہوگیا ہے مگر بعد کے حالات نے پتہ دیا کہ اس صورت حال کے لیے منتظمین حج ذمہ دار ہیں اور اس صورتحال کو پیدا کرنے میں ان کے ایمان کا زیادہ عمل دخل تھا جس کا کچھ عرصہ بعد عدالتی کارروائیوں کے ذریعے انکشاف ہوا کہ 35 ہزار سے زائد حاجیوں میں سے ہر ایک سے 50 ہزار روپے سے زائد نقد ٹھگے گئے ہیں، جبکہ پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات کے چارجز وصول کرنے کے بعد ان سے حجاج کو آشنا نہیں کر وایا گیا ہے، اور کئی حجاج کا راستہ بھٹک کر سعادت حج سے محروم رہ جانا بھی تب کہ حسن انتظام کا کرشمہ قرار پایا تھا۔
ایمان کے عمل دخل کی بات تب مزید نکھر کر سامنے آئی، جب 2013ء اور بعد کے سالوں میں حجاج سے درخواستوں کی وصولی کا مرحلہ شروع ہوا اور وقت پر مکمل ہوا. 2016ء میں تو جیسے ایمان کی بہار آگئی کہ 18 سے 26 اپریل تک 86 ہزار درخواستوں کی وصولی کا دور شروع ہوا مگر تین دن میں ہی ایمان کی حرارت والوں نے یہ عدد سر کر لیا اور 26 اپریل تک یہ عدد 2 لاکھ 70 ہزار تک پہنچ چکا تھا، اس کے لیے ملک کے آٹھ بڑے بنکوں کی برانچوں اور حاجی کیمپس کی خدمات حاصل کی گئیں۔ دو تین سال کے بعد ہی لوگوں کا سرکاری حج سکیم کو ترجیح دینا اور دھڑا دھڑا درخواستیں جمع کروانا شاید حج کے معاملے میں عوامی اعتماد کی بحالی کا اشارہ سمجھ لینا چاہیے۔ اعتماد کی بحالی میں 25 سے 30 ہزار روپے کے برابر ریالوں کی واپسی، حکومت کی طرف سے پاکستانی حجاج کے لیے کھانے پینے کے فری انتظام، ہر آنے والے سال میں حج اخراجات میں پہلے کی نسبت کمی اور حجاج کو راستہ بھولنے سے بچانے کے لیے ٹریکر کڑے کا گفٹ اور آمد روفت کے لیے 421 نئی بسوں کے انتظام نے اہم کردار ادا کیا ہے اور آئندہ سال تک حجاج کرام کو سامان اٹھانے کے جھنجھٹ سے آزاد کرنے کی کوشش قابل ذکر ہے۔ پاکستانی حجاج کے لیے بہترین انتظام وانصرام کی تگ و دو کرنے والوں میں وزیر مذہبی امور سردار یوسف اور وزیرمملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات کی کوششیں قابل قدر ہیں۔ اسے عملی جامہ پہنانے، اپنے ذاتی روابط کے ذریعے تمام پاکستانی سرکاری حجاج کو سعودیہ عرب میں سعودی حکومت سے سہولتیں اور ریلیف دلانے اور پاکستان سے حج پر پہلے کی نسبت اخراجات کم کروانے میں مذہبی امور کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کا کردار نہایت قابل تحسین ہے، جو میڈیا پر آ کر اپنی حسن کار کردگی کی چیخم دھاڑ مچانے اور نمودونمائش کے بجائے خاموشی اورجذبہ للہیت سے فوائد پہنچا دیتے ہیں اور اس کا احساس بھی نہیں ہونے دیتے۔
یوں تو حکومت کا کام ہی عوام کا ہر طرح سے خیال رکھنا اورریلیف دینا ہوتا ہے مگر خوش قسمتی یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے یہ واقعہ پاکستان میں بھی رونما ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اور امید واثق بھی ہے کہ حج انتظامات کی طرح باقی معاملات بھی للہ فی اللہ کام کرنے والوں کے سپرد کیے جاتے رہے تو یہ ریلیف اور عوامی خیال رکھنے کا واقعہ پاکستان میں بھی مستقل طور پر رونما ہو کر رہے گا۔ ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اسے درپیش مسائل سے نکالنے اور نبرد آزما ہونے میں مدد فرمائے. آمین

Comments

Click here to post a comment