ہوم << اے ماں تجھے سلام! - ابو محمد مصعب

اے ماں تجھے سلام! - ابو محمد مصعب

ابومصعب یہ 8 اکتوبر2005ء کی بات ہے۔ میں اس وقت اپنے کچھ کشمیری دوستوں کے ساتھ دیرہ دبئی میں رہتا تھا۔ خبر آئی کہ پاکستان کی شمالی آبادی پر ایک قیامت آچکی ہے اور تباہ کن زلزلے نے بستیوں کی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹا دی ہیں۔ مجھ سے اپنے کشمیری دوستوں کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ ان کی انگلیاں لگاتار موبائل فون کے بٹن دبانے میں مصروف تھیں۔ اچھی یا بری خبر دور کی بات، اس وقت تو وہ صرف یہ چاہ رہے تھے کہ کسی طرح ان کے گھر والوں کے موبائل پر بیل چلی جائے۔ جن دوستوں نے سنا کہ ان کے گھر کے سارے افراد مٹی تلے دب چکے، ان پر سکتہ کی سی کیفیت طاری تھی۔ نہ ہنستے تھے نہ روتے تھے۔ بس یہ کہہ کر یہیں بیٹھے رہ گئے کہ اب کس کے لیے جائیں!
جب اس طرح کے حالات ہوں تو ہم فوراََ پاکستان ایسوسی ایشن دبئی (PAD) کی طرف دوڑتے ہیں کہ وہاں سے کیا اعلان ہوتا ہے۔ میں چوں کہ (PAD) کا دیرینہ ممبر بھی ہوں اس لیے فوراََ اپنے مرکز کی طرف لپکا جہاں امدادی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا تھا۔ کیمپ لگ چکے تھے، نوجوانوں کی ٹولیاں جمع ہونا شروع ہوگئی تھیں، (PAD) کے ذمہ داران سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے کہ کیا کیا جائے اور اس مہم کو کس طرح لے کر چلا جائے۔ طے ہوا کہ دامے درمے سخنے جو کچھ ہوسکا اپنے بھائیوں کے لیے کریں گے۔ دیکھتے ہی دیکھتے امدادی سامان کی آمد شروع ہوگئی۔ لوگ اپنے گھروں اور دوستوں سے کپڑے، جوتے، کمبل، اناج، بسکٹ، خشک دودھ، ادویات، چاول، گھی، شکر، خیمے اور نہ جانے کیا کچھ لے کر آنا شروع ہوگئے اور آن کی آن میں مختلف چیزوں کے پہاڑ کھڑے کردیے۔ اب حالت یہ ہوچکی تھی کہ یہاں کے میدان کا وسیع وعریض دامن تنگ پڑ چکا تھا۔ اعلان ہوا کہ اب روزانہ کم از کم ایک کنٹینر روانہ کیا جائے گا تاکہ ضرورت مندوں تک چیزیں بروقت پہنچنا شروع ہوجائیں اور مزید کی بھی گنجائش پیدا ہو۔ یہاں کی جان لیوا گرمی اور لوگوں کی شدید کاروباری مصرفیات، وہ لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں جو یہاں رہ چکے ہیں۔ لیکن آفرین ہے میری ماں کے بیٹوں کو جنہوں نے مزدوروں کی طرح چاول، آٹے اور دیگر بھاری سامان کے تھیلے اپنے کندھوں پر لاد کر کنٹینرز میں ڈالے۔ جن کے اجلے اور صاف شفاف لباس مزدوروں کی طرح میلے پڑجاتے تھے لیکن چہروں کی مسکراہٹ، اندر کے جذبات کی عکاس تھی۔ یہ جو مزدور بن گئے تھے کوئی عام افراد نہیں تھے۔ ان میں سرکاری اسپتالوں میں جاب کرنے والے سرجنز اور ڈاکٹرز بھی تھے، بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والے انجینیئرز، مینیجرز اور اعلیٰ افسران بھی تھے اور ایسے ماں باپ کے جگرگوشے بھی تھے جن کے کاندھوں نے کبھی چاول، آٹے کے بورے کا وزن نہ دیکھا تھا۔ لیکن یہاں ان کی خوشی اور جوش و خروش دیدنی تھا۔ (PAD) کی فصیل اور داخلی دروازے کے باہر ہروقت نوجوانوں کا ہجوم سا جمع رہتا تھا۔ یوں روزانہ کبھی ایک تو کبھی دو کنٹینر متاثرہ علاقوں کی طرف روانہ ہوتے رہے اور یہ سلسلہ کوئی دو تین ماہ تک چلتا رہا۔
پاکستان ایسوسی ایشن دبئی (PAD) کے آس پاس دیگر ملکوں کے کلبز اور ایسوسی ایشنز بھی ہیں. ایک بار کسی ملک کے کلب کا ذمہ دار وہاں سے گزرا ۔ امدادی سامان کی مقدار اور رضاکاروں کے جتھے نیز ان کا جوش و خروش دیکھ کر اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا: زلزلے، سیلاب اور مصیبتیں تو ہمارے ملک میں بھی آتے ہیں لیکن میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جس تیزی اور سرعت سے تم لوگ حرکت میں آتے ہو اور بے قرار ہو کر اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لیے دوڑ پڑتے ہو، اس کی نظیر مجھے کسی دوسری قوم میں نہیں ملتی۔
اس لمبی تمہید کی ایک وجہ ہے۔ اس وجہ کی بنیاد ایک مفروضے سے منسلک ہے، وہ مفروضہ جوگھڑا گیاہے، وہ مفروضہ جس کی خوب تشہیر کی گئی ہے، پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا، ہر ایک اپنا اپنا کام کر رہاہے بلکہ اسے مفروضہ سے زیادہ ’’تہمت‘‘ یا الزام کہا جائے تو زیادہ درست رہے گا. وہ یہ کہ ’’پاکستان ایک ناکام ریاست ہے‘‘، ’’ہم ایک ناکارہ قوم ہیں‘‘۔ بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے کچھ دانشور تراشے گئے ہیں، ان پر پتلون، کوٹ اور ٹائی چڑھائی گئی ہے، پھر ان بھاری بھر کم جثوں کو بڑی بڑی کرینوں کی مدد سے اٹھا کر ٹی وی چینلوں پر بٹھایا گیا ہے بلکہ یوں کہیے کہ عوام کے سروں پر مسلط کیا گیا ہے جہاں یہ عقل کے اکابر منہ ٹیڑھے کر کے، آنکھیں گھماگھماکر فرماتے ہیں، کیسی قوم؟ بھیا ہجوم کو قوم مت بولو۔ قوم تو فلاں اور فلاں ہے۔ ہم نے کون ساتیر مار لیا ہے؟ کیا بنا لیا ہم نے آج تک؟ سوئی تو بنا نہیں سکے؟ وغیرہ وغیرہ۔
میں آپ کو بتاتا ہوں۔ قوموں کی ایک نفسیات ہوتی ہے اور وہ نفسیات ایک بچے کی نفسیات کی سی ہوتی ہے۔ بچہ چاہے کتنا ہی شریر ہو، لوگوں کے سامنے اس کی تعریف کر دو کہ بڑا پیارا بچہ ہے، یقین کریں وہ پیارا بن کر دکھائے گا۔ لیکن اگر تمام تر اچھائیوں کو چھوڑ کر بچے کی کوئی ایک بات لے کر لوگوں کے سامنے تذلیل کی جائے تو وہ ویسا ہی بن کر دکھائے گا۔ یہ جو چور ڈاکو اور بدمعاش بنے پھرتے ہیں، ایسے ہی نہیں بن گئے۔ کبھی فرصت اور موقع ملے تو ان میں سے کسی سے ملاقات کرکے پوچھ لیں اور خود اس سے اس کی ہسٹری معلوم کریں۔ کوئی اپنے باپ اور خاندان کے لوگوں کے ترش رویے کی وجہ سے تو کوئی وڈیرے، پولیس اور تھانوں کے ظلم کی وجہ سے مجرم بنا ہوگا۔ انسان کو تو مالک نے نیک فطرت ہی بنایا ہے، اسے کیا پڑی ہے کہ وہ لوگوں کے خون بہائے اور عزتیں پامال کرے!
ہمارے ان دانشوروں کے ذہنی قحط کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انہیں ہماری قوم میں کوئی اچھائی نظر نہیں آتی اور غیروں میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ پھر جب یہ تقابل تقابل کا کھیل کھیلتے ہیں تو یہاں بھی ڈنڈی مارتے ہیں۔ ہمارے گلشن کے کانٹوں کا تقابل دوسروں کے کے پھولوں سے کرتے ہیں۔ جب مثال کا مسالحہ پیش کرتے ہیں تو وہ بھی بڑا چٹ پٹا ہوتا ہے۔ ہمارے کمزور اور برے فرد اور واقعہ کی مثال دیں گے اور دوسروں کے بہترین فرد اور معاملہ کی۔ الفاظ کے یہ جادوگر حالات کا کچھ ایسا نقشہ کھینچتے ہیں کہ بندہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ یار یہ ملک شاید اب مزید پانچ سال بھی نہ چل پائے۔ یہ تعمیر کے بجائے تذلیل کے فارمولے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ ’’خوشخبری‘‘ کے بجائے ’’مایوسی‘‘ کا ہول سیل کاروبار کرتے ہیں۔ یہ چن چن کر وہ باتیں پیش کرتے ہیں جن سے ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ نعرہ خوف گونجنے لگتا ہے کہ: ’’پاکستان سے زندہ بھاگ‘‘، کیوں کہ ان کو کام ہی یہ سونپا گیا ہے کہ کلمہ کے نام پر حاصل کیے گئے اس وطن سے اس کے بچوں کو بدظن کیا جائے۔ یہ مایوسی کے کنٹینر امپورٹ کرتے ہیں اور بدگمانی، تذلیل اور بدنامی کے کنٹینر ایکسپورٹ کر کے دنیا کے سامنے اس خوبصورت ملک کا چہرہ مسخ کرکے پیش کرتے ہیں۔
وطن کی محبت ایمان کی علامت ہے۔ جس شخص کے دل میں اپنے وطن کے لیے کسی قسم کی محبت اور جذبات نہیں وہ اپنے ایمان کا سنجیدگی سے جائزہ لے۔ میرے نزدیک میرا وطن بھی میری ماں کی طرح ہے۔ مجھے فخرہے کہ میں بیٹا ہوں ایک ایسی ماں کا جس کا نام پاکستان ہے، جو حاصل کیا گیا تھا اس عہد پہ کہ اس میں اسلام کے کلمہ والے پرچم کو سربلند رکھا جائے گا۔ اب اس میں ماں کا کیا قصور کہ اس کے بیٹوں نے اس کے سر سے چادر نوچ لی، اسے بے توقیر کردیا، برباد کردیا؟
آپ ذرا میرے وطن کو میری نظر سے تو دیکھیں، قسم سے بڑا پیارا اور خوبصورت نظر آئے گا۔ یہاں ایک ایسی قوم بستی ہے جس کی حمیت اور غیرت کی تمازت ہزاروں میل دور تک محسوس کی جا سکتی ہے، جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے امید اور سہارے کا درجہ رکھتی ہے۔ جو دنیا میں بسنے والے کسی بھی مسلمان کے اوپر ہونے والے ظلم پر تڑپ اٹھتی ہے اور بے چین ہوجاتی ہے، جبکہ دیگر اقوام بحر مردار کی طرح سوئی رہتی ہیں۔ جس سے گلی کا ڈان بھی تمیز سے بات کرتا ہے حالانکہ وہ اس سے کئی گنا بڑا اور طاقتور ہے۔ وہ مادروطن جس کے بیٹوں کو اول روز سے علاقائی، لسانی، مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرکے ایک دوسرے سے لڑانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود نفرت کی یہ آگ اس حد تک نہیں بڑھی کہ پورے گلشن ہی کو ناس کرکے رکھ دے۔ سلام ہے اس ماں کو جس کے بچے بڑے بڑے سانحات سے گزرنے کے باوجود آج بھی مکمل طور پر ہوش و حواس میں ہیں اور نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔ پاگل اور نفسیاتی نہیں بنے بلکہ اگر دیکھا جائے تو عالمی لیبر مارکیٹ میں آج بھی ایشیا کے کئی دیگر پسماندہ ملکوں کے مقابلہ میں اپنی بہتریں ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کا اعلیٰ نرخ وصول کررہے ہیں۔ قسم سےمجھے دبئی کی اونچی عالی شان عمارتوں کے چمکتے شیشوں کے اندر اپنی ماں کے بیٹوں کی مسکراتی شبیہ نظر آتی ہے، یہاں کی شاندار سڑکوں سے اپنے بھائیوں کی انتھک محنت کی بو ملتی ہے، یہاں کے باغات اور پھولوں سے اپنے محنت کش لوگوں کے پسینے کی مہک محسوس ہوتی ہے۔
میں بتاتا ہوں آپ کو ایک ایسے پاکستانی کی بات جس کے بارے میں ہمارا میڈیا آپ کو کچھ نہیں بتائے گا۔ وہ پاکستانی جس نے یہاں دبئی میں باغات کی تعمیر اور دیکھ بھال والے ادارے میں مسلسل تیس برس تک نوکری کی۔ ان تیس سالوں میں وہ ایک دن بھی ڈیوٹی پر تاخیر سے نہیں پہنچا، کسی ایک دن بھی اس نے ایمرجنسی یا میڈیکل لیو نہیں لی، اس کے ذمہ جو کام بھی لگایا گیا اس نے بخیر و خوبی ادا کیا۔ جب وہ ریٹائر ہوا تو اس ادھیر عمر شخص کی لگن، محنت اور جستجو نے حکومت دبئی کو مجبور کردیا کہ اس کی کارکردگی کو سراہا جائے، اس کا چرچا کیا جائے، اسے انعام و اکرام سے نواز جائے۔ قسم سے جس دن سبز لباس میں ملبوس، چمکتے بالوں والے اس شخص کا انٹرویو اور تصویریں گلف نیوز میں چھپی تھیں، میرا سر فخر سے بلند ہوگیا تھا۔
مضموں کی طوالت کا خوف ہے ورنہ بےشمار واقعات ہیں جو یہاں خلیجی ممالک، سعودی عرب، یورپ اور امریکا وغیرہ میں بکھرے پڑے ہیں لیکن جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ ہمیں اللہ پاک نے ایک خوبصورت ملک عطا فرمایا ہے جہاں ہر طرح کی نعمتیں ہیں، جس کے لوگوں کی محنت کی کہانیاں سات سمندر پار بھی سنی جاسکتی ہیں، جسے اللہ پاک نے ہر طرح کے معدنی اور قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ بس اگر کمی ہے تو ایک نڈر، خوددار اور محب وطن لیڈر کی، جو لوگوں کو یہ احساس دلا دے کہ تم شیر ہو، جو ان کے اندر سے احساس محرومی کو ختم کرے، ان کو حوصلہ دے، ان کی تربیت کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا کے سامنے اس کے خوبصورت چہرے پر موجود چھوٹے سے تِل کو بھول کر، اس کے حسن و جمال کی بات کرے۔
اے میری ماں مجھے تجھ سے پیار ہے،
تیری خوشبو مجھے ہزاورں میل دور سے بھی محسوس ہوتی ہے،
اے ماں! تجھے سلام ہے، تجھے سلام ہے!

Comments

Click here to post a comment