ہوم << دو پڑوسنوں کی لڑائی - محمد فیصل شہزاد

دو پڑوسنوں کی لڑائی - محمد فیصل شہزاد

دوسروں کی لڑائی سے حظ اٹھانا، چسکے لینا، تماش بینی کے مزے لینا انسانی فطرت کا ایک تاریک مگر دلچسپ پہلو ہے، چاہے اس کا مظہر قبل مسیح کے وحشی رومن اکھاڑے ہوں یا اس جدید دور کے فیس بکی اکھاڑے!
پہلوان لڑتے ہیں، تماشائی مزہ لیتے ہیں. اب یہ چاہے اپنی بنیاد میں کتنی ہی بری بات ہو مگر سچی بات ہے کہ مزہ بڑا آتا ہے، تماشائی جوش سے بھر جاتے ہیں، دوران خون تیز ہو جاتا ہے، ساری بیزاریت اور بوریت اڑن چھو ہو جاتی ہے، گویا ایک بہترین ایڈونچر+ایکشن فلم کا لطف آ نے لگتا ہے.
پچھلے دنوں ایک مشہور فیس بکی لڑائی کے دوران میں بےاختیار ہمیں اپنے بچپن کا ایک منظر یاد آ گیا. آئیے آپ کو ایک بار پھر اپنے ماضی کی سیر کراتے ہیں. تو چلیے میری انگلی تھامیے اور الٹی چھلانگ لگائیے سنہ 1987میں.
اندرون سندھ میں واقع شہر ٹنڈوآدم میں ہمارا دو گلیوں پر مشتمل چھوٹا سا محلہ سعید کالونی کئی وجہ سے شہر بھر میں مشہور تھا. سب سے پہلے تو سعید کالونی کے لیے یہی شرف کیا کم تھا کہ اس کے ہی ایک گھر میں’شوخ و مستی‘کا سورج طلوع ہوا جس سے میلوں تک فضا مہک اٹھی، ہوائیں گنگنانے لگیں اور پھول جھوم اٹھے۔
دوسری وجہ بلکہ سب سے بڑی وجہ شہرت اس گلی میں ہونے والے دو پڑوسنوں کے مابین وہ تاریخی دنگل تھے جن میں وقت کے سارے زنانہ ہتھکنڈے اور ہتھیار اس خوبی سے استعمال ہوئے کہ زمانے کی بڑی بڑی پھپھے کٹنیوں اور چلتر عورتوں نے حیرت سے اپنی انگلیاں چبا لیں. تقریباً ہر ماہ ان لڑائیوں کی سیریز سے تازہ قسط برآمد ہوتی، جس کا انت بالآخر پولیس کی آمد پر ہوتا، اور یوں ہم بچوں کی پسندیدہ ترین سیریز کا ایک باب اختتام کو پہنچتا.
سعید کالونی کی گلی نمبر 1میں 14گھر تھے، ہر گھر کو نمبر سے ہی پکارا جاتا تھا، پہلی لائن میں 1 سے 8 نمبر گھر تھے جبکہ سامنے والی لائن میں 9 سے 14 نمبر گھر تھے. ہمارا گھر 6 نمبر تھا. اسی وجہ سے ہماری امی 6 نمبر والی خالہ، ابو 6 نمبر کے خالو، اور ہم 6 نمبر کا فیصل تھے!
وہ دونوں گھر جن کی لڑائیوں نے قریبی شہروں تک شہرت پائی، ہماری ہی لائن کے 4 نمبر گھر اور 8 نمبر گھر تھے، یعنی تین گھر بالترتیب 5، ہمارا گھر6 اور 7ان دونوں فسادی گھروں کے درمیان میں تھے.
دونوں پڑوسنوں کی لڑائی کی ابتدا وہی زمانہ قدیم والی تھی یعنی بچوں کے درمیان ہونے والی لڑائی، اس کے بعد بچے تو پس منظر میں چلے جاتے، ان کی مائیں، بہنیں ہڑک کر سامنے آ جاتیں، اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہتی!
زنانہ مخصوص گالیاں جس کے درمیان درمیان میں 8 نمبر والی مرد مار قسم کی خالہ مردانہ گالیوں کا جوڑ بھی کچھ اس مہارت سے بٹھاتیں کہ ہم سات آٹھ سال کے بچے بھی کچھ نہ سمجھتے ہوئے چہرہ سرخ کر بیٹھتے. گالیوں سے شروع ہونے والا یہ طوفان بدتمیزی تیزی سے فحش اور ذو معنی اشاروں میں بدل جاتا. اتفاق سے دونوں ہی گھروں میں اماں کے پیچھے چھے چھے زنانیاں تھیں. جو اپنی اماں کا ہراول دستہ بنے وہ دھما چوکڑی مچاتیں کہ محلے کے مرد اگر گھروں میں ہوتے تو ’بظاہر‘ کانوں کو ہاتھ لگاتے کمروں میں گھس جاتے.
یوں تو پورا محلہ ہی اس طوفان سے متاثر ہوتا مگر اصل شامت ہم درمیان کے تین گھروں کی آتی، کیونکہ جب دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں پتھراؤ شروع ہوتا تو وہ ہمارے ہی گھروں کے صحن کی فضا سے اڑتے ہوئے جاتے، جو ایک آدھ ہمارے صحن میں بھی گر جاتے. اماں بےچاری ہمیں زبردستی کمرے میں بند کرتیں اور ہم جوش سے نکلے نکلے پڑتے. پتھراؤ رکتا تو ایک بار پھر نادر و نایاب گالیوں کا سیشن شروع ہو جاتا. اب ماؤں کا یہ امتحان شروع ہو جاتا کہ اپنے بچوں کی’پاکیزہ‘ سماعت تک کیسے ان فحش گالیوں کو پہنچنے سے روکیں؟ جبکہ ہم بچوں کا یہ حال تھا کہ کان کھول کھول کر خوب دھیان سے آوازوں پر کان لگاتے. اُدھر جب گالیوں سے بھی تسلی نہ ہوتی تو فریقین زنانیاں ایک دوسرے کے گھر تک پہنچ جاتیں. جو ہاتھ لگتا اسے اٹھا کر گلی میں پٹختیں. اف بپھری ہوئی شیرنیوں کی اس ہاتھا پائی میں ایسے ایسے ہوشربا زنانہ داؤ پیچ Live استعمال ہوتے کہ ہم بچے بھی ہڑبڑا کر نظریں چرا جاتے!
بہرحال جیسے جیسے لڑائی کا ٹیمپو بڑھتا، ہم بچوں کی گویا عید ہوتی جاتی. سچی بات بلکہ یہ ہے کہ گلی کے بڑے جو اس صورتحال سے بظاہر بڑے بےزار نظر آتے مگر ان کے چہروں پر دبا دبا سا جوش ان کی دلچسپی کی بھی چغلی کھاتا. خود ہمارے ننھیال سے ،جو کچھ فاصلے پر تھا، چھوٹی خالہ کا یہ کہنا تھا کہ جب بھی لڑائی کے بادل چھائے ہوں، انھیں فورا ًاطلاع دی جائے، انہیں اطلاع ہوتی، وہ بھاگم بھاگ’زنانہ ایکشن شو‘ دیکھنے آتیں اور گھر میں پکوڑے بناتیں جیسے پکنک کا سماں ہو!
دونوں گھروں کے مرد جو ویسے بڑے غصہ ور تھے اور آپس میں دوست بھی تھے، ایسے موقع پر بھیگی بلی بن جاتے. ان کے قابو میں نہ ان کی شیر دل بیویاں آتیں، نہ کٹ کھنی بلیوں جیسی بیٹیاں آتیں. لڑائی میں جب ایک دو کے ہاتھ، ٹانگ کی ہڈی ٹوٹتی تو پھر پولیس تک بھی بات پہنچ جاتی. یوں صلح صفائی کا ڈول ڈالا جاتا اور آپ یقین کریں گے کہ
جن بچوں کی وجہ سے یہ خونریز لڑائیاں ہوتیں، وہ اگلے ہی دن ساتھ کھیل رہے ہوتے، اور اتنا ہی نہیں، بمشکل ہفتہ ڈیڑھ گزرتا کہ دونوں گھروں میں ایسے ملنا جلنا ہوجاتا جیسے کبھی کوئی لڑائی نہ تھی.
عورتوں کی جب بھی مجلس ہوتی تو لڑائی کے دنوں کے قصے ایک دوسرے کو سناتیں اور خوب کل کل کر کے ہنستیں، تین چار ماہ تک سب محبت کے جھولے جھولتے، وی سی آر پر کرائے کی فلمیں لا کر ایک دوسرے کو پانچ پانچ روپے میں تار دیے جاتے اور ہم بچے جب سارے کھیل، کھیل کھیل کر بور ہو جاتے تو پھر ایک دن اچانک لڑائی کا بم پھوٹ جاتا اور ہمارے مرجھائے چہرے کھل اٹھتے!

Comments

Click here to post a comment

  • دلیل پر ایک هی رنگ اور انداز کی تحاریر پڑھ کر جب هم بور هونے لگتے هیں تو آپکی تحریر آجاتی هے جسے پڑھ کر بساخته هونٹ بصورت لمبائی پھیل سے جاتے هیں

    • بہت شکریہ
      جب کہ میں تو سوچ رہا تھا کہ اب یہ شوخیاں چھوڑ کر کچھ کام کے موضوعات کی طرف آویں۔ مہینے دو مہینے میں ایک اس طرح کی تحریر چل جاتی ہے ، یہاں تو ایک ہی ہفتے میں تین آ گئیں۔۔۔