ہوم << ای بکس، ای سائٹس اور ای ہوشیاری - حافظ یوسف سراج

ای بکس، ای سائٹس اور ای ہوشیاری - حافظ یوسف سراج

حافظ یوسف سراج لبنانی شیعہ عالم نے اپنی تفسیر کے مقدمے میں جنت جانے کی اپنی خواہش کی ایک وجہ لکھی ہے ۔’’ جنت میں اس لیے جانا چاہتا ہوں‘‘ اس نے کہا ،’’ تاکہ وہاں کی فرصت میں جی بھر کے اپنی پسندید ہ کتابیں پڑھ سکوں۔‘‘ یقیناکتاب کا چسکا اور چاٹ ایسی ہی ہے کہ جسے لگ جائے، وہ اس کے لیے ایک کیا دو جنتیں بھی مانگ کے یہی سوچے گا کہ کہیں کم تو نہیں مانگ بیٹھا۔ شاید آپ اس خواہش پر ہنس دیں ، بلکہ یہ سمجھیں کہ اگر کتاب پڑھنے ہی کی سزا جنت میں بھی بھگتنا پڑے گی تو حصول جنت کی خواہش ہی پر ایک بار نظرثانی کیوں نہ کر لی جائے؟ دراصل کتاب جیسی چیز کے لیے جنت طلب کرنے کی خواہش رکھنے کی سمجھ صرف اسی شخص کو آ سکتی ہے جو کبھی کتاب کا بیمارِعشق رہ چکا ہو. ہم جیسے وہ لوگ کہ جنھیں لوہے کے تاجروں کی رعایا بن کے عمر قید کاٹنے کی سزا ملی ہو، ان کے لیے توکتاب خریدنے کی عیاشی بھی صحن میں چاند اتارنے کی خواہش ہو کے رہ جاتی ہے، اور پھر پیٹ کا ایندھن جیت لانے کی میراتھن دوڑ میں ہانپتے ہوؤں کے لیے کتاب پڑھ لینے کا دماغ اور فراغ پالینا تو خیر اک کرامت ہی سمجھیے. اب کرامت کے بارے کون نہیں جانتا کہ یہ مادی خواہش کے گھوڑے کو رام کرلینے والوں ہی کے دست و دہن سے جاری ہو پاتی ہے۔
جلد والی سخت جان کتاب (Hard Copy) کے ناسٹیلجیامیں گھرے ہمارے کچھ کتاب دوست اگرچہ ای بک کو قبول کرتے نظر نہیں آتے، ای بک نے لیکن نئی جنریشن کے لیے اپنا دامن دستیابی کہیں زیادہ دراز اور آسان کر دیا ہے۔ پھر آپ کے موبائل میں اگر یہ سما جاتی ہے تو وقت بے وقت یہ آپ کی دسترس میں ہوتی ہے۔ آپ ریلوے اسٹیشن پر ہوں یا کسی ویٹینگ روم میں، گئی لائٹ میں گھر میں جھلسے یا کسی لفٹ میں پھنسے، پیارے حکمرانوں کو اپنی خصوصی دعاؤ ں سے نواز رہے ہوں، اس وقت پی ڈی ایف، ورڈ یا کسی بھی دوسرے فارمیٹ میں ایک بڑی لائبریری آپ کو آنکھیں مار کے بلا رہی ہوگی۔ اب جس طرح سے سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی بانہیں ہمیشہ ہمیں اپنے حصار میں لیے رکھتی ہیں، یہ بھی بڑا آسان ہو گیا ہے کہ آپ ضرورت کی کسی بھی ایمرجنسی میں متعلقہ کتاب ڈاؤن لوڈ کرکے اس سے استفادہ کر سکیں۔ اگر استفادہ کا بھاری بھرکم لفظ آپ کی گرفت میں نہ آئے تو آپ صرف کتاب پڑھ کے بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ا س کا ایک فائدہ اور بھی ہوگا۔ وہ یہ کہ آج تک کتاب دوستوں کی سب سے بڑی شکایت کتاب چوروں یا کتا ب ڈاکوؤں کے بارے میں رہی ہے، کتاب چور وہ جو آنکھ بچا کے آپ کی کتاب لے جائے اور کتاب ڈاکو وہ جو دن دیہاڑے کتاب آپ سے مانگ کے لے جائے اور کتاب آپ سے پکڑتے ہی یہ فیصلہ کرلے کہ اب یہ کتاب گم ہو گئی ہے۔ بلکہ اس صورت میں تو آپ پوچھتے پھریں گے کہ آپ نے فلاں کتاب پڑھی یا نہیں ؟ نہیں پڑھی تو ابھی اپنا share it (یا کوئی بھی دوسری شئیرنگ ایپ یا سوفٹ وئیر ) آن کیجیے اور کتاب لیجیے۔ یوں یہ ایک کتاب اپنے برابر کے بیسیوں بچے جنتی چلی جائے گی اور یوں کہ والدہ محترمہ کو ذرا سی بھی درد زہ وغیرہ نہ ہوگی۔
مرحوم کالم نگار حمید اختر صاحب اپنے کالموں میں اکثر ڈاک کے بھاری اخراجات کے شاکی رہے۔ ای بک کو قبول کر لینے سے نہ صرف ڈاک کے اخراجات سے بلکہ ڈاک پہنچنے کے انتظار سے بھی چٹکی بجاتے میں جان چھوٹ جائے گی۔ آپ ایک ای میل یا واٹس ایپ سے کتاب ساتوں براعظموں میں بھیج سکیں گے۔ اب تو واٹس ایپ نے پی ڈی ایف فارمیٹ کی فائلز کی ترسیل کی سہولت بھی دے دی ہے۔ بہرحال کتاب جتنی پھیلے گی اور جوں جوں اس کی شہرت پھیلے گی اس کی فروخت اور مقبولیت بھی بڑھتی جائے گی۔ سو بہتر رہے گا کہ بجائے اس کے کہ ہمارے تاجرانِ کتب اپنے کاروباری مفاد کی خاطر ای بک سے سوتن کا سلوک کرتے رہیں، وہ اب ای بک کی فروخت کا بھی اہتمام کرلیں۔ اس سے ڈیوائسز کے عشق میں ڈوبی جدید نسل کتاب سے قریب بھی ہوگی اور کتاب اس صورت میں زیادہ بھی بکے گی۔ ظاہر ہے کہ مفید اور پسندیدہ کتب کی ہارڈ کاپی بھی لوگ پاس رکھناچاہیں گے، بلکہ اسی تکنیک کو کتاب کی مارکیٹنگ کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً آپ کا ایک باب ای صورت میں دے کر کہہ سکتے ہیں کہ اگر کتاب پسند ہو تو آپ مکمل کتاب فلاں فلاں جگہ سے خرید سکتے ہیں۔ میں نے تو متعدد بار اصلی کتاب کے فراق کو اس کتاب نما کے وصال سے تسکین پہنچائی ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں ؎
چمن کے رنگ و بو نے اس قدر دھوکے دیے مجھ کو
کہ میں نے ذوقِ گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی
چمن کے رنگ و بو سے ظاہر ہے پبلشر مراد نہیں لینے چاہییں۔ بہرحال ای پیپر کے دور میں ہمیں ان سہولیات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اب تو تمام اخبار اپنا ای پیپر بھی شائع کر رہے ہیں۔ معروف امریکی جریدے نیوز ویک نے تو اپنی اسی سالہ اشاعت کے بعد میگزین کا پرنٹ ایڈیشن بند کرکے محض ای ایڈیشن جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا، لیکن انھیں دوبارہ پرنٹ ایڈیشن بھی شروع کرنا پڑا۔ کئی ادبی میگزین صرف اپنے ای ایڈیشن شائع کر رہے ہیں۔ اب تو کئی ویب سائٹس بھی علم و ادب کے فروغ میں نمایاں ہونے لگی ہیں۔ دلیل ڈاٹ پی کے، اردو ٹرائب، دنیا پاکستان، ہم سب وغیرہ نے اپنے قارئین کا ایک اچھا خاصا حلقہ پیدا کر لیا ہے۔ مجھ جیسے شائقین علم وادب ان سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ اس میں ایک قباحت البتہ ضرور ہے کہ پچھلا کالم بھی چونکہ ساتھ ہی پڑا ہوتاہے تو کالم نگار کا حسنِ تضاد بھی مجھ جیسے مبتدی لوگوں کے ذوق کی آبیاری کرنے لگتا ہے، اور اس سے کسی مبروک و مسعود لکھنے والے کی وجاہت ضرور متاثر ہونے لگتی ہے۔ آئیے جاتے جاتے اس کابھی ایک نمونہ ملاحظہ کرتے جائیں:
’’ہمارا سامنا تو اب سوچ کی اس کثافت سے ہے جہاں ہر سیاست دان چور ہے، ہر صحافی لفافہ لیتا ہے، ہر سرکاری افسر نااہل ہے اور ہر سرمایہ دار ٹیکس چوری کرتا ہے۔ ہم نے جمہوریت کی جوابدہی کو اعتماد کے بحران میں بدل ڈالا ہے۔ بار بار عرض کی جاتی ہے کہ افراد گروہوں اور اداروں کو قلم کی ایک جنبش اور انگلی کے ایک اشارے سے مسترد کرنے کا رویہ صحتمند نہیں۔ خرابی کی نشاندہی کرنی چاہیے اور اسے ختم کرنے کا جتن کرنا چاہیے لیکن زندگی کا رنگ انسان پر اعتماد سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر اچھائی کے امکان کو یکسر مسترد کر دیا جائے گا تو صاحب، ہم اور آپ ایسے کون سے دودھ میں دھلے فرشتے ہیں، کمزوریاں کیا ہم میں نہیں ہیں؟ کوتاہی کیا ہم سے سرزد نہیں ہوتی؟‘‘
کس قدر عمدہ بات کی گئی ہے۔ اب بھلا اس دردمندانہ بات سے کس کو انکار ہو سکتا ہے؟ لیکن افسوس کہ یہ بات سارے انسانوں کے لیے نہیں ہے۔ یہ ہمدردی، یہ محبت، یہ رعایت اور یہ اخلاص صرف انھی کے لیے ہے جو مذہب سے متعلق نہ ہوں۔ جہاں تک مذہب سے وابستہ لوگوں کی بات ہے توصاحب آپ سے کس نے کہہ دیا کہ وہ انسان بھی ہوتے ہیں؟ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ دیگر انسانوں کی طرح انھیں بطور مجموعی یا بطور ادارہ غلط کہنا بھی غلط ہی ہے؟ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ ان میں کوئی ایک غلطی سے بھی ٹھیک ، نیک نیت یا بھلا انسان ہو سکتا ہے؟ جی نہیں بلکہ اگر کوئی مولوی نہیں اور بس اس نے داڑھی رکھی ہے اور اس کی کوئی غلطی میڈیا میں آ چکی ہے تو اسے بھی ’نوارانی صورت ‘ کہا جا سکتا ہے، اس صورت میں افضل خاں بھی مولوی ہی کی غلطی کی دلیل ہو جات اہے، اس کے باوجود بھی کہ اس نے بہرحال غلطی کا اعتراف کر لیا۔ خیراب آپ اوپر بیان کردہ گفتگو کے تناظر میں مندرجہ ذیل عبارت بھی پڑھ لیجیے، اور صرف اتنا سوچیے کہ ہماری یہ دو رنگی، ہمارا یہ دہرا معیار، ہمارے یہ تعصب کیا واقعی انسان کا بھلا ہونے دیں گے ؟ کیا واقعی ہم انسان کے ہمدرد ہیں یا کسی خاص ایجنڈے پر کاربند؟
’’رویت ہلال کمیٹی کوئی آئینی تقاضا نہیں۔ قمری مہینے کے تعین کے لیے ایک سرکاری مجلس قائم کر دی گئی ہے جس میں کچھ مذہبی پیشواؤں کی انا کی تسکین ہوتی ہے۔ سال میں بارہ قمری مہینے ہوتے ہیں۔ صرف یکم رمضان اور عیدین کے تین مواقع پر مذہبی وضع قطع رکھنے والے کچھ افراد کو رونمائی کا موقع ملتا ہے۔ ٹیلی وژن کی اسکرین پر نورانی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ نہایت اطمینان کے ساتھ تقدیس میں دھلی زبان میں ایک صبر آزما وقفے کے بعد چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جو مولوی اس مجلس میں شریک نہیں ہو پاتے وہ اپنی خود نمائی کے لیے اختلاف کا اعلان کر دیتے ہیں۔ انھیں سرکاری مولویوں سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد چاند نظر آتا ہے۔ سالانہ مذہبی تہوار کےموقع پر عام مسلمانوں پر اپنی معاشرتی، فکری اور سیاسی بالا دستی، معاشرتی برتری اور اخلاقی بڑائی جتانے کا اچھا موقع ہاتھ آتا ہے۔ اگر رویت ہلال کمیٹی سے مقصد تہوار کے دن پر اتفاق رائے تھا تو یہ اتفاق رائے ساٹھ برس میں کبھی حاصل نہیں ہوا اور آئندہ کبھی نہیں ہو گا۔ اس کا تعلق چاند نظر آنے سے نہیں، مولوی کی پیشہ وارنہ مجبوریوں سے ہے۔‘‘
مزید لکھتے ہیں :
’’ہمارے ملک میں سیاست، صحافت اور معاشرت میں مذہب پسندی نے بہت اثر و رسوخ حاصل کیا ہے۔ عام لوگ خوش عقیدہ ہوتے ہیں۔ پچھلے ایک دو برس میں ہمارے ہاں مختلف طبقات اور گروہوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماؤں نے اخلاق کے کچھ ایسے نمونے دکھائے ہیں جن پر غور و فکر کرنا ہمارے لیے مفید ہوسکتا ہے۔ چند مثالیں سامنے رکھیے۔ اس برس فروری میں پنجاب حکومت نے تحفظ حقوق نسواں بل منظور کیا۔ محترم سیاسی رہنما مولانا فضل الرحمٰن نے ملک کے مختلف صوبوں میں اس معاملے پر جو لب و لہجہ اختیار کیا، کیا وہ ایک بڑے مذہبی رہنما کو زیب دیتا تھا؟ مارچ کے آخری ہفتے میں اسلام آباد دھرنا دینے کے لیے پہنچنے والے رہنماؤں نے جو زبان استعمال کی، کیا اس سے ان کے اخلاقی قد میں اضافہ ہوا؟ سینیٹر حمد اللہ نے ٹیلی وژن کے کیمرے کی موجودگی میں ایک خاتون کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا، کیا وہ ان کی اخلاقی قامت کی دلیل تھا؟ ایبٹ آباد، کراچی، لاہور اور گوجرانوالہ میں اہل خانہ کی طرف سے اپنی ہی بچیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے جو واقعات سامنے آئے، ان پر کسی مذہبی رہنما نے احتجاج کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پورے ملک میں ایک مقتول بچی کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ مرحومہ کے شانہ بشانہ اخلاقی پست کرداری کا مظاہرہ کرنے والے تقدیس کے تنبو میں جا بیٹھے ہیں۔ مفتی عبدالقوی کے زخم خوردہ لہجے کی رعونت قابل فہم ہے لیکن مفتی صاحب کے کردار کی استواری تو ہم میں سے بہت سے لوگوں پر آشکار ہے۔ گزشتہ عید کا چاند دیکھنے کے موقع پر مفتی منیب نے اپنے عملے کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا تھا وہ سب کے سامنے ہے۔ نورانی وضع قطع کے ساتھ انتخابی دھاندلی کے الزامات عائد کرنے والے الیکشن کمیشن کے ایک اہلکار افضل خان قذافی نے ابھی عدالت میں غیر مشروط معافی مانگی۔‘‘
یہی نہیں جو مولوی کو انسان سمجھ کے اس کی فیلڈ میں اس سے رہنمائی لیتے ہیں بھلا ان کے اس جرم کو بھی کیسے معاف کیا جاسکتاہے؟
اگر تہوار منانے کے لیے انتظامی ہم آہنگی مقصود تھی تو مختلف صوبوں کے وزیر اعلیٰ ایک عید مولوی کے اعلان کے مطابق آبائی گاؤں میں پڑھتے ہیں اور ایک عید سرکاری کیمرے کے سامنے صوبائی دارالحکومت میں۔ گاؤں میں ووٹ دینے والوں کو بتایا جاتا ہے کہ ہم آپ ہی کی طرح مولوی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور سرکاری ایوان میں یہ اعلان مقصود ہوتا ہے کہ ہم ریاست کے وفادار ہیں۔‘‘
آخر میں میں صرف یہ کہنا چاہتاہوں کہ اس مالک کا کرم ہے کہ لفظ اس فقیر پر عطیہ خدا وندی ہیں۔ کم ازکم اپنے بارے میں خود اس فقیر کو یہ خوش فہمی بھی ہےکہ برے یا بھلے اس کے قلم کے جوہر ایسے سنگدلانہ تعصب ہی کے جواب ہی میں کھلتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس دورنگی پر یہ عاجز آج کچھ بھی کہنا نہیں چاہتا۔ یہ صرف صاحبان عقل و خرد دانش وروں، معتدل مزاج انسانوں اور انصاف کی خو رکھنے والے قارئین اور لکھاریوں سے منصفی کی بھیک مانگتا ہے۔ یہ صرف آپ کےغیرجانبدار ضمیر کا جواب چاہتا ہے؟ زیادہ نہیں دل پر ہاتھ رکھ کر صرف یہی بتا دیجیے کہ معاشرے کے کسی ایک قبیلے کو یوں اپنے عجب و تکبر کا نشانہ بنا کے کیا واقعی ہم قلم اور معاشرے کی خدمت ہی کریں گے یا تشدد کا بیج بوئیں گے۔ اب اگر اس کے جواب میں کچھ کہا جاتا ہے تویقینا وہ مولوی کی ہٹ دھرمی، رجعت پسندی اور بداخلاقی ہی ہو گی نا!
دل چاہتا ہے کہ آنجناب کے در پر حاضری بھروں اور ہاتھ جوڑ کے عرض کروں کہ جناب ! آپ نے تو ایک زمانے کو اخلاق پڑھا رکھا تھا، تاریخ دیکھ رکھی تھی، آپ نے رنگ و نسل اور مذہب و ملت کے بت توڑ کے تو انسانیت کا علم اٹھا رکھا تھا۔یہ مگر جنابِ مکرم، یہ کیا کہ ؎
تیری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی

Comments

Click here to post a comment