ہوم << حسینہ واجد کے ساتھ زیادتی - حامد کمال الدین

حسینہ واجد کے ساتھ زیادتی - حامد کمال الدین

حامد کمال مسلم معاشروں میں اسلام کی ریاست و سیادت کو واپس لانے کی متمنی آوازیں اپنے تمام تر اختلاف کے باوجود میرے لیے قابل قدر ہیں۔ یہ میرا کیمپ ہیں، اگرچہ حالات و وقائع کو پڑھنے میں ان میں سے ایک ایک کا زاویہ نگاہ کتنا ہی ایک دوسرے سے جدا ہو۔ اپنا یہ کیمپ، اپنی تمام تر وسعت اور تنوع کے ساتھ، مجھے عزیز ہے اور اس کو کسی ایک ہی رائے یا ایک ہی نقطہ نظر میں سکیڑ ڈالنا نامنظور۔ ایسا کر کے میں اپنے ایک بڑے اثاثے سے محروم ہو جاؤں گا۔ پھر ایک مسئلہ ترکی میں ہو، اس پر یہاں ایک دوسرے کے ساتھ الجھنا ہمارا بنتا ہی نہیں ہے۔ ہمارے لیے یہاں کے مسائل بھی کچھ اتنے کم نہیں ہیں۔ اور جس چیز کی سب سے بڑھ کر یہاں ضرورت ہے وہ ہے اسلامی آوازوں کی ہم آہنگی، تنوعِ آراء کو قربان کیے بغیر۔
ترکی میں پیش آمدہ ایک مسئلے پر ہمارا کوئی رائے رکھنا یا ایک دوسرے سے مختلف زاویہ نگاہ رکھنا یقیناً حرج کی بات نہیں۔ تُرکی صورتحال سے لاتعلق رہنا ایک مسلمان کےلیے اِس ’الیکٹرانک‘ جہان میں ناممکن ہے، جبکہ دیکھنے کے زاویے ہمارے مابین جدا ہو سکتے ہیں، اور رہیں گے۔ البتہ اس کا طریقہ میرے خیال میں یہی درست ہے کہ آپ ایک بات کو اپنی رائے کے طور پر بیان کرنے تک رہیں۔ اپنی اس رائے کے حق میں بھرپور دلائل بےشک دیں۔ اس سے معارض نقطۂ نظر کو دلائل کے ساتھ غلط ٹھہرانا بھی لامحالہ رہے گا کہ اس درجہ تبادلۂ آراء ایک صحتمند عمل ہے۔ البتہ یہ اسلوب اختیار کرنا کہ فلاں جماعت نے (باقاعدہ جماعت کا نام لے کر) یہ موقف اختیار کیوں کر رکھا ہے، میرے خیال میں اسلامی سیکٹر کے باہم الجھ پڑنے کا موجب ہو سکتا ہے، ایک ایسے وقت میں جب نہ اس کی ضرورت ہے اور نہ ہم اس کے متحمل۔ یہ چیز اسلامی آوازوں کی ہم آہنگی کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتی ہے اور شاید جواب در جواب کے کسی سلسلہ کو ایک غیرضروری انگیخت دے، جبکہ نقطہ نظر کا بیان کسی جماعت کو موضوع بنائے بغیر بھی ممکن ہے۔ اس کے باوجود، اگر کسی طرف سے ایسی کوئی بحث شروع ہو گئی ہے تو اس کو اچھے سے اچھے احتمال پر محمول کرنا چاہیے، نیز اسلامی سیکٹر کےلیے اس سے بھی زیادہ سے زیادہ فائدے ہی لے کر آنے کی سعی ہونی چاہیے، جس پر میں تھوڑا آگے چل کر بات کروں گا۔ البتہ اس اعتراض کے مضمون پر بےتکلفی سے کچھ بات کر لینے میں بھی حرج نہیں۔
جماعت اسلامی پر یہ تنقید ہوئی ہے کہ یہاں ایک جیسے واقعات کو دیکھنے کےلیے کچھ دہرے قسم کے پیمانے ہیں۔ اردگان صاحب ترکی میں عین وہی کر رہے ہیں جو حسینہ واجد صاحبہ بنگلہ دیش میں18 کر رہی ہیں (جو گویا اپنی جگہ ایک مسلَّمہ ہے، اختلاف صرف اس سے نکالے جانے والے ’نتائج‘ پر ہو رہا ہے!) لیکن عجب تضاد ہے کہ ایک ہی جیسے واقعے کی ایک طرف جماعتِ اسلامی تائید کر رہی ہے اور ایک طرف مخالفت! خصوصاً یہ کہ حسینہ واجد عین اردگان والے کام بس ذرا عجلت سے انجام دے رہی ہیں! کچھ تجزیے واقعتاً چونکا دینے والے ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت اور ترکی حکومت کے اقدامات میں ’واضح مماثلت‘! اردگان ہمارے سامنے بغاوت کے ایک بالکل حالیہ تازہ واقعے پر اقدامات کر رہے ہیں، اور وہ بھی ایک ایسا بھاری بھرکم واقعہ جس میں نہ صرف وہ اور ان کے رفقائےکار داؤ پر لگ چکے تھے بلکہ ترکی کی جمہوریت اس کے اندر بال بال بچی (اردگان کو چھوڑیے، جمہوریت جس سے مقدس تر چیز اِس جہان میں، اور اس کی پوری تاریخ میں، کبھی پائی ہی نہیں گئی!)۔ پھر اردگان نے ابھی کوئی سزائیں دی بھی نہیں ہیں۔ لہٰذا اردگان کےلیے تو ’عجلت‘ کا لفظ برمحل ہی ہے! لیکن حسینہ واجد تو نصف صدی پہلے کے واقعات، کہ جب ’ان کا‘ ملک بھی ابھی نہیں بنا تھا، ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور کھود کھود کر نکال رہی ہیں. تھوڑی اور دیر کر لیتیں تو وہ سارے بزرگ جو ’ان کا‘ ملک بننے سے پہلے اس کے خلاف کسی مبینہ بغاوت کے مرتکب رہ چکے ’ہوں گے‘، پھانسی کے بغیر ہی دنیا سے چلے جاتے! عجلت! کہاں نصف صدی پرانا ایک شدید متنازعہ اور ممکن التوجیہ واقعہ، اور کہاں تازہ بغاوت کا ایک چیختا دھاڑتا ناقابلِ تفسیر واقعہ! اردگان کے زیراقتدار دفاتر میں بھی پچاس سال پرانے ترکی کی کچھ فائلیں پڑی تو یقیناً ہوں گی۔ یہ ان بوسیدہ فائلوں کو نکالتے۔ تھوڑی ان کی گرد جھاڑتے۔ اس کے گڑے مردوں کو اٹھاتے اور پھانسی کے اعزازات سے سرفراز کر کر کے ترکی کے اُن سفید ریش بزرگوں کو جہانِ فانی سے رخصت کرواتے چلے جاتے، ظاہر ہے وہ سب پرانی باتیں دلوں کے کسی نہ کسی کونے میں ابھی پڑی ہوں گی، بھڑاس نکالنے میں سوائے معقولیت کے اور ’عجلت‘ وغیرہ ایسا کوئی الزام لگ جانے کے خوفناک اندیشے کے، آخر کیا چیز حائل تھی!؟ یا پھر، دوسری جانب، l_117874_030738_printحسینہ واجد کے خلاف اُن کہنہ سال پاپیوں نے اپنے پچاس برس پرانے گناہوں کو نہایت کم اور ناکافی جانتے ہوئے، حال ہی میں دن دہاڑے کوئی ایسی بڑی سطح کی مسلح بغاوت کر لی ہوتی جیسی ترکی میں ہوئی، پھر تو حسینہ واجد کےلیے بھی ’عجلت‘ کا لفظ بولنا اور بنگلہ دیش کی ان محترمہ کو ترکی کے اردگان کے ساتھ ملانا بنتا۔ لیکن ایسا کچھ بھی ہوئے بغیر دونوں کے مابین مماثلت اور وہ بھی عجلت کے حوالہ سے، جبکہ ترکی میں تو نہ ابھی کسی پر کوئی مقدمہ چلا اور نہ کسی کو کوئی سزا ہوئی، صرف ایک نیٹ ورک سے وابستہ لوگوں کی پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ میرا خیال ہے، حسینہ واجد کے ساتھ تھوڑی زیادتی نہیں ہو گئی!؟
پھر اس بات کا تعین کرنا بھی ضروری ہے کہ جماعتِ اسلامی اردگان کی حمایت کس حوالے سے کر رہی ہے۔ آیا جماعت اسلامی یہ کہہ رہی ہے کہ گولن کو پھانسی چڑھا دو؟ یا حتیٰ کہ جماعت اسلامی نے بغاوت میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے عناصر کو سزائیں دلوانے کی تحریک چلا رکھی ہے؟ ایک جمہوریت کے خلاف 'کُو' ہوا اور اس میں جماعت اسلامی اپنے ملک میں اردگان کےلیے کلمۂ خیر کہلوا رہی ہے، جس کی پشت پر اسلامی اخوت کا جذبہ کارفرما ہے، اس حد تک اس میں اعتراض کی بات کیا ہے؟ اردگان کی حمایت کی ہے مگر یہ بھی تو دیکھیں کس حوالے سے؟ ایک ہی بات کے بےشمار حوالے ہو سکتے ہیں، کچھ ان میں سے غلط ہوں گے کچھ صحیح ہوں گے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ جب میں ایک جماعت پر اعتراض کرتا ہوں تو اس کےلیے میں اس کے کون سے بیان کو بنیاد بناتا ہوں۔ ترکی کے داخلی نزاع میں میرا خیال ہے

سراج الحق پاکستان میں ترکی سفیر کے ساتھ
سراج الحق پاکستان میں ترکی سفیر کے ساتھ
جماعت اسلامی کوئی فریق نہیں بنی ہے۔ ترکوں کے داخلی معاملات جماعت نے بدستور ترکوں پر ہی چھوڑ رکھے ہیں۔ اردگان کی حمایت کا یہاں کوئی ریفرنس ہے تو وہ ہے مسلح بغاوت کاروں کے ہاتھوں جمہوری مینڈیٹ چھننے سے بچانا اور جمہوریت کے خلاف اس بغاوت کے پیچھے کارفرما عناصر کو اردگان کا شکستِ فاش سے دوچار کرنا۔ یا پھر اس مسلح بغاوت اور اس کے پیچھے کارفرما عناصر کی کچھ مذمت جماعت نے کر ڈالی ہو گی (اس گلوبل جہان میں اس سطح کے واقعات کسی پشت پناہ کے بغیر انجام پاتے ہوں، بالجزم ایسا کوئی دعویٰ کر ڈالنا ظاہر ہے ممکن نہیں ہے)۔ غرض ترکی کی ایک منتخب حکومت اور اس کے حقِ اقتدار کی حمایت۔ یا مسلح بغاوت کے کارپردازوں کی ایک عمومی مذمت۔ اس سے بڑھ کر جماعت نے کوئی مطالبہ کیا ہو، یا اردگان کے کسی مخصوص اقدام کی حمایت کی ہو تو اس کی نشاندہی ہونی چاہیے۔ محض اردگان کی حمایت یا اس کےلیے اس مشکل گھڑی میں کلمۂ خیر، یہ تو دنیا بھر کے انصاف پسند کر رہے ہیں۔
ہاں اس حالیہ خونیں واقعے کی گرد بیٹھے اور کوئی ٹھوس شواہد اس بات کے سامنے آئیں کہ 07fbaa508533eb2ad12537c795b38fa04353d7d9اردگان صاحب کچھ لوگوں کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزائیں بھی دینے لگے ہیں تو پھر حق بنے گا کہ اپنے ایک بھائی کو ظلم سے روکا جائے۔ (ابھی تو ایک نیٹ ورک کو توڑنے کا عمل ہو رہا ہے، جس پر باہر بیٹھ کر کچھ کہنا مشکل ہے کہ کہاں کہاں وہ عمل اپنی حدود سے تجاوز کر رہا ہے۔ البتہ اس نیٹ ورک کے وجود سے انکار کرنا کسی کےلیے بھی ممکن نہیں، حسینہ واجد کو درپیش ’مسئلہ‘ کے ساتھ مماثلت پر معذرت کے ساتھ)۔ اردگان کےلیے ہماری محبت کے پیچھے کارفرما چیز اگر اسلام ہے تو وہ اسلام ہی اس بات میں مانع ہو گا کہ ایک ظلم میں ہم کبھی بھی اردگان کی حمایت کریں۔ لیکن ہم کہتے ہیں، ایسا الزام ہم پر قبل از وقت ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ اسلام محض ایک جذبہ نہیں، واضح احکام پر مبنی ایک شریعت ہے جو ظلم میں اپنے سگے بھائی تک کے ساتھ کھڑا ہونے سے ہم کو روک دیتی ہے اور اسلام کی روکی ہوئی چیز سے نہ رکنا اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ خدا نہ کرے اردگان کسی ایسے ظلم کی راہ چلے۔ اور لازم نہیں کہ جماعت اسلامی اس وقت بھی اردگان کی حمایت جاری رکھے۔ ہر دو کےلیے ہم عدل و انصاف پر استقامت کی دعاء کرتے ہیں۔ [pullquote] إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ
[/pullquote] یہاں کی کسی بھی اسلامی جماعت کو میں اپنا وجود سمجھتا ہوں، اور اپنے وجود کےلیے جوش اور حمیت میں آنا میرے نزدیک نادرست ہے، خصوصاً کسی ایسے شخص کے مقابل جو خود بھی اسلام کا نہایت خیرخواہ ہے، اور مجھ سے تو یقیناً زیادہ ہو گا۔ لہٰذا ان مسائل پر بات کرنا اُسی حد تک اور صرف اُسی پہلو سے میرے نزدیک جائز ہے جس سے ملک میں اسلامی ایجنڈے کا بھلا ہو سکتا یا اس سے کسی ضرر کو دفع کیا جا سکتا ہو۔ لہٰذا مسئلہ کی کچھ وضاحت بھی ہو جانا ضروری تھا، جس پر میں کچھ گزارشات آپ کے سامنے رکھ چکا۔ مگر اب میں اس موضوع پر آؤں گا کہ اپنے کسی بھائی کی کسی اسلامی جماعت پر تنقید کو، اگرچہ وہ ہماری نظر میں بےجا بھی ہو، کیونکر اچھے احتمالات پر محمول کیا جا سکتا اور اسلامی ایجنڈا کےلیے اس سے فائدہ لیا جا سکتا ہے۔
اِس مقام پر، میں مسئلہ کو کسی ایک جماعت یا ایک فورم کی نظر سے دیکھنا درست نہیں سمجھتا۔ بلکہ اسلامی سیکٹر کی نظر سے دیکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مسئلہ کچھ یوں ہو گیا ہے کہ ایک عرصہ سے عقول یہاں عالمی میڈیائی عوامل کے زیرِاثر ساخت پا رہی ہیں، جس کے باعث اسلامی جماعتوں اور ان کے ایشوز کو دیکھنے کا ایک خاص زاویہ عقول کے اندر تشکیل پا چکا ہے۔ بےشک دینی طبقوں کے اپنے اندر اس کا کچھ ردعمل ہو گا، اور اس کی اصلاح ایک الگ موضوع ہے، لیکن ہم بات کر رہے ہیں یہاں مین سٹریم میڈیا سے راہنمائی لینے والی عقول کی، جسے فی الوقت ’رائےعامہ‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک اصل چیلنج اس رائےعامہ کو اسلامی ایجنڈا کے حق میں متاثر کرنا ہے، جو اس وقت جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس میں ہمارے وہ کالم نگار ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں جن کی ہمدرردیاں ملکی اور عالمی سطح پر ایک اسلامی ایجنڈے کے ساتھ ہیں۔ اِس رائےعامہ کے محاذ پر ہمیں مختلف سطحوں پر کھیلنا اور اپنے ہر کھلاڑی کو داد دینی ہے۔ (کھلاڑی کی کسی غلط شاٹ کی نشاندہی ایک مختلف سیاق ہے مگر اس کے باوجود اس کے حوصلے بڑھانا ایک اور سیاق)۔ اوریا مقبول جاناوریا مقبول جان ایسی آوازیں جو بہت کھل کر آ جاتی ہیں، ایک تعداد کو آسودہ کرتی ہیں تو ایک تعداد ان کے ہاتھ سے نکل بھی جاتی ہے۔ کیونکہ رائےعامہ جن رجحانات کی تخلیق کردہ ہے وہ ایک سطح پر اوریامقبول ایسی آوازوں کو سُنے بغیر مسترد کر دینے کی جانب مائل رہتی ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے اسی رائےعامہ کی ایک تعداد عامر خاکوانیعامر خاکوانی ایسی آوازوں کو سننے کی روادار ہو جائے، جس کی وجہ لامحالہ اوریا کی نسبت خاکوانی کی بابت ان کا ایک مختلف تاثر ہے۔ یہ دونوں اگر اسلام کے خیرخواہ ہیں تو یہ دونوں میری ضرورت ہیں؛ میں اِن دونوں کے بغیر نہیں رہنے کا۔ صرف دو کیا، بہت زیادہ سطحیں یہاں بیک وقت میری ضرورت ہیں۔ اسلامی ایجنڈے کی ہمدرد صحافتی آوازوں میں سے ہر آواز اپنی ساکھ کے معاملہ میں ایک اکاؤنٹ کے مانند ہے۔ کوئی اکاؤنٹ ہولڈر اپنے اکاؤنٹ سے کچھ ’’کیش‘‘ نہیں کروا سکتا جب تک کہ وہ اس میں کچھ ’’ڈیپازٹ‘‘ نہ کرے (’کٹوتی‘ کا معاملہ الگ ہے!)۔
قومی اخبارات کے ’اسلامی‘ قارئین کو چھوڑتے ہوئے، جو تعداد میں بہت زیادہ نہیں، رائےعامہ سے کچھ ’کیش‘ کروانے کے معاملے میں مختلف صحافیوں کی ’لِمِٹ‘ یہاں مختلف ہے۔ کسی کا ’ڈیپازٹ‘ زیادہ تو کسی کا کم۔ یہاں رائےعامہ جب ہمارے کسی ’اسلامی‘ سمجھے جانے والے صحافی کو اسلامی جماعتوں کا زیادہ بڑا ناقد دیکھے گی تو کسی دوسرے موقع پر وہ اس کے اسلامی خیالات کو سننے اور برداشت کرنے پر نسبتاً زیادہ آمادہ ہوگی۔ اور جو ہر وقت ’اسلامیوں‘ کی تائید میں لگا رہے گا اس کو پڑھنے سے پہلے لپیٹ دینے کی جانب مائل ہوگی۔ رائےعامہ کی یہ ایک عمومی ساخت، کچھ معلوم عوامل کے زیراثر، ایک واقعہ ہے، کم از کم میں اس کو نظرانداز نہیں کروں گا۔ لہٰذا ہمارا کوئی اسلام پسند صحافی ہماری کسی دینی جماعت پر تنقید کر جانے میں اگر کوئی غلطی کر بیٹھے تو میں اس غلطی کی نشاندہی تو جہاں ضرورت ہو گی، ضرور کر دوں گا اور اس سے اگر کوئی نقصان ہوا تو وہ تو ہو ہی چکا، لیکن میری نظر اس فائدہ پر بھی بہرحال چلی جاتی ہے جو مین سٹریم میڈیا میں ہمیں ایک دوسری صورت میں لامحالہ مل جائے گا۔ اصل چیز ہے ہمارے ان دوستوں بھائیوں کی اسلامی کاز سے ہمدردی، جو ان شاءاللہ ہر شک و شبہ سے بالا ہے۔

Comments

Click here to post a comment