ہوم << معاملہ بچوں کی تربیت کا - ہمایوں مجاہد تارڑ

معاملہ بچوں کی تربیت کا - ہمایوں مجاہد تارڑ

humayoon شہرہ آفاق امریکی ناول نگار سڈنی شیلڈن کی 19 ناولوں میں سے اگر آپ کو کسی ایک ناول کا انتخاب کرنا ہو تو Tell me your dreamsپڑھیں۔ علمِ نفسیات کی روشنی میں یہ بھید کھولا گیا ہے کہ ہمارے دیہات میں، جہاں مواقع کی شدید قلت ہے، یا بعض اوقات شہروں میں بھی، جن لوگوں کو جِن پڑ جایا کرتا ہے، دراصل کثیر الجہتی انتشار یعنی Multiple Personality Disorder کا معاملہ ہے۔ ایک بچی جو کثیرالجہتی صلاحیتوں کی مالک تھی، کو اس کی ماں عین اس لمحے سخت سرزنش کیا کرتی جب وہ کوئی تخلیقی کام میں پوری طرح مگن ہوتی۔ جیسے پینٹنگ، یا گلوکاری وغیرہ۔ بجائے ہمت افزائی ہونے کے، اس نوع کی سخت حوصلہ شکنی نےاس کے اندر نئی شخصیات کے ”جِن“ تخلیق کرڈالے۔ وہ بچی اپنی ذات میں تین شخصیات تعمیر کیے پروان چڑھی۔
وہ خود اس حقیقت سے بے خبر رہتی ہے۔ بچپن میں جنسی تشدّد کا نشانہ بھی بنتی ہے۔ پختہ العمر ہونے پر جب کبھی کوئی اس سے قریب ہوکر اس سے جنسی اختلاط کی کوشش کرتا ہے، یا اگر کوئی اس کی کسی صلاحیت کا اعتراف نہیں کرتا تو وہ نہ صرف اسے قتل کرڈالتی، بلکہ اس کی لاش کو بری طرح مسخ ڈالتی ہے۔ کہانی کا لب لباب یہ ہے کہ حوصلہ شکنی، یا کوئی بڑی نا انصافی یا زیادتی انسان کی شدّتِ احساس کو ایک نئی سیلف Self بنا ڈالتی ہے جو ایبنارمل انداز میں اس کی ہستی پرطاری ہوکر، دورہ پڑنے کی شکل میں، اس کی آواز، شکل، اور زبان کو وقتی طور اتنا بدل ڈالتی ہے اور اس سے کچھ ایسا سرزد کروا ڈالتی ہے کہ جس کا احساس خود اسے اس لمحے نہیں ہوتا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ آپ کی زبان سے سرزد ہونے والا کوئی ایک واحدہمت شکن لفظ یا جملہ بعض اوقات کسی کی زندگی برباد کر سکتا ہے۔
ایک اورنکتہ نوٹ فرمائیں۔
عین اس لمحے جب آپ کی بچی یا بچہ یہ جانتا ہو کہ اس سے سرزد ہوئے بلنڈر پر آپ اس کی دھنائی کر ڈالیں گے، نہ صرف کھلے دل سے معاف کر ڈالیں، بلکہ الگ بٹھاکر اسے یہ باور کرائیں کہ :
1- سب غلطیاں کرتے ہیں۔
2- آیندہ بھی ہوں گی۔
3- غلطیوں سے ہی زیادہ سیکھا جاسکتا ہے، کہ اور کوئی بڑا ذریعہ دستیاب ہی نہیں۔
4- کامیابی یا ہوشیاری یہ ہے ان کا اعادہ نہ ہونے دیا جائے۔
5- اصل خطا یہ نہیں کہ خطا ہو گئی۔ بلکہ یہ ہے کہ پلٹا نہ جائے۔غلطی کو تسلیم نہ کیا جائے۔ رجوع نہ کیا جائے۔ توبہ نہ کی جائے۔
6- دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنا زیادہ بڑی عقلمندی ہے۔خود اپنی غلطی سے سیکھنا بھی عقلمندی ہے مگر اس میں لمبا چکر کاٹنا پڑتا ہے۔۔ کچھ وقت ضائع ہو جاتا ہے۔
جانتے ہیں ایسا مشفقانہ رویہ اس بچے میں کیسی نفسیات تعمیر کرے گا؟
1- اسے یہ اعتماد عطا کرے گا کہ کیسی ہی بڑی خطا کیوں نہ ہو جائے، زندگی کو پھر بھی جیا جا سکتا، دوسروں کے روبرو پیش ہوا جا سکتا ہے۔ وہ قطعی مایوس ہوجانے والے شیطانی اندھیروں سے نکل آئے گا۔پہلے تو اس نوع کی بڑی خطا کا ارتکاب نہ ہو گا، اگر ہو تو اسے یہ اعتماد حاصل ہو گا کہ معافی مل سکتی ہے۔جبکہ سخت سرزنش اس میں سے یہ اعتماد کھرچ کر باپر پھینک دے گی۔ مایوسی میں بچے اور نوجوان لوگ کچھ بھی کر بیٹھتے ہیں۔ یا کم از کم ایسے لوگ اپنی اصلاح عمر بھر نہیں کر پاتے۔
2- اس بچے میں اس احساس کو توانا کر دے گا کہ ایسی خطا کیوں اور کب ہوتی ہے، اس کے محرکات کیا ہیں، نیز اس کے نقصانات کیا ہیں؟ انسانی نفسیات اور نفس کے اس پہلو کو جتنی باریک بینی سے اب وہ پہچانتا اور جانتا ہے، اور کوئی نہیں جانتا۔ یہی وہ شخص ہے جسے اس موضوع کی گرہ کشائی کرنے اور اس پر عالمانہ معیار کا تھیسس پیش کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا:
The failure knows the secret of success.
کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کے برعکس حقیقت کیا ہے؟ فلم تھری ایڈیٹ میں پروفیسر کی طرف سے پروجیکٹ قبول نہ کیے جانے پر اس نوجوان کی خود کشی ذرا ذہن میں لائیں۔
یہاں کے ایک سکول میں پچھلے برسوں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا۔مڈل سیکشن کلاس کا ایک بچہ کمپیوٹر لیب میں ایک روز کوئی ”ویب سائٹ“ کھول بیٹھا۔ دوسرے بچوں کی نظر پڑ گئی۔ شور مچا۔ ٹیچر کی سطح تک شکایت ہوئی۔ سطحی ذہنیت کی حامل ٹیچر نے معاملہ فہمی سے کام لینے کی بجائے الٹا آسمان سر پر اٹھالیا۔ بات ہیڈ مسٹریس تک پہنچی۔ یہاں تک کوئی مضائقہ نہ تھا۔ اسی طرح ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہیڈ ماسٹرنی اس استانی صاحبہ سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔ جلّاد کہلایا کرتی۔ بچے کو بلاکر محض سرزنش کرنے پر اکتفا نہیں کیا۔ کہا: ”کل آپ کے والدین آئیں گے، تب بیٹھنے دوں گی۔“ اس پر وہ بچہ رو پڑا اور التجا کی کہ جو سزا بھی دینی ہے، یہیں دے لیں، والدین کو ملوث نہ کریں۔ شومئی قسمت، والدین کو فون پر اطلاع دی گئی کہ ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے یاد فریا یا ہے۔ کل آ جائیں۔
بچہ چھٹی کے بعد گھر پہنچا۔والدین کے استفسار پر وہ کچھ نہ کہہ سکا کہ کل انہیں سکول کیوں بلایا گیا ہے۔ خیر، بوقت شام اس بچے کے والدین کسی عزیز سے ملنے گئے۔ نہیں جانتے تھے کہ دو گھنٹوں کا یہ مختصر دورانیہ ان کی زندگی میں کون سی قیامت ڈھانے چلا ہے۔ اس شام جب وہ پلٹے تو بیٹے کی لاش اُس کے اپنے کمرے میں چھت والے پنکھے سے لٹک رہی تھی۔
یہ ذرا سخت باتیں تھیں، جن میں تنبیہ ہے کہ معاملات کو انتہا تک لے جانے والے کیا عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں، جن کی روک تھام ضروری ہے۔
واصف علی واصف مرحوم نے ایک مرتبہ اپنے ایک سامع کو نصیحت کی تھی کہ بچوں کو ٹیلی ویژن دیکھنے سے مت روکیں۔ وہ جب سکول جاتے ہیں، اور دوسرے بچے ان موضوعات پر بات کرتے ہیں تو وہ احساس ِ کمتری کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ نئی زندگی کے اجزائے ترکیبی جو اس کا باقاعدہ چلن بن چکے، ان سے صرفِ نظر کرنا ایک غیر فطری سی بات ہے۔ ان پر قد غن لگانے سے بہتر ہے، ان کے موثر استعمال کی فکر دامن گیر ہو۔ تھوڑا تردد کیا جائے اور تخلیقی اندازِ سوچ اپنایا جائے۔ ٹی وی سکرین پر دِکھنے والےتفریحی مواد کو مثبت اور معلوماتی مواد میں بدلنا آپ کا کام ہے۔ کچھ غلط دِکھ رہا ہے تو اس پر تنقید کر دی جائے۔میں نے ایک والد کو دیکھا۔ ٹی وی سکرین پر کولڈ ڈرنک سے متعلق ایک اشتہار پر پاس بیٹھے بچے کو سنانے کے لیے انہوں نےان الفاظ میں تنقید کی:
نئیں جی، کولڈ ڈرنک پینے سے پاور تھوڑی آتی ہے! وہ تو دودھ پینے سے آتی ہے!!
ان کا بیٹا دودھ پینے سے الرجک تھا۔ منہ بسورا کرتا۔ جبکہ وہ صاحب اسی طرح اسے جوش دلا کر دودھ پلایا کرتے۔ اسی طرح ایک اشتہار میں اچانک ایک خاتون ذرا بولڈ گیٹ اپ میں نظر آئیں تو میرا ”تربیت یافتہ“ بیٹا بول پڑا:
اوہ بابا، یہ اچھی بات نئیں اے! فُل کپڑے پہننے چاہیئں۔
یہ کہہ کر معاً اس نے چینل بدل دیا، چونکہ ہم بھی یہی کرتے ہیں۔ بس ہلکے پھلکے انداز میں گائیڈ کرتے جائیں۔ سوچ اور نیت ہونی چاہیے۔ خُدا راستے اور طریقے سجھا دیتا ہے۔ کارٹون فلمز کا، ہالی ووڈ اور تھوڑی بہت بالی ووڈ فلموں کا ذخیرہ رکھنا، ہر فلم کو پہلے سے چیک کر کے رکھنا، ممکن ہو تو ایڈٹ کرنا یا کروا لینا،خود صحبت دینے کا اہتمام کرنا جو اس کا مزہ دوبالا بنا دیتا ہے۔ فلم بینی کو ہفتہ وار ایکٹیویٹی کے بطور کسی ضابطے کا پابند کرنا، اس میں شامل موضوعات سے ملنے والےاسباق پر بچوں سے بات کرنا ایسے اقدامات ہیں جن سے بچوں کی فکری نشوونما کو چار چاند لگائے جاسکتے ہیں۔یہ پل پل امڈتی، پیمانے سے چھلکتی معلومات کا زمانہ ہے۔ لا تعلق رہنا خود کشی کے مترادف ہے۔ جبکہ متعلق رہنے میں جو قباحتیں ہیں ، ان سے دامن بچا کر گذرا جا سکتا ہے بشرطیکہ نیت ہو۔
کتب بینی کی عادت کیسے اپنائی جائے؟
ہفتہ وار ایک کتاب ختم کرنے کا اہتمام اور صلہ کے بطور کوئیincentive دیئے رکھنا عمدہ ترین مصروفیت ہے۔ یہ انسینٹو کسی پارک یا مقام کی سیرو سیاحت بھی ہو سکتا ہے، اور حسبِ استطاعت کوئی چیز کھلانا وغیرہ بھی۔ آئیڈیل یہ ہے کہ بچوں کو کچھ سوالات پکڑا دیئے جائیں کہ ان کے جوابات تلاش کر کے دکھائیں۔ پھر ان سے ان موضوعات پر بات کرنے اور سوالوں کے جوابات مہیا کرنے کو کہیں، اور سنیں بھی۔ اس پیٹرن پر ایک ماہ میں چار، اور ایک برس کی مدت میں 48 کتابیں ختم کی جا سکتی ہیں۔ یوں، ریڈنگ بچوں کی فطرتِ ثانیہ بن جائے گی۔
کتاب کے انتخاب میں اس بات کا خیال رکھیں کہ اسی فیصد بچیاں فکشن پڑھنا پسند کرتی ہیں۔ عورت ذات ذرا تخیلاتی ہے۔ جبکہ 80 فیصد بچے یا لڑکے نان فکشن پڑھنا پسند کرتے ہیں۔آپ جائزہ لیں کہ آپ کے بچے اس اعتبار سے کیا پڑھنا پسند کرتے ہیں جن سے وہ لطف اندوز ہوں۔ گھر میں ایک گھنٹہ ریڈنگ ٹائم طے کردیں اور اس دوران کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن بند رکھے جائیں۔کتاب کے اختتام پرکوئی سے 10 عدد نئے الفاظ سیکھنا، ان پر Vocabulary Cards بنانا، اور انہیں نئے جملوں میں استعمال کرنا بھی اس پراجیکٹ کا باقاعدہ حصہ ہونا چاہیے۔ جملے بناتے وقت ذرا تفریحی انداز اپنایا جاسکتا ہے۔ مثلاً : آپ کہہ سکتے ہیں کہ ”آپ ایک جملے میں ماما کا نام استعمال کریں گے۔ ایک میں بابا کا۔ باقی جملوں میں بھائی، بہن اور دوستوں کے نام۔“
ہنر مندی
ہنر جیسے ٹائپنگ، یا ایکسل شیٹ اور پاور پوائنٹ کا استعمال، ایڈیٹنگ سافٹ ویئر اور دیگر چھوٹے چھوٹے سافٹ ویئرز کا استعمال سیکھنے کی طرف مائل کرنا، ان کے لیے پندرہ سے بیس منٹ مختص کرتے ہوئے کوئی ایک یا دو عدد نئی Tips سیکھنے کا اہتمام کرنابھی وقت کا مثبت اور بہترین استعمال ہے جو اسے ثمر بار بنا دیتا ہے۔ ہر روز ممکن نہیں تو ہفتے میں تین دن اس مقصد کے لیےمخصوص کرلیں۔ مگر خوب اہتمام سے اس کا اطلاق ممکن بنائیں۔ بچوں کی نفسیات بنائیں کہ ہر روز، ہر ہفتے کچھ نیا سیکھنا ہے۔ انہیں بتائیں کہ ہم سب اس دنیا میں خالی ہاتھ آتے ہیں۔ سب کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ بچوں کی نفسیات بنائیں کہ جو کچھ کرنا ہے، اس کے لیے تھوڑی زور آوری کی ضرورت ہے۔ انسان سست الوجود اور سست رو ہے۔ اس کا ذہن مشقت والے کام سے فرار طلب کرتا ہے۔جبکہ زندگی کا چلن، اس کی فطرت ایسی ہے کہ آپ اگر آپ سرگرم عمل نہ ہوئے تو وقت تیزی سے گزر جائے گا۔ یہاں خود بخود کچھ بدلنے کا نہیں۔ بچوں کی نفسیات بنائیں کہ زیادہ سیکھنے والے لوگ اپنی زندگی میں کبھی دوسروں کے محتاج نہیں ہوتے،۔وہ دوسروں کے استاد بن جاتے ہیں۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ایسی Skills یا ہنر سیکھنا اس زمانے میں کسی استاد کا محتاج بھی نہیں۔ یہ حضرت امام گوگل علیہ السلام کا زمانہ ہے جو امام الائمہ ہیں اور سب کچھ پلوں میں آپ کے روبرو پیش کر دیتے ہیں۔چاہیں تو تحریر پڑھیں جس کیساتھ تصویری راہنمائی بھی دستیاب کر دی جاتی ہے، چاہیں تو گوگل پر ویڈیوز والا آپشن کلک کر لیں اور رہنما ویڈیوز والی ٹیوٹوریلز دیکھ لیں۔ ایسا مواد یو ٹیوب پر بہ سہولت دستیاب ہے ۔ جبکہ الگ سےبھی ایسی ویب سائٹس کی کوئی کمی نہیں ۔درجہ بہ درجہ رہنمائی سے بھرپور ویڈیوز آپ کو اس شعبے کا امام بنا ڈالتی ہیں ---اگر ارادہ و قوت ِ عمل اور باقاعدگی نصیب ہو تو۔اب ذرا جائزہ لیں اور خود سے پوچھیں۔ فرض کریں آپ کا بچہ چھٹی جماعت کا طالبعلم ہے۔ جو پچھلے دو ہفتے گذر گئے، اگر وہ انہیں ہر روز پندرہ منٹ کے حساب سے لگاتار کوئی ایکسل شیٹ یا پاور پوائنٹ سیکھنے پر لگاتا تو؟ ممکن ہے اس نے ٹائپنگ کے آٹھ دس اسباق عبور کر لیے ہوتے؟ یہ خیال یعنی کیئر آپ ہی نے کرنی ہے۔ آپ ہی اس گھر میں وہ شخصیت ہیں جسے پتہ ہے کہ بعد ازاں روٹی روزی کی بھاری ذمہ داری جب آن پڑتی ہے تو انسان ایک ایسے دھارے میں بہنا شروع کر دیتا ہے کہ اس کے پاس نئے سرے سے یہSkills سیکھنے کے لیے ذہنی آسودگی اور فرصت آسانی سےمیسر نہیں ہوتیں۔
ری سائکلنگ پراجیکٹس
مثبت تفریح اور مصروفیت کا ایک اور بہترین ذریعہ ری سائکلنگ Recyclingپراجیکٹس ہیں جن سے انٹرنیٹ لدا پڑا ہے۔ ان پراجیکٹس میں بے پناہLearning ہے۔ آپ کے بچوں کو گھر میں ایک بک شیلف کی ضرورت ہے۔؟ گھر میں پڑے چھوٹے بڑے ڈبے، اخباریں، بوتلیں اس کام آ سکتی ہیں۔ انہیں اگلی صبح کوڑے والے کو تھما دینا واحد آپشن نہیں۔آپ امام گوگل کے حضور پیش ہو جائیں اور عرض گذاریں۔ اعلٰی حضرت گوگل آپ کوpinterest.com پر لے جائیں گے جہاں سینکڑوں بک شیلف آئیڈیاز کی قطاریں لگی ہیں۔ قدم بہ قدم راہنمائی کا شاندارتصویری اہتمام ہے۔ ہمارے گھر میں دنیا اخباروں کا ڈھیر لگا تھا۔ میری مسز اور بچوں نے انٹرنیٹ سے گائیڈ ہوکر انہیں بک شیلف میں ڈھال دیا، اور اس عمل میں گھنٹوں ہمارے گھر کے ماحول میں بڑا جوش و خروش رہا۔ بڑی excitement چھائی رہی کہ نجانے کیا ہونے جا رہا ہے۔اس سے آپ کے بچوں میں رکھی تخلیقی صلاحیت تخلیقی قوت میں ڈھل جائے گی۔ سامنے پڑی بے مصرف اشیا کومختلف زاویہ نظر سے دیکھنا اور انہیں با مصرف بنانا آئے گا۔ انہیں جوڑنے تعمیری طرزِ سوچ استوار ہو گی۔ اسی طرح Cooking Recipes کی بھرمار ہے۔ بچیاں ہوں یا بچے، دونوں کو جاننا ہو گا کہ آلو جیسی سبزی سے صرف شوربے والا سالن یا چپس ہی نہیں بنائے جاتے، بلکہ ان سے سینکڑوں انداز کی ڈشز بنائی جا سکتی اور کھانے پینے میں بوریت سے بچا جا سکتا ہے۔ Pinterestوالی ویب سائٹ ایسے آئیڈیاز سے بھری پڑی ہے۔
آخری بات – یہ سب کیسے ممکن ہے؟
آپ سوچ رہے ہوں گے یوں وقت دینا بڑا مشکل ہے۔ بلکہ نا ممکن۔جی نہیں، اس میں کوئی مشکل نہیں اگر آپ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں۔ یہاں حرفِ راز یہ ہے کہ کاموں کے جوڑے بناتے جائیں۔ پارک جانا ہے، تو یہ ایکٹیویٹی بس پارک جانے تک محدود نہ ہو۔ وہاں پندرہ منٹ اس رواں ہفتے کے لیے طے کردہ کتاب –جتنی بھی پڑھی جاچکی- پر بات کرنے کے لیے مختص کرلیں۔اسی طرح بچے نے پاور پوائنٹ پر سلائیڈ بنا نی ہے تو اس عمل کو آپ کتاب میں پڑھے کسی پوائنٹ یا اچھی بات کیساتھ جوڑ دیں۔ یعنی سلائیڈ کاcontent اسی کتاب میں سےآ گیا جو بچے کے زیر مطالعہ ہے۔بک شیلف بن گیا تو اس کے ایک خانے میں وہ کتابیں رکھی جائیں گی جو پڑھ لیں۔ دوسری میں ان پڑھی کتب۔ تیسرے خانے میں Vocabulary Cards جو اس وقت زیر مطالعہ کتاب میں سے اخذ کردہ لغت پر مشتمل ہیں۔کارڈز کہاں سے آئے؟جوتوں والے اور بعض دیگر ڈبے کاٹ کر تخلیقی انداز سے بنائے گئے۔یہی لغت پاور پوائنٹس والی ایکٹیویٹی میں بھی استعمال ہو سکتی ہے۔کتاب ایسی منتخب کریں جس پر فلم بھی دستیاب ہو تو فلم بینی بھی منسلک ہو گئی۔ یوں، یہ سارے عوامل ایک دوسرے سے ہم ربط ہو گئے۔
اب آپکی باری ہے۔آپ بتائیں، آپ کے تجربات کیسے ہیں؟ نیچے کومنٹس میں شیئر کریں۔ اگلی نشست میں کچھ ایسے نکات شیئر کیے جائیں گے جو زیادہ حساس نوعیت کے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment