یہ پچھلے سال کے رمضان کا آخری عشرہ تھا، شاید بائیسویں یا چوبیسویں شب.
چھوٹو تراویح کے بعد ہی سے رٹ لگانا شروع ہوگیا تھا، ماما آج ہمیں دوست نے گھر بلایا ہے، رات ہم اس کے گھر جائیں گے اور سحری کر کے آئیں گے.
چونکہ یہ معلوم تھا کہ ماما کبھی کسی کے گھر رات کو رکنے کی اجازت نہیں دیتیں سو ماما کی خاموشی کے باوجود بار بار یاد دہانی کروارہا تھا. جب اس کی ہر یاد دہانی کے جواب میں ماما خاموش رہیں تو بڑے صاحب ( بڑے بھائی ) بھی درمیان میں کود پڑے کہ ظاہر ہے انھں بھی ساتھ جانا تھا
سو ذرا زور دے کر کہا :
ماما آپ جواب کیوں نہیں دے رہیں؟
ماما نے اک نظر اس پر ڈالی جیسے خود سوال کر ڈالا ہو کہ کبھی اس طرح کہیں رات رکنے کی اجازت ملی ہے؟
بڑے صاحب نے اک لمحے کو نگاہیں ادھر ادھر کیں مگر پھر بولے :
آپ ہمیں کب تک بچہ بنا کر رکھیں گی ماما؟
ہمارے سارے دوست کئی کئی راتیں دوستوں کے گھروں پر رکتے ہیں کیا ان کی ماما نہیں ہوتیں؟
بچوں کے چہروں پر چھائی جھنجھلاہٹ اور دبے دبے غصے نے اک لمحے کو ماما کو پریشان سا کیا مگر پھر نرم لہجے میں کہا:
کیا کرنا ہے رات بھر اس دوست کے گھر؟ کیا شب بیداری ہوگی؟ عبادت ہوگی؟ رمضان کے آخری عشرے میں کیا اللہ کی تلاش ہوگی؟
چھوٹو کا جواب آیا :
نہیں ماما، ہم گیم کھیلیں گے مگر اور بھی تو بچے آ رہے ہیں نا گیم کھیلنے، سب نے وہاں سحری تک رہنا ہے.
ماما نے پیار سے جواب دیا:
دیکھو بیٹا ہر گھر کے الگ الگ طور طریقے ہوتے ہیں، لوگ تو بہت کچھ کرتے ہیں، ہم کسی کی برابری تو نہیں کر سکتے نا.
بڑے نے ماما کی بات کاٹ کر کہا ذرا تیز آواز میں کہا :
ماما آپ کو ہم پر اعتبار نہیں؟
ماما نے بڑی حوصلے اور ہمت جمع کر کے جواب دیا :
اپنی اولاد اور اپنی تربیت پر پورا اعتبار ہے بیٹا، مگر زمانے پر اعتبار نہیں. جس کے پاس تم لوگوں نے جانا ہے، اس کی تربیت میں نے نہیں کی.
مگر ماما کی اتنی بات سے بھلا کس نے مطمئن ہونا تھا.
چھوٹو پلٹ کر بولا :
آپ کب تک ہمیں ایسے دو سال کا بچہ بنا کر رکھیں گی.
ماما نے ہمیشہ بچوں کو اپنے نزدیک رکھا تھا. ان میں کبھی کوئی کمیونیکیشن گیپ نہیں آیا تھا اور بچے بھی ہمیشہ اس کی باتوں سے مطمئن ہو جایا کرتے تھے
مگر آج سوال پر سوال کا اٹھنا یہ بتا رہا تھا کہ اب صرف انکار ہی کافی نہیں تھا بلکہ بچوں کو اس انکار کی وجہ بتانا بھی ضروری ہوگیا تھا یعنی بچے بڑے ہو رہے تھے. اب ان کے سامنے وہ تمام باتیں بھی کھل کر ڈسکس کرنا ضروری ہوگیا تھا جن کی وجہ سے ماما اتنی محتاط رہتی تھیں.
ماما نے کہا اچھا آپ دونوں یہاں آئیں ذرا.
دونوں پاس آگئے مگر بیٹھا کوئی نہیں
ماما نے کھڑے کھڑے بڑے سے ہی سوال کیا.
آج امریکہ میں ایک بل پاس ہوا ہے، کیا آپ جانتے ہیں اس بل کے بارے میں؟
کچھ دیر تو بڑا سٹپٹایا کہ یہ کیسا سوال ہے جو اچانک آیا، مگر پھر جواب آیا :
"جی ماما "
ماما کو اندازہ تو تھا کہ سارا دن ہی فیس بک پر یہ خبر چھائی ہوئی تھی، کیسے چھپی رہتی؟
اگلا سوال چودہ سالہ چھوٹو سے تھا
اور آپ کو بھی پتا ہے اس بل کے پاس ہونے کا؟ وہاں سے بھی جواب ہاں میں آیا.
کچھ لمحے خاموشی رہی. پھر ہمت جمع کر کے ماما نے اگلا سوال چھوٹو سے کیا
اس کا مطلب جانتے ہیں بیٹا؟
یہ ایک اور غیرمتوقع سوال تھا، مگر جواب بھی اتنا ہی غیرمتوقع آیا
جب چودہ سالہ چھوٹو نے چہرہ نیچے کیے صرف گردن اثبات میں ہلائی
اب آگے بات کرنا ماما کے حوصلے کا اک امتحان تھا کہ اپنی ہی اولاد سہی مگر یہ کوئی عام ٹاپک نہیں تھا کہ جس پر ماما بولنا شروع کردیتی اور دنیا بھر کی مثالیں سامنے رکھ کر سب سمجھا کر اٹھ کھڑی ہوتیں.
اس ٹاپک کو سمجھانے کے لیے ماما نے آج ہی دورہ قرآن میں پڑھائی گئی "سورہ الشعراء" کا سہارا لیا
چھوٹو تفہیم القرآن لے کر آئیں، ماما نے نگاہیں نیچے رکھے رکھے کہا.
سامنے دونوں ہی وہ بیٹے تھے، عمر کے ہر نئے موڑ پر اس نے جن کی رہنمائی کی خود تھی اور انہیں سب خود بتایا اور سمجھایا تھا. مگر اب وہ اپنی عمروں کے اس حصہ میں تھے جہاں انہیں صرف ڈھکے چھپے انداز میں نہیں بلکہ بات کھول کر سمجھانے کا وقت آچکا تھا۔
دونوں کو اس نے اپنے ارد گرد صوفے پر بٹھایا. خود سورہ الشعراء کی تلاوت کی اور پھر اس کی تفسیر بیان کرنی شروع کی
" یہ تھا وہ عمل جس کی وجہ سے اللہ نے اس قوم پر وہ عذاب نازل کیا جو دنیا میں کسی اور قوم پر نہیں نازل ہوا. دنیا کی ہر قوم ایک عذاب کی مستحق ہوئی مگر قوم لوط ایک ساتھ تین عذابوں کی
پوری کی پوری قوم اندھی کردی گئی
پھر آسمان سے پتھروں کی برسات جو کہ ہر ایک کے نام کے ساتھ مارے گئے کہ کون سا پتھر کس کو لگنا ہے
تیسرا عذاب کہ پوری بستی الٹ دی گئی
ویسے ہی جیسے جب آپ کسی چیز پر شدید غصہ ہوتے ہیں نا تو اسے صرف توڑ کر نہیں پھینک دیتے بلکہ چاہتے ہیں کہ اس کو چورا چورا بنا دیں، اس کو کچل دیں کہ صرف توڑ دینے سے آپ کا غصہ کم نہیں ہوتا.
اللہ بھی اس قوم پر ایسے ہی غضب ناک ہوا تھا
اور آج اس دنیا میں ایسا قانون پاس کیا جارہا ہے جس میں سیم سیکس کی شادی قانون بنادی گئی ہے، گویا اللہ کو چیلنج کیا جارہا ہے.
اور میرے بچو! یہ وبا صرف اسی معاشرے تک نہیں رکی ہوئی بلکہ اس نے ہمارے اچھے اچھے گھروں کے معصوم بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے.
تمھاری تربیت میں نے کی اور اللہ کے بنائےاصولوں کے مطابق کرنے کی کوشش کی، نجانے کس حد تک اس میں کامیاب رہی ہوں. مگر جن کے پاس تم لوگوں نے جانا، ان کو تو میں جانتی تک نہیں مگر یہ جانتی ہوں کہ گھروں میں ماں باپ کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ ان کے بچوں نے رات بھر نیٹ پر کیا دیکھا؟ چھوٹے چھوٹے معصوم ذہن کو کیبل پر لگے چینل کیسے پراگندہ کرتے ہیں؟ اور کیسے ان کی معصومیت چھن جاتی ہے اور ماں باپ اس سب سے بے بخبر ہوتے ہیں.
میرے جگر کے ٹکڑو! تمہیں میڈیا نے نہیں پالا، تمہیں میں نے نبیوں کے قصے اور جنت کے مناظر دکھا کر اور جہنم کی ہولناکی بتا کر پالا ہے. میں نے تو تمہارے دو منٹ کمرے بند ہوجانے پر بھی فکر کی میں تمہیں کیسے اس بے رحم زمانے کے حوالے کردوں؟
کیسے اپنی برسوں کی کمائی کو لمحوں میں برباد ہوتا دیکھوں؟
عمر کے اس مرحلے میں جن حالات میں تم نے قدم رکھا ہے، وہ ہر قدم پر ایک آزمائش سے کم نہیں. ابھی تو سکول سے نکل کر کالج کا مرحلہ جانتے ہو کیسا کٹھن ہوگا؟ خود کو مضبوط رکھنا ہوگا، قرآن سے جڑنا ہوگا، اس کو چھوڑ دیا تو سمجھو شیطان ایسے تمہیں جھپٹ لے گا جیسے چیل کسی گوشت کے ٹکڑے پر جھپٹتی ہے
میرے بچو! میں کیسے اپنی کمائی کو کھلے آسمان تلے کسی شیطان کے جھپٹنے کے لیے چھوڑ دوں؟
میں تو آخری سانسوں تک تمہاری ایسے ہی حفاظت کروں گی جیسے مرغی ہلکی سی آہٹ پر اپنے چوزوں کو پروں میں چھپا کر کرتی ہے
ماما کی آواز اب آنسوئوں میں ڈوب کر بھرا چکی تھی
سحری کا وقت ہوچکا تھا
ماما کی گود میں سر رکھے دونوں کے چہروں پرکچھ دیر پہلے چھایا اضطراب اب اک گہرے سکون میں بدل چکا تھا اور ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ ماں کے فیصلے پر مطمئن ہوچکے تھے.
اس نے دونوں کے ماتھے چومے، ہمیشہ کی طرح اللہ کے چنے ہوئے بندوں میں شامل ہونے کی دعا کی اور اللہ کے حضور شکر بجا لانے اٹھ کھڑی ہوئی کہ آج پھر اس نے اسی کے پاک کلام کی مدد سے اپنے بچوں کو زندگی کی اک اور حقیقت سے آشنا کردیا تھا.
اپنے بچوں پر مرضی مسلط مت کیجیے بلکہ ان سے موضوعات اور ایشوز ڈسکس کیجیے. یقین کیجیے آپ کا بچہ وہ نہیں جو آپ گمان کیے بیٹھے ہیں. وہ اتنا باخبر ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے.
اسے آپ اللہ کے کلام کی روشنی میں ہر اک بات سے آگاہ کیجیے، اس سے پہلے کہ اسے کسی ایسی جگہ اور ایسے ماحول سے آگہی حاصل ہو جس کا خمیازہ وہ بھی اور آپ بھی زندگی بھر بھگتیں
حقیقت اور تلخ حقیقت۔۔۔
جزاک اللہ خیر و احسن الجزاء
بہترین تحریر ہے، آج کے دور میں بچوں کو بغیر دلیل کے مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔ پھر یہ اللہ کی سنت ہے اس نے اپنے انبیا کو مطمئن کرنے کے لئے عملی ثبوت دیے
اسلام علیکم میری راے۔میں اج کے۔بچوں کی۔تربیت میں ماں کا یھی۔کردار مطلوب ھے اور اج کی ماں کو اس کی اپنی تربیت کیبھی۔ضرورت ھے سوشل میڈیا کو استعمال۔کرنے۔والی ماں اور ایک وہ ماں جو معاشرے کے اس۔طبقے۔سے۔تعلق۔رکھتی ھے جھاں تربیت سے۔ذیادہ اس ماں کو اپنے بچوں کو دو وقتکی روٹی کی فکر ھے اس کا بھی فرض اور حق ھےکہ وہ اپنے بچے کی تربیت ایسے ھی کرے مگراس ماں کو بھی شعور اور آگھی دینے کی۔ضرورت ھے
بھت اچھا مضمعون ھے بچوں کو پیار اور محبتسے دیلیل کے ساتھ سمھجانا بھت ضروری ھے