جیلانی بانو نے عصمت آپا سے پوچھا۔’’جنت میں کتنا مزا آرہا ہوگا آپ کو۔‘‘
’’کچھ مزا نہیں آتا وہاں۔ میں تو دوزخ کی طرف جانا چاہتی تھی ، مگر راستے میں اسد اللہ خان مل گئے، سارے ادیب، شاعر، دوست، سب دوزخ میں دھوم مچا رہے ہیں۔‘‘
’’عصمت… تم پھر افسانہ لکھنے بیٹھ گئیں۔‘‘ مرزا غالب نے ہنس کر کہا۔
’’اسد اللہ خاں! تم بتائو۔ مردوں کے لیے ’’ بہشتی زیور ‘‘ کیوں نہیں لکھی گئی؟ ‘‘ عصمت آپا کو غصہ آگیا۔
’’اس کتاب میں مرد کو حکم دیا جاتا ہے کہ عورت سامنے آجائے تو اسے نظر اٹھا کر مت دیکھو ، مگر تم شاعر لوگ تو عورت نظر آجائے تو غیرت قومی سے زمین میں گڑ جاتے ہو۔ تمہارے ایک اور شاعردوست ہیں۔ جنت میں تم ان سے روز ملتے ہوگے! انھوںنے بھی عورت کو مغربی علوم پڑھانے کے عذاب سے ڈرایا تھا اور اس کے گلے میں زمرد کو گلو بند پہنا کر بٹھا دیا تھا۔‘‘
’’عصمت چغتائی تم ایک عورت ہو اس لیے…‘‘ مرزا غالب نے عصمت آپا کو سمجھانا چاہا۔
مگر عصمت آپا کو بہت غصہ آچکا تھا۔
’’اسد اللہ خان… مجھے بار بار یاد مت دلائو کہ میں عورت ہوں۔ اطمینان رکھو ، میں عورت ہی رہوں گی۔ مرد ہر روپ میں ڈھل جاتا ہے ، مگر عورت سچائی اور اچھائی کی کسی منزل پر پہنچ جائے وہ عورت ہی رہے گی۔‘‘
’’ نہیں، عصمت چغتائی بھی بن سکتی ہے۔‘‘ مرزا غالب نے مسکرا کر کہا اور پھر عصمت آپا کا غصہ کم کرنے کو کہا:
’’ عورت کا رتبہ بہت بڑا ہے عصمت چغتائی، وہ ماں ہے، محبوبہ ہے، خدا کے بعد دنیا کو تخلیق کرنے والی ہے…‘‘
’’ بس کرو اپنی شاعری۔‘‘ عصمت چغتائی نے غصہ میں منہ پھیر لیا۔
’’ عصمت بی بی… اب یہ بحث چھوڑو۔‘‘ مرزا غالب کرسی پر لیٹ گئے اور مسکرا کر بولے۔
’’ اب سچی بات بتادو۔ تم کس شاعر کے عشق میں جنت سے دوزخ کی طرف جانا چاہتی ہو…؟‘‘
’’ مجھے کسی شاعر سے عشق ہوگا… توبہ کرو…‘‘ عصمت آپا نے بر سامنہ بناکر کہا۔
’’ مگر آپ مرزا غالب کو تو بہت پسند کرتی تھیں۔ ایک بار آپ نے مجھ سے کہا تھا۔ غالب کی شاعری تو رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے…‘‘ عصمت آپا کو یاد دلایا۔
’’ ہاں… انھیں پڑھنے کے بعد میں نے شاعری پڑھنا چھوڑ دی تھی۔ لمبی کہانی کو ایک شعر میں سمو دینے کا فن انھیں آتا ہے۔‘‘ عصمت آپا نے مسکرا کے غالب کو دیکھا۔
’’ تو یہ فن آپ نے مرزا غالب سے سیکھا ہے…‘‘ میں نے مسکرا کے کہا۔
’’ کچھ نہیں سیکھا… ان کی شاعری جس نے پڑھی وہ دونوں جہاں سے گیا۔‘‘
’’ اچھا…؟ تو اب پتہ چلا کہ مرزا غالب کی کشش ہی آپ کو ان کے ساتھ زمین پر پھر لے آئی…؟‘‘
’’ اے توبہ کر بانو… ان شاعروں سے کوئی دل لگائے گا؟ مجھے تو شاعروں کی صورت دیکھ کر ہنسی آتی ہے۔‘‘
عصمت آپا نے برا سامنہ بناکر مرزا غالب کو دیکھا ، جو سر جھکائے انگور کھا رہے تھے۔
’’ یہ کون سے شاعر کی بات کررہی ہو…؟ ‘‘ انھوں نے مسکرا کر پوچھا۔
عصمت آپا نے غور سے مرزا غالب کو دیکھا اور اپنی کرسی ان کے پاس لے آئیں۔
’’ اسد اللہ خان… تم اپنے ہر شعر میں معشوق کی بے وفائی کا دکھ سناکر پڑھنے والوں کو رلا دیتے ہو، مگر آئینے میں کبھی اپنی شکل بھی دیکھی ہے…؟‘‘
عصمت آپا کی بات سن کر میں گھبرا گئی۔ انھیں مرزا غالب سے اس طرح بات نہیں کرنا چاہیے۔
’’ گریبان چاک ، چیتھڑے لگائے، ہاتھ پائوں زخمی، انجائنا، بلڈ پریشر اور دق کے مریض… نہ ہاتھوں میں جنبش نہ پائوں میں چلنے کی طاقت۔‘‘
غالب کو عصمت آپا کی باتوں پر ہنسی آرہی تھی۔
’’ بس…ہماری برائیاں ختم ہوگئیں…؟ ‘‘ انھوں نے ہنس کر کہا۔
’’ میں برائی نہیں کررہی ہوں۔‘‘ عصمت آپا نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
’’ مگر ایک بات سنو عصمت چغتائی ۔‘‘ غالب نے ہنسے ہوئے کہا۔
’’ پہلے مجھے پوری بات کہنے دو۔‘‘ عصمت آپا نے انھیں روک دیا۔
’’ تمہارا دل ٹھکانے پر ہے نہ دماغ۔ محبوبہ کے گھر کا راستہ بھی دوسروں سے پوچھتے ہو کہ جائوں کدھر کو میں؟ اس حال میں اپنی محبوبہ کے سامنے آکر پھر اس بات کا شکوہ بھی کرتے ہوکہ… درپہ رہنے کو کہا اور کہہ کر کیسا پھر گیا…؟ اور پھرتمہیں غصہ دوسروں پر آتا ہے۔
ع حیراں ہو دل کو روئوں کو پیٹوں جگر کو میں؟ بانو… تو بتاکہ غالب کو اس حال پر پہنچانے میں بھلادل شاہ جہاں پوری اور جگر مرادآبادی کا کیا قصور ہے…؟‘‘
میرے ساتھ مرزا غالب بھی عصمت آپا کی باتوں پر ہنسنے لگے۔
’’ تم نے ایک شعر اچھا کہا ہے اسد اللہ خاں۔
چاہتے ہو خوبروئوں کو اسد
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے‘‘
مرزا غالب کو عصمت آپا کی باتیں اچھی نہیں لگ رہی تھیں۔ وہ چپ چاپ بیٹھے رہے تو عصمت آپا ان کے پاس آئیں اور بڑے محبت سے ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’چلو…‘‘ ہم اقرار کیے لیتے ہیں کہ اسد اللہ خان کا ساتھ ہوگیا تو جنت میں تھی میں۔ مگر جب وہ راجہ مہدی علی خاں کا ہاتھ تھام کر دنیا کی طرف جارہے تھے تو میں نے سوچا… اب جنت میں کیوں رہوں میں…؟‘‘
مرزا غالب کو بھی ہنسی آگئی۔ انھوں نے بڑی محبت سے عصمت آپا کا ہاتھ تھام لیا۔
’’بارش تھم گئی ہے، اب یہاں سے چلو۔ تم نے پہلے یہ بات کہی ہوتی تو جنت سے کیوں بھاگتا میں…؟‘‘
میں نے ان دونوں کا موڈ بدلنے کے لیے کہا۔
’’اب میں آپ دونوں سے کچھ کہنے کی اجازت چاہوں گی۔‘‘
میں بڑے ادب کے ساتھ مرزا غالب کے آگے جھک گئی۔
’’صبح جب میں کسی سے کہوں گی مرزا غالب اور عصمت چغتائی ہمارے گھر آئے تھے تو کوئی یقین نہیں کرے گا۔ اس لیے آپ دونوں دو ایک دن کے لیے یہاں رک جائیے۔ انور بھی اب آتے ہوں گے۔ وہ تو حیران ہوجائیں گے کہ آپ دونوں اور ہمارے گھر آگئے!
پھر دیکھیے… سب کو… میڈیا کو… ادبی حلقوں کو جب یہ بات معلوم ہوگی تو اردو کے سارے نقاد دوڑے ہوئے آئیں گے… آپ دونوں کو گھیر لیں گے۔‘‘
’’یہ تو کیا کہہ رہی ہے بانو…؟ ‘‘ عصمت آپا گھبرائیں۔
’’اردو نقاد ہمیں گھیر لیں گے؟‘‘ مرزا غالب بھی پریشان ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔
’’ہاں…‘‘ میں نے خوش ہوکر کہا۔
’’اب آپ کی کہانی ’ لحاف ‘ کو نقاد ترقی پسندی کی ڈوری میں باندھیں گے۔ کوئی مابعد جدیدیت کے ’’ لحاف ‘‘ میں چھپادے گا اور مرزا غالب کی شاعری میں ایک بار پھر معاشی، سیاسی، تاریخی، تہذیبی عناصر کا پتہ چلانے میں نقاد مصروف ہوجائیں گے۔ عصمت چغتائی نے غالب کی شاعری کا ایک نیا پہلو نقادوں کو دیا ہے۔‘‘
’’نہیں نہیں۔ ہمارے آنے کی خبر نقادوں کو مت دینا بانو۔‘‘ غالب نے گھبرا کے کہا۔‘‘ ہم تو دنیا سے اسی لیے بھاگے تھے… پکڑے جاتے ہیں نقادوں کے لکھنے پر ناحق۔‘‘ عصمت آپا بھی گھبرا گئیں۔
’’تم بہت کاہل ہو اسد اللہ خان۔ بس سوچتے رہے کہ
منظر ایک بلندی پر اور ہم بناسکتے
عرش سے پرے ہوتا، کاش کے مکاں اپنا
اب جلدی چلو… عرش سے پرے کہیں پناہ ڈھونڈیں گے۔‘‘
عصمت آپا نے مرزا غالب کا ہاتھ پکڑا اور جلدی سے دروازہ کھول کر باہر چلی گئی۔
’’ٹھہرئیے… ذرا میری بات تو سنیے…‘‘
میں آنکھیں ملتی… بستر سے اٹھی… رضائی منہ پر سے ہٹاکر ادھر ادھر دیکھا۔
ادھر جیلانی بانو ہڑبڑا کراٹھیں، ادھر میں جیلانی بانو کے مجموعے سے سر اٹھا کر دیکھ رہی تھی اور یہ کہہ رہی تھی کہ
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ، جو سنا افسانہ تھا۔
تبصرہ لکھیے