ہوم << تہذیب ناآشنا -واجدحیدری

تہذیب ناآشنا -واجدحیدری

بنی آدم کی قتل و غارتگری کی تاریخ خود اس کی تاریخ جتنی ہی پرانی ہے۔ پہلے انسانی قتل کے لیے اس وقت دستیاب وسائل جیسے پتھر، لاٹھی یا انسانی ہاتھ ہی استعمال میں لائے گئے ہوں گے۔ یقیناً قتل کرنے کے ان محدود وسائل کے ذریعہ اس قدر بے رحمی اور بربریت سے پہلا انسانی قتل ہوا ہو گا جسے سوچ کر روح کانپ جاتی ہے۔ قاتل کی ذہنی حالت اور اخلاقی پستی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک کوے کو اپنے ہم جنس کی لاش ٹھکانے لگاتے دیکھ کر فقط اس بات پر خفت محسوس کی کہ اسے اپنے بھائی کی میت دفن کرنے کا خیال کیوں نہ آیا، اس کے قتل پر معمولی سا پچھتاوا بھی نہ ہوا۔

یہ پہلا قتل انسانی نفسیات کا ایکسرے ہے۔ اس نے واضح کر دیا کہ ذاتی مفادات کی خاطر قتل و غارتگری اولاد آدم کا معمول رہے گا۔ وقت نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ گزرتے وقت کے ساتھ جہاں زندگی گزارنے کے لیے دیگر بہتر وسائل میسر آئے، بنی آدم نے اولاد آدم کو ختم کرنے کے گوناگوں ہتھیار ایجاد کیے اور ان کو اس حد تک ترقی دی کہ اب ساری دنیا کی آبادی ختم کرنے کے لیے محض چند ایسے مہلک ہتھیار کافی ہیں۔ دوسری عالمی جنگ میں ان کی بالکل ابتدائی سطح کی کارکردگی اپنی سفاکی اقوام عالم کو دکھا بھی چکی ہے۔

اکثر خیال آتا ہے کہ خالق کائنات نے ہر پل وسعت پذیر کائنات میں نادر مقام، زمین پر اپنی شاہکار تخلیق انسان کے لیے دلوں کو جوڑنے اور خیر خواہی کے واسطے، اس سیارہ پر انسان کے آباد ہونے کے روز اول سے اپنے پیامبر بھیجنے کا طویل سلسلہ شروع کیا، اولاد آدم کی یکجہتی کے لیے اپنی مقدس تعلیمات کا انتظام فرمایا، تہذیب سکھانے کو اپنے دین سے متعارف کروایا۔ مگر، مقام صد ہزار افسوس کہ نہ صرف خالق کائنات کے پیغمبروں کے ساتھ بدترین ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا بلکہ دین الٰہی اور تعلیمات مقدس کے حوالے سے بھی انتہائی پست سوچ کا مظاہرہ کیا گیا۔

تاریخ انسانی اس بات پر شاہد ہے کہ خدا اور مذہب کے نام پر ظلم و بربریت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو کبھی ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ پوری انسانی تاریخ میں انسان نے خود جتنے انسان قتل کیے ہیں، کسی بھی مخلوق نے اتنی بڑی تعداد میں اپنے ہم جنس نہیں مارے ہوں گے۔ کہنے کو اب جدید دور کے مہذب انسان نے انسانی حقوق کی پاسداری کا علم اٹھا رکھا ہے، مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ دنیا بھر میں روزانہ ان گنت لوگ ظلم کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ ان مارے جانے والے افراد میں اکثریت ان بے گناہ لوگوں کی ہے جنہیں دنیا میں پھیلائی گئی نفرتوں، دشمنیوں اور تعصبات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اسی طرح سرزمین انبیاء میں گزشتہ صدی سے جاری بربریت انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے، اس پر اقوام عالم کی بے حسی اپنی مثال آپ ہے۔

لمحہ فکریہ ہے کہ انسان دوستی اور انسانی حقوق کی پاسداری کا ڈھنڈورا پیٹنے والی دنیا میں اولاد آدم کو ختم کرنے کا ہر سامان موجود ہے مگر نہیں تو ان کے تحفظ اور بقا کے لیے دست ظلم کو توڑ دینے کا عزم اور حوصلہ۔ یہ کیسی مہذب دنیا ہے جس میں قتل کیے جانے والا معصوم، زندگی اور موت کے معانی سے ایسے ہی نا آشنا ہے جیسے یہ تہذیب سے نا آشنا دنیا۔

دعا ہے کہ خالق کائنات، اپنی مظلوم مخلوق کا خود پرسان حال ہو کہ اولاد آدم تو ابھی یہ فیصلہ بھی نہیں کر پا رہی کہ ظالم کے گریبان تک پہنچنے والا ہاتھ ہماری پسندیدہ شخصیت کا نہیں تو اسے تسلیم بھی کیا جائے کہ نہیں۔ آمین