ہوم << اسلامی معیشت کے معمار- ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

اسلامی معیشت کے معمار- ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

پاکستان میں علمی اور سیاسی دنیا ایک گھراتی پیچیدگیوں کا شکار رہی ہے، لیکن اگر کسی ایک شخصیت کے حوالے سے اسلامی معیشت اور فکری تحریکات کی بات کی جائے تو وہ پروفیسر خورشید احمد ہیں۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو نہ صرف اسلامی نظریات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ انہوں نے عملی طور پر اسلامی سوچ کی روشنی میں ملک کی معیشت، سیاست اور معاشرتی نظام میں بہتری کی کوششیں کیں۔ وہ صرف ایک ماہر معیشت ہی نہیں، بلکہ ایک عظیم مدبر، تعلیم یافتہ مفکر اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل رہنما بھی تھے جنہوں نے اپنے نظریات اور خدمات کے ذریعے اسلامی تحریک کو ایک نئی سمت دی۔

ابتدائی زندگی:
پروفیسر خورشید احمد کی پیدائش 23 مارچ 1932ء کو دہلی، ہندوستان میں ہوئی۔ ان کا تعلق ایک علمی اور مذہبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد محترم نے ہمیشہ علم کی روشنی پھیلانے کی کوشش کی اور یہی روحانی رہنمائی پروفیسر کے علم اور فکر کی بنیاد بنی۔ قیام پاکستان کے بعد، ان کا خاندان لاہور منتقل ہوا، جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پروفیسر خورشید احمد کی بچپن کی زندگی میں ہی اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ کی اہمیت کا ادراک ہونے لگا۔

تعلیمی کیریئر:
پروفیسر خورشید احمد نے اپنی اعلیٰ تعلیم کا آغاز گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے کیا، جہاں انہوں نے معاشیات میں بی اے (آنرز) کیا۔ ان کی خواہشیں انہیں کراچی یونیورسٹی کی طرف لے گئیں جہاں انہوں نے اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیمی میدان میں ان کی کامیابی کا سفر بریکنگ پوائنٹ اس وقت ہوا جب وہ برطانیہ کے لیسٹر یونیورسٹی میں گئے، جہاں انہوں نے اسلامی معیشت پر پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ان کی تحقیقی تھیسس 'اسلامی نظریہ معیشت کا جدید دنیا میں اطلاق' نے انہیں نہ صرف اساتذہ کے حلقوں میں مشہور کیا بلکہ ان کی تحریریں آج بھی وہی اہمیت رکھتی ہیں۔

فکری زندگی کا آغاز:
پروفیسر خورشید احمد کی فکری زندگی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تعلیمات سے شروع ہوئی۔ 18 برس کی عمر میں انہوں نے جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کی، جو ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ تھا۔ اس پلیٹ فارم کے تحت، انہوں نے اسلامی نظام معیشت کے نفاذ کے لیے جدوجہد کی اور دینی شعور کو عوام تک پہچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اسلامی معیشت میں خدمات
پروفیسر خورشید احمد نے اسلامی معیشت کے تصورات کو مغربی معیشت کے متبادل کے طور پر پیش کیا، جو معاشرے میں اخلاقیات اور انصاف کو بحال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کی جدوجہد کا بنیادی مقصد اسلامی بینکاری کا قیام، زکوة، عشر، اور سود کے نظام کا خاتمہ تھا۔ انہوں نے اہم کتابیں لکھیں جن میں:

اسلامی نظام معیشت
اسلام اور جدید اقتصادی چیلنجز
معیشت اور اسلام
سود کا متبادل نظام
تجدد، روایت اور تہذیب

یہ کتابیں نہ صرف معیشت کے نظریات پر مشتمل ہیں بلکہ عملی طور پر اسلامی اصولوں کا نفاذ بھی بتاتی ہیں۔ ان کی تحریریں عالمی سطح پر پڑھائی جاتی ہیں اور کئی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔

اداروں کا قیام:
اپنی علمی خدمات کے ساتھ ساتھ پروفیسر خورشید احمد نے متعدد تحقیقی اور علمی ادارے قائم کیے، جن میں سے دو خاص طور پر مشہور ہوئے:

Islamic Foundation (Leicester, UK):
یہ ادارہ اسلامی تحقیق، مطبوعات اور تعلیم کے میدان میں خدمات انجام دیتا ہے، اور دنیا بھر میں اسلامی نظریات کی ترویج کرتا ہے۔
Institute of Policy Studies (IPS), Islamabad:
اس ادارے نے پاکستان میں پالیسی سازی، تعلیمی ترقی، اور اسلامی معاشی نظام کی تحقیق میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اسے ملکی فکری منظر نامے میں نمایاں مقام ملا۔

سیاسی خدمات:
پروفیسر خورشید احمد نے جماعت اسلامی کے نائب امیر کے طور پر ایک طویل خدمت پیش کی اور 2002ء سے 2012ء تک سینیٹر بھی رہے۔ اس دورانیہ میں انہوں نے کئی اہم قومی مسائل پر ساتھ ساتھ بڑی سیاسی چالوں کے بارے میں اپنی بصیرت کا ثبوت دیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں، وہ پلاننگ کمیشن کے رکن بنے اور اس حیثیت سے انہوں نے اسلامی مالیاتی نظام کے قیام اور سود کے خاتمے کے سلسلے میں مختلف تجاویز پیش کیں۔ ان کی سیاسی بصیرت نے اسلامی تحریک کو عملی سطح پر آگے بڑھانے میں مدد دی، اور وہ ہمیشہ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر فیصلہ سازی کے حق میں رہے۔

بین الاقوامی شناخت:
پروفیسر خورشید احمد کو عالمی اسلامی دنیا میں ایک ممتاز مفکر اور اسکالر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہیں کئی بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا، جن میں شامل ہیں:

- کنگ فیصل ایوارڈ (1990ء) – اسلامی معیشت میں خدمات کے اعتراف میں۔
- نشانِ امتیاز (2011ء) – حکومتِ پاکستان کی طرف سے اعلیٰ سطحی سول اعزاز۔
- متعدد بین الاقوامی جامعات سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں۔

ان کی علمی خدمات نے انہیں بین الاقوامی سطح پر بہت شہرت دلا دی، اور ان کی تحریروں کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

شخصی اوصاف:
پروفیسر خورشید احمد کی شخصیت علم دوستی، عاجزی، نرم گفتاری، اور اصول پسندی کی مثالی مثال تھی۔ ان کی گفتگو میں ہمیشہ دلیل، ادب اور اخلاص موجود رہتا۔ وہ نہ صرف نظریاتی طور پر واضح تھے بلکہ عملی طور پر بھی ہر موقع پر فعال کردار ادا کرتے رہے۔

ان کے شاگرد:
پروفیسر خورشید احمد کے ہزاروں شاگرد دنیا بھر میں موجود ہیں، جو ان کی فکری تعلیمات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کے درمیان معروف ماہرین معیشت، دینی اسکالرز، اور سیاسی رہنما شامل ہیں، جو ان کے اصولوں کو اپنی زندگیوں میں اپناتے ہیں۔

وفات:
پروفیسر خورشید احمد 13 اپریل 2025ء کو 93 سال کی عمر میں لیسٹر (برطانیہ) میں وفات پا گئے۔ ان کی نماز جنازہ اسلامی فاؤنڈیشن کے مرکزی مرکز میں ادا کی گئی، جس میں متعدد افراد نے شرکت کی اور ان کی خدمات کو سراہا۔ دنیا بھر میں تعزیت کا سلسلہ جاری رہا، اور ان کے جانے کے بعد اسلامی تحریک ایک شاندار رہنما سے محروم ہوگئی۔

پروفیسر خورشید احمد کی زندگی ایک جامع اسلامی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کی خدمات نے علم، تحقیق، سیاست، اور معیشت کے میدان میں ایک نمایاں مقام پیدا کیا ہے۔ انہوں نے اسلامی معیشت کی بنیاد رکھی اور اس کے اصولوں کو عملی طور پر نافذ کرنے کی کوشش کی۔ ان کی زندگی کا پیغام یہ ہے کہ علم، تحقیق، اور خلوص دل کے ساتھ اگر کوئی شخص جدوجہد کرے تو وہ دنیا میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ ان کی فکر اور خدمات آنے والی نسلوں کے لیے ایک عظیم علمی و فکری ورثہ ہے، جس سے ہمیشہ رہنمائی لی جاتی رہے گی۔ پروفیسر خورشید احمد نے جو جستجو کی، اس نے انہیں نہ صرف ایک عالم دین بلکہ ایک رہنما اور قائد قرار دیا، اور ان کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی۔