ہوم << پھول اور خوشبو: فطرت کا ایک شعوری راز یا بے مقصد اتفاق؟ مجیب الحق حقّی

پھول اور خوشبو: فطرت کا ایک شعوری راز یا بے مقصد اتفاق؟ مجیب الحق حقّی

دنیا کے بیشتر انسان جب کسی پھول کو دیکھتے ہیں تو مسکرا اٹھتے ہیں۔ کوئی خوشبو سے محظوظ ہوتا ہے، کوئی رنگوں کی لطافت میں کھو جاتا ہے، اور کوئی اسے اپنے جذبات کا پیغام بنا کر کسی اور کو پیش کرتا ہے۔
پھول اور خوشبو — فطرت کا لطیف مکالمہ
جب ہم کسی پھول کو دیکھتے اور اس کی خوشبو کو محسوس کرتے ہیں، تو دل میں ایک غیر مرئی کیفیت اترتی ہے — جیسے فطرت کوئی راز سرگوشی کر رہی ہو۔لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ فطرت نے پھول جیسی چیز کیوں بنائی؟ ایک پودے کو اپنی افزائشِ نسل کے لیے اتنے رنگ، خوشبو، اور ترتیب کی کیا ضرورت تھی؟
یہ سوال صرف جمالیاتی یا شاعرانہ نہیں بلکہ سائنسی، حیاتیاتی، اور فکری گہرائی رکھتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں تقریباً تین لاکھ اقسام کے پھول ہیں۔
پھول کیوں ضروری ہے؟
پھول پودے کا تولیدی نظام ہے — وہ مقام جہاں نر (پولن) اور مادہ (اوویول) خلیات ایک دوسرے سے مل کر نئے بیج کی تخلیق کرتے ہیں۔ لیکن اگر مقصد صرف نسل کی بقاء ہو، تو سوال یہ ہے:
کیا اتنی نزاکت، اتنا حسن، اور اتنی پیچیدہ ترتیب صرف اسی مقصد کے لیے تھی؟

یہیں سے وہ سوالات جنم لیتے ہیں جو سائنس اور شعور کے بیچ ایک پل بناتے ہیں:
پھول آخر کیوں پیدا ہوتے ہیں؟
خوشبو کہاں سے آتی ہے؟
اور کیا یہ سب کچھ محض ایک اندھے ارتقاء کا نتیجہ ہے، جیسا کہ سائنٹسزم کا دعویٰ ہے؟
آئیے ان سوالات کا ایک متوازن، سائنسی اور فکری جائزہ لیتے ہیں۔

پھول کا ارتقائی سفر
سائنسی تحقیق کے مطابق، پھولوں والے پودے تقریباً 13 سے 14 کروڑ سال پہلے نمودار ہوئے، جب زمین پر صرف سادہ، بے رنگ، اور اسپوری (spore based) پودے موجود تھے۔
پھولوں کے ظہور کے ساتھ ہی ارتقائی رفتار میں تیزی آئی، کیونکہ وہ:
زیادہ مؤثر طریقے سے افزائش کرتے تھے،
دیگر جانداروں سے باہمی شراکت داری (mutualism) قائم کرتے تھے،
بہتر بیج بناتے تھے،
اور حسن و ترتیب کے نئے انداز لے کر آئے تھے،
مگر یہاں سوال ابھرتا ہے:
اندھی فطرت کو کیسے علم ہوا کہ مکھی کو کون سا رنگ پسند ہے؟
خوشبو کے مخصوص مالیکیولز کا انتخاب کون کر رہا تھا؟
پولن، ہوا، اور حشرات کے درمیان مطابقت کیسے قائم ہوئی؟
دنیا کے مختلف خطوں میں پھولوں اور پرندوں کی باہمی موافقت کیسے بیک وقت ممکن ہوئی؟
کیا یہ سب کچھ صرف "اتفاق" تھا؟ یا فطرت کی پشت پر کوئی "مقصدی شعور" کارفرما تھا؟

پھولوں کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ شہد کی مکھیوں، پرندوں، پروانوں اور دوسرے حشرات کو اپنی طرف متوجہ کریں تاکہ وہ پولن کو ایک پودے سے دوسرے تک منتقل کر سکیں۔ اس عمل کو "pollination" (بین النباتی تلقیح) کہتے ہیں — جو نباتاتی تولید اور نسل کی بقاء لیے بنیادی ہے۔لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے:
کیا صرف تولید کے لیے اتنی نزاکت، اتنا رنگ، اور اتنی ترتیب ضروری تھی؟
کیا بے جان جینیاتی عمل اس قدر فنکارانہ ہو سکتا ہے؟
یہی وہ لمحہ ہے جہاں فطرت کا شعوری پہلو جھلک دکھاتا ہے۔

خوشبو: ہوا میں تیرتا ہوا میٹا-سائنسی ارتعاش
خوشبو مخصوص کیمیائی مالیکیولز پر مشتمل ہوتی ہے جو ہوا میں تحلیل ہو کر ہماری سونگھنے کی حس کو متحرک کرتی ہے۔
یہ مالیکیولز، جیسے کہ:
Terpenes (مثلاً لیموں جیسی خوشبو)
Esters (میٹھی مہکیں)
Aldehydes (تازہ گھاس جیسی مہک)
...فطرت میں پیغام رسانی کا کردار ادا کرتے ہیں۔
پودے خوشبو کے ذریعے:
حشرات کو اپنی طرف بلاتے ہیں،
جانوروں کو پکے ہوئے پھل کی اطلاع دیتے ہیں،
یا کبھی دشمنوں کو خبردار کرتے ہیں۔

خوشبو کا ظہور — ارتقاء یا ارادہ؟
سائنسی بیانیہ یہ ہے کہ خوشبو کا ظہور ارتقائی فائدے کی بنا پر ہوا — تاکہ تولید بہتر ہو سکے۔
مگر سوال یہ ہے:
اگر مقصد صرف تولید تھا، تو پھر خوشبو کی وہ پرتیں جو انسانی جذبات، یادداشت، حتیٰ کہ روحانی کیفیات کو چھو لیتی ہیں — وہ کہاں سے آئیں؟
کیوں کچھ خوشبوئیں مراقبہ، سکون، اور محبت جیسے احساسات بیدار کرتی ہیں؟

پھول اور خوشبو — ایک پوشیدہ شعور کا اظہار
پھول اور خوشبو، دونوں، فطرت کے اس لطیف نظام کا حصہ ہیں جو محض کیمیائی عمل سے کہیں بڑھ کر معلوم ہوتا ہے۔
یہ ایک خاموش مکالمہ ہے جو فطرت اور شعور کے درمیان جاری ہے — جہاں:
پھولوں کا رنگ، ساخت اور خوشبو حشرات کی بصری اور حسی صلاحیتوں کے ساتھ ہم آہنگ نظر آتی ہے
خوشبو کے مالیکیولز حیاتیاتی ضرورتوں اور جذباتی تجربات سے مطابقت رکھتے ہیں
یہ سب کچھ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کائنات میں کوئی خاموش ارادہ کام کر رہا ہے — ایک ایسا غیر مرئی منصوبہ ساز جس نے بقاء کے ساتھ ساتھ حسن، ترتیب، اور احساس کا بھی اہتمام کیا ہے۔

سائنٹسزم کا بیانیہ کہتا ہے کہ فطرت میں کوئی ارادہ نہیں — سب کچھ محض اندھا ارتقاء ہے۔
اگر اندھا ارتقاء ہوتا تو خوشبو کے مالیکیول ایک یا چند ہوتے لیکن:
دنیا میں 3,000 سے زائد خوشبو کے مالیکیولز دریافت ہو چکے ہیں، ان میں ۱۷۰۰ سے ۲۰۰۰ قدرتی ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن عموماً 300 سے 800 مالیکیولز کا استعمال مسلسل پرفیومز اور خوشبوؤں کی تیاری میں کیا جاتا ہے۔ یہ خوشبوئیں قدرتی ذرائع سے بھی حاصل ہوتی ہیں اور مصنوعی طور پر بھی تیار کی جاتی ہیں۔

اور جب ہم پھولوں کی نفاست، خوشبوؤں کی لطافت، اور ان کے حیاتیاتی و نفسیاتی اثرات کو دیکھتے ہیں، تو ایک سائنسی ذہن بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ:
"محض بقاء کے لیے اتنی خوبصورتی؟
محض اتفاق سے اتنی ترتیب؟"
یہ سوال سائنٹسزم کی سطحی تعبیر کو بے نقاب کرتا ہے۔

Comments

Avatar photo

مجیب الحق حقی

مجیب الحق حقی ریٹائرڈ پی آئی اے آفیسر ہیں۔ دو کتب " خدائی سرگوشیاں" اور۔ Understanding the Divine Whispers کے مصنف ہیں۔ توحید کا اثبات اور الحاد کا رد ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ ان کی تحاریر کائنات میں غوروفکر کے ذریعے رب تک پہنچنے کی دعوت دیتی ہیں

Click here to post a comment