جتنا مجھ حقیر کا مطالعہ ہے میں سمجھتا ہوں کہ نبی کریم بہت آسان دین دیکر دنیا سے رخصت ہوئے۔ انبیاء کا کام ایجادات کرنا نہیں ہوتا، وہ کچھ بنیادی چیزوں کی طرف لوگوں کی توجہ دلا کر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ دین میں تنوع اور پیچیدگیاں بعد کے انسان پیدا کرتے ہیں۔
انبیاء جو دعوت لاتے ہیں ان میں انسانیت کی توحید کی طرف توجہ مبذول کروانا، قیامت کی خبر دینا اور تزکیہ نفس کی تعلیم دینا شامل ہوتا ہے۔ یہ انسانوں سے اس عہد و پیمان کو طلب کرتے ہیں جو اس نے روز الست خدا سے کیا ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ توجہ دلاتے ہیں کہ اے انسان تیرا مقام بہت بلند ہے، تو کہاں ان مٹی اور ہاتھوں سے بنائے ہوئے دیوی دیوتاؤں کو پوجنے میں لگا ہے۔ تیرے ہر عمل کا ایک ریکارڈ مرتب ہوتا ہے، اسی بنیاد پر تجھ سے سوال وجواب کیا جائے گا۔ رسول اکرم کے پاس لوگ سوالات لیکر آتے تھے، آپ قران کی آیات پڑھ دیا کرتے تھے۔ ایک عربی بدو آیا اس نے ایمان کے حوالے سے کچھ سوال کیے۔ آپ نے صرف ایک آیت پڑھ دی۔
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ-وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ-وَ السَّآىٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِۚ-وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَۚ-وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاۚ-وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ (سورہ البقرہ آیت 177) ترجمہ: اصل نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو بلکہ اصلی نیک وہ ہے جو اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پرایمان لائے اور اللہ کی محبت میں عزیز مال رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اورمسافروں اور سائلوں کو اور (غلام لونڈیوں کی) گردنیں آزاد کرانے میں خرچ کرے اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اوروہ لوگ جو عہد کرکے اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں اور مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت صبرکرنے والے ہیں ، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔
اس آیت کو غور سے دیکھیے، پورا دین اسی میں چھپا ہوا ہے۔ رسول اکرم سے سوال ہوا کہ اگر ہم ہر سال حج کریں کیا بہتر نہیں ہوگا؟ آپ ناراض ہوئے، آپ نے فرمایا کہ اگر میں کہہ دوں گا تو واجب ہوجائے گا۔ مسلمانوں کے ساتھ آپ نے حج کیا، پہلا حج تھا، لوگ پریشان ہوکر آپ کے پاس آتے تھے اور پوچھتے تھے کہ یا رسول اللہ ! ہمارے ساتھ طواف کرتے ہوئے فلاں مسئلہ ہوگیا، ہمارے ساتھ یہ پرابلم ہوگئی۔ آپ مسکرا کر بشارت دیتے تھے کہ تمہارا حج ہوگیا۔ یعنی کوئی گھبرانے والی بات نہیں ہے. آپ نے ساری زندگی کبھی درس قرآن نہیں دیا، کبھی اپنی باتوں کو لکھنے پر زور نہیں دیا، کبھی کوئی تفسیر قرآن نہیں لکھوائی۔
آپ قران پڑھتے تھے، پڑھاتے تھے، سنتے تھے، سناتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ ارتقائی طور پر انسانیت آگے کی طرف بڑھے گی، عقل انسانی نئے نئے امکانات کی طرف جائے گی۔ قانون سازی ہوگی ، انسان آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ لیکن تین باتیں اپنی جگہ موجود رہیں گی۔
ایک توحید
دوسرے تزکیہ نفس
تیسرے آخرت
ان میں کسی بھی صورت تبدیلی نہیں آئے گی۔
نماز کا ڈھانچہ بن گیا ہے، روزہ کا مہینہ مقرر ہوگیا ہے، حج کی جگہ بتا دی گئی ہے، زکوٰۃ کا حکم دے دیا ہے۔ ان میں بھی تبدیلیاں نہیں آئیں گی۔ مگر مریض، سفر ، حضر میں انسان فقہی حوالے سے تبدیلی کرے گا۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے . نبی کریم نے ایک عربی بدو قوم کو ایسا ٹرینڈ کیا کہ جنگ کے میدان میں ایک صحابی نے جو پیاسے تھے اور مرنے کے قریب تھے، انہوں نے اپنی پیاس بجھانے سے پہلے ایک اور زخمی صحابی کو خود پر ترجیح دی۔ ان زخمی صحابی نے دوسرے صحابی کو خود پر ترجیح دی۔ ایسا کوئی فلسفی کرسکتا ہے؟ کسی عقل والے اور بلند ترین سوچ کے حامل انسان کے اندر اتنا دم نہیں ہے کہ وہ ایسی قوم تیار کردے جس کے سامنے egoism ہیچ ہے۔
ایک مسلم فلسفی کے حوالے سے قصہ ملتا ہے کہ ان کا شاگرد اکثر ان سے کہتا تھا کہ آپ فی زمانہ اگر نبوت کا دعوی کریں تو لوگ ایمان لے آئیں گے۔ فلسفی صاحب مسکرا کر چپ ہوجاتے تھے ۔ ایک دفعہ یہ دونوں استاد شاگرد سفر میں تھے، راستے میں ایک مسجد میں ٹھہر گئے۔ سخت سردی تھی، فجر سے ذرا پہلے استاد نے شاگرد کو آواز دی کہ مجھے پانی پلا دو۔ شاگرد کمبل میں دبکا پڑا تھا۔ کمبل کے اندر سے کہنے لگا کہ اس وقت پانی پینا مضر صحت ہے، آپ کو پتا ہے کہ رات کا خالی معدہ ہے، اس وقت یخ پانی پیٹ میں انڈیلیں گے تو فلاں مسئلہ ہوسکتا ہے، ڈھماکا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ فلسفی صاحب جو طبیب بھی تھے ، ہنس کر کہنے لگے کہ مجھے یہ سب باتیں معلوم ہیں۔
تم مجھے کہتے ہو کہ میں نبوت کا دعوی کروں تو لوگ ایمان لے آئیں گے؟ جبکہ مجھے سخت سردی میں پانی پلاتے پوئے تمہاری جان نکل رہی ہے۔ تم بہانے بازی کررہے ہو۔ لیکن ابھی دیکھو گلدستہ اذان کی طرف کوئی بڑھ رہا ہے۔ وہ موذن تھا اور فورا ہی اذان کی آواز چہار دیواری میں گونجنے لگی۔ یہ انبیاء ہیں جن کا اثر لوگوں کے ذہنوں پر صدیوں قائم رہتا ہے ، ان کے نبوت کے دعویٰ کو کاپی کرتے ہوئے دوسرے لوگ بھی اپنی دکان سجا لیتے ہیں مگر ان جیسا کردار ، ان جیسی عقل و اخلاق پیدا نہیں کرپاتے۔ قرآن کریم کی ایک آیت ہے ۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَبۡلُغُوا الۡحُلُمَ مِنۡکُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوۃِ الۡفَجۡرِ وَ حِیۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِیَابَکُمۡ مِّنَ الظَّہِیۡرَۃِ وَ مِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوۃِ الۡعِشَآءِ ۟ؕ ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّکُمۡ ؕ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ وَ لَا عَلَیۡہِمۡ جُنَاحٌۢ بَعۡدَہُنَّ ؕ طَوّٰفُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ بَعۡضُکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ۔
(سورہ نور آیت 58)
اے ایمان والو! ضروری ہے کہ تمہارے مملوک اور وہ بچے جو ابھی بلوغ کی حد کو نہیں پہنچے ہیں تین اوقات میں تم سے اجازت لے کر آیا کریں، فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جب تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں، ان کے بعد ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے میں نہ تم پر کوئی حرج ہے اور نہ ان پر، اللہ اس طرح تمہارے لیے نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔
قرآن کریم عربی قوم پر نازل ہورہا تھا، وہ ان کو آداب سکھا رہا تھا۔ آج کل کی طرح کے دروازے گھروں میں نہیں ہوتے تھے اس کے علاوہ گھر میں غلام بھی پائے جاتے تھے۔پہلے حکم آیا کہ لوگوں کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں ، ساتھ میں کچھ حالات استثنائی کا بھی ذکر ہوا، جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔ وہ حالات یہ ہیں: 1۔ گھر کے غلام۔ 2۔ نا بالغ بچے۔ یہ دونوں گھر میں طَوّٰفُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ ہیں جو بار بار تمہارے پاس آتے رہتے ہیں۔ انہیں ہر بار اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔البتہ تین اوقات تمہارے تخلیے کے ہوتے ہیں، ان میں یہ دونوں بھی اجازت کے بغیر تمہارے پاس داخل نہ ہوں۔
اس جدید دور میں غلام اور کنیزیں گھروں میں نہیں پائی جاتیں تو کیا اس حکم کو منسوخ سمجھا جائے ؟ اب مرد حضرات دوپہر میں بھی گھروں سے باہر ہوتے ہیں تو کیا یہ حکم باقی رہے گا؟غور کیجئے کہ یہ ایک یونیورسل نارم بن گیا ہے۔ آپ آفس میں اپنے کیبن میں ہیں، آپ کا جونئیر یا کوئی نیا آنے والا اندر آنے سے پہلے آپ سے اجازت طلب کرے گا۔ گھر میں آپ کا جوان بچہ یا بچی بھی منہ اٹھا کر رات میں آپ کے کمرے میں داخل نہیں ہونگے۔ یہ تربیت ہے جو قرآن نے اس قوم کی کری جو ہفتوں نہاتے نہیں تھے۔ ان کے پاس سے بدبو آتی تھی۔ ان کو وضو اور غسل کے احکامات بیان کیے۔ دن میں پانچ دفعہ صرف وضو کرلینا ہی گندگی اور بدبو کو دور کرتا ہے۔
اگر پانی میسر نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کا حکم دیا اور پھر یرید اللہ بکم الیسر کا جملہ کہہ کر بتایا کہ خدا مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ آسانیاں چاہتا ہے۔ ام المومنین بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم کے سامنے جب دو مراحل آتے تھے تو آپ ہمیشہ آسانی والا آپشن استعمال کرتے تھے۔ لیکن بعد کے ادوار میں دین کو اتنا ہی مشکل بنا دیا گیا کہ وہ اب جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں رہا۔ اس پر عمل پیرا لوگ بڑی مشکل سے ماڈرن دور میں رینگ رینگ کر ساتھ نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایڈم اسمتھ جس کو سرمایہ داری نظام کا بانی کہا جاتا ہے، اس کی مشہور زمانہ کتاب “دی ویلتھ آف نیشنز” ہے۔ ایڈم اسمتھ کی کتاب کا مرکزی خیال آزاد منڈیوں (فری مارکیٹ) اور معاشی خود غرضی کی اہمیت ہے، جو اس کے خیال میں خوشحالی کو فروغ دیتی ہے۔ اسمتھ کا کہنا ہے کہ جب افراد اپنے ذاتی مفاد میں کام کرتے ہیں اور منافع و کارکردگی کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، تو وہ نادانستہ طور پر پورے معاشرے کی معاشی بہتری میں حصہ ڈالتے ہیں—جسے مشہور نظریہ “غیر مرئی ہاتھ” (Invisible Hand) کہا جاتا ہے۔ اس کے خیال میں حکومتوں کو ان معاملات میں کم سے کم حصہ ڈالنا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں اچھی حکومت وہ ہے جو کم سے کم حکومت کرے۔
ایڈم اسمتھ ملحد تھے ۔ ان کی ایک کتاب جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں وہ “دی تھیوری آف مورل سینٹیمینٹ” ہے۔ یہ کتاب ایڈم اسمتھ نے “دی ویلتھ آف نیشنز” سے پہلے لکھی تھی۔وہ کہتا ہے کہ انسانی اخلاقیات ہمدردی (sympathy) اور سماجی قبولیت کی خواہش سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسمتھ کا استدلال ہے کہ لوگ فطری طور پر اخلاقی شعور پیدا کرتے ہیں۔ حقیقی اخلاقیات خود غرضی اور دوسروں کی بھلائی کے درمیان توازن قائم کرنے سے حاصل ہوتی ہیں . پھر وہ زور دیتا ہے کہ اخلاقیات اور معیشت ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ مارکیٹ بہتر طریقے سے کام کرتی ہے جب افراد اخلاقی ضمیر کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔
اس کے خیال میں “معاشی انسان” پہلے “نیک و پارسا انسان” بنے تو معاملات درست سمت میں گامزن ہونگے۔ دوسرے لفظوں میں معاشی انسان ، پارسا انسان کے تابع ہونا چاہیے۔ایڈم اسمتھ کی یہ کتاب، دی ویلتھ آف نیشنز کی بنیاد کہی جاتی ہے۔اب آپ انبیاء کی تعلیمات دیکھیے۔ انہوں نے اقام الصلواۃ کو مقدم رکھا ہے یعنی پہلے آخرت میں جواب دہی کا خوف رکھا جائے اور پھر زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا۔
وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ وَ مَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ تَجِدُوۡہُ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ
(سورہ البقرہ آیت 110)
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور جو کچھ نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے پاس موجود پاؤ گے، تم جو بھی عمل انجام دیتے ہو اللہ یقینا اس کا خوب دیکھنے والا ہے۔
قران کریم میں پیغمبر کو تاریخ میں بنیادی تبدیلی اور ترقی کا فعال سبب تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اسے ایک پیغام کے علمبردار کے طور پر دکھایا گیا ہے جس کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو سچائی کا مکتب اور راستہ دکھائے۔ یہ بات جب لوگوں تک پہنچ جاتی ہے تو اس کا مشن مکمل ہوجاتا ہے۔ انسان حق کا انتخاب کرنے میں یا اسے رد کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔اسلام میں شخصیت بذات خود کوئی تخلیقی عنصر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ انبیاء کو وہ افراد نہیں سمجھا جاتا جنہوں نے معاشرے میں نئے اصول بنائے ہیں سماجیات کے نقطہ نظر کے مقابل، دوسرے مصلحین پر ان کی فوقیت یہ رہی ہے کہ انہوں نے فطرت اور دنیا میں جاری اصولوں کو ان سے بہتر طور پر پہچان لیا اور اسی بنیاد پر وہ معاشرے میں اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے مرد کی حیثیت سے اپنی آزادی کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ بات تاریخ سے ثابت شدہ ہے کہ انبیاء ان مصلحین سے زیادہ کامیاب رہے جو نبی نہیں تھے ۔مصلحین بعض اوقات اپنی کتب میں بہترین مقالہ جات اور اصول ترتیب دیتے ہیں لیکن وہ کبھی کسی تہذیب کو تخلیق دینے میں کامیاب نہیں ہوئے۔اس کے برعکس انبیاء نے نئے معاشروں، تہذیبوں اور تاریخوں کی تعمیر کی ہے۔ چودہ سو سال پہلے گزرے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کے کردار کا تاریخی طور کا جائزہ لیجئے۔ یہ بات بالکل عیاں ہوکر سامنے آجائے گی۔مسئلہ کہاں پر آتا ہے؟
جب ہم انبیاء سے جڑی شخصیات کو بھی انہی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ہم یہ ماننے لگ جاتے ہیں کہ وہ بھی انہی کی طرح “معصوم” یا “محفوظ” تھے۔ایک مثال سے سمجھیے۔بخاری میں ایک روایت ہے
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: أَرَأَيْتَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِذَا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدْ مَاءً، كَيْفَ يَصْنَعُ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لاَ يُصَلِّي حَتَّى يَجِدَ المَاءَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِقَوْلِ عَمَّارٍ حِينَ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَانَ يَكْفِيكَ» قَالَ: أَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِذَلِكَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَدَعْنَا مِنْ قَوْلِ عَمَّارٍ كَيْفَ تَصْنَعُ بِهَذِهِ الآيَةِ؟ فَمَا دَرَى عَبْدُ اللَّهِ مَا يَقُولُ، فَقَالَ: إِنَّا لَوْ رَخَّصْنَا لَهُمْ فِي هَذَا لَأَوْشَكَ إِذَا بَرَدَ عَلَى أَحَدِهِمُ المَاءُ أَنْ يَدَعَهُ وَيَتَيَمَّمَ فَقُلْتُ لِشَقِيقٍ فَإِنَّمَا كَرِهَ عَبْدُ اللَّهِ لِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ» حضرت شقیق بن سلمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھا جب حضرت ابوموسیٰ نے حضرت ابن مسعود سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! آپ کی کیا رائے ہے، اگر کسی کو جنابت لاحق ہو جائے اور اسے پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: جب تک پانی نہ ملے وہ نماز نہ پڑھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا: آپ حضرت عمار ؓ کے اس قول کی کیا تاویل کریں گے جب نبی ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: ’’تمہیں (چہرے اور ہاتھوں کا مسح) کافی تھا‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت عمر ؓ کو حضرت عمار ؓ کی اس روایت سے اطمینان نہیں ہوا تھا؟
حضرت ابوموسیٰ اشعری نے فرمایا: حضرت عمار ؓ کی روایت کو جانے دیجیے۔ قرآن مجید میں جو آیت تیمم ہے اس کا کیا جواب ہے؟ اس پر حضرت ابن مسعود ؓ لاجواب ہو گئے، فرمانے لگے: اگر ہم نے لوگوں کو اس کے متعلق رعایت دے دی تو عجب نہیں کہ جب کسی کو پانی ٹھنڈا محسوس ہو گا تو وہ اسے استعمال کرنے کے بجائے تیمم کر لیا کرے گا۔ (راوی حدیث حضرت اعمش کہتے ہیں: ) میں نے (اپنے شیخ ابووائل) شقیق بن سلمہ سے کہا: حضرت ابن مسعود ؓ اسی وجہ سے تیمم کی اجازت نہیں دیتے تھے؟ ابووائل نے جواب دیا: ہاں ایسا ہی ہے”
یہاں دیکھیے کہ آیت میں رخصت ہونے کے باوجود صحابی نے لوگوں کے مزاج کو دیکھتے ہوئے سختی کردی اور تیمم کی اجازت نہیں دی۔(صحيح البخاري: كِتَابُ التَّيَمُّمِ ، بَابٌ: إِذَا خَافَ الجُنُبُ عَلَى نَفْسِهِ المَرَضَ أَوِ المَوْتَ، أَوْ خَافَ العَطَشَ، تَيَمَّمَ، روایت 345)
دوسری روایت دیکھیے۔
مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: اخبرنا مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت:” خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره، حتى إذا كنا بالبيداء او بذات الجيش انقطع عقد لي، فاقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه، واقام الناس معه وليسوا على ماء، فاتى الناس إلى ابي بكر الصديق، فقالوا: الا ترى ما صنعت عائشة؟ اقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم والناس وليسوا على ماء، وليس معهم ماء، فجاء ابو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع راسه على فخذي قد نام، فقال: حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس وليسوا على ماء، وليس معهم ماء، فقالت عائشة: فعاتبني ابو بكر، وقال ما شاء الله ان يقول، وجعل يطعنني بيده في خاصرتي فلا يمنعني من التحرك إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين اصبح على غير ماء، فانزل الله آية التيمم فتيمموا، فقال اسيد بن الحضير: ما هي باول بركتكم يا آل ابي بكر؟ قالت: فبعثنا البعير الذي كنت عليه فاصبنا العقد تحته”.
"ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں مالک نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے بتلایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض سفر (غزوہ بنی المصطلق) میں تھے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار کھو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش میں وہیں ٹھہر گئے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہر گئے۔ لیکن وہاں پانی کہیں قریب میں نہ تھا۔ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا ”عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کام کیا؟ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو ٹھہرا دیا ہے اور پانی بھی کہیں قریب میں نہیں ہے اور نہ لوگوں ہی کے ساتھ ہے۔"
پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو روک لیا۔ حالانکہ قریب میں کہیں پانی بھی نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ والد ماجد (رضی اللہ عنہ) مجھ پر بہت خفا ہوئے اور اللہ نے جو چاہا انہوں نے مجھے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ اس وجہ سے میں حرکت بھی نہیں کر سکتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کے وقت اٹھے تو پانی کا پتہ تک نہ تھا۔
پس اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری اور لوگوں نے تیمم کیا۔ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا ”اے آل ابی بکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔“ عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے فرمایا۔ پھر ہم نے اس اونٹ کو ہٹایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا”
(صحيح البخاري: كِتَابُ التَّيَمُّمِ روایت 334)
ہمارے حدیث کے استاذ بتاتے ہیں کہ اس روایت سے فقہاء نے درج زیل مسائل اخذ کیے ہیں۔ عورت چاہے شادی ہوکر شوہر کے گھر چلی جائے، اگر باپ زندہ ہے تو اس کی شکایت باپ سے کی جاسکتی ہے۔ سسر، داماد اور بیٹی کے پاس بغیر اجازت بھی آجاسکتا ہے. باپ بیٹی کو چاہے شادی شدہ ہو، مار پیٹ اور سرزنش کرسکتا ہے۔شوہر کے آرام کا ہر حال میں بیوی کو خیال رکھنا چاہیے۔یہاں رسول اکرم کے ساتھ جو افراد ہیں ان کو بھی قانون میں شریک مانا جارہا ہے اور ان کے طرز عمل کو اللہ و رسول کے عمل کے مساوی قرار دیا گیا ہے۔قرون وسطی میں یورپ نے ایک ہزار سال انتہائی خوفناک جمود اور بے حسی میں گزارے، اس کے بعد انسانی فکر میں انقلاب آیا اور آج کی دنیا کے تہذیب و تمدن نے جنم لیا۔مغرب میں سوالوں اور اشیاء کو دیکھنے کا انداز بدلا تو معاشرہ بھی بدل گیا۔
ہم یونانی تہذیب کی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ چوتھی اور پانچویں صدی میں دسیوں ذہین انسان ایک جگہ جمع ہوئے جن کی فکر اتنی بلند تھی کہ پوری دنیا آج تک ان کے زیر اثر ہے مگر پورا ایتھنز “پہیہ” ایجاد کرنے سے قاصر تھا۔ جبکہ جدید یورپ میں ایک ٹیکنیشن جو ارسطو کی تحریروں کو نہیں سمجھ سکتا، ممکن ہے کہ کوئی بڑی ایجاد کرڈالے۔اس کی بہترین مثال ایڈیسن نے پیش کی ہے، جس کی عمومی فکر ارسطو کے شاگردوں سے بھی کمتر تھی مگر فطرت کی دریافت اور صنعت کی تخلیق کی وجہ سے اس نے ان تمام ذہانتوں سے زیادہ حصہ ڈالا جنہوں نے ارسطو کے اسکول میں تربیت حاصل کی تھی۔ اس نے چھوٹی بڑی ایک ہزار سے زیادہ ایجادات کیں۔
مسلمانوں میں ابتدائی دور فتوحات کا اور جنگوں کا دور تھا۔ یہ آدھی دنیا سے زیادہ حصہ پر قابض رہے۔ ان کی ابتدائی سوچ اور فکر فاتحانہ ذہن کے ساتھ پروان چڑھی۔جب ان پر زوال آیا تو یہ اس بات کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے کہ خدا کی نعمتیں غیر اقوام پر بھی نازل ہوسکتی ہیں۔ان کے خیال میں زوال کی وجہ نمازوں سے غفلت برتنا، داڑھی کا چھوٹا ہونا، رسومات کی پابندی نہ کرنا وغیرہ تھی۔ یہ جتنا ان ظاہری رسومات کو اپنے معاشرے پر لاگو کرتے گئے، اتنا ہی ان کی بربادی بڑھتی گئی۔ صوفیاء نے معاشرے میں غبی پن پھیلانے میں زبردست حصہ ڈالا۔ یہ لوگوں کو مسلمان کرتے تھے مگر وہ مسلمان کسی کام کے نہیں ہوتے تھے۔ ان کا کام صرف باطن میں جھانکنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
مثال کے طور پر صوفیاء کی مقبول شخصیت منصور بن حلاج ہیں۔ یہ ان کے بقول خدا کی پرجوش محبت میں جلتا ہوا انسان تھا۔ یہ بغداد کی گلیوں میں اپنا سر پکڑے کہتا پھرتا تھا کہ اس سر کو پھاڑ دو، کیونکہ اس نے میرے خلاف بغاوت کی ہے، مجھے اس آگ سے نجات دلاؤ جو میرے اندر جل رہی ہے، میں کچھ نہیں ، میں خدا ہوں۔اس سے مراد اس کی یہ تھی کہ میں اب موجود نہیں ہوں، صرف خدا موجود ہے۔سوچیے کہ اگر اس وقت کا ایرانی معاشرہ پچیس ملین افراد پر مشتمل ہو اور سب حلاج کی طرح سر پکڑے دیوانہ وار ادھر اُدھر دوڑتے پھرتے تو یہ معاشرہ دیوانوں کے معاشرے کے علاؤہ اور کیا کہلاتا؟
کیا یہ اصل اسلام ہے ؟
کیا یہ انبیاء کی تعلیمات ہیں ؟
کیا یہ وہ انسان ہے جس کو عزت کے ساتھ خدا نے اپنا نائب کہہ کر فرشتوں سے تعارف کروایا تھا۔ کیا اس کی عزت کچھ ظاہری رسومات کی بجاآوری سے ممکن ہوسکے گی؟
آج یہ حال ہے کہ مدارس میں داڑھی کی مقدار کم ہونے پر طالب علم کو امتحان سے اٹھا دیا جاتا ہے، بچوں کو مارا پیٹا جاتا ہے، عورتوں کو گھروں میں بند کیا جاتا ہے جیسے اگر عورت باہر نکلی تو لازم ہے کہ وہ نامحرم سے چکر چلا لے گی۔ ان باتوں نے نوجوان نسل کو مذہب بیزار بنادیا ہے۔ مغرب کی مادی ترقی ان کی آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے محنت اور علم پر زور نہیں دیا جاتا بلکہ غیر مسلموں کا ٹھکانہ جہنم اور مسلمانوں کا اخروی مقام جنت معلی ہوگا ، یہ بتا کر طفل تسلیاں دی جاتی ہے۔
یہ علماء اور فقہاء نہیں جانتے کہ بقول میٹس، آدمی کی قوت تصور قدیم تاریخ کی زنجیریں توڑ دیتی ہے اور جدید جمالیات کا راستہ کھولتی ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے جب روح خود سے بغاوت کر دیتی ہے، خود اپنی ہی نجات دہندہ بن جاتی ہے، ایک ایسی سرگرمی بن جاتی ہے جس میں آئینہ چراغ میں ڈھل جاتا ہے۔
تبصرہ لکھیے