پہلگام حملے کے تناظر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ہونے والے سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو معطل، واہگہ بارڈر بند اور سفارتی عملہ محدود کرنے سمیت متعدد اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر حملے میں 26 سے زیادہ افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت اور دہشت گردوں کے حملے سے متعلق جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ''ہم مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔''
مقبو ضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ سری نگر پہنچ گئے جبکہ وزیراعظم نریندر مودی بھی سعودی عرب کا دورہ مختصر کر کے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ بھارت نے پاکستانیوں کو سارک کے تحت ویزے بند کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی پریس کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ تمام پاکستانیوں کے بھارتی ویزے منسوخ کیے جا رہے ہیں۔ بھارت میں موجود پاکستانیوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ بھارت نے پاکستانی ہائی کمیشن میں تمام دفاعی، فوجی، بحری اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ قرار دے دیا جبکہ بھارتی دفاعی اتاشی کو پاکستان سے واپس بلانے کا اعلان بھی کیا گیا۔ بھارتی وزارت خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن کا عملہ محدود کر دیا جائے گا جِسے یکم مئی تک 55 سے کم کر کے 30 افراد تک محدود کیا جائے گا۔بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق پاکستانی سارک ویزہ استثنیٰ پروگرام کے تحت بھارت کا سفر نہیں کر سکیں گے سارک اسکیم کے تحت جو بھی ویزے جاری کیے گئے تھے وہ منسوخ سمجھے جائیں گے اور بھارت میں موجود پاکستانیوں کو 48 گھنٹوں میں واپس جانا ہو گا۔
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے بعد پاکستان میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ ترجمان وزارتِ دفاع پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت کے کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔ پاکستان میں موجود بھارتی شہری یکم مئی تک اٹاری چیک پوسٹ کے راستے واپس آ سکتے ہیں۔پاکستانی وزارتِ آبی وسائل کے ذرائع کا بتانا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ عالمی معاہدہ ہے جسے بھارت یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 1960ء کا سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا معاہدے میں کوئی تبدیلی دونوں ممالک کی رضامندی سے ہی ہو سکتی ہے۔ اس معاہدے کے تحت دریائے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے تھے جبکہ راوی، ستلج اور بیاس بھارت کو دیے گئے تھے۔پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ جنگوں کے باوجود فعال رہا ہے۔ معاہدے اس طرح یکطرفہ طور پر معطل یا ختم نہیں کیے جا سکتے۔
بھارت کی طرف سے ماضی میں متعدد بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور پاکستانی دریاؤں پر پن بجلی منصوبے تعمیر کر کے پاکستان آنے والے پانی کو متاثر کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ تین سال سے بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث انڈس واٹر کمشنرز کا اجلاس بھی نہیں ہو سکا۔ دونوں ملکوں کے درمیان انڈس واٹر کمشنرز کا آخری اجلاس 30 اور 31 مئی 2022ء کو نئی دہلی میں ہوا تھا۔ معاہدے کے تحت سال میں دونوں ملکوں کے کمشنرز کا اجلاس ایک بار ہونا ضروری ہے لیکن پاکستان کی متعدد کوششوں کے باوجود بھارت نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔
قارئین کرام! پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام انگریزوں کا اس خطے پر بہت بڑا احسان تھا جو چار کروڑ پچاس لاکھ ایکڑ زرعی زمین کو سیراب کرتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا منصوبہ سندھ طاس معاہدہ تھا۔صدر جنرل ایوب خان، بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور عالمی بینک کے صدر کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر 19 ستمبر 1960ء کو دستخط ہوئے تھے، جس سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا تعمیری منصوبہ شروع ہوا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق منگلا اور تربیلا ڈیموں کی تعمیر کے علاوہ پانچ بیراج، ایک سائفن اور آٹھ الحاقی نہریں بنائی گئی تھیں۔ بھارت نے پاکستان کو 62 لاکھ پاؤنڈ کی ادائیگی کی تھی اور پاکستان کو دس سال کا وقت دیا گیا تھا تاکہ وہ اپنی الحاقی نہروں کے ذریعے پانی کی ضروریات پوری کر سکے۔ اس منصوبے کے لیے عالمی بینک کے ساتھ ساتھ برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور مغربی جرمنی نے بھی فنڈنگ فراہم کی تھی۔
راقم الحروف نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، برصغیر میں امن و امان کے خواب کو ہمیشہ بھارتی رویے کی تلخیوں میں بکھرتے دیکھا ہے۔ پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے دردناک حملے کے بعد بھارتی حکومت نے جو فوری اور سخت ردِعمل دیا ہے وہ شاید دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ ایک بار پھر پاکستان دشمنی کے بیانیے کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔ نریندر مودی کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں جس تیزی سے پاکستان مخالف اقدامات کی فہرست سامنے آئی، وہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا بھارت واقعی امن کا خواہاں ہے یا وہ ہر سانحہ کو پاکستان پر تھوپ کر اپنی سیاست چمکانا چاہتا ہے؟سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر جنگوں کے سائے میں بھی آنچ نہ آئی، جسے عالمی بینک کی گارنٹی حاصل ہے، اور جو دونوں ملکوں کی زرعی، اقتصادی اور معاشی بقاء سے جڑا ہوا ہے۔ اس معاہدے کو توڑنا صرف پاکستان کے خلاف جارحیت نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے امن، ماحولیات، اور خطے کی بقا کے خلاف کھلی جنگ ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ اس معاہدے کو عزت دی۔ حتیٰ کہ بھارتی خلاف ورزیوں کے باوجود مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے۔ لیکن بھارت، جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے اس معاہدے کو بار بار اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا رہا ہے۔ دریاؤں پر پن بجلی منصوبے، کمشنرز اجلاس سے انکار اور اب معاہدے کی یکطرفہ معطلی، یہ سب اس کی بدنیتی کی علامتیں ہیں۔بھارتی حکومت کی جانب سے سارک ویزوں کی منسوخی، سفارتی عملے کی کمی، اور واہگہ بارڈر کی بندش جیسے اقدامات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ بھارت خطے میں سفارت کاری، تعلقات، اور اعتماد کی فضا کو دفن کرنا چاہتا ہے۔ یہ وہی بھارت ہے جو عالمی فورمز پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا علم اٹھاتا ہے، مگر خود اپنے اندرونی مسائل اور ناکامیوں کا ملبہ ہمیشہ پاکستان پر ڈال کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا خطے کا امن اس رویے سے قائم رہ سکتا ہے؟ کیا کشمیر میں بے گناہوں کی جانوں کا انتقام پاکستان سے لینا انصاف کہلائے گا؟ کیا بھارت کو عالمی قوانین، معاہدات اور اخلاقی ذمہ داریوں کا کوئی پاس ہے؟وقت آ چکا ہے کہ عالمی برادری بھارت کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کا نوٹس لے۔ سندھ طاس معاہدہ صرف پاکستان کا نہیں، بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی توازن کا ضامن ہے۔ اگر بھارت نے اپنی روش نہ بدلی تو خطے میں صرف پانی ہی نہیں بلکہ امن کی ندیاں بھی خشک ہو جائیں گی۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ سفارتی محاذ پر بھرپور کردار ادا کرے اور عالمی اداروں کو اس بھارتی ہٹ دھرمی سے آگاہ کرے۔ بھارت کی منفی سوچ کو بے نقاب کرنا اب صرف پاکستان نہیں، بلکہ انسانیت کی بقاء کا بھی تقاضا ہے۔بھارت شاید بھول گیا ہے کہ دریاؤں کا راستہ بند کرنا دلوں کا راستہ بند کرنے کے مترادف ہے۔ پانی صرف زمین کو نہیں، قوموں کو بھی زندہ رکھتا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ صرف سیاہی اور کاغذ کی تحریر نہیں، یہ کروڑوں انسانوں کی زندگی، امید اور روزگار کا محافظ ہے۔ آج جب بھارت اس معاہدے کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھانا چاہتا ہے، تو یہ صرف ایک معاہدے کی نہیں، انسانیت کی شکست ہوگی۔
یہ لمحہ خاموش رہنے کا نہیں، دنیا کو جھنجھوڑنے کا ہے۔ پاکستان نہ تو پانی کے ایک ایک قطرے سے دستبردار ہو گا اور نہ ہی امن کے چراغ کو بجھنے دے گا۔ بھارت کو سمجھنا ہو گا کہ نفرت کی سیاست وقتی فائدہ تو دے سکتی ہے مگر تاریخ میں اس کا نام صرف تباہی کے سبب یاد رکھا جائے گا۔ ہم نے جنگیں بھی جھیلی ہیں، زخم بھی سہے ہیں، لیکن جب بات اپنی مٹی، اپنے دریاؤں اور اپنے مستقبل کی ہو، تو ہم کسی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ کیونکہ یہ صرف پانی نہیں، ہماری زندگی ہے۔ ہمارا حق ہے، ہمارا وجود ہے۔اب فیصلہ دنیا کو کرنا ہے امن کے ساتھ کھڑا ہونا ہے یا انتہا پسندی کے ساتھ؟ کیونکہ خاموشی، اب خود ایک جرم بن چکی ہے۔
تبصرہ لکھیے