ولایت میں چند برس گذارنے کے دوران اپنے دوستوں کو اسلامی شریعت کی اصطلاح ”دارلکفر“ اور ”دارالاسلام“ کا فرق سمجھاتا رہا۔ ایک بڑی تعداد ”گلے گلے“ تک اس تصور میں دھنسی ہو ئی ہے کہ پاکستان سمیت اکثر ”دارالاسلاموں“ کی نسبت انصاف پسند مغربی معاشرہ ہزار گنا بہتر ہے۔ ان کے خیال میں مغربی لوگ جھوٹ نہیں بولتے، چوری بازاری اور بےایمانی ان کا شیوہ نہیں، مفافقت نہیں کرتے، بہت مہذب ہیں اور برداشت کا مادہ رکھتے ہیں، شخصی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی بے مثال ہے، جمہوریت اور احتساب کا نظام بہترین ہے، ترقی ان کے مرہون منت ہے اور ہم تو صرف ”لینے والی“ طرف ہیں، مزید یہ کہ وہ ”دینے والی“ طرف، جبکہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اگراچھی طرح تبلیغ کی جائے تو مغرب مسلمان بن جائے گا اور صرف کلمہ پڑھنے سے وہاں اسلامی شریعت عملاً نافذ ہو جائے گی، کیونکہ ان کے باقی ”اوصاف ِحمیدہ“ تو عین مطابقِ شریعت ہیں، بس کلمہ پڑھنے کی دیر ہے، اسی لیے ہم تو بس اب ولایتی ہیں (اصل اصطلاح جس پر زور دیا جاتا ہے وہ ہے برٹش مسلم، سکاٹش مسلم، امریکن مسلم وغیرہ )۔ ویسے بھی اسلام میں وطن پرستی حرام ہے، بچے عربی سیکھ لیں، دین اور اسلام خود بخود سمجھ آجائے گا۔ اسی لیے عربی کی کلاسوں پر زور دیتے ہیں (چاہے وہاں بھی کلاسوں کا ماحول ”فُل ولایتی“ ہو )۔ ہمارا اور ہمارے بچوں کا دیس اب یہی ہے۔ پاکستان سے ہمارا کیا لینا دینا؟ پاکستان میں رکھا کیا ہے؟ رشتہ داروں کی نظر ہماری دولت پر ہوتی ہے اور وہ دھوکے اور فراڈ سے باز نہیں آتے، اسی لیے ہر رشتہ مطلبی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی خیال کے مطابق وہاں کی اکثریت اُٹھتے بیٹھتے پاکستان کو کوستی رہتی ہے۔ ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ کو ن سی بُرائی ہے جو کہ پاکستان میں نہیں ہوتی۔ جنہیں انگور کا رس چاہیے ہے وہ بھی ملتا ہے، جو کسی ناری کی مہکتی ہوئی خوشبووں کے اسیر ہیں وہ پا لیتے ہیں، پاکستان کے وزیر ، سیاستدان اور معاشرہ سب کرپٹ ہیں اس لئے ہم نے تو اب بس یہیں بسنا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان باتوں میں کچھ نہ کچھ وزن بھی ہے، پاکستانی معاشرہ واقعی چند خرابیوں میں بُری طرح جکڑا ہوا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اخلاقی طور پر زوال پذیر ہے۔ تاہم مغربی جمہوریت کتنی آزاد اور انصاف پسند ہے اس کا مکمل جائزہ کسی ایک نشست میں لینا ممکن نہیں۔ اگر برطانیہ اور امریکہ کے قصیدہ خوان وہاں کی ان دیکھی اسٹیبلشمنٹ اور اس کی ترجیحات کا جائزہ لینا چاہیں تو برطانیہ اور امریکہ میں ہو نے والے سابقہ الیکشنز کو قریب سے دیکھ لیں یا پھر حال ہی میں ہونے والے ”بریگزٹ“ کے معاملے کو تو ان ممالک کی اصل حکمران قوتوں کے بار ے میں اندازوں سے بڑھ کر حقائق معلوم ہو ں گے۔ امریکہ کے حالیہ الیکشنز کے معاملے میں بھی ہمارے ولایتی بھائی اور ہمارا میڈیا حقیقت پسندی کے بجائے اپنی خواہشات اور جذبات کا اسیر دکھائی دیتا ہے۔ میرے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ کا جیتنا مسلمانوں اور باالخصوص پاکستانیوں کے لیے اس لحاظ سے شاید بہتر ثابت ہو کہ برطانیہ کے مسلمانوں کی طرح ان کی آنکھیں بھی کھل جائیں۔ اس میں کو ئی دوسری رائے نہیں کہ عرصہ دراز سے مغرب میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد ایک کثیر زرمبادلہ پاکستان بھیج رہی ہے تاہم اس کے باجود یورپ، برطانیہ اور امریکہ میں مقیم پاکستانی وہاں کی معیشت میں بھی ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
ٹرمپ کے جیتنے کی صورت میں ایک قابل غور توجہ پہلو یہ بھی ہے کہ وہاں سے خوفزدہ پاکستانی واپسی کے بارے میں ایک بار ضرور سوچیں گے۔ میرے کئی دوست اس پر مجھ سے اظہار خیال کر چکے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ برطانیہ میں موجود میرے کئی دوست گذشتہ تین سالوں میں ”نفرت انگیزی“ یا Hate Crimes کی وجہ سے وطن واپسی یا پھر جزوی طور پر یہاں پر بھی اپنے لیے دروازے کھلے رکھنے کےراستے پر گامزن ہیں۔ بالکل اسی طر ح ”اب کی بار – ٹرمپ سرکار“ کے آتے ہی امریکہ سے بھی پاکستانیوں کی ایک بڑ ی تعداد وطن واپسی یا پھر یہاں پر اپنے لیے قابل عزت آپشنز بنانے پر غور کرے گی۔ کیا پاکستان کی حکومت اور یہاں کے پالیسی ساز ادارے اس پر سوچ رہے ہیں کہ وہ کیسے ان پاکستانیوں کو وہ سب سہولتیں دینے کا اہتمام کریں کہ جس سے یہاں پر ایک اچھی اور مثبت معاشی سرگرمی پیدا ہو۔ لیکن کیا کہیے کہ یہاں پر حالات ایسے بالکل بھی نہیں دکھ رہے۔ بلکہ یہاں پر تو پہلے سے موجود سی پیک کی وجہ سے پیداہونے والے سرمایہ کاری کے مواقع سے اپنے مقامی سرمایہ کاروں کو اور ملک کو فائدہ پہنچانے کے لیے سرے سے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں کی گئی۔ ایک دوست نےچند روز قبل لاہور میں ہونے والی ایک کنسٹرکشن کانفرنس اور اس میں بین الاقوامی اداروں کے مقابلے میں مقامی سرمایہ کاروں کے احوال سے متعلق جو صورتحال بتائی ہے اس پر الگ سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ لگتا یہ ہے کہ چین کی جانب سے ہمارے ملک میں لگائے جانے والے تنور میں ایندھن کے طور پر تو ہم جلیں گے مگر روٹیاں کوئی اور پکائے گا اور فروخت کسی اور کو ہوں گی، ہمارےحصے کی بھوک ہم ہی بھگتیں گے۔ ہمیشہ کی طرح ”ہر بحران میں سے اچھائی کے مواقع“ موجود ہونے کی صورت میں ٹرمپ کی جیت پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے جو مواقع لائی ہے، ہم اور ہمارا ملک اس کے لیے بالکل بھی تیار نہیں۔ اگر ہم تیار ہوتے تو میں بہت پُرجوش ہو کر تمام پاکستانیوں کی طرف سے بھرپور نعرہ لگا کر کہتا، ”ویلکم مسٹر ڈونلڈٹرمپ“
(انعام الحق مسعودی ماس کمیونیکیشن میں گریجوایشن کے ساتھ برطانیہ سے مینیجمنٹ اسٹڈیز میں پوسٹ گریجوایٹ ہیں۔ گذشتہ سترہ برس سے سوشل سیکٹر، میڈیا اور ایڈورٹائزنگ انڈسٹری سے منسلک ہیں اور ایک پروڈکشن ہاؤس چلانے کے ساتھ ساتھ رفاہی اور سماجی تنظیموں کے لیے بطور فری لانس اور ٹرسٹی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔)
تبصرہ لکھیے