ہوم << ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: الوداع- وقاص انجم جعفری

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: الوداع- وقاص انجم جعفری

مرنے والے کی جبیں روشن ھے اس ظلمات میں
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو بھی باری تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں طلب کر لیا۔ ان کے بارے میں سوچنے بیٹھوں تو سب سے پہلے یہ اشعار ذہن میں آتے ہیں۔
زندگانی را بقا از مدعاست
کاروانش رادرااز مدعاست
زندگی درجستجوپوشیدہ است
اصل او در آرزو پوشیدہ است
زندگی کی بقا مقصد سے ہے۔ یہ وہ کارواں ہے جس کی درا مقصدیت ہے۔ زندگی جستجو کا نام ہے اور اس کی اصل آرزو میں پوشیدہ ہے۔
فکر اقبال کی جستجو میں انہوں نے اسرارِ خودی کے ان اشعار کو یوں حرزِ جاں بنا لیا تھا کہ لگتا ہے اس کے علاوہ بقیہ اشیاء ان کیلئے بے معنی ہو گئی تھیں۔ ہر وقت تحقیق میں مگن، ہر دم جستجو میں غلطاں، انہیں جب بھی دیکھا کسی نہ کسی نئے علمی منصوبے کی تیاری یا تکمیل کے مراحل میں مصروف دیکھا۔ اس دھان پان سے آدمی کو خدا نے اتنا بڑا ذہن دیا تھا کہ وہ کسی حالت میں تھکتا ہی نہ تھا، بدن تھک جائے تو اور بات ہے۔ یہ بھی ایک عجیب تضاد تھا۔ ایک دفعہ والد محترم،ان سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے، تو ھاشمی صاحب محو استراحت تھے، مل نہ سکے۔ بعد میں رقعہ بھیجا کہ معذرت چاہتا ہوں، دن کو قیلولہ نہ کروں تو بیٹھا نہیں جاتا، کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
درجنوں کتابوں کی ترتیب، تصنیف و تالیف اور اس کے ساتھ ساتھ تدریس پھر مولانا مودودی پر کام، ڈاکٹر صاحب صحیح معنوں میں ’’جناتی‘‘ انسان معلوم ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ہمیشہ میں تعجب کا شکار رہا کرتا تھا کہ یہ آدمی اپنے کام کا ایسا غواص ہے کہ ہر دفعہ کوئی نیا موتی ڈھونڈ لاتا ہے لیکن زندگی اور اس کے چھوٹے چھوٹے مسائل سے ایسا بے گانہ ہے کہ اسے کسی شے کی جستجو ہی نہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے ڈاکٹر مشتاق مانگٹ صاحب کے سفرنامہ ہندوستان کی تقریب پذیرائی پر پنجاب یونیورسٹی میں تشریف لائے۔ ہم نے اپنے تئیں انہیں مہمان خصوصی قرار دیا تھا، جبکہ ڈاکٹر صاحب ایسے شرمیلے اور ایسے کم گو کہ منٹ دو منٹ بات کر کے اسٹیج سے اتر آئے۔ نہ علمیت کا کوئی زعم نہ امتیازی سلوک کا مطالبہ۔۔۔۔۔۔۔ گمان ہے کہ انہیں گوہر مراد اپنے کام سے مل جاتا ہو گا اس لیے لوگوں سے کبھی انہیں اپنے لیے کچھ طلب کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ لوگ خود اتنی عزت کرتے تھے تو اس پر بھی شاید دل میں حیران ہوتے ہوں کہ بھئی جو شے میں نے ڈھونڈ کر نکالی ہے اس کا لطف تو میں ہی جانتا ہوں اور میرا معاوضہ بھی اس کا حصول ہی تھا، تم مجھے کیوں پلکوں پر بٹھاتے ہو!!! میں تو جو پانا چاہتا تھا پا چکا؟
جاوید نامہ:
مئے دیرینہ و معشوقِ جوان چیزی نیست
پیشِ صاحب نظران حور و جنان چیزی نیست
پرانی شراب اور خوبصورت محبوب کیا شے ہے۔ صاحب نظر کے سامنے حور و جناں کی کوئی وقعت نہیں۔
ہاشمی صاحب کا تعلق سرگودھا کے جس خاندان سے ہے ،وہ مجازاً نہیں حقیقتاً "ایں خانہ ہمہ افتاب است"ہے۔حکیم عبدالرحمان ہاشمی،حکیم عبدالعزیز ہاشمی،ڈاکٹر فرحت ہاشمی،نگہت ہاشمی،ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی۔ ان بزرگوں کا فیض،ہمارے ہم عمرو ہم عصر ، خالد فاروق بسرا،ڈاکٹر محمود زبیری،پروفیسرایوب منیر،خالد محمود، یحیی عبدالعزیز،محبوب ہاشمی اور شعیب ہاشمی کی صورت میں جاری وساری ہے۔میانوالی کے قیام کے دور میں تو ہم حکیم عبدالعزیز ہاشمی سے معنوی طور پر بیعت تھے،جن کا 'مطب' ہم جیسے نوآموزوں کے لئے شفقت ورہنمائی،میزبانی ومہربانی کے عنوانات لئے ہوئے تھا۔مجھے یقین ہے کہ شعروادب اور علم وفن کی مشترکہ لڑی میں پروئے ہونے کے سبب ابو جان مرحوم (سید انجم جعفری) کی رفیع الدین ھاشمی صاحب سے ضرور یاداللہ ھوگی۔ لاہور منتقل ہونے کے بعد ان دونوں بزرگوں کی ملاقاتیں ،کتب کے تبادلے اور خطوط سے یہ بات ثابت بھی ہوگئی۔ڈاکٹر صاحب کو خدا نے بڑی باریک بیں فطرت سے نوازا تھا۔ یہی نظر تحقیق کیلئے موزوں ہوا کرتی ہے۔ ابو جان کے ساتھ ان کو جو پاس مروت تھا اس کا اندازہ اس بات سے ہوا کہ ان کی وفات کے کئی سال بعد ابھی دو سال پہلے ڈاکٹر صاحب کی جانب سے ایک خط موصول ہوا۔ ساتھ کسی اخبار کا تراشا منسلک تھا جو کسی اخبار میں سید انجم جعفری کی کتاب پر چھپنے والے تبصرے سے متعلق تھا۔ مختصر خط میں فرمایا کہ یہ پرانے کاغذات سے برآمد ہوا۔ ممکن ہے آپ کی تحقیق میں کام آئے۔
کہا تو سب کے بارے میں جاتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے واقعی بڑی سادہ زندگی گزاری ہے۔ روزگار کے سلسلے میں تدریس جیسے بے ضرر شعبے سے منسلک تھے۔ علمی کام کرنے والوں کیلئے یہی شعبہ موزوں ترین ہے۔ بنیادی ضروریات یہاں سے پوری ہو جاتی ہوں گی اور ان کے علاوہ انہیں کسی شے سے غرض ہی نہ تھی۔ ممکن ہے کہ اگر انہیں وزیر بنانے کی پیشکش کی جاتی تو یہ کہہ کر صاف انکار کر دیتے کہ میری کتاب کا ہرج ہوتا ہے۔ یہ کام بھی ایسا ہے کہ بڑی بڑی چیزوں سے انسان کو بے نیاز کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس بے نیازی کی عملی تصویر تھے۔
کاروبار دنیا کسی کے آنے یا جانے سے رک نہیں جاتا۔ علمی و تحقیقی کام پہلے بھی جاری تھے اور اب بھی جاری رہیں گے۔ لیکن وہ بے غرضی وہ بے لوثی جو صرف دیوانوں کا حصہ ہوتی ہے، اب کہاں دیکھنے کو ملے گی۔ ایام جوانی میں ایک استاد نے نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سلسلہ روزگار جاری رکھو لیکن علمی کام کرنا چاہو تو وہ کرنا جس میں تمہیں کسی معاشی فائدے کی توقع نہ ہو۔ اس وقت ان کی بات سمجھ نہیں آئی تھی لیکن اب لگتا ہے کہ ایسا کام بے غرضی سے ہی کیا جائے تو وہ سکون نصیب ہوتا ہے جو آدمی کی شخصیت کو مکمل کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت بھی ایسے پزل کی مانند تھی جس میں کوئی خانہ خالی نہ تھا۔
آرزو کو خون رلواتی ہے بیداد اجل
مارتا ہے تیر تاریکی میں صیاد اجل کھل نہیں سکتی شکایت کے لیے لیکن زباں
ہے خزاں کا رنگ بھی وجہ قیام گلستاں
ایک ہی قانون عالم گیر کے ہیں سب اثر
بوے گل کا باغ سے، گلچیں کا دنیا سے سفر

Comments

Click here to post a comment