ہوم << طاؤس و رباب آخر - حبیب الرحمن

طاؤس و رباب آخر - حبیب الرحمن

علامہ محمد اقبالؒ مسلمانانِ عالم کے وہ شاعر تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی خدمت اور اس کے دین کو پھیلانے کیلئے وہ صلاحیتیں عطا کی تھیں جو ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے باوجود کسی اور کو حاصل نہ ہو سکیں۔ ایک مقام پر وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

آج ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب تک مسلمانوں کے دلوں اور ہاتھوں میں قرآن تھا، اس وقت تک وہ آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کرتے رہے اور جو جو ممالک انھوں نے فتح کئے وہاں وہاں اللہ کا نظام عدل و انصاف اتنی خوبی اور احسن انداز میں چلایا کہ لوگ من حیث القوم اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جن جن ممالک پر بھی مسلمان حکمران رہے وہاں وہاں آج تک مسلمان اتنی اکثریت میں آباد ہیں کہ ان کے درمیان غیر مسلم خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ یہ سارے وہ ممالک تھے اور ہیں جن میں آپ (ص) سے پہلے کوئی ایک فرد بھی مسلمان نہیں ہوا کرتا تھا۔ لوگوں کے مسلمان ہوتے چلے جانے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کی سروں پر تلواریں اور سینوں پر خنجر نہیں رکھے ہوئے تھے بلکہ مسلمانوں کا وہ سلوک اور پیار تھا جو اہلِ کفار انھیں کبھی نہ دے سکے تھے۔ ایسے ہی موقع کیلئے علامہ محمد اقبالؒ فرماتے تھے کہ

یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

علامہ محمد اقبالؒ کے نزدیک مسلمانوں کے عروج کی دوسری سب سے بڑی وجہ جذبہ جہاد تھا۔ تاریخ جذبہ جہاد کے انفرادی اور اجتماعی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ چاہے وہ جنگ بدر کے موقعے پر آپ (ص) کی پھوپھی کے ہاتھوں یہودی سردار کے قتل کئے جانے کا واقعہ ہو یا حضرت خولہ (رض) بھائی کو کافروں کی قید سے آزاد کرانے کا جذبہ، سب اس بات کی جانب اشارہ کرتے نظر آئیں گے کہ خواتین ہوں یا مرد، سب کے سب انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر گھڑی اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کرنے کیلئے تیار و آمادہ بیٹھے ہوئے ہوتے تھے۔ ان کے دل میں اگر کوئی خوف ہوتا تھا تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کا ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کامیابیاں در کامیابیاں ان کے قدم چومتی دکھائی دیتی تھیں۔

جذبہ جہاد کا عالم یہ تھا کہ ایک مرتبہ عین جنگ کے دوران کفار کے لشکر سے ایک سوار دوڑتا ہوا آیا اور آپ (ص) کے سامنے حاضر ہو کر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول (ص) اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو کیا میری زندگی کے سارے گناہ دھل جائیں گے، فرمایا یقیناً، اس نے فوراً کلمہ پڑھ لیا اور مسلمانوں کے صف میں شامل ہو گیا۔ صحابہ کرام نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور اس کی جھولی کھجوروں سے بھردی۔ اس نے ایک نظر کھجوروں پر ڈالی اور نظریں اٹھاکر آپ سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول کیا میں ابھی ابھی جنگ کرتے ہوئے شہید ہو جاؤں تو کیا کوئی نماز ادا کئے بغیر بھی جنت میں چلا جاؤں گا، آپ (ص) فرمایا بے شک ایسا ہی ہوگا، یہ سننا تھا کہ اس نے ساری کھجوریں زمین پر پھینک دیں اور کہا کہ اب یہ کھجوریں جنت میں جاکر ہی کھاؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ بجلی کی طرح گھوڑے کی پشت پر سوار ہوا اور کفار کے لشکر میں جا گھسا۔

مسلمانوں کی جنگوں میں فتوحات اور دورانِ جنگ حرب و ضرب کے واقعات پڑھو یا سنو تو کان اور آنکھیں یقین کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے موجودہ دور کی فلمیں ہوں جس میں ہیرو یا ہیرو کے ساتھیوں کو ما فوق البشر دکھایا جاتا ہے اور ایک ہیرو یا اس کے چند ساتھی سیکڑوں افراد کے قدم اکھاڑ کر رکھ دیتے ہیں لیکن اسلامی تاریخ ایسے بیشمار واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں مسلمانوں کے بہت جھوٹے لشکروں نے اہل کفار کے ہزاروں لاکھوں کے تعداد پرمشتمل لشکروں کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جنگِ یرموک کے موقع پر لڑا جانے والے ایک واقعہ ذیل میں درج کر رہا ہوں جس کو پڑھ کر انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے اور بالکل ایسا ہی لگتا ہے جیسے یہ سارا واقعہ کوئی قصہ کہانی ہو۔

"یرموک کا میدان ہے رومیوں کا بہت بڑا لشکر سامنے ہے ابوعبیدہ کو اطلاح ملی کے رومیوں کا ساٹھ ہزار نصرانی عرب کا لشکر جنگ کے لیے آ گیا ہے ابو عبید ہ بن جراح نے لشکر کو تیاری کا حکم دیا پر خالد بن ولید نے پکارا، اے مسلمانوں ٹھہر جاو توقف کرو رومیوں نے ساٹھ ہزار عرب بھیجے ہیں میں آج ان کی ناک خاک آلود کروں گا میں تیس 30 آدمیوں کے ساتھ اس لشکر کا مقابلہ کروں گا یہ بات سن کر سب مجاہد تعجب میں پڑ گئے کہ شاید خالد خوش طبعی کے طور پر بات کر رہے ہیں۔ ابو سفیان نے پوچھا کیا واقعی آپ 30 آدمی لے کر جائیں گے تو حضرت خالد نے کہا ہاں واقعی میرا یہی ارادہ ہے۔

ابو سفیان نے کہا مجاہدوں سے میری محبت کی وجہ سے میری درخواست ہے تم 30 کی بجائے 60 آدمی لے جا ابو عبید ہ نے بھی تائید کی تو حضرت خالد مان گئے اب یہ 60 مجاہدین کا لشکر 60 ہزار کے لشکر سے جنگ کرنے جا رہا ہے۔ اہل کفار کے لشکر کے سردار جبلہ بن ایہم غسانی نے جب دیکھا کے مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ آ رہا ہے تو سمجھا کہ مسلمان ڈر کے مارے صلح کرنے کے ارادے سے آ رہے ہیں۔ وہ خالد بن ولید سے کہتا ہے کہ میں اپنی شرائط پر صلح کروں گا۔ خالد نے جواب دیا، صلح نہیں ہم تجھ سے جنگ کرنے آے ہیں۔ جبلہ بن ایہم بولا جا اپنا لشکر لے کر آ۔ خالد نے مجاہدوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ ہے میرا 60 افراد کا لشکر۔ جبلہ بن ایہم نے کہا میں نہیں چاہتا عرب کی مائیں طعنہ دیں کہ جبلہ بن ایہم نے 60 ہزار کے لشکر نے 60 آدمیوں پر چڑھائی کر دی۔ خالد بن ولید نے کہا ہمارا ایک مرد تیرے ایک ہزار کے برابر ہے تو حملہ کر پھر دیکھ تیراکیا حشر ہوگا۔

اللہ ہمارے ساتھ ہے یہ بات سن کر جبلہ آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے لشکر کو حملے کا حکم دیا 60 ہزار کا لشکر 60 افراد پر ٹوٹ پڑا اور چاروں طرف سے گھیر لیا لگتا تھا یہ سمندر ان کو بہا کر لے جائے گا لیکن اسلام کے یہ شیر دل بہادر مجاہد اس سیلاب کے سامنے ڈٹے رہے اور تیز رفتار تلوار زنی کر کے دشمن کو پاس نہ آنے دیا مجاہدین نعرہِ تکبیر بلند کر کے ساتھیوں کو جوش دلاتے مگر اس رومی لشکر کے شور میں یہ آواز دب جاتی خالد بن ولید اور ان کے ساتھیوں میں ضرار بن ازور۔ زبیر بن عوام۔ عبد اللہ بن عمر۔ عبد الرحمٰن بن ابی بکر۔

فضل ابن عباس نے حصار کی صورت گھوڑے ملا لیے اس طرح ایک دوسری کی حفاظت کرتے خود کو اور اپنے ساتھی کو دشمن کے وار سے بچاتے اور دشمن کو قتل کرتے رہے صبح سے شام ہو گئی رومی سپاہی نڈھال ہو گئے مگر مجاہدین تازہ دم لگ رہے تھے جب شام تک ابو عبید ہ کو کچھ خبر نہ آئی تو لشکر کو حملے کا حکم دینے لگے تو ابو سفیان نے کہا اے ابو عبید ہ اب رک جا اور اللہ کے فیصلے کا انتظار کر ان شا اللہ وہ دشمن پر غلبہ پا لیں گے تھوڑی دیر بعد جبلہ کا لشکر پیٹھ دیکھا کر بھاگا اور مجاہدین نے آواز بلند کی لاَ إِلهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ یہ لشکر یوں ڈر کے بھاگا گویا کسی آسمانی مخلوق نے ڈرایا ہو اور جبلہ بن ایہم سب سے آگے تھا اس معرکے میں 10 مسلمان شہید ہوئے 5 مسلمان قیدی ہوئے رومیوں کے 5 ہزار لوگ قتل ہوئے (حوالہ جات مردانِ عرب جلد 2 صحفہ 56 فتوح الشام از علامہ واقدی صحفہ 209)۔

سنہ 8 ہیجری، حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔ تاریخ اسلام میں اس جنگ کا دوسرا نام غزوہ ہوازن بھی ہے۔ اس لئے کہ اس لڑائی میں بنو ہوازن سے مقابلہ بھی تھا۔ مکہ کے قرب و جوار میں دو قبیلے آباد تھے جن کا نام بنو ثقیف اور بنو ہوازن تھا۔ فتح مکہ کے بعد بھی انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ یہ بڑے بہادر، جنگجو اور فنون جنگ سے واقف سمجھے جاتے تھے۔ ان لوگوں نے یہ خیال قائم کر لیا تھا کہ فتح مکہ کے بعد ہماری باری ہے۔ اس لیے ان لوگوں نے یہ طے کر لیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کر دیا جائے۔

چنانچہ حضور (ص) نے عبد اللہ بن ابی حدرد کو تحقیقات کے لیے بھیجا۔ جب انہوں نے وہاں سے واپس آکر ان قبائل کی جنگی تیاریوں کا حال بیان کیا اور بتایا کہ قبیلہ بنو ہوازن نے اپنے تمام قبائل کو جمع کر لیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیس اعظم مالک بن عوف ان تمام افواج کا سپہ سالار ہے نیز سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا، درید بن الصمہ جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر، میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تاکہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کرسکے۔ نبی کریم 8 ہجری میں بارہ ہزار مجاہدین کے ساتھ ان کے مقابلے کو نکلے۔ ان میں دو ہزار سے زائد نو مسلم اور چند غیر مسلم بھی شامل تھے۔

دشمنوں نے اسلامی لشکر کے قریب پہنچنے کی خبر سنی تو وادی حنین کے دونوں جانب کمین گاہوں سے اس زور کی تیر اندازی کی کہ مسلمان سراسیمہ ہو گئے۔ مکہ کے نو مسلم افراد سب سے پہلے ہراساں ہو کر بھاگے۔ ان کو دیکھ کر مسلمان بھی منتشر ہونا شروع ہو گئے۔ خود رسول اللہ تلوار ہاتھ میں لے کر رجز پڑھ رہے تھے۔ ’’انا النبی لاکذب انا ابن عبد المطلب‘‘ آپ کی ثابت قدمی اور شجاعت نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کیے اور یہ مٹھی بھر آدمی دشمن کے سامنے ڈٹے رہے۔ جنگ شروع ہوئی تو لڑائی کا رنگ بدل گیا۔ کفار مقابلے کی تاب نہ لاسکے اور بھاگ نکلے۔ (انٹر نیٹ سے ماخوذ)۔

مسلمانوں کی تاریخ فتوحات سے بھری پڑی ہے۔ مسلمانوں میں بڑے بڑے سالار پیدا ہوئے جن میں ایک عظیم نام حضرت خالد بن ولید کا بھی ہے۔ حضرت خالد بن ولید (رض) کے قبول اسلام سے قبل بھی حضور(ص) ان کو بہت پسند کرتے تھے۔ جب حضور(ص) کے سامنے جناب خالد کی تعریف کی جاتی تھی تو حضور(ص) فرمایا کرتے کہ یہ خصوصیات جس شخص میں ہونگی، وہ ضرور اسلام قبول کرے گا۔جس طرح آپ (ص) نے سیدنا عمر بن خطاب (رض) کے بارے میں قبول اسلام کی دعا فرمائی تھی، اسی طرح خالد (رض) کے بارے میں بھی حضور(ص) کی خواہش تھی کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔ کیونکہ ان صلاحیتوں کے حامل مجاہد، جنگجو اور جانباز کی اسلام کو اشدضرورت تھی۔ آخر یہی ہوا کہ 8 ہجری میں فتح مکہ سے پہلے، حضرت خالد بن ولید (رض) ، حضرت عمرو بن العاص (رض) اور حضرت عثمان بن طلحہ (رض)، حضور (ص) کے پاس تشریف لائے اور اسلام قبول کرلیا۔ تب حضور(ص) نے بہت خوشی کے ساتھ فرمایا کہ اے لوگو! مکہ نے اپنے جگر گوشے تمہارے دامن میں ڈال دیئے ہیں۔

ماہ مئی 2016 کو تاریخ اسلام کے حوالے سے ایک بہت ہی دلچسپ مضمون انٹر نیٹ کی زینت بنا جس کو میں ذیل میں درج کرونگا لیکن اس سلسلے میں چند ضروری باتیں بھی ہیں جس کو میں لازماً درج کرنا چاہوں گا کہ۔ مسلمان مجاہدین کی جنگی مہارت کا ایک جانب یہ عالم ہو گیا تھا کہ ان کی پیش قدمی کا سنتے ہی اہلِ کفار کے بڑے بڑے جنگجوؤں پر ہیبت طاری ہونا شروع ہو جاتی تھی تو دوسری جانب ان پر کئے جانے والے اعتماد کا بھی عالم یہ تھا کہ جب مسلمان کسی سے کوئی معاہدہ کر لیتے تھے تو اہلِ کفار کو اس بات کا کلی اطمینان ہو جاتا تھا کہ اب ان کو امان مل چکی ہے اور مسلمان بہر صورت کئے گئے معاہدے پر ومل کریں گے۔ اس سلسلے میں جو کچھ ذیل میں درج کرنے جا رہا ہوں وہ مجاہدین کی اہلِ کفار پر چھا جانے والی دہشت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے عہد نبھانے والے اعتماد پر یقین رکھنے کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا یہی سلوک اور انصاف تھا جس کی وجہ سے مفتوح اقوام من حیث القوم اسلام قبول کرتی چلی گئیں۔ ایسی مثالیں دیگر فاتح قوموں میں شاید ہی کہیں دیکھی یا سنی گئیں ہوں۔

" جنگ یرموک میں رومی لشکر شکست فاش کھا کر بھاگا اورمقامِ فحل میں جاکر رُکا ہرقل نے احکام جاری کئے جن کے موافق فحل میں بھی اور دمشق میں بھی رومی لشکر عظیم مقابلہ کے لئے فراہم ہوگیا، دمشق کی خوب مضبوطی کرلی گئی، اورفلسطین وحمص کی طرف سے بوقت ضرورت دمشق والوں کو مزید کمک بھیجنے کا اہتمام بھی ہوگیا، افواج دمشق کا سپہ سالار اعظم ہرقل نے نسطاس بن نسطورس کو مقرر کیا اورہامان نامی بطریق دمشق کا گورنر پہلے سے وہاں موجود تھا اسلامی لشکر ابھی یرموک ہی میں خیمہ زن تھا،حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے فاروقؓ اعظم کے حکم کے موافق لشکرِ عراق پر جو خالد بن ولیدؓ کے ہمراہ عراق سے آیا تھا،ہاشم بن عتبہ کو امیر مقرر کرکے عراق کی جانب روانہ کردیا.

ایک دستہ فوج فحل کی جانب روانہ کیا، باقی فوج کے چند حصے کرکے ایک حصہ ذوالکلاعؓ کی سرداری میں روانہ کیا کہ دمشق اورحمص کے درمیان مقیم رہ کر اُس فوج کو جو ہر قل حمص سے دمشق والوں کی کمک کو روانہ کرے روکیں، ایک حصہ کو فلسطین ودمشق کے درمیان متعین کیا کہ فلسطین کی طرف سے رومی فوجوں کو دمشق کی جانب نہ آنے دیں، باقی فوج لے کر حضرت ابو عبیدہؓ خود دمشق کی جانب متوجہ ہوئے،دمشق پہنچنے سے پہلے مقام غوطہ کو فتح کیا،آخر ماہِ رجب 13 ھ میں اسلامی لشکر نے دمشق کا محاصرہ کرلیا،شہر میں کافی فوج تھی، لیکن رومیوں کی جرأت نہ ہوئی، کہ میدان میں نکل کر مسلمانوں کا مقابلہ کرتے انہوں نے شہر کی مضبوط فصیلوں اوراپنے سامان مدافعت کی پناہ لینی مناسب سمجھی، حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح باب الحابیہ کی جانب خیمہ زن ہوئے،حضرت خالد بن ولیدؓ اورحضرت عمروبن العاصؓ باب توما کی جانب اُترے.

حضرت شرجیلؓ بن حسنہ فرادیس کی جانب اوریزید بن ابی سفیان باب صغیر وباب کیسان کی جانب فروکش ہوئے، اس طرح دمشق کے چاروں طرف اسلامی لشکر نے محاصرہ ڈال دیا،محصورین شہر کی فیصلوں پر چڑھ کر کبھی پتھروں کی بارش منجنیقوں کے ذریعہ کرتے کبھی تیروں کا مینہ برساتے مسلمان بھی اُن کے جواب دینے میں کوتاہی نہ کرتے اس طرح یہ محاصرہ ماہ رجب 13ھ سے محرم 14 ھ تک چھ مہینے جاری رہا، ہر قل نے حمص سے دمشق والوں کی کمک کے لئے جو فوجیں روانہ کیں اُن کو ذوالکلاعؓ نے دمشق تک پہنچنے نہ دیا؛کیونکہ وہ اسی غرض کے لئے دمشق وحمص کے درمیان مقیم تھے جب چھ مہینے گذر گئے تو دمشق والے ہر قل کی امداد سے مایوس ہوگئے اوراُن میں مقابلہ کرنے کا جوش کم ہونے لگا تو حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح نے اس حالت سے بروقت مطلع ہوکر اور محاصرہ کو زیادہ طول دینا مناسب نہ سمجھ کر ہر سمت کے سرداروں کو حکم دیا کہ کل شہر پر حملہ آوری ہوگی۔

مسلمانوں کی اس جنگی تیاری اورحملہ آوری کا حال معلوم کرکے امراء دمشق کے ایک وفد نے باب توما کی جانب سے حضرت خالد بن ولیدؓ کے پاس آکر امان طلب کی،حضرت خالد بن ولید نے اُن کو امان نامہ لکھدیا اوربلا مقابلہ شہر کے اندر داخل ہوئے،خالد بن ولیدؓ نے جو امان نامہ دمشق والوں کو لکھ دیا اُس کا مضمون اس طرح تھا۔ ‘‘خالد بن ولیدؓ نے دمشق والوں کو یہ رعایتیں دی ہیں کہ جب اسلامی لشکر دمشق میں داخل ہوگا تو دمشق والوں کو امان دی جائے گی اُن کی جان ومال اورگرجوں پر کوئی تصرف نہ کیا جائے گا نہ شہر دمشق کی شہر پناہ منہدم کی جائے گی نہ کسی مکان کو مسمار ومنہدم کیا جائے گا،اسلامی لشکر کا کوئی شخص شہر والوں کے کسی مکان میں سکونت اختیار نہ کرے گا، مسلمان اوران کا خلیفہ بجز نیکی کے کوئی بُرا سلوک دمشق والوں سے نہ کریں گے جب تک کہ دمشق والے جزیہ ادا کرتے رہیں گے’’

ادھر خالد بن ولیدؓ صلح کے ذریعہ شہر میں داخل ہوئے،ٹھیک اُسی وقت باقی ہر سہ جوانب سے اسلامی سردار سیڑھیاں لگا لگا کر اور دروازے توڑ توڑ کر قہر وغلبہ کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے،وسط شہر میں خالدؓ اور ابو عبیدہؓ کی ملاقات ہوئی،ابو عبیدہؓ نے کہا کہ ہم نے شہر کو بزور شمشیر فتح کیا ہے ،خالد بن ولیدؓ نے کہا کہ میں نے بمصالحت شہر پر قبضہ کیا ہے، بعض روایات کی رُو سے معلوم ہوتا ہے کہ بطریق ہامان نے خود امراء دمشق کو بھیج کر خالد بن ولید سے عہد نامہ لکھوا لیا تھا، اوروہ مسلمانوں کے حملہ کی طاقت اورنیچے کو دیکھنا چاہتا تھا کہ اگر مسلمان اپنے متفقہ حملے اورپوری کوشش میں ناکام رہے اور بزور شمشیر دمشق میں داخل نہ ہوسکے تو آئندہ بھی مدافعت کو جاری رکھا جائے گا اورخالدؓ کے عہد نامہ کو کوئی وقعت نہ دی جائے گی۔

لیکن اگر مسلمان اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے اور زبردستی شہر میں داخل ہوئے تو اس عہد نامہ کے ذریعے اُس برتاؤ سے محفوظ رہیں گے،جو بزور شمشیر فتح کئے ہوئے شہر کے ساتھ آئین جنگ کے موافق کیا جاتا ہے ادھر ابو عبیدہؓ بزور شمشیر شہر میں داخل ہوئے اوراُدھر دمشق والوں نے خود دروازہ کھول کر خالد بن ولیدؓ کو شہر کے اندر بلالیا،بہر حال کوئی بات ہوئی،یہ ضرور ہوا کہ خالد بن ولیدؓ بذریعہ مصالحت داخل دمشق ہوئے اور ابو عبیدہؓ بن جراح بزورِ شمشیر۔ وسط شہر میں جب دونوں سردار ملاقی ہوئے تو یہ مسئلہ در پیش ہوا کہ دمشق بزور شمشیر مفتوح سمجھا جائے یا بمصالحت،بعض شخصوں نے کہا کہ خالد بن ولیدؓ چونکہ افواجِ اسلامی کے سپہ سالار اعظم نہ تھے ،لہذا اُن کا عہد نامہ جائز نہیں سمجھا جائے گا ایسا عہد نامہ صرف ابو عبیدہؓ لکھ سکتے تھے .

حضرت ابو عبیدہؓ نے فرمایا کہ مسلمانوں کا کوئی ایک معمولی سپاہی بھی جو عہد و اقرار کرلے گا وہ تمام مسلمانوں کو تسلیم کرنا پڑے گا لہذا خالد بن ولیدؓ کا عہد نامہ جائز سمجھا جائے گا ،اس پر یہ رائے پیش کی گئی کہ وسط شہر سے باب توما تک نصف شہر بذریعہ مصالحت سمجھا جائے گا، اورباقی نصف شہر بذریعہ شمشیر مسخر تصور کیا جائے؛ لیکن حضرت ابو عبیدہؓ نے اس کو بھی پسند نہ فرمایا اور تمام شہر خالد بن ولیدؓ کے عہد نامہ کے موافق بمصالحت مفتوح سمجھا گیا اوران تمام باتوں پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا جن کی نسبت خالد بن ولیدؓ نے اپنے عہد نامے میں تصریح فرمادی تھی،ابن خلدون کی روایت کے موافق خالد بن ولیدؓ بزور شمشیر باب توما کی طرف سے داخل ہوئے ،تو شہر والوں نے باقی دروازوں کے سامنے والے سرداروں سے مصالحت کرکے اُن کو فوراً بمصالحت شہر میں داخل کیا، بہرحال مسلمانوں نے دمشق والوں کے ساتھ مصالحانہ سلوک کیا اور شہر والوں کو کوئی آزار نہیں پہنچایا ابو عبیدہؓ بن جراح نے یزید بن ابی سفیان کو دمشق کا عامل مقرر کیا اوررومی سرداروں نیز سپاہیوں کو دمشق سے نکل کر جہاں اُن کا جی چاہا چلے جانے دیا"

اس بات میں کوئی دو آرا نہیں کہ اسلام اپنے حسنِ اخلاق اور نظامِ عدل و انصاف کے زور پر ہی ہر فرد و بشر کے روئیں روئیں میں اترتا چلا گیا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جذبہ جہاد نے اسے وہ مہمیز عطا کی لوگ جوق در جوق حلقہ بگوشِ اسلام ہونے لگے۔ ہر انسان میں احساسِ تحفظ ہوتا ہے۔ ایمان کی دولت حاصل ہونے کے بعد جب اس کو یہ اعتماد بھی حاصل ہو جاتا ہے کہ دنیوی لحاظ سے اسے تحفظ دینے والی کوئی عظیم قوت بھی موجود ہے تو اس کا جذبہ ایمانی کئی سو گنا بڑھ جاتا ہے۔ مدینے میں اسلامی ریاست قائم ہونے کے بعد اپنی ریاست کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کا شوق و ذوق پیدا ہونا ایک فطری جذبہ تھا اور یہی وہ جذبہ تھا جس نے جنگِ بدر، جنگ احد اور جنگ خندق جیسی آزمائشوں سے گزر جانے کا جنون پیدا کیا۔ فتح مکہ کے بعد تو جیسے ہر فرد و بشر کا اندر کا سویا ہوا فرشتہ بیدار ہو گیا تھا۔

جب تک مسلمانوں نے جذبہ جہاد کے ساتھ ساتھ نظامِ عدل و انصاف کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا، دنیا پر ہی نہیں بلکہ دنیا والوں کے دلوں میں بھی حکومت کرتے رہے لیکن جوں جوں مصلحت پسندی اور دنیا کی آسائشیں حاصل کرنے کا شوق دل میں گھر کرنے لگا، مسلمان زوال پذیر ہوتے چلے گئے اور آدھی دنیا پر قائم اسلامی سلطنت تسبیح کے دانوں کی طرح بکھرتی چلی گئی۔ اسی بات کو علامہ محمد اقبالؒ نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ یوں بیان فرمایا ہے کہ

آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیرِ امم کیا ہے

شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر

Comments

Click here to post a comment

  • جنگ بدر کے موقعے پر آپ (ص) کی پھوپھی نے کوئی یہودی سردار کے قتل نہیں کیا
    یہ واقعہ غزوہ احزاب کا ہے