ہوم << ڈونلڈ ٹرمپ اور ہم - عبدالسلام

ڈونلڈ ٹرمپ اور ہم - عبدالسلام

President-elect Donald Trump pumps his fist during an election night rally, Wednesday, Nov. 9, 2016, in New York. (AP Photo/ Evan Vucci)

عبد السلام پاکستانی ٹی وی چینلز اور اخبارات سے لے کر ایک عام آدمی تک، سب امریکی صدارتی انتخابات میں کافی سرگرم نظر آئے۔ہر جگہ تبصرے اور تجزیے ہوتے رہے کہ اگر ہیلری صدربنی توہم پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔اور اگر ٹرمپ بن گیا تو ہمارا کیا ہوگا۔ ایک پریشانی جو کہ چارسو پھیلی ہوئی تھی ہمیں بھی متاثر کئے بغیرنہ رہ سکی۔ لیکن بھلا ہو پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کا۔ جس نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خوشخبری سنائی کہ امریکی صدر کوئی بھی بنے۔ پاکستان کے لئے ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی۔ لہٰذا کم ازکم ہمیں تو اطمینان ہوگیاکہ جو مرضی امریکی صدر بنے کچھ بدلنے والا نہیں ۔ پاکستان کے ساتھ وہی دوغلی پالیسی اور ڈو مور کے مطالبے ہوں گے اور بھارت کو علاقے کا چوہدری بنانے کی مہم جاری رہیگی۔ لیکن دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑانے کی عادت سے ہم پھر بھی باز نہ آئے اور مسلسل براہ راست کوریج کے ذریعے امریکی انتخابات کو مانیٹر کرتے رہے۔ اس دوران معلوم یہ ہوا کہ زیادہ تر لوگ ٹرمپ سے خوف زدہ ہے جبکہ ہیلری کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔پورے دن کی خبروں ، تجزیوں اورسروے رپورٹس کی جھلکیوں سے ہم نے ہیلری کلنٹن کو امریکی صدر تسلیم کر لیا اور دل ہی دل میں سوچھتے رہے کہ واہ کیا قسمت پائی ہے میاں بھی ایک سپر پاور ملک کا صدر رہا اور اب بیوی بھی۔ اس بات پر بھی خوش ہوتے رہے کہ امریکہ میں بھی ہماری طرح خاندانی سیاست سرایت کر رہی ہے۔ اور امریکی سیاست بھی زوال پذیر ہونے جارہی ہے۔ لیکن شام تک حالات پریشان کن حد تک تبدیل ہو گئے اور اس بدلتی صورتحال میں پنسلوانیا کے نتائج نے ایک کاری ضرب لگا کر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا پینتالیسواں صدر بنا دیا۔ اعلان کے ساتھ ہی پوری دنیا حیرت کدہ بن گئی کہ کیا امریکی عوام ٹرمپ جیسے آدمی کو بھی اپنا صدر بنا سکتی ہے۔ منفی شہرت کے حامل شخص کو کوئی بھی مہذب قوم اپنا لیڈر کیسے بنا سکتی ہے۔
ٹرمپ جو کہ ایک بڑے کاروباری شخصیت ہے سیاست سے دور دور تک ان کا کوئی تعلق نہیں رہا جبکہ ان کے مقابلے میں ہیلری کی ملک کے لئے چالیس سالہ سیاسی خدمات سے سب واقف تھے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹرمپ اب امریکہ کا صدر ہے۔ اور اس کے صدر ہونے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں اور آپ کیا سوچھتے ہیں یا امریکہ کے چند شہروں میں چند ہزار مظاہرین کیا نعرہ لگاتے ہیں۔ کیونکہ وہ امریکہ کے اکثریت کا منتخب نمائندہ ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہوا۔اور اس میں ہمارے لیے کیا سبق ہے۔ تجزیہ نگار اس کی مختلف وجوہات پر سیر حاصل تبصرے کر رہے ہیں لیکن میری ناقص رائے میں اس کا جواب یہ ہے کہ قومیں ہمیشہ نڈر اور بے باک قیادت کو اسلئے پسند کرتی ہے کیونکہ وہ بولڈ فیصلے کرنے سے نہیں کتراتے، چیلنجز کا سامنا بہادری سے کرتے ہیں اورڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اسلئے جب بھی کوئی ایسا آپشن موجود ہو لوگ اس کا انتخاب کرتے ہیں۔ ترکی کا طیب ارودوان ہو یا بھارت کا نریندر مودی، ان کی باقی خوبیاں اور خامیاں اپنی جگہ لیکن ان میں یہ خاصیت موجود ہے کہ اپنے موقف کوبھرپور انداز میں بیان کرتے ہیں اپنی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں اور بولڈ فیصلے کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے بلا جھجھک اسلام اور مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور امیگرینٹس کو امریکہ کے بڑے مسائل میں سے ایک قرار دیتے ہوئے اس کو حل کرنے کا وعدہ کیا۔ گزشتہ نصف صدی سے پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے ذریعے جو پروپیگنڈہ کیا گیا اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں غیر مسلموں کی اکثریت تمام مسائل کی جڑ اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنے لگی۔ ایسے میں ٹرمپ کے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقاریر نے امریکہ کے ووٹر کو متاثر کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے تناظر میں نئے مواقع اور نوکریاں دینے کے اعلان نے بھی ٹرمپ کے سپورٹرز میں اضافہ کیا۔
اس الیکشن کے نتائج سے ایک اور پہلو بھی نمایاں ہو گیا کہ امریکی عہدیدار جو کہ ہمیں اعتدال پسندی کا درس دیتے نہیں تھکتے، خود وہاں کے عوام نے ایک انتہا پسند شخص کو منتخب کر کے یہ واضح کر دیا کہ امریکی معاشرہ خود کتنا انتہا پسند ہے۔ عورت کا مرد کے برابر ہونے کا بھاشن دینے والے ملک میں اکثر ووٹرز نے ہیلری کو اسلئے ووٹ نہیں دیا کہ وہ ایک خاتون کو امریکہ کا صدر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔اس الیکشن سے امریکی معاشرہ بری طرح ایکسپوز ہوگیااور ان کے دوہرے معیارات بالکل واضح ہو گئے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ آج کے جدید دور میں بھی امریکہ کالے اور گورے میں بری طرح تقسیم ہے۔ خواتین کو برابری کے دعوے کے با وجود برابری حاصل نہیں ہے۔ لبرل معاشرے کا تاثر اپنی جگہ لیکن انتہا پسندوں کی اکثریت ہے۔ جبکہ علاقائی اور نسلی تعصب بھی انتہاپرہے۔اب ٹرمپ کا امتحان شروع ہوچکا ہے اور وقت ثابت کر دیگا کہ وہ اپنے ووٹرز کے توقعات پر پورا اترتے ہیں یا دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کو ٹھیک ثابت کرتے ہیں۔
جہاں تک ہماری بات ہے، تو ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم پہلے بھی نشانے پر تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔ ہمیں امریکی انتخابات کے بعد اب اپنے معاملات پر توجہ دینی ہوگی۔ آئندہ عام انتخابات میں کسی ایماندار ، دیانت دار، محب وطن اور ملک وقوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے والا راہنما چننا ہوگا۔ ورنہ یہ کرپٹ، خود غرض اور بے حس حکمران اس ملک کو کھا جائیں گے۔