ہوم << تاریکی کا غم کیا ہے-حماد یونس

تاریکی کا غم کیا ہے-حماد یونس

روشنی کی فکر تو سب کو ہے مگر تاریکی کا غم کس نے سنا، جو ہر بار غالب آ کر بھی شکست کھا جاتی ہے۔

منظر ہے بنگلہ دیش کے جنوب مغربی ضلع پیروج پور کا، جہاں ایک تراسی سالہ شخص کو نمازِ جنازہ کے بعد دفنایا جا رہا ہے۔
وزیرِ اعظم حسینہ واجد پر امید ہیں کہ جب یہ شخص جب چادرِ خاک اوڑھ لے گا تو پھر یہ صرف اسی بوڑھے کی تدفین نہیں ہوگی، کچھ ںظریے، کچھ خواب، کچھ امنگیں اور تنظیمیں بھی دفن ہو جائیں گی۔ دو قومی نظریہ، اقامتِ دین کا خواب، وحدتِ امت کی امنگ اور بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی تنظیم، عوامی لیگ کو یہ سب کو مٹانے کی توقع ہے۔
مگر یہ سب امیدیں تو حسینہ واجد نے مطیع الرحمٰن نظامی، پروفیسر غلام اعظم، عبدالقادر ملا، علی احسن مجاہد، قمر الزماں، میر قاسم علی سب کے ریاستی قتل سے بھی باندھ لی تھیں۔ حسینہ واجد کی پشتیبان، اندرا گاندھی تو اپنی دانست میں 1971 سے ہی ان نظریوں کو بحیرۂ عرب میں غرق کر چکی ہیں۔
یہ بظاہر بےضرر بزرگ، یہ خواب، یہ نظریے بار بار کیوں دفنانے پڑ رہے ہیں۔

دلاور حسین سعیدی کا جرم یہ تھا کہ اسے اپنے وطن پاکستان سے محبت تھی۔ وہ نسلی طور پر ایک بنگالی تھے، مگر اسلام رنگوں، زبانوں اور نسلوں سے بالاتر ہے ۔ چنانچہ کلمے کے نام پر قائم ہونے والا وطن کسی زبان کے نعرے سے زیادہ قیمتی تھا۔ انہوں نے اس وقت پاکستان کی حمایت کی۔ مگر جب بنگلہ دیش تسلیم کر لیا گیا تو دلاور حسین سعیدی نے اپنے نئے وطن کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ملکی سیاست میں جماعت اسلامی کا حصہ بنے ، اور عوام میں اتنے مقبول ہوئے کہ 1996 سے 2008 تک پارلیمان کے ممبر منتخب ہوئے۔

دلاور حسین سعیدی، ایک مفسر و مدرسِ قرآن اور مبلغِ اسلام تھے۔ یہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سورۃ النحل میں فرمانِ خداوندی کے عین مطابق، حکمت اور اچھی نصیحت کو دعوت الی اللہ کا ذریعہ بنایا، کہ داعیِ اعظمﷺ کا یہی طریقہ تھا۔
پچاس سالہ دعوت کے سفر میں انہوں نے بلا مبالغہ دسیوں ہزار افراد کو اسلام سے روشناس کروایا اور فریضہِ اقامتِ دین کی مشعل ان سب کو تھما دی۔
آپ ایک عالمِ بے بدل اور مفسرِ قرآن تھے، جنہوں نے اپنے دعوت الی اللّٰہ کے پچاس سال مسلسل بندوں کو بندوں کے رب کا پیغام سنانے میں لگا دیے ۔

انہوں نے چاٹگام پریڈ گراؤنڈ میں 29 سال تک سالانہ 3 روزہ اسلامک تفسیر پروگرام کروایا۔38 برس تک کُھلنا سرکٹ ہاؤس فلیڈ میں سالانہ دو روزہ اسلامک تفسیر پروگرام کا انعقاد، سلہٹ گورنمنٹ عالیہ مدرسہ فیلڈ میں 33 برس تک 3 روزہ سالانہ اسلامک تفسیر پروگرام کا انعقاد، راجشاہی گورنمنٹ مدرسہ فیلڈ میں 35 برس تک 3 روزہ سالانہ اسلامک تفسیر پروگرام ، بوگرہ سٹی میں 25 برس تک دو روزہ سالانہ اسلامک تفسیر پروگرام ، ڈھاکہ کاملا پور ریلوے گراؤنڈ اور پلٹن میدان میں 34 برس تک اسلامک تفسیر پروگرام اور کومیلا مرکزی عید گاہ گراؤنڈ میں 31 برس تک سالانہ 3 روزہ اسلامک تفسیر پروگرام کا انعقاد کیا۔ 2 بار ان میں امامِ کعبہ نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔
اس کے علاوہ ان کے تبحرِ علمی سے متاثر ہو کر دنیا کے 50 سے زائد ممالک کی جانب سے انہیں اسلام کا پیغام عام کرنے کے لیے دعوت پر بلایا گیا۔

ان کی علمی تصانیف بھی بے شمار تھیں۔انہوں نے 76 کتب لکھیں۔ ایک دنیا ان کی علمی ، دینی اور ادبی خدمات کی معترف تھی۔ چنانچہ سعودی عرب کی جانب سے 1976 سے انہیں سرکاری دعوت پر سعادتِ حج کے لیے بلایا جاتا۔
آپ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد امت کے داعی تھے، 1990 میں جب صدام حسین کی جانب سے کویت پر حملے کے بعد عالمِ عرب ایک بڑی تباہ کن جنگ کے دہانے پر تھا، علامہ دلاور حسین سعیدی صلح کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ 1982 میں امام خمینی نے انقلاب ایران کی پہلی سالگرہ میں شرکت کے لیے مولانا دلاور حسین سعیدی کو خصوصی دعوت دی ۔ لندن مسلم سینٹر کے افتتاح کے لیے امامِ کعبہ شیخ عبد الرحمٰن السدیس کے علاوہ علامہ دلاور حسین سعیدی کو ہی تو دعوت دی گئی تھی۔

پیروج پور کا یہ شخص جسے لاکھوں افراد نے دعاؤں اور آنسوؤں کے ساتھ رخصت کیا ہے، اس کی قدر شاید اس کے اپنے ملک سے زیادہ باقی دنیا میں تھی ۔ اسی لیے تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ ، مسجد نبوی میں بھی ادا کی گئی ہے۔
رہی بات علامہ دلاور حسین سعیدی کے نظریے اور جماعت اسلامی کے پیغام کی، تو اس آفاقی پیغام کو ان شہادتوں اور قربانیوں سے مزید مہمیز ملتی ہے، جدوجہد مزید آگے بڑھتی ہے اور تھکے ہوئے پراگندہ ذہن، یکسو ہو کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں ۔ دیے سے دیا یونہی جلتا ہے ، یونہی جب ایک دیا بجھے تو کئی دیے اس کی جگہ لے کر تاریکی کو مزید پیچھے دھکیل دیتے ہیں ۔ یہی تو تاریکیوں کا غم ہے.
دلاور حسین سعیدی تو اب ہم میں نہیں رہے ، مگر ان کی دعوتی خدمات، ان کے دروس، ان کی تصانیف ہمیشہ ہمارے درمیان رہیں گی، اسی کا نام سلیم احمد کے الفاظ میں ، "لوح و قلم کا معجزہ" ہے۔

روشنی کی فکر تو سب کو ہے مگر تاریکی کا غم کس نے سنا، جو ہر بار غالب آ کر بھی شکست کھا جاتی ہے۔

Comments

HammadYounas

حماد یونس

حماد یونس کالم نگار اور تحقیق کار ہیں جو مختلف نثری جہتوں پر عبور رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو اور انگریزی زبان میں غزل ، نظم اور آزاد نظم بھی کہتے ہیں۔ نمل لاہور سے انگریزی لسان و ادب میں ایم اے کر چکے ہیں ۔

Click here to post a comment