ہوم << عیادت - نبیلہ شہزاد

عیادت - نبیلہ شہزاد

چلتی پھرتی، بھاگ دوڑ کر کام نمٹاتی جمیلہ کے لیے یک ٹک چارپائی پر رہنا مشکل ترین اور صبر آزما کام تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نے اسے زبردستی سزا کے طور پر بستر کے ساتھ باندھ دیا ہو۔بستر پر لیٹے رہنا اس کے لیے اندھیری کوٹھری میں قید سے بھی بدتر تھا۔ اسے ٹانگ کے فریکچر سے زیادہ محتاجی کا درد محسوس ہوتا تھا۔ اب اسے بڑی بوڑھی خواتین کی رب کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر تڑپ کے ساتھ مانگی جانے والی یہ دعا کہ یا اللہ محتاجی کی زندگی سے بچانا اور چلتے پھرتے اس دنیا سے لے جانا، کا مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آ چکا تھا۔ وہ جان چکی تھی کہ یہ محتاجی جہاں اردگرد والوں کے لیے مصیبت ہوتی ہے، وہاں یہ بندہ کے اپنے لیے بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ لیکن کیا کیا جائے اس چیز کے بارے میں جہاں انسان کا اپنا کوئی اختیار نہیں صرف اللہ کا اختیار ہے، وہاں تو صرف صبر کا حکم ہے۔ جمیلہ بھی پلستر لگی ٹانگ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اسی حکم کی فرماں برداری میں دن گزار رہی تھی۔ لیکن اس کے لیے صبر آزما لحمات تب آتے، جب اس کے ارد گرد بکھیڑا پڑا ہوتا۔ بچے ایک دوسرے سے الجھ رہے ہوتے۔ کام والی ماسیاں اپنی من مرضیاں کرتیں۔ چھٹیوں پر چھٹیاں کرتیں۔ آتیں بھی تو گندا مندہ آدھا کام کرتیں۔ وجہ یہ تھی کہ ایک تو سر پر کھڑا ہو کر ان سے کوئی کام کروانے والا نہیں تھا۔ دوسرا سختی کی صورت میں لاچار باجی کے لیے کام چھوڑ کر جانے کی دھمکی ہوتی اور نئی آنے والی یہ لاچاری دیکھ کر ڈبل ریٹ مانگتی اور ساتھ کئی طرح کی شرائط بھی رکھتی۔ جمیلہ کے لیے سر منڈواتے ہی اولے پڑنے والا حساب تھا۔ بچوں میں سب سے بڑی بیٹی امینہ میٹرک کی طالبہ تھی۔لیکن جب ماں نے اپنی چوکسی کے نزدیک بیٹی کو پھٹکنے ہی نہ دیا ہو اور بیٹی نے بھی صرف پڑھائی کا فریضہ ہی انجام دیا۔ باورچی خانے سے یکسر نابلد و نا آشنا ہو تو یکدم پڑھنے والی آفت میں وہ کیسے گھریلو امور سنبھال سکتی ہے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ بچے ماں کے ہاتھ کے بنے کھانوں کے اتنا عادی تھے کہ کسی کام والی کا پکایا کھانا کھانے سے بچے انکار کر دیتے۔ جس گھر میں کھانوں کے مسالے تو کیا سموسہ پٹی اور رول پٹی تک گھر میں ہی تیار ہوتی ہو وہاں بازاری کھانے کھانا ایک دشوار گزار عمل تھا۔

فیصل کا حال بھی بیٹی سے مختلف نہیں تھا۔ جس شخص نے پینے کے لیے پانی کبھی خود نہ لیا ہو۔ نہانے کے بعد اس کے گندے کپڑے بے ترتیبی سے فرش پر ہی بکھڑے پڑے ہوں۔ جہاں دل چاہے جوتے اور جرابیں اتار کر پھینک دی جائیں۔ اگلے چند لمحوں میں جمیلہ فٹافٹ یہ بکھیڑا سمیٹ لیتی۔ اب جبکہ عادات سب کی وہ ہی تھی لیکن سمیٹنے والی بےکس چارپائی پر۔ عجیب طرح کی بے سکونی اور الجھن سب کو دامن گیر تھی۔ لیکن حل کی سمجھ کسی کو نہ آ رہی تھی۔ جمیلہ کی جھٹانی عیادت کے لیے آئی، کھانا بازار سے منگوایا گیا، دو چار گھنٹے رکی، گپ شپ لگائی اور یہ کہہ کر چلتی بنی کہ مجھے تو اپنے گھر کے علاوہ کہیں نیند ہی نہیں آتی۔ نند، سسرال میں پیدا ہی نہ ہوئی تھی۔ ایک جی جان سے زیادہ پیار کرنے والی بہن کو اس کے اکھڑ مزاج شوہر نے آنے کی اجازت ہی نہ دی۔ لیکن دوسرے بہنوئی نے اپنی بیوی کو خوشی خوشی بھیج دیا۔ آنے والی بہن کے اپنے بھی چھوٹے چھوٹے تین بچے تھے۔ دو دن بعد ہی بچے اپنے ابو سے شدید اداس ہو گئے۔ ایک ہفتہ رکنے کے بعد وہ بہن بھی اپنے گھر کو سدھار گئیں۔ لیکن جمیلہ کی معذوری ہفتوں کی بجائے مہینوں پر مشتمل تھی۔اردگرد جھانکا، کوئی بھی رشتہ دار خاتون آ کر رہنے والی نہ تھی۔ نہ ہی کسی مستقل ملازمہ کا انتظام ہو رہا تھا۔کاش ! باپ بچوں نے بھی گھر کو تھوڑا بہت سنبھالنا سیکھا ہوتا۔وہ اس کاش پر اپنے دل ہی دل میں افسوس کر کے رہ جاتی۔
”امی چچی زلفت نے فون کیا ہے کہ وہ دس منٹ تک ہمارے گھر میں پہنچ رہی ہیں۔“ امینہ نے مہمان نوازی کرنے کی پریشانی کے عالم میں موبائل ہاتھ میں پکڑے ماں کو چچی کے آنے کی اطلاع دی۔ ”انہیں کیا کھلائیں گے؟ اس وقت تو تمہارے ابو بھی گھر میں نہیں ہیں جو بازار سے کچھ منگوا لوں۔ اچھا! چلو جو ان کے نصیب میں ہو گا۔“ جمیلہ کو بھی ان کے آنے کی خوشی کی بجائے کھلانے پلانے کی فکر دامن گیر ہوئی۔ ٹھیک گیارہ منٹ بعد زلفت کا ہاتھ بیرونی دروازے کی گھنٹی پر تھا۔پھر دیکھنے والوں کی آنکھوں نے دیکھا زلفت نے کریم کی گاڑی سے تین بڑے بڑے تھیلے برآمد کیے اور کرایہ ادا کر کے گاڑی کو رخصت کیا۔ بچوں نے آگے بڑھ کر چچی کے ہاتھ سے تھیلے پکڑے۔ دعا سلام کے بعد زلفت تاسفانہ انداز میں کہنے لگی۔ ”بھابی سب سے پہلے تو میں اتنی تاخیر سے آنے کی معذرت چاہتی ہوں۔“ آپ تو جانتی ہیں کہ میں تین ہفتے بعد پرسوں ہی اسلام آباد سے واپس آئی ہوں۔ آج آپ کے بھائی کو چھٹی تھی۔ انہیں بچوں کے پاس چھوڑا ہے۔ میں شام کو واپس جاؤں گی۔ لہٰذا میں شام تک آپ کی عیادت کروں گی۔“

زلفت نے مسکراتے ہوئے آخری جملہ ادا کیا اور پھر تھیلوں سے ایک کے بعد ایک ڈبہ نکالنے لگی۔ ”بابھی یہ تین ڈبے رول، سموسیاں اور شامی کباب کے ہیں۔ یہ میں نے آپ لوگوں کے لیے کل بیٹھ کر بنائے تھے۔“ ”امینہ بیٹی! یہ پکڑو اور انہیں فریزر میں رکھ دو۔ یہ تو تم بھی آسانی سے فرائی کر کے عیادت کے لیے آئے مہمانوں کو چائے کے ساتھ دے سکتی ہو۔“ پھر کچھ اور ڈبے نکالے۔ ”اور یہ ہلیم ہے۔“ امینہ اسے بھی فریزر میں رکھ دو۔ جب کھانے کو دل چاہے گا۔ نکال کر گرم کر لینا۔ یہ سبزی کا سالن ہے یہ فریج میں رکھ دو اور یہ دو ڈبے بریانی کے ہیں یہ آج کے کھانے کے لیے ہیں۔ ”امینہ! پہلے سب بہن بھائیوں کو بٹھا کر کھانا کھلاؤ اور پھر میرے ساتھ کام میں مدد کرنا۔“ جمیلہ خوشی اور حیرانی کی ملی جلی کیفیات میں ہونق، زلفت کو دیکھ رہی تھی۔ اس سے پہلے ایسی عیادت کسی نے کب کی تھی اس کی؟ پہلے جو بچے ماں کے بار بار اصرار پر نخرے دیکھا دیکھا کر نوالہ لیتے تھے۔ اب وہ ایک آواز پر ہی بریانی کھانے کے شوق میں دسترخوان پر بیٹھے تھے، کیونکہ وہ بچارے بھی اب ایک عرصے سے گھر کے بنے کھانے کے لیے ترسے ہوئے تھے اور بازار کے سخت مصالحہ دار چاول کھا کھا کر تنگ آ چکے تھے۔ زلفت نے جلدی سے باورچی خانے کا رخ کیا۔ ڈبے سے کالے چنے نکال کر گرم پانی میں بھگوئے۔ دھونے والے برتن سمیٹ کر سنک میں دھونے کے لیے رکھے۔ پھر سٹور روم کی طرف گئی جہاں دھلنے والے کپڑوں کا ڈھیر لگا پڑا تھا۔ واشنگ مشین میں پانی ڈال کر مشین چلائی۔ امینہ نے بھی چچی کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ زلفت کام کرنے کے ساتھ ساتھ امینہ کو بھی سکھا رہی تھی اور وہ بھی چچی کے بتائے پر عمل پیرا تھی۔ دونوں چچی بھتیجی نے ڈیڑھ دو گھنٹے میں کچن اور کپڑے نمٹا لیے۔کپڑے خشک ہونے پر بھائی کے کپڑے خود استری کیے اور بچوں کے کپڑے استری کے لیے امینہ کو دیے اور خود الماریوں کی جھاڑ پونچھ کرنی شروع کر دی۔ وہ شام تک سب کاموں سے فارغ ہو چکی تھی۔ تقریباً پانچ چھ دن کے لیے سالن بھی تیار تھے۔ امینہ سے سادہ براؤن چاول پاس کھڑے ہو کر پکوائے۔ تا کہ ضرورت پڑنے پر وہ خود بھی پکا سکے۔ جھاڑو پونچھے کے لیے عورت آتی تھی۔ ہفتہ بھرکے لیے اور کوئی بڑا کام نظر نہیں آ رہا تھا۔ بچوں کو اسکول سے چھٹیاں تھیں۔ اس لیے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے بچوں کو سمجھا دیا گیا۔ زلفت نے واپسی کے لیے گاڑی کی بکنگ کروائی اور جمیلہ سے کہا۔ ”بھابھی آپ پریشان نہ ہونا۔ اتوار کے دن معاذ صاحب گھر میں ہوتے ہیں۔ جب تک آپ بالکل ٹھیک نہیں ہو جاتیں، میں بچے ان کے پاس چھوڑ کر ایسے ہی سارا دن آپ کے ساتھ گزارا کروں گی۔“
جمیلہ کی آنکھیں تشکر سے نم ہو گئیں، کیوں کہ زندگی میں ارد گرد رشتے تو بہت ہوتے ہیں مگر ایسے بے لوث اور احساس ہمدردی سے گندھے ہوئے لوگ کم ہی ملتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment

  • عمران خان نیازی کا جھوٹا ڈائیلاگ

    کالم نگار:
    محمّد شہزاد بھٹی
    shehzadbhatti323@gmail.com

    عمران خان نیازی کا یہ ڈائیلاگ ہم کوئی غلام ہیں کو ان کے ورکرز جنہیں عرف عام میں یوتھیا کہا جاتا ہے انہوں نے عمران خان نیازی کے اس ڈائیلاگ کو سوشل میڈیا پر بہت وائرل کیا، اپنے مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس بات کا فیصلہ تک نہ کیا کہ وہ اپنے دعوے میں کس حد تک سچے یا جھوٹے ہیں۔ عمران خان نیازی صاحب سے چند سوالات ہیں کہ جب آپ نے انڈیا کو سلامتی کونسل میں ووٹ دیا اس وقت اپ نے کیوں نہیں کہا کہ ہم کوئی غلام ہیں جو تمہیں ووٹ دیں۔ عمران خان نیازی صاحب جب آپ کلبھوشن کے لئے صدارتی آرڈیننس لے کے آئے کلبھوشن کی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی اس وقت آپ نے کیوں نہیں کہا کہ ہم کوئی غلام ہیں جو ایسا کریں۔ مودی نے دھمکی لگائی اور آپ نے پاکستان پر حملہ کرنے والے انڈین پائلٹ ابھینندن کو دودھ پتی پلا کر دوسرے ہی دن پروٹوکول کے ساتھ انڈیا کے حوالے کر دیا اس وقت آپ نے کیوں نہیں کہا ہم کوئی غلام ہیں۔ انڈیا کی چار جاسوس جو پاکستان میں کی جیلوں میں قید تھے عمران خان نیازی صاحب جب آپ نے ان کو انڈین فورسز کے حوالے کیا اس وقت آپ نے کیوں نہیں کہا ہم کوئی غلام ہیں جو پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کرنے والے عناصر کو چھوڑ دیں۔ انڈیا آپ کی مرضی سے کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کر کے کشمیر کو ہڑپ کر گیا اس وقت آپ نے کیوں نہیں کہا کہ ہم کوئی غلام ہیں جو کشمیر آپ کو دیں۔ کسی ملک کی حدود کراس کرتے ہیں تو پاسپورٹ اور ویزا دیکھنا پڑتا ہے لیکن آپ نے انڈین لوگوں کو بغیر پاسپورٹ بغیر ویزے پاکستان میں آنے کی اجازت دی ہم کوئی غلام ہیں اس وقت آپ نے کیوں نہیں کہا۔ عمران خان نیازی صاحب آپ کے وزیر صحت ظفر مرزا نے آپ کی اجازت سے انڈیا سے انتہائی غیر معیاری اور ایکسپائری ادویات منگوا کر پاکستانی عوام کو کھلا دی اربوں روپے کمائے اس وقت آپ نے کیوں نہیں کہا ہم کوئی غلام ہیں جو انڈیا کی غیر معیاری اور ایکسپائری ادویات خریدیں۔ چین نے ایران کے ذریعے انڈیا کا افغانستان جانے کا راستہ بند کیا تو انڈیا نے آپ سے راستہ مانگا آپ نے اسی دن انڈیا کو افغانستان جانے کا راستہ دیا حالانکہ اس دن یوم سیاہ کشمیر بھی تھا اس دن آپ نے کیوں نہیں کہا ہم کوئی غلام ہیں۔ چین کے ساتھ کیے گئے معاہدے اور سی کے پیک نقشے آپ نے آئی ایم ایف اور امریکا کے حوالے کیے اس دن آپ نے کیوں نہیں کہا کہ ہم کوئی غلام ہیں جو اپنے معاہدے اور اپنے ملک کے نقشے آپ کو دیں۔ ساری قوم نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے نا کریں ہم آئی ایم ایف کے غلام ہو جائیں گے لیکن آپ نے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا آئی ایم ایف کا گورنر اسٹیٹ بینک پر لگایا عمران خان نیازی صاحب آپ نے اس دن آئی ایم ایف کو کیوں نہیں کہا کہ ہم کوئی غلام ہیں جو اسٹیٹ بینک آپ کے حوالے کریں اور آپ کا گورنر اسٹیٹ بینک پر لگائیں۔ عمران خان نیازی آپ نے بجلی اور گیس کی قیمتیں آئی ایم ایف کے کہنے پر بڑھائیں آپ نے اس وقت کیوں نہیں آئی ایم ایف سے کہا کہ ہم کوئی غلام ہیں جو آپ کے کہنے پر بجلی اور گیس کی قیمت بڑھائیں۔ عمران خان نیازی صاحب آپ کے دور حکومت میں اسرائیلی طیارہ سات گھنٹے پاکستانی ایئرپورٹ پر کھڑا رہا عوام آپ سے پوچھتے رہے لیکن آپ نے کچھ نہیں بتایا کیا آپ اسرائیل کے غلام تھے۔ امریکی فوجی بغیر ویزا بغیر پاسپورٹ بمعہ یونیفارم پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قیام کیا، کیا آپ امریکہ کے غلام تھے ترکی اور ملائیشیا نے آپ کے کہنے پر ایک اسلامی کانفرنس کا اہتمام کیا لیکن سعودی عرب کے روکنے پر آپ وہاں نہ گئے کیا اس وقت آپ نے کیوں نہیں کہا کہ ہم کوئی سعودی عرب کے غلام ہیں جو اس کے کہنے پر رک جائیں۔ عمران خان نیازی آج کل غلامی کے تانے مار رہے ہیں اور خود داری کا لیکچر دے رہے ہیں، عمران خان نیازی صاحب آپ نے ساری عمر مانگا ہے اور مانگنے والا ہمیشہ غلام ہی رہتا ہے جس طرح آپ نے آئی ایم ایف کے غلام بنے امریکا کے غلام بنے اور آج جب آپ کی حکومت نہیں رہی تو آپ کہتے ہیں ہم کوئی غلام ہیں۔ یہ کام آپ حکومت میں رہ کر کرتے رہے ہیں عمران خان نیازی آپ نے سعودیہ کی، غلامی کی امریکہ کی غلامی کی، انڈیا کی غلامی کی اور آج اپنی حکومت جانے کے بعد آپ خود داری کے درس دے رہے ہیں جو تحفے میں ملنے والی گھڑی اور ہار بیچ دے چند کروڑ کی خاطر ملک و قوم کی عزت کو داؤ پر لگا دے وہ کبھی خودار نہیں ہو سکتا۔ عمران خان نیازی صاحب مانگنے والا اور چور کبھی خود دار نہیں ہو سکتا۔ عمران خان نیازی صاحب آپ اپنے دعوے ہم کوئی غلام ہیں میں سو فیصد جھوٹے ہیں۔اللہ کریم عمران خان نیازی کو لیڈر ماننے والوں کو عقل سلیم دے، ملک پاکستان کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دے اور اس کی حفاظت فرمائے۔ آمین

  • آزادی مارچ ملک دشمنی کے مترادف

    کالم نگار :
    محمد شہزاد بھٹی shehzadbhatti323@gmail.com

    عمران خان کا لانگ مارچ کا اعلان اور ان کہنا ہے کہ میں بروز جمعہ 28 اکتوبر 2022 کو حقیقی آزادی مارچ میں شرکت کے لیے لبرٹی چوک لاہور سے اسلام آباد روانہ ہونگا۔ ایک عام پاکستانی شہری عمران خان سے چند سوالات کرتا ہے کہ میں آزادی مارچ کے لیے نکلوں تو آخر کیوں نکلوں؟ اگر عوام کو ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر مل گئے ہیں تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر خان صاحب کے دور میں غریب عوام کو مہنگائی کی چکّی میں نہیں پسی اور ڈالر 105روپے سے 189روپے تک نہیں پہنچایا تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر پاکستان میں کرپشن انڈیکس 117 سے 140 پر ان کے دور حکومت میں نہیں پہنچا تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر خان صاحب نے عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کیا ہے اور پولیس اصلاحات کی ہیں تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر خان صاحب نے اپنے فالورز کو کبھی کوئی نیک کام کرنے کی بھی ترغیب اور تربیت دی ہے تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر خان صاحب نے گالم گلوچ، عدم برداشت، ناچ گانا اور بدتمیزی سکھا کر نئی نوجوان نسل کی اخلاقیات کا بیڑہ غرق نہیں کیا ہے تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر خان صاحب نے فحاشی، بےحیائی اور عریانی کو فروغ نہیں دیا تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر مقبوضہ کشمیر کو انڈیا کے حوالے نہیں کیا اور نریندر مودی اور ٹرمپ کی کامیابی کے لیے دعائیں نہیں مانگی ہیں تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کر ملکی معیشت کا بیڑہ غرق نہیں کیا تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر خان صاحب کے اپنے بچے باہر نکلیں تو میں بھی باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر خان صاحب نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوشش کی ہے تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر خان صاحب نے قوم کے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے میں شرکت کی ہے تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر خان صاحب کو کسی کا نام بگاڑے بغیر اخلاق اور تمیز کے ساتھ تقریر کبھی کی ہے تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ ہاں، اگر وزیراعظم ہاؤس اور تمام گورنر ہاؤس میں یونیورسٹیاں بن گئیں ہیں تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر پورے پاکستان کو خان صاحب نے گرین اینڈ کلین بنا دیا ہے اپنے دور میں تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر خان صاحب نے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر فرانسیسی سفیر کو پاکستان سے نکال دیا تھا تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر ڈاکٹر، نرسیں، اساتذہ، کلرک اور سرکاری ملازمین اپنے مطالبات اور حقوق کے لیے سڑکوں پر ذلیل و خوار نہیں ہوئے تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر گزشتہ چار سال میں چوروں، ڈاکوؤں اور کرپٹ لوگوں کو سزائیں ملی ہیں تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر خان صاحب نے آئین اور قانون کی پاسداری کی ہے تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ اگر ریاست مدینہ میں سود کا خاتمہ ہو گیا ہے تو میں باہر نکلنے کو تیار ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اتنا کافی ہے اگر تو عمران خان صاحب گزشتہ تمام لانگ مارچ جو انہوں نے اب تک کیے ہیں ان میں کیے گئے وعدوں کو پورا کر چکے ہیں تو ہر پاکستانی کو نکلنا چاہیے بصورت دیگر یاد رکھیں ہمارا ملک پاکستان پہلے ہی معاشی مسائل کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے ایسے حالات میں آزادی مارچ کرنا یا اس میں شرکت ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ اس لئے ملکی اور قومی مفاد میں عمران کا ساتھ دینے سے اور ان کے نام نہاد آزادی مارچ میں شرکت سے گریز کرنا چاہیے یہی سچے محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت ہے، اللہ کریم ملک پاکستان کی خیر کرے۔

  •  رمضان المبارک میں مہنگائی کا طوفان

    کالم نگار: محمد شہزاد بھٹی 

    ہر سال کی طرح اس سال بھی ماہِ مقدس رمضان المبارک کی آمد پر اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں، جن پر حکومت بھی اگر کوئی ریلیف دے بھی دے تو پھر بھی یہ چیزیں عام حالات سے مہنگی ہی رہتی ہیں۔ خود ساختہ مہنگائی میں اضافے کے باعث بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں یکدم آسمان کو چھونے لگیں ہیں، سبزیوں کے دام بڑھا دیئے گئے جبکہ پھلوں کی قیمت میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ دنیا بھر کے مہذب ممالک میں قومی اور مذہبی تہواروں کے موقع پر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کر دی جاتیں ہیں جبکہ وطنِ عزیز پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہر سال رمضان المبارک میں مہنگائی اپنے عروج پر پہنچی ہوتی ہے۔ دودھ، دہی، آٹا، چینی، چاول، گھی، تیل، سبزیاں اور دالیں وغیرہ سب مہنگے ہو جاتے ہیں اور پھل تو غریبوں کے لیے شجر ممنوعہ ہو جاتے ہیں کہ وہ ان کی خریداری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بیان بازی سے ہٹ کر فوری طور پر نا جائز منافع خوروں کے خلاف سخت کاروائی کریں اور منافع خوروں کو جرمانہ عائد کرنے کے ساتھ ساتھ سخت ترین سزائیں بھی دیں تاکہ خود ساختہ مہنگائی کا بےلگام سلسلہ رک سکے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں اللہ تعالی نے ہر مسلمان بالغ مرد و عورت پر روزوں کو فرض کیا ہے، اسے گناہوں سے مغفرت، ثواب و رضا، دعاؤں کی قبولیت اور اللہ سے قرب حاصل کرنے کا مہینہ قرار دیا ہے۔ اس ماہ مبارک میں ناجائز منافع خور، ایک نمبر چیزوں کی قیمت لے کر دو نمبر چیزیں بیچنے والے بہت متحرک نظر آتے ہیں، اس کے ساتھ ملاوٹ کرنے والے بھی عیدی لگانے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ اب حکومت کیا ایکشن لیتی ہے کیا موثر اقدامات کرتی ہے یا پھر ہر سال کی طرح اس سال بھی حکومت کی جانب سے چپ سادھ لی جاتی ہے کیونکہ اسے عوام کی ذرا برابر پرواہ نہیں ہے۔ افسوس ہم رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹنے کی بجائے رمضان میں عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں رمضان ہمیں بھوک برداشت کر کے غریب پروری کا درس دیتا ہے مگر ہم اس کے برعکس رمضان میں غریب کو مارنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہبازشریف کو چاہئے کہ رمضان المبارک میں مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے ملک بھر میں سخت قوانین رائج کر کے اس پر عملدرآمد یقینی بنائیں اور تاجروں کو پابند کریں کہ وہ اس ماہ مقدس میں ایک فیصد سے زیادہ منافع نہ کمائیں۔ اسی طرح نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی جو کہ ایک مثالی شخصیت ہیں اگر اپنے دور میں ایسا کام کر جائیں تو پاکستان کی تاریخ میں انہیں صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ نا جائز منافع خوروں کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ وہ سارے سال کی کمائی اسی ایک ماہ میں کرنا چاہتے ہیں اور انہیں اس مہینے کے تقدس کا کوئی احساس نہیں۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو گیا ہے رمضان المبارک میں پھل اور سبزیاں کے علاوہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ عام طبقہ کے علاوہ متوسط طبقہ کے لیےبھی افطاری کا سامان خریدنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بیرونی ممالک یورپ اور مغربی ممالک جو مسلمان نہیں ہیں لیکن وہاں رمضان المبارک کے احترام میں عام اشیائے خورد و نوش نہایت سستی کر دی جاتیں ہیں تاکہ ہر شخص بھی ان کو خرید کر اپنی سحری و افطاری کا بندوبست کر سکے اور آسانی سے روزہ رکھ سکے۔ بہت سے غیر اسلامی ممالک میں رمضان المبارک کی مناسبت سے سیل لگائی جاتی ہیں جہاں پر مسلمانوں کو سستے داموں اشیائے خورد و نوش دستیاب ہوتی ہیں جہاں پر امیر و غریب دونوں اس بابرکت مہینے کی برکتوں و رحمتوں سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ خصوصی رمضان ڈسکاونٹ پیکیج متعارف کروائے جاتے ہیں۔ مسلم بھائیوں کے لئے بڑے بڑے افطار دسترخوان سجائے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت اور اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد پاکستان میں رمضان المبارک جیسے با برکت اور رحمت کے مہینے کو غریب عوام کے لیے باعث زحمت بنا دیا جاتا ہے اب ڈالر کی قیمت زیادہ ہونے سے اشیائے خورو نوش کی قیمتیں پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہی ناجائز منافع خور رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ خیرات و صدقات بھی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہیے لوگوں تک صدقات و خیرات پہنچانے کے بجائے  قیمتوں میں کمی کریں تاکہ چیزیں لوگوں کی پہنچ میں ہوں اور ان کی عزت نفس بھی محفوظ رہے۔ اگر آئندہ انتخابات میں عوام کی حمایت حاصل کرنی ہے تو حکومت کو چاہئے کہ خواب خرگوش سے بیدار ہو اور عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے اور مہنگائی کو کم کرنے کے لئے جلد از جلد عملی اقدامات کرے۔ 

  • اپریل 1979 یوم شہادت ذوالفقار علی بھٹو

    کالم نگار: محمد شہزاد بھٹی 

    قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 8 جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں انکھ کھولی۔ ذوالفقار علی بھٹو پیدائشی لیڈر تھے وہ بے شمار قائدانہ صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو جب جاگیر دارانہ نظام کو دیکھتے تو پریشان ہو جاتے، ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ 1973 میں پاکستان میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس آج تک شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عظیم کارنامہ ہے۔ 1973 کا متفقہ آئین ذوالفقار علی بھٹو کا عظیم کارنامہ ہے۔ ہندوستان کے 1974 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ گھاس پھوس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق سمجھے جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پسماندہ ترین طبقات کو شعور دیا اور آج بھی ہر اس گھر سے ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں نعرہ بلند ہوتا ہے جس کی چھت سے بارش کا پانی ٹپکتا ہے ذوالفقار علی بھٹو نے ہمیشہ عوام کے حقوق کی بات کی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بے گھر گھرانوں کے لیے پہلی مرتبہ  پانچ مرلہ سکیم کے تحت گھر دیئے جس سے غریب کی تذلیل ختم کرنے میں مدد ملی اور پھر غریب کبھی ذوالفقار علی بھٹو کو بھلا نہ سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو اسٹیل مل کا تحفہ دیا، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے1967 کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا۔ پانچ سالہ دور مکمل کر کے 1977 میں منعقد ہونے والے الیکشن میں 191 نشستوں میں سے 155 نشستیں حاصل کیں اور مخالف اتحاد کو صرف 36 نشستیں حاصل ہوئیں۔ اپوزیشن اتحاد نے انتخابات کے نتائج مسترد کر کے احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا اور ایک طالع آزما نے کو دیتا کرتے ہوئے دوتہائی اکثریت کی حامل حکومت کو گھر بھیج دیا اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی طاقت کے خوف سے ایک ایسے متنازعہ عدالتی فیصلے کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دے دی جسے آج تک پاکستانی عدلیہ کے معزز جج صاحبان مثال کے طور پر بھی قبول نہیں کرتے، ذوالفقار علی بھٹو کہا کرتے تھے میں ہر اس گھر میں موجود رہوں گا جس کی چھت سے بارش کا پانی ٹپکتا ہے شہید اقتدار کی بجائے اقدار کی سیاست کے قائل تھے کبھی مخالفین کی طرف سے بھی کرپشن کا الزام نہیں لگا عوامی مقبولیت سے استحصالی قوتیں خائف تھیں۔ قائد عوام کو 4 اپریل 1979 کو راولپنڈی میں پھانسی دے دی گئی شہید ذوالفقار علی بھٹو بہت سے راز افشاں کرنے کی بجائے قبر میں لے گئے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے وقت بہت سے حقوق سے محروم رکھا۔ ان کی آخری ملاقات میں بھی شہید کی بیٹی کو گلے نہ لگنے دیا گیا سلاخوں کی دیوار درمیان میں حائل رہی  فیملی کے افراد کو تجہیز و تکفین میں شامل نہیں ہونے دیا گیا44 سال گزرنے کے باوجود آج تک ذوالفقار علی بھٹو کے ووٹ بنک کو ختم نہیں کیا جا سکا کئی لوگ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں
    خداوند متعال شہید ذوالفقار علی بھٹو کے درجات بلند فرما کر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین