ہوم << بلادِ شام-زہیر یونس خان

بلادِ شام-زہیر یونس خان

آگ بُجھی ہوئی اِدھر ، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر
کیا خبر اِس مقام سے گُزرے ہیں کتنے کارواں

ارضِ شام یا بلادِ شام در حقیقت وہ خطہ ہے جو ہر دور میں مختلف اقوامِ عالم کے درمیان وجۂِ تنازع رہا ہے۔ ایک قول کے مطابق بلادِ شام کو ارضِ رباط بھی کہا گیا ہے۔)" رِباط " کا مطلب ہے آدمی کا حالتِ جنگ کیلئے کسی جگہ پر تیار اور حاضر پایا جانا۔ اس کیفیت میں ہونا کہ جنگ اب چھڑی کہ اب۔ یا یہ کہ آدمی کو کسی جھڑپ کیلئے ابھی طلب کر لیا جائے گا یا ذرا ٹھہر کر۔ جنگ کے لئے آدمی کا محاذ پر ہونا( اسے سرزمینِ انبیا بھی کہا جاتا ہے۔ تین بڑے آسمانی مذاہب ، اسلام ، یہودیت اور نصرانیت کیلیے یکساں طور پر مقدس مقام بھی یہیں واقعہ ہے جسے مسلمان بیت المقدس یا قبلۂ اول کے نام سے جانتے ہیں جبکہ دیگر دونوں مزاہب یروشلم کے نام سے جانتے ہیں۔ ہم اگر اِس کی جغرافیائی خد و خال پر نظر دوڑائیں تو موجودہ دور کے چار ممالک مل کر خطۂ شام کی حدود میں آتے ہیں۔ جو اُردن ، لبنان ، فلسطین اور موجودہ مملکتِ شام پر مشتمِل ہیں۔

اگر ہم اِس خطہ کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہی وہ سرزمین ہے جِس کے ایک حصے میں انسان نے اپنی اولین آبادی تشکیل دی۔ متعدد مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آج سے دس ہزار سال قبل اریحا نامی شہر کرۂ ارض پر تعمیر ہونے والا پہلا شہر تھا۔ اس کے اصل باسی کنعانی النسل تھے اور اسی مناسبت سے اس کے ایک حصے کو وادئِ کنعان کہا جاتا ہے۔ بعد ازاں جب سمندر پار سے فلسطی قبائل یہاں آکر آباد ہوئے تو انہوں نے اسے فلسطین کا نام دیا۔ کنعانیوں کے بعد عمالقہ دوسری بڑی قوم تھی جو اس خطے کی مالک رہی۔ انہی کے دور میں بنی اسرائیل فرعون کے چنگل سے آزاد ہوکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سرکردگی میں صحرائے سینا میں آن وارد ہوئے۔

عمالقہ دراصل قدیم عرب میں سے ایک قوم تھی جس نے ایک لمبے عرصے تک ارضِ شام اور جزیرہ نمائے عرب پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کی۔ یہ حقیقتاً ایک زور آور قوم تھی۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے بارہ سرکردہ سرداروں کو اُن کے حالات جاننے کیلیے بھیجا تو وہ اُن کے قدو قامت اور جاہ وحشم کو دیکھ کر سخت خائف ہوئے اور واپس آکر ان میں سے دو کے سوا باقی سب سرداروں نے قوم کو یہ بتایا کہ عمالقہ بہت طاقتور اور سرکش قوم ہے اور ہم میں اُس کا مقابلہ کرنے کی تاب نہیں ، مگر دو سرداروں نے کہا کہ اگر ہم اللہ کا نام لے کر لڑیں تو فتح ہماری ہی ہو گی۔ مگر بنی اسرائیل اپنی روایتی ہٹ دھرمی پر ڈٹی رہی اور عمالقہ کے خلاف جنگ کرنے سے انکار کردیا ۔ چنانچہ عذابِ الٰہی کے سبب 40 سال تک وادئِ سینا میں پریشاں و سرگرداں بھٹکتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ نسل ختم ہوگئی ۔ پھر جب اُن سے اگلی نسل جب جوان ہوئی تو اس نے حضرت یوشع بِن نون علیہ السلام ( جو انہی دو سرداروں میں سے ایک تھے جنہوں نے قوم کو عمالقہ کے خلاف جہاد کا مشورہ دیا تھا ) کی قیادت میں عمالقہ کے دار الحکومت " جیریکو " پر حملہ کیا اور اسے با آسانی فتح کر لیا۔ اور یوں بنی اسرائیل ارضِ شام کے ایک حصے پر قابض ہوگئے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد اپنی کوتاہیوں اور نافرمانیوں کی بدولت یہاں سے نکالے گئے اور دربدر کیے گئے۔ پھر کچھ عرصہ بعد حضرت سیموئیل کے دور میں طالوت کی سرکردگی میں دوبارہ اقتدار نصیب ہوا جس کے تحت حضرت داؤد علیہ السلام اور بعد ازاں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں یہ سلطنت بامِ عروج کو پہنچی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد اُن کے جانشین نا اہل ثابت ہوئے اور سلطنت انتشار کا شکار ہو کر دو حصوں میں بٹ گئی جو سامریہ اور یہودیہ پر مشتمل تھی۔ اس دور میں شام کے بقیہ حصوں پر بابلی، آشوری اور میڈیائی اقوام کی حکومتیں قائم تھیں۔ چھٹی صدی قبل از مسیح میں بابلی طالع آزما بخت نصر (نبوکد نضر) نے تمام سرزمینِ شام بشمول سامریہ و یہودیہ کو اپنے زیرِ نگیں کرلیا اور بنی اسرائیل کو غلام بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا ۔

بعد ازاں تقریباً ستر سال بعد فارسی فرمانروا سائرس (ذوالقرنین) نے جب بابل فتح کیا تو بنی اسرائیل کو آزادی دلائی اور واپس فلسطین میں جانے کی اجازت دی۔ لیکن اب یہ خطہ ایرانیوں کی ملکیت تھا۔ جب سکندراعظم مقدونیہ سے مشرق فتح کرنے نکلا تو دارا سے اس کی فیصلہ کُن جنگ اِسی سرزمینِ شام کے خطے فلسطین میں ہوئی اور فارسی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔

اب یہ علاقہ یونانی گھوڑوں کی ٹاپ سے گونجنے لگا۔ سکندر کی موت کے بعد اُس کی وسیع و عرض سلطنت ٹُکڑوں میں بٹ گئی ۔ جب سلطنتِ روما نے اپنے جہازوں کا رُخ مشرق کی جانب پھیرا تو اُسے بھی یہ سرزمین بہت بھائی اور اس نے دمشق کو اپنے مشرقی مقبوضہ جات کا پایۂ تخت بنا لیا اور بلادِ شام میں رومی پھریرے لہرانے لگے۔

آمدِ اسلام کے بعد دورِ خلافتِ راشدہ میں بلادِشام سلطنتِ اسلامیہ کے زیرِ نگیں آگئے اور ایک طویل مدت تک یہ سرزمین آذان کی صداؤں سے گونجتی رہی تا آنکہ 1097ء میں صلیبی حملہ آوروں نے اس پر قبضہ جما لیا اور یہ خطہ ایک مختصر مدت کیلے صلیب کے زیرِ تسلط آگیا۔

1173ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبی طوفان کے آگے بند باندھا اور یہ خطہ دوبارہ ایک طویل مدت کیلیے اسلام کے زیرِ نگیں آگیا۔

کچھ ہی عرصہ بعد جب مشرقِ بعید کی گھاٹیوں سے تاتاری سُرخ آندھی نمودار ہوئی تو اس نے ماسکو سے لاہور تک ملتِ اسلامیہ کے بخیئے ادھیڑ ڈالے مگر مصر کے مملوک سلطان ، رکن الدین بیبرس نے سرزمینِ شام کے ایک مقام ، عینِ جالوت پر ہلاکو خان کو عبرتناک شکست دیتے ہوئے اُن کے آگے دیوار کھڑی کی اور اِس خطے نے ایک بار پھر اپنی فیصلہ کُن حیثیت کو منوایا۔

چودھویں صدی عیسوی میں سلطنتِ عثمانیہ نے زور پکڑا تو یہ خطہ اس کے آہنی ہاتھوں میں چلا گیا اور تقریباً ساڑھے پانچ سو سال تک اُنہی کے زیرِ نگیں رہا ۔ لیکن 1914 میں شروع ہونے والی جنگِ عظیم اول کے دوران لارنس آف عریبیہ کی سازشوں کے نتیجے میں شریفِ مکہ کی تحریک پر عربوں نے غداری کی اور کئی دوسرے علاقوں کی طرح یہ علاقہ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل عالمی سازشی عناصر کے ہاتھوں میں چلا گیا اور ایک مخصوص سازش کے تحت اتحادی اقوام نے اس مشرقِ وسطیٰ کو ہمیشہ کیلیے غیر مستحکم کرنے کی غرض سے 1948ء میں نام نہاد سلطنتِ اسرائیل کی بنیاد ڈالی، اور یہاں کے اصل باشندوں کے بے دخل کرتے ہوئے دُنیا بھر کے یہودیوں کو یہاں لاکر آباد کرنے کا عندیہ دیا۔

چنانچہ اس صورتحال کو دیکھ کر مغربی اتحادیوں کے زیرِ سایہ خوابِ خرگوش میں مست عرب حکمرانوں کو ہوش آیا اور وہ اسلامیانِ فلسطین کی حمایت پر کمر بستہ ہوئے ، مگر اِس دیرکوشی کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا، بلکہ اپنی حدود کے کئی علاقے بھی گنوا بیٹھے۔

اب نوا پیرا ہے کیا ؟ گُلشن ہوا برہم تِرا
بے محل تیرا ترنم ، نغمہ بے موسم تِرا

چنانچہ 1948ء ، 1967ء اور 1973ء میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان تین جنگیں لڑی گئیں ، جِن کے نتیجے میں جولان کی پہاڑیاں اور بہت سا دیگر علاقہ بھی اسرائیل کے قبضہ میں چلا گیا۔ اور پھر وقت کی گردش نے جب مسلمانوں کی ترجیحات کو تبدیل کیا تو یہ اہم مسئلہ بھی اُن کی نظر سے اوجھل ہو گیا۔اور وہ ایک مدت تک فلسطین اور بیت المقدس کے مسئلے کو پرائی نگاہوں سے ہی تکتے رہے۔ یعنی

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

لیکن کچھ عرصہ قبل شروع ہونے والے فلسطینی انتفاضہ ، اور اس کے نتیجے میں فلسطینی صدر یاسر عرفات اور حماس کے حریت راہنما شیخ احمد یاسین کی شہادتوں اور پھر بعد ازاں حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین تصادم میں اسرائیل کی حزیمت نے اِس مسئلے کو از سرِ نو زِندہ کر دیا اور انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت فلسطینی محصورین کی مدد کو آنے والے ترک بحری جہاز " فریڈم فوٹیلا " کی اسرائیل کے ہاتھو ں تباہی اوراس کے نتیجے میں تُرکی حکومت کی جانب سے اسرائیل کے بائیکاٹ اور پھر حماس اسرائیل لڑائی میں اہلیانِ غزہ کا استقلال جہاں اسلامیانِ عالم کیلیے پیغامِ خروش ثابت ہوا ہے وہیں ایک مخصوص سازشی ٹولے کے علاوہ دیگر اقوامِ عالم بھی اسرائیل کو لعن طعن کر رہے ہیں۔ جو کہ ساکنانِ مغربی کنارہ و غزہ کیلیے مژدۂ جاں فزا ہے۔

مژدہ اے پیمانہ بردارِ خمستانِ حجاز
بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش

پھر یہ غوغا ہے کہ لا ساقی شرابِ خانہ ساز
دِل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش

اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے عالمِ اسلام کو اس مسئلے کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔ کیوںکہ اگر تارخی حقائق کو دیکھا جائے تو بنی اسرائیل کی قومِ یہود جو اس وقت اِس خطہ کو اپنی مورثی ملکیت سمجھتے ہوئے ارضِ مقدس پر قابض ہے ، اگر اس کے اِس دعوے کو تاریخی حقائق کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو اس نے اِس سرزمین پر تقریباً 400 چار سو سال حکومت کی ہے۔ جبکہ اِس کے مقابلے میں یہ خطہ کم و بیش ساتویں صدی عیسوی سے لے کر 1919ء تک مسلمانوں کی ملکیت رہا ہے۔ اگر درمیان سے عیسائیوں کے 90 سالہ دور کو نکال دیا جائے تو یہ دورانیہ 1190 سال سے ذائد بنتا ہے۔ چنانچہ حقائق کی رو سے قومِ یہود کا فلسطین کے حوالے سے آبائی وطن کا دعویٰ عبث اور اور غاصبانہ ہے۔ اور پھر حکمنامۂِ ربانی تو یہ ہے کہ

((وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ ١٠٥؁ ))

ترجمہ: اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔

یعنی حکمنامۂِ خداوندی کے مطابق بھی یہود، رسولوں علیہم السلام کو جھٹلا کر منصبِ وراثت سے اُتر چُکے ہیں۔ اور اب زمین کے اصل وارث مومنین ہی ہیں۔

اب یہ بات بذاتِ خود ہمارے سوچنے کی ہے کہ جب زمین کے اصلی وارث ہم ہیں تو پھر ہم پر حکومت دوسرے کیوں کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟؟

کہیں ہم مومنین کی ان صفات سے باہر تو نہیں نکل گئے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں درج ذیل الفاظ میں کیا ہے

((قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۝ۙ الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ ۝ۙ وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ۝ۙ وَالَّذِيْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ ۝ۙ وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ ۝ۙ ))

ترجمہ :یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے ۔ (یہ وہ لوگ ہیں) جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ اور جو لغویات سے دور رہتے ہیں۔ اور جو زکوة کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔ اور جواپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہی۔

مہر و ماہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر

والی صفت ہم سے کیوں چھن گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟

یقیناً ہم میں سے اکثر اِس کی وجوہات سے واقف ہیں لیکن حُبِ دُنیا میں اِس قدر مست ہو چکے ہیں کہ اپنا اصلی منصب ہی بھلا بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!

اگر ہم بائبل قرآن اور احادیث کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ حق اور باطل کے درمیان آخری فیصلہ کُن جنگ جوکہ ہرمجدون ( آرمیگاڈان) کے نام سے جانی جاتی ہے ، کا فیصلہ بھی اسی سرزمینِ شام کے ایک مقام " لُد " پر ہو گا۔ جہاں قومِ یہود کا خاتمہ ہو گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجالِ اکبر کا قصہ پاک کریں گے۔ کچھ عرصہ قبل تعمیر ہونے والے اسرائیل کے مرکزی جنگی ایئر پورٹ کا نام بھی " لُد " ہی بتایا جاتا ہے۔

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

Comments

Click here to post a comment