ہوم << ’’سیٹھوں کا ایندھن‘‘ - احسان کوہاٹی

’’سیٹھوں کا ایندھن‘‘ - احسان کوہاٹی

وہ بیگار کیمپ سمندر کے کنارے پر پلاٹ نمبر 54 میں واقع ہے. یہ کہنے کو ہی پلاٹ ہے، اصل میں یہ ایک بہت بڑا میدان ہے، اتنا بڑا کہ فٹبال کے بیس میدان اس میں بنائے جا سکتے ہیں، اس کے گرد تین اطراف سے مضبوط بلند کھنچی ہوئی دیوار اسے جیل کی سی شکل دیتی ہے، چوتھی طرف وہ سمندر ہے جو اس زمین کے مالک چوہدری غفور کے لیے ہیرے موتی جواہر لے کر آتا ہے، اس کے گھر کی مستورات کے طلائی زیوارت سے بنکوں کے لاکروں کی گنجائش کم کرتا ہے، اسے ٹھاٹ باٹھ دیتا ہے، اسے سیٹھ بناتا ہے، پرتعیش زندگی دیتا ہے، سمندر کی لہروں پر تیرتے ہوئے زنگ آلود لوہے سے ہی چوہدری صاحب کی زندگی کی چمک دمک قائم ہے، اس کے شاندار گھر میں کھڑی گاڑیوں کے لشکاروں سے لے کر اس سے وابستہ خواتین کی کلائیوں میں 24 قیراط کے طلائی کنگنوں اور گردن میں پڑے ہیرے کے نیکلسوں کی چمک تک اسی لوہے کے زنگ سے ہے اور اسی زنگ نے گڈانی کے ساحلی پٹی پر 120 ’’بیگار کیمپوں‘‘ کے مالکوں کو’’سیٹھ‘‘ بنا رکھا ہے۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کراچی سے زیادہ دور نہیں، دو گھنٹے کی مسافت آپ کو مہذب دنیا سے بلوچستان کے ان بیگار کیمپوں میں لے آتی ہے جہاں میلے کچیلے میل بھرے ناخنوں والے ہاتھ بحری جہازوں کا زنگ آلود فولاد کاٹ پھاٹ کر اپنے سیٹھوں کی زندگیاں چمکاتے رہتے ہیں اور خود قبر کے اندھیروں میں اتر جاتے ہیں لیکن اس بار تو چوہدری غفور کی عیاشیوں کے لیے ایندھن بننے والے مزدوروں کو یہ اندھیرے تک نصیب نہ ہوئے۔
سیٹھ صاحب نے اپنی عمر پوری کرنے والے بحری جہاز کا سودا کیا اور وہ جہاز سمندر کے سینے پر تیرتا ہوا گڈانی میں ان کے پلاٹ پر آ لگا، یہ تقریبا بائیس ہزار ٹن وزنی بحری جہاز تھا جو آئل کی ترسیل کا کام کرتا تھا، اپنی طبعی عمر پوری ہونے پر اسے ٹھکانے لگا دیا گیا، یہ جہاز گڈانی میں لوہے کے ٹکڑوں میں کٹنے کے لیے آیا تھا، سیٹھ نے اسے آگے ٹھیکداروں کے حوالے اس ہدایت کے ساتھ کیا کہ اسے جلد از جلد چیر پھاڑ کر جگہ خالی کی جائے تاکہ ایسا ہی کوئی دوسرا بوڑھا جہاز یہاں لایا جا سکے لیکن سیٹھ کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی. یکم نومبر کو ٹھیکداروں نے مزدروں کو جہاز پر چڑھا دیا، بنگالی محنت کش جہاز کے آئل ٹنک میں سے آئل نکالنے کے لیے گھسے، عرشے پر کام کرنے والے وہاں پہنچے اور ویلڈنگ راڈ اور گیس کٹروں کے ساتھ کام کرنے والے دیہاڑی دار اپنی اپنی جگہوں پر کام کرنے لگے، جہاز میں صبح دس بجے کے قریب زوردرا دھماکاہوا، دھماکا کیا تھا زلزلہ تھا، جس سے گڈانی کی زمین لرز گئی، دھماکے کے ساتھ ہی جہاز میں آگ لگ گئی جو اتنی تیزی سے بھڑکی کہ کم ہی مزدوروں کو نکلنے کا موقع مل سکا، جو عرشے پر کھڑے تھے، انہوں نے زندہ جلنے سے بچنے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگا دی لیکن جوآئل ٹنک میں تھے وہ زندہ ہی جل بھن گئے، اس شدت کی آگ میں ہڈیاں بھی سفوف ہو جاتی ہیں۔
گڈانی کے شب بریکنگ یارڈ میں کھڑے جہاز میں لگنے والی آگ اس قدر بھیانک تھی کہ مہذب دنیا بھی چونک اٹھی، نیوز چینلز نے کراچی سے چھتری والی گاڑیوں میں رپورٹروں اور کیمرامینوں کو بٹھا کر گڈانی روانہ کر دیا کہ اصل صورتحال کا علم ہو، کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں 57 کے قریب زخمی لائے جا چکے تھے، ان میں زیادہ تر بری طرح جھلس جانے والے محنت کش تھے جن کے بچنے کے امکانات آج بھی زیادہ نہیں. یکم نومبر کی شام تک جہاز سے اٹھارہ لاشیں نکالی جا چکی تھیں، زخمیوں کا کہنا تھا کہ جہاز پر دو سو کے قریب مزدور کام کر رہے تھے، لگ بھگ سو کے قریب لاپتہ تھے. سیلانی دو نومبر کی صبح آٹھ بجے اسی بدقسمت جہاز کے سامنے کھڑا تھا جس میں لگنے والی آگ کے نارنجی شعلے تب بھی انتظامیہ حکومت اور ہم سب کی بےحسی کے ساتھ مل کر رقص کر رہے تھے۔
حادثہ، سانحہ یا وقوعہ، سیلانی کے اندازے سے کہیں زیادہ بڑا تھا، اس خیال نے ہی اسے مضطرب کر دیا کہ اس جہاز میں کل تک جیتے جاگتے لوگ کام کر رہے تھے اور آج ان کا نشان تک نہیں، صبح دس بجے کا وقت تھا اور وہاں امدادی سرگرمیوں کے نام پر ایک اسسٹنٹ کمشنر اور گڈانی کا تھانیدار چلتے پھرتے دکھائی دے رہے تھے، سامنے ہی جہاز جل رہا تھا. ایک نیوز چینل کے دوست اسماعیل ساسولی نے پولیس وردی میں ملبوس رحمت اللہ چھٹہ کا ایس ایچ او گڈانی کی حیثیت سے تعارف کرایا، سیلانی نے مصافحہ کیا اور وہی سوال کیا جو اس موقع پر ہر صحافی کرتا ہے۔
1 ’’مقدمہ درج ہوا ہے؟‘‘
’’جی ،جی بالکل درج ہوا ہے.‘‘
’’مدعیت؟‘‘
’’سرکار کی مدعیت میں پرچہ کاٹا ہے.‘‘
’’ملزم؟‘‘
’’چوہدری غفور کے خلاف مقدمہ بنا ہے.‘‘
’’گرفتار تو ہوگا.‘‘
’’نہیں سر، یہ پتہ چلا ہے کہ وہ کراچی میں ہے.‘‘ بااثر ملزمان کبھی اتنی آسانی سے حوالات میں کہاں آتے ہیں اور آتے بھی ہیں تو۔۔۔
’’کراچی علاقہ غیر تو نہیں ہے، کل کا واقعہ ہے، اب تک تو اسے پکڑے جانا چاہیے تھا.‘‘ ظاہر ہے سیلانی کے اس سوال کا تھانیدار نے کوئی جواب نہ دینا تھا. وہ اسسٹنٹ کمشنر صاحب کے پیچھے لپک پڑا اور سیلانی جلتے ہوئے جہاز کی طرف چلا گیا۔
3 پلاٹ میں جا بجا لوہے کے منوں وزنی ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے، وہ جہاز کے قریب چلا آیا جہاں پاکستان بحریہ کے کچھ اہلکار اور ایک فائر ٹینڈر کھڑا ہوا تھا، چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جہاز تندور بنا ہوا تھا، سیلانی وہاں کھڑے ایک افسر کے پاس چلا آیا۔
’’السلام علیکم‘‘سیلانی نے مصافحہ کرتے ہوئے اپنا تعارف کرایا اور پوچھنے لگا۔
’’کچھ پتہ چل سکتا ہے کہ آگ پر کب تک قابو پایا جاسکے گا؟‘‘
’’سچی بات تو یہ ہے کہ اس آگ پر قابو پانے کے لیے ہمارے پاس تکنیکی کوئی سہولت نہیں، یہ خود ہی بجھے تو بجھے، ویسے میرا خیال ہے کہ اڑتالیس گھنٹے لگیں گے.‘‘
’’اچھا میں تو یہ دیکھ کر بھی حیران ہوں کہ ریسکیو کا بھی کوئی کام نہیں ہو رہا.‘‘
’’بات یہ ہے کہ ریسکیو کا وقت نکل چکا ہے.‘‘
’’اوہ، یعنی جہاز میں کسی کے زندہ بچنے کے امکانات نہیں.‘‘
اس افسر نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے جواب دیا ’’اگر کوئی آگ سے بچ بھی گیا ہو تو دھواں اتنا ہے کہ اس کا دم گھٹ گیا ہوگا.‘‘
4 سیلانی نے سرد آہ بھری اورواپس پلٹ پڑا، اسے سفید جیپ میں عبدالستار ایدھی مرحوم کے صاحبزادے فیصل ایدھی دکھائی دیے، سیلانی فیصل کی طرف لپک پڑا، اس وقت وہاں اس سے زیادہ باخبر کوئی شخص نہیں ہو سکتا تھا، سیلانی نے ہاتھ ہلا کر فیصل بھائی کو متوجہ کیا اور ہانپتا ہوا فیصل بھائی کے پاس پہنچ گیا.
’’کیا رپورٹ ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں، بس صبح دو لاشیں ملی تھیں.‘‘
’’فیصل بھائی! زخمی کیا کہہ رہے ہیں، کتنے لوگ کام کر رہے تھے، یہاں تو کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں.‘‘
’’سیلانی بھائی! کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے، جہاز اسکریپ کے لیے آیا، اسے ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیاگیا، اب ٹھیکیدار کتنے بندوں کو جہاز پر لے کر گئے، یہ تو ان ہی کو پتہ ہوگا اور وہ غائب ہیں، صرف دو پکڑے ہوئے ہیں، یہاں کام کرنے والے مزدور بتا رہے ہیں کہ کم از کم دو سو مزدور تو جہاز پر ہوگا۔۔۔‘‘سیلانی اور فیصل ایدھی بات کرتے کرتے دوبارہ اسی جہاز کے پاس چلے آئے، فیصل ایدھی اسے واقعے کی تفصیلات بتا رہا تھا۔
’’سیلانی بھائی! دھماکا ایسا زوردرا تھا کہ اس نے جہاز کو پھاڑ دیا. یہ دیکھ رہے ہیں، جہازکا منہ، یہ ٹنوں وزنی ہے، یہ جہاز سے اکھڑ کر ادھرآگرا.‘‘
سیلانی اور فیصل ایدھی باتیں کر رہے تھے کہ فیصل ایدھی کی نظر ایک جگہ جم گئی ’’وہ دیکھو، وہ دیکھ رہے ہیں.‘‘
’’ہاں ربڑ کاپائپ ہے.‘‘
’’یہ ویلڈنگ ٹارچ ہے، اس کا مطلب یہ کہ جہاز کو ویلڈنگ ٹارچ سے کاٹا جا رہا تھا۔‘‘
’’اور اس میں آئل موجود تھا؟‘‘
’’تب ہی تو آگ لگی ہے، آپ آئل کے ٹنک کو لائٹر دکھائیں گے تو کیا ہوگا؟‘‘
یہ دیکھ کر سیلانی کے ہونٹ سکڑ گئے ’’اتنی لاپرواہی۔۔‘‘
’’صاحب! یہاں ایسا ہی ہوتا ہے.‘‘یہ آواز ان کی گفتگو سننے والے ایک مزدور کی تھی جو قریب ہی کھڑا تھا،
’’پہلے جہاز کی کٹائی میں سال سال لگ جاتا تھا، اب سیٹھ بولتا ہے جلدی کرو جلدی کرو، اس جلدی کے کام کا نتیجہ آپ آج دیکھ رہے ہو۔ ہوتا یہ ہے کہ جب جہاز یہاں لگتا ہے تو سب سے پہلے اس میں گولا لگاتے ہیں، وہ کیا بولتے ہیں کھڑکی جیسا بناتے ہیں پھر اس میں بلور سے ہوا مارتے ہیں تاکہ اس میں کوئی گیس ویس ہو تو نکل جائے، پھر اس کا ٹنک صاف ہوتا ہے اور جب تک ٹنک صاف نہ ہو بتی نہیں لگاتے۔۔‘‘
’’بتی ؟‘‘ سیلانی نے بات کاٹ دی۔
’’ویلڈنگ والا بتی جس سے لوہا کاٹتا ہے، جب جہاز کلیئر ہوجاتا ہے تو ہی بتی لگاتا ہے، اب سیٹھ لوگ بولتا ہے جلدی کرو جلدی کرو، آج اس جلدی نے ہمارے سو ڈیڑھ سو جوان راکھ کر دیے.‘‘
اس مزدور نے بتایا کہ یہاں زیادہ خیبر پختونخوا کے علاقے سوات، دیر اور باجوڑ کے لوگ محنت مزدوری کے لیے آتے ہیں، دوسرا نمبر پنجاب کا ہے، بنگالی بھی یہاں بہت کام کرتا ہے، وہ زیادہ تر آئل ڈیزل کا ٹنک صاف کرتے ہیں، یہاں کا لوکل لوگ کم ہے.‘‘
یہ باتیں کرتے ہوئے مزدور جہاز سے اکھڑ کر آنے والے ٹکڑے کے پاس آگیا اور کہنے لگا ’’صاحب! یہ نشان دیکھ رہے ہیں، اگر جہاز خالی بھی ہو نا تو اس میں چار فٹ تک ڈیزل تیل ہوتا ہے، اس میں بھی تیل پڑا ہو تھا، اور اسی وجہ سے آگ لگا‘‘
’’آپ لوگوں کی دیہاڑی کیا ہوتی ہے.‘‘
’آٹھ سو سے ساڑھے آٹھ سو روپے.‘‘
’’کوئی علاج معالجے کی سہولت ہے.‘‘
’’کوئی نہیں، چھوٹا زخم ٹھیکدار کے ذمے اور موت مرگ سیٹھ کے، اس کے علاوہ کوئی سہولت نہیں، یہاں تو آئے دن کوئی نہ کوئی مرتا رہتا ہے، ادھر کسی ہفتے کوئی جنازہ نہ ہو تو ہم شکر کرتا ہے، ہاتھ پاؤں ٹوٹنا، چوٹ لگنا تو گھنٹے کے حساب سے ہے، ہر گھنٹے میں کوئی نہ کوئی زخمی ہوتا ہے‘‘۔
ان سب باتوں کی تصدیق وہاں اٹھائیس گھنٹے بعد پہنچنے والے کمشنر ضلع ہاشم غلزئی نے بھی کی جنہوں نے صاف گوئی سے کہا کہ گڈانی پر کوئی ایس او پی تھی ہی نہیں یا اس پر عمل نہیں ہورہا تھا، انہوں نے دفعہ 144 لگا کر گڈانی شپ یارڈ پر کام رکوا دیا، ان سے سست رفتار اور ناکافی امدادی کارروائیوں کا پوچھا تو کہنے لگے ’’ہمارے پاس وسائل ہیں ہی کہاں، پورے بلوچستان میں ایک اسنارکل بھی نہیں ہے.‘‘
کمشنر صاحب اور ان کے ساتھ تشریف فرما ڈپٹی کمشنر کو بھی بدقسمت جہاز پر کام کرنے والے مزدوروں کی تعدادکا علم نہیں تھا، وہ نہیں بتا سکتے تھے کہ کتنے لاپتہ ہوئے اور کتنے جان سے گئے، انہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ جہاز کو کاٹنے پھاڑنے سے پہلے کس نے معائنہ کیا، کس نے محفوظ قرار دیا کہ اس پر مزدور کام کر سکتے ہیں، انہیں مزدوروں کی بھینٹ چڑھانے والے چوہدری غفور کا بھی علم نہیں تھا۔
لاعلمی، بےحسی، بےبسی اور بےضمیری تھی جو نوکر شاہی اور وہاں اپنے پیاروں کی تلاش میں آنے والوں کے صورتوں میں دیکھی جا سکتی تھی، افسوس تو یہ کہ حادثے کو دو دن ہونے کو تھے مگر بلوچستان کے وزیراعلی نے جھانکنا بھی مناسب نہ سمجھا، وزیر اعلی تو خیر توپ چلانے والے ہوتے ہیں، علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے بھی وہاں نہیں آئے کہ چلو حاضری لگا کر نمبر ہی بڑھا لیں۔ وہ آبھی جاتے تو کیا ہوتا، جلنے والے تو جل رکھ کر سفوف ہو گئے، سیٹھوں کی محفوظ تجوریوں میں رکھے خزانوں پر قربان ہوگئے، ان سو مزدوروں کو کبھی پتہ نہیں چلےگا اس احساس ذمہ داری، شرم و حیا اور ضمیر نام کی چیز کی طرح جن کا ذکر اب صرف کتابوں میں رہ گیا ہے ۔۔ سیلانی ڈھلتی شام میں جلتے بحری جہاز کے سامنے نمناک آنکھوں سے اس سے اٹھتے شعلوں کو بےبسی سے دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔