ہوم << اردو گالی: لسانی، نفسیاتی، معاشرتی اور مذہبی تناظر میں - حافظ محمد زبیر

اردو گالی: لسانی، نفسیاتی، معاشرتی اور مذہبی تناظر میں - حافظ محمد زبیر

حافظ محمد زبیر گالی کا لفظ ”پراکرت“ زبان کا ہے جو کہ سنسکرت کی بگڑی ہوئی شکل ہے اور اس کا معنی فحش گفتگو کرنا ہے۔ گالی کا معنی تو یہی ہے لیکن چونکہ اس کا مقصد مخاطب کو ذلیل اور رسوا کرنا ہوتا ہے لہذا ایسے الفاظ بھی گالی کہلانے کے مستحق ہیں کہ جن سے مقصود مخاطب کی تذلیل اور تحقیر ہو۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ کسی بھی زبان میں اکثر و بیشتر معروف گالیاں، فحش کلام پر ہی مشتمل ہوتی ہیں لیکن ہر گالی میں فحش کلام نہیں ہوتا۔
کہا جاتا ہے کہ پنجابی زبان، گالیوں میں بہت فصحیح اور بلیغ ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے کہ اول تو پنجابی کی گالیاں، اردو سے ماخوذ ہیں۔ اور خود اردو زبان میں جو گالیاں دی جاتی ہیں، وہ اکثر وبیشتر دوسری زبانوں سے ماخوذ ہیں اور بہت کم ایسی ہیں کہ جنہیں آپ عرفی یا عامی زبان (slang) کہہ سکتے ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہیں کہ ہم اردو بولنے والے گالی کی ایجاد میں بہت ہی خلاق (creative) صلاحیتوں کے مالک ہیں کہ چاہیں تو ”ٹریکٹر ٹرالی“ کے الفاظ کو نسبت عطا فرما کر گالی بنا دیں۔
اردو میں گالی یا تو دوسری زبان سے ماخوذ ہے تو یہ تو لغت کا حصہ بن گئی کہ جس کا اصل ہم لغت سے معلوم کر سکتے ہیں۔ یا پھر گالی عامی زبان میں ہو گی اور عامی زبان کبھی بھی تحریر کا حصہ نہیں ہوتی بلکہ محلے گلی کا کلچر ہوتا ہے لہذا اس کے معانی لغات میں تلاش کرنا بے وقوفی شمار ہوتا ہے جیسا کہ لفظ ”دل۔۔۔۔“ کہ یہ عامی زبان (slang) ہے کہ جس کا معنی ”دیوث“ ہے یعنی بے غیرت کہ جو اپنی گھر کی عورتوں کے معاملے میں غیر محرم مردوں پر غیرت نہ کھاتا ہو۔
کہا یہ جاتا ہے کہ اردو اور پنجابی گالیاں محرم سے زنا (incest) کے گرد گھومتی ہیں لیکن یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ ایسا دعوی کرنے والے یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اردو بولنے والوں کے لاشعور میں محرم سے زنا کی خواہش کس قدر موجود ہے کہ اسے گالیوں سے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ معروف اردو اور پنجابی گالیوں کا مفہوم زنا کی نسبت رکھتا ہے کہ گالی کا معنی ہی فحش گفتگو ہے لہذا معروف گالی وہی ہوتی ہے کہ جس میں زنا کا تصور شامل ہو۔
اور اس سے پہلے کہ کوئی سائیکالوجسٹ اس کی وجہ اردو سپیکنگ سوسائٹی کے لاشعور کی ان دیکھی جنسی خواہشات بتلانا شروع کر دے، ہم یہ واضح کر دیں کہ اس کی وجہ دوسرے پر غالب آنے کی خواہش ہے اور دوسرے پر غلبہ، اس کو نیچا کر کے یعنی اس کی تحقیر اور تذلیل سے ہی حاصل ہو سکتا ہے اور تحقیر اور تذلیل میں مبالغہ فحش گوئی کی صورت ممکن ہوتا ہے۔ مجھے اپنے ماحول یعنی یونیورسٹی، بازار وغیرہ میں جو گالی سب سے زیادہ سننے کو ملتی ہے، وہ ”۔۔۔۔۔ چود“ ہے کہ جس کا معنی بہن سے زنا کرنا ہے۔ یہ شاید اردو اور پنجابی زبان کی معروف ترین گالی ہے اور یہی وہ واحد گالی ہے کہ جس میں محرم سے زنا کا تصور شامل ہے۔
اسی طرح اردو اور پنجابی کی دوسری معروف گالی ”۔۔۔۔۔تیا“ سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور اس کا معنی بیوی کے زنا کی کمائی کھانے والا ہے اور تیسری معروف گالی ”۔۔۔امی“ یا ”۔۔۔۔زادہ“ تو واضح ہے کہ حرام کی اولاد کے معنی میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ غالب نے کسی کو گالی کے آداب سکھاتے ہوئے کہا تھا کہ بچے کو ماں، جوان کو بہن اور بوڑھے کو بیٹی کی گالی دینی چاہیے۔ اگر تو غالب نے ایسا کہا تھا تو بہت ہی بے کار بات کہی تھی اور میں مذہبی اعتبار سے بے کار نہیں کہہ رہا بلکہ معاشرتی اور نفسیاتی پہلو سے کہہ رہا ہوں۔ غالب کا خیال تھا کہ گالیاں سن کر ان ہر غیرت کھانے والے گالی کے معانی کی وجہ سے غیرت کھاتے ہیں حالانکہ یہ بات مشاہدہ کے خلاف ہے۔ اکثر وبیشتر لوگ معروف گالیوں پر ان الفاظ کے عرف میں گالی ہونے کی وجہ سے ان پر غیرت کھاتے ہیں ورنہ تو اکثر کو ان گالیوں کے معانی کا علم تک نہیں ہوتا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کا کبھی نہ کبھی گالی دینے کو دل ضرور کرتا ہے اور بچوں میں یہ جبلت بہت غالب ہوتی ہے۔ ہماری رائے میں یہ کہنے میں حرج تو نہیں ہے کہ انسان میں بہت سی جبلتیں ہیں جو کہ اپنی تسکین چاہتی ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب کسی سے انسان کی لڑائی یا اختلاف ہو یا اس سے تکلیف اور اذیت پہنچے تو انسان بدلہ لے اور اس بدلے لینے کی خواہش میں وہ دوسرے کی اسی طرح تحقیر اور تذلیل چاہتا ہے جیسا کہ دوسرے نے اس کی تحقیر اور تذلیل کی ہے۔ پس گالی انسانی جبلت میں اتنی ہی موجود ہے اور جو اس سے زائد ہے تو وہ ظلم ہے اور ظلم، ظالم کی صفت تو ہو سکتی ہے، انسان کی نہیں۔
مذہبی پہلو سے گالی دینا حرام ہے کہ کسی مسلمان یا انسان کی تحقیر اور تذلیل جائز نہیں ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ ہیں کہ مسلمان کو گالی دینا، گناہ کا کام ہے۔ اور گالی کے اخلاقی گراوٹ ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں ہے لہذا اخلاقا بھی ممنوع ہے کہ کسی انسان کی تحقیر اور تذلیل کو کون جائز کہہ سکتا ہے؟ البتہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ گالی اگر پیار سے دی جائے تو کیا پھر بھی حرام ہے؟ تو اس کا جواب ہے کہ تب بھی حرام ہے کہ اس میں اکثر وبیشتر فحش گفتگو ہوتی ہے اور مومن کبھی فحش گفتگو نہیں کرتا۔ یا پھر گالی میں تذلیل ہوتی ہے، چاہے اپنے دو سال کے بچے کو ہی پیار سے ”کتا“ کہہ دے لیکن انسان کی نہ سہی تو انسانیت کی تذلیل تو ہے ہی۔۔
البتہ شریعت میں یہ جائز ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو اس کو جواب میں گالی دی جا سکتی ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ اگر دو لوگ ایک دوسرے کو گالی دیں تو گناہ ابتداء کرنے والے پر ہو گا جبکہ دوسرا جوابی گالی میں زیادتی نہ کرے۔ البتہ جوابی گالی میں یہ ملحوظ رہے کہ فحش گالی سے اجتناب کرے کہ سنن ترمذی کی روایت کے مطابق مؤمن فحش گو نہیں ہوتا۔ اور اگر کسی نے فحش گالی دی ہے تو اسے ”تم خود ایسے“ جیسے الفاظ سے اس پر لوٹایا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی اجازت ہے جبکہ مستحب عمل یہی ہے کہ گالی کے جواب میں گالی نہ دے۔

Comments

Click here to post a comment