Blog

  • روز مرہ استعمال کی چار آلودہ ترین اشیاء – ڈاکٹر عثمان عابد

    روز مرہ استعمال کی چار آلودہ ترین اشیاء – ڈاکٹر عثمان عابد

    عثمان عابد گھر ہو ، دفتر ہو یابازار، ہمیں بے شمار اشیاء کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور ظاہر ہے کہ کسی چیز کو استعمال کرنے کے لیے اسے چھونا تو پڑتا ہی ہے ۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ روز مرہ ایسی بہت سی چیزوں کو بار بار چھوتے یا ہاتھ لگاتے ہیں جو ویسے تو صاف دکھائی دیتی ہیں مگر یہ جراثم سے پُر ہوتی ہیں۔ جبکہ ان پر بیٹھے جراثیم اتنے خطرناک ہوتے ہیں جو کسی بھی شخص کو بیمار کر سکتے ہیں ۔ ویسے تو ان روزمرہ استعمال کی چیزوںکی فہرست خاصی طویل ہے ۔ لیکن زیر نظر مضمون میں ہم آپ کو ایسی ہی چند اشیا ء کے بارے میں بتائیں گے جنہیں آپ روزانہ زندگی میں استعمال کر تے ہیں ان میں ہمارے بے شمار دشمن چھپے ہوتے ہیں۔

    کرنسی نوٹ اور سکّے
    پیسوں سے کون پیار نہیں کرتا لیکن آپ کو پتا ہے کہ کرنسی نوٹوں اور سکّوں پر کتنے مضر صحت جراثیم بیٹھے یا چپکے ہوتے ہیں ۔ اگر آپ ان جراثیم کا شمار کر لیں تو یقینا آپ کبھی بھی ان نوٹوں اور سکوں سے پیار نہیں کریں گے۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے بارے میں پڑھتے جائیے۔اس تحقیق کے مطابق ایک ڈالر کے نوٹ میں تقریباً ایک لاکھ پینتیس ہزار بیکٹیریا پائے گئے ۔ اسی پربس نہیں بلکہ ان نوٹوں پر ایک ہزار سے زائد مائیکروگرام تک نشہ آور اور زہریلے مادے بھی پائے گئے۔ لیکن ان نوٹوں یا کرنسی سکّوں کو ہاتھ لگانا تو سب کی ہی مجبوری ہے۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ انہیں استعما ل کرنے کے بعد اچھی طرح سے اپنے ہاتھ دھو لیجئے

    کمپیوٹر کی بورڈ
    کرنسی کے بعد اب ہم کمپیوٹر کی بات کرتے ہیں ۔ہم کرنسی نوٹوں یا سکّوں سے زیادہ کمپیوٹر کی بورڈ کو ہاتھ لگاتے ہیں لیکن آپ کو بیمار کرنے والے جراثیم کی بورڈ پر بھی بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں برطانوی صارفین کے گروپ کی جانب سے ایک تحقیق کی گئی۔ تحقیق کے دوران کی بورڈ سے تینتس نمونے اکھٹے کیے گے۔ جن میں سے چار نمونے ایسے سامنے آئے جنہیں انسانی صحت کے لیے خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ اس دوران ایک کی بورڈ سے جمع کیے گئے نمونوں نے ماہرین کو حیران کر دیا اور حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ اُس کی بورڈ پر اتنے جراثیم موجود تھے جتنے کسی باتھ روم میں بھی نہیں پائے جاتے ۔ یقیناً آپ یہ سطور پڑھنے کے بعد گھبرا گئے ہوں گے ۔ لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ بلوریا کسی مناسب (ڈیٹرجنٹ )صرف میں بھگوئے ہوئے کپڑے کے ذریعے کی بورڈ کی صفائی کو اپنا معمول بنائے اور خطرناک جراثیموں سے محفوظ رہیے۔

    ریموٹ کنٹرول
    گھر میں بچوں سے لے کر بڑوں تک سب ہی ٹی وی دیکھتے ہیںاور یوں بے چارہ ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول سارا وقت ادھر سے اُدھر مختلف ہاتھوں میں گھومتا پھرتا ہے ۔ کھانے پینے کے دوران بھی ہم کتنی بار ریموٹ کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ اسی طرح غذا بھی ہاتھوں کے ذریعے ریموٹ پر لگتی رہتی ہے اور یوں ہم جراثیموں کے لیے بھرپور ناشتے کا بھی انتظام کرتے رہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہر قسم کے بیکٹیریا مثلاً ایس اے آر ایس، وی ای اور ایم آرایس اے جیسے خطرناک بیکٹیریا ریموٹ پر پلتے ہیں ۔ پھر یہی جراثیم ہمارے ہاتھوں پر لگ کر ہمارے منہمیںپہنچ جاتے ہیں ۔اگر آپ ان جراثیموں سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو ریموٹ کی بھی صفائی کا خیال رکھیں اور کھانے پینے کے دوران ریموٹ کو ہاتھ نہ لگائیں۔

    موبائل فون
    اگر انسان کے استعمال کی چیزوں کی بات کریںتو موبائل فون وہ واحد ایجاد ہے جس نے سب سے زیادہ انسان کی قربت حاصل کی ہے ۔ آپ دن میں کئی بار موبائل فون ہاتھ میں لیتے اور کان سے لگا کر بات کرتے ہیں ۔یونائیٹڈ کنگڈم کی تحقیق کے مطابق موبائل فون ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں جراثیموںکی آماجگا ہ ہوتا ہے ۔ موبائل فون پر ــــ ”فام“ نامی بیکٹیریا بھی پایا گیا ہے۔ یہ بیکیٹریا پیچش ، تیز بخار اور بہت سی بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ ایسے جان لیوا جراثیم سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ اپنے موبائل فون پر اینٹی مائیکروبیل کوٹنگ کرائیے یا کم ا ز کم کسی صاف کپڑے سے موبائل فون کی صفائی کا خاص خیا ل رکھیں۔

  • مرد اور عورت کی نفسیات – علی حسن

    مرد اور عورت کی نفسیات – علی حسن

    عام طور پہ عورت جذباتی طور پہ زیادہ مضبوط ہوتی ہے قدرت نے اس میں زیادہ ظرف رکھا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر میاں بیوی میں عورت پہلے مر جائے تو مرد جلد مر جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اگر مرد پہلے مر جائے تو عورت ایک لمبی زندگی گزار تی ہے اسی طرح ہارٹ اٹیک عورتوں کی نسبت مردوں کو زیادہ ہوتے ہیں اس کی وجہ ہے کہ قدرت نے عورت میں زیادہ لچک رکھی ہے مرد میں اتنا ظرف اور اتنا حوصلہ نہیں ہوتا۔

    عورتیں میں برداشت کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے انہوں نے خود کو چھوٹا کیا ہوتا ہے یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ پیچھے والدہ کی تربیت اس طرح کی نہیں ہوئی ہوتی، گھر کا ماحول، سونے سنائے محاورے ہوتے ہیں ،قدر ت نے انہیں جن جتنی طاقت دیتی ہے مگر اس نے ماحول کی وجہ سے ایک بونے کی شکل اختیار کی ہوتی ہے ۔ بہت سارے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ وہ پیدا تو بہت بڑے ہوتے ہیں جبکہ وقت ان کو چھوٹا بنا دیتاہےیعنی وقت کی تنقید اس کو چھوٹا کر دیتی ہے ۔شاباشی اتنی طاقتور چیز ہے جو چھوٹے نیک انسان کو بڑا نیک انسان اور چھوٹے برے انسان کو ایک بہت بڑا برا انسان بنا دیتی ہے۔

    نفسیات یہ کہتی ہے کہ ماحول کے اثر کی وجہ سے بڑے سے چھوٹے بن جاتے ہیں جبکہ چھوٹے بڑے بن جاتے ہیں جب بھی کسی کے دماغ میں بندش کی زنجیر لگ جائے تو پھر اسے کوئی نہیں چھوڑا سکتاوہ خود ہی فیصلہ کر کے اسے توڑتا اور چھڑاتا ہے اور آگے بڑھتا ہے ۔ عورت کو ہمیشہ تعریف اچھی لگتی ہے عورت کو کوئی ایسا مرد چاہیئے جو اسے سنےجبکہ دوسری طرف مردکی اور ضروریات ہوتی ہیں جب لوگوں کو نفسیا ت کا پتا نہیں ہوتا تو پھر غلط انداز سے چلتے ہیں ، غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور ایک اچھا گھر برباد ہو جاتا ہے۔ شادی ہونے کے بڑے سالوں بعد پتا چلتا ہے کہ شادی ہوچکی ہے شادی سے پہلے صرف جنون ہوتا ہے مگر بعد میں پتا چلتا ہے یہ تو ایک ذمہ داری ہے۔

  • یور میموریز آن فیس بک اور حساب آخرت – ابوشہیر

    یور میموریز آن فیس بک اور حساب آخرت – ابوشہیر

    او مائی گاڈ!
    یہ فیس بک بھی ناں،
    بہت گڑبڑ چیز ہے۔
    اس کی یادداشت، توبہ
    اس کا حافظہ، غضب
    بتائیے بھلا!
    سال دو سال پہلے ہم نے آج کے دن کیا شیئر کیا تھا، ”یور میموریز آن فیس بک“ کے نام سے لا کے سامنے رکھ دیا۔
    اب کل ہی کی بات لے لیجے۔
    ہماری ہی ایک پوسٹ ہمارے ہی سامنے لا کے رکھ دی کہ یہ لو،
    یہ تم نے پچھلے برس آج کے دن شیئر کی تھی۔
    گویا،
    ہماری اپنی ہی کارستانیاں،
    ہمارے اپنے ہی کرتوت،
    ہمارے ہی سامنے رکھ کے،
    ہمیں کہہ رہی ہو،
    [pullquote]اِقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا سورۃ الاسراء ، آیت 14[/pullquote]

    لو پڑھ لو اپنا اعمال نامہ! آج تم خود اپنا حساب لینے کے لیے کافی ہو.
    آگے خود ہی سمجھ لیجیے!

  • ڈاکٹر عشرت العباد کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا – قادر خان

    ڈاکٹر عشرت العباد کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا – قادر خان

    قادر خان افغان گورنر سندھ پاکستان کے صوبہ سندھ کی صوبائی حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ اس کا تقرر وزیر اعظم پاکستان کرتا ہے اور عموما یہ ایک رسمی عہدہ ہے یعنی اس کے پاس بہت زیادہ اختیارات نہیں ہوتے۔ تاہم ملکی تاریخ میں متعدد بار ایسے مواقع آئے ہیں جب صوبائی گورنروں کو اضافی و مکمل اختیارات ملے ہیں خاص طور پر اس صورت میں جب صوبائی اسمبلی تحلیل کر دی گئی ہو، تب انتظامی اختیارات براہ راست گورنر کے زیر نگیں آ جاتے ہیں۔ 1958ء سے 1972ء اور 1977ء سے 1985ء کے فوجی قوانین (مارشل لا) اور 1999ء سے 2002ء کے گورنر راج کے دوران گورنروں کو زبردست اختیارات حاصل رہے۔ سندھ میں دو مرتبہ براہ راست گورنر راج نافذ رہا جن کے دوران 1951ء سے 1953ء کے دوران میاں امین الدین اور 1988ء میں رحیم الدین خان گورنر تھے۔ سندھ کے آخری گورنر عشرت العباد خان ہیں جن کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے تھا۔ لیکن اب سعید الزماں صدیقی کو گورنر سندھ بن گئے ہیں۔

    گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان پاکستان کی تاریخ کے وہ واحد گورنر ہیں جو طویل ترین عرصہ سے اس عہدے پر فائز ہیں۔تقریباً 14 سال گورنر سندھ کے عہدے پر فائز رہنے والے عشرت العباد ایشیا کے دوسرے اور دنیا بھر میں تیسرے طویل المدتی گورنر ہیں۔عشرت العباد خان 2 مارچ 1963 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز اپنے تعلیمی سفر کے ساتھ ساتھ ڈاؤ میڈیکل کالج سے کیا جہاں وہ متحدہ قومی موومنٹ کے اسٹوڈنٹس ونگ اے پی ایم ایس او کے اہم لیڈر کے طور پر ابھرے۔سنہ 1990 میں انہیں صوبائی وزیر برائے ہاؤسنگ اور ٹاؤن پلاننگ بنایا گیا۔ اس وقت انہیں ماحولیات اور صحت کی وزارت کا اضافی چارج بھی دیا گیا۔ سنہ 1993 میں وہ برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے سیاسی پناہ کے لیے درخواست دی جو قبول ہوگئی۔ بعد ازاں انہیں برطانوی شہریت بھی حاصل ہوگئی۔سنہ 2002 میں انہیں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے گورنر سندھ نامزد کیا گیا جس کے بعد 27 دسمبر کو وہ گورنر منتخب ہوگئے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے کم عمر ترین گورنر تھے۔ڈاکٹر عشرت العباد خان نے اپنے عہد گورنری کا عرصہ خاموشی سے گزارا اور اس دوران انہوں نے کسی قسم کے سیاسی معاملے میں مداخلت سے پرہیز کیا تاہم کچھ عرصہ قبل ایم کیو ایم کے منحرف رہنما اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے ان پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے جس کے بعد پہلی بار عشرت العباد ٹی وی چینلز پر ذاتی دفاع کرنے کے لیے پیش ہوئے۔انہوں نے مصطفیٰ کمال پر جوابی الزامات بھی لگائے تاہم انہوں نے حکومت پر توجہ دینے کے بجائے اس قسم کے سیاسی معاملات میں ملوث ہونے پر شرمندگی اور معذرت کا اظہار بھی کیا۔عشرت العباد فن و ادب کے دلدادہ تھے اور شہر میں ہونے والی ادبی و ثقافتی تقریبات میں بطور خاص شرکت کیا کرتے تھے۔

    جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی 1 دسمبر 1937ء کو لکھنؤ, حیدر آباد، بھارت میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان کے پندرہویں منصف اعظم تھے۔ وہ 1 جولائی 1999ء سے 26 جنوری 2000ء تک منصف اعظم رہے۔ جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی نے ابتدائی تعلیم لکھنئو سے حاصل کی۔ 1954ء میں انہوں نے جامعہ ڈھاکہ سے انجنیئرنگ میں گریجویشن کی۔ جامعہ کراچی سے انہوں نے 1958ء میں وکالت کی تعلیم حاصل کی۔جسٹس سعید الزماں صدیقی 1999 میں چیف جسٹس سپریم کورٹ تھے، جنرل ریٹائرڈ مشرف نے جب فوجی بغاوت کرتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹا تو جسٹس سعید الزماں صدیقی نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔

    نئے چیف الیکشن کمشنر کے موقع پر انھیں مسلم لیگ ن کا انتہائی قریبی سمجھا گیا تھا ۔ اسی وجہ سے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں نئے چیف الیکشن کی تقرری کیلئے مشاورت پر پیپلز پارٹی نے (ن) لیگ کی جانب سے تجویز کیا گیا جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی کا نام مسترد کر دیا تھا۔نامزد گورنر سندھ ، میاں نواز شریف کے انتہائی قریب احباب میں یاد کئے جاتے ہیں ۔ہائی کورٹ حملہ کیس میں جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی میاں نواز شریف کے سب سے بڑے حمایتی تھے۔ جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی اپنی دور عدلیہ سے متنازعہ چلے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر سندھ ہائی کورٹ میں صدارتی انتخاب کے لیے مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار سعید الزمان صدیقی کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ ایک سابق ایڈیشنل سیشن جج کی جانب سے دائر اس پٹیشن میں درخواست کی گئی تھی کہ جسٹس ریٹائرڈ سعید الزمان صدیقی کو نااہل قرار دیکر ان کے کاغذاتِ نامزدگی رد کر دیے جائیں۔ سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عبدالوہاب عباسی نے اپنی اس درخواست میں وفاقی حکومت، چیف الیکشن کمشنر اور دیگر کو فریق بنایا۔ ان کا موقف تھا کہ انیس سو نوے میں سندھ ہائی کورٹ نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کی تقرریوں کے لیے درخواستیں طلب کی تھیں اور اس سلسلے میں انہوں نے بھی درخواست جمع کرائی تھی۔ ان کے مطابق تحریری اور زبانی انٹرویو کے بعد ان کا نام میرٹ لسٹ میں چوتھے نمبر پر آیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے ان امیدواروں کی فہرست منظوری کے لیے حکومت سندھ کو بھیجی۔ حکومت نے امیدواروں کی عمر پر اعتراضات لگا کر سمری واپس کردی۔بعد میں جسٹس سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنادیا گیا اور جسٹس سعید الزمان صدیقی سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر ہونے کے بعد جسٹس سعید الزمان صدیقی نے جلد بازی میں رجسٹرار کے پاس موجود ناموں میں تین نام اپنی پسند کے شامل کرکے ان کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج کے طور پر تقرری کی سفارش کردی۔ عبدالوہاب عباسی کے مطابق یہ عمل انصاف اور میرٹ کی خلاف ورزی تھا، جس کے خلاف انہوں نے عدالت سے رجوع کیا۔ پانچ سال کے بعد جب جسٹس عبدالحفیظ میمن چیف جسٹس تعینات ہوئے تو انہوں نے ان کی اپیل پر 1990ء کی میرٹ لسٹ کے مطابق انہیں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج مقرر کیا۔ درخواست گزار نے سندھ ہائی کورٹ کے دوبارہ حلف لینے والے ایک جج اور ایک سیشن جج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جسٹس ریٹائرڈ سعید الزمان صدیقی ان کے ساتھ انصاف کرتے تو وہ بھی آج ہائی کورٹ کے جج ہوتے۔ سابق صدر مشرف کے استعفے کے بعد صدر کے عہدے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی نے آصف زرادری، مسلم لیگ ن نے جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی اور مسلم لیگ ق نے مشاہد حسین کو امیدوار نا مزد کیا تھا۔ سعید الزمان صدیقی چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی رہ چکے ہیں انہوں نے پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔سعید الزمان صدیقی آصف علی زرداری کے مقابلے میں ن لیگ کے صدارتی امیدوار تھے۔

    سبکدوش ہونے والے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد 1992 میں لندن آئے تھے ۔اور 1999تک برطانوی حکومت سے الائونس لیتے رہے ، اور برطانیہ نے انھیں برطانوی شہریت دے دی تھی ۔گورنر بننے کے بعد ایسی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی کہ گورنر نے برطانوی شہریت واپس کردی ہو، جس پر مصطفی کمال کا یہ دعوی حقیقت نظر آیاہے کہ ان کے پاس ابھی بھی برطانوی شہریت ہے ، اسی وجہ سے وہ گورنر کا نام ای سی ایل سی میں ڈالنے کا تواتر سے مطالبہ کررہے تھے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عشرت العباد کا الاونس اسکینڈل اس وقت سامنے آیا تھا جب برطانیہ میں تفتیشی اداروں نے ان کے خلاف غلط کلیم وصول کرنے پر تحقیقات شروع کردیں تھی ۔کیونکہ وہ اپنے بھائی ڈاکٹر محسن العباد خان کے شمالی لندن Edgwareکے گھر میں رہتے ہوئے 244پونڈ فی ہفتہ دس ماہ تک گورنر سندھ ہونے کے باوجود لیتے رہے تھے ۔جب برطانوی تفتیش کاروں نے اس الاوئنس کی تحقیقات شروع کیں تو ڈاکٹر عشرت العباد کی بیوی نے باقاعدہ برٹش گورنمنٹ کو لکھ کر دیا کہ وہ اب مزید الائونس نہیں لینا چاہتے ، ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عشرت العباد نے برطانیہ میں نہ ہونے کے باوجود جتنے الاونس پناہ گزیں کے حیثیت سے اضافی الاونس لئے تھے ، وہ واپس کردیئے تھے۔ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد برطانیہ چھوڑنے کے بعد گورنر بننے کے بعد بھی دس مہینے تک غیر قانونی طور پر 1000پونڈز ماہانہ لیتے رہے تھے۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے یہ کلیم کیا ہوا تھا کہ ان کے چار بچوں میں سے تین بچے اب بھی وہیں رہتے ہیں ، جو گھر اصل میں ان کے بھائی کا تھا ، جس سے برٹش حکومت کو بھی بے خبر رکھا گیا تھا۔

    ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عشرت العباد کی برطانیہ میں کافی جائیدادیں ہیں جو انھوں نے کرائے پر دے رکھی ہیں، اور ان کی نگرانی اب بھی ڈاکٹرشہزاد اکبر نامی شخص کرتا ہے جو 2003ء سے ڈاکٹر عشرت العباد کی کئی جائیداوں کا نگراں بنا ہوا ہے اور اب بھی ڈاکٹر عشرت العباد کے مکانات کا مشترکہ freeholders ہے۔ ڈاکٹرشہزاد اکبر نے ڈاکٹر محسن العباد خان کے ساتھ مل کر لندن میں گورنر سندھ کے لیے جائیداد سب سے پہلے 1999ء میں حاصل کی تھی۔ کراچی کی سیاست میں ایک بار پھر ہل چل پیدا ہوچکی ہے ۔مصطفی کمال کیونکہ گورنر سندھ ہیں ، عمومی طور پر ڈاکٹر عشرت العباد انٹرویوز دینے سے پرہیز کرتے رہے ہیں، مصطفی کمال نے دھواں دار الزام تراشیوں کرکے گورنر سندھ کو متنازعہ بناکر گیند حکومت کی کورٹ میں ڈالنے میں کامیاب ہوگئے ہ اور گورنر سندھ کو ہٹانے میں مصطفی کمال کو کامیابی مل گئی ہے ۔ماضی میں گورنر سندھ کو ایم کیو ایم سے تعلق ہونے کی بنا پر پی پی پی حکومت اور پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت میں بھی مسلسل گورنر سندھ مقرر رکھنے جانے کے سبب پی پی پی کے کئی رہنما اس بات سے ناراض تھے کہ پرویز مشرف کے تعینات گورنر کی جگہ دوسرے فرد کو گورنر بنانا چاہیے ، لیکن آصف زرداری کی مفاہمت کی سیاست کے باعث ڈاکٹر عشرت العباد گورنر کے عہدے پر فائز رہے ۔ بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت اور ایم کیو ایم سے مفاہمت کی ضرورت نہ ہونے کے باعث گمان یہی غالب تھا کہ ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو ہٹا دیا جائے گا ، لیکن حیرت انگیز طور پر ان ہی کو گورنر رکھا گیا ۔ایم کیو ایم کراچی آپریشن میں جب مسائل کا شکار ہوئی اور گورنر سندھ ماضی کی طرح ایم کیو ایم کا ساتھ نہیں دے سکے ، تو الطاف نے گورنر سے لاتعلقی اختیار کرکے استعفی کا مطالبہ کردیا ۔ مائنس الطاف کے بعد پاک سر زمین پارٹی کے بہترین موقع تھا کہ اگر گورنر ان کا ساتھ دیتے تو پاک سر زمین پارٹی ایم کیو ایم کے کئی اہم رہنما اور ذمے داروں کو شمولیت پر راضی کرسکتی تھی ، لیکن نائن زیرو کے قریب ایم کیو ایم کے جوائنٹ انچارج کے گھر سے اسلحے کی کھیپ بر آمد ہونے کے بعد گورنر نے مکمل طور پر پاک سر زمین پارٹی کو جواب دے دیا ،۔گورنر سندھ پر موجودہ الزامات کو درست یا غلط ثابت کرنا اب حکومت کی ذمے داری تھی کہ وہ برطانوی حکومت سے دریافت کرے کہ گورنر سندھ دوہری شہریت رکھتے ہیں یا نہیں ۔اگر رکھتے ہیں تو یہ پاکستان کے حساس اداروں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان اٹھاکہ مصطفی کمال کے انکشافات ان سے کیوں پوشیدہ رہے ۔

    حکومت کی جانب سے دوہری شہریت اور دیگر الزامات پر گورنر کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ پاک سر زمین پارٹی کی جانب سے اچانک گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد پر الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی ۔ اس سے قبل بھی متحدہ نے پریس کانفرنس کرکے گورنر سندھ سے نومبر2015میں استعفی کا مطالبہ کیا تھا۔ڈاکٹر عشرت العباد 2002سے گورنر سندھ کے عہدے پر فائز ہیں ۔ ایم کیو ایم کی جانب سے 2015میں گورنر سندھ سے استعفی طلب کرنے پراُس وقت ڈاکٹر فاروق ستار نے اس کی وجوہات کچھ یوں بیان کی تھیں کہ” گورنر سندھ عشرت العباد کے رویئے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد اپنی ذمے داریاں خوش اسلوبی سے سر انجام نہیں دے رہے ، بقول فاروق ستار ، عشرت العباد کارکنان کے قتل عام کو روکنے میں ناکام رہے ہیں ، وہ مسلسل خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں” ۔اس وقت سیاسی حلقوں میں یہ بات سرگرم تھی کہ ایم کیو ایم نے گورنر کے خلاف اس لئے یہ بیان دیا ہے کیونکہ 16سال بعد صولت مرزا کو پھانسی دی گئی تھی اور عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے صولت مرزا کے ان سنگین الزامات کو دبانے کیلئے کوشش کی گئی تھی جو صولت مرزا نے اپنی پھانسی سے قبل ویڈیو بیان میں ایم کیو ایم کی اعلی قیادت کے اوپر لگایا تھا ۔پھر نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے وقت بھی گورنر سندھ بے خبر رہے۔پاک سر زمین پارٹی بننے کے بعد ایک عوامی تاثر یہی تھا کہ پاک سر زمین پارٹی کی پشت پناہی گورنر سندھ کررہے ہیں ، اس لئے سابق لندن گروپ کی جانب سے لاپتہ یا گرفتار کارکنان کے اہل خانہ کو پاک سر زمین پارٹی کے دفتر بھیجا جاتا کہ مصطفی کمال اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں ، وہ بازیاب کرالیں گے ، مصطفی کمال نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی بازیاب کرایا ، جو گرفتاری کے ڈر سے ،یا لندن گروپ چھوڑنے کے بعد باعزت زندگی گزارنے کے لئے روپوش تھے ، یا کچھ کارکنان ایسے بھی تھے جو تحقیقات کے لئے قانون نافذ کرنے والوں اداروں کے پاس تھے ،جن پر الزامات ثابت نہیں ہوئے انھیں مصطفی کمال نے رہا بھی کرایا ، جس کی سب سے بڑی مثال عید الفظر کو 19 ایسے افراد کو اہل خانہ سے ملوایا گیا ، جو کئی سالوں سے اپنے اہل خانہ سے رابطے میں نہیں تھے۔پاک سر زمین پارٹی میں متواتر لندن گروپ کے اہم رہنمائوں کی شمولیت اور پھر22اگست کی تقریر کے بعد مائنس الطاف ہونے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کی تجدید ہوئی ، لیکن ڈاکٹر فاروق ستار پھر بھی اپنی پارٹی کو مسائل سے نہ نکال سکے ، اسی دوران لندن منی لانڈرنگ کیس کا الطاف کے حق میں فیصلے کے بعد طیارہ اغوا کیس کی متنازعہ شخصیت کی جانب سے پریس کانفرنس الیکڑونک میڈیا کی گئی ، جس کے بعد لندن گروپ نے ایم کیو ایم پاکستان کو مسترد کردیا اور کراچی بھر میں الطاف کے حق میں وال چاکنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ ذرائع کے مطابق پاک سر زمین پارٹی کیلئے یہ سب کچھ غیر متوقع تھا کہ لندن گروپ کی جانب سے کراچی میں دھواں دار پریس کانفرنس بھی کی جاسکتی ہے ،اور الطاف کے حق میں وال چاکنگ بھی کی جاسکتی ہے۔؎

    دوسری جانب ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ گورنر سندھ نے پکڑے جانے ایم کیو ایم لندن کے گرفتار کارکنان کی پشت پناہی سے معذرت کرلی تھی ،اور رینجرز اور پولیس کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا واضح پیغام دے دیا تھا ، جس کے بعد پاک سر زمین پارٹی نے باقاعدہ گورنر سندھ پر الزامات کی بوچھاڑ شروع کردی۔لیکن ماضی کی طرح کوئی ثبوت عوام کے سامنے نہیں لا سکے ۔پاک سرزمین پارٹی کی تمام تر توجہ ایم کیو ایم کے اہم رہنمائوں و ذمے داروں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا رہا ہے، گورنر سندھ اور پرویز مشرف کے عقب میں ہونے کا تاثر عام تھا ، جس وجہ سے لندن گروپ کے کئی ذمے دار و رہنما پاک سر زمین پارٹی میں شامل ہوئے ، لیکن گرفتار کارکنان اور چھاپے بند نہ ہونے کی وجہ سے گورنر سندھ کو دوبارہ نومبر2015کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، جب الطاف نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے لاتعلقی کا اظہار بھی کردیا تھا۔اب پاک سر زمین پارٹی کا اتنے عرصے خاموش رہنے کے بعد گورنر کے خلاف توپوں کا رخ کرلینا کا بنیادی سبب ذرائع یہی بتاتے ہیں کہ نائن زیرو سے اسلحے کی کھیپ ملنے کے بعد گورنر سندھ خود کو ایک جانب رکھنا چاہتے تھے ۔اس لئے پاک سر زمین پارٹی کی جانب سے لفاظی کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے۔

    موجودہ سیاسی صورتحال نواز حکومت کیلئے ایک شٹ اپ کال تھی،۔وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کوبعض وزرا ء کی جانب سے غیر ذمے درانہ بیانات و عمل کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا اورموجودہ حکومت مسلسل غلطیاں کر رہی تھی ، جیسے وہ بتدریج درست کرنے میں لگی ہوئی ہے۔نواز حکومت نے گورنر سندھ کو برطانوی شہریت ہونے کے باوجود نہیں ہٹایا تھا، نواز حکومت اہم معاملات میں الجھی ہوئی تھی جس میں تازہ ترین معاملات حساس نوعیت کے ہیں ۔جیسے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی دوہری شہریت کے باوجود وزیر اعظم کی جانب سے نہ ہٹائے جانا ، انگریزی اخبار کے رپورٹر کی جانب سے شائع خبر کا علم کا ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے لاپرواہی، پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما کی جانب سے عسکری قیادت اور سول قیادت کا ایک صفحے پر نہ ہونے کا متنازعہ بیان اور سب سے اہم نیشنل ایکشن پلان کے مطابق حکومت کی جانب سے تعاون میں مسلسل کمی اور برطانیہ میں موجود عسکری اداروں اور پاکستان کے خلاف دشنامی بیانات دینے والا الطاف کے خلاف موثر کاروائی میں ناکامی شامل ہے ۔ تمام معاملات میں عسکری ادارے کی رٹ کو چیلنج کیا گیا لیکن سول حکومت کی جانب سے عسکری ادارے کے تضحیک کرنے والوں کے خلاف مناسب کاروائی نہیں کی گئی۔

    مقتدر حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ جب مصطفی کمال کی جانب سے یہ انکشاف سامنے آیا کہ گورنر سندھ عشرت العباد، برطانوی شہریت رکھتے ہوئے حساس میٹنگز میں شریک ہوتے رہے ہیں تو را کے ایجنٹ الطاف کے ساتھ تعلقات ہونے پر کیا کیا راز افشا ہوئے ہوں گے ، یہ ایک حساس معاملہ تھا کیونکہ الطاف اور ایم کیو ایم را کے لیے کام کر رہے ہیں ، اس لئے گورنر کی وابستگی بھی ’ را ‘ ایجنٹ کے ساتھ ہونے کے باوجود کوئی کاروائی نہ کیا جانا، نواز حکومت کی ایک فاش غلطی گردانا جارہا ہے۔ کراچی آپریشن پر اس سے اثرات نمودار ہونا شروع ہوئے ہیں اور ماضی کی طرح ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ حالیہ فرقہ وارانہ واردتوں میں اضافہ بھی اسی خدشے کو جنم دے رہا تھا کہ را کے ساتھ تعلقات رکھنے والے الطاف سے وابستگی اور اہل تشیع و اہل سنت کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافے میں یقینا گورنر سندھ کا بھی کوئی اہم کردار رہا ہوگا ۔ خاص طور پر برطانوی شہریت نہ چھوڑنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اگر کوئی برا وقت آتا ہے تو وہ دوبارہ برطانیہ چلے جائیں گے ۔ اس لئے اب ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں ہوگا ۔ حساس ادارے اس بات پر یقینی متفکر ہوتے ہیں کہ برطانوی شہریت کا حامل شخص ان کی اہم میٹنگز میں شریک ہوتا رہا ، یہاں معلومات کے فقدان کا بھی بڑا اہم عنصر شامل ہے ۔کیونکہ متعلقہ اداروں نے درست انکوئری نہیں کی ۔ اس کی ایک مثال شرمیلا فاروقی کا سزا یافتہ ہونے کے باوجود مسلسل وزیر اعلی کی ،مشیر و زارت کی مشیر رہیں ، لیکن یہ معاملہ سامنے نہیں آسکا کہ شرمیلا فاروقی سزا یافتہ ہیں ۔ قانون کے مطابق سرکاری عہدہ نہیں لے سکتی ، اسی طرح گورنرسندھ کا بھی یہی معاملہ رہا کہ برطانوی شہریت اور الطاف کے ساتھ تعلقات بحال رہنے کے باوجود وزیر اعظم کیلئے مسائل پیدا ہوچکے تھے ۔ اس لئے انھوں نے پنامہ لیکس کا معاملہ عدالت میں جانے ، متنازع خبر پر کمیشن بنا کر اور ان ڈاکٹر عشرت العباد کو محفوظ راستہ دے کر مقتدور حلقوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اب یقینی طور پر گورنر سندھ پاکستان میں نہیں رہیں گے بلکہ لندن اپنی ایجوئر میں واقع ملکیت مینشن میں رہیں گے۔

    جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی کی حوالے سے کوئی جماعت کسی قسم کا بھی تحفظات کا اظہار کرے ، لیکن نواز شریف حکومت کو گورنر تعینات کرنے کا استحقاق حاصل ہے ۔ سندھ میں مسلم لیگ ن کے عہدے داران و لیگوں کا دیرینہ مطالبہ بھی پورا ہوگیا ہے ، اب ان کے لئے گورنر ہائوس کے دروازے کھل جائیں گے ، اور سندھ کی سیاست میں مسلم لیگ ن کا کردار اب حقیقی معنوں میں شروع ہوگا ۔ کیونکہ اس سے قبل سندھ میں مسلم لیگ ن کا واضح کردار نہیں تھا ، جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی محاذ آرائی سے گریز کریں گے ، مسلم لیگ ن کے گورنر ہونے کی حیثیت سے اب کراچی میں لیگی کارکنان میں ایک جوش و خروش پیدا ہو چکا ہے اور انھوں نے کافی توقعات وابستہ کرلی ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے نئے گورنر کے ساتھ چلنا فی الوقت کافی صبر آزما ہوگا ۔ لیکن اختیارات کا منبع چونکہ وزیر اعلی ہوتا ہے اس لئے انھیں گورنر سے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا ۔تاہم سندھ کی صوبائی سیاسی صورتحال میں بتدریج تبدیلی واقع ہوگی ۔ ایم کیو ایم پاکستان ، لندن اور پی ایس پی کیلئے اب گورنر کارڈ کھیلنا ختم ہوگیاہے۔ سندھ میں اب ایک سیاسی دور شروع ہوگا۔

  • غلام روحیں – عنایت علی خان

    غلام روحیں – عنایت علی خان

    منظر بہت ہی بھیانک تھا.
    رونگٹے کھڑے کر دینے والا.
    جسے دیکھ کر روح تک کانپ جاتی تھی.
    فضا دھویں اور گرد سے بوجھل تھی.
    چیخ و پکار تھی کہ الامان.
    گوشت جلنے کی بو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی،
    وہ سب ایک قطار میں پڑے ہوئے تھے،
    زندگی کی رمق سے خالی،
    لاغر و کمزور،
    مفلوک زدہ ننگے وجود،
    قطار کو قائم رکھنے کے لیے چند درندہ قسم کے بھیانک شکلوں والےوحشی تھے، ان کے بڑے بڑے ہاتھوں میں ڈنڈے اور کوڑے تھے، وہ لگاتار قطاروں کے درمیان جلدی جلدی چکر لگاتے اور قطار کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پیٹنا شروع کر دیتے، قطار میں یکدم سراسیمگی سی پھیل جاتی اور پٹنے والے اپنے لاغر وجود سے پہلے سے موجود قطار کو مزید سیدھا کرنے میں جت جاتے۔
    وہ سب لاکھوں کی تعداد میں تھے اور دور جہاں تک نظر جاتی، بس قطار ہی نظر آتی تھی۔
    وہ سب برہنہ تھے لیکن ان کے ستر برہنہ نہیں تھے۔ ان کو اس سے کوئی سروکار بھی نہیں تھا۔
    وہ تو صرف اور صرف اس قطار کو سیدھا کرنے کی تگ و دو میں تھے۔
    بھاینک شکلوں والے وحشی لگاتار قطاروں کے درمیان فاصلہ دیکھ کر پل پڑتے اور یوں پوری قطار میں ایک بھونچال سا آ جاتا۔
    جلے اور جھلسے ہوئے جسموں میں حرکت ہوتی اور وہ اپنے لاغر وجود کو گھسیٹ کر آگے سرک جاتے، فاصلہ کم ہوتا اور قطار میں وقتی طور پر ٹھہراؤ سا آجاتا۔ نیم مردہ ادھ جلے برہنہ جسم تیز تیز سانس لیتے اور ہانپتے ہانپتے ادھر ہی گر پڑتے۔
    یہ میری ہی سرزمین تھی، میرا گاؤں تھا، یا شاید میرا ہی گھر تھا،
    کیونکہ قطاروں میں پڑے ہوئے لوگ اجنبی نہیں تھے،
    سب کی شکلیں شناسا سی تھیں، گو کہ ان کے مسخ شدہ جسموں سے شناخت ختم ہو چکی تھی اور وہ جلی ہوئی لٹکتی ہوئی کھالوں سے اپنی اصلی شکل و صورت کھو چکے تھے۔
    میں ان سب مناظر کو حیرت و افسوس سے دیکھ رہا تھا اور حیران تھا کہ ابھی تک کسی میڈیا نے خبر بریک کیوں نہیں کی۔
    حکومت کو تو فوری ایکشن لینا چاہیے تھا۔
    میں نے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور ان مناظر کو کیمرے میں محفوط کرنے لگا، یکدم ایک وحشی آگے بڑھا اور مجھ سے موبائل چھین کر دور دھکیل دیا۔
    اب میں قطار سے دور کھڑا اس منظر کو دیکھ رہا تھا، آخر یہ قطار جا کہاں رہی تھی؟
    یہ جاننے کےلیے میں قطار کے متوازی چلنے لگا،
    کافی دیر چلنے کے بعد میں قطار کے آخری سرے پر پہنچ گیا،
    وہاں ایک بہت بڑی بھٹی تھی جس میں آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے، قطار میں لگے لوگ گھسٹتے ہوئے آتے اور اپنے آپ کو اس جلتی بھٹی کی نذر کر دیتے، چیخ و پکار میں یکدم اضافہ ہو جاتا اور چند لمحوں کے لیے آگ کی شدت بھی زیادہ ہو جاتی۔
    یہاں گوشت کے جلنے کی بو اور دھویں سے دماغ پھٹا جا رہا تھا اور میں اس بو سے بچنے کے لیے بھٹی کے دوسرے سرے پر پہنچ گیا۔
    یہاں کا منظر اس سے بھی بھیانک لیکن حیران کن تھا،
    بھٹی میں چھلانگ لگانے والے لوگ بھٹی سے باہر آ رہے تھے،
    ان کے جسم پر لگا گوشت گل چکا تھا اور ہڈیاں صاف نظر آ رہی تھیں،
    ان کی زبانیں باہر کو نکلی تھیں اور وہ ہانپ رہے تھے،
    بھٹی سے باہر نکل کر یہ تھوڑا سا سستاتے اور پھر ایک جانب کو چل دیتے،
    اب وہ قظار کے ایک جانب مخالف سمت میں جا رہے تھے،
    چلتے چلتے آخر وہ قطار کے پہلے سرے پر پہنچ گئے اور اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ دوبارہ قطار میں لگ گئے۔
    اب اس بستی کا منظر دھندلانے لگا اور یوں لگا جیسے ایک بہت بڑی حویلی ہو،
    حویلی کی موٹی موٹی دیواریں صاف نظر آرہی تھیں،
    ان کے اوپر خاردار تاریں بھی لگی تھیں،
    اچانک دیواریں سمٹنا شروع ہوگئیں،
    میں نے گھبرا کر اوپر دیکھا تو آسمان بھی نیچے آتا محسوس ہوا،
    میں چیخنا چا رہا تھا لیکن آواز ہی حلق سے نہیں نکل رہی تھی،
    بےبسی و خوف سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
    دیواریں اب بہت نزدیک آ گئی تھیں اور ان کالمس مجھے اپنی پشت پہ محسوس ہو رہا تھا،
    میں آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا،
    بڑھتے بڑھتے میں اس قطار کے آخری سرے پر پہنچ گیا اور پھر قطار میں لگ گیا،
    قطار آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی،
    میرا جسم جھلسا ہوا تھا،
    زبان باہر نکلی ھوئی تھی،
    اور ہاں!
    میں شاید برہنہ بھی تھا اور میرا ستر بھی نہیں ڈھکا ہوا تھا۔
    کوڑے والے وحشی لپکے، قطار میں ہلچل سی ہوئی۔
    میں نے تھوڑا سا گھسیٹ کرخلا کو پر کیا
    اور پھر
    تھوڑی دیر کے لیے سکون ہوگیا
    ۔۔۔۔

  • رقص گاہیں یا قتل گاہیں – ڈاکٹر عمرفاروق

    رقص گاہیں یا قتل گاہیں – ڈاکٹر عمرفاروق

    ڈاکٹرعمرفاروق احرار دوغلاپن، منافقت کا دوسرانام ہے۔ دو رُخی نے معاشرہ کو تقسیم در تقسیم کرکے ہماری شناخت ہی کو کجلا کر رکھ دیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ’’نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھرکے رہے‘‘ ہم اپنے تئیں خالق کو بھی خوش رکھنا چاہتے ہیں اور حضرتِ ابلیس کے ساتھ بھی یاری بہ شرطِ استواری کے متمنی ہیں یعنی باغباں بھی خوش رہے اور راضی رہے صیاد بھی۔ آج جب رقص و سرود کی تربیت کے حوالے سے کچھ خبریں نظرسے گزریں تو اُردو شاعری کا بےتاج بادشاہ غالب بہت یاد آیا کہ جس نے اپنے آپ کو ’’آدھا انگریز‘‘ کہتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ ’’میں شراب تو پیتاہوں، مگر سؤر نہیں کھاتا۔‘‘

    ہمارا دعویٰ سچے مسلمان اور پکے پاکستانی ہونے کا ہے، مگر کردار بدباطنی کی چغلی کھاتا ہے۔ کیا ہوگیا ہے ہمارے دل و دماغ کو! کہ جو حق قبول کرنے سے انکاری مگر باطل سے یاری چاہتے ہیں۔ خود بھی نافرمانیوں اور بغاوتوں کی زندگی گزاری اور اب اپنی نسلوں کو بھی طاغوت کی غلامی میں دے کر انہیں بے موت مارنے کے درپے ہوگئے ہیں۔ کاش کوئی تو حق کی آواز پر لبیک کہہ کر باطل کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کرتا۔ ہمارامستقبل، ہماری نوجوان پود تعلیمی سرگرمیوں کے بجائے بےہنگم اچھل کود اور ناچ گانے کی دلدادہ کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ کوئی تو پاکستان کے سنہری مستقبل کو موسیقی کی تانوں اور رقص کی قوسوں میں گم ہوجانے سے بچا لے۔ کوئی تو اِس قوم کو سمجھائے کہ تاک دھنادھن تاک اور سارے گاما، پا دھا نی سا، کے سہارے گوِیّا اور رَقاص تو بنا جا سکتا ہے، ترقی ہرگز نہیں کی جاسکتی۔ این رجل الرشید؟ افسوس کہ سرکاری سرپرستی میں فنون لطیفہ کے نام پر میٹھا زہر کھلا کر، معصوم بچوں کوطبلے کی تھاپ پر تھرکاتے ہوئے اندھی راہوں کا مسافر بنایا جا رہا ہے۔

    ایک اخباری سروے کے مطابق: ’’صرف ایک شہر لاہور میں پبلک سیکٹر میں 2 اور پرائیویٹ سیکٹر میں 12 کے قریب ڈانس اکیڈمیاں ہیں۔ ان کے علاوہ پندرہ سے بیس نوجوان لڑکوں کے ڈانس گروپ ہیں۔ پبلک سیکٹر میں ایک الحمرا اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ اور دوسری نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ ہے جو شاکر علی میوزیم میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے زیر انتظام ہے ۔‘‘ حال ہی میں جب سندھ کے بعض نجی تعلیمی اداروں میں رقص پر پابندی کی خبریں آئیں تو وزیراعلیٰ سندھ نے سختی سے نوٹس لیتے ہوئے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ پابندی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی، کیونکہ موسیقی اور رقص کسی بھی آزاد معاشرے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور وہ ایسی سرگرمیوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔‘‘ کوئی اس بھلے مانس سے کہے کہ حضور! ہم مادر پدر آزاد معاشرہ نہیں ہیں اور نہ رقص و موسیقی ہمارے لیے کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ ہم پاکستانی ہیں، اسلامی معاشرہ رکھتے ہیں اور پاکستان لاالہ الااللہ کی حکمرانی ہی کے لیے وجود میں لایا گیا تھا۔ اسلام ہی ہماری اوّل و آخری منزل ہے۔ اللہ کے آخری رسول ﷺ نے اپنی بعثت کا ایک مقصد آلاتِ موسیقی کو توڑنا قرار دیا تھا۔ بت سازی، موسیقی، رقص، سنگ تراشی، مصوری جیسے’’ فنونِ لطیفہ‘‘ زمانہ جاہلیت میں اپنی انتہا پر تھے۔ اسلام آنے کے بعد اُن کی کسی بھی درجہ میں کوئی اہمیت باقی نہیں رکھی گئی، بلکہ دین و فطرت سے انحراف پر مبنی لہوولعب کے تمام حیلوں کا راستہ بند کر دیا گیا۔ ہم سوزوساز اور رقص و سرود کو فنِ لطیفہ قراردے کر معاشرہ کو کس رُخ پر ڈالنا چاہتے ہیں؟

    موسیقی نہ صرف بڑوں بلکہ بچوں تک پر اَثرات مرتب کرتی ہے۔ سچ کہا سیّدعلی ہجویریؒ نے کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ مجھ پر موسیقی کا اثرنہیں ہوتا، وہ پاگل ہے، یا جھوٹا ہے۔ موسیقی غم و حزن سے لے کر جنسی ہیجان تک کے جذبات ابھارتی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ’’ گانا دل میں نفاق اس طرح اُگاتا ہے، جیسے پانی کھیتی اگاتا ہے۔‘‘ رقص کو معاشرے کی کلیدگرداننے والے رہنما ذرا اِس خبر پر بھی غور فرمائیں کہ مغرب خود کس حد تک رقص سے گریز پا ہو رہا ہے: ’’برازیل میں والدین نے جدید ہوپ ڈانس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ اس سے بچوں پر کم عمری سے ہی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور بچوں کی تعلیم کا بھی حرج ہو رہا ہے۔ برازیلی عدالت میں بچوں کے حقوق کے وکیل نے کہا ہے کہ اخلاقی طور پر یہ ایک افسوسناک امر ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بچے کم عمری میں ہی اپنی معصومیت کھو بیٹھیں گے جو ایسی چیز ہے کہ چلی جائے تو واپس نہیں آتی۔‘‘ آزاد معاشرے ڈانس کو بچوں کی معصومیت کے لیے تباہی جبکہ ہم اسے روشن خیالی سمجھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں باقاعدہ ڈانس کلاسز جاری ہیں۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سالانہ تقریبات ہوں، یا مخصوص تہوار، رقص ان کا بنیادی جزو ہے۔ وہ تعلیمی ادارے جہاں سے سائنسدان، انجینئر، ڈاکٹر اور حب ِوطن سے سرشار نسل کی تیاری کی توقع تھی۔ اب وہاں سے مستقبل کے بچے ڈانس،گلوکاری، مقابلہ حسن، فیشن شوز، میوزیکل کنسرٹ، فن فیئرز، ملبوسات کی نمائش اور کیٹ واک کے پرفارمر بن کر نکلیں گے اور ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے سپوتوں کے بجائے وہ ڈانس کے شہرت یافتہ نمائندوں غلام حسین کتھک، خانوسمراٹ، شیماکرمانی اور ناہیدصدیقی ہی کے فن کے علمبرداری کریں گے۔ کیا اب تعلیمی اداروں میں ریسرچ، صنعت و ٹیکنالوجی کے بجائے کلاسیکل، کتھک، ٹینگو، سالسا، راک اینڈ رول، ہپ ہاپ اور بیلے ڈانس کی صورت میں اعضاء کی شاعری سکھائی جائے گی؟ بقول کسے ’’پوری دنیا میں ایسا کوئی تعلیمی نظام نہیں جو بچوں کو روزانہ رقص کی تعلیم دے ، جیسے ہم انہیں حساب پڑھاتے ہیں۔‘‘

    کہا یہ جاتا ہے کہ’’صاحب! ہم گلوبل ولیج کے عہد میں رہ رہے ہیں اور جغرافیائی حدود اب میڈیا کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔‘‘ نہیں جنابِ والا! ہم فیشن، فرینڈ شپ، ماڈرن ازم، اور انڈر سٹینڈنگ کے نام پر عریانی و فحاشی اور بےلگام آزادی کو قبول نہیں کرسکتے۔ پہلے اپنی شناخت پر بھی تو غورکیجیے کہ ہم سب سے پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہیں۔ ہمیں اپنے تشخص کا تحفظ اور خیال ہر صورت میں رکھنا ہے۔ اگر پڑوسی ملک بھارت میں رقص و سرود عام ہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ ڈانس، ڈرامہ اور موسیقی ان کے مذہب اور کلچر کا حصہ ہے۔ بھڑکیلے رقص، گلیمر، رومانس، شوبز، ماڈلنگ، راگ و رنگ اور نغمہ و نے کا ہماری تہذیب، تمدن اور معاشرہ سے دُور تک بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ پازیب کی جھنکار، جسم کے لوچ اور قلقلِ مینا سے گلیمر گرلز اور چاکلیٹ ہیرو ہی جنم لیتے ہیں، مگر محمد بن قاسم، ٹیپوسلطان، سیّد احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید جیسے سپوت صرف لاالہ الااللہ کی لوریوں ہی سے پروان چڑھتے ہیں۔ ہمیں علم و ہنرسکھانے والی درس گاہیں چاہییں، نہ کہ رقص گاہیں، کیونکہ علمی درس گاہیں قوموں کے اخلاق و تہذیب کو سنوارتی اور شخصیت و کردار کو اُجالتی ہیں جبکہ رقص گاہیں اخلاق کو برباد اور شرم و حیا کو نیلام کر کے نسلوں کو اُجاڑتی اور فکر و نظر کی قتل گاہوں کو عام کرتی ہیں۔

  • قصرِابیض میں ٹرمپ کی آمد – محمد عمار احمد

    قصرِابیض میں ٹرمپ کی آمد – محمد عمار احمد

    عمار احمد کئی ماہ سے جاری مباحثوں، تجزیوں اورانتخابی مہم کے بعد9 نومبر2016ء کو امریکی عوام نے اپنے صدر کا انتخاب کر لیا۔ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں میں امریکی عوام نے بالخصوص اپنی اور بالعموم پوری دنیا کی تقدیر تھما دی۔ دنیا بھر میں اس وقت اہم موضوع ٹرمپ کی بطور امریکی صدر کامیابی ہے۔ عالمی میڈیا اور خود امریکی ذرائع ابلاغ ٹرمپ کے متشدد رویے اور متنازعہ شخصیت ہونے اور سیاسی ناتجربہ کاری کے سبب قریباََ پُریقین تھے کہ وہ انتخاب ہارجائیں گے۔ ہیلری کلنٹن نرم خو، سنجیدہ، بطور وزیرِخارجہ خدمات سرانجام دینے کے سبب تجربہ کار اور بہتر امیدوار تھیں، مگر کیا کیجیے کہ جمہوریت میں ایسی شکست کسی کو بھی ہوسکتی ہے، چاہے اس کی پشت پر باراک اوباما ہی کیوں نہ ہو۔

    یورپ، اسلامی دنیا اور سنجیدہ طبقات ٹرمپ کی جیت پر پریشان ہیں جبکہ بھارت جیسی ریاستیں خوش ہیں کہ ٹرمپ کے ساتھ معاملات بہتر سمت میں چلیں گے۔ اسلامی دنیا کی پریشانی بجا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے خلیجی ریاستوں سے تعلقات پر کچھ معاملات میں نظرِثانی کی باتیں کیں جبکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت بھرے انداز میں تقاریر کیں۔ یورپ اور دیگر ممالک بھی سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ اگرٹرمپ نے مسندِ صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے متشد درویے میں تبدیلی نہ لائی تو دنیا کے حالات کس رخ پر جائیں گے۔دوسری طرف بھارت کی خوشی بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس خطہ میں ٹرمپ کو پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو وہ یقینا بھارت کو ہی مناسب سمجھے گا۔پاکستان کو نظرانداز کرنا بھی آسان نہیں مگر اس صورت میں بھی بھارت سے تعلقات کی اہمیت پاکستان سے زیادہ ہوگی۔ روس نے بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب امریکہ سے بامعنی بات چیت ہوگی۔ افغان طالبان نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹرمپ امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کا اعلان کریں۔

    نومنتخب صدر نے کامیابی کے بعد تقریر میں اپنے عمومی مزاج سے ہٹ کر بلا تفریق مذہب، رنگ اور نسل کے امریکہ کی خدمت کرنے کا عزم کیا جو کہ خوش آئند ہے۔ یہ کہنا کہ قبل از وقت ہوگا کہ مزاج میں یہ تبدیلی وقتی ہے یا پھر پالیسی بناتے وقت بھی اسی مزاج سے کام کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس انداز میں انتخابی مہم چلائی، وہ خاصی خطرناک اور نفرت انگیز تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کی کامیابی پر دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مقتدر حلقوں کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں کا موضوعِ گفتگو بھی یہی ہے کہ نجانے اب کیا ہوگا؟ امریکہ سے مسلمانوں کو بےدخل کرنے، مسلمانوں کو ویزوں کا اجرا روکنے نیز نسلی تعصب پر مبنی بیانات ٹرمپ کی انتخابی مہم کا حصہ تھے۔ ٹرمپ کی کامیابی پر کئی لوگوں کو دکھایا گیا جو دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ تجارتی محاذ بھی خاصا سرد رہا جس سے عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس قدر لوگ امریکہ سے ہجرت کرنے کے خواہش مند ہیں کہ کینیڈا کی مائیگریشن ویب سائٹ کریش کرگئی۔

    نومنتخب صدر کو امریکی عوام اور دنیا بھر کے سنجیدہ طبقات کے خدشات و تحفظات کو مدِنظر رکھ کر حکمتِ عملی مرتب کرنا ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو دنیا میں پہلے سے موجود فساد، ظلم اور نفرتیں مزید بڑھیں گی جس کی لپیٹ میں خود امریکہ بھی آئے گا۔ دنیا کے موجودہ خراب حالات کی ذمہ داری بھی امریکہ پر ہے۔ امریکہ ہی نے نائن الیون کے بعد صلیبی جنگ کی ابتدا کی اور افغانستان و عراق میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی غلط پالیسیوں کے سبب دنیا کو آج داعش جیسی تنظیموں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ لیبیا، شام اور یمن میں آگ و خون کا کھیل جاری ہے۔ یورپ اور امریکہ بھی وقتاََ فوقتاََ اس آگ کا ایندھن بنتے رہتے ہیں۔ اگر ٹرمپ نے موجودہ پالیسیوں کو ہی جاری رکھا یا متشدد پالیسی اختیار کی تو اس کا نقصان جہاں دوسرے مذاہب اور خطوں کو ہوگا وہیں امریکہ و یورپ بھی اسی آگ میں جھلسیں گے۔ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک سے بہتر تعلقات لازمی ہیں۔

    صدارتی انتخاب کے روز قصرِابیض کے سامنے ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی جو یقینا مہذب دنیا کی طرف سے’’جمہوریت کے حسن‘‘ کا اظہار تھا۔ ٹرمپ بھی اپنی جیت کے واضح امکانات سے پہلے بیانات دیتے رہے کہ حالات دیکھ کر الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کروں گا۔ دنیا کو رواداری، برداشت اور جمہوریت کا سبق دینے والے اس طرح کے واقعات کی کیا تاویل پیش کریں گے؟ یہاں امریکہ و یورپ کی تہذیب، عورتوں کی برابری کی مثالیں دینے والوں کو سوچنا چاہیے کہ امریکی معاشرے کی اکثریت نے ایک عورت کو مسترد کر کے عورتوں کے خلاف غلط زبان استعمال کرنے، گالیاں دینے والے اور نفرت پھیلانے والے مَرد کو اپنا صدر کیوں بنایا؟ پاکستانی عوام کو متشدد مزاج کہنے والوں سے ایک سوال ہے کہ کیا پاکستان کی ’’تشدد پسند عوام‘‘ صدر، وزیرِاعظم تو الگ کسی ایسے شخص کو صوبائی و قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے بھی ووٹ دے گی جو یہ نعرہ لے کر سیاست میں آئے کہ میں فلاں مذہب، فلاں فرقہ کے لوگوں کو اپنے ملک سے نکال دوں گا؟

  • کیا کنٹرول لائن توڑنے میں کامیابی ہوگی؟ راجہ بشارت صدیقی

    کیا کنٹرول لائن توڑنے میں کامیابی ہوگی؟ راجہ بشارت صدیقی

    بشارت صدیقی سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان نے 24 نومبر کو کنٹرول لائن توڑنے کی کال دے رکھی ہے، ان کے بیانات میڈیا کی زینت بن رہے ہیں کہ کشمیر کا جھنڈا اٹھا کر جلوس سے 20 گز آگے چلوں گا، میرا دوست کرمو شاہ کہنے لگا کہ تم نے کبھی کشمیر ایشو پر نہیں لکھا، تم نے تو اس دھرتی کی کوکھ سے جنم لیا۔ اس دھرتی کا تم پر قرض ہے۔ ہندوستان کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور تمہارا قلم ہمیشہ خاموش رہتا ہے. اگلے ہی لمحے میں اس نے پوچھ لیا کہ اٹوٹ انگ، شہ رگ اور کنٹرول لائن توڑنے کا چکر کیا ہے؟
    کرمو شاہ سے ہم نے کہا کہ تم نے اب بولنا نہیں بلکہ ہماری باتیں غور سے سننا ہیں، تمہیں پتہ ہے کہ ہندوستان نعرہ لگاتا ہے کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے، تاریخ میں اس بات کے شواہد نہیں ملتے کہ کشمیر کبھی کسی کا اٹوٹ انگ رہا ہو، کشمیر کے 4 سپوت ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے برصغیر کے چپہ چپہ پر حکمرانی کی ہے، ان میں سلطان صلاح الدین ، راجہ للتادت، سلطان زین العابدین بڈشاہ اور رام دیو شامل ہیں۔

    ٹنڈل بسکو بلند مرتبت ماہر تعلیم تھا، وہ 1880ء میں کشمیر آیا، وہ اپنی یاد داشتوں میں لکھتا ہے کہ دنیا کی تاریخ زمانوں کے اتار چڑھاؤ اور قوموں کے عروج و زوال کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ آج ایک قوم غالب ہے تو کل وہی قوم مغلوب ہو جاتی ہے۔ اگر آج کشمیر محکوم ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہمیشہ سے محکوم تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کے زمانے میں وہ دنیا میں نہ صرف ذہین اور صناع ملک تھا بلکہ بہادر اور شجاع بھی تھا۔ اس کی فوجیں جب کشمیر سے باہر نکلتی تھی تو ہمسایہ ملکوں پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ ہمسایہ ملکوں کی فوجیں جب حملہ آوروں کے مقابلے میں ناکام ہو جاتیں تو پھر کشمیر سے فوجی امداد طلب کی جاتی۔

    راجہ داہر والی سندھ نے محمد بن قاسم کو خط لکھا تھا جو سندھ کی قدیم تاریخ ’’چچ نامہ‘‘ میں درج ہے۔ اس خط سے بھی مذکورہ دعوے کی تصدیق ہوتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ قدیم زمانے میں جب کشمیر آزاد تھا تو کس طرح پورے ہندوستان میں اس کی طاقت اور برتری تسلیم کی جاتی تھی۔ راجہ داہر لکھتا ہے کہ ’’اگر میں تمھارے مقابلہ کےلیے راجہ کشمیر کو لکھتا جس کے آستانے پر ہندوستان کے تمام راجے اپنا سر جھکاتے ہیں اور جس کے زیرنگیں نہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ مکران اور توران بھی اس کے باجگزار ہیں‘‘
    تاریخ کشمیر میں راجہ وزیانند کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے 2731ء قبل مسیح قندھار اور کاشغر پر قبضہ کر لیا تھا اور راجہ کاشغر نے اپنی لڑکی وزیانند کے نکاح میں دے دی تھی۔ کشمیر کی تاریخ میں راجہ للتادت کی وسیع فتوحات کا ذکر ملتا ہے، ایک طرف اس نے ہندوستان کے علاقے دکن اور لنکا تک فتح کیے اور دوسری طرف کابل، قندھار اور بخارا تک کے علاقوں پر فتح حاصل کی۔ کشمیر کبھی نہ کسی کا اٹوٹ انگ رہا ہے اور کبھی باجگزار۔

    جہاں تک تعلق کنٹرول لائن توڑنے کا ہے تو ماضی میں کئی بار کنٹرول لائن توڑنے کی کوشش کی گئی۔ راؤ رشید اپنی کتاب ’’جو میں نے دیکھا ہے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 1957ء میں آئی جی آزاد کشمیر تھا، اس وقت کنٹرول لائن توڑنے کا منصوبہ بنایا گیا، اس سازش میں صدر پاکستان میجر جنرل سکندر مرزا، بری فوج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان، کشمیری لیڈر چوہدری غلام عباس اور سیکرٹری قدرت اللہ شہاب شامل تھے۔ پلان بنایا گیا کہ آزاد کشمیر میں حالات اس قدر خراب کر دیے جائیں کہ ان پر قابو نہ پایا جا سکے اور حکومت پاکستان ناکام ہو جائے، پھر سکندر مرزا سردار ابراہیم کو ڈس مس کر دیں گے، اور ادھر پاکستان میں بھی ایمرجنسی نافذ کر کے سول حکومت کو ڈس مس کر کے ڈکٹیٹر بن جائیں گے۔ چنانچہ اس ضمن میں کشمیر لبریشن موومنٹ کا اعلان ہوا کہ جتھے سیز فائر لائن کراس کر کے مقبوضہ کشمیر جائیں گے۔ چوہدری غلام عباس نے سکندر مرزا اور ایوب خان کو یقین دلایا کہ وہ اکھوں آدمی بھیجیں گے۔ اس وقت کرنل یونس کشمیر افیئرز کے انچارج تھے، ان کی صدارت میں ایک میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا کہ جو جتھے سیز فائر لائن کراس کرنا چاہیں گے پاکستان گورنمنٹ انہیں روکے گی نہیں، وہ جاتے ہیں تو جائیں، اگر انہیں روکا گیا تو آزاد کشمیر میں گڑ بڑ ہوگی۔ پہلا جتھا سردار عبدالقیوم خان نے لیڈ کرنا تھا کہ وہ سیز فائر لائن کراس کر کے مقبوضہ کشمیر میں جائیں گے، ہمیں سول حکومت کی طرف سے آرڈر ملا کہ جاتے ہیں تو جانے دیں، سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے چوہدری غلام عباس کو یقین دلایا تھا کہ ہم نہیں جانے دیں گے، سردار عبدالقیوم خان پہلا جتھا لے کر چلے اور بجائے سیزفائرلائن کراس کرنے کے اس کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا، وہ اس امید میں تھے کہ پولیس آ کے انہیں روکے، سویلین حکومت کے خلاف فوج نے فیصلہ کیا کہ انہیں روکا جائے، چنانچہ انہوں نے سردار عبدالقیوم خان کا پیچھا کیا، سردار صاحب تو پہلے ہی انتظار میں تھے کہ کوئی آ کے روکے، درحقیقت وہ کشمیر چلو کی بات نہیں بلکہ مارشل لا لگاؤ منصوبہ تھا۔

    کھیل وہی پرانا مگر کھلاڑی نئے ہیں، تقریباً ساٹھ سال بعد ملٹری ڈیموکریسی کے حمایتی سردار عتیق احمد خان نے 24نومبر کوکنٹرول لائن توڑنے کا فیصلہ کیا ہے، کنٹرول لائن عبور کرنا اچھا آئیڈیا ہے، اگر اسے نیک نیتی سے کیا جائے، اگر اس آئیڈیا کو ایسے مقصد کے بجائے اپنی ذاتی خواہشات کے لیے استعمال کریں گے تو تحریک کو نقصان پہنچے گا۔

  • جتنی دولت چاہیں سمیٹ لیں مگر – خزیمہ ابن ادریس کیلانی

    جتنی دولت چاہیں سمیٹ لیں مگر – خزیمہ ابن ادریس کیلانی

    تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اگر ابن آدم کے پاس مٹی کی دو وادیاں بھی ہوں تو تب بھی وہ تیسری کی خواہش کرے گا ، ابن آدم کا پیٹ صرف مٹی ہی بھرسکتی ہے‘‘(صحیح بخاری،حدیث:۶۴۳۶)

    انسان کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ بہترین کھائے، شاہانہ رہن سہن ہو، بہترین شاہی سواری ہو، نوکروں کی موج ظفر ہو جو ہر دم اس کا حکم ماننے کو تیار بیٹھے ہوں۔ تقریبا ہر انسان کا میلان دنیا کی طرف ہوتا ہی ہے خواہ کم ہو یا زیادہ، اور بسا اوقات مختلف معاملات زندگی میں یہ میلان اس کے پاؤں کی ایسی مضبوط زنجیر بن جاتی ہے کہ اسے توڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مگر معاملہ اس وقت گھمبیر ہوتا ہے جب ایک غریب فاقہ کش آدمی شاہانہ طرز زندگی دیکھتا ہے اور اس کا دل بھی مچلنے لگتا ہے کہ کاش! عیش و عشرت کا یہ سامان، دولت کدہ اور جائیداد اس کے پاس بھی ہو، اس کی بیوی، آل اولاد بھی سونے کے نوالے لے۔ جس امیر آدمی کو دیکھ کر یہ غریب آدمی ایسی سر چڑھی خواہشات کرنے لگتا ہے اور راتوں رات امیر بننے کے خواب بنتا ہے۔ اور جس امیر شخص کو اتنا پرسکون سمجھتا ہے شاید وہ غریب یہ بھی نہ جانتا ہو کہ جس شخص کی چند روزہ زندگی پر وہ رشک کر رہا ہے اسے شاید رات کو نیند بھی نہ آتی ہو، رات کو سکون کے چند لمحات بھی میسر نہ ہوتے ہوں اور نیند کی وادی میں اترنے کے لیے اسے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہو، اور شاید وہ اپنے آرام کے لیے دوسروں کی نیندیں بھی حرام کرتا ہو۔ لینڈ کروزرز، بی ایم ڈبلیو میں بیٹھا بظاہر ہنستا مسکراتا انسان نہ جانے اندر سے کتنا کھوکھلا،گھائل اور نجانے کتنی مہلک بیماریوں، اندرونی بے سکونی اور رنج والم کا شکار ہو۔ یہ تو کوئی اسی سے پوچھے تو حقیقت آشکارا ہو۔ الا ماشاء اللہ

    آپ کو ایک واقعہ سناتا چلوں، یہ آپ پر منحصر ہے آپ اسے لطیفہ سمجھیے یا ہماری قوم کا المیہ یا ۔۔۔۔۔۔ کی انتہاء، مگر خالی جگہ آپ اپنی پسند سے ضرور پر کیجیے۔ ہمارے محلہ میں کچھ لوگ ہیں،گھر کا سربراہ محکمہ پولیس میں رہ چکا ہے، اور اب اپنے بیٹوں کو بھی باری باری اسی محکمے میں دھکیل رہا ہے۔ ایک دن بچوں کی ماں اپنے اس بیٹے سے کہنے لگی جو ابھی پولیس میں نیا نیا بھرتی ہوا تھا۔ نعیم (فرضی نام) جب سڑک پر کوئی آدمی گرا ہوا ملے تو سب سے پہلے اس کا بٹوہ دیکھا کرو کہ اس میں کچھ ہے بھی یا نہیں۔دیکھیے ایک ماں مال و زر کی ہوس میں اپنے بیٹے کو اس کا اپنا فرض پورا کرنے کی نصیحت کرنے کے بجائے الٹا اسے کیسے بےہودہ مشورے دے رہی ہے۔ مقام حیرت ہے کہ کس طرح ایک انسان مال کے لالچ میں آکر حلال و حرام کی تمیز یکسر بھول جاتا ہے اور خاص طور پر ایک مسلمان یہ بھی نہیں سوچتا کہ حرام کمائی کا مال اللہ تعالی ایسے طریقوں سے نکالتے ہیں کہ انسان کے لیے پریشانی علیحدہ سے در آتی ہے اور مال کی بربادی علیحدہ سے۔ ایک اور لطیفہ پڑھیےاور سر دھنتے جائیے، راقم اور اس کے بڑے بھائی کے درمیان بات چیت کرتے ہوئے محکمۂ پولیس کا ذکر آگیا توبھائی کہنے لگے میرے کولیگ نے مجھے بتایا کہ میرا ایک دوست جو کہ محکمہ پولیس میں نچلے درجے کا ملازم ہے، اس کی بیوی اس سے روز جھگڑا کرتی اور ڈھیر سارے پیسوں کا تقاضا بھی کرتی۔ ایک دن تنگ آکر کہنے لگی ’’تمہارے پولیس میں ہونے کا کیا فائدہ، جب تم پیسے ہی نہ کما سکو، تمہیں تو مہینے میں لاکھوں کمانے چاہییں۔ مجھے تو بس پیسے چاہییں.‘‘

    ذرا غور فرمائیے کہ انسان مال کے لیے کس حد تک جانے کے لیے تیار ہوتا ہے خواہ کسی حق مارا جائے، کسی کی جان چلی جائے، لیکن انسان کا ایک حد میں رہ کر مال کی خواہش کرنا بالکل بھی معیوب نہیں ہے اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے بشرطیکہ ارتکاز دولت چند ہاتھوں میں نہ رہے بلکہ غریبوں کا بھی خیال رکھا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود تجارت کی طرف ترغیب دلائی ہے۔اور یہاں تک کہ ایک شخص کو فرمایا کہ ’’تم جو رزق اپنے اہل خانہ کو کھلاؤ، وہ بھی تمہارے لیے باعث اجر ہے۔‘‘

    ہمارے معاشرے میں چونکہ سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے اور اس میں یہی معیوب بات ہے کہ انسان مال کی خواہش میں حرام وحلال کا خیال رکھے بغیر دن رات ایک کرکے سرمایہ دار بن جاتا ہے۔ اس نظام کے نتیجے میں ایک غریب مسلسل غریب اور امیر امیر تر بن جاتا ہے۔ حقوق اللہ و حقوق العباد کا خیال رکھے بغیر جعلی ادویات کے کارخانے کھلتے ہیں، عوام کو دودھ کے نام پر سرف اور نہ جانے کیا کیا پلایا جاتا ہے، شہر میں گدھوں کی بھرمار ہو تو عوام کو سستے گائے بھینس کے گوشت کے نام پر حرام کھلایا جاتا ہے، اور اگر ضمیر بالکل ہی مردہ ہو جائے تو راولپنڈی سے لاہور لاتے ہوئے منوں کے حساب سے خنزیر کا گوشت پکڑا جاتا ہے، ایک ایک پلاٹ دس بندوں کو بیچا جاتا ہے، پورے شہر کا پولٹری فارم ایک بااثر حکومتی عہدیدار کے قبضے آجاتا ہے جب چاہے گوشت اور انڈوں کی قیمتیں بڑھادے یا گھٹا دے، تعلیم کو معاش کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور بعض لوگوں کو یہاں تک کہتے سنا کہ جب لوگ ہی ایسی نامناسب فیس دیں تو ہم انہیں اچھا کیوں پڑھائیں؟ زلزلہ و سیلاب زدگان کے لیے بیرونی امداد حکومتی اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے بجائے اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروالی جاتی ہے، مصیبت زدہ قوم کے لیے ترکی کی خاتون اول کی طرف سے دیا گیا بیش قیمت ہار پاکستانی عوام کے لیے نہیں بلکہ اس وزیراعظم کی اہلیہ کے گلے کی زینت بنتا ہے، جو ہر سال 10 محرم کے موقع پر اپنی اور اپنے باپ کی نسبت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف کرتے ہوئے اپنے آپ کو سادات میں سے بتاتا ہے۔ فخر کرنا نہیں بھولتا، مگر بھول بیٹھتا ہے کہ جس مقدس ہستی کی طرف وہ نسبت کر رہا ہے، وہ نسبت اس سے کیا تقاضا کرتی ہے، ماپ تول میں کمی کی جاتی ہے، بیرون ملک مال برآمد کرنے لیے مال کچھ دکھایا جاتا ہے اور بھیجا کچھ اور جاتا ہے۔ اور حیرت تو ان لوگوں پر ہوتی ہے جو خود تو دیدہ دلیری کے ساتھ سال کے 365 دن خوب جی بھر کر کرپشن کی گندگی میں لتھڑے رہتے ہیں اور اس سے دوگنا اپنے حکمرانوں کو کوستے ہیں کہ ہمارے حکمران تو ہیں ہی کرپٹ، چوتھے درجے کے ملازم سے لے کر بائیسویں گریڈ کے افسر تک سبھی کرپشن کے ناسور میں ایسے لتھڑے نظر آتے ہیں کہ کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتے ہیں، اور اگر کوئی ایماندار افسر آجائے تو سب اسے کھڈے لائن لگوانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ یہ تگ و دو صرف اس مال کے حصول کے لیے کی جاتی ہے جس کے بارے میں ہر امیر غریب سبھی کومعلوم ہے کہ یہ مال کچھ عرصہ کے لیے ہی ان ملکیت ہے، پھر قبضے سے نکل جائے گا۔

  • لاکھوں کے اجتماع کی چھوٹی سی خبر – محمد معاذ

    لاکھوں کے اجتماع کی چھوٹی سی خبر – محمد معاذ

    20160828_122458 ہر طرح کے نسلی، لسانی، فرقہ وارانہ تعصب سے پاک، عالم میں دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع ہر سال رائے ونڈ میں منعقد ہوتا ہے، حج کے بعد یہ بڑا اجتماع ہے جس میں لاکھوں فرزندان اسلام شرکت کرتے ہیں۔گزشتہ دنوں دکان پر اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ ساتھ بیٹھے ڈاکٹر صاحب جو اخبار پڑھنے میں مشغول تھے، نے ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور کہا کہ عالم اسلام کا اتنا بڑا تبلیغی اجتماع ہے لیکن اخبار والوں نے اتنی چھوٹی سی خبر لگائی ہے. میں اس وقت تو خاموش رہا اور سوچا کہ کیوں نہ اتنے بہترین موضوع کو حرفوں کی مالا میں پرو کر دلیل کے قارئین کے سامنے پیش کیا جائے.

    زبان پہ ذکر الہی، تبلیغ کی اشاعت کا مشن، موسم کے مطابق کاندھوں پہ بستر، ہاتھوں میں تسبیح لیے سینکڑوں افراد پر مشتمل قافلے اپنے مخصوص انداز میں چلتے ہوئے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام کے شہروں، قصبوں کے لوگ اس پرسکون اجتماع میں شرکت کرتے ہیں۔ منتظمین تبلیغی جماعت نے پاکستان بھر کے حلقوں کو 18حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر سال بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر فیصلہ کیا ہے کہ اس سال 9 حلقوں یعنی آدھے پاکستان کا اجتماع ہوگا اور وہ بھی دو حصوں میں ہوگا تاکہ شرکت کرنے والے لوگوں کو کسی طرح کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے. رائے ونڈ اجتماع کا پہلامرحلہ اختتام پذیر ہو چکا ہے جبکہ دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے اور 13 نومبر بروز اتوار کی صبح کو اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔

    اجتماع میں قومیت، صوبائیت، لسانیت، اور سیاسی گروہ بندیاں، سب خاک میں مل جاتی ہیں، یہاں ایک مسلمان کی حیثیت کے ساتھ امیر غریب، حاکم و محکوم، گورا کالا، پٹھان پنجابی، پختون، بلوچی، سندھی، سرائیکی کی حیثیت و تفریق سے بےنیاز ہو کر آتا ہے، اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہو کر انسانیت کی ہدایت کی دعا کرتا ہے. یہ حقیقت ہے کہ جس کام میں جان ومال اور وقت، تین قیمتی چیزیں خرچ ہوں، وہ قیمتی ہو جاتا ہے.

    تبلیغ کی اشاعت کا کام صرف تبلیغی اجتماع کے موقع پر نہیں بلکہ پورا سال چلتا رہتا ہے. ہر شہر میں قائم تبلیغی مرکز میں ہر جمعہ کی شب ایک اجتماع ہوتا ہے جس میں مبلغین کے توحید و سیرت پر ایمان افروز بیانات ہوتے ہیں. دین کی اشاعت کے لیے سہ روزہ، عشرہ، پندرہ دن، چلہ اور چار مہینے اللہ کی راہ میں صرف کرنا ان کے ترجیحات میں شامل ہوتا ہے. تبلیغ کا حکم تو کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ میں موجود ہے اور ہر زمانہ میں اس پر عمل ہوتا رہا ہے. دعو ت و تبلیغ کا سلسلہ بھی قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے. انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام، اولیائے کرام اور بزرگان دین نے انتھک محنت سے بھولے بھٹکے اور گمراہ لوگوں کو کلمہ طیبہ کی دعوت دی اور راہ راست پر لانے کی کوشش کی، نیز موجودہ دور میں بھی دعوت اسلام کا کام اندرو ن و بیرون ملک میں تیزی سے جاری ہے، البتہ ہر زمانے کے حالات کے اعتبار سے اللہ تعالی بندوں کے دلوں میں مفید طریقوں سے القا فرماتے رہے ہیں. حضرت محمد ﷺ کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس لوگ ہفتہ میں ایک یا دو دفعہ جمع ہوتے تھے اور وہ ان احادیث کو بیان کرتے. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہفتہ میں ایک دفعہ مسجد نبوی میں منبر کے قریب کھڑے ہو کر احادیث سنایا کرتے. غرض یہ کہ امت کسی بھی وقت مجموعی حیثیت سے تبلیغ سے مکمل طور پر غافل نہیں رہی بلکہ ہر زمانے میں امت میں انسانیت کی اصلاح وہدایت کے لیے مختلف طریقے رائج رہے.

    آج کے پر فتن دور میں دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے اور شرعی حدود کے اندر وضع کر دہ اصولوں کے مطابق ہو رہا ہے. سال میں چلہ، چار مہینہ اللہ کی راہ میں صرف کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے زندگی پر بہت مثبت نتائج مرتب ہوتے ہیں، ہر شخص کو اپنی وسعت کے مطابق اس میں ضرور حصہ لینا چاہیے.