گورنر سندھ پاکستان کے صوبہ سندھ کی صوبائی حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ اس کا تقرر وزیر اعظم پاکستان کرتا ہے اور عموما یہ ایک رسمی عہدہ ہے یعنی اس کے پاس بہت زیادہ اختیارات نہیں ہوتے۔ تاہم ملکی تاریخ میں متعدد بار ایسے مواقع آئے ہیں جب صوبائی گورنروں کو اضافی و مکمل اختیارات ملے ہیں خاص طور پر اس صورت میں جب صوبائی اسمبلی تحلیل کر دی گئی ہو، تب انتظامی اختیارات براہ راست گورنر کے زیر نگیں آ جاتے ہیں۔ 1958ء سے 1972ء اور 1977ء سے 1985ء کے فوجی قوانین (مارشل لا) اور 1999ء سے 2002ء کے گورنر راج کے دوران گورنروں کو زبردست اختیارات حاصل رہے۔ سندھ میں دو مرتبہ براہ راست گورنر راج نافذ رہا جن کے دوران 1951ء سے 1953ء کے دوران میاں امین الدین اور 1988ء میں رحیم الدین خان گورنر تھے۔ سندھ کے آخری گورنر عشرت العباد خان ہیں جن کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے تھا۔ لیکن اب سعید الزماں صدیقی کو گورنر سندھ بن گئے ہیں۔
گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان پاکستان کی تاریخ کے وہ واحد گورنر ہیں جو طویل ترین عرصہ سے اس عہدے پر فائز ہیں۔تقریباً 14 سال گورنر سندھ کے عہدے پر فائز رہنے والے عشرت العباد ایشیا کے دوسرے اور دنیا بھر میں تیسرے طویل المدتی گورنر ہیں۔عشرت العباد خان 2 مارچ 1963 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز اپنے تعلیمی سفر کے ساتھ ساتھ ڈاؤ میڈیکل کالج سے کیا جہاں وہ متحدہ قومی موومنٹ کے اسٹوڈنٹس ونگ اے پی ایم ایس او کے اہم لیڈر کے طور پر ابھرے۔سنہ 1990 میں انہیں صوبائی وزیر برائے ہاؤسنگ اور ٹاؤن پلاننگ بنایا گیا۔ اس وقت انہیں ماحولیات اور صحت کی وزارت کا اضافی چارج بھی دیا گیا۔ سنہ 1993 میں وہ برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے سیاسی پناہ کے لیے درخواست دی جو قبول ہوگئی۔ بعد ازاں انہیں برطانوی شہریت بھی حاصل ہوگئی۔سنہ 2002 میں انہیں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے گورنر سندھ نامزد کیا گیا جس کے بعد 27 دسمبر کو وہ گورنر منتخب ہوگئے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے کم عمر ترین گورنر تھے۔ڈاکٹر عشرت العباد خان نے اپنے عہد گورنری کا عرصہ خاموشی سے گزارا اور اس دوران انہوں نے کسی قسم کے سیاسی معاملے میں مداخلت سے پرہیز کیا تاہم کچھ عرصہ قبل ایم کیو ایم کے منحرف رہنما اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے ان پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے جس کے بعد پہلی بار عشرت العباد ٹی وی چینلز پر ذاتی دفاع کرنے کے لیے پیش ہوئے۔انہوں نے مصطفیٰ کمال پر جوابی الزامات بھی لگائے تاہم انہوں نے حکومت پر توجہ دینے کے بجائے اس قسم کے سیاسی معاملات میں ملوث ہونے پر شرمندگی اور معذرت کا اظہار بھی کیا۔عشرت العباد فن و ادب کے دلدادہ تھے اور شہر میں ہونے والی ادبی و ثقافتی تقریبات میں بطور خاص شرکت کیا کرتے تھے۔
جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی 1 دسمبر 1937ء کو لکھنؤ, حیدر آباد، بھارت میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان کے پندرہویں منصف اعظم تھے۔ وہ 1 جولائی 1999ء سے 26 جنوری 2000ء تک منصف اعظم رہے۔ جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی نے ابتدائی تعلیم لکھنئو سے حاصل کی۔ 1954ء میں انہوں نے جامعہ ڈھاکہ سے انجنیئرنگ میں گریجویشن کی۔ جامعہ کراچی سے انہوں نے 1958ء میں وکالت کی تعلیم حاصل کی۔جسٹس سعید الزماں صدیقی 1999 میں چیف جسٹس سپریم کورٹ تھے، جنرل ریٹائرڈ مشرف نے جب فوجی بغاوت کرتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹا تو جسٹس سعید الزماں صدیقی نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔
نئے چیف الیکشن کمشنر کے موقع پر انھیں مسلم لیگ ن کا انتہائی قریبی سمجھا گیا تھا ۔ اسی وجہ سے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں نئے چیف الیکشن کی تقرری کیلئے مشاورت پر پیپلز پارٹی نے (ن) لیگ کی جانب سے تجویز کیا گیا جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی کا نام مسترد کر دیا تھا۔نامزد گورنر سندھ ، میاں نواز شریف کے انتہائی قریب احباب میں یاد کئے جاتے ہیں ۔ہائی کورٹ حملہ کیس میں جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی میاں نواز شریف کے سب سے بڑے حمایتی تھے۔ جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی اپنی دور عدلیہ سے متنازعہ چلے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر سندھ ہائی کورٹ میں صدارتی انتخاب کے لیے مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار سعید الزمان صدیقی کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ ایک سابق ایڈیشنل سیشن جج کی جانب سے دائر اس پٹیشن میں درخواست کی گئی تھی کہ جسٹس ریٹائرڈ سعید الزمان صدیقی کو نااہل قرار دیکر ان کے کاغذاتِ نامزدگی رد کر دیے جائیں۔ سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عبدالوہاب عباسی نے اپنی اس درخواست میں وفاقی حکومت، چیف الیکشن کمشنر اور دیگر کو فریق بنایا۔ ان کا موقف تھا کہ انیس سو نوے میں سندھ ہائی کورٹ نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کی تقرریوں کے لیے درخواستیں طلب کی تھیں اور اس سلسلے میں انہوں نے بھی درخواست جمع کرائی تھی۔ ان کے مطابق تحریری اور زبانی انٹرویو کے بعد ان کا نام میرٹ لسٹ میں چوتھے نمبر پر آیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے ان امیدواروں کی فہرست منظوری کے لیے حکومت سندھ کو بھیجی۔ حکومت نے امیدواروں کی عمر پر اعتراضات لگا کر سمری واپس کردی۔بعد میں جسٹس سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنادیا گیا اور جسٹس سعید الزمان صدیقی سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر ہونے کے بعد جسٹس سعید الزمان صدیقی نے جلد بازی میں رجسٹرار کے پاس موجود ناموں میں تین نام اپنی پسند کے شامل کرکے ان کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج کے طور پر تقرری کی سفارش کردی۔ عبدالوہاب عباسی کے مطابق یہ عمل انصاف اور میرٹ کی خلاف ورزی تھا، جس کے خلاف انہوں نے عدالت سے رجوع کیا۔ پانچ سال کے بعد جب جسٹس عبدالحفیظ میمن چیف جسٹس تعینات ہوئے تو انہوں نے ان کی اپیل پر 1990ء کی میرٹ لسٹ کے مطابق انہیں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج مقرر کیا۔ درخواست گزار نے سندھ ہائی کورٹ کے دوبارہ حلف لینے والے ایک جج اور ایک سیشن جج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جسٹس ریٹائرڈ سعید الزمان صدیقی ان کے ساتھ انصاف کرتے تو وہ بھی آج ہائی کورٹ کے جج ہوتے۔ سابق صدر مشرف کے استعفے کے بعد صدر کے عہدے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی نے آصف زرادری، مسلم لیگ ن نے جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی اور مسلم لیگ ق نے مشاہد حسین کو امیدوار نا مزد کیا تھا۔ سعید الزمان صدیقی چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی رہ چکے ہیں انہوں نے پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔سعید الزمان صدیقی آصف علی زرداری کے مقابلے میں ن لیگ کے صدارتی امیدوار تھے۔
سبکدوش ہونے والے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد 1992 میں لندن آئے تھے ۔اور 1999تک برطانوی حکومت سے الائونس لیتے رہے ، اور برطانیہ نے انھیں برطانوی شہریت دے دی تھی ۔گورنر بننے کے بعد ایسی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی کہ گورنر نے برطانوی شہریت واپس کردی ہو، جس پر مصطفی کمال کا یہ دعوی حقیقت نظر آیاہے کہ ان کے پاس ابھی بھی برطانوی شہریت ہے ، اسی وجہ سے وہ گورنر کا نام ای سی ایل سی میں ڈالنے کا تواتر سے مطالبہ کررہے تھے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عشرت العباد کا الاونس اسکینڈل اس وقت سامنے آیا تھا جب برطانیہ میں تفتیشی اداروں نے ان کے خلاف غلط کلیم وصول کرنے پر تحقیقات شروع کردیں تھی ۔کیونکہ وہ اپنے بھائی ڈاکٹر محسن العباد خان کے شمالی لندن Edgwareکے گھر میں رہتے ہوئے 244پونڈ فی ہفتہ دس ماہ تک گورنر سندھ ہونے کے باوجود لیتے رہے تھے ۔جب برطانوی تفتیش کاروں نے اس الاوئنس کی تحقیقات شروع کیں تو ڈاکٹر عشرت العباد کی بیوی نے باقاعدہ برٹش گورنمنٹ کو لکھ کر دیا کہ وہ اب مزید الائونس نہیں لینا چاہتے ، ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عشرت العباد نے برطانیہ میں نہ ہونے کے باوجود جتنے الاونس پناہ گزیں کے حیثیت سے اضافی الاونس لئے تھے ، وہ واپس کردیئے تھے۔ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد برطانیہ چھوڑنے کے بعد گورنر بننے کے بعد بھی دس مہینے تک غیر قانونی طور پر 1000پونڈز ماہانہ لیتے رہے تھے۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے یہ کلیم کیا ہوا تھا کہ ان کے چار بچوں میں سے تین بچے اب بھی وہیں رہتے ہیں ، جو گھر اصل میں ان کے بھائی کا تھا ، جس سے برٹش حکومت کو بھی بے خبر رکھا گیا تھا۔
ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عشرت العباد کی برطانیہ میں کافی جائیدادیں ہیں جو انھوں نے کرائے پر دے رکھی ہیں، اور ان کی نگرانی اب بھی ڈاکٹرشہزاد اکبر نامی شخص کرتا ہے جو 2003ء سے ڈاکٹر عشرت العباد کی کئی جائیداوں کا نگراں بنا ہوا ہے اور اب بھی ڈاکٹر عشرت العباد کے مکانات کا مشترکہ freeholders ہے۔ ڈاکٹرشہزاد اکبر نے ڈاکٹر محسن العباد خان کے ساتھ مل کر لندن میں گورنر سندھ کے لیے جائیداد سب سے پہلے 1999ء میں حاصل کی تھی۔ کراچی کی سیاست میں ایک بار پھر ہل چل پیدا ہوچکی ہے ۔مصطفی کمال کیونکہ گورنر سندھ ہیں ، عمومی طور پر ڈاکٹر عشرت العباد انٹرویوز دینے سے پرہیز کرتے رہے ہیں، مصطفی کمال نے دھواں دار الزام تراشیوں کرکے گورنر سندھ کو متنازعہ بناکر گیند حکومت کی کورٹ میں ڈالنے میں کامیاب ہوگئے ہ اور گورنر سندھ کو ہٹانے میں مصطفی کمال کو کامیابی مل گئی ہے ۔ماضی میں گورنر سندھ کو ایم کیو ایم سے تعلق ہونے کی بنا پر پی پی پی حکومت اور پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت میں بھی مسلسل گورنر سندھ مقرر رکھنے جانے کے سبب پی پی پی کے کئی رہنما اس بات سے ناراض تھے کہ پرویز مشرف کے تعینات گورنر کی جگہ دوسرے فرد کو گورنر بنانا چاہیے ، لیکن آصف زرداری کی مفاہمت کی سیاست کے باعث ڈاکٹر عشرت العباد گورنر کے عہدے پر فائز رہے ۔ بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت اور ایم کیو ایم سے مفاہمت کی ضرورت نہ ہونے کے باعث گمان یہی غالب تھا کہ ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو ہٹا دیا جائے گا ، لیکن حیرت انگیز طور پر ان ہی کو گورنر رکھا گیا ۔ایم کیو ایم کراچی آپریشن میں جب مسائل کا شکار ہوئی اور گورنر سندھ ماضی کی طرح ایم کیو ایم کا ساتھ نہیں دے سکے ، تو الطاف نے گورنر سے لاتعلقی اختیار کرکے استعفی کا مطالبہ کردیا ۔ مائنس الطاف کے بعد پاک سر زمین پارٹی کے بہترین موقع تھا کہ اگر گورنر ان کا ساتھ دیتے تو پاک سر زمین پارٹی ایم کیو ایم کے کئی اہم رہنما اور ذمے داروں کو شمولیت پر راضی کرسکتی تھی ، لیکن نائن زیرو کے قریب ایم کیو ایم کے جوائنٹ انچارج کے گھر سے اسلحے کی کھیپ بر آمد ہونے کے بعد گورنر نے مکمل طور پر پاک سر زمین پارٹی کو جواب دے دیا ،۔گورنر سندھ پر موجودہ الزامات کو درست یا غلط ثابت کرنا اب حکومت کی ذمے داری تھی کہ وہ برطانوی حکومت سے دریافت کرے کہ گورنر سندھ دوہری شہریت رکھتے ہیں یا نہیں ۔اگر رکھتے ہیں تو یہ پاکستان کے حساس اداروں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان اٹھاکہ مصطفی کمال کے انکشافات ان سے کیوں پوشیدہ رہے ۔
حکومت کی جانب سے دوہری شہریت اور دیگر الزامات پر گورنر کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ پاک سر زمین پارٹی کی جانب سے اچانک گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد پر الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی ۔ اس سے قبل بھی متحدہ نے پریس کانفرنس کرکے گورنر سندھ سے نومبر2015میں استعفی کا مطالبہ کیا تھا۔ڈاکٹر عشرت العباد 2002سے گورنر سندھ کے عہدے پر فائز ہیں ۔ ایم کیو ایم کی جانب سے 2015میں گورنر سندھ سے استعفی طلب کرنے پراُس وقت ڈاکٹر فاروق ستار نے اس کی وجوہات کچھ یوں بیان کی تھیں کہ" گورنر سندھ عشرت العباد کے رویئے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد اپنی ذمے داریاں خوش اسلوبی سے سر انجام نہیں دے رہے ، بقول فاروق ستار ، عشرت العباد کارکنان کے قتل عام کو روکنے میں ناکام رہے ہیں ، وہ مسلسل خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں" ۔اس وقت سیاسی حلقوں میں یہ بات سرگرم تھی کہ ایم کیو ایم نے گورنر کے خلاف اس لئے یہ بیان دیا ہے کیونکہ 16سال بعد صولت مرزا کو پھانسی دی گئی تھی اور عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے صولت مرزا کے ان سنگین الزامات کو دبانے کیلئے کوشش کی گئی تھی جو صولت مرزا نے اپنی پھانسی سے قبل ویڈیو بیان میں ایم کیو ایم کی اعلی قیادت کے اوپر لگایا تھا ۔پھر نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے وقت بھی گورنر سندھ بے خبر رہے۔پاک سر زمین پارٹی بننے کے بعد ایک عوامی تاثر یہی تھا کہ پاک سر زمین پارٹی کی پشت پناہی گورنر سندھ کررہے ہیں ، اس لئے سابق لندن گروپ کی جانب سے لاپتہ یا گرفتار کارکنان کے اہل خانہ کو پاک سر زمین پارٹی کے دفتر بھیجا جاتا کہ مصطفی کمال اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں ، وہ بازیاب کرالیں گے ، مصطفی کمال نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی بازیاب کرایا ، جو گرفتاری کے ڈر سے ،یا لندن گروپ چھوڑنے کے بعد باعزت زندگی گزارنے کے لئے روپوش تھے ، یا کچھ کارکنان ایسے بھی تھے جو تحقیقات کے لئے قانون نافذ کرنے والوں اداروں کے پاس تھے ،جن پر الزامات ثابت نہیں ہوئے انھیں مصطفی کمال نے رہا بھی کرایا ، جس کی سب سے بڑی مثال عید الفظر کو 19 ایسے افراد کو اہل خانہ سے ملوایا گیا ، جو کئی سالوں سے اپنے اہل خانہ سے رابطے میں نہیں تھے۔پاک سر زمین پارٹی میں متواتر لندن گروپ کے اہم رہنمائوں کی شمولیت اور پھر22اگست کی تقریر کے بعد مائنس الطاف ہونے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کی تجدید ہوئی ، لیکن ڈاکٹر فاروق ستار پھر بھی اپنی پارٹی کو مسائل سے نہ نکال سکے ، اسی دوران لندن منی لانڈرنگ کیس کا الطاف کے حق میں فیصلے کے بعد طیارہ اغوا کیس کی متنازعہ شخصیت کی جانب سے پریس کانفرنس الیکڑونک میڈیا کی گئی ، جس کے بعد لندن گروپ نے ایم کیو ایم پاکستان کو مسترد کردیا اور کراچی بھر میں الطاف کے حق میں وال چاکنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ ذرائع کے مطابق پاک سر زمین پارٹی کیلئے یہ سب کچھ غیر متوقع تھا کہ لندن گروپ کی جانب سے کراچی میں دھواں دار پریس کانفرنس بھی کی جاسکتی ہے ،اور الطاف کے حق میں وال چاکنگ بھی کی جاسکتی ہے۔؎
دوسری جانب ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ گورنر سندھ نے پکڑے جانے ایم کیو ایم لندن کے گرفتار کارکنان کی پشت پناہی سے معذرت کرلی تھی ،اور رینجرز اور پولیس کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا واضح پیغام دے دیا تھا ، جس کے بعد پاک سر زمین پارٹی نے باقاعدہ گورنر سندھ پر الزامات کی بوچھاڑ شروع کردی۔لیکن ماضی کی طرح کوئی ثبوت عوام کے سامنے نہیں لا سکے ۔پاک سرزمین پارٹی کی تمام تر توجہ ایم کیو ایم کے اہم رہنمائوں و ذمے داروں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا رہا ہے، گورنر سندھ اور پرویز مشرف کے عقب میں ہونے کا تاثر عام تھا ، جس وجہ سے لندن گروپ کے کئی ذمے دار و رہنما پاک سر زمین پارٹی میں شامل ہوئے ، لیکن گرفتار کارکنان اور چھاپے بند نہ ہونے کی وجہ سے گورنر سندھ کو دوبارہ نومبر2015کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، جب الطاف نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے لاتعلقی کا اظہار بھی کردیا تھا۔اب پاک سر زمین پارٹی کا اتنے عرصے خاموش رہنے کے بعد گورنر کے خلاف توپوں کا رخ کرلینا کا بنیادی سبب ذرائع یہی بتاتے ہیں کہ نائن زیرو سے اسلحے کی کھیپ ملنے کے بعد گورنر سندھ خود کو ایک جانب رکھنا چاہتے تھے ۔اس لئے پاک سر زمین پارٹی کی جانب سے لفاظی کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے۔
موجودہ سیاسی صورتحال نواز حکومت کیلئے ایک شٹ اپ کال تھی،۔وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کوبعض وزرا ء کی جانب سے غیر ذمے درانہ بیانات و عمل کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا اورموجودہ حکومت مسلسل غلطیاں کر رہی تھی ، جیسے وہ بتدریج درست کرنے میں لگی ہوئی ہے۔نواز حکومت نے گورنر سندھ کو برطانوی شہریت ہونے کے باوجود نہیں ہٹایا تھا، نواز حکومت اہم معاملات میں الجھی ہوئی تھی جس میں تازہ ترین معاملات حساس نوعیت کے ہیں ۔جیسے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی دوہری شہریت کے باوجود وزیر اعظم کی جانب سے نہ ہٹائے جانا ، انگریزی اخبار کے رپورٹر کی جانب سے شائع خبر کا علم کا ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے لاپرواہی، پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما کی جانب سے عسکری قیادت اور سول قیادت کا ایک صفحے پر نہ ہونے کا متنازعہ بیان اور سب سے اہم نیشنل ایکشن پلان کے مطابق حکومت کی جانب سے تعاون میں مسلسل کمی اور برطانیہ میں موجود عسکری اداروں اور پاکستان کے خلاف دشنامی بیانات دینے والا الطاف کے خلاف موثر کاروائی میں ناکامی شامل ہے ۔ تمام معاملات میں عسکری ادارے کی رٹ کو چیلنج کیا گیا لیکن سول حکومت کی جانب سے عسکری ادارے کے تضحیک کرنے والوں کے خلاف مناسب کاروائی نہیں کی گئی۔
مقتدر حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ جب مصطفی کمال کی جانب سے یہ انکشاف سامنے آیا کہ گورنر سندھ عشرت العباد، برطانوی شہریت رکھتے ہوئے حساس میٹنگز میں شریک ہوتے رہے ہیں تو را کے ایجنٹ الطاف کے ساتھ تعلقات ہونے پر کیا کیا راز افشا ہوئے ہوں گے ، یہ ایک حساس معاملہ تھا کیونکہ الطاف اور ایم کیو ایم را کے لیے کام کر رہے ہیں ، اس لئے گورنر کی وابستگی بھی ’ را ‘ ایجنٹ کے ساتھ ہونے کے باوجود کوئی کاروائی نہ کیا جانا، نواز حکومت کی ایک فاش غلطی گردانا جارہا ہے۔ کراچی آپریشن پر اس سے اثرات نمودار ہونا شروع ہوئے ہیں اور ماضی کی طرح ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ حالیہ فرقہ وارانہ واردتوں میں اضافہ بھی اسی خدشے کو جنم دے رہا تھا کہ را کے ساتھ تعلقات رکھنے والے الطاف سے وابستگی اور اہل تشیع و اہل سنت کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافے میں یقینا گورنر سندھ کا بھی کوئی اہم کردار رہا ہوگا ۔ خاص طور پر برطانوی شہریت نہ چھوڑنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اگر کوئی برا وقت آتا ہے تو وہ دوبارہ برطانیہ چلے جائیں گے ۔ اس لئے اب ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں ہوگا ۔ حساس ادارے اس بات پر یقینی متفکر ہوتے ہیں کہ برطانوی شہریت کا حامل شخص ان کی اہم میٹنگز میں شریک ہوتا رہا ، یہاں معلومات کے فقدان کا بھی بڑا اہم عنصر شامل ہے ۔کیونکہ متعلقہ اداروں نے درست انکوئری نہیں کی ۔ اس کی ایک مثال شرمیلا فاروقی کا سزا یافتہ ہونے کے باوجود مسلسل وزیر اعلی کی ،مشیر و زارت کی مشیر رہیں ، لیکن یہ معاملہ سامنے نہیں آسکا کہ شرمیلا فاروقی سزا یافتہ ہیں ۔ قانون کے مطابق سرکاری عہدہ نہیں لے سکتی ، اسی طرح گورنرسندھ کا بھی یہی معاملہ رہا کہ برطانوی شہریت اور الطاف کے ساتھ تعلقات بحال رہنے کے باوجود وزیر اعظم کیلئے مسائل پیدا ہوچکے تھے ۔ اس لئے انھوں نے پنامہ لیکس کا معاملہ عدالت میں جانے ، متنازع خبر پر کمیشن بنا کر اور ان ڈاکٹر عشرت العباد کو محفوظ راستہ دے کر مقتدور حلقوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اب یقینی طور پر گورنر سندھ پاکستان میں نہیں رہیں گے بلکہ لندن اپنی ایجوئر میں واقع ملکیت مینشن میں رہیں گے۔
جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی کی حوالے سے کوئی جماعت کسی قسم کا بھی تحفظات کا اظہار کرے ، لیکن نواز شریف حکومت کو گورنر تعینات کرنے کا استحقاق حاصل ہے ۔ سندھ میں مسلم لیگ ن کے عہدے داران و لیگوں کا دیرینہ مطالبہ بھی پورا ہوگیا ہے ، اب ان کے لئے گورنر ہائوس کے دروازے کھل جائیں گے ، اور سندھ کی سیاست میں مسلم لیگ ن کا کردار اب حقیقی معنوں میں شروع ہوگا ۔ کیونکہ اس سے قبل سندھ میں مسلم لیگ ن کا واضح کردار نہیں تھا ، جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی محاذ آرائی سے گریز کریں گے ، مسلم لیگ ن کے گورنر ہونے کی حیثیت سے اب کراچی میں لیگی کارکنان میں ایک جوش و خروش پیدا ہو چکا ہے اور انھوں نے کافی توقعات وابستہ کرلی ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے نئے گورنر کے ساتھ چلنا فی الوقت کافی صبر آزما ہوگا ۔ لیکن اختیارات کا منبع چونکہ وزیر اعلی ہوتا ہے اس لئے انھیں گورنر سے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا ۔تاہم سندھ کی صوبائی سیاسی صورتحال میں بتدریج تبدیلی واقع ہوگی ۔ ایم کیو ایم پاکستان ، لندن اور پی ایس پی کیلئے اب گورنر کارڈ کھیلنا ختم ہوگیاہے۔ سندھ میں اب ایک سیاسی دور شروع ہوگا۔
تبصرہ لکھیے