Blog

  • دلیل کا دلیل سے آغاز – زبیر منصوری

    دلیل کا دلیل سے آغاز – زبیر منصوری

    13495272_10209334159298801_2216135318695331631_nدلیل نے آغاز تو دلیل سے کیا ہے اور خوب کیا ہے
    اور کہتے ہیں اچھا آغاز آدھی کامیابی ہوتا ہے
    (Good start half done )
    “دلیل “خوب صورت اور خوب سیرت تو ہے ہی، اسے لے کر چلنے والے بھی پر عزم دکھائی دیتے ہیں
    “دلیل “کی ٹیم دیر تک اور دوووور تک چلنے کا عزم رکھتی ہے
    “دلیل “سے بات کرنا اور دلیل سے کی گئی بات سننا چاہتی ہے
    میرا مشورہ ہے
    اگر ہاتھ کی بورڈ پر لفظ ‘چن لیتے ہیں
    اگر دماغ میں کوئی خیال بہت زور سے کلبلاتا ہے
    اگر کوئی نئی دلیل
    کوئی نیا خیال
    کوئی نیا ڈیٹا
    ذہن اور کمپیوٹر کی دسترس میں ہے
    کوئی نیا اوراچھوتا اسلوب تحریر اندر مچلتا ہے
    اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے لفظ پھیلیں، بیسییوں سے بیسیوں ہزاروں تک پہنچیں
    اور ہاں اگر آپ باوقار رہتے ہوئے، ذاتیات کے دائروں سے خود کوآزاد رکھتے ہوئے معقولیت کی زبان میں
    لکھ سکتے ہیں تو “دلیل “یقیننا بہت اہم پلیٹ فارم ہے
    اور یہ بہت تھوڑے دنوں کی بات ہے “دلیل “میں لکھنا باوقار لکھاری ہونے کی دلیل بن جائے گا
    لکھیے لوگ ہمہ تن گوش ہیں

  • کبھی ملازم کی پلیٹ میں کھانا  کھایا؟ ابوبکر قدوسی

    کبھی ملازم کی پلیٹ میں کھانا کھایا؟ ابوبکر قدوسی

    13343153_1139281389464517_4639609068427595420_nوہ ہمارا دوست ہے، ڈیفنس کا رہائشی، ممکن ہے ارب پتی رہا ہو وگرنہ بہت امیر تو ہے. مسجد میں اعتکاف بیٹھ گیا. میں آج تراویح کی نماز کے بعد “مرکز” کے دفتر میں داخل ہوا تو ماحول یخ بستہ تھا. میز پر ایک “پرات” پڑی ہوئی تھی، بات چیت چل رہی تھی، باتوں کے بیچ میں سب گاہے ہاتھ بڑھاتے ، ایک آدھ لقمہ چاول کا لے لیتے. منظر کا روشن پہلو وہ بچہ تھا جو ٹوپی پہنے اعتماد کے ساتھ چاول کھا رہا تھا. میں ہنس دیا کہ کیا اعتماد اور بے تکلفی ہے..
    “کس کا بچہ ہے؟”
    اس کا باپ بول اٹھا. کل ہی جو مجھے بتا رہا تھا کہ محلے میں ایک کونے پر سبزی لگاتا ہوں آج کل. اور آج اس کا بیٹا ارب پتی کی پلیٹ میں گھسا بیٹھا تھا. یہ برابری اسلام کا اعجاز ہے.
    اس سے اگلے روز لاہور کی جوتے کی سب سے بڑی “چین” کا مالک اسی مرکز میں نماز پڑھ رہا تھا، ساتھ میں ممکن ہے کوئی “کھوتی ریڑھی” والا کھڑا ہو.
    تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
    سگنل پر برابر میں ایک”ایم پی اے” صاحب کی گاڑی رکی، مولوی صاحب ممبر اسمبلی تھے. میں نے شیشہ نیچے کیا، متوجہ کیا اور کہا
    “آپ ڈرائیور کے برابر کیوں نہیں بیٹھے ؟ پیچھے بیٹھے ہیں. یہی غرور ہے” بھلے آدمی تھے فورا مان گئے کہ ہاں غلط ہے
    اسامہ موعود کبھی پنجاب کے چیف سیکرٹری تھے. پکے مذھبی آدمی. اک روز میرے پاس اس طرح آئے کہ افسرانہ غرور اور تکبر کے برعکس ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.
    میں اپنی بات نہیں کرتا لیکن دوپہر کا کھانا اپنے ملازموں کے ساتھ ایک ہی برتن میں ان سے مل کے کھاتا ہوں. اس سے میرا ایمان جاتا ہے نہ میرا رتبہ کم ہوتا ہے.
    اگلے روز قاضی عبدالقدیر خاموش تشریف لائے. ان کی موجودگی میں ہی “مولوی شریف” آ گیا، محکمہ اوقاف کا باورچی، بے انتہا نیک. قاضی صاحب نے اسے برابر ہی نہ بٹھایا بلکہ کچھ کتب بھی پیش کیں. برابری سے مل رہے تھے، ساتھ بیٹھے تھا. کہاں کا غرور ؟
    ہاں ہم “ملاؤں ” نے یہ سب اپنے نبی ﷺ کے اسوۂ سے سیکھا. لیکن حضور آپ؟؟؟
    جی ہاں محترم لبرل ازم کے ماموں حضور… جتنے یہ لبرل دانشور ہیں… جو ٹی وی پر اپنی دانش بگھارتے ہیں .. انسانی حقوق کے لقمے “حلال” کرتے ہیں.
    آپ کبھی اپنے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ؟
    کبھی اس کی پلیٹ میں کھانا کھایا؟
    حہھھھھھہ کھانا؟ آپ کو فوڈ پوائزننگ ہو جائے گی یار.
    ان کے کسی “استادی” سے پوچھیں کہ جتنے انسانی حقوق والے آپ نے اپنے اردگرد اکٹھے کیے ہوئے ہیں، ان کو کہیں کہ کبھی اپنے ملازم کو بھی ساتھ میں فائیو سٹار ہوٹل میں ساتھ بٹھا کے کھلا کے دکھائیں، کبھی اس کی پلیٹ میں کھائیں، سانس اکھڑ جائے گی، روشن خیالی ابکائیاں لینے لگے گی اور …. قامت کی درازی کا سب بھرم کھل جائے گا..
    اس ماحول میں کتنی منافقت ہے اس سے اندازہ کریں کہ ایک بار میں سفر میں تھا، راستے میں بھوربن آتا تھا. ہمارے ساتھ ایک غریب آدمی تھے جن کا نام لکھنا مناسب نہیں. ان کے کندھے پر سرخ رومال دھرا تھا. ہم پرل کانٹینٹل میں رک گئے. لابی میں بیٹھے تھےکہ ایک آفیسر آیا اور ان صاحب کو کہنے لگا کہ رومال کو کندھے سے اتار کے ہاتھ میں پکڑ لیں. اپنا دماغ ایک دم سے فیوز ہو گیا. میں نے کہا کہ اس کے بوسیدہ رومال سے تمہارا ماحول متاثر ہوتا ہے لیکن ابھی کوئی حیا باختہ نیم برہنہ آ نکلے تو تمہارا ماحول خراب نہیں ہوگا. بہت سنائیں تو معذرت کرنے لگا ..
    یہ صرف ایک پہلو ہے. ورنہ منافقت کے بیسیوں رنگ ہیں….آزادی نسواں…انسانی حقوق ..چائلڈ لیبر…سب جھوٹے ڈرامے ہیں جو میڈیا پر چلتے اور تحریروں میں پلتے ہیں لیکن گھروں میں ان کے بھی غلام بچے ہی پائے جاتے ہیں. ورنہ ان سے پوچھیے کہ ان کے گھر میں “پوچا” ہیلری کلنٹن آ کے لگاتی ہے ؟ جناب وہی لوکل غلام بچے جن کی تنخواہ بیگم صاحبہ پانچ ہزار دیتی ہیں اور رات کو ٹاک شو میں مولوی کو ان کے حقوق کا غاصب گردانتی ہیں، اور بیک گراؤنڈ میں میوزک چلتا ہے، منافقت زندہ باد

  • نکاح ، اسلام اور لبرلزم – عباس غفاری

    نکاح ، اسلام اور لبرلزم – عباس غفاری

    Untitled-1 copyیہ فطرت کا تقاضا ہے کہ معاشرے اور فرد کے درمیان ایک ایسا متوازن تعلق ہو کہ جس میں نہ معاشرے کی حق تلفی ہوتی ہو اور نہ فرد کی، بلکہ دونوں کو اپنے حقوق بھی یکساں طور پر ملیں اور نظام زندگی بھی جاری و ساری رہے۔ اس تعلق کو قائم کرنے کے لیے مختلف لوگوں نے مختلف نظریات وضع کیے۔ لیکن جو بھی نظریہ سامنے آیا، وہ اس وقت کی کسی ضرورت کو سامنے رکھ کر وضع کیا گیا۔ اس لیے وہ نظریہ فی الوقت اس ضرورت کو پورا تو کر دیتا ہے لیکن آگے جا کر وہ خود کئی ایسے ضرورتوں کو جنم دیتا ہے جو کئی دوسرے نظریات کی متقاضی ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس اسلام کے نظریہ کو لیجیے جو ایک ایسی ذات کی طرف سے ہمیں سکھایا گیا جو پہلے سے انسا ن اور معاشرے کی ضروریات جانتی ہے اور جس کا علم انسان کی طرح محدود نہیں ہے لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ وہ ذات ہمارے لیےکامل علم کی بنیاد پر جو نظام اور جو نظریہ پسند کرے گی، وہی لازما ٹھیک ہوگا اور اسی سے تمام انسانی مسائل کا حل ہوگا۔
    لبرلزم یا نظریہ حریت شخصی نکاح کو انسان پر بلاوجہ ایک قید اور ایک پابندی سمجھتا ہے۔ یہ انسان کی جنسی ضرورت کو بھوک اور آرام جیسی ضرورتوں کے مشابہ قرار دیتا ہے کہ جس طرح کوئی انسان جو چاہے کھا اور پی سکتا ہے یا جہاں ، جب اور جیسے چاہے اپنی تھکاوٹ دور کرسکتا ہے ، ویسے ہی وہ اپنی جنسی ضرورت بھی پوری کرسکتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق مرد و عورت کا کسی ایک فرد تک محدود ہونا دونوں کی حق تلفی ہے اور نکاح اس حق تلفی کا سبب ہے۔ لہٰذا اس نظریے کی ضرب دوسری اخلاقی اقدار کی طرح نکاح پر بھی پڑتی ہے۔ اسلامی نظام زندگی میں معاشرے کی ابتداء خاندان سے ہوتی ہے۔ مرد اور عورت جب نکاح کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو وہ شوہر بیوی قرار پاتے ہیں۔ جب ان دو وجود کے ملاپ سے تیسرا وجود پیدا ہوتا ہے تو اولاد اور والدین کا رشتہ جنم لیتا ہے۔ اب وہ ماں اور باپ بھی ہوتے ہیں۔ اسی سے بہن ، بھائی، دادا، دادی، نانا، نانی اور کئی دیگر رشتے جنم لیتے ہیں. یہ رشتے ایک دوسر ے کے لیے تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے برعکس جب لبرلزم نکاح کو بیچ سے ہٹا دیتا ہے تو پھر کسی شوہر اور بیوی کے رشتے کا وجود باقی رہتا ہے نہ ماں باپ کا احترام اور بہن بھائی سے انسیت۔ ایک مرد اور ایک عورت ہی باقی رہتے ہیں جو صرف او ر صرف ایک دوسرے کی ضرورت پورا کرنے کے ایک آلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
    ایسے میں مرد کے لیے تو کوئی مشکل نہیں ہوتی کیونکہ اس کی فطرت غالب ہوتی ہے اور وہ مضبوط اور قوی ہوتا ہے لیکن عورت کے لیے ایسی صورتحال اس کی زندگی کو جہنم بنا دیتی ہے. اس کی حیثیت روزمرہ استعمال کے اشیاء جیسی ہوجاتی ہے کہ جب ضرورت ہوئی تو استعمال میں لایا اور جب ضرورت ہوئی پھینک دیا۔ اپنی مغلوب فطرت اور کمزور جسمانی ساخت کی وجہ سے وہ اپنے دفاع کے بھی قابل نہیں ہوتی اور معاشرے میں موجود مزید درندوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے کیونکہ ایسے معاشرے میں زنا بالجبر کو بھی کسی چوری کی طرح مانا جاتا ہے کہ جس طرح ایک بھوکا اپنی ضرورت کے لیے چوری کرتا ہے، اسی طرح جنسی لذت کا بھوکا اپنی شہوانی ضرورت کے لیے زنا بالجبر کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ جو لا لیون ری پبلکن کا ایڈیٹر اس سوال پر بحث کرتے ہوئے کہ زنا بالجبر آخر کیوں جرم ہے؟ لکھتا ہے کہ ” جس طرح چوری عموما بھوک کی شد ت کا نتیجہ ہوتی ہے اسی طرح وہ چیز جس کا نتیجہ زنا بالجبر اور بسا اوقات قتل ہے، اس ضرورت کے شدید تقاضے سے واقع ہوتی ہے جو بھوک اور پیاس سے کچھ کم طبعی نہیں ہے۔۔۔” (بحوالہ کتا ب پردہ از مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی ) ۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں اگر لبرلزم عورت کے وجود کے گندا ہونے اور جنسی لذت کو گناہ سمجھنے جیسے مسیحی تصور کے خاتمے کے لیے آیا تھا تو موجودہ زمانے میں یہ ان آوارہ اور ہوس پرست لوگو ں کا نعرہ ہے جو معزز گھرانوں کی معزز بہنوں اور بیٹیوں تک رسائی چاہتے ہیں۔
    اسی پر بس نہیں ہے بلکہ جب ایک ایسے معاشرے میں یہی مرد اور عورت بوڑھے ہوجاتےہیں اور انکو ایک دوسرے کی ضرورت باقی نہیں رہتی تو انکا ٹھکانہ اولڈ ہاوسز جیسے ادارے ہوجاتے ہیں کہ جہاں وہ صرف موت کے انتظار میں جیتے ہیں ۔ اسکے برعکس ایک اسلامی معاشرے میں ایک فرد کی عمر جتنی بڑھتی جاتی ہے اتنا ہی لوگ اسکی عزت و احترام کرتے ہیں۔
    حقیقت یہ ہے کہ لبرلزم اگر ایک طرف فرد کی معاشرے پر بالادستی اور معاشرے کی حق تلفی کا نام ہے تو دوسری طرف عورت کی طرف پھینکے گئے ایک ایسے جال کی مانند ہےکہ جس میں پھنسنے والے شکار کی چیرپھاڑ کے خونخوار درندے منتظر ہیں۔

  • ہم نے رمضان المبارک سے کیا حاصل کیا؟ عدیل آزاد

    ہم نے رمضان المبارک سے کیا حاصل کیا؟ عدیل آزاد

    عدیل آزادماہ رمضان اپنی مدت کے اختتام کی جانب رواں دواں ہے ۔ گویا کے آپ نے اور میں نے جو یہ تربیتی عرصہ گزارا ہے اور جو تربیت حاصل کی ہے، اب اس کو پرکھنے کے دن قریب آ رہے ہیں کہ ہمارے دشمن (شیطان) کو قید سے رہا کر دیا جائے گا۔
    ایک جانب شیطان اپنے لاؤ لشکر اور تمام ہتھکنڈوں سے لیس ایک بار پھر میدان عمل میں موجود ہوگا تو دوسری جانب میرا اور آپ کا امتحان ہوگا کہ ہم ماہ رمضان سے حاصل کی گئی اس تربیت کو بروئے کار لا کر اس کا مقابلہ کرتے ہیں؟
    کیا آپ نے اور میں نے اس رمضان میں اپنا تعلق قران سے اتنا مضبوط استوار کرلیا ہے کہ ہم عید کے دن سے جبکہ شیطان ہمارے مقابل ہوگا، اس کو شکست دیتے ہوئے اللہ کی کبریائی کا اظہار کرسکیں گے؟ آپ اس فوج کے بارے میں کیا رائے رکھیں گے جسے ایک پورا مہینہ دشمن سے مقابلے کی زبردست تیاری کرائی جائے، جنگ کے ہر زاویے، ہر پہلو پر نہ صرف مکمل رہنمائی فراہم کی جائے بلکہ ہر طرح کے حالات سے نبرد آزما ہونے کی عملی تربیت فراہم کی جائے لیکن جنگ شروع ہوتے ہی وہ فوج عین میدان جنگ میں ہتھیار ڈال دے ؟
    کیا یہ دن بھر کے روزے اور رات کا قیام ، حرام تو حرام حلال سے بھی رکے رہنا ، اپنی نگاہ ، زبان اور ہاتھ کو قابو میں رکھنا ، خدا کی راہ میں اپنا پسندیدہ مال خرچ کرنا ، کیا یہ سب تربیت ہماری شخصیت میں کوئی تبدیلی لائی ہے ؟ کیا اس تبدیلی کا اظہار رمضان کے بعد آنے والے دنوں میں ہمارے طرز عمل سے ہو پائے گا ؟
    کیا پھر عید کے دن سے ہی مساجد میں گنتی کے نمازی رہ جائیں گے ؟ کیا پھر پورا مہینہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرنا اگلے رمضان میں ہی نصیب ہوگا ؟ کیا پھر قرآن سے تعلق جوڑنے کے لیے اگلے رمضان کا انتظار کرنا ہوگا ؟
    کسی نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ مجھے کیسے معلوم ہو کہ میرے رمضان کے روزے اللہ کے ہاں قبول ہوگئے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ دو باتوں سے اس کا علم ہوسکتاہے۔ ایک یہ کہ اگر تم رمضان میں تمام چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہوں سے بچتے رہے ہو اور رمضان کے بعد بھی یہ عمل جاری ہے اور دوسری یہ فکر یا احساس رہے کہ میری ایک ماہ کی محنت رائیگاں نہ چلی جائے تو سمجھ لینا تمھارے رمضان کے روزے قبول ہوگئے ہیں۔
    نبی مہربان ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ
    ’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ انھیں ان کے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے راتوں کو قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ ان کو قیام کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا مگر رتجگا۔‘

    اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس رمضان میں حاصل کی گئی تربیت کو اگلے 11 ماہ استعمال کی توفیق عطا فرمائے اور اسے آخرت میں ہماری نجات کا ذریعہ بنا دے. آمین۔

  • رمضان، عید اور نیکیاں. عبداللہ غازی

    رمضان، عید اور نیکیاں. عبداللہ غازی

    13578616_1058101190923068_437382158_n رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی نیکیوں میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ فرائض کے علاوہ نوافل کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ زکوٰ ۃ ادا کرنے کے لیے بھی رمضان المبارک کا انتخاب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نفلی صدقہ خیرات بھی کثرت سے کیے جاتے ہیں۔ الغرض ، نیکیوں کا موسمِ بہار آ جاتا ہے۔ میں نے اس سال چند ایسے واقعات دیکھے جن سے دل خوش ہوگیا اور یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ ہمارے معاشر ے میں اب بھی خیر خواہی اور اخوت کے جذبات موجود ہیں۔ ایک مسجد میں کوئی شخص روزانہ دیگیں پکوا کر افطاری سے پہلے غریبوں میں تقسیم کرتا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ ضرورت مندوں کو کھینچ کھینچ کر اپنے دسترخوان پر لا بٹھاتے کہ ہمارے پاس افطاری کر جاؤ۔ ایک پٹرول پمپ پر لکھا ہوا تھا “افطاری ہمارے پاس کیجیے۔”
    ان نیک کاموں کے لیے بہت زیادہ مال و دولت کا ہونا بھی ضروری نہیں۔ ہر شخص اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اپنا مال و دولت اللہ کی راہ میں خرچ کر سکتا ہے۔ ایک مزدور اپنی پرانی سائیکل پر گزر رہا تھا کہ ایک موٹر سائیکل سوار اس کے پاس رکا۔ اس نے اپنے پاس موجود ایک چھوٹا سا افطاری کا پیکٹ ( جو کہ غالباً ایک جوس کے ڈبے اور چند کھجوروں پر مشتمل ہوگا) اسے تھمایا اور آگے بڑھ گیا۔ کچھ نوجوانوں نے ایک جگہ ٹھنڈے مشروب کا ایک دیگچہ بنایا۔ افطاری کا وقت ہوا تو یہ نوجوان، مسافروں کے لیے مشروب کے گلاس پیش کرنے کے لیے آدھی آدھی سڑک تک جاتے اور ان کی پیاس بجھاتے ۔ ضروری نہیں کہ افطاری صرف غریبوں کو کروائی جائے۔ افطاری کی چیز یں امیر لوگوں کو بھی بھیجی جاسکتی ہیں۔ افطار ی ان لوگوں کو بھی دی جاسکتی ہے جو اپنے گھر سے دور ہوں۔افطاری کے وقت پولیس چوکی پر ایک گاڑی رکی اور انہیں افطاری کے لیے ایک ڈبہ دے کر آگے بڑھ گئی۔ یہ تو چند مثالیں ہیں جو ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کتنے ہی اور لوگ ایسے موجود ہوں گے جو اپنی اپنی بساط کے مطابق یہ نیک کام سرانجام دیتے ہیں۔
    یہ سب خرچ کرنے والے لوگ خوش نصیب ہیں کہ اللہ نے انہیں خرچ کرنے کی توفیق بخشی ہے۔تجربہ شاہد ہے کہ انسان میں مال کی شدید محبت پائی جاتی ہے۔ اپنا مال دوسروں پر خرچ کرنا جہاں ایک طرف خدا کی رضامندی کا باعث ہے،وہاں دوسری طرف خلقِ خدا کی خدمت کی وجہ سے دل کے سکون کا باعث بھی ہے۔ یقینا ً ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ہمارا معاشرہ چل رہا ہے۔ جب میں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو دل سے دعا نکلتی ہے کہ خدا یہ سلسلہ جاری و ساری رکھے اور مجھے بھی اس طرح مال دولت دے اور پھر اسے تقسیم کرنے کی توفیق بھی عطا کرے۔ حدیث کا مفہوم ہے: حسد دو شخصوں کے علاوہ کسی اور سے جائز نہیں۔ (ایک) وہ شخص جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہو اور اسے نیک کاموں میں خرچ کرنے پر لگا دیا ہو۔ (دوسرا) وہ شخص جسے اللہ نے علم وحکمت کی دولت دی ہو اور وہ اس سے فیصلے کرتا ہو اور اسے ( دوسروں کو) سکھاتا ہو۔ (بخاری: 1409)
    رمضان اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ عید کی خوشیاں ہمارے لیے اللہ کی طرف سے تحفہ ہیں۔ رمضان میں ہم نے بہت سے اچھے کاموں کی عادت بنا لی تھی۔ نیکی صرف رمضان تک محدود نہیں ۔ نیکی تو مسلمان کا ایک طرزِعمل ہے جو رمضان کے بعد بھی ساری زندگی جاری رہنا چاہیے۔ رمضان ختم ہونے کے بعد بھی اپنے انہی نیک کاموں کو جاری رکھیں۔ اگر وقت نکالنا مشکل ہے تو وقت بدل کر اپنی فراغت کے وقت میں یہ نیک کام سرانجام دیں۔ اگر آپ صرف رمضان میں خرچ کرنے کے لیے مال و دولت کا ایک حصہ الگ کرتے ہیں اور رمضان کے علاوہ آپ کے پاس اتنے زائد پیسے نہیں ہوتے کہ بڑے پیمانے پر خرچ کرسکیں۔ تو سوچ بچار کرکے کوئی ایسی صورت نکالیں کہ آپ چھوٹے پیمانے پر خرچ کر سکیں، لیکن یہ خرچ کرنا جاری رکھیں۔ ہم یہ نیکیاں جاری رکھ کر رمضان المبارک کی یہ برکتیں عید کے بعد بھی سمیٹ سکتے ہیں۔ یہی نیکیاں ہمارے اسلامی معاشرے کی خصوصیات ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کو ایسے اعمال سب سے زیادہ پسند ہیں جو مسلسل کیے جاتے رہیں، اگرچہ وہ مقدار میں تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں۔ (بخاری:6464) اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔

  • گَیسِنگ گیم، ایک خوبصورت کہانی . حنا نرجس

    گَیسِنگ گیم، ایک خوبصورت کہانی . حنا نرجس

    اور جب اس نے تیسرا موقع بھی کھو دیا تو ریّان کے لبوں سے نکلنے والی ہنسی بے ساختہ تھی.
    “یہ تھے… قاری… سعد الغامدی…”saad-el-ghamidi
    ڈرامائی انداز اختیار کرتے ہوئے آگاہ کیا گیا.
    “اوہ، مجھے ایک بار لگا بھی تھا، پھر بھی میں نے قاری صلاح البدیر کا نام لے دیا.”
    “چلیں آپ کو ایک موقع اور دیتا ہوں، آپ بھی کیا یاد کریں گی. میں سی ڈی لگاتا ہوں، آپ تین منٹ تک غور سے سنیں اور بوجھیں.”
    وہ ہمہ تن گوش ہو گئی اور پہلے ہی منٹ میں بوجھ بھی لیا. “جناب یہ ہیں قاری مشاری راشد العفاسی.”
    اس بار فتح کی جھلک عائشہ کے لہجے میں تھی. “پانچ میں سے صرف ایک بار جیتی ہیں. آپ. مان لیں ممّا، اب میرا علم آپ سے زیادہ ہو گیا ہے.”
    ہاں ممّا، اب تو اکثر بھائی کا ہی پلڑا بھاری رہتا ہے.” جویریہ بھی ریّان کی ہمنوا تھی.
    mishary-rashid-alafasy

    تیرہ سالہ ریان اب پہلے سے زیادہ پر اعتماد تھا. مختلف قُرّا کی تلاوت سننا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا. وہ ان کے مسحور کن لب و لہجے کے اتار چڑھاؤ میں کھو سا جاتا اور پھر اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اسی لب و لہجے میں الفاظ اس کی اپنی زبان سے جاری ہو جاتے کیونکہ زبان کانوں کی بہترین مطیع ہے.
    سوچوں کا سفر عائشہ کو سات سال پیچھے لے گیا جب ریّان پہلی جماعت کا طالب علم تھا جبکہ جویریہ پریپ میں تھی. خالد کام کے سلسلے میں اکثر شہر سے باہر رہتے. وہ بھی ایک عام سی رات تھی. خالد چند روز کے لیے کراچی گئے ہوئے تھے. وہ حسب معمول سب کام سمیٹ کر بچوں کو لیے بستر پر آ گئی تھی اور سونے سے پہلے تلاوت کا کیسٹ لگا لیا تھا. اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر جویریہ شرارت سے بولی تھی،
    “مما، ابو کو یاد کر کے مسکرا رہی ہیں نا؟”
    وہ جھینپ گئی، “نہیں بیٹا”
    ” پھر کیوں مما؟ کوئی بات یاد آ گئی ہے کیا؟” اب کے سوال ریان کی طرف سے تھا.jnat-600x372
    “بیٹا، دراصل جنت کے انعامات کا ذکر تھا وہ سن کر میں مسکرا دی تھی.”
    “اچھا تو تلاوت والے قاری صاحب جنت کی باتیں بتا رہے ہیں؟”
    “ہاں بیٹا” اس نے دونوں بچوں کو اپنے ساتھ لپٹا لیا.
    تھوڑی ہی دیر میں دوزخ اور عذابِ الیم کا ذکر شروع ہو گیا.
    جویریہ نے فوراً اس کی کیفیت محسوس کر لی.
    “مما، آپ رو رہی ہیں نا؟”
    یہ سن کر ریان بھی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا. اسے وضاحت دینا پڑی. ریان نے اپنے نرم ہاتھوں سے اس کی آنکھیں صاف کیں.
    دونوں بچوں کے چہروں پر سوچ کی پرچھائیاں دیکھ کر اسے پہلی بار احساس ہوا کہ بچوں کو بھی اپنے شوق میں شریک کر لینا چاہیے. پھر روزانہ یہ ہوتا کہ وہ کیسٹ پلیئر کو روک کر بچوں کو آسان الفاظ میں آیات کا مفہوم اردو میں سمجھاتی اور پھر دوبارہ پیچھے سے کیسٹ چلا دیتی. یوں بچے بساط بھر سمجھنے اور تاثیر جذب کرنے کی کوشش کرتے. اب وہ بہت سے قاریوں کے انداز پہچاننے لگے تھے.
    عائشہ مختلف قاریوں کی آواز میں تلاوت سنوا کر قاری صاحب کا نام بُوجھنے کو کہتی. اس طرح ان کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی. اور عائشہ کو ان کے ساتھ یہ گَیسِنگ گیم کھیلنے میں بہت مزا آتا. کیسٹس کا ذخیرہ وسیع ہو گیا تھا. پھر گھر میں کمپیوٹر آ گیا تو وہ سی ڈیز جمع کرنے لگی. اب اس سے زیادہ ریان اور جویریہ کو شوق ہوتا. وہ ناظرہ قرآن مکمل کر چکے تھے اور تکمیل پر آسان زبان میں لکھے دو رنگ والے مترجم قرآن بطورِ تحفہ پا کر بہت خوش تھے. مختلف سی ڈیز لگاتے اور کبھی ایک دوسرے کے ساتھ اور کبھی عائشہ کے ساتھ کھیلتے. اب تو آیات کا ترجمہ بوجھنے کا بھی مقابلہ ہوتا.
    اسے یاد تھا انہی دنوں سہیلیوں کی محفل میں سوال اٹھایا گیا کہ آپ کی اپنے بچوں کے حوالے سے سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟
    ایک بھی لمحہ ضائع کیے بنا پورے انشراحِ صدر کے ساتھ اس کا جواب تھا،
    IMG13140060“قرآن کے ساتھ ان کے گہرے قلبی و عملی تعلق کو استوار ہوتے دیکھنا.”
    اور اس خواہش کی تکمیل میں وہ پوری لگن سے مصروفِ عمل تھی.

    وقت کچھ اور آگے سرک آیا تھا. خبر ہی نہ ہوئی کب کل کے بچے کالج کے سٹوڈنٹس بن گئے تھے. ریان کا رجحان کمپیوٹر سائنس کی طرف جبکہ جویریہ کی دلچسپی میڈیکل میں تھی. ان کے مشترکہ شوق کے لیے اب کیسٹس اور سی ڈیز کی بجائے لیپ ٹاپ اور سیل فونز استعمال ہوتے. انٹرنیٹ پر بھی سننے اور ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت کے ساتھ وسیع ذخیرہ موجود تھا. اکثر بچوں کی ہی ڈاؤن لوڈ کی ہوئی تلاوت بلیو ٹوتھ کے ذریعے وہ اپنے فون میں منتقل کرتی.
    گَیسِنگ گیم بھی اب مشکل مرحلے میں داخل ہو چکی تھی. وہ اللہ کی بے پناہ شکر گزار ہوتی کہ بچے موسیقی اور دوسری لغویات سے بچے ہوئے ہیں اور انکی سماعت و
    بصارت، جو حواسِ خمسہ میں سے اہم ترین ہیں، کسی برائی کے داخلی دروازے نہیں بنے ہوئے. وقت کا کام چلتے رہنا ہے اور اب تو گیسنگ گیم ایک بالکل ہی نئے مرحلے میں داخل ہو گئی تھی. اس کی نوعیت بالکل ہی بدل چکی تھی.
    مخصوص انداز میں داخلی دروازہ کھلنے کی آواز پر عائشہ نے کچن سے ہی آواز لگائی،
    “ریان، آپ کو یونیورسٹی سے دیر ہو رہی ہے، جویریہ کو بھی چھوڑنا ہے، جلدی سے ناشتہ کر لو، آپ کا پسندیدہ آملیٹ بنا ہے.”
    “کرتا ہوں، مما. پہلے یہ سن کر بتائیں کہ آج میں نے نماز فجر کی امامت کن کے انداز میں کروائی ہے؟” یہ کہتے ہی وہ سیل فون میں ریکارڈنگ چلا کر فون کو اوون کے اوپر رکھ چکا تھا. اس نے سنتے ہی پہلا اندازہ لگایا،
    “الشیخ صدیق المنشاوی”Mohamed-Siddiq-Al-Minshawi2
    “نہیں” ریان کے لبوں پر شرارت مچل رہی تھی.
    “ایک منٹ ٹھہرو، میرا خیال ہے یہ ہیں، قاری عبداللہ مطرود”
    “نہیں میری پیاری ماں… اور آپ کو پتہ بھی کیسے چلے گا، آپ نے تو ان کو سنا ہی نہیں ہوا. یہ تھا پاکستانی قاری عبد الباسط المنشاوی کا انداز. آپ ان کی اوریجنل سنیے گا آج لیپ ٹاپ میں سے اور مجھے بتائیے گا کہ میں نے کیسی نقل کی.” ریان بارہ سے زائد قُرَّا کی بہترین طریقے سے نقل کرتا کہ اصل کا گمان ہوتا.

    رمضان المبارک کا مہینہ اپنے دامن میں رحمتیں لیے سایہ فگن ہو گیا تھا.
    “مما، آج میرے ساتھ چلیں. آپ کے پسندیدہ ترین قاری صاحب کے انداز میں امامت کراؤں گا نمازِ تراویح کی. آخری پانچ سپارے یاد ہیں اب مجھے.”
    اور دورانِ نماز شکر کے آنسوؤں کی جھڑی تھی کہ تھمنے میں نہیں آ رہی تھی. ساتھ کھڑی جویریہ کی حالت بھی کم و بیش یہی تھی. الشیخ ماہر المعیقلی کا انداز تھا. بند آنکھوں کے ساتھ یوں لگ رہا تھا جیسے بیت اللہ میں ان کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں.
    898bcebac09c4efbce106369c8a0f47f
    ڈیفنس کی ایک مسجد میں وہ روزانہ فجر، مغرب اور عشاء کی امامت کراتا اور ظہر و عصر کی نماز یونیورسٹی کی مسجد میں پڑھاتا. نمازی اس کی بہت تعریف کرتے، بے حد
    محبت کرتے اور اپنے بچوں کو اس کی مثالیں دیتے. اللہ تعالٰی نے اسے تواضع، عجز و انکساری اور شکر گزاری کی صفات سے بھی مالا مال کیا تھا.
    آخری عشرہ چل رہا تھا. قیام اللیل کے بعد سحری کے وقت ان کی گھر واپسی ہوئی جبکہ ریان کسی دوسری مسجد سے آیا تھا اور اس کی بے چینی بتا رہی تھی کہ وہ کچھ بتانے کے لیے بے تاب ہے. سحری کا کھانا کھاتے ہی عائشہ کو برتن بھی نہ اٹھانے دیے.
    “مما، آج آپ کا خاص امتحان ہے. سنیں اور بتائیں، میں نے صلوۃ الوتر میں دعا کن کے انداز میں کروائی ہے؟”
    اس نے بولنے سے پہلے ذہن میں اندازے لگانے کی کوشش کی. الشیخ سعود الشریم،
    نہیں وہ نہیں لگ رہے. مگر یہ الشیخ عبد الرحمن السديس بھی نہیں ہیں، شاید قاری احمد العجمى ہیں. Un-Known Facts about Imam Abdur Rahman Al-Sudais
    “ریان، میں نے بُوجھ لیا، یہ انداز ہے قاری احمد العجمى کا.”
    “نہیں” وہ مسکرایا.
    “قاری داؤد حمزہ”
    “وہ بھی نہیں”
    “قاری احمد الحذیفی”
    “ایک بار پھر نہیں… میری پیاری مما… یہ انداز ہے الشیخ محمد جبریل کا!”
    ہنستے ہوئے اس نے سر عائشہ کی گود میں رکھ لیا اور ہاتھ تھام کر بولا، “مما، آپ ایک ہی بار اپنی ہار مان کیوں نہیں لیتیں؟ اب تو اکثر آپ درست بُوجھ نہیں پاتیں. میں آپ کا شوق آپ ہی سے چرا کر آپ سے آگے نکل آیا ہوں اور آپ…
    آپ… ہار گئی ہیں!!!”
    شرارت اس کی آنکھوں سے مترشح تھی. نماز فجر کے لیے وضو کی غرض سے آستینیں اوپر کرتا ہوا وہ واش بیسن کی طرف بڑھ گیا. اندر گہرائی تک پھیلتے طمانیت کے احساس کے تحت عائشہ نے آنکھیں موند لیں. صراطِ مستقیم پر تا حدّ نگاہ نیکی و ہدایت کے جگنو روشن تھے. کلمہ شکر بجا لاتے لبوں پر پھیلی مسکراہٹ گواہ تھی کہ وہ ہاری بہرحال نہیں ہے!!!

  • اوریا صاحب آپ جیت چکے ہیں! رضوان الرحمن رضی

    اوریا صاحب آپ جیت چکے ہیں! رضوان الرحمن رضی

    11987158_1015569631828227_2469661962038679454_nشخصیات پر بحث عام ذہنوں کا کام ہے۔ یہ انگریزی مقولہ ہم نے لڑکپن میں انگریزی ادب کی کتاب میں کیا پڑھا کہ ہم عمر بھر ان نابغہ روزگار شخصیات کے اعتراف میں دو جملے بھی نہ لکھ پائے۔ جنہوں نے ملک و قوم کی اجتماعی سوچ اور فکر کو ہمارے تعیں مہمیز دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس بات کا اعتراف برمحل ہو گا کہ ڈاکٹر احمد جاوید سے لے کر اوریا مقبول جان تک کتنی ہی ایسی زندہ و جاوید شخصیات ہیں کہ جن کے خیالات عالیہ نے بہت سے لوگوں کی فکر و نظر کو ایک نئی راہ سجھائی۔ لیکن ہم نے اپنی کم ظرفی اور بعض موضوعات پر ان سے نظریاتی اختلاف کے باعث ان کی شخصیات پر قلم اٹھانے میں احتراز برتا۔ اب چوں کہ اوریا صاحب نے ہمارا سب سے بڑا اعتراض دور کر دیا ہے۔ یعنی سرکار کی نوکری سے فراغت ہو گئی ہے اس لئے ہم ان کے ساتھ کھڑا ہونے کی جسارت کر رہے ہیں۔
    گذشتہ کچھ دنوں سے جس طرح ہمارے نام نہاد سیکولر اور ترقی پسند حضرات جس طرح اکٹھ بنا کر محترم اوریا مقبول جان پر ٹوٹ پڑے ہیں ہمیں اپنی غیر جانبداری پر شرمندگی ہو رہی ہے۔ نام نہاد سیکولر اس لئے کہ جس طرح ہمارے ملک میں کوئی چیز خالص نہیں ملتی ، اُسی طرح سیکولرازم بھی ناخالص ہے۔ اس ملک میں نام نہاد ننھی منی سی سیکولر لابی کے کاسہ لیس جو ہمیشہ سے شاہوں کے درباروں کی اندھیری غلام گردشوں سے رو بہ عمل ہوتے ہیں، چیلوں کی طرح ان پر جھپٹ رہے ہیں اور اوریا مقبول جان نظریات کی اس کربلا کا حسین بن کر ڈٹا ہوا ہے۔ ایسے میں مرد حر بننے میں کوئی حرج نہیں۔
    ہوا کچھ یوں کہ اوریا صاحب نے کیپٹل ازم کے سب سے بڑے ہتھیار ، یعنی جمہوریت کی ایک شاخ یعنی اشتہار بازی (ایڈورٹائزمنٹ) کے بارے میں کچھ تنقید ی کلمات ادا کرنے کی جسارت کر دی ہے۔ ویسے جس ملک میں جنرل رانی کا نواسہ اور بھارتی پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کی حالیہ بیوی کا بیٹا ،سینسر بورڈ کا چئیرمین ہو، اُس ملک کے اشتہارات اور فلموں میں کیا کیا کچھ نہیں چل رہا ہوگا اس کے لئے زیادہ دماغ لڑائے بغیر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔
    اوریا صاحب نے کیو موبائل کے ایک اشتہار کا جب مندرجاتی تجزیہ ( Content Analysis)پیش کیا تو کیپٹل ازم کے ایجنٹ ان کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑ گئے۔ جی ہاں یہ خاندانی ایجنٹ ہوتے ہیں ۔اور ہر دور میں ہوتے ہیں۔ کوئی بھی ہو۔ کبھی یہ کمیونزم اور سوشلزم کبھی کیپٹل ازم، اور کبھی اسلام ، انہیں اس سے غرض نہیں کہ آقا کون ہے۔ یہ تو بس خاندانی اور پیشہ ورانہ ایجنٹ ہوتے ہیں۔کبھی یہ کیپٹل ازم کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ روس افغانوں پر حملہ کرئے تو یہ روس کے ساتھ اور امریکہ افغانیوں کے ملک میں تباہ و بربادی پھیلا کر انہیں محکوم بنانے کے لئے آئے تو یہ امریکہ کے ساتھ۔ بھارت پاکستان کی سیاسی اور سفارتی حدود پر حملہ آور ہوتویہ بھارت کے ساتھ۔ اپنے ملک کی تاریخ پڑھ لیں ۔یہ انگریز کے ساتھ تھے۔اٹھارہویں صدی کے پہلے ادھواڑے میں ان کے آباو اجداد نے انگریزوں کی فرمائش پر اسلام کے اندر سے ایسے ایسے عقلی اعتراضات نکال مارے کہ ان کے دانت کھٹے کرنے کے لئے مسلمانوں کو بریلوی اور دیوبند کی دو عظیم الشان جوابی اصلاحی اسلامی تحریکیں اٹھانا پڑیں۔ جی ہاں یہ دونوں تحریکیں ان ہی کی ریشہ دوانیوں کے باعث برصغیر میں منصہ شہود پر آئیں۔ ان کی جائز و ناجائز اولادیں آج بھی انہی اعتراضات کی جگالی کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں اور ہماری نئی نسل مطالعے کی عمومی عادت سے عاری ہونے کے باعث ان کے بے بنیاد سوالوں کے اٹھائے گئے جوابات کے بارے میں نہیں جانتی اور یہ اپنا سودا بیچتے رہتے ہیں۔ تا آن کہ انہیں کوئی اوریا مقبول جان ٹکر جائے۔ہاں البتہ مذہب مخالف ہونے کے دعویدار ہونے کے باوجود احساسِ کمتری کی ماری ہوئی اس مخلوق کو چرچ اور مندر میں بہت سکون ملتاہے اور مسجد سے گھن آتی ہے۔ اپنے مسلمان ہونے پر شرمندہ خود ترحمی کا شکار یہ لوگ ہر دم خود مذمتی پر آمادہ۔
    لیکن یہاں پر بھی یہ کوئی آزادانہ طور پر رو بہ عمل تھوڑے ہی آئے ہیں؟ ہمیں پاکستان کی ایڈورٹائزمنٹ کی صنعت کے ایک اعلیٰ دماغ نے بتایا کہ اوریا صاحب نے جس ٹیکنیکل طریقے سے پاکستان کے میڈیا پرچلنے والے اشتہارات سے رگیدا ہے اُس پر پوری ایڈورٹائزمنٹ کی صنعت میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ اس لئے انہوں نے ان خاندانی جدی پشتی ایجنٹوں کی خدمات حاصل کی ہیں ۔ مدت ہوئی پاکستان میں اشتہار سازی کی مہم کا دیہانت ہوگیااور یہ لوگ بھارتیوں کے کمیشن ایجنٹ بن چکے۔ اشتہار بھارت میں بنے گا ۔ اس میں کام کرنے والی ماڈل اشتہار بنوانے والی کمپنی کے مالک سے دبئی میں ملاقات کرئے گی۔ یہ کل اوقات ہے پاکستان کی ایڈورٹائزمنٹ کے بڑے بڑے دماغوں کی۔ کاپی لکھنا ان ذہنی بانجھوں کے بس میں نہیں۔ اس لئے اگر کوئی اشتہار بنانا پڑ بھی جائے تو اتنا گھٹیا کہ کسی بین الاقوامی مقابلے میں پیش ہی نہ ہوسکے۔ اور اس کے مندرجات میں گھٹیا درجے کی ذو معنی باتیں کہ جن کو یہ خاکسار نقل کرنے سے بھی عاری ہے۔ اب ان کی دم پر پاؤں آ گیا ہے اور انہوں نے سوشل اور مین سٹریم میڈیا پر اوریا صاحب کے خلاف ایک یلغار کردی ہے۔ تو ایک لحاظ سے ہمارا سیکولر طبقہ اپنے آباو اجداد کی سنت پر قائم ہے اور ’’برائے فروخت ‘‘ کا بورڈ لگائے پورے پیسے پیشگی پکڑ کر رو بہ عمل ہے۔
    ایک لحاظ سے یہ دسترخوانی راتب خور بہت عقل مند بھی ہیں کہ ہمیشہ شاہ کے قدموں میں یا پھر سرکاری دسترخوان پر پائے جاتے ہیں۔ سرکار کے پیسوں سے اپنے دامن بھرتے ہیں اور سرکاری خرچے پر اپنے خیالات کا ابلاغ کرتے ہیں۔نظریات وہ جو منافع لائے ان کا بنیادی نعرہ ہے۔ اوریا صاحب تو اب ریٹائرمنٹ کے بعد میدانِ عمل ہیں۔ لیکن ان کے ناقد اپنے ابا جان سمیت آج بھی سرکاری دسترخوان پر راتب خوری میں مصروف پائے جا رہے ہیں۔ ابا جی نے ساری ساری عمر اسلام کو بیچ کر کھایا اب بیٹے نے سیکولرازم کا کھوکھا کھول لیا ہے۔ کیوں کہ میاں محمد نواز شریف صاحب کی طرف سے سیفما کے اجلاس کا وہ خطابِ لاجواب جس میں عیسائی چرچ سکول کے پڑھے ہوئے اس مسلمان زادے نے ہمیں بتایا تھا کہ ’’رام اور رحیم ایک ہی ذات کے دو نام ہیں‘‘۔ اس کو کیا پتہ ، مگر پتہ ہے کہ پاکستان کی تو بنیاد ہی اس انکار سے اٹھی تھی ’’رام اور رحیم ایک ہی ذات کے دو نام نہیں ہیں‘‘۔ یہ وہی مشرکین مکہ والی فرمائش تھی کہ ایک دن تم ہمارے خدا کو پوج لو اور ایک دن ہم تمہارے خدا کو پوج لیا کریں گے۔ لیکن میاں نواز شریف نے جب یہ کہہ ڈالا تو کچھ لوگوں نے اسلام فروشی کی ہٹی بند کی اور اس کی جگہ اپنے بچے کو سیکولرازم کا کھوکھا کھول دیا۔ انہوں نے تو ایجنٹی ہی کرنی ہے جس کی بھی دستیاب ہو جائے؟
    اب اُس سرکاری ٹی وی پر جس کے لئے ہر مہینے آپ کے اور میرے بجلی کے بلوں ، حتیٰ کی مسجدوں اور قبرستانوں کے بلوں سے بھی پیسے جمع کرکے سرکاری ٹی وی کو ماہانہ دو ارب روپے ادا کئے جاتے ہیں، اس سرکاری ٹی وی پر بیٹھ کر ایک اسی طرح کے صاحب نے اوریا مقبول جان صاحب کے ایک ٹی وی اشتہار کے ناقدانہ جائزے کے عمل کو ہدفِ تنقید بنا ڈالا ہے۔ اس کے بعد اللہ تیری یاری۔
    اوریا صاحب نے اس کا جواب اپنے نیو ٹی وی کے پروگرام میں دیا۔ جواب اس قدر بھرپور اور جامع تھا چاوں چاوں کی آوازیں چاردانگِ عالم میں برآمد ہو رہی ہیں۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیکولرسٹوں کے بڑے بڑے سرخیل اور جرنیل بھی خم ٹھونک کر میدان میں اُتر آئے ۔ پتہ نہیں کون کون کہاں کہاں سے اپنی غیر جانبداری کا پردہ چاک کرتے ہوئے برہنہ میدان میں آ کودا ۔ کوئی کراچی سے براستہ بی بی سی اور کوئی اسلام آباد سے براستہ ڈان ٹی وی۔ خاکسار سوشل میڈیا پر دبکا، خاموشی سے ان تمام اباحیت پسندوں کے تڑپنے اور تلملانے کا مزہ لیتا رہا۔ میرا خیال تھا کہ بات شاید نہیں بن رہی تھی کیوں کہ اوریا صاحب کا وار ہی اسقدر گہراتھا۔
    اس لئے مجھے اصل مسرت اس وقت حاصل ہوئی جب بلاول بھٹو زرداری، اور آصفہ بھٹو زرداری کے ٹویٹر ہینڈل سے بھی اوریا کے خلاف ری ٹویٹ ہوئے ، اور میرے منہ سے بے اختیار نکلا، اوریا صاحب آپ جیت گئے ۔ دشمن کے دامن میں جو کچھ تھا اس نے آپ کے خلاف میدان میں اتار دیا ہے۔ یہ جنگ کا نکتہ آغاز ہے آپ میدان ڈٹے رہنا ۔ میں بھی اپنی ننھی منی تلوار لئے تمہارے ساتھ ہوں۔ بس خدارا کہیں مُک مکا نہ کر لینا۔ کہیں کسی سرکاری مراعات پر۔ ٹی وی کے چند پروگراموں کے ٹکڑوں پر۔ بس میدان میں ڈٹے رہنا۔۔ آپ جیت چکے ہیں۔

  • آقا ﷺ آپ ناراض مت ہوجائیے گا. زبیر منصوری کا نذرانہ عقیدت

    آقا ﷺ آپ ناراض مت ہوجائیے گا. زبیر منصوری کا نذرانہ عقیدت

    13495272_10209334159298801_2216135318695331631_nتو کیا اب بات ہمارے مرکز غیرت و حمیت تک جا پہنچی؟؟
    دو ارب مسلمانوں کے دل جس ہستی کی یاد کے ساتھ دھڑکتے ہیں، اب اس کی جائے سکون بھی تمھاری سازشوں سے محفوظ نہیں ہے
    تم کیا سمجھ رہے ہو تم مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہے ہو؟
    تمھارے یہ کام انھیں توڑ رہے ہیں؟
    اسلام کو تم نے خطرات میں ڈال دیا ہے؟
    خیال ہے تمھارا
    خوش فہمی اور وہ بھی احمقانہ
    تم اپنی چال چل رہے ہو اور اللہ اپنی حکمت سے چیزوں کو آگے بڑھا رہا ہے
    یہ سارا فساد مسلمان کو مسلماں بناتا جا رہا ہے
    وہ باتیں جو چند برس پہلے امت کے دانشور بھی نہیں سمجھ پا رہے تھے، اب امت کے بچے بھی جان رہے ہیں ۔
    تم اپنے عمل سے امت کو ایجوکیٹ کر رہے ہو، ان شاء اللہ بتدریج منظم کر رہے ہو، انہیں دوست دشمن کی سمجھ آتی جا رہی ہے
    وہ وقت اب جلد نوشتہ دیوار بننے کو ہے کہ جب تمھاری سازشیں ہمارے لیے غیرمؤثر ہو چکی ہوں گی، تم جو پلان کر کے جو نتیجہ نکالنا چاہوگے، نتیجہ اس کا الٹ نکلے گا۔ ان شاء اللہ

    آقا ﷺ بس آپ سے شرمندہ ہے آپ کی امت
    بس اسے بات سمجھنے میں ذرادیر لگ جاتی ہے
    آقا ﷺ آپ خود وقت کے ابو جہلوں اور ابو نضروں سے مقابلہ کر چکے ہیں
    آقاﷺ آپ کی امت کو بہت بڑے سازشیوں کا سامنا ہے اور ان کے پاس آپ ﷺ رہنمائی کو موجود نہیں اور آپ ﷺ کی لائی کتاب اور عمل کی رہنمائی سے بھی بعض اسلامی سیکولرز نے انھیں کاٹ دیا ہے
    آقا ﷺ مگر یہ آپ ﷺ کے دیوانے ہیں، آپ ﷺ کا نام لے لے کے مر جائیں گے
    آقا ﷺ آپ کی محبت ان میں سے ہر اچھے برے کے دل میں پیوست ہے
    آقا ﷺ آپ ان کا آخری سہارا ہیں
    آقا ﷺ آپ بس ناراض مت ہوئیے گا
    آقا ﷺ امت آپ کو مایوس نہیں کرے گی ان شاء اللہ
    آقا بس اپنے رب سے ان کے لیے صالحیت اور صلاحیت مانگ لیجیے، ان شاء اللہ۔ یہ آپ ﷺ کی طرف اٹھنے والا ہر ہاتھ توڑ ڈالیں گے، ہر ایسی آنکھ پھوڑ ڈالیں گے
    آقا ﷺ بس صرف آپ سے شرمندہ ہیں
    بس آپ ﷺ ناراض نہ ہو جائیے گا
    خدا کے لیے

  • دلیل کی ” دلیل  ” – حسیب احمد خان

    دلیل کی ” دلیل ” – حسیب احمد خان

    Haseeb قرآن جو بے شک ہدایت کی راہ دکھاتا ہے اور بھٹکے ہوؤں کی رہنمائی کرتا ہے اور الله رب العزت کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کے بیان سے بھی نہیں شرماتے.
    چیونٹی ایک چھوٹی سی مخلوق جو اکثر ہمارے پیروں میں روندی جاتی ہے، قرآن کی ایک سوره کا عنوان ہے ” النمل ”
    [pullquote]وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴿17﴾ حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿18﴾
    [/pullquote]

    ” اورسلیمان کے لیے (کسی مہم کے سلسلہ میں )اس کے جنوں،انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اوران کی جماعت بندی کر دی گئی تھی۔ یہاں تک جب وہ چیونٹیوں کی ایک وادی پر پہنچے تو ایک چیونٹی بول اٹھی ،”چیونٹیو!اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ایسانہ ہو کہ سلیمان اورا س کے لشکر تمہیں روند ڈالیں اورانہیں پتہ بھی نہ چلے.
    چیونٹی کا اپنی قوم کے لیے فکر کرنا الله کو اتنا پسند آیا کہ قیامت تک کے لیے اپنے کلام میں محفوظ فرما دیا
    کیا ہم چیونٹیوں سے بھی گئے گزرے ہو چکے ہیں۔ ہم جنھیں اشرف المخلوقات بیان کیا گیا ہے، ہم جن کے بارے میں کہا گیا ہے
    [pullquote]لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴿٤﴾
    [/pullquote]

    یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا
    حدیث میں آتا ہے اِنَ اللہ خَلَقَ آدَمَ عَلَٰی صُورَتِہِ ( مسلم ، کتاب البروالصلاۃ والاداب )“ اللہ تعالٰی نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا “
    لیکن ہمیں سفالت پسند ہے ثُمَّ رَ‌دَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ ﴿٥﴾ پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا
    سوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں کہا گیا
    [pullquote]إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ‌ غَيْرُ‌ مَمْنُونٍ ﴿٦﴾
    [/pullquote]

    لیکن جو لوگ ایمان ﻻئے اور (پھر) نیک عمل کیے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا

    ادب کیا ہے؟ کسی شے کا اس خوبی سے بیان کہ وہ سننے والے کی جمالیات اور فکریات دونوں کو یکساں متاثر کر سکے۔
    مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں
    غالبؔ کہتے ہیں:
    فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
    نالہ پابندِ نے نہیں ہے
    رونے اور ہنسنے کی کوئی قومیت یا وطنیت نہیں ہوتی، اور نہ اس کو فن چاہیے، بلکہ سچا ہنسنا اور سچا رونا وہ ہے جو فن سے عاری ہو، جس میں تصنع نہ ہو، کوئی روتا ہے تو درد سے بے قرار ہوکر، کوئی ہنستا ہے تو کسی مسرت کی بنا پر، یہ اندر کا جذبہ ہے، اس لیے رونے اور ہنسنے کے لیے اندر کا جذبہ ہونا چاہیے، اور وہ رونا رونا کہلانے کا مستحق نہیں جس کو ابھارنے والی اندر کی کوئی چیز نہ ہو، درد نہ ہو، کسک نہ ہو، اور وہ ہنسنا ہنسنے کا مصداق نہیں جو کسی کی فرمائش سے ہو۔
    ادب کا معاملہ بھی یہی ہے کہ ادب کی نہ کوئی قومیت ہے، نہ وطنیت ہے، نہ جنسیت ہے، اور نہ وہ خاص اصطلاحات کا پابند ہے، نہ خاص ضوابط کا، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ خود ادیبوں نے جنھوں نے اپنی زندگیاں ادب کے لیے وقف کیں، اور اپنی بہترین صلاحیتیں اس کے لیے مخصوص کردیں، انھوں نے بھی ادب کے سمندر کو کسی آب جو میں تصور کیا۔
    ادب ادب ہے، خواہ وہ کسی مذہبی انسان کی زبان سے نکلے، کسی پیغمبر کی زبان سے ادا ہو، کسی آسمانی صحیفہ میں ہو، اس کی شرط یہ ہے کہ بات اس انداز سے کہی جائے کہ دل پر اثر ہو، کہنے والا مطمئن ہو کہ میں نے بات اچھی طرح کہہ دی، سننے والا اس سے لطف اٹھائے، اور اس کو قبول کرے۔ حسن پسندی تو یہ ہے کہ حسن جس شکل میں ہو اسے پسند کیا جائے، بلبل کو آپ پابند نہیں کرسکتے کہ اس پھول پر بیٹھے ، اس پھول پر نہ بیٹھے، لیکن یہ کہاں کا حسن مذاق ہے اور یہ کہاں کی حق پسندی ہے کہ اگر گلاب کا پھول کسی مے خانے کے صحن میں اس کے زیر سایہ کھلے تو وہ گلاب ہے اور اس سے لطف اٹھایا جائے، اور اگر کسی مسجد کے چمن میں کھل جائے تو پھر اس میں کوئی حسن نہیں۔ کیا یہ جرم ہے کہ اس نے اپنی نمود کے لیے مسجد کا سہارا لیا؟
    حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
    ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟
    ہمیں حسن بے پروا سے مطلب ہے کہ شہر و صحرا سے؟ تو ادب کے ساتھ معاملہ یہی کیا گیا، اجازت دیجیے تو فارسی کا بھی شعر پڑھ دوں:
    دلِ عبث لب بہ شکوہ دانہ کند
    شیشہ تا نہ شکند صدا نہ کند
    اگر شیشے کی آواز سنیے تو سمجھیے کہ وہ ٹوٹا ہے، تو یہ ٹوٹے ہوئے دل اور ایک ٹوٹے ہوئے ساغر کی صدا ہے، صدائے احتجاج ہے کہ ادیبوں اور ادب کی بارگاہ میں یہ شرط کردی گئی کہ فلاں قسم کی وردی پہن کر آئیے، رسمیات سے سب سے زیادہ بے پروا ادب ہے، اس کو ہرگز یہ قبول نہیں کہ وہ فلاں وردی پہن کر آئے، اور فلاں زبان بولتا ہو، وہ جہاں بھی ہے ادب ہے، اگر وہ پھٹے پرانے کپڑے میں بھی ہے تو ادب ہے، اور شہ نشین پر بٹھانے اور ذہن نشین کرانے کے قابل ہے، اور وہ اگربادشاہوں کا لباس پہن کر آئے لیکن اس کو اپنے مطلب کو صحیح طرح سے ادا کرنے کا سلیقہ نہ ہو، تو وہ ادب نہیں ہے، ادب اس لیے ادب نہیں ہوجاتا کہ وہ کسی انگریزی داں نے ادا کیا، کسی ترقی پسند نے ادا کیا، شعبۂ اردو کے کسی چیئرمین اور پروفیسر نے ادا کیا، صدر نے ادا کیا، وہ ادب ادب ہے خواہ اس کو آپ کسی سائل کی صدا میں سن لیں، کسی غریب کی فریاد میں سن لیں، کسی ماں کو اپنے بچے کو سلاتے ہوئے لوری سنانے میں سن لیں، کسی خدا شناس کے نالۂ نیم شبی میں سن لیں، جو صرف خدا ہی کو سنانا چاہتا ہے، اتفاق سے آپ نے سن لیا، اس لیے ادب جس شکل میں ہو، جس زبان میں ہو، اور جس شخص کی زبان سے ادا ہو، وہ ادب ہے۔
    (دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں 1981ء میں منعقد مذاکرۂ ادبیات اسلامی کے اردو، فارسی، انگریزی سیکشن کے اختتامی خطبہ سے ماخوذ)

    ادبی وسائط کا فکری میدانوں میں باقاعدہ تحریکی انداز میں استعمال بر صغیر میں مخصوص سیکولر فکر کی ترویج میں خاص رہا ہے جس کی سب سے عظیم مثال ترقی پسند تحریک ہے۔ 1917ءمیں روس میں انقلاب تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ثابت ہوا۔ اس نے پوری دنیا پر اثرات مرتب کیے۔ دیگر ممالک کی طرح ہندوستان پر بھی اس کے گہرے اثرات پڑے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد میں تیزی آئی۔ ہندو مسلم اختلاف میں اضافہ ہوا۔ ان حالات اور سیاسی کشمکش کی بدولت مایوسی کی فضا چھانے لگی، جس کی بنا پر حساس نوجوان طبقہ میں اشتراکی رجحانات فروغ پانے لگے۔ شاعر اور ادیب ٹالسٹائی کے برعکس لینن اور کارل مارکس کے اثر کو قبول کرنے لگے۔ جبکہ روسی ادب کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ مذہب کی حیثیت افیون کی سی ہے۔ مذہب باطل تصور ہے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ معاش ہے۔ اس طرح اس ادب کی رو سے سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے اور ادب کا کام مذہب سے متنفر کر کے انسانیت میں اعتقاد پیدا کرنا ہے۔ یہ نظریات ترقی پسند تحریک کے آغاز کا سبب بنے۔
    1923ء میں جرمنی میں ہٹلر کی سرکردگی میں فسطائیت نے سر اُٹھایا جس کی وجہ سے پورے یورپ کو ایک بحران سے گزرنا پڑا۔ ہٹلر نے جرمنی میں تہذیب و تمدن کی اعلیٰ اقدار پر حملہ کیا ۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادبیوں کو گرفتار کر لیا۔ ان شعراء و ادباء میں آئن سٹائن اور ارنسٹ ووکر بھی شامل تھے۔ ہٹلر کے اس اقدام پر جولائی 1935ء میں پیرس میں بعض شہرہ آفاق شخصیتوں مثلاً رومن رولان ، ٹامس مان اور آندر مالرو نے ثقافت کے تحفظ کے لیے تمام دنیا کے ادیبوں کی ایک کانفرنس بلالی ۔اس کانفرس کا نام تھا:
    The world congress of the writers for the defense of culture .
    ہندوستان سے اگر چہ کسی بڑے ادیب نے اس کانفرس میں شرکت نہیں کہ البتہ سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے ہندوستان کی نمائند گی کی ۔ اس طرح بعد میں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے کچھ دیگر ہندوستانی طلبہ کی مدد سے جو لندن میں مقیم تھے۔ ”انجمن ترقی پسند مصنفین“ کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن کا پہلا جلسہ لندن کے نانکنگ ریستوران میں ہوا۔ جہاں اس انجمن کا منشور یا اعلان مرتب کیا گیا ۔ اس اجلاس میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں سجاد ظہیر، ملک راج آنند ، ڈاکٹر جیوتی گھوش اور ڈاکٹر دین محمد تاثیر وغیرہ شامل تھے۔ انجمن کا صدر ملک راج آنند کومنتخب کیا گیا۔ اس طرح انجمن ترقی پسند مصنفین جو ترقی پسند تحریک کے نام سے مشہور ہوئی وجود میں آئی۔ اس ترقی پسند تحریک نے اپنے منشور کے ذریعے جن مقاصد کا بیان کیا وہ کچھ یوں ہیں:

    فن اور ادب کو رجعت پرستوں کے چنگل سے نجات دلانا اور فنون لطیفہ کو عوام کے قریب لانا۔
    ادب میں بھوک، افلاس، غربت، سماجی پستی اور سیاسی غلامی سے بحث کرنا۔
    واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دینا۔ بے مقصد روحانیت اور بے روح تصوف پرستی سے پرہیز کرنا۔
    ایسی ادبی تنقید کو رواج دینا جو ترقی پسند اور سائینٹیفک رجحانات کو فروغ دے۔
    ماضی کی اقدار اور روایات کا ازسر نو جائزہ لے کر صر ف ان اقدار اور روایتوں کو اپنانا جو صحت مند ہوں اور زندگی کی تعمیر میں کام آسکتی ہوں۔
    بیمار فرسودہ روایات جو سماج و ادب کی ترقی میں رکاوٹ ہیں ان کو ترک کرنا وغیرہ۔
    وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک کے نظریات کو غور و تدبر کے بعد اپنی فکر ی تربیت کرکے اپنے احساس کا حصہ بنایا اور فنی خلوص کو مارکسی نظریہ کے لیے کام کرتے ہوئے بھی مد نظر رکھا ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ان لوگوں میں کرشن چندر، فراق، فیض، ندیم، ساحر وغیرہ شامل ہیں۔ دراصل یہ لوگ تحریک کے وجود سے پہلے بھی اچھے فنکار تھے اور تحریک کے خاتمے کے بعد بھی اچھے رہے۔

    دور جدید کی مقتل گاہ میں
    اردو میں اسلامی یا اسلام پسند ادب کی تاریخ قدیم ہے، چاہے وہ صوفیانہ شاعری ہو یا اسلامی فکر و فلسفہ کا بیان۔ اقبال سے لے کر سید مودودی تک، نظم سے نثر تک۔ تاریخ، تفسیر، افسانہ یا ٹھیٹ فکری اور فلسفیانہ مضامین ،اسلامی ادب کی چھاپ ہر جگہ دکھائی دے گی لیکن فعال انداز میں مسلکی، جماعتی اور گروہی عصبیتوں سے ماوراء ہوکر کسی ایسے ادارے کا قیام جہاں اسلامی یا اسلام پسند ادیبوں کی کھیپ تیار ہو سکے ابھی تک تشنہ وجود ہے، گویا یہ ضرورت کے درجہ سے بڑھ کر فرض کفایہ بن چکی ہے جو پوری امت کے کچھ اہل علم پر لازم ہے۔ اور یہ کوئی ایسی سلف سے ہٹی ہوئی بات بھی نہیں کہ جس کو نظر انداز کر دیا جاۓ یہ تو آقا حضرت محمد مصطفیٰ صل الله علیہ وسلم کی سنت بھی ہے

    ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قریش کی ہجو کرو کیونکہ ہجو ان کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سیدنا ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ قریش کی ہجو کرو۔ انہوں نے ہجو کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آئی۔ پھر سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ پھر سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ جب سیدنا حسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ تم پر وہ وقت آ گیا کہ تم نے اس شیر کو بلا بھیجا جو اپنی دم سے مارتا ہے ( یعنی اپنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدان فصاحت اور شعر گوئی کے شیر ہیں)۔ پھر اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو ہلانے لگے اور عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے، میں کافروں کو اپنی زبان سے اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑے کو پھاڑ ڈالتے ہیں۔ اک خواب جسے شرمندہ تعبیر ہونا ہے

    دلیل جیسی اسلام پسند انجمنوں کا قیام ایسا ہی ایک خواب ہے جسے شرمندہ تعبیر ہونا ہے جس کو فسانے کی دنیا سے نکل حقیقت بننا ہے۔ گو بکری کی ذات چھوٹی ضرور ہے لیکن اس میں دل کو لگنے کے تمام اوصاف بھی ضرور موجود ہیں
    گو ادب کی اس بسیط دنیا میں ایک چیونٹی ہی سہی لیکن اس کا وجود تو ہے بس قبولیت کی ایک نظر ہی تو چاہیے ……
    [pullquote]رَبَّنَآ ءَاتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةًۭ وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًۭا[/pullquote]

  • فیصلہ آپ نے کرنا ہے. عمار مسعود

    فیصلہ آپ نے کرنا ہے. عمار مسعود

    tR3X0qoQہر شخص کے پاس ایک ہی سوال ہے کہ امجد صابری کا قصور کیا تھا؟ جرم کیا سرزد ہوا تھا؟ خطا کیا ہوئی تھی؟ ایسا کیا ہوا کہ نوبت قتل تک پہنچ جائے؟ گناہ ہی کیا تھا اس کا؟
    امجد صابری مرحوم ایک خوش آواز، خوش مزاج، خوش اطوار اور خوش خوراک فنکار تھا۔ ساری عمر اس نے حمد، نعت اور منقبت پڑھی، اللہ رسول کا نام لیا اور اسے اسی ڈھنگ میں قبولیت عام حاصل ہوئی۔نرم مزاج، نرم گفتار اور ہنستا مسکراتا گلوکار ہر ٹی وی شو کی جان تھا۔ شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض ہونے کے باوجود کھانے میں میٹھا کھانے سے نہیں چوکتا تھا۔ اس ملک کے لوگوں نے اس سے بہت محبت کی۔ بہت پذیرائی کی۔بہت سراہا۔ یہی شہرت، محبت اورخوشگوار شخصیت اس کی موت کا سبب بن گئی۔
    امجد صابری کے والد غلام فرید صابری اور چچا مقبول صابری کی جوڑی پاکستان کی مقبول ترین قوال جوڑی تھی۔ ایک دھائی ایسی بھی تھی جب ان بھائیوں کی قوالی کا کوئی مقابل نہیں تھا۔ پاکستان میں قوالی کے میدان میں انہی کا سکہ چلتا تھا۔ تاجدار حرم والی قوالی سے انکی شہرت کا آغاز ہوا اور یہی قوالی مرتے دم تک امجد صابری کے بھی ساتھ رہی۔ ایک مدت تک انہی دو بھائیوں کے نام سے فن قوالی پہچانا جاتا تھا۔یہ دونوں بھائی معروف کلاسیکی گائیک استاد لطافت حسین کی شاگردی میں بچپن سے آ گئے تھے۔ استاد لطافت حسین کی زندگی کا کافی عرصہ راولپنڈی میں بھی بسر ہوا ہے۔ابتدا میں غلام فرید صابری منظر عام پرآئے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ اس زمانے میں قوالی کی کیسٹوں پر غلام فرید صابری اور ہمنوا ہی تحریر ہوتا تھا۔رفتہ رفتہ مقبول صابری بھی منظر پر نظر آنے لگے۔ اب البم پر تحریر ہونے لگا حاجی غلام فرید صابری اور مقبول صابری اور ہم نوا ۔مقبول صابری فن کی باریکیوں سے بھی زیادہ واقف تھے اور زمانے کی بھی انہیں خوب سمجھ تھی۔ مصرع کیسے اٹھانا ہے، تان کیسے لگانی ہے، تال کا کہاں تک ساتھ دینا ہے، تالی کہاں بجنی ہے، توقف کہاں کرنا ہے ۔ سر کو کہاں سے پکڑنا ہے۔ پنچم کی ضرورت کہاں پر ہے ۔ راگ کو کیسے برتنا ہے۔ کومل اور تیور کا فرق کیسے سامعین کو سمجھانا ہے۔ دھن کیسے بننی ہے ۔ کلام کون سا منتخب کرنا ہے۔اس کام میںمقبول صابری یکتا تھے۔ صابری برادرز کی جوڑی بہت ہی مقبول ہوئی اور دنیا بھر میں اسکا شہرہ ہونے لگا۔ غلام فرید صابری ، مقبول صابری کے مقابلے میں اللہ لوک آدمی تھے۔دنیاوی معاملات میں نہ وہ مداخلت کرتے تھے نہ ہی ان معاملات کو وہ سمجھتے تھے۔
    شہرت کا ہما سرصابری برادرز کے سر پر ایسا بیٹھا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ روپے پیسے کی ریل پیل شروع ہو گئی۔ اس جوڑی کے نام پر لالو کھیت کے گھر میں کئی غریب گھرانے پلنے لگے۔ چونکہ بنیادی طور پر ان کا تعلق دہلی سے تھا تو وہی انکسار اور اقدار لوٹنے لگیں۔ صدقہ و خیرات میں پہل ہونے لگی۔ کئی گھرانوں کے چولہے ان بھائیوں کے فن سے جلنے لگے۔اسی دوران دونوں بھائیوں میں اختلاف کی خبریں سامنے لگیں۔ مقبول صابری نے اپنی ایک الگ قوال پارٹی بنا لی۔انکی غزلوں اور ٹھمریوں کی سولو کیسٹس منظر عام پر آنے لگیں۔ ان حالات میں حاجی غلام فرید صابری پس منظر میںچلے گئے۔ انکے حالات مالی طور پر خراب ہونے لگے۔ صحت بھی زیادہ محنت کی اجازت نہیں دیتی تھی اور دنیاوی معاملات سے حاجی صاحب کو کوئی خاص لگاو بھی نہیں تھا۔یہ وہی نامسائد حالات تھے جب بڑے حاجی صاحب کی قوال پارٹی کے لوگوں نے ننھے امجدصابری کا حوصلہ بڑھایااور انکی تیاری شروع کروائی گئی۔ معروف ستار نواز نفیس احمد خان نے اس سارے واقعے کو اس طرح ایک جملے میں سمو دیا کہ امجد صابری نے غربت میں اپنے فن کا آغاز کیا اور پھر وہ غریب پرور بن گئے۔ والد کے دوستوں نے انکو والد کی چیزیں یاد کروائیں۔ حاجی غلام فرید صابری کے ہنر مند دوستوں نے امجد صابری کو ایک بڑا قیمتی مشورہ دیا کہ بیٹا اپنی آواز کو زیادہ سے زیادہ والد کی آواز سے مشابہت دے دو۔جو لوگ امجد صابری کو قریب سے جانتے ہیں وہ مانتے ہیں کہ امجد صابری کی آواز اپنے والد کی آواز سے کچھ مختلف تھی مگر جب وہ گاتے تھے تو بڑی سمجھداری سے اپنے والد کی آواز کو کاپی کرتے تھے۔ قوالی کی دنیا میںامجد صابری کا اپنا کام بہت ہی کم ہے۔ انہوں نے زیادہ تر اپنے والد کا گایا ہوا کلام پڑھا۔ اب یہ قسمت کی بات ہے کہ امجد صابری کے مقدر میں شہرت اور دولت والد اور چچا کی نسبت کہیں زیادہ تھی۔
    امجد صابری نے کسی ایک مسلک اور فرقے کے ساتھ ناطہ نہیں جوڑا ۔ اسکا فن سب کے لیئے عقیدت کا سبب رہا۔اسکی شخصیت میں وہ کشش تھی کہ ایک زمانہ اسکا گرویدہ ہو گیا۔ ٹی وی شوز میں جب قوالی کا محل نہیں ہوتا تھا تو امجد صابری گیت بھی گا لیتے تھے، رفیع کو بھی گنگنا لیتے تھے۔ ہنسی مذاق بھی کر لیا کرتے تھے۔ لباس کے معاملے میں بھی قدامت پسندی کو ترک کیا۔ جینز اور کرتا پہن کر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور روایتی قوال پارٹی کا لباس بھی زیب تن کیا۔اس ہر دلعزیز فنکار نے ساری زندگی کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جو انکے بہیمانہ قتل کی وجہ بنے۔نہ کسی سے جھگڑا، نہ کسی مسلک کی پیروی نہ کوئی رقم کا تنازعہ اور نہ کسی سے ذاتی عناد۔پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امجد صابری کو کیوں قتل کیا گیا؟ امجد صابری کا قصور کیا تھا؟ جرم کیا سرزد ہوا تھا ؟ خطا کیا ہوئی تھی؟ ایسا کیا ہواتھا کہ نوبت قتل تک پہنچ جائے؟ گناہ ہی کیا تھا اسکا؟
    معروف لوگوں کو قتل کرنے کا فائدہ دہشت گرد یہ اٹھاتے ہیں کہ انکے مارے جانے کی خبر لمحہ بھر میںساری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ چینلوں پر بریکنگ نیوز بنتی ہیں، اخباروں میں شہ سرخیاں چھپتی ہیں، سوشل میڈیا چیخ اٹھتا ہے۔اداریئے لکھے جاتے ہیں، کالم تحریر ہوتے ہیں، ٹاک شوز میں ان سانحات کا ہفتوں ذکر رہتا ہے ۔ بے چینی پھیلتی ہے۔ بدامنی کا دور دورہ ہوتا ہے خوف اور دہشت کی فضا قائم ہوتی ہے۔کاروبار زندگی متاثر ہوتا ہے۔ امور زندگی ادھورے رہ جاتے ہیں۔بے یقینی معاشرے کا مقدر بنتی ہے۔روشنی کے راستے میں پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔
    وہ سارے لوگ جو زندگی کا اثبات تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔بہتر مستقبل کی امید لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ امن عامہ کے خواہاں ہوتے ہیں۔ حالات کی بہتری کے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے ایک واقعے سے پھر سے مایوس ہو جاتے ہیں۔انکی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ امید ختم ہوجاتی ہے۔ پاکستان کی ان واقعات سے بین الاقوامی سطح پر بدنامی ہوتی ہے۔ جس دہشت سے اس خطہ پاک کو دیکھا جاتا ہے۔ جس خوف سے ہمیں پکارا جاتا ہے وہ درد مند محب وطن لوگوں کے لیئے اذیت کا باعث ہوتا ہے۔ ان کو دکھ دیتا ہے ان کو توڑ دیتا ہے۔
    ہم بحیثت قوم ایک عرصے سے دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ہزاروں نوجوان ہم اس جنگ میں گنوا بیٹھے ہیں۔ بے شمار قیمتی جانیں آئے دن ہونے والے دھماکوں میں ضائع ہو چکی ہیں۔ املاک کا نقصان ہو چکا ہے۔ ملک ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔اب حالات پہلے
    سے بہتر ہونے شروع ہوئے ہیں۔ کچھ امن کی بحالی کی امید لگی ہے۔ دھماکوں کی تعداد اور رفتار میں کمی ہونے لگی ہے۔ امن کی امید بندھی ہے۔ اب فیصلہ مثبت لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چایہیں تو اس سانحے سے ملک کے مستقبل سے مایوس ہو جائیں یا پھر غم کی اس گھڑی میں اک دوجے کی ہمت بندھائیں ۔ ایک پرامن پاکستان کے خواب دیکھتے جائیں۔ اثبات کو اپنائیں۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔