Blog

  • ڈومور امریکہ – مہران ریاض للہ

    ڈومور امریکہ – مہران ریاض للہ

    الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر امریکن الیکشن چھایا رہا، یقینا یہ الیکشن پوری دنیا پر اثرانداز ہوگا لیکن مجموعی طور پر کل میڈیا کا کردار مجھے پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ سا لگا.
    یوم اقبال کی مناسبت سے پروگرامز نہ ہونے کے برابر تھے جو شاید بہت غیرمناسب بات تھی.
    امریکہ کا دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں پاکستان سے “ڈو مور” کا مطالبہ بہت معروف ہے امریکا میں حالیہ الیکشن کے بعد اگر پاکستان کی طرف سے اگر عورتوں کے حقوق کے لئیے امریکہ سے ”ڈو مور“ کا مطالبہ کیا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا.
    بزعم خود اعلی ترین اخلاقی اور جمہوری اقدار کا معاشرے نے آج بھی ایک عورت کو حکمران کے روپ میں دیکھنے سے انکار کر دیا اور پاکستان کی متعصب شدت پسند اور دہشت گردی کے نام سے پہچان کروانے والے نام نہاد لبرل معاشرے نے ایک ایسے شخص کو حکمران بنایا جس میں تعصب اور شدت پسندی کی تمام انواع و اقسام موجود تھیں، خواہ وہ مذہب کے نام پر ہوں، رنگ نسل یا علاقے کے نام پر ہوں، بلکہ اگر دہشت گردی شدت پسندی، نفرت اور حقارت کو مجسم شکل میں دیکھنا ہو تو امریکہ کے نو منتخب صدر کو دیکھ لیا جائے.
    جبکہ پاکستان میں دو دفعہ عورت کو سربراہ مملکت رہ چکی ہے اور اس گئے گزرے سسٹم میں بھی اگر کوئی شخص ٹرمپ جیسی شدت پسندی کے ساتھ الیکشن لڑ کر کونسلر بھی بننا چاہےتو شاید ممکن نہیں، سسٹم میں خامیاں ضرور موجود ہیں لیکن باوجود خامیوں اور دیگر پسماندگیوں کے پاکستانی قوم کی اقدار کسی بھی برائے نام روشن خیال معاشرے سے بہت بلند ہیں.
    اگر وہ مفکر جن کے نزدیک دانشوری کا معیار پاکستان قوم کا تمسخر اور ان نام نہاد لبرل معاشروں سے مرعوبیت کے بجائے اپنی قوم و معاشرے کی اصلاح ہو تو عین ممکن ہے کہ جو سقم یا خامی ہے اسے بھی ختم کیا جا سکے

  • اختلاف کریں، مخالفت نہیں – عارف اللہ خان مروت

    اختلاف کریں، مخالفت نہیں – عارف اللہ خان مروت

    عارف اللہ خان انسانی فطرت بڑی عجیب ہے جو اسے اچھا اور صحیح لگتا ہے وہ چاہتا ہے کہ دوسرے بھی اسی زاوئے سے اسے دیکھے جس سوچ کا وہ خود حامل ہوتا ہے.
    میں کیونکہ فلاں سیاسی پارٹی کا کارکن اور ووٹر ہوں تو بس وہی صاف و شفاف اور محب وطن پارٹی ہے باقی پارٹیاں نہیں اور اگر کسی نے میری پارٹی پر انگلی اٹھائی (بیشک وہ سچ بھی ہو ) تو میں سب کی ایسی کی تیسی کردیتا ہوں اور سوچتا بھی نہیں کہ میں کتنی گندی اور غلیظ زبان استعمال کررہا ہوں.
    میں کیونکہ لبرل ہوں (بیشک مجھے لبرل کے لام کا بھی پتہ نہیں ) اسلئے میرا فرض بنتا ہے کہ ہر منفی معاملے میں مولوی، مدرسہ، داڑھی اور اسلام پسندوں کو رگیدوں کیونکہ مجھے تو آزادی اظہار رائے کا حق ہے تمہیں نہیں اور اگر اپنی دفاع میں کچھ بولا تو میں تمہارے اکابر کو بھی نہیں بخشوں گا.
    میں کیونکہ قوم پرست ہوں تو میری قوم صرف اور صرف میری قوم اعلی و ارفع ہے اور اگر نہیں مانے تو میں اپنی قوم پر یہ ظلم و بربریت برداشت نہیں کروں گا اور اپنے حق کیلئے بندوق اٹھانے سے بھی گریز نہیں کروں گا..
    میں کیونکہ فلاں فرقے کے نظریے کا حامل ہوں تو صرف وہی حق پر ہے باقی سارے 71 فرقوں میں آتے ہیں جہنمی ہیں.
    اور اگر تم نے میرے نظریے کا رد کیا تو وہی حشر کروں گا جو آپ سے پہلے والوں کا کیا تھا.
    یہ ہے ہمارے معاشرے کی آجکل کی تصویر.
    ہم کب اپنی سوچ میں وسعت پیدا کریں گے؟
    ہم کب یہ سیکھیں گے کہ جس طرح مجھے اختلاف کا حق ہے دوسروں کو بھی وہی حق حاصل ہے.
    اختلاف سب کا حق ہے اختلاف کریں سب کے سوچنے کا انداز الگ ہوتا ہے ضروری نہیں کہ جو میری سوچ ہے جو میرا نظریہ ہے دوسرے کا بھی وہی ہو.
    مگر خدارا مخالفت سے گریز کریں.
    اختلاف اخلاقیات کے دائرے میں بھی ہوسکتا ہے.
    ضروری نہیں کہ غداری، دہشتگرد اور کفر کے سرٹیفیکیٹ ایشو کئے جائیں.
    وسعت نظری پیدا کریں.
    برداشت کو اپنا اوڑھنا بچونا بنائیں
    اختلاف کریں مگر مخالفت نہیں

  • میری بیٹی – نجم درویش

    میری بیٹی – نجم درویش

    میری بیٹی!
    تیرا باپ آج کچھ تجھ سے کہنا چاہ رہا ہے.
    وہ باپ جس نے آج تک اپنے پیٹ میں حرام لقمہ نہیں جانے دیا کہ اِس لقمہ سے ملنے والی طاقت سے کی گئی مزدوری کا معاوضہ حرام یا مشکوک نہ ہو جائے.
    آج تجھ سے تیرا وہ باپ کچھ کہنا چاہ رہا ہے کہ جو تیرے قریبُ البلوغت سے لے کر آج تک حیا کی وجہ سے جی بھر کے تجھے نہیں دیکھ پایا.
    آج تجھ سے تیرا وہ باپ کچھ کہنا چاہ رہا ہے جس نے خلوت کی مناجات میں گِڑگِڑا کر سجدہ ریز حالت میں اپنے کریم اللہ سے تیرے اچھے نصیب التجائیں کی ہیں.

    بِٹیا…! اب سُن اور جو کہوں یاد رکھ…!
    اب میری نگاہ کمزور ہو چکی، میری نگاہ کی کمزوری تجھے آوارگی پہ آمادہ نہ کر دے،
    میرے قُوٰی ساتھ دینا چھوڑ چکے، میرے قُوٰی کی کمزوری تجھے جَری نہ کر دے،
    دماغ بھی کمی کی طرف تیزی سے بَڑھنے لگا، میرے دماغ کا نسیان تجھے خود مختاری اور مستقبل کے فیصلے بلکہ یوں کہوں کہ اپنی زندگی کے فیصلے کرنے پر برانگیختہ نہ کر ڈالے.

    بٹیا! ہم مسلمانوں کا یقین ہے کہ جوں جوں مسلمان بندے کے بال سفید ہوتے جاتے ہیں، اللہ کے ہاں سفید بالوں والے کی قدر و منزلت بڑھتی جاتی ہے.
    پیاری بیٹی! میری قدر کی قدر کرنا، قدم قدم پہ اپنی عزت و ناموس کا خیال رکھنا، ہر چیز مِل سکتی ہے مگر ناموس کی چادر اِک بار داغدار ہو جائے تو دوبارہ جہان کا کوئی کیمیکل اُس کو نہیں دھو سکتا، اور ہاں یہ بھی تجھے خبر دیتا چلوں کہ مرد جو کرتا پھرے اُس پہ اُٹھنے والی انگلی اور زبان کاٹ دی جاتی ہے مگر عورت کی ادنٰی غلطی پر انگلی نہ اُٹھانے والوں کو دیّوث و بےغیرت کہا جاتا ہے.
    بیٹی! ہر لمحے جیسے جیسے تو بڑھتی جا رہی ہے اُتنا اُتنا تیرے باپ کی فکر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے.
    بیٹی! مال کے لُٹیروں سے بڑھ کر اپنے ایمان اور اپنی عزت کے لٹیروں سے بچنا کہ مومن کا کُل سرمایہ ایمان و عصمت ہے.
    بیٹی! آخر میں یہی کہوں گا کہ باپ کے سفید بالوں کی لاج رکھنا، اپنے آپ کو سلامتی اور پاک دامنی کے زیور کے ساتھ آراستہ ربِّ قدوس کی بارگاہ میں پیش ہونا تاکہ رب کے رُوبرُو میرا تیری وجہ سے اکرام کیا جائے.

  • باطل کی فکری یلغار اور دینی مدارس کی ذمہ داریاں – عابد محمود عزام

    باطل کی فکری یلغار اور دینی مدارس کی ذمہ داریاں – عابد محمود عزام

    اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ دینی مدارس نے دینی علوم کے فروغ اور معاشرے کی اصلاح کے لیے ہردور میں انتہائی محنت اور جستجو کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ دینی مدارس کی سچی لگن کو دیکھتے ہوئے معاشرے نے بھی ان پر اعتماد کیا ہے اور آج وطن عزیز میں دینی مدارس اور طلبہ کی تعداد اس حد تک بڑھ رہی ہے کہ ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ تاہم مقدار میں اضافے کے ساتھ معیار میں کمی کا مسئلہ دینی مدارس کو بھی درپیش ہے اور رفتہ رفتہ مدارس میں ماضی کا تحقیقی و علمی مزاج دم توڑ رہا ہے۔ ماضی میں دینی مدارس تحقیقی مراکز ہوا کرتے تھے اور ان سے متعلق علماءنے مختلف موضوعات پر ہزاروں گراں قدر اور نایاب تحقیقی کتب تصنیف کی ہیں، اس دور میں بھی بہت سے کتب لکھی جارہی ہیں، لیکن ان کا علمی و تحقیقی معیار اس پائے کا نہیں جو ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے موجودہ دور میں ان اداروں میں تحقیق کے سوتے خشک پڑتے جارہے ہیں۔ بہت سے مدارس میں درسی تعلیم کے بعد تحقیق اور تصنیف کے شعبے گزشتہ چند برسوں میں کثرت سے قائم ہوئے ہیں۔ ان کی موجودگی سے اسلامی تحقیقات کی اہمیت کا احساس بڑھا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی شعبے سے تحقیق کے وہ مقاصد اب تک کماحقہ پورے نہیں ہوسکے، جس کی آج قوم و ملت کو اشد ضرورت ہے۔ اکثر دینی مدارس میں تحقیق و تصنیف برائے نام اور صرف نصابی سرگرمیاں حاوی ہیں۔ نتیجے میں مدارس سے غالب تعداد مدرسین اور مقررین یا پھر درسی کتب کے شارحین پیدا ہورہے ہیں۔ دینی مدارس کے فضلاءکی اکثریت میں آٹھ دس سال تعلیم کا محور سمجھے جانے والے علوم پر دسترس حاصل کرلینے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے اور افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد تو عربی زبان کی نصابی یا غیر نصابی کتابوں کی صحیح عبارت خوانی سے ہی قاصر ہوتی ہے۔ طلبہ کا سب سے بڑا اور اہم کام علمی تحقیقی و تصنیفی کام ہے۔ یہ کام طلبہ انفرادی طور پر اپنے شوق سے انجام نہیں دے سکتے، اس کے لیے مدارس کی سطح پر مطالعہ اور تحقیق کے لیے طلبہ کی مکمل رہنمائی اور موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق فضلاءمدارس اور طلبہ میں علم وتحقیق کا صحیح شعور بیدار کرنے کے لیے منصوبہ بند اقدامات کی ضرورت ہے، اس کے بغیر انفرادی طور پر طلبہ کے مطالعہ و تحقیق سے وہ کچھ حاصل نہیں ہوسکتا، جس کی ضرورت ہے۔

    دینی مدارس میں عالمیہ کے بعد جو تخصصات کروائے جاتے ہیں، یہ عصری جامعات میں مختلف موضوعات میں کی جانے والی پی ایچ ڈی کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ ان تخصصات کو سائنسی اصولوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ عصری جامعات کی پی ایچ ڈی میں تحقیق کے جو جدید اصول اور مناہج تحقیق اپنائے جاتے ہیں، ان کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دینی مدارس کا نظام و نصاب اور مدارس میں عصری تعلیم کی ضرورت و اہمیت اگرچہ الگ موضوعات ہیں، لیکن سیرت النبی، تاریخ اسلام، اسلام کا معاشی نظام، جدید سیاسی نظریات کے تقابل کے ساتھ اسلام کا سیاسی نظام، جدید معاشرتی افکار کے ہمراہ اسلام کا معاشرتی نظام اور اس کے ساتھ استشراق، الحاد، مسلم ممالک پر مغرب کی فکری یلغار، اسلامی ممالک اورعالم اسلام کے مسائل اور جغرافیہ کو تفصیلی طور پر مدارس میں زیر بحث لانا بھی ضروری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مدرسے کی سند فراغت دراصل علوم دینیہ کے کمرے میں داخل ہونے کی کنجی ہے۔ گویا ایک فارغ التحصیل آٹھ دس سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس قابل ہوگیا ہے کہ اپنے طور پر بنیادی مآخذ کا مطالعہ کرکے علم و تحقیق کے سمندر سے لعل و گہر نکال سکتا ہے۔ تاہم تحقیق اور تصنیف کے لیے جس تجسس اور تخلیقی فکر کی ضرورت ہے، وہ صرف مدارس میں رائج نصاب سے حاصل نہیں ہوتی، اس کے لیے غیر نصابی کتب کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے، لیکن افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ مدارس کے طلبہ میں مطالعہ کا ذوق ناپید ہوتا جارہا ہے۔ بہت سے طلبہ جدید سہولتوں کی رو میں بہہ گئے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے فوائد اپنی جگہ، لیکن اس نے طلبہ کی علمی سوچ و استعداد کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ اب طلبہ کی اکثریت فارغ وقت تو فضولیات میں گزارتی ہی ہے، اپنی تعلیم کا بھی بہت سارا وقت موبائل، فیس بک اور دیگر ذرایع کی نذر کردیتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب بیشتر طلبہ میں نہ تو نصابی کتابوں کے مطالعے کا ذوق رہا اور نہ ہی غیرنصابی کتابوں سے کوئی سروکار ہے۔ ماضی میںطالب علم جب مدارس سے فراغت حاصل کرتے تو نصابی کتابوں کے ساتھ سیکڑوں مفید غیرنصابی کتب کا مطالعہ بھی کرچکے ہوتے تھے۔ اب غیر نصابی کتب کا مطالعہ صرف مناظر ے کے انداز میں لکھی گئی کتب کا مطالعے تک محدود ہوگیا ہے۔

    دینی مدارس کو موجودہ طریق سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ علمائے کرام کی متفقہ کمیٹی تشکیل دے کر اس کے تحت روز پیش آنے والے نت نئے عصری و جدید مسائل پر تحقیق کا مضبوط نظام ترتیب دینے کی بھی ضرورت ہے۔ بسا اوقات بہت سے دینی مسائل میں مختلف مدارس کے مختلف فتاویٰ جات اور مختلف موقف سامنے آتے ہیں، بلکہ بعض مدارس میں تو ایک ہی مدرسے کے مختلف علمائے کرام کے مختلف موقف ہوتے ہیں اور بہت دفعہ کسی ایک رائے پر بہت شدت سے اصرار کیا جاتا ہے اور معاصر آراءکو درخور اعتناءنہیں سمجھا جاتا۔ ان حالات میں ایک عام آدمی ایک ہی دینی مسئلے میں متعددآرا کو دیکھ کر پریشان ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دینی مسائل میں دلائل کی بنیاد پر اختلاف کا ہونا فطری امر ہے اور تمام مسائل میں مکمل اتفاق رائے کسی بھی شعبے میں نہیں ہوتا مگر عملی زندگی سے متعلق فروعی نوعیت کے مسائل میں زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے کے لیے مشترکہ ادارہ ہونا چاہیے۔ ملک کا سب سے بڑا دینی تعلیمی بورڈ ہونے کی حیثیت سے وفاق المدارس کو چاہیے کہ ملک بھر کے جید علمائے کرام پر ایک منظم فقہی کمیٹی تشکیل دے، جو حالات حاضرہ اور جدید مسائل پر بحث کرکے کوئی متفق موقف سامنے لائے اور علمائے کرام کی یہ کمیٹی ملک بھر کے تمام شہروں میں دارالافتاءقائم کرنے کے اصول و ضوابط طے کرے، تمام دارالافتاءانہی اصولوں کے تحت فتاویٰ جات جاری کرنے کے پابند ہوں۔ معاشرے میں اپنے بلند مقام اور بھاری ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے دینی مدارس کو غور و خوض کے بعد اس قسم کے مزید اقدامات کرنا ہوں گے، تاکہ عوام کو شرعی و دینی مسائل میں اطمینان حاصل ہوسکے۔

    اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مثالی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے دینی مدارس کا مستحکم و منظم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ دینی مدارس اور علمائے کرام نے جس معاشرے میں بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کیں، وہ معاشرہ ہمیشہ دینی اقدار کا علمبردار رہاہے۔ علمائے کرام، دینی مدارس اور اسلامی مراکز کی سب سے بڑی ذمہ داری اسلامی نظریات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ موثر اور منظم طریقے سے دینی احکام کی نشرواشاعت اور اسلام کے خلاف کھلنے والے ہر محاذ کا مقابلہ کرکے دین برحق کو قرآن و سنت کے سر چشمہ سے لے کر زمانے کے فہم میں ڈھال کر عصر حاضر کی زبان میں آگے منتقل کر نا بھی ہے۔ عصر حاضر میں تمام چیلنجز کے مقابلے کے لیے دینی مدارس کے طلبہ کو باقاعدہ تیار کرنا منتظمین کی ذمہ داری ہے۔ وارثان نبوت کا مطالعہ و تحقیق کے ذریعے معترضین کے لیے مسکت جواب تیار کرنا اور عمدہ بیان و تقریر اور بہترین انداز تحریر پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ طلبہ کی ذمہ داری جلسوں میں نعرے بازی کرنا نہیں، بلکہ عصر حاضر میں امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا اور معاندین کو انہیں کی زبان میں موثر انداز میں جواب دینا ہے۔

    آج دین اسلام کے خلاف بہت ہی منظم انداز میں علمی و فکری سطح پر جدوجہد کی جارہی ہے۔ الحاد، استشراق، سیکولرازم، لبرل ازم اور نجانے کون کون سے عنوانات سے سادہ لوح مسلمانوں کو تشکیک میں مبتلا کر کے راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دشمنان اسلام اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کے لیے بھرپور محنت کے ساتھ نہ صرف کوشاں ہیں، بلکہ کامیابیاں بھی سمیٹ رہے ہیں۔ معاشرے میں مستشرقین، ملحدین، مغرب کی فکری و تہذیبی یلغار اور دیگر مخالفین اسلام کی کامیابیوں کو دینی مراکز کی اپنی ذمہ داریوں سے بے توجہی کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ مخالفین اسلام اہل اسلام کو اسلام سے بدظن کرنے کے لیے جس محنت اور جستجو سے کام کررہے ہیں، دینی مدارس کو اس سے کہیں زیادہ تحقیق و جستجو اور محنت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج دیگر مسالک کے رد سے کہیں زیادہ محنت الحاد، استشراق، سیکولرازم، لبرل ازم ، مغرب کی فکری و تہذیبی یلغار سمیت بہت سے جدید فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ہے۔ مستشرقین نے اسلام، قرآن، حدیث، سیرت، تفسیر، فقہ اور اسلامی علوم پر اعتراضات کرنے کے لیے اپنی پوری زندگیاں وقف کردی ہیں۔ اسلامی علوم میں خامیاں ڈھونڈنے کے لیے اسلامی علوم کو اتنا زیادہ پڑھا کہ ہمارے ہی متعدد علوم پر ہم میں سے بہت سوں سے زیادہ عبور حاصل کرلیا ہے، بلکہ اسلام دشمنی میں انہوں نے اس قدر تحقیق کی کہ بہت مرتبہ ان کی کی ہوئی تحقیق خود ہمارے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔ ملحدین دین متین اسلام پر ایسے ایسے اعتراضات کرتے ہیں کہ مدارس کے طلبہ ان کے جوابات دینے سے قاصر ہوتے ہیں، کیونکہ انہیں اس ضمن میں تیار ہی نہیں کیا گیا ہوتا ہے۔ ان حالات میں اگر امت کے رہنمایان وقت کی نزاکت کا احساس نہیں کرتے تو بعید نہیں کہ معاشرہ ان کے ہاتھوں سے نکل جائے۔ اگرچہ دینی مدارس گوناگوں مشکلات ومسائل کا شکار ہیں، وسائل کی کمی ہے، لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہمارے اسلاف نے بھی وسائل کی کمی کے باوجود ہی حیران کن حد تک علمی و تحقیقی ذخیرے چھوڑے ہیں، اس دور میں ہمارے پاس کم از کم ان سے تو زیادہ ہی وسائل ہیں۔ اسلام کے خلاف کھلنے والے جدید فکری محاذوں کے خلاف ملک میں اجتماعی سطح پر کوئی بڑا تحقیقی کام نہیں ہورہا، جہاں دینی مدارس کے باصلاحیت طلبہ کو اپنی خدمات پیش کرنے کا موقع مل سکے اور رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے وہ کچھ منفرد پیش کرسکیں۔ اگر کوئی فاضل یا طالب علم اپنی ذاتی دلچسپی اور کاوش کی بنا پر کوئی تحقیقی سامنے لے کر آتا ہے تو اس کی اس قدر حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، جس کا وہ مستحق ہوتا ہے، حالانکہ حوصلہ افزائی ضروری ہے۔

    دینی مدارس میں طلبہ کو امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کے مقابلے کے لیے تیار کرنا، ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنا انتہائی ضروری ہے۔ طلبہ کو تحقیق کے لیے عصر حاضر میں امت مسلمہ اور ہمارے معاشرے کو درپیش مسائل سے متعلق مختلف موضوعات دے کراساتذہ کی نگرانی میں مطالعہ کروایا جائے اور ان موضوعات پر مقالاجات لکھوائے جائیں۔ مدارس کی سطح پر ملک میں ایک ایسا ادارہ قائم ہونا چاہیے، ملک کے تمام شہروں میں جس کی ذیلی شاخیں ہوں۔ دینی مدارس کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنا، اگر ضرورت ہو تو معاشی معاونت کرنا اور اسلام پر جدید اعتراضات کے جوابات سے لیس کر کے قوم کے سامنے لانا جس کی ذمہ داری ہو۔ مدارس میں لکھے گئے مقالاجات میں سے اگر کوئی تحقیقی کام اچھا کیا ہوا اور وہ قوم و ملت کا لیے نفع بخش ہوسکتا ہے تو اسے شائع کروانے کی بھی کوئی ترتیب بنائی جائے۔ یہ ادارے وقتاً فوقتاً ہر شہر کی سطح پر مختلف پروگرامات کا انعقاد کریں، جن میں طلبہ کا تحقیقی کام منظر عام پر لایا جائے اور اس پروگرام میں شریک طلبہ کو انعامات سے نوازا جائے۔ اس سے یقینا تمام طلبہ میں تحقیقی کا م کا ذوق پروان چڑھے گا۔ اہل یورپ نے اپنے طلبہ میں تحقیقی ذوق کو پروان چڑھایا اور اپنے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جس سے تاریک ماضی رکھنے والے یورپین آج پوری دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں، جبکہ ہم تحقیقی اور علمی ذوق کو خیرباد کہہ کر پستی کی گہرائیوں میں جاگرے۔ اگر دینی مدارس کے طلبہ کا ساتھ دیا جائے اور ان کے ساتھ تعاون کیا جائے تو یقینا وہ اپنی تمام ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے عصر حاضر کی توقعات پر پورا اتریں گے۔

  • اے میرے رب مجھے واپس بھیج دے: فیاض الدین

    اے میرے رب مجھے واپس بھیج دے: فیاض الدین

    فیاض الدین
    اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ایک انسان جو گناہ گار ہو وہ جب مرتا ہے وہ اللہ سے کلام کرتا ہے ۔ لیکن کچھ لوگ اس مکالمے کا انکار کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ موت سے پہلے کا مکالمہ ہے اور انسان جب مر جاتا ہے اسے نہ عذاب ہوتا ہے اور نہ راحت ہوتی ہے یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ مردے میں شعور اور محسوس کرنے کی پاور نہیں ہوتی تو یہ کیسے بات کرتا ہے کیسے عذاب یا راحت کو محسوس کرتا ہے؟
    ان کے اسی سوال کی طرف آتے ہیں کہ مردہ شعور نہیں رکھتا تو عذاب یا راحت کیسے ہوتی ہے اور یہ بات کیسے کرتا ہے یہ لوگ قرآن کی سورہ نخل کی آیت پیش کرتے ہیں
    “أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ”
    اس کا انکار ہم بھی نہیں کرتے کہ مردے شعور نہیں رکھتے لیکن یہ شعور کس کے لیے نہیں رکھتے؟
    یہ مردے جو شعور نہیں رکھتے ہمارے لیے نہیں رکھتے نہ ہمیں سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں وہ اس دنیا سے کٹ چکے ہیں نہ چل سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں ان کی زندگی ہی ختم ہوگئی ہے ان کی ایک اور زندگی شروع ہوگئی ہے ان کا سفرِآخرت شروع ہو جاتا ہے۔
    وہاں اللہ کے ملائکہ ان سے پوچھتے ہیں “دنیا میں کس حال میں تھے” یہ ملائکہ اسی مردے سے بات کرتے ہیں اب سوال یہ ہے ان کو تو شعور نہیں ہے پھر بات کرنے کا فائدہ کیا ہے بات یہ ہے کہ ہم شعور نہیں رکھتے ہیں آخرت کے معملات اس دنیا کے قوانین سے ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں وہ ایک الگ دنیا ہے وہاں کے قوانین بھی الگ ہیں ۔
    قرآن سے معلوم ہے کہ جب مردہ دنیا سے جاتا ہے مرجاتا ہے وہ اللہ سے کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس بھیج اس دنیا میں جس کو میں چھوڑ آیا ہوں تاکہ میں نیک عمل کروں۔
    سوال یہ ہے کہ یہ مردہ کہاں گیا ہے جہاں سے یہ واپس آنا چاہتا ہے؟
    یہ واپس آنا کیوں چاہتا ہے؟
    کہاں واپس آنا چاہتا ہے؟
    وہاں ایسا کیا ہے جس سے یہ ڈر رہا ہے اور واپس آنے کی رٹ لگائی رکھی ہے؟
    خلاصہ بحث یہ ہے کہ مرتے ہی ملائکہ مردے سے کلام کرتےہیں اب کیسے کرتے ہیں کیوں کرتے ہیں یہ سوالات غیر ضروری ہیں جس کے ہم مکلف نہیں ہیں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ کے لیے مردہ زندہ ایک ہے اگر ایک بندہ مر جاتا ہے تو ہمارے لیے مرجاتاہے وہ ہماری نہیں سنتا ہمیں جواب نہیں دیتا ہم اس کو مارتے ہیں اسے محسوس نہیں ہوتا لیکن جب اللہ اس سے کلام کرتا ہے تو کلام ہوتا ہے وہ انسان جو چلا گیا ہے وہ راحت عذاب بھی محسوس کرتا ہے اور اسی کیفیت کو ہم دنیا کے اعتبار سے سمجھ نہیں سکتے ہیں اور جس چیز کو بندہ سمجھ نہیں سکتا ہے اس کاانکار کرنا حماقت ہے ۔ یہ سارے برزخی معملات ہیں کیونکہ اللہ اس مردے کو جو جواب دے گا وہ قرآن بتاتا ہے کہ
    “وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ”
    اس کے پیچھے برزخ ہے (جہاں وہ) اس دن تک کہ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے،

  • محسن کُش : خالد ایم خان

    محسن کُش : خالد ایم خان

    کیا مستقبل کی تاریخ کے حوالوں میں ہمیں احسان فراموش کا نام سے یاد کیا جائے گا ،کیوں کے ہم بنیادی طور پر بے حس اور محسن کُش واقع ہوئے ہیں ہماری تاریخ بھری پڑی ہے ہماری بے حسی کے اور احسان فراموشی کے کارناموں سے جس نے جب کبھی خلوص نیت کے ساتھ ہمارے اوپر احسانات کی بارش کی ہم نے اجتماعی طور پر سب سے پہلے اُسی کی تکذیب کی بجائے اس کے کہ یہ قوم اُس شخص کی احسان مند ہوتی بلکہ اُس کے کئے تمام احسانات کو پس پشت ڈال کر اُس کی طرف سے ایسے اپنے رُخ مبارک موڑے کہ جیسے اس شخص نے ہم پراحسان کرکے کوئی بہت بڑا جرم کر دیا ہے جس کی سزا بحر حال اس کو بھگتنی ہی ہوگی ، اور کچھ ایسے افراد تو آج بھی ہمارے معاشرے کے اندر اپنے اس قوم پر کئے گئے احسانات کے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں جس کا ذکر آگے چل کر کروں گا سب سے پہلے تو میں ذکر کرنا پسند کروں گا اس قوم کی اُس احسان فراموشی کا کہ جب بابائے قوم قائد آعظم محمد علی جناح صاحب کو سخت بیماری کی حالت میں جب کراچی منتقل کیا جا رہا تھا مسرور ائیر بیس پر طیارہ کی لینڈنگ کے بعد قائد آعظم محمد علی جناح صاحب کے اسٹریچر کو ایک خستہ حال ایمبولینس میںمنتقل کرکے اُن کی رہاش گاہ کی طرف لے جایا جانا تھا لیکن ماری پور کے علاقے میں وہ ایمبولینس خراب ہو گئی،جناب قائد آعظم صاحب روڈ پر بیماری کی حالت میں ایک ایمولینس کے انتظار میں پڑے رہے ایک گھنٹے تک سڑک پر گاڑیوں ،ٹرکوں اور بسوں پر گذرنے والے لوگوں کو بھی شائد معلوم نہ تھا کہ سڑک کنارے کھڑی اس خراب ایمبولینس میں اس ملک کا موجودہ گورنر جنرل اور اس ملک کا بانی حالت مرگ میں موجود ہے ، ایک گھنٹے کے بعد دوسری ایمبولینس آئی اور جناح صاحب کو ان کی رہاش گا ہ طیارے کی لینڈنگ کے تقربا پورے دو گھنٹے کے بعد پہنچایا جا سکا جہاں پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد 11ستمبر1948ء؁ کو محترم جناب قائد آعظم محمد علی جناح صاحب اس دار فانی سے کوچ کرگئے -
    یہ تو آپ لوگوں کے لئے ایک چھوٹی سی اسٹوری ہوگی لیکن میرے لئے ناقابل یقین منظر نامہ ، ملت کا پاسباں محمد علی جناح ، رہبر قوم ، عظیم لیڈر ، قائد آعظم ، ملک کا حاظر گورنر جنرل کن نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے گذر گئے ، کیا وجوہات تھیں اُس وقت ملک کی انتظایہ کو کہ اُن کے ملک کا ایک عظیم لیڈر بیماری کی حالت میں دنیا سے پردہ پوشی اختیار کرکے زیارت کے گیسٹ ہاؤس میں تین چار ماہ تک خود کو دنیا سے الگ تھلگ کر لیتے ہیں ،کیوں اُس وقت کے اکابرین نے محترم قائد کو علاج کروانے کے لئے قائل نہیں کیا جہاں آج اُنہی کے بنائے ملک کا ایک وزیر آعظم اپنا معمولی چیک اپ کروانے کے لئے بھی لندن یاترا ضروری سمجھتا ہے ، کیوں تنہا چھوڑ دیا گیا تھا جناب قائد محترم کو کیا کبھی کسی نے اس پر بات کرنا بھی ضروری سمجھا ،نہیں کبھی نہیں کیوں کہ ہمیں تو بس پکا پکایا کھانا چاہئے، پکانے والے کا ہم کیوں سوچیں ،ہم کیوں اپنا وقت برباد کریں ،یہ محنت کیا کم ہے کہ ہم اپنا منہ چلا کر اس کھانے کو کھانے میں مصروف عمل ہیں بس کھائے ہی چلے جارہے ہیں ،پیٹ پھٹنے کو ہیں لیکن ہم کھائے ہی چلے جا رہے ہیں ،ہماری ہوس ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی جتنا کھاتے چلے جارہے ہیں بھوک بھی مزید بڑ ھتی چلی جا رہی ہے، اس بھوک نے ہمیں آہستہ آہستہ خون آشام درندہ بنا دیا ہے اب ہم اپنے ہی لوگوں کا خون پینے سے بھی دریغ نہیں کرتے ،کھوتے ،کُتے تو ہم پہلے ہی کھا چکے ہیںبس کمی تھی تو صرف حضرت انسان کی جس کا گوشت بھی اب ہم نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں ،ہم لوگ مردار خور ہو چکے ہیں ،حرام خور ہو چکے ہیں ، اپنے چہروں پر معصومیت کا خول چڑھائے اندر سے شیطان کے بھی باپ ہیں ہم ،ہمیں فطرتا کمینہ بنا دیا گیا ہے ،شروع دن ہی سے ہمیں احسان فراموشی کا سبق پڑھایا گیا ہے ،ہم سب سے پہلے گلا اُسی کا کاٹتے ہیں جس نے ہم پر احسانات کئے ہوتے ہیں –
    اگر نہیں یقین تو اُٹھا کر دیکھ لیں اپنی تاریخ کہ ستر سالوں میں ہم نے کیا کیا اپنے محسنوں کے ساتھ کس کس انداز میں استحصال کیا ہم لوگوں نے اپنے محسنوں کا ، جنہوں نے اپنا سب کچھ تیاگ کر اس ملک اور قوم کی بھلائی کے لئے اپنے دن اور رات وقف کردئے ہم نے کیا کیا اُن کے ساتھ ،کیا کمی تھی ڈاکٹر عبالقدیر خان کو ہالینڈ میں ، زن ، زمیں اور زر کے ساتھ ساتھ شہرت کے انبار لگا دئے تھے ہالینڈ کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے آگے پھر کیا ضرورت آن پڑی تھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان تمام مال ودولت کے انباروں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے پاکستان آگئے وجہ تھی اور وہ وجہ بھی ایسی ہے کہ شرم سے میرا سر جُھک جاتا ہے ، دنیا میں پاکستان کی سر بلندی ، اسلام کی سر بلندی ،بڑے بڑے دیگر ایسے اصحاب بھی پاکستان کی تاریخ میں ضرور ملیں گے کہ جنہوں نے اس ملک اور قوم کی سر بلندی کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے لیکن میں بلا مبالغہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جناب قائد آعظم محمد علی جناح کے بعد دوسرے نمبر پر رکھتا ہوں ایک نے اس ملک کو تشخص دیا اور دوسرے نے اس کے نام کو دنیا کے اندر سر بلند کیا ، جس نے اپنا دن اور رات ایک کر دیا ،جس کی کاوشوں اور انتھک محنت نے اس ملک کو دنیا کے اندر پہلی اسلامی ایٹمی طاقت اور غیر متنازعہ ایٹمی طاقت بنا دیا ، جس نے ہنود ویہود ونصاری کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی اُسی دن ہی سے دنیائے اسلام کے یہ تینوں بدترین دشمن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پیچھے لگ گئے تھے اور مناسب موقع کی تلاش میں تھے جو کہ جنرل پرویز مشرف نے اُن کو فراہم کر دیا ،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ؟ کیا پُر خاش تھی جنرل مشرف کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ؟ کہ جس کو بنیاد بنا کرجنرل مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے پاکستان کے مایہ ناز سپوت کو ،پاکستان کے اس قومی ہیرو کو ، پاکستان کے اس دنیا کے نامور ترین ایٹمی سائنس دان کو دنیا کے اندر بدنام کر دیا ، آخر ایسا کونسا بین الاقوامی دباؤ تھا اُس وقت کے ملک کے صدر جنرل پرویز مشرف کے اوپر کہ خود ملک کا صدر دنیا کو بتاتا پھر رہا تھا کہ ہمارا ایٹمی سائنسدان دنیا کو ایٹمی ٹیکنالوجی چوری چھپے فروخت کر رہا ہے ، اس لئے ہم نے اُس پر پابندیاں لگا کر قید کردیا ہے ،امریکہ نے تو کبھی اپنے کسی ایٹمی سائنسدان پر پابندیاں لگا کر قید نہیں کیا کیوں کہ وہ دودھ کے دُھلے ہیں ،اسرائیلی سائنسدانوں کو ایٹمی ٹیکنالوجی رات سوتے خوب میں مل گئی تھی امریکی سائنسدانوں کا اُس میں کوئی کمال نہیں تھا –
    اسی طرح دنیا کے دیگر ملکوں کے ایٹمی سائنسدان بھی دودھ کے دُھلے ہیں وہ جو چاہے کرتے رہیں وہ ٹھیک ہے لیکن دنیا کے اندر غلط تھا تو صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان غلظ تھا کیوں کہ اُس کی سب سے بڑی اور بھاری غلطی یہی تھی کہ اُس نے پاکستان جیسے ایک غریب اسلامی ملک کو دنیا میں ایک عالمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ،جس کی سزا تو اُسے ملنی ہی چاہئے تھی جو وہ غریب آج تک بھگت رہا ہے دوسری طرف کمال ہوشیاری سے جنرل مشرف نے دنیا کے استعماری ٹولے کے کہنے پر پاکستانیوں کا ایسا برین واش کیا کہ سب کو یقین ہو گیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بڑا پاکستان کا مجرم کوئی اور نہیں ، ہیرو ایک دم زیرہ ہو گیا ،آج کہاں گئی وہ دولت جو ڈاکٹر قدیر خان نے کمائی تھی جو شخص آج قربانی جیسے فریضے کی انجام دہی سے محروم ہے پڑوسیوں کے ہاں سے آنے والے گوشت پر گزارا کرکے صبر وشکر بجا لاتا ہے اور سوچتا ہے کہ جو اللہ کی مرضی ، سوچیں جس شخص نے اس قوم کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کردی جس کے احسانات کا بدلہ ہم نے اس طرح ادا کیا کہ شائد مستقبل میں کوئی بھی دوسرا ایسا شخص سو مرتبہ سوچے گا کہ اس محسن کُش قوم کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کروں تو کیوں ۔
    میں ہمیشہ ہی سے کہتا چلا آیا ہوں کہ سچائی ہی میں جیت ہے سچ اور حق کبھی بھی چھپتا نہیں اور حق کہنے سے کبھی روگردانی مت کریں کیوں کہ جو قومیں حق گوئی سے محروم ہو جاتیں ہیں وہ آہستہ آہستہ تباہی کی جانب گامزن ہو جاتیں ہیں ،جھوٹ کا پُل کچھ ہی دیر قائم رہ پاتا ہے پھر ایک نہ ایک دن دریا برد ہو جاتا ہے دریا کی موجیں بہا کر لے جاتی ہیں جھوٹ کے سارے ملبے کو مجھے یاد آرہا ہے منگلا ڈیم جہاں کے کور کمانڈر جنرل مشرف تھے اور اُسی منگلا ڈیم کے پاس کی لوکیشن سیٹ کی تھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے غوری میزائل کے تجربہ کے لئے پرمیشن کے حصول کے بعد جس دن منگلا کور کے علاقے میں تجربہ کیا جانا تھا ڈاکٹر عبدالقدیر خان دیگر اہلکاروں کے ساتھ سائیٹ پر موجود تھے تو اُس وقت کے کور کمانڈر منگلا جنرل مشرف صاحب کچھ نابگتہ حالت میں وہاں تشریف لائے جس پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سخت الفاظ استعمال کئے اور کہا کہ آپ کو اس حالت میں سائیٹ پر نہیں آنا چاہئے تھا آج ہم ایک اہم قومی سنگ میل حاصل کرنے جارہے ہیں اور آپ اپنی حالت دیکھئے ، جس پر کور کمانڈر منگلا مشرف صاحب کو بڑی سُبکی برداشت کرنا پڑی تھی، کیا جنرل مشرف نے برسر اقتدار آنے کے بعد اپنا وہی غصہ نکالا ڈاکٹرعبدالقدیر خان پر کیا اُس وقت کے ملکی صدر نے ذاتی عناد کی خاطر ملک اور قوم کی ساری المیت کو داؤ پر لگا دیا ،اور اگر نہیں تو پھر قوم کو بتایا جائے کہ آخر کیوں یہود وہنود ونصاری کے کہنے پر ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے قوم کے ہیرو کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ، کیوں ہم نے اپنے ہی محسن کی کمر میں خنجر گھونپ دیا کیوں ہم محسن کُش بن گئے کیا تاریخ ہمیں محسن کُش کے الفاذوں سے یاد کرے گی ،کیوں کہ ہم محسن کُش ہیں ۔۔۔۔

  • مسیحا، پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    مسیحا، پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    بچی چھت سے گر پڑی.
    بچی کی تکلیف نےباپ کو تڑپا دیا.
    بیٹی گود میں اٹھائے ہسپتال پہنچا.
    ڈاکٹرز ہڑتال پر تھے .
    بچی نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی.
    میسحا تماشا دیکھتے رہے.
    انھیں اپنے مطالبات منوانے تھے.
    غم زدہ باپ لاش اٹھائے ان کی مسیحائی پر تھوک کر گھر لوٹ آیا.

  • اوباما امریکا کے آخری صدر، کیا پیشن گوئی پوری ہوگی؟

    اوباما امریکا کے آخری صدر، کیا پیشن گوئی پوری ہوگی؟

    ایک بار بلغاریہ کی اس نابینا خاتون نے نائن الیون، داعش کے عروج اور ایک سیاہ فام کے امریکا کا صدر بننے کی پیشن گوئی کی تھی۔ لیکن ان کی پیشن گوئیوں کے کئی خطرناک پہلوؤں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ سیاہ فام امریکا کا آخری صدر ہوگا۔

    بابا وانگا نے واضح انداز میں کہا تھا کہ امریکا کا 44 واں صدر سیاہ فام ہوگا اور ان کی پیشن گوئی کے عین مطابق براک اوباما امریکا کے 44 ویں صدر بنے۔ لیکن 1996ء میں 85 سال کی عمر میں انتقال کر جانے والی بابا وانگا نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ امریکا کے آخری صدر ہوں گے۔ یاد رہے کہ بابا وانگا کی پیشن گوئیوں کی درستگی کا تناسب 85 فیصد ہے۔

    تکنیکی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے تک یعنی 20 جنوری 2017ء تک براک اوباما ہی امریکا کے صدر رہیں گے۔ بابا وانگا نے کہا تھا کہ جب وہ سیاہ فام عہدہ سنبھالے گا تو اس وقت سخت معاشی بحران ہوگا۔ اس سے امیدیں بہت وابستہ ہوں گی لیکن سب کچھ الٹ ہوگا اور شمال اور جنوب کی ریاستوں کے درمیان تنازع بڑھ جائے گا۔

    وانگا نے اپنی زندگی میں سینکڑوں پیشن گوئیاں کیں جن میں سے ایک ‘عظیم مسلم جنگ’ کی بھی تھی جو 2010ء میں شروع ہوگی۔ دنیا نے دیکھا کہ یہ ‘عرب بہار’ کا زمانہ تھا۔ انہون نے یہ بھی پیشن گوئی کی تھی کہ یہ شام میں ہوگی اور 2043ء میں خلافت کے قیام کے ساتھ مکمل ہوگی جس کا مرکز روم ہوگا۔ جی ہاں! اٹلی کا دارالحکومت۔

    وانگا نے یہ بھی پیشن گوئی کی تھی کہ یورپ 2017ء کے اختتام تک ختم ہو جائے گا، یہ ایک بیابان بن جائے گا، جہاں زندگی کے کوئی آثار نہیں ہوں گے۔ ان کی مشہور درست ہونے والی پیشن گوئیوں میں 2004ء کا سونامی اور نائین الیون بھی شامل ہیں۔

    بحوالہ اردو ٹرائب

  • ہمارے معزز جج صاحبان اور حبِ جاہ کا فتنہ – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    ہمارے معزز جج صاحبان اور حبِ جاہ کا فتنہ – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق ہمارے جج صاحبان بالعموم الگ تھلگ زندگی بسر کرتے ہیں۔ کچھ ان کے عہدے کا بھی تقاضا ہے کہ ان کا لوگوں میں زیادہ گھل مل جانا مناسب نہیں ہوتا۔ کچھ ان کی ٹریننگ اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک عام سول جج بھی چند مہینے اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد خود کو بڑی توپ شے سمجھنے لگتا ہے۔ پھر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان تو بہت ہی اعلی مقام کے حامل ہوتے ہیں۔ ساری حکومتی مشینری ان کے سامنے جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ ہر کوئی ”مائی لارڈ“ کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ عدالت میں، اور عدالت کے باہر بھی، ایک خاص قسم کی پروقار خاموشی ان کی زندگی کی خصوصیت بن جاتی ہے۔
    پھر اچانک وہ ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ اچانک؟ حالانکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ انھیں کس عمر میں ریٹائر ہونا ہے۔ ہاں! اچانک، کیوں کہ انھیں ریٹائرمنٹ کے دن تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ریٹائرمنٹ کہتے کسے ہیں؟ اور اگر انھیں واقعی اچانک ہی ریٹائر ہونا پڑے، جیسا کہ بعض اصول پرست جج صاحبان کسی آمر کی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرکے واقعی اچانک ہی ریٹائر ہوجاتے ہیں، تو زندگی میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوجاتا ہے۔
    فوجی آمروں اور سیاسی بادشاہوں سے ہمارے جج صاحبان عموماً مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مسئلہ ”پیسہ“ نہیں ہوتا۔ انھیں سوئس اکاؤنٹس، یا لندن فلیٹس، میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ انھیں بس یہ درکار ہوتا ہے کہ جیسے کل انھیں مائی لارڈ کہا جاتا تھا، اب بھی انھیں مائی لارڈ نہ سہی تو کم از کم ”مائی باپ“ کہہ کر ہی پکارا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں کوئی بڑا عہدہ ملے، کوئی ایسا عہدہ سے جو بے شک ”فیصلے“ کا اختیار نہ رکھتا ہو لیکن کم از کم اس کا ایک دبدبہ ہو، ایک نام ہو۔
    آسان الفاظ میں، ہمارے جج صاحبان بالعموم حبِ مال کے فتنے میں نہیں بلکہ حبِ جاہ کے فتنے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ ساغر و مینا کا شوق بے شک نہ رکھتے ہوں، بلکہ یہ شوق ”افورڈ“ نہ کرسکتے ہوں ، لیکن چاہتے یہی ہیں کہ ساغر و مینا ان کی آنکھوں کے سامنے رہیں، خواہ ان کے ہاتھوں میں جنبش کی سکت بھی باقی نہ ہو۔
    ہمارے شریفوں کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ جج صاحبان کی اس کمزوری سے بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے انھوں نے بالعموم حب جاہ کے شکنجے میں گرفتار اور پارسائی کے زعم میں مبتلا جج صاحبان کو اسی طرح استعمال کیا ہے۔
    ہاں! چند ایک جج صاحبان کے اندر کا ”عام آدمی“ جج بن جانے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔ تو ان کے لیے ہمارے شریفوں کے بریف کیس حاضر رہتے ہیں۔

  • بچے کا سوال – محمد شاہد الہاشمی

    بچے کا سوال – محمد شاہد الہاشمی

    آج میں خوش تھا کہ میں نے بی اے پاس کرلیا ہے. مٹھائی لیے گھر آرہا تھا کہ میری نظر ایک بچے پر پڑی جس کی حالت یہ تھی کہ بال بکھرے ہوئے، مٹی میں لت پت، اشک زاروقطار جاری، کبھی کسی کاغذ کو اٹھاتا ہے تو کبھی کسی اور کو، اور پھر ہاتھ سے مٹی پر کچھ لکھتا ہے. میں بت بنا اسے دیکھ رہا تھا، ذہن میں سوالوں کا اژدہام تھا. یہ کیا کرتا ہے؟ یہ ایسے کیوں کرتا ہے؟

    میں اس کی طرف لپکا اور پوچھا، بیٹا تم یہ کیا کرتے ہو؟ اور کیوں کرتے ہو؟
    اس نے کہا کہ میں ایک یتیم ہوں، میرے ماں باپ نہیں ہیں لیکن مجھے پڑھنے کا شوق ہے. لیکن کتابیں خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، اس لیے روز اس جگہ آتا ہوں، بچے جو کاغذ پھینک دیتے ہیں اس سے پڑھ لیتا ہوں.
    میں جب تیسری جماعت میں پڑھتا تھا تو میرے والدین انتقال کر گئے اور ٹیچر نے سکول سے نکال دیا.
    والد غریب تھے، ہم ایک کرائے کے گھر میں رہتے تھے، مالک مکان نےگھرسے نکال دیا.
    اب نہ کھانے کو کچھ نہ پہننے کو، پڑھنا تو دور کی بات ہے.
    یہ سن کر میں اشک بار ہوگیا، میں روتا بت بنا کھڑا تھا کہ وہ چلا گیا.
    لیکن جاتے وقت کہہ گیا
    حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں تو جانوروں کا بھی خیال رکھا جاتا تھا لیکن کیا اب ہم جانوروں سے بھی ابتر ہو چکے ہیں؟
    اس سوال کا جواب معاشرے بالخصوص حکمرانوں پر فرض ہے.