Blog

  • کھول آنکھ – ابومحمد

    کھول آنکھ – ابومحمد

    کائنات کے ابتدائی سائنٹفک ماڈل قدیم یونانی اور ہندوستانی فلسفیوں نے بنائے، جن کے مطابق زمین کو کائنات کے مرکز میں رکھا گیا۔ صدیوں فلکیات کے مشاہدے نے ماہرین فلکیات کو heliocentric model ماڈل بنانے میں مدد کی جس کے مطابق سورج اس سولر سسٹم کا مرکز ٹہرا یہ دریافت بھی ہوئی کہ ہمارا کرہ ارض اور کئی اور سیارے اس سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اپنے سامنے چائے کی پرسکون پیالی رکھے شاید ہمیں یہ احساس ہی نہیں کہ ہمارا کرہ ارض سورج کے گرد 107,000Km/hr یعنی ایک لاکھ سات ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہا ہے۔ مزید مشاہدات نے ماہرین فلکیات کو یہ احساس دلایا کہ ہمارا یہ پورا نظام شمسی ایک کہشاں میں واقع ہے اور نہ صرف اس جیسے کئی نظام شمسی اس کہکشاں میں موجود ہیں بلکہ اس جیسی ان گنت کہکشائیں اس کائینات میں واقع ہیں۔ اس دریافت نے ماہرین کو یہ فرض کرنے پر مجبور کر دیا کہ اس طرح کی لاتعداد کہکشائیں کسی ایک یونیفارمڈ طریقے سے پھیلی ہوئی ہیں جن کا نا کوئی کنارہ ہے اور نا کوئی مرکز و محور۔ بیسویں صدی کے اوائل میں سائینسدان اتنا دریافت کر پائے کہ بہرحال یہ کائنات اک ابتدا رکھتی تھی، اور ابتدا کیا تھی ۔۔۔ بگ بینگ ۔

    کائنات ؟؟؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں شماریات کے دفتر ختم ہو جائیں اتنے سیارے، جہاں پر گنتی ختم ہو جائے اتنے ستارے، جہاں ہندسے چلا اٹھیں اتنی کہکشائیں، جہاں اعداد کی سانسیں ٹوٹ جائیں اتنے چھوٹے سیارے، ہزاروں لاکھوں چاند، خلا اور خلا کے مندرجات، اور مادے اور توانائی کے نا ماپے جا سکنے والے ذخائر اس کائنات میں شامل ہیں. کائنات کا سائز تو نامعلوم ہی ہے لیکن اشرف المخلوقات نے اپنی بساعت کے مطابق جتنی کائنات کو مشاہدہ کرنے کا دعوی کیا ہے اس قابل مشاہدہ کائنات کا قطر تقریبا 91 ارب نوری سال ہے، ان اکانوے ارب نوری سالوں کو بہت آسانی سے ناپا جا سکتا ہے۔ ایک نوری سال چھ ملین کلومیٹر یعنی ساٹھ لاکھ کلومیٹر کے برابر ہے۔ ہم اسی لامحدود کائنات میں موجود ارب ہا ارب کہکشاوں میں سے ایک کہکشاں کے ایک سولر سسٹم کے ایک سیارے پر رہتے ہیں جسے “زمین” کہتے ہیں۔ زمین کا قطر 40008 یعنی چالیس ہزار آٹھ کلومیٹر، زمین کے سورج کے گرد مدار کا کل سائز 149,598,262 km یعنی چودہ کروڑ پچانوے لاکھ اٹھانوے ہزار دو سو باسٹھ کلومیٹر ہے جس کے طے کرنے کا کل وقت 365 دن کا ہے۔

    اس دُنیا میں پائے جانے والے جانداروں کی اقسام تین کروڑ سے بھی ذائد ہیں۔ 2016 میں دنیا میں انسانوں کی کُل آبادی کا تخمینہ سات ارب چار کروڑ سے ذائد اور پاکستان کی کل آبادی کا تخمینہ بیس کروڑ کے لگ بھگ لگایا گیا ہے۔ پاکستان کا کُل رقبہ 796095sq/km یعنی تقریبا سات لاکھ چھیانوے ہزار اسکوائر کلومیٹر ہے۔ پاکستان کے شہر ملتان کا کُل رقبہ 3721sq/km یعنی تین ہزار سات سو اکیس اسکوائر کلومیٹر اور اس شہر کی آبادی تخمینتہ پچپن لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس تین ہزار سات سو اکیس اسکوائر کلومیٹر اور پچپن لاکھ کی آبادی والے اس شہر کے ایک چھوٹے سے گھر میں شاید کہ کوئی ایسا شخص رہتا ہو جو اپنے آپ کو طاقت میں یکتا، یوسف ثانی اور فلسفے میں سقراط کا جانشین سمجھتا ہو۔ شاید کہ اس کا خیال ہو کہ اسی نے وقت کی طنابیں سنبھال رکھی ہیں۔

    کھول آنکھ ۔۔!

    کائنات کے اس نظام میں تیری حیثیت ہوا کے بے قابو بگولے میں اڑتے ایک زرے کے جتنی بھی نہیں۔ بے شک انسان نے اللہ کی قدر کو نہ پہچانا جس طرح اس کی قدر کو پہچاننے کا حق تھا۔

  • جب ماں ہی بیگانہ ہو جائے !-وسعت اللہ خان

    جب ماں ہی بیگانہ ہو جائے !-وسعت اللہ خان

    557857-WusatullahNEWNEW-1468605895-811-640x480

    بادشاہت کا ادارہ کم ازکم سات ہزار برس پرانا ہے، پیشوائی کا ادارہ بھی لگ بھگ اتنا ہی پرانا ہے مگر بالغ رائے دہی یعنی ’’ون مین ون ووٹ‘‘ کا عملی اطلاق زیادہ سے زیادہ دو سو برس پرانا ہے۔ جمہوریت کے جتنے بھی نقصانات گنوا دیں مگر ایک فائدہ ضرور ہے۔

    مری گری جمہوریت میں بھی ایک ریوالونگ ڈور ہوتا ہے جس کے ذریعے عوامی توقعات پر پورے نہ اترنے والے شخص کو پرامن طریقے سے باہر نکالا جا سکتا ہے یا توقعات پر پورے اترنے والے کو دوبارہ اندر آنے کا موقع مل جاتا ہے۔ بادشاہت اور پیشوائی میں ریوالونگ ڈور نہیں ہوتا لہذا تبدیلی بغیر خون بہائے مشکل ہی سے ہو پاتی ہے۔

    بادشاہت اور پیشوائیت کو عوام کا نباض ہونے کی حاجت نہیں لیکن جمہوریت عوامی نبض پر مسلسل ہاتھ رکھے بغیر نہیں چل سکتی۔ پھر بھی چلانے کی کوشش کی جائے تو وہ جمہوریت کے لبادے میں فسطائیت ہوتی چلی جائے گی اور اس جمہوری فسطاییت کو رواں رکھنے والے راہ نما انفرادی و اجتماعی سوچ کو آگے بڑھانے اور نئے تصورات کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے بذاتِ خود اسٹیٹس کو کے جوہڑ کا حصہ ہو جائیں گے اور خبر بھی نہ ہو گی کہ جسے وہ جمہوریت بتا رہے ہیں وہ بادشاہت و پیشوائیت کی طرح جامد و ساکت شے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

    جمہوریت کو ہر وقت منا کے رکھنا پڑتا ہے۔ نخرے سہنے پڑتے ہیں۔نازک بدن ہوتی ہے۔ آپ زیادہ سختی سے پیش نہیں آ سکتے۔ مکمل توجہ مانگتی ہے۔ مسلسل لا پروائی برتی جائے تو اشاروں کنایوں اور رویوں سے وقتاً فوقتاً ناپسندیدگی کا اظہار کرتی رہتی ہے اور اگر تب بھی کوئی مسلسل اکتاہٹ برتے اور رویہ نہ بدلے تو پھر نرم و نازک حسین و مہربان دکھائی دینے والی اسی جمہوریت کو ڈائن یا ٹکیائی کا روپ دھارنے میں ذرا دیر نہیں لگتی۔

    بادشاہت ہو کہ پیشوائیت۔ان کے ہوتے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ آواز بلند ہونے پر جوتے پڑیں گے لہذا انھیں اس بیگانگی زدہ نظام سے زیادہ توقعات بھی نہیں ہوتیں۔لیکن جمہوریت میں چونکہ ہر شخص کو احساس دلایا جاتا ہے کہ اس کے حقوق و فرائص برابری کے ہیں لہذا جب اسے برابری کی لت لگ جاتی ہے تو ذرا سی بھول چوک اور اغماض بھی طبیعت پر گراں گزرتا ہے اور اس کی جمہوری انا کو اگر مسلسل ٹھیس پہنچتی رہے تو پھریہی انا اس سے پلٹ کر وار بھی کروا لیتی ہے۔عام آدمی بہت عجیب ہوتا ہے۔وہ اپنے رہنماؤں سے جتنا پیار کرتا ہے اتنی ہی نفرت بھی کر سکتا ہے اور نفرت اندھے فیصلے کروا لیتی ہے۔

    لہذا یہ ذمے داری جمہوریت اور مساوات کا جھنڈا بلند کرنے والوں کی ہے کہ وہ خود کو عقلِ کل سمجھنے کے تباہ کن خبط سے بچتے ہوئے عوام سے اپنے براہِ راست ناطے کے تار میں برقی رو مسلسل چیک کرتے رہیں اور عوام کو غصے اور نفرت کے راستے پر جانے سے پہلے ہی روک لیں۔جیسے گھر کے بڑے اپنے ناراض جذباتی بچوں کو سمجھا بجھا کر اور ان کے مزاج کی تبدیلی اور اتھل پتھل کے بنیادی اسباب سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے کوئی غیر عاقلانہ قدم اٹھانے سے روک لیتے ہیں۔

    اگر بروقت ایسا نہ ہو تو پھر کوئی بھی ذہین و تیز طرار موقع پرست مجمع باز نباض جمہوریت کے میلے میں محسن کی وضع قطع بنا کے در آتا ہے اور طبقاتی و اجتماعی محرومیوں کو راتوں رات ختم کرنے، لوگوں کو اچھے دن لوٹانے، پرانی عظمتیں بحال کرنے اور بے بس کر دینے والے پھٹیچر نظام کے ڈھونگ سے نجات دلانے کا سفوف بیچنے لگتا ہے۔بھیڑ جوق در جوق جمع ہونے لگتی ہے۔اس کے کانوں کو اجنبی مسیحا کی وہ تمام باتیں بھلی لگنے لگتی ہیں جو وہ اپنے روائیتی راہ نماؤں کے منہ سے سننے کو عرصہ ہوا ترس چکی ہے۔

    چنانچہ یہ بھیڑ ’’ایک رات میں جنسی قوت بحال‘‘ جیسی مارکیٹنگ کے سحر میں آ  کر ساحر کے پیچھے چل پڑتی ہے اور ساحر اپنی بانسری سے خوابوں کی مدھر دھنیں نکالتا مست بھیڑ کو کہیں بھی لے جا سکتا ہے اور جب لوگوں کی آنکھ کھلتی ہے تو عموماً وہ خود کو ایک اصلی باتصویر فسطائیت کے پنجرے میں قید پاتے ہیں۔ جمہوریت سے راتوں رات جان چھڑائی جا سکتی ہے مگر فسطائیت جان لیے بغیر نہیں ٹلتی۔ اور پاپولرازم کے جادو گر لبادے میں چھپی فسطائیت تو اپنے ساتھ کئی نسلوں کا مستقبل بھی باندھ کے لے جاتی ہے۔

    مثال کے طور پر جب جرمن جمہوریت کا عوام کے اصل مسائل سے ناطہ ٹوٹ گیا تو اسی نظام سے ہٹلر کا ظہور ہوا اور وہ شدید بحران زدہ جرمن معاشرے کو عظیم آریائی عظمت کے اڑن گھوڑے پر بٹھا کے لے گیا۔ اس سے پہلے اٹلی میں مسولینی پیدا ہو گیا مگر جرمن اشرافیہ کے بوڑھے کانوں میں خطرے کی کوئی گھنٹی نہیں بجی۔

    مصر میں جمال عبدالناصر عربوں کی تاریخی عظمت کی رتھ پر سوارراتوں رات نہیں آیا بلکہ اس کے پیچھے مصر کی نوآبادیاتی مزاج کی اسیر جمہوری اشرافیہ کی عشروں پے پھیلی مسلسل ناکامی اور اختیار کی میوزیکل چئیر گیم میں عام مصری کو تماشائی کے کردار سے زیادہ کچھ بھی نہ دینے کا سیاسی جرم کلیدی سبب تھا۔اور پھر جمال ناصر تو نہ رہا مگر اس کا کھانچہ سلامت رہا جس میں سادات، مبارک اور سیسی فٹ ہوتے چلے گئے اور انھوں نے عرب قوم پرستی کی چادر بھی اتار پھینکی۔

    گورے سے آزادی دلانے والی کانگریس کے احسان مند بھارتی عوام  پورے ساٹھ برس انتظار کرتے رہے کہ کانگریس انھیں روزمرہ مسائل سے کسی حد تک ہی سہی مگر آزادی دلا دے گی۔عوام نے ایمرجنسی کو بھی برداشت کر لیا، خاندانی سیاست کو بھی برداشت کرتے رہے، سترکے عشرے میں جنتا پارٹی اور پھر نوے کے عشرے میں واجپائی کی شکل میں سسٹم کو خبردار بھی کرتے رہے۔

    حتیٰ کہ اکیسویں صدی کے دس برس میں بھی کانگریس کے کھونٹے سے بندھے رہے مگر جب انھیں پکا یقین ہوگیا کہ کانگریس عمر رسیدہ، جامد اندھی و بہری ہوچکی ہے تو پھر انھوں نے اس پارٹی کا ہاتھ پکڑ لیا جسے انیس سو چوراسی میں صرف چار سیٹیں ملی تھیں اور انیس سو چھیانوے میں لوک سبھا کی اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود کوئی بڑی جماعت اس کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں تھی۔مگر لبرل و سیکولر اور پلورل اقدار کے جھنڈا برداروں نے ان عوامی وارننگز کو بھی حسنِ اتفاق ہی سمجھا۔

    وہی مودی جسے بیشتر بھارتی گجرات کے قاتل کے طور پر پہچانتے تھے۔یہی مودی دو ہزار چودہ میں پورے دیش کو اپنے پیچھے لگا کے لے گیا۔اب یہ اچھا ہوا کہ برا اس پر ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر برسوں ڈبیٹ ہو سکتی ہے مگر عوام اندھے بہرے جمہوری ناٹک سے اس قدر تنگ آ چکے تھے کہ مودی چھوڑ کالا چور بھی آجاتا تو اس کے ساتھ چلے جاتے۔اب ’’ اچھے دن‘‘ آئیں نہ آئیں ان کی بلا سے۔

    برطانیہ کی جمہوری اشرافیہ کو آج سے نہیں ہمیشہ سے ناز رہا کہ اس نے ایسا جمہوری میکینزم  وضع کر لیا ہے جو عوام کی دھڑکنیں گننے کے لیے بہترین ہے۔مگر بریگزٹ کے نتائج نے بیچ چوراہے میں بتا دیا کہ وہ برطانوی جمہوری نظام جس کی دنیا بھر نے فخریہ نقالی کی وہ بھی اسٹیٹس کو کے جوہڑ میں دھنس چکا ہے۔آنکھیں ہیں مگر صرف وہی دیکھ سکتا ہے جو دیکھنا چاہتا ہے۔کان ہیں مگر اسے اپنے سوا کوئی سنائی نہیں دیتا۔

    آٹھ نومبر کو امریکا میں بھی یہی ہوا۔ہاں یہ وہی امریکی ہیں جنہوں نے آٹھ برس پہلے بارک اوباما کو صدر بنا کے تاریخ رقم کی اور ایک بار نہیں دو بار منتخب کیا۔مگر ان آٹھ برس میں ایسا کیا ہوا کہ یہی امریکی تین سو ساٹھ ڈگری پر گھوم گئے۔تو کیا کروڑوں لوگ راتوں رات پاگل ہوگئے ؟ ہاں یہ پاگل ہوگئے کیونکہ ماں نے بچوں کی چیخ  سننے اور پھر سمجھنے کے بجائے کانوںمیں روئی ٹھونس لی تھی۔ایک آؤٹ سائیڈر آیا، مسکرایا ، ہاتھ پکڑا، گلے لگایا اور لے گیا۔اب خورد بین لے کر اسبابی دانشوری بھگارتے رہئیے۔

  • ”فیس بک بانی مارک زکربرگ انتقال کرگئے “

    ”فیس بک بانی مارک زکربرگ انتقال کرگئے “

    فیس بک نے ایک بھیانک غلطی کرتے ہوئے اپنے ڈیٹابیس میں موجود لوگوں کی بڑی تعداد کو مار دیا۔ شاید ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد فیس بک انتظامیہ ہوش و حواس کھو بیٹھی تھی۔

    سوشل میڈیا کی اس بڑی ویب سائٹ پر مر جانے والے افراد کی یاد میں ان کی فیس بک پروفائل پر ایک بینر لگایا جاتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ یہ صارف انتقال کر چکا ہے اور ان کی فیس بک ”وال“ کو ایک یادگار میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ گزشتہ روز غلطی سے فیس بک انتظامیہ کی غلطی سے سبھی کی وال یہی نظارہ پیش کرنے لگی یہاں تک کہ مارک زکربرگ کی بھی۔ اور ان کی موت کا بھی اعلان کر دیا گیا.
    facebook-memorial-urdutribe
    یعنی دنیا میں صرف دو لوگ بچے، ایک وہ جو فیس بک کے’قتل عام‘ کا نشانہ بنے اور دوسرے وہ جو بچ گئے۔

    فیس بک نے اس غلطی پر معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ ”آج مختصر وقت کے لیے وہ پیغام ان اکاؤنٹس پر پوسٹ ہوگیا تھا جو یادگاری پروفائلز کے لیے ہوتا ہے۔ یہ بھیانک غلطی تھی جسے ہم نے اب ٹھیک کردیا ہے۔ ہم اس پر معذرت خواہ ہیں۔“

  • نسلی شرف کی بحث –  مولانا سید احمد یوسف بنوری

    نسلی شرف کی بحث – مولانا سید احمد یوسف بنوری

    اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے، اس کے ثغور بلاحدود، اس کے افق ورائے فلک، کوئی رشتۂ و پیوند اس کی علاقہ بندی نہیں کرسکتا، زمان و مکان کی کوئی زناری اسے دامن گیر نہیں، وہ ہرعہد کے لیے تتق نیلی کا فرمانِ بلاریب ہے، یہ وہ بحر ِبےکنار ہے جہاں ملتیں مٹ جائیں تو اجزائے ایماں ہوجاتی ہیں، روم کا صہیب، حبشہ کا بلال اور فارس کے سلمان ایک بنیانِ مرصوص کی خشتیں ہیں، عربی کو عجمی اور عجمی کی عربی پر فضیلت کی ہر بنیاد چودہ سوسال قبل ہی ایک امی نے اپنے قدموں تلے روند ڈالیں. ایک میزانِ تقویٰ ہے جہاں ہر کہ و مہ اپنا حساب پاتا ہے، اور آدم کے بیٹے اپنا شرف طے کرتے ہیں، نسل و رنگ کے امتیازات یہاں شرک فی الخلق کہلاتے ہیں، اس کے گلستان میں گلہائے رنگارنگ زینتِ چمن کا باعث تو ہوتے ہیں، مگر ان کےالوان کی بنا پر باغباں ان میں تفریق نہیں کیا کرتا، یہاں موجیں لہروں سے مل کر کنارہ تلاش کرتی ہیں نہ کہ ان کی باہمی آویزش سے ایسا تلاطم جنم لیتا ہے جو سنگھاسنِ حیات کو ہی ڈبو دیتا ہے، غرض توحیدِ حقیقی کی امانت کا حامل یہ مذہب اپنے پیرووں میں جہاں بانی کا ایسا نظریہ پیدا کرتا ہے جو رنگ و نسل کی محدودیتوں کا پابند نہیں رہتا، بلکہ اس کا نعرہ پیکار تو اس سے کم پر بس ہی نہیں کرتا.

    ہر ملک ملکِ ماست
    کہ ملکِ خدائے ماست

    لیکن ان تمام مسلمات کے باوجود اسلام کے بارے میں یہ آدھا سچ، ادھوری حقیقت اور ناتمام بیانیہ ہوگا، کیونکہ اس دین کی بنیاد فطرت کے مسلمات پر رکھی گئی ہے، وہ انسانی احسات کے زاویے بہتر تو بناتا ہے مگر انہیں مسخ نہیں کرتا بلکہ وہ خود اپنے آوامر و نواہی میں ان کی درست ترجمانی کرتا ہے، قوموں اور قبیلوں کو باہمی سببِ تعارف ماننے سے اس کو انکار نہیں، وہ ”مہاجرین“ و ”انصار“ کی تاریخی تقسیم سے صرف ِنظرنہیں کرتا بلکہ ان کی تحسین اس انداز سے کرتا ہے کہ بجائے خودیہ دو مختلف فضیلتیں قرارپاتی ہیں، خانوادہ نبوی سے ہونا اس کے ہاں جرم نہیں جس پر وقت کے یزید اقربا پروری کی پھبتی کسیں بلکہ صلّ علی پڑھتی امت کے لیے اس کے نبی کے اہل بیت تمسک بالحق کا ذریعہ بنتے ہیں، اولادِ آدم میں سے ”آل ابراہیم“ و”آل عمران“ کا ذکر آیات الہی میں ان کی فضیلتوں کا عنوان قرار پاتا ہے، خلافت بعد از نبوت کے لیے اس کے ہاں ”الائمۃ من قریش“ کے اشارے پائے جاتے ہیں اور دلیل بھی ایسی بتائی جاتی ہے کہ جو انسان شناسی کی معراج نظر آتی ہے کہ
    [pullquote]الناس تبع لقریش، برہم لبرہم و فاجرہم لفاجرہم[/pullquote]

    لہذا اسلام کے بارے میں یہ گمان کرنا اس کے ساتھ نادان کی دوستی ہوگی کہ وہ متنوع اقوام و ملل کے قیام اور ان کے باہمی امتیازات کی طبعی ،فطری اور تاریخی وجوہ سے بے بہرہ ہے.

    اسلام کی روشنی میں نسلی شرف کی منصفانہ حدود طے ہیں، اور اس کے صالح و غیر صالح اجزاء میں تفریق واضح ہے، بدقسمتی سے اس گزشتہ صد ی میں اس عنوان کے تحت مختلف انتہائیں سامنے آئی ہی ہیں، کہیں نسلی شرف کے ترانہ کی لے اتنی تیز ہوئی کہ انسان کو قومیت کی سان پر چڑھا کر ”العروبہ“ کی ایسی مے پلائی گئی کہ خلافت کی قبا ہی ترک ِ نادان کے ہاتھوں چاک ہوگئی، مگر دوسری جانب ایسے ناعاقبت اندیش بھی پائے جاتے ہیں جن کے نزدیک ملکی سرحدوں کا وجود حرام اور وطن کی محبت ہی ازروئے شرع گمراہی ٹھہری، یہ ارشاد تو اسلام کی اساس ہے کہ
    [pullquote]من بطاء بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ[/pullquote]

    مگر اس حقیقت کو بھی اس فیض ازلی ہی نے بیان کیا ہے.
    [pullquote]الناس معادن کمعادن الذھب و الفضۃ[/pullquote]

  • موت کا جھٹکا – نجم درویش

    موت کا جھٹکا – نجم درویش

    سرمگین آنکھیں، صراحی دارگردن،گلابی ہونٹ، گلاب کی پنکھڑیوں جیسے گلابی گال، مخروطی پورے، موتیوں جیسے دانت، سب حسین نین نقشے، موت کے اِک جھٹکے سے سب بےرونق ہو جائیں گے. عہدے، منصب، رشتے ناطے، سب ختم، سا پرایا ہے صاحب! جب لے گا، کوئی پَر نہیں مار سکے گا، اور مَر جائے گا. ڈاکٹروں سمیت سب رشتےدار انگشت بدنداں ہوں گے، افسوس تو کر رہے ہوں گے، زندگی کی تھوڑی سی رمق دینے کے متحمل اور بااِختیار نہیں ہوں گے، امانت کے لوٹانے کا وقت جو آ چکا ہوگا. بہت کچھ ملا تھا بہت کچھ، جس حسین کی جان نکالی گئی ہوگی، اُس کی جان کو کس مقام کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے، سب خبر ہوگی، خاب و خسران لوگوں کی صف میں بھیجا جا رہا ہے، یا فائزالمرام لوگوں کی صف میں، سب جانتا ہوگا. دنیوی آنکھیں بند کی جا رہی ہوں گی، اُخروی آنکھیں کھل چکی ہوں گی.

    آہ کہ ماں اور باپ، کنبہ اور قبیلے کا رونا اِسے فائدہ نہیں پہچا سکے گا، چاہے سمندر آنسو بہا ڈالیں، مخالفین کا اِس کی موت پہ قہقہے مار کر فضا میں گونج پیدا کر لینا اِس کو مضرت نہیں پہنچا پائے گا، اِس کے اپنے اعمال کا گٹھڑ کھلے گا، [pullquote]فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّتٍ خَیْراً یَّرَہُ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّتٍ شَرّا ًیَّرَہْ،[/pullquote]

    کا عملی نمونہ اس کے سامنے پیش ہونے والا ہوگا، قبر یا تو اُس کے لیے سَجی سیج کا منظر پیش کرنے کا تیار ہوگی یا اللہ نہ کرے جہنم کے گڑھوں میں سے گڑھا. جسم کے حُسن پہ اس وقت فیصلہ نہیں بلکہ اعمال کے حُسن پر آج فیصلہ کیا جائے گا.

    یاد رکھیے! حَسین اعمال کا موقع دنیا ہے، حَسین اعمال کا بدلہ موت کے وقت سے ملنا شروع ہو جائے گا، اعمال کے حُسن کی فکر جسم کے حسن کی فکر سے بڑھ جائے گی تو یقین کیجیے، موت بھی سوہنڑی، قبر بھی سوہنڑی، اور آنے والی لامحدود زندگی بھی حَسین ہو جائے گی…!

  • فلک سے روح دھرتی پر گرائی جانے والی ہے – فیض محمد شیخ

    فلک سے روح دھرتی پر گرائی جانے والی ہے – فیض محمد شیخ

    فیض محمد شیخ فلک سے روح دھرتی پر گرائی جانے والی ہے
    مری برسوں کی پل بھر میں کمائی جانے والی ہے

    جنہوں نے خون سے لپٹے ہوئے اجسام دیکھے ہیں
    قیامت ان کی آنکھوں سے اٹھائی جانے والی ہے

    دھواں اٹھ اٹھ کے پھولوں سے لپٹ کے رونے والا ہے
    اک ایسی آگ گلشن میں لگائی جانے والی ہے

    جہاں ہر شخص سنتے ہی سماعت ڈھانپ لیتا ہے
    صدا اک ایسی بستی میں لگائی جانے والی ہے

    تو لازم ہے تڑپتا دل نکالوں اپنے سینے سے
    تمہاری یاد جو دل سے اٹھائی جانے والی ہے

    ابھی سے آنکھ میں آنسو ابھی سے دل تڑپتا ہے
    کہانی تو ابھی باقی سنائی جانے والی ہے

  • اسلاف کا طریقہ اختلاف – عابد محمود عزام

    اسلاف کا طریقہ اختلاف – عابد محمود عزام

    عابد محمود عزام کسی بھی معاشرے میں یہ ممکن نہیں کہ تمام انسان ایک ہی سوچ، فکر، مذہب، عقیدے اور مسلک کے حامل ہوں، کیونکہ انسانی معاشرہ اس گل دستے کی مانندہے، جس کی سجاوٹ و خوبصورتی کے لیے مختلف رنگ و اقسام کے پھولوں کا ہونا ضروری ہے۔ معاشرے میں انسانی مزاج اور سوچ کا یہ تنوع فطری اور طبعی ہے، جو معاشرے کی خوبصورتی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ شاید اسی لیے یہ اختلاف اور تنوع اسلامی روایت کا شروع سے ہی حصہ رہا۔ میثاق مدینہ کے مشمولات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ کئی مختلف قبائل کے اس میثاق میں شامل ہونے کا مقصد مختلف نظریات اور کلچر رکھنے والے طبقات پر مشتمل ایک متنوع معاشرہ تشکیل دینا تھا۔ یہ آفاقی حقیقت ہے کہ ہر دور اور ہر خطے میں مختلف نظریات اور مذاہب کے افراد کا مل جل کر رہنا معاشرے کی تکمیل کا حصہ ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان ہمیشہ سے اپنے مذہبی نظریات کے متعلق انتہائی حساس واقع ہوا ہے۔ اب ایک طرف باہم مل جل کر رہنا فطری و طبعی امر ٹھہرا، جبکہ دوسری جانب انسان کا اپنے مذہبی نظریات پر کمپرومائز کرنا بھی ناممکن ہے۔ ایسے میں انسان کے سامنے دو راستے ہیں: ایک راستہ ہے تصادم اور ٹکراو¿ کا، یعنی ہر شخص اپنی مذہبی سوچ کو غالب کرنے کے لیے تصادم اور تشدد کی راہ کا چناﺅ کرے، لیکن اس صورت کو اختیار کرنے سے ایک تو زور زبردستی کسی پر اپنی مذہبی سوچ کو مسلط کر دینا ناممکن ہے، جبکہ اس صورت میں امن اور انسانیت جس طرح تباہ ہوگی، وہ بھی سب پر ظاہر ہے، لہٰذا اس کی اجازت کسی بھی مذہب سے نہیں مل سکتی، جبکہ دوسرا راستہ ہے مفاہمت، ڈائیلاگ اور مکالمے کا۔ مکالمے و ڈائیلاگ کا مطلب ہے کہ مختلف خیالات و نظریات کے لوگ پر امن بقائے باہم ”جیو اور جینے دو“ کے فارمولے پر آپس میں معاملات طے کرتے ہوئے اپنے مذہبی معاملات کو سلجھائیں، اپنے نظریات کو تھامے رکھیں، جبکہ دوسروں کے نظریات کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا کر تصادم کی صورت پیدا نہ کریں۔ یقینا ہرذی شعور انسان تصادم اور ٹکراو ¿ کی بجائے مکالمے اور ڈائیلاگ کو ترجیح دے گا۔

    دین اسلام نے امن و سلامتی، برداشت و رواداری پر عمل کرتے ہوئے تصادم و ٹکراﺅ سے گریز کرنے کی تلقین کی ہے۔ اسلام کا مزاج یہ معلوم ہوتا ہے کہ تصادم و ٹکراﺅ سے بچتے ہوئے مکالمے کی پالیسی اپنائی جائے، کیونکہ اسلام قیامت تک کے انسانوں کی رہنمائی کے لیے آیا ہے اور حالات و واقعات میں جدت و تبدیلی آنے کی وجہ سے جدید اور مختلف فیہ مسائل میں اہل علم قیامت تک انسانوں کی رہنمائی اپنے اپنے انداز میں کرتے رہیں گے۔ یہ ممکن نہیں کہ تمام اہل علم عوام الناس کی رہنمائی کسی ایک ہی طریقے پر کریں، یقینا ان کے طریقہ کار اور دلائل میں فرق ہوگا، کیونکہ قرآن و حدیث نے بہت سے مسائل کو صراحت کے ساتھ ذکر نہ کر کے اہل علم کے سپرد کردیا ہے۔ قرون اولیٰ میں مختلف علماءو فقہاءپیش آمدہ مسائل کو اپنے اپنے فہم کے مطابق مختلف طریقوں سے سلجھاتے آئے ہیں، لیکن کبھی تصادم اور ٹکراﺅ، سب و شتم اور استہزا و توہین کی نوبت نہیں آئی۔ عہد رسالت میں مسلمانوں کے لشکر کو بنو قریظہ پہنچ کر عصر کی نماز ادا کرنے کی ہدایت کی گئی، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنے اپنے فہم اور اپنی اپنی تشریح کے مطابق الگ الگ عمل کیا، جس پر نہ تو صحابہ رضی اللہ عنھم کے درمیان کسی قسم کا تنازع پیدا ہوا اور نہ ہی اطلاع ملنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو ڈانٹا یا ناراضی کا اظہار کیا، بلکہ دونوں کی توثیق فرمائی۔ صحابہ رضی اللہ عنھم کے دور میں بھی یہی صورت حال رہی کہ مختلف صحابہ رضی اللہ عنھم نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق مختلف فتاویٰ دیے اور مختلف علاقوں میں جا کر جس طرح سے دین سکھایا، وہی طریقے ان علاقوں میں رواج پذیر ہوگئے، اس طرح سے دین پر عمل کرنے کی متعدد صورتیں وجود میں آئیں، لیکن یہ مختلف فتاویٰ اور متنوع عمل کبھی بھی تنازعات کا باعث نہیں بنے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں دین پر عمل کی مختلف صورتیں ختم کر کے سب لوگوں کو ایک ہی طریقے پر جمع کرنے کی تجویز پیش کی گئی تو انہوں نے نہ صرف اس تجویز کو مسترد کردیا، بلکہ اپنی قلم رو میں آنے والے تمام علاقوں میں ایک حکم نامہ بھجوایا، جس کا لب لباب دین پر عمل کی ان تمام صورتوں کو تسلیم کرنا تھا۔ انہوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پوتے قاسم بن محمد رحمہ اللہ عنہ سے یہ بھی فرمایا کہ اگر بڑی سے بڑی دولت پیش کی جائے، تب بھی میں اس بات کی تمنا نہیں کروں گا کہ صحابہ رضی اللہ عنھم کے درمیان یہ اختلاف نہ ہوتا، اس لیے کہ اگر یہ اختلاف نہ ہوتا تو امت کے لیے وسعت و آسانی پیدا نہ ہوتی۔

    جب امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے خلیفہ وقت نے ان کی کتاب”موطا “ کو نافذ کر کے تمام لوگوں کو اس پر عمل کا پابند بنانے کی درخواست کی تو انہوں نے خلیفہ کو اس ارادے پر عمل سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ”لوگوں تک دین کے بارے میں مختلف باتیں پہنچی ہیں، مختلف علاقوں کے لوگوں تک جس جس انداز سے دین پہنچا، وہاں کے لوگوں نے اسے اختیار کر لیا ہے اور اپنی عملی زندگی کو اس میں ڈھال لیا ہے، اب اس چیز کو وہ درست سمجھ کر اختیار کر چکے ہیں، انہیں اس سے روکنا بہت سنگین ہوگا، اس لیے لوگ جس حال میں ہیں، ان کو اسی پر رہنے دیا جائے۔“ حاصل یہ کہ اختلاف کو گوارا کرنا اور اس کو اس کا صحیح درجہ دینا مسلمانوں کی علمی روایت کا حصہ رہا ہے، بلکہ جلیل القدر تابعی یحییٰ بن سعید انصاری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اہل علم وسعت اختیار کرنے والے ہوتے ہیں، اس لیے اہل افتا ہمیشہ اختلاف رائے کرتے رہیں گے، چنانچہ بعض اوقات ایک ہی چیز کو ایک عالم اور مفتی حلال قرار دیتا ہے اور دوسرا حرام قرار دیتا ہے، اس لیے نہ تو پہلا دوسرے کو برا کہتا ہے اور نہ ہی دوسرا پہلے کو۔“ یہی وجہ ہے اس دور میں اختلاف رائے کو نہ تو کبھی منافرت اور لڑائی جھگڑے کا باعث بننے دیا جاتا تھا اور نہ ہی کسی کو اپنی رائے قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ فروعی، عملی، نظریاتی اور اصولی اختلافات کے باوجود اہل علم کے درمیان پرامن بقائے باہم، برداشت اور ایک دوسرے کے احترام کا ماحول قائم تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہمارا طرز عمل مجموعی طور پر اس سے بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اختلاف کو خلاف اور نزاع کا ذریعہ نہ بنایا جائے، تاکہ معاشرے میں سکون اور امن کا ماحول پیدا ہو۔

  • صلیبی جنگوں کے آخری راؤنڈکی تیاری – مولانا محمد جہان یعقوب

    صلیبی جنگوں کے آخری راؤنڈکی تیاری – مولانا محمد جہان یعقوب

    محمد جہان یعقب امریکامیں صدارتی انتخابات کامرحلہ مکمل ہوچکاہے اور ”خلاف توقع“ ایک سینئرسیاست دان کو ہرا کر ایک سرمایہ کار برسر اقتدار آ چکا ہے۔ امریکی الیکشن میں دل چسپی لینے والے اہل وطن کی اکثریت ٹرمپ کی جیت کوملکی سلامتی کے لیے نیک شگون قرارنہیں دیتی، ان کاخیال ہے کہ اگر ہیلری کلنٹن کامیاب ہوجاتیں تو پاکستان کے حق میں بہتر ہوتا۔ ان کا تاثر یہ ہے کہ برا ہوا جو ٹرمپ کامیاب ہوگیا۔ حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکا جس ٹریک پر چل چکا ہے، اب وہاں کوئی بھی حکمران آئے، وہ اس سے نہیں ہٹ سکتا، امریکا کے پالیسی ساز کئی کئی برسوں کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان پالیسی سازوں کے رگ و ریشے میں پاکستان اور اسلام دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، جس کے مطابق وہ پالیسی ترتیب دیتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد بش، کلنٹن، اوباما، تمام صدور اسی پالیسی کے مطابق زمین ہموار کرنے کے لیے برسراقتدار لائے گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ کواقتدار تفویض کیا جانا بھی اسی منصوبہ بندی کی ایک کڑی ہے۔ اگر وہ یہ کہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو امریکا میں داخل نہیں ہونے دے گا، پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر سخت نظر رکھے گا، بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا، تو اوبامانے کیا یہ سب کچھ نہیں کیا تھا؟ کیا ان سب اقدامات میں ہیلری اس کے ساتھ برابر کی شریک نہیں تھی؟ اب ان لوگوں کی خوش فہمی بھی دور ہوجانی چاہیے جو امریکی عوام کو کلین چٹ دیا کرتے تھے کہ امریکی عوام کھلے دل والے لوگ ہیں۔ ٹرمپ کے انتخاب سے اندازہ ہوگیا کہ وہ مسلمانوں کے لیے کیا عزائم رکھتے ہیں، ان کی جیت نے امریکی ووٹرز کے اندر کے بغض خصوصاً مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت کو سب پر عیاں کر دیاہے۔

    ٹرمپ کوجس منظرنامے میں اقتدار مل رہاہے، وہ یہ ہے کہ امریکا مسلم دشمنی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور اس نے مقامی مخالفین، چاہے وہ حکمران ہوں یا اپوزیشن، کو ساتھ ملا کر مسلم ممالک میں تباہی و بربادی، قتل عام اور مسلم کشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں سب سے بڑا اتحادی اور فرنٹ مین قرار دینے کے باوجود امریکا نے ہمیشہ دھوکا دیا، افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھایا اور اب مکمل طور پر اپنا جھکاؤ بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف کر دیا۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ نہ صرف نیوکلیئر انرجی تعاون کا معاہدہ کیا بلکہ اسے نیوکلیئر سپلائیرز گروپ میں شامل کرنے کے لیے مہم چلائی۔ ملک کو اندرونی عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی، ڈرون حملے میں گھروں کے گھر اجاڑ دیے، ڈالروں کی چکا چوند اور امداد کے موہوم سراب دکھا کر ہمارے حکمرانوں کو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال کیا۔ پہلے پاکستان میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کے نیٹ ورک کو مضبوط کیا، پھر مذہبی انتہا پسندی، لسانی تعصب اور حقوق کی عدم فراہمی کے کارڈز استعمال کرکے ہمارے ہی بھائیوں کو ہمارے خلاف کھڑا کیا، پھر ان ہی کے خلاف ہمیں لڑنے کا حکم دیا، یوں وزیرستان ہو یا بلوچستان، جنوبی پنجاب ہو یا سندھ ، مقتل کا منظر پیش کرتے رہے، جس میں قاتل بھی ہم اور مقتول بھی ہم ہی تھے۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج کی دوراندیشی سے اب صورت حال کچھ بہتر ہوئی ہے، ورنہ اپنے مفادات کے اسیر سیاست دانوں نے تو عملی طور پر ملک کو امریکی باج گزاری میں دے ہی ڈالا تھا۔

    ہمیں ان کے غم میں نہیں گھلناچاہیے۔ ”بیگانی شادی“ میں ہی”دیوانے“ ہوتے رہے تو خاکم بدہن ہمارا حال اور بھی ابتر ہوجائے گا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو درست خطوط پر استوار کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان اور اسلام کے خلاف لب و لہجہ بتاتا ہے کہ اب امریکا صلیبی جنگوں کا آخری راؤنڈ کھیلنے جا رہا ہے۔ امریکا ایک حقیقت ہے، اس کی طاقت اور عالمی منظر نامے پر اس کے اثر و رسوخ کو جھٹلانا خود فریبی کے مترادف ہے، لیکن خارجہ پالیسی کی تطہیر ضروری ہے۔ ہمیں دنیا کی انصاف پسند رائےعامہ کوساتھ ملا کر اپنی پوزیشن مضبوط بنانی ہوگی، اس کے لیے ضروری ورک ناگزیر ہے۔ پاکستان نے جب کبھی بھی ایسا کوئی اسٹینڈ لیا، اس کے دل خواہ نتائج سامنے آئے۔زیادہ پرانی بات نہیں جب وطن عزیز کی طرف سے نیٹو کی سپلائی بند کی گئی تھی تو امریکی اور اتحادی منت سماجت پر اترآئے تھے کہ رسد نہ ہونے کے باعث افغانستان میں پھنسی امریکی فوج کو شدید دشواری کا سامنا ہے۔ شومیِ قسمت، ہم ہی اپنی بات پر نہ جم سکے ورنہ عالمی تجزیہ کاروں نے کہہ دیا تھا کہ یہ رسد اگرچند دن نہ کھلتی تو امریکیوں کو دن میں تارے نظر آنے تھے۔ پاکستان اسی طرح ہرمعاملے میں استقامت کے ساتھ امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے سامنے ڈٹ جاتا، تو کوئی بعید نہیں تھا کہ امریکا ہمیں اپنی کالونی بنانے کے خبط سے نکل کر برابری کی سطح پر ہم سے ڈائیلاگ کرتا۔ ہماری خارجہ پالیسی آقا اور غلام کے بجائے اتحادی ہونے کی بنیاد پر استوار ہونی چاہیے، تاکہ ہم اس سے کچھ اپنی بھی منواسکیں، ہم اس سے شکوہ بھی کرسکیں اور اس کے غلط کو غلط بھی کہہ سکیں، جس طرح ایران کا امریکا کے ساتھ معاملہ ہے۔ کاش! ہمارے حکمران ایران سے ہی ملی وملکی غیرت وحمیت مستعار لے لیں، آخر قومی ضمیر کا یہ سودا کب تک ہوتا رہے گا؟ یکطرفہ ٹریفک کا سلسلہ اب روکنا ہوگا، ورنہ ملک مزید انتشار کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ غیروں کو آلہ کار ہماری درمیان سے کیوں مل رہے ہیں؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ محرومیوں کا ازالہ اور حقوق کی فراہمی کسی بھی ملک دشمن کے عزائم ناکام بنانے کا کارگر طریقہ ہے، ہمارے مسائل کی بہت بڑی وجہ امریکی مداخلت بھی ہے، جس کا توڑ بھی اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تمام ہم وطنوں کو ان کے جائز حقوق دیں، ان کی محرومیوں کا ازالہ کریں، بےلاگ عدل اور انصاف کی فراہمی کو اپناشعار بنائیں۔

    یہاں ہم ایک دوسری بات کی طرف بھی توجہ مبذو ل کرناچاہتے ہیں، کہ گورنر سندھ کی برطرفی کی ایک اہم وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ وہ ایم کیوایم کو پرویزمشرف کو تھالی میں رکھ کر پیش کرنا چاہتے تھے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ دبئی بھی اسی مقصد سے گئے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو مستقبل میں کہیں ایک بار پھر یہ بزدل کمانڈو، جو ایک فون کال پر ڈھیر ہوگیا تھا، ہماری ملکی تقدیر کا مالک نہ بن جائے۔ پالیسی ساز ادارے یقیناً باخبر ہیں اور ان سے یہی اپیل اور توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اس ”طالع آزما“ کا راستہ روکیں گے، جس نے امریکی ایما پر ڈرون اور خودکش حملوں کی دلدل میں وطن عزیز کو دھکیلا۔

  • وزیراعظم صاحب! اعلانات کا مذاق نہیں، عملی اقدامات کریں – مظہر صدیقی

    وزیراعظم صاحب! اعلانات کا مذاق نہیں، عملی اقدامات کریں – مظہر صدیقی

    آپ نے چند دن پہلے یہ خوش خبری دی تھی کہ ملک بھر میں لوڈشیڈنگ آدھی کر دی جائے گی. ہم اسی روز سے چار پانچ گھنٹے کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سامنا کر رہے ہیں. ہمارے چولہے بھی گیس نہ ہونے کی وجہ سے ٹھنڈے ہوئے پڑے ہیں. سلنڈر سے کام چل رہا ہے. اس پر ظلم یہ بھی کہ سلنڈر مافیا صارفین سے من مانی قیمتیں وصول کر رہا ہے.
    اب آج کے اخبارات کی شہ سرخیاں ہیں،کہ دو ہزار اٹھارہ میں ملک بھر میں بجلی اور گیس کی فراوانی ہو گی. کیا کروں کہ مجھے آپ کے آئے روز کے اعلانات دیوانے کا خواب معلوم ہوتے ہیں. یقین ہی نہیں آتا. ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو عوام کو درپیش مسائل کا ادراک ہی نہیں. آپ عوام کے دکھ اور درد کو محسوس ہی نہیں کر رہے. سردی کی آمد کے ساتھ ہی گیس کا بحران یہ خبر دیتا ہے کہ اس حوالے سے قائم ادارے کا کوئی ہوم ورک ہی نہیں تھا. گیس کی کمی بارے اور عوام کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ادارے نے کچھ نہیں کیا. کوئی منصوبہ بندی سرے سے کی ہی نہیں گئی. عوام نے اپنے ووٹوں سے آپ کو اس عالی شان منصب تک پہنچایا تھا تو آپ کو پہلے دن سے عوام کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے کوشش کرنی چاہئے تھی. آپ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے تو متحرک رہے، کئی حکمت عملیاں اختیار کیں. مگر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہ کیا. سڑکوں کے جال بچھانا ایک اچھا اقدام ہے. مگر گھر کو روشن رکھنے کے لیے بجلی ضروری تھی. ملک کی معیشت اور اقتصادی بہتری کے لیے بھی بجلی اور گیس کی وافر دستیابی بنیادی ضروریات میں شامل تھے. آج اقتدار کے چوتھے برس میں داخل ہونے پر بھی آپ عوام کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھے ہوئے ہیں. آپ کو ملک کے عوام کا احساس ہے تو خدارا ہنگامی بنیادوں پر عوام کو بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنائیں. خواتین نفسیاتی مسائل سے دوچار ہو رہی ہیں. بجلی اور گیس کے بحران کی شدت نے ملک کی اکثریت عوام کو ذہنی اذیت سے دوچار کر رکھا ہے.

    آپ ہر عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جب مختلف ترقیاتی سکیموں کا اعلان فرماتے ہیں. بجلی اور گیس کی فراہمی کا اعلان فرماتے ہیں تو خاکسار کے ساتھ ساتھ بیس کروڑ عوام بھی آپ کے اعلانات کو مذاق سمجھ رہے ہوتے ہیں. بس خدارا قوم سے مذاق کا سلسلہ بند کر کے جنگی اور ہنگامی بنیادوں پر عوام کو بجلی اور گیس فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیجیے. تاکہ عوام سکھ کا سانس لیں.

  • المیہ میٹرک امتحان میں پوچھےگئے ایک سوال کا – مولوی انوارحیدرتونسوی

    المیہ میٹرک امتحان میں پوچھےگئے ایک سوال کا – مولوی انوارحیدرتونسوی

    مولوی انوار حیدرعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے تحت منعقدہ امتحان میں میٹرک کے طلبہ سے بڑی بہن پہ مضمون لکھنے کے سوال نے ملک بھر میں حیرانگی، پریشانی اور شرمندگی کی لہر دوڑادی ہے، ہر زبان پر یہی سوال ہے کہ اِس سوال کا تعلیم سے کیا تعلق ہے؟ ایک محترم رشتہ کی اِس طرح سے تشریح طلب کرنا آخِر کس ضرورت یا مجبوری کے تحت ہے؟ فزیک ٹیسٹ لینے کے لیے مرد رشتے کافی نہیں؟ بہن کے بجائے والد، دادا، نانا سے متعلق بھی تو پوچھا جاسکتا ہے، بہن کے متعلق پیپر میں سوال کرنا اقدار اور اخلاقیات پہ حملہ کے سوا کچھ بھی نہیں. اندر کی کہانی یہ ہے کہ بیرونی قرضوں پہ چلنے والا نظامِ تعلیم ایسے سوال کرنے کا، مخلوط کلاسز منعقد کرنے اور آزاد خیال نصاب نافذ کرنے کا پابند ہے. صرف محکمہ تعلیم نہیں تقریبا ہر ادارہ پورا ملک ہی گروی رکھا جا چکا ہے اور قرضہ دینے والوں کی مسلط کردہ شرائط بنا سوچے سمجھے قبول اور پوری کی جارہی ہیں، چنانچہ ترجیحی طور پہ وطنِ عزیز پاکستان جیسی نظریاتی اسلامی ریاست میں تنقیصِ دین، تردیدِ دین اور آزادخیالی کی تبلیغ زور و شور سے جاری ہے، اور قانون اِس پر کوئی گرفت نہیں کرتا، نظریہ پاکستان اور دین سےمحبت کرنے والے بےبسی کے عالم میں حقوق طلبی کے لیے ریاست (حکومت) کی طرف دیکھتے ہیں کہ ایک رِٹ پٹیشن بےدینی کی اِس وبا پہ دائر کر دیں. روشن خیالی کے نام پہ پھیلائی جانے والی آزادخیالی اور لبرزم کو قانون کی دائرے میں لائیے، تنقیصِ اسلام پہ کوئی قدغن لگائیے، معاشرت اور رشتوں کے تقدس کے خلاف حرکت پر کوئی ضابطہ اخلاق ہی مقرر کردیجیے کہ دین بیزار حلقے اکثریتی آبادی مسلمانوں کی دل آزاری نہ کرسکیں. مگر افسوس کہ حکمران اپنی اِس ذمہ داری سے قطعی لاتعلق ہوچکے ہیں، اقتدار کی ہوس اور بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کی خاطر ایک مسلم ریاست کے حکمران ریاست کے بنیادی نظریہ اور جمہور کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے غیرملکی ایجنڈا پورا کرنے میں لگے ہیں. مان لیا کہ اقلیتوں کا تحفظ لازمی ہے، امرِ شرعی ہے، مگر اِس کے ساتھ اکثریت کا بھی تو احترام کیا جانا چاہیے، اکثریت کا یہ مطالبہ عین فطری اور مطابق قوانین جمہوریت ہے کہ ریاست اپنے مذہب کی حفاظت کا خود بندوبست کرے، چنانچہ چاہیے تو یہ تھا کہ اسلامی ریاست اپنی رعایا کے جمہور طبقے کی اِس اپیل پہ عمل کرتی لیکن حقیقت حال اِس کے برعکس ہے، اکثریت پابندیوں کی زد میں ہے بلکہ دوقدم آگے نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مذہب اور نظریہ کی بات کرنے پر قسم ہا قسم کے طعنے سننے کو ملتے ہیں اور اِس کو جرم سمجھا جاتا ہے یعنی کہ
    √ حق مانگنا بھی ہےگستاخی کا عمل

    جامعات اور اداروں میں اخلاق باختہ سروے اور اس طرح کے سوالات سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہیں، پسِ پردہ گیم کچھ اور چل رہی ہے، ریاست کی فکری اور نظریاتی تبدیلی کے لیے بھرپور محنت جاری ہے اور شومی قسمت حکومتی مشینری اپنے تمام وسائل کے ساتھ اِس میں مکمل طور پر شریک کار و معاون نظر آتی ہے، جبکہ عوام کو دہشت گردی اور معاشی بدحالی میں الجھا دیا گیا ہے، تو جب حکومت اسلام اور لبرلزم کی اس سردجنگ میں جمہور کے مقابل ایک فریق کی حیثیت سے واضح پوزیشن سنبھال چکی ہے اور وزیراعظم لبرل پاکستان کا نعرہ لگا چکے ہیں تو زور پکڑتی آزاد خیالی کے خلاف ہم عوام اُس سے قانون سازی کی امید کس طرح کر سکتے ہیں؟ ہاں اپنے حقوق کا مطالبہ دہراتے رہنا ہوگا کہ پروپیگنڈہ بھی ایک جنگ ہے، کوشش بھی ایک عمل ہے، اِسے جاری رکھنا ہوگا، اور ساتھ ساتھ اپنے دینی افکار، مذہبی شِعار اور عقائد و نظریات کا علمی تحفظ بھی کرنا پڑے گا، اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے اُنہیں دین کا درس دیں، دینیات سے مانوس کریں، تلاوتِ قرآن، مطالعہ دین اور اور اہتمامِ نماز کا عادی بنائیں. عمومی طور پہ اِحیائے دین اور اشاعتِ دین کی کوشش کریں، اِس کے لیے ابتدا ہمیں اپنی ذات سے کرنا ہوگی اور دوسروں کو بھی ساتھ جوڑنا ہوگا مثلاً سورۃ العصر ایک جامع اور مظبوط راہِ عمل فراہم کرتی ہے، ہمیں اپنی اصلاح کی فکر کے ساتھہ دعوتِ صبر کا پیغام بھی عام کرنا ہوگا، اپنے اچھے عمل سے اپنی اولاد کو صراط مستقیم پر چلنے کا عادی بنانا ہوگا، ہم کوئی بات نافذ نہیں کرسکتے مگر رواج تو دے سکتے ہیں، عمل تو کرسکتے ہیں، پس ہمیں عمل کرنا ہوگا کہ عمل محفوظ کرلیا جاتا ہے، عمل ضائع نہیں ہوتا، خیر کی دعوت عام کیجییے، الفاظ گردش میں رہتے ہیں، آواز اپنا سفر جاری رکھتی ہے، امید باندھنے اور خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، امید پہ زندگی گذاری جاسکتی ہے، خواب کوئی دیکھتا ہے جبکہ تعبیر کسی اور کے دامن میں گرتی ہے، اپنی آنے والی نسلوں کو امید دیجیے، اپنے خواب اُن کے سپرد کردیجیے، امیدوں کی تعمیر اور خواب کی تعمیر وہ خود حاصل کر ہی لیں گے
    توں شاکر دعا منگی رکھ
    دعا جانڑے خدا جانڑے