Tag: کوئٹہ

  • جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا: علی عالم زادہ

    جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا: علی عالم زادہ

    کس کی آستین ، اور کونسا خنجر..ایک گرنیڈ پھینکو نہ رہے گی آستین اورنہ ہی لہو بچے گا، رہیں‌گےتوبس چیتھڑے اس زندہ قوم کے.

    باقی رہا خنجرتواس کی قوت گویائی تو ان دھماکوں کی گونج میں‌کب کی سلب ہو چکی، بےچارہ اس دور کے انساں کی جلادی پرمہربلب سہما ہوا خود سے لگی توقعات پر بے وجہ ہی شرمندہ کسی کونے کھدرے میں‌منہ چھپائے بیٹھا ہے.

    آرمی پبلک سکول پشاور جسے ہم نے سانحہ اے پی ایس کا نام دے رکھا ہے کی گونج سے ابھی کانوں کے پردوں کی لرزش تھمی نہیں‌تھی کہ کوئٹہ میں قوم کی خدمت کا عزم کرنے والے ماؤں کے لال، جنہوں نے ابھی صرف عزم ہی کیا تھا ،جنہوں نے ابھی اس یزیدی دنیا کے “پریکٹیکل تھپیڑوں” سے آشنائی اورانتہا پسندی کے بھڑکے ہوئے آتش کدے کی تپش کو محسوس ہی نہیں‌کیا تھا بڑے بڑے خواب آنکھوں میں‌سجائے دہشتگردی کے عفریت کا شکار ہو گئے.

    لیکن ایسا ہوا کیوں؟ کس کے گناہ کا کفارہ ادا کیا ان پرعزم جوشیلے جوانوں نے. یہ تو اپنی جان دینے ہی نکلے تھے اپنے گھروں سے ان شہیدوں کی مائیں‌بھی یہ جانتی ہوں‌گی کہ ان کے بیٹوں نے جس مقدس پیشے کا انتخاب کیا ہے اس میں ایک نہ ایک دن ایسی خبر بیواؤں کی مانگ اور ماؤں کی نیندیں اجاڑنے آ ہی جاتی ہے تاہم کیا انہوں نے سوچا بھی ہو گا یہ زیرتربیت سپاہی جو ابھی جوبن پر پہنچے ہی نہیں جنہیں‌ابھی خود اپنی حفاظت کے طریقہ کار سے مکمل واقفیت نہیں انہیں‌ یوں بے موت قربان کر دیا جائے گا.

    کون ہے اس دہشتگردی کا ذمہ دار، کس کی اتنی ہمت ہےکہ پاکستان کی دنیا کی بہترین افواج کے جاری آپریشن میں‌بھی ہمارے بچوں، بوڑھوں اورجوانوں کو مارنے چلے آتے ہیں، جتنی بھی احتیاطی تدابیر کر لی جائیں جتنے بھی ناکے، چیکنگ پوائینٹز، مورچے یا آپریشن کر لیں لیکن ابھی ایک زخم بھی ٹھیک سے بھرا نہیں‌ ہوتا کہ اسے پھر سے تازہ کر دیا جاتا ہے.

    ابلتے لہو کے دھاروں نے پوری قوم کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے. اور اضطراب کیوں نہ ہو؟ جن کے بچے مرتے ہیں ان میں‌تو بس اضطراب ہی زندہ رہ جاتا ہےایک جھوٹی آس ایک امید پر سسکتے زندگی گزارتے ہیں‌کہ شاید کبھی ہمارے بچوں کے خون ناحق کا انصاف ہو سکے شاید کبھی تو اس درد کا مداوا ہو سکے اور کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو صدمے کی شدت سے سود و زیاں کے احساس سے بھی مبرا ہو جاتے ہیں مرنے والوں کے ساتھ گھر والے بھی مرجاتے ہیں بس ضروریات زندہ رہ جاتی ہیں زندہ لاشیں ایک دوجے کو دیکھتے ایک دوسرے کے لئے جینے کی کوشش میں سسک سسک کر اپنے زندہ لاشے گھسیٹتے رہتے ہیں.

    سانحہ کوئٹہ بے شک ایک المیہ ہے لیکن اس سے بھی بڑا ایک المیہ ہے کہ اس سانحے میں جام شہادت نوش کرنے والوں کو تو ایمبولینسیں‌بھی میسرنہ آ سکیں ان شیر جوانوں کے شہید لاشوں کو مسافر بسوں کی چھتوں پر رکھ کر بھجوایا گیا

    protocol
    جبکہ دوسری جانب اس سلطنت پاکستان کے بادشاہوں کو جب کوئی خطرہ ہوتا ہے، جو کہ انہیں‌ہمیشہ ہی ہوتا ہےتو ان کے ہمراہ پروٹوکول کے قافلے چلتے ہیں.سرکاری گاڑیوں کی ایک لمبی قطار جو عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل کی جاتی ہیں اسی “باشعور” عوام کے راستے روک کر فراٹے بھرتے گزر جاتی ہیں. کیونکہ یہ “بڑے لوگ” ہیں “اہم لوگ” ان کے سر پہ ملک چلتا ہے انہیں کچھ ہو جائے تو شاید ہمارا وطن “یتیم” ہو جائے گا تو پھر ان کا کیا جو اپنی جانوں کو مشقتوں کی بھٹی میں تپا کر فولاد بناتے ہیں اس وطن عزیر کی حفاظت کےلیئے ،ان جوانوں نے اپنے “ڈنڈ” نہیں دکھانے ہوتے اور اگر دکھائیں بھی تو اس طاقت کا مظاہرہ وطن کے دشمنوں کے لئے ہوتا ہے بادشوں کی بادشاہی کے مظاہرے کی طرح نہیں‌جودشمن سے “دیدہ دل فرش راہ کیئے” ملتے ہیں اور دشمن چاہے ملک پر حملہ بھی کر دے لیکن ایک مذمتی بیان جاری کرنے سے پہلے بھی لاکھوں روپے مشورے دینے کی مد میں‌لینے والوں کے تحفظات دور کرنے کے چکر میں‌پڑے رہتے ہیں‌اور”باشعور”عوام نگاہیں جمائے بیٹھی رہتی ہے کہ ابھی بادشاہ سلامت کوئی ایسا فرمان جاری کریں گے کہ جلتے کلیجوں میں‌ٹھنڈک اتر جائے گی .

    لیکن یہ جمی ہوئی نگاہیں اسی امید پر جمے جمے پتھرا جاتی ہیں‌ اور بازی کوئی اور مار جاتا ہے. یہ جو سلطنت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہلالی پرچم ہے یہ تو ہم نے لہرانے کے لیئے بنایا تھا. پاک سر زمین شاد باد کا ترانہ پڑھتے اس معززپرچم کو فخر بھرا سیلیوٹ کرنے کیلئے لیکن یہ کیا…کہ ہمارا سبز ہلالی پرچم شہیدوں کی لاشوں پر لپیٹ لپیٹ کر اتنا خوں رنگ کر دیا گیا ہے اس کا سفید حصہ ہی نہیں بلکہ سبز بھی ان بچوں کے خون کی لالی میں‌ڈوب گیا ہے .

    خون کی یہ لالی ہم سے لہو لہو لہجے میں‌پوچھتی ہے کہ اس پاک وطن پر چھاتے ہوئے سرخ اندھیروں کے بادل کب چھٹیں گے اس پرچم کا لہو اگلتا رنگ کب دھل کر ہلالی ہوگا؟

    اس پرچم کے لئے جان دینے والوں‌کو “پروٹوکول” کب ملے گا ؟
    یہ “بادشاہ” کب مسافر بسوں میں سفر کریں گے ..

    آخر کب ہم جاگیں‌گے..کب تک “سانوں کی ” کی بین بجاتے رہیں گے ؟ “سانوں کی” جی کوئٹہ میں‌ہواجوبھی ہوا، پرہم تو محفوظ ہیں‌..پشاور میں‌ہوا تو “سانوں کی” ہم تو محفوظ ہیں‌،ہمارے بچے محفوظ ہیں ..

    آخرمیں‌ دوخبریں آپ کے ساتھ شیئر کرتا چلوں‌، دیکھتے ہیں ان خبروں میں‌چھپی شہیدوں کی چیخیں‌آپکے کانوں تک پہنچتی ہیں‌یا پھر وہی”سانوں‌کی” کی گردان کرتے دامن بچا جاتے ہیں.

    پہلی خبر یہ ہے کہ بلوچستان کے وزیراعلی کی توجہ گزشتہ مہینے ہی کوئٹہ کے ٹریننگ سینٹرکی گارے سے بنی بناء‌حفاظتی اقدامات کے پانچ فٹ کی دیواروں کی جانب مبذول کروائی گئی تھی ،جس پر انہوں نے جو ایکشن لیا وہ قوم کے سامنے ہے اور دوسری خبر یہ بھی ہے کہ اسحق ڈارنے “جاتی عمرہ” کے حفاظتی اقدامات کیلئے 75 کڑوڑ روپے کی مانگ کی ہے.

    یہ “سانوں کی ” اب اور نہیں‌چلے گی، بے حسی کے اس دلدل سے نکلیئے کہ اس سے پہلے کوئی آپ کے “زندہ لاشے” سے ناک پر رومال رکھے اپنا پاک دامن بچاتے “سانوں کی ” کہتا ہوا گزر جائے

  • بدلتا ہوا بلوچستان-جاوید چوہدری

    بدلتا ہوا بلوچستان-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    بلوچستان یونیورسٹی  کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر جاویداقبال بہت بڑی کیس اسٹڈی ہیں‘ وفاقی حکومت کو یہ کیس اسٹڈی پی آئی اے‘ پاکستان اسٹیل مل اور پاکستان ریلوے جیسے تمام مریض اداروں کو پڑھانی چاہیے‘ یہ اسٹڈی ثابت کر دے گی اگروِل ہو‘ آپ اگر میرٹ پر تقرری کریں‘ آپ اختیارات دیں اور آپ کام میں مداخلت نہ کریں تو ادارے بھی اپنے قدموں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
    >
    بلوچستان یونیورسٹی 2013ء تک پاکستان کا خوفناک ترین ادارہ تھا‘ کیمپس میں مسلح جتھے کھلے عام پھرتے تھے‘ یہ اساتذہ کو سرعام گولی مار دیتے تھے اور کسی میں لاش اٹھانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی‘ ہڑتال عام تھی‘ طالب علم امتحان کے بغیر پاس ہو جاتے تھے‘ ہاسٹلوں پر قبضے تھے‘ بجلی اور گیس کے میٹر کٹے ہوئے تھے‘ یونیورسٹی میں پاکستان کا نام لینا جرم تھا‘ جھنڈا لہرانے یا پاکستان زندہ باد کہنے والوں کو گولی مار دی جاتی تھی اور یونیورسٹی کے ملازمین کی تنخواہیں رک چکی تھیں۔

    آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی بلوچستان یونیورسٹی دنیا کی واحد یونیورسٹی تھی جس کے اساتذہ نے 2013ء میں یونیورسٹی گاؤن پہنے‘ ہاتھوں میں کشکول اٹھائے اور بھیک مانگنے کے لیے سڑک پر کھڑے ہو گئے اور لوگوں نے انھیں باقاعدہ بھیک دی‘ یونیورسٹی کے زیادہ تر پروفیسر اس دور میں کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد نقل مکانی کر گئے لیکن پھر یہ یونیورسٹی بدل گئی‘ یہ تعلیم کا گہوارہ بن گئی‘ طالب علم تین ہزار سے11 ہزار6 سو ہو چکے ہیں‘ پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد 180 ہے اور ان میں 135 فارن کوالی فائیڈ ہیں‘ یہ لوگ امریکا اور یورپ کی نامور یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کر کے کوئٹہ آئے ہیں۔

    آپ یونیورسٹی میں جس سے ہاتھ ملاتے ہیں وہ ڈاکٹر نکلتا ہے اور اس کے پاس ہارورڈ‘ آکسفورڈ اور ہائیڈل برگ کی ڈگری ہوتی ہے‘ یونیورسٹی میں چار سو طالب علم ایم فل کر رہے ہیں‘ پی ایچ ڈی پروگرام بھی فل سوئنگ میں چل رہا ہے‘ آپ کو یونیورسٹی کے لباس‘ چال ڈھال اور اطوار کسی بھی طرح پنجاب اور سندھ کی بڑی یونیورسٹیوں سے کم دکھائی نہیں دیتے‘ لائبریری بڑی اور خوبصورت ہے‘ یہ رات تک آباد رہتی ہے‘ نوجوانوں کو نشست نہ ملے تو یہ فرش پر بیٹھ کر پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔

    کیمپس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگتے ہیں اور پاکستان کا پرچم بھی لہراتا ہے‘ یونیورسٹی اپنے اخراجات کا 39 فیصد خود پیدا کر رہی ہے‘ وہ ادارہ جس کاسٹاف کشکول لے کر سڑک پر کھڑاتھا اس کے اکاؤنٹ میں اب نصف ارب روپے جمع ہیں اور یہ اچھے طالب علموں کو فیسیں واپس کر رہا ہے ‘ آپ کو شاید یہ جان کر بھی حیرت ہو گی یہ ملک کی واحد یونیورسٹی ہے جو اپلائی کرنے والے تمام طالب علموں کو داخلہ دے دیتی ہے‘ یہ معجزہ کیسے ہوا اور یہ کتنی مدت میں ہوا؟ یہ سوال اصل کیس اسٹڈی ہے۔

    یہ معجزہ وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر جاوید اقبال نے صرف دو سال میں کیا‘ ڈاکٹر جاوید اقبال فارما سسٹ ہیں‘ یہ بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم بھی تھے اور یہ یہاں پڑھاتے بھی رہے‘ یہ خاندان سمیت کراچی شفٹ ہو گئے تھے‘ حکومت نے 2013ء میں دہشت گردی سے نبٹنے کا فیصلہ کیا‘ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ کو کوئٹہ کا کور کمانڈر بنایا گیا‘ انھیں مکمل اختیارات دیے گئے‘ یہ وژنری اور ان تھک انسان ہیں‘ یہ آگے بڑھے‘ کام شروع کیا۔

    بلوچوں کے مسائل سنے اور ان مسائل کا حل تلاش کرنے لگے‘ میں دو دن کوئٹہ رہا‘ میں نے ان دو دنوں میں جنرل ناصر جنجوعہ کا نام ہر زبان سے سنا‘ یہ محبت ثابت کرتی ہے جب فیصلے میرٹ پر ہوتے ہیں تو لوگ قومیت اور لسانیت دونوں سے بالاتر ہو کر خدمات کا اعتراف کرتے ہیں‘ میری جنرل جنجوعہ سے صرف ایک ملاقات ہے‘ یہ ملاقات سری لنکا میں ہوئی‘ میں نے جنرل صاحب سے عرض کیا‘ آپ کی آنکھیں آپ کے چہرے کے تاثرات سے میچ نہیں کرتیں‘ وہ بولے ’’کیسے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کے چہرے پر سنجیدگی لیکن آنکھوں میں شرارت ہوتی ہے‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا‘ مجھے کوئٹہ میں آ کر معلوم ہوا یہ بلوچستان میں بہت مقبول ہیں‘ لوگ دل سے ان کا احترام کرتے ہیں۔

    مجھے یہاں آ کر محسوس ہوا حکومت بلوچستان کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہے‘ یہ جان چکی ہے ہم نے اگر دوریاں ختم نہ کیں تو بلوچستان ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا‘ ہماری حکومت جان چکی ہے بھارت اور امریکا بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں‘ یہ بلوچستان کو پاکستان سے توڑنا چاہتے ہیں اور ہم اگر ملک کو سلامت دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بلوچوں سے اپنا دل جوڑنا ہو گا اور جنرل ناصر جنجوعہ نے یہ کام کیا چنانچہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انھیں یاد کر رہے ہیں‘ یہ کوئٹہ میں ہیرو کی طرح پہچانے جاتے ہیں‘ ڈاکٹر جاویداقبال بھی جنرل ناصر جنجوعہ کی دریافت تھے‘ یہ انھیں واپس کوئٹہ لائے اور بلوچستان یونیورسٹی ان کے حوالے کر دی۔

    ہمارے ملک کی تاریخ ہے ہم نے جس ادارے کو تباہ کر دیا وہ ادارہ دوبارہ قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکا لیکن بلوچستان یونیورسٹی استثنیٰ ہے‘ یہ مکمل طور پر تباہ ہوئی اور پھر دوبارہ کھڑی ہو گئی‘ یہ بالکل ایسے ہے جیسے کوئی شخص فوت ہو جائے‘ اسے کفن پہنا کر قبر میں دفن کر دیا جائے اور یہ دوبارہ زندہ ہو جائے‘ بلوچستان یونیورسٹی ایک ایسا معجزہ ہے۔

    میں 28 اکتوبر کی صبح بلوچستان یونیورسٹی گیا‘ گیٹ پر پہرے تھے‘ دیواریں قلعہ نما تھیں اور ان پر درجنوں کیمرے لگے تھے‘ وائس چانسلر کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات ہیں‘ یہ گھر سے نکلتے ہیں یا یونیورسٹی سے گھر جاتے ہیں تو ان کے آگے پیچھے ‘دائیں بائیں ایف سی کی گاڑیاں چلتی ہیں‘ یہ یونیورسٹی کے اندر بھی گارڈز کے نرغے میں رہتے ہیں۔

    ڈاکٹر صاحب اپنی پشت پر لوڈڈ پستول بھی لگائے رکھتے ہیں اور دفتر میں ان کی میز کے نیچے کلاشنکوف ہوتی ہے‘ میں نے ان انتظامات کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا ’’ مجھے چار گروپوں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں‘ ملک کے دشمن یہ سمجھتے ہیں میں نے بند یونیورسٹی کھول کر ان کے ایجنڈے کو نقصان پہنچایا اور ہم لوگ بلوچستان کو زندہ کر رہے ہیں‘ یہ لوگ ہمارے صوبے کو برین لیس کرنا چاہتے ہیں‘ یہ ڈاکٹروں اور وکلاء کو ختم کرتے چلے جا رہے ہیں‘ یہ اس کے بعد پروفیسروں کو نشانہ بنائیں گے۔

    ہمارے پاس ملک کی سب سے بڑی اور مضبوط فیکلٹی ہے‘ یہ لوگ اس فیکلٹی کو اڑانا چاہتے ہیں چنانچہ میں اپنے اساتذہ کی حفاظت بھی کر رہا ہوں اور اپنی بھی‘ میں انھیں بتا دینا چاہتا ہوں‘ میں بطخ کی طرح نہیں مروں گا‘ میں بلوچ کی طرح لڑ کر مروں گا‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ’’ہم کسی شخص کو یونیورسٹی کا ماحول خراب نہیں کرنے دیتے‘ ہماری یونیورسٹی کا اپنا حفاظتی نظام ہے اور ہمارے پاس ٹرینڈ گارڈز ہیں۔

    یہ انتظامات دہشت گردوں کو یونیورسٹی کی طرف نہیں دیکھنے دیتے لہٰذا ہمارے اساتذہ اور طالب علم اطمینان سے پڑھ اور پڑھا رہے ہیں‘‘ مجھے ڈاکٹر جاوید اقبال کی اسپرٹ اچھی لگی‘ یہ میدان میں ڈٹ گئے ہیں‘ بلوچستان کے زیادہ تر لوگ ڈاکٹر جاوید اقبال کی طرح میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں‘ یہ بھی بطخ کی طرح نہیں بلکہ لڑ کر مرنا چاہتے ہیں‘ وفاق بھی ان لوگوں کی مدد کر رہا ہے‘ بلوچی نوجوان دھڑا دھڑ فوج‘ نیوی اور فضائیہ میں بھرتی کیے جا رہے ہیں۔

    پی ایم اے کے ہر بیچ سے 70 بلوچی نوجوان سکینڈ لیفٹیننٹ بن رہے ہیں‘ افواج پاکستان نے بلوچی نوجوانوں کے لیے سلیکشن کا معیار بھی نرم کر دیا ہے‘ صوبائی حکومت بھی بھرتیاں کر رہی ہے اور نوجوانوں کو ہنر بھی سکھائے جارہے ہیں‘ یہ سارے عناصر مل کر بلوچستان کو تبدیل کر رہے ہیں‘ یہ تبدیلی اگر اسی ترتیب اور رفتار سے چلتی رہی تو کل کا بلوچستان آج اور گزرے کل کے بلوچستان سے ہزار گنا بہتر ہو گا‘ یہ بلوچستان صرف بلوچستان نہیں ہو گایہ پاکستان ہو گا‘ مکمل پاکستان۔

  • انجام گلستاں مختلف ہو گا-جاوید چوہدری

    انجام گلستاں مختلف ہو گا-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    سردار بہادر خان صدر ایوب خان کے بڑے بھائی تھے‘ وہ 1908ء میں پیدا ہوئے‘ علی گڑھ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی‘ مسلم لیگ میں شامل ہوئے‘ 1939ء میں سرحد اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے‘ 1942ء میں اسپیکر بن گئے‘ 1946ء میں خارجہ امور کے وزیر مملکت بنے‘ 1954ء تک تمام حکومتوں میں مختلف محکموں کے وفاقی وزیر رہے اور پھر بلوچستان کے چیف کمشنر بنا دیے گئے‘ وہ ایوب خان کے بڑے بھائی تھے لیکن وہ مارشل لاء اور ایوب حکومت دونوں کے خلاف تھے۔

    وہ 1962ء میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے اور اپنے بھائی فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت کے پرخچے اڑانے لگے‘ آپ نے اکثر یہ مصرع سنا ہو گا’’ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے‘انجامِ گلستاں کیا ہوگا‘‘ یہ مصرع پہلی مرتبہ سردار بہادر خان نے قومی اسمبلی میں پڑھا تھا‘ ان کا اشارہ صدر ایوب خان کی کابینہ کی طرف تھا‘ یہ مصرع اس وقت سے ہماری سیاست کا حصہ ہے‘ صدر ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب اور پوتے عمر ایوب بعد ازاں سردار بہادر خان کے حلقے سے الیکشن لڑتے رہے اور قومی اسمبلی کے رکن اور وزیر بنتے رہے‘ یہ حلقہ آج بھی ایوب خان فیملی کے پاس ہے۔

    سردار بہادر خان لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ کے ادوار میں مواصلات کے وفاقی وزیر رہے‘ اس دور میں ٹی بی مہلک ترین مرض ہوتا تھا‘ ملک کے تمام شہروں میں ٹی بی کے ہزاروں مریض تھے چنانچہ حکومتیں ٹی بی کی علاج گاہیں بناتی رہتی تھیں‘ ٹی بی کی علاج گاہیں سینٹوریم کہلاتی ہیں‘ کوئٹہ اس زمانے میں ملک کا خوبصورت ترین شہر تھالیکن اس شہر میں کوئی سینٹوریم نہیں تھا‘ سردار بہادر خان نے سینٹوریم بنانے کا فیصلہ کیا‘ پاکستان ریلوے کا قلم دان اس وقت ان کے پاس تھا‘ کوئٹہ کے بروری روڈ پر ریلوے کی زمین تھی۔

    سردار بہادر خان نے وہ زمین سینٹوریم کے لیے وقف کر دی‘ یہ 1954ء میں چیف کمشنر بلوچستان بنے تو انھوں نے زمین کے اس خطے پر سینٹوریم بنا دیا‘ یہ سینٹوریم سردار بہادر خان کے نام سے منسوب ہوا اور تین دہائیوں تک کامیابی سے چلتا رہا لیکن پھر ملک میں ٹی بی کے مرض پر قابو پا لیا گیا اور یہ عمارت آہستہ آہستہ ناقابل استعمال اور متروک ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ 2004ء آ گیا‘ جنرل پرویز مشرف صدر پاکستان تھے‘ یہ کوئٹہ کے دورے پر گئے‘  بلوچستان کے لوگوں نے کوئٹہ میں خواتین کی یونیورسٹی کا مطالبہ کر دیا‘ جنرل مشرف نے یہ مطالبہ مان لیا‘ یونیورسٹی کے لیے جگہ تلاش کی گئی تو نظر سردار بہادر خان سینٹوریم پر آکر ٹھہر گئی‘ یہ عمارت خستہ حال اور متروک تھی‘ چھتیں ٹین کی تھیں۔

    دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور برآمدے اور کمرے ابتر حالت میں تھے لیکن بلوچستان کے لوگوں نے یہ عمارت اس حال میں بھی قبول کر لی‘ یہ لوگ ہر حال میں اپنی بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے یوں سردار بہادر خان سینٹوریم کا نام بدل گیا اور یہ سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی بن گئی‘ یہ ملک میں خواتین کی دوسری یونیورسٹی تھی‘ ملک میں اس وقت ڈیڑھ سو یونیورسٹیاں ہیں لیکن ان میں سردار بہادر خان یونیورسٹی جیسی کوئی درس گاہ نہیں‘ آپ بلوچستان کے محروم کلچر کو دیکھیں‘ قبائلی روایات کو ذہن میں لائیں‘ صوبے کی غربت‘ محرومی اور پسماندگی کا جائزہ لیں‘ آپ آبادی کے لحاظ سے چھوٹے اور رقبے میں طویل ترین صوبے میں دہشت گردی کی وباء کو دیکھیں اور آپ پھر سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بچیوں کا عزم اور حوصلہ دیکھیں تو آپ ان بچیوں کے حوصلے‘ جذبے اور بہادری کی داد دینے پر مجبور ہو جائیں گے‘ آپ ان کی جرأت کو سلام کریں گے۔

    مجھے 27 اکتوبر کو سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بہادر بچیوں سے ملاقات کا موقع ملا‘ میں یونیورسٹی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے سیمینار میں بطور مہمان مدعو تھا‘ ڈاکٹر رخسانہ جبین یونیورسٹی کی وائس چانسلر ہیں‘ ان کی زندگی کے کئی برس اسلام آباد میں گزرے‘یہ قائداعظم یونیورسٹی میں پڑھتی رہیں لیکن یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے محروم صوبے کی محروم بچیوں کی خدمت کے لیے کوئٹہ آ گئیں‘ یہ مضبوط اعصاب کی خاتون ہیں‘ یہ مشرقی خواتین کے برعکس فوری اور ٹھوس فیصلے کرتی ہیں‘ یہ مسائل میں الجھنے کے بجائے ان کا حل تلاش کرتی ہیں۔

    مجھے ان کی اس صلاحیت نے حیران کر دیا‘ وائس چانسلر کا آفس سینٹوریم کے آپریشن تھیٹر میں قائم ہے‘ آفس کی ایک دیوار پر ٹیلی ویژن اسکرین ہے اور اس اسکرین پر سیکیورٹی کیمروں کی لائیو فوٹیج چلتی رہتی ہے‘ڈاکٹر رخسانہ ہر منٹ بعد اس اسکرین کو دیکھتی رہتی ہیں‘ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا‘ 15جون 2013ء کو ایک خود کش حملہ آور خاتون یونیورسٹی کی بس میں سوار ہو گئی تھی‘بس جب طالبات سے بھر گئی تو حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا‘ خوفناک دھماکا ہوا‘ دھماکے میں 14بچیاں شہید اور22ز خمی ہو گئیں۔

    یہ کوئٹہ کی تاریخ کا خوفناک ترین واقعہ تھا‘ یونیورسٹی تین ماہ بند رہی‘ لوگوں کا خیال تھا یہ یونیورسٹی کبھی نہیں کھل سکے گی لیکن آپ بلوچستان کے لوگوں کا جذبہ اور ڈاکٹر رخسانہ جبین کی جرأت دیکھئے‘ خودکش حملے کے وقت یونیورسٹی میں 1500 طالبات زیر تعلیم تھیں لیکن آج یونیورسٹی میں سات ہزار بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں‘ بچیاں اعلیٰ تعلیم کے لیے پورے بلوچستان سے کوئٹہ آتی ہیں‘ ہم لوگ جب سمینار کے لیے آڈیٹوریم کی طرف جا رہے تھے تو وہ مقام راستے میں آگیا جہاںجون 2013ء میں تعلیم کے جذبے کو خودکش حملے سے اڑانے کی کوشش کی گئی تھی‘ ڈاکٹر رخسانہ جبین نے اس مقام کی نشاندہی کی‘ میرا دل بوجھل ہو گیا لیکن پھر چند لمحوں میں بچیوں کے حوصلے اور جرأت نے غم کی جگہ لے لی اور میں شہیدوں کو سلام کر کے آگے نکل گیا۔

    آپ یقینا سوچتے ہوں گے ان معصوم بچیوں نے دہشت گردوں کا کیا بگاڑا ہے‘ یہ ان پر کیوں حملے کر رہے ہیں‘ اس کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ ہزارہ کمیونٹی ہے‘ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے سات لاکھ لوگ آباد ہیں‘ یہ نسلاً منگول ہیں‘ یہ افغانستان اور ایران میں آٹھ سو سال سے مشکل زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ انیسویں صدی کے آخر میں پہلی بار افغانستان سے نکلے اور کوئٹہ میں آباد ہونے لگے‘ یہ شیعہ مسلک سے وابستہ ہیں اور یہ اپنے مخصوص خدوخال‘ قد کاٹھ اور رنگت کی وجہ سے لاکھوں لوگوں میں پہچانے جاتے ہیں۔

    پاکستان کے چوتھے آرمی چیف جنرل موسیٰ خان ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ 1985ء میں بلوچستان کے گورنر بنے تو انھوں نے اپنی کمیونٹی کو خصوصی مراعات دیں‘ جنرل موسیٰ نے ہزارہ کمیونٹی کی عزت نفس کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کیا‘ یہ لوگ اس وقت دہشت گردوں کا خوفناک ٹارگٹ ہیں‘ یہ ہزار گنجی اور ہزارہ ٹاؤن میں بھی ٹارگٹ بنتے رہتے ہیں اور یہ جب زیارتوں کے لیے ایران جاتے ہیں تو بھی قافلے روک کر انھیں نشانہ بنایا جاتا ہے‘ سردار بہادر خان یونیورسٹی میں ہزارہ کمیونٹی کی سیکڑوں بچیاں پڑھتی ہیں‘ یہ بچیاں بھی دہشت گردوں کا ٹارگٹ ہیں‘ دوسری وجہ بلوچستان ہے‘ بلوچستان طویل بحران کے بعد ٹریک پر آ رہا ہے‘ لوگ اپنی حالت بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں‘ وفاق کو بھی ماضی کی غلطیوں کا ادراک ہو چکا ہے۔

    یہ بھی اب بلوچستان کے لوگوں کی مدد کر رہا ہے‘ فوج بھی بلوچستان کو خصوصی اہمیت دے رہی ہے اور بلوچ سرداروں کے رویوں میں بھی تبدیلی آ رہی ہے‘ یہ تمام عناصر مل کر بلوچستان کے خشک درخت پر پھل لگا رہے ہیں‘ پاکستان کے دشمن بلوچستان اور پاکستان دونوں کی ترقی سے خوش نہیں ہیں‘ یہ لوگ یہ پھل اور درخت دونوں کو کاٹنا چاہتے ہیں اور خواتین کیونکہ آسان ٹارگٹ ہوتی ہیں چنانچہ یہ ان پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں اور تیسری وجہ اقتصادی راہداری ہے۔ ’’سی پیک‘‘ حقیقتاً گیم چینجر ثابت ہو گا‘ یہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی بن جائے گا‘ ہمارے دشمن ہمارے وجود میں یہ ہڈی نہیں دیکھنا چاہتے چنانچہ انھوں نے بلوچستان میں افراتفری کو اپنا مقصد بنا لیا ہے۔

    بھارت نے افغانستان میں باقاعدہ ٹریننگ کیمپ بنا رکھے ہیں‘ یہ بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے ہر سال چار سو ملین ڈالر خرچ کرتا ہے‘ یہ لوگ دہشت گردوں کو ٹریننگ دیتے ہیں‘ انھیں اسلحہ اور رقم فراہم کرتے ہیں اور یہ ٹرینڈ لوگ بعد ازاں بلوچستان میں افراتفری پھیلاتے ہیں‘ بلوچستان کے لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں چنانچہ یہ دشمن کے ہر حملے کے بعد زیادہ جذبے‘ زیادہ جرأت اور زیادہ عزم کے ساتھ میدان میں کھڑے ہوجاتے ہیں‘ میں نے یہ عزم‘ یہ جرأت اور یہ جذبہ سردار بہادر خان یونیورسٹی کی ہر بچی کی آنکھ میں دیکھا‘ خصوصاً ہزارہ کمیونٹی کی بچیاں کسی بھی حال میں پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہ وہ تبدیلی ہے جو اگر چلتی رہی تو وہ وقت دور نہیں رہے گا جب سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بچیاں اقتدار کی کسی شاخ پر اُلو نہیں بیٹھنے دیں گی اور اگر اُلو بیٹھ گئے تو بھی انجامِ گلستاں مختلف ہو گا‘ اس ملک کا آنے والا کل ہر لحاظ سے آج سے مختلف ہو گا۔

  • باقی ان کی مرضی-ہارون الرشید

    باقی ان کی مرضی-ہارون الرشید

    haroon-rasheed
    ایک سوال تو بلوچستان کے اہلِ دل اور اہلِ نظر کی خدمت میں پیش کر دیا ، باقی ان کی مرضی۔
    ایک مسئلہ صابن کی ٹکیا کا تھا ۔ کسی بھی طرح کی ایک چھوٹی سی یا باقی ماندہ ٹکیا ۔ جس سے ہاتھ دھوئے جا سکیں ۔ دوسرا یہ تھا کہ کوئٹہ سے مجھے اسلام آباد واپس جانا ہے یا لاہور ۔ ٹکٹ صرف میزبان ہی مہیا کر سکتا تھا ۔ ہر دفعہ جب درخواست کی جاتی تو جواب ملتا : آپ کو اسلام آباد واپس جانا ہے ، فکر مت کیجیے۔ تھوڑی دیر میں ٹکٹ بھی مل جائے گا۔ ان دونوں سے زیادہ دبائو ڈالنے والی چیز تالیوں کا بے پناہ شور تھا ۔ سردار بہادر خاں ویمن یونیورسٹی کوئٹہ کے سیمینار میں ۔ پیچیدہ سا موضوع تھا ۔ خلاصہ جس کا یہ تھا کہ میڈیا کے بدلتے ہوئے رجحانات کیا ہیں ۔ تھوڑی سی تیاری اس پہ کر رکھی تھی ۔ یہاں پہنچ کے مگر معلوم ہوا کہ عنوان پاکستان کے قومی ذرائع ابلاغ کا روّیہ ہے ، بلوچستان کے بارے میں ۔

    دلائل کی یلغار تھی ۔ تالیوں اور سیٹیوں کا طوفان، جو ہر ایک آدھ منٹ کے بعد پھوٹ بہتا۔ کان پھاڑ دینے والی آوازیں ۔ اللہ نے مظلوم کو اونچی آواز میں بولنے کا حق دیا ہے ، میں نے سوچا۔ پھر یہ کہ پرجوش طالبات اگر اپنے گھر میں بھی کھل کر، ڈٹ کر جذبات کا اظہار نہ کریں تو اور کہا ں کریں ۔ بات بس اتنی تھی کہ پچھلے ستائیس گھنٹے میں ساٹھ ستر منٹ ہی میں سو سکا تھا ۔ خود کو میں نے یاد دلایا کہ یہ وقت صبر کا طالب ہے ۔

    گھن گرج کے ساتھ سٹیج سے تقاریر جاری تھیں ۔ بلوچستان کو نظر انداز کرنے پہ میڈیا کی مذمت کا سلسلہ ۔ وہ چینل جنہیں اپنے کاروباری مفادات عزیز ہیں ۔برسوں جنہیں الطاف حسین نے یرغمال بنائے رکھا ۔ کراچی ، بلوچستان اور قبائلی امن کی بجائے مزاحیہ پروگرام جنہیں زیادہ عزیز ہیں ۔ ایک ٹی وی میزبان کے اس جملے کو مقررین نے دانتوں سے پکڑ لیا کہ پروگرام اگر مقبول نہ ہو تو اشتہار کیسے ملیں گے ۔ اشتہار نہ ملیں گے تو میڈیا زندہ کیسے رہے گا ۔بعض نے ٹی وی میزبانوں کو غیر سنجیدہ قرار دیا۔ ایک آدھ نے کچھ کو غیر ملکی ایجنڈے کا پیروکار ۔

    محرومی اور بے بسی میں راستہ جب سجھائی نہیں دیتا ۔ معلومات جب مکمل نہیں ہوتیں تو خیال ہمیشہ سازش پہ لپکتا ہے ۔ مبتلا اسی میں آسودگی پاتا ہے ۔ اعصاب شکن آوازیں الگ ، ہال کا سائونڈ سسٹم بجائے خود اذیت ناک ۔ آدھی بات سنائی دیتی اور آدھی مہمل سی ہو جاتی ۔ آخری بلند بانگ مقررسابق سینیٹر جناب لشکری رئیسانی نے سلیم بخاری اور اس ناچیز کو بار بار متوجہ کیا ۔ مودب ہم سنتے رہے ۔ مکالمہ اسی صورت میں ثمر بار ہوتاہے جب کھل کر بات کی جائے ۔ بلوچستان کو نظر انداز کرنے پہ ، ان کا موقف قابلِ فہم تھا ۔ ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور مستقبل میں بھی اندیشہ یہی ہے ۔ 45فیصد رقبہ ،پورے صوبے کی آبادی کراچی سے ایک تہائی ۔ صنعت کا نام و نشان تک نہیں ۔ تزویراتی اعتبار سے بلوچستان ملک کا اہم ترین صوبہ سہی ۔ بے شک اس کے ساحل پر انسانی تاریخ کی عظیم ترین بندرگاہ تعمیر ہونے والی ہے ۔ بے شک تاریخ میں پہلی بار بحیرہ عرب کے گرم پانی تک چینیوں کے قدم پہنچیں گے۔ بے شک بلوچستان ہی پاکستان کا مستقبل ہے۔ اعتراضات درست ہیں مگر میڈیا تو ایک زکوٹا جن ہے ۔ ہر روز اسے اپنا پیٹ بھرنا ہے ۔ بھوکا وہ رہ نہیں سکتا ۔

    سامنے آرام دہ صوفے پر بیٹھے ، میرے ذہن میں خیالات کے متصادم لشکر باہم الجھتے رہے ۔ مجھے لگا کہ آج بھد اڑے گی ۔ مصلحت سے کام لوں تو ایک ناقابلِ برداشت بوجھ اٹھا کر گھر پہنچوں ، مدتوں جو پریشان کرتا رہے گا۔ پوری بے تکلفی سے اپنا نقطۂ نظر بیان کروں تو آب گینوں کو ٹھیس لگے ۔ کیا کیجیے ، کیا کیجیے؟ اچانک چائے کے وقفے کا اعلان ہوا ۔ وقفے کے بعد سیمینار کا آخری سیشن ۔ نصف گھنٹے تک سکرین پر ایک امریکی پروفیسر کا ریکارڈ شدہ خطبہ ۔ وہی گھسی پٹی اصطلاحات ۔ بلندی سے وہی خطاب اور وہی مغربی تناظر ۔ تنگ آکر محترمہ وائس چانسلر صاحبہ سے پوچھا : کب تک ؟ یہ وعظ کب تک جاری رہے گا ۔ اوریا مقبول جان کھلکھلا کر ہنسے ، جو زیادہ غور سے دیکھ رہے تھے اور یہ کہا: کمال ہنرمندی سے آپریٹر نے تقریر آگے بڑھادی ہے ، کسی نے غور ہی نہ کیا ۔ وائس چانسلر صاحبہ کو شاید معلوم تھا ۔ بولیں ، بس یہی ایک آدھ منٹ ۔ پندرہ بیس سیکنڈ کے بعد اذیت رسانی کا سلسلہ ختم ہو گیا ۔ صاحبِ صدر اور مقررین کو سٹیج پر بلالیا گیا ۔ خواہش تو یہ تھی کہ جلدی سے نمٹا کر ایک آدھ خبر تلاش کی جائے ، کالم لکھا جائے ۔ ایک بہت ہی قابلِ اعتماد ذریعے سے درخواست کر رکھی تھی ۔ بار بار وہ فون کرتے لیکن پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ ایک اور مقرر نمودار ہوا ۔ بلوچستان کی محرومیوں کا ایک اور نوحہ۔ وفاق کی بے نیازی کا ایک اور قصہ ۔ جذبات سے مغلوب ایک اور آواز ۔ ایک اور فریاد ۔ کئی نکات ایسے کہ سو فیصد اتفاق کے سوا چارہ نہیں ۔ بین السطور سازش کی وہی کہانی اور وہی اندیشہ۔ وائس چانسلر سے گزارش کی کہ مزید انتظار اب ممکن نہیں۔ فوراً ہی بات کرنے کی اجازت دی جائے ۔ اس کے بعد ہوائی اڈے پر پہنچنا ہے ۔ بہت دنوں کے بعد گھر جانا ہے ۔

    ارادہ تھا کہ اپنا مشاہدہ اور اپنا تجزیہ ساتھ ساتھ بیان کر دیا جائے ۔ احتیاط ملحوظ رہے ، ریاکاری سے مگر کام نہ لیا جائے ۔ بات شروع کی تو ماجرا وہی ، جواسد اللہ خاں غالبؔ کو درپیش ہوا تھا ۔ دل میں پھر گریہ نے ایک شور اٹھایا غالب ؔ۔ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا۔
    عرض کیا : تین برس تک اکیلا میں چیختا رہا کہ محروم بلوچستان کے لیے بجٹ کا حصہ محض آبادی نہیں ، ساتھ ساتھ رقبے اور غربت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختص کیا جائے ۔ تین برس تک کسی ایک بلوچ لیڈر ، کسی ایک بلوچ سردار کو بھی اس آواز میں اپنی آواز شامل کرنے کی توفیق نہ ہوئی ۔ 2013ء کے الیکشن سے بہت پہلے مستقبل کے وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک اور کئی دوسرے قوم پرست بلوچ سرداروں سے عرض کیا کہ قومی دھارے میںان کی شرکت کے لیے حالات اب سازگار ہیں ۔ کوئی سن کر نہ دیتا تھا۔

    افراد یا اقوام ، انسانوں کو اللہ نے پیدا ہی آزمائش کے لیے کیا ہے ۔ اس نکتے کو آپ لوگ یکسر نظر انداز کیسے کر دیتے ہیں ۔ زندگی کو اللہ نے آویزش میں برپا کیا ہے ۔ روئے زمین پر کوئی قوم ایسی نہیں ، جو ابتلا سے گزری نہ ہو ۔ آزمائش سے گزر کر ہی خطے عروج پاتے ہیں ، بشرطیکہ سبق وہ سیکھ لیں ۔ تکلیف بری ہوتی تو اللہ کے محبوب بندوں کو کبھی نہ پہنچتی ۔ پیغمبرؑ تکلیف دہ آزمائش میں نہ ڈالے جاتے ۔ جتنی اقوام سرخرو ہوئی ہیں ، ابتلا سے گزر کر ہوئیں۔ انگلستان پر وائی کنگز نے حکومت کی ، رومن غالب آئے ، نارمن، حتیٰ کہ فرانسیسی ۔ سب سے بڑی عالمی طاقت ریاست ہائے متحدہ کبھی انگریز کی غلام تھی ۔ چین صدیوں تک پامال رہا ۔ آج نہایت تیزی سے انکل سام کا وہ مد مقابل بنتا جا رہا ہے ۔ ایک ہزار برس تک ہندوستان غلام رہا۔ ناکامی اچھی ہے ، اگر سبق دے سکے ۔ کامیابی بری ہے ،حد سے زیادہ اگر آسودہ کر دے ۔ ایک سوال اور بھی اٹھانے کی جسارت کی ۔ شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر والوں کی کامیابی سے آپ سبق کیوں نہیں سیکھتے ۔ اپنے باقی مطالبات پر قائم رہ کر کچھ نہ کچھ وہ حاصل کرتے ہی رہے ۔ تعلیم میں ، روزگار میں ، ترقیاتی منصوبوں میں۔

    بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں کو کس نے روک رکھا ہے کہ اتفاق رائے سے رکوڈک میں شفاف کان کنی کا مطالبہ کریں ۔ تین چار برس میں شاید پانچ بلین ڈالر ، پھر دس بلین اور ممکن ہے کہ پندرہ بیس برس میں چالیس بلین ڈالر سالانہ ملنے لگیں ۔ اندازہ ہے کہ دو ہزار بلین ڈالر کا ذخیر ہ ہے ۔ کبھی کبھی ، کہیں کہیں تالیاں بجیں مگر اس ولولے کے ساتھ نہیں ۔ دو دن میں لیکن شاید یہ واحد تقریر تھی ، جو پوری توجہ سے سنی گئی ۔ عرض کیا ، خود رحمی (Self Pitiness)ہلاک کرتی ہے ۔ دل کا بوجھ ہلکا کرنے سے نہیں ، زندگی عمل سے برگ و بار لاتی ہے ۔ دانائی سے ، منصوبہ بندی سے۔ایک سوال تو بلوچستان کے اہلِ دل اور اہلِ نظر کی خدمت میں پیش کر دیا ، باقی ان کی مرضی۔

  • اس سوال کا جواب ضروری ہے-اوریا مقبول جان

    اس سوال کا جواب ضروری ہے-اوریا مقبول جان

    orya

    پورا کوئٹہ شہر سوگوار ہے۔ یوں تو اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کا تعلق بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تھا، لیکن اس شہر کی خصلت اور عادت میں شامل ہے کہ ہر کسی کے غم میں ضرور شریک ہوتا ہے۔ یوں بھی بلوچستان کے بلوچ اور پشتون قبائل میں فاتحہ کی رسم کئی مہینے تک چلتی رہتی ہے۔

    لوگ میلوں کا سفر کر کے مرنے والے کا پرسہ دینے آتے ہیں۔ فاتحہ کی رسم بھی ان کے ہاں کمال کی ہے۔ سب سے پہلے کسی کے گھر جا کر بچھی ہوئی دری یا قالین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی سے سلام دعا یا ہاتھ نہیں ملاتے، بلکہ فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ علاقے کا مولوی مستقل وہاں بیٹھا رہتا ہے۔ جو باآواز بلند دعا کرتا ہے۔ فاتحہ کرنے کے بعد ایک دوسرے کا حال پوچھا جاتا ہے۔

    اس معاشرے کا کمال یہ ہے کہ دو قبیلوں یا گھرانوں کے درمیان شدید دشمنی بھی چل رہی ہو، ایک دوسرے کے افراد قتل بھی ہو رہے  ہوں لیکن جب تک کوئی شخص اپنے عزیز کی فاتحہ پر بیٹھا ہوتا ہے اتنے عرصے کے لیے دشمنی ترک کر دیتے ہیں جسے یہاں کی زبان میں ’’خیر‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح کی روایتوں کے امین معاشرے میں ’’کوئٹہ‘‘ شہر کا سوگوار ہونا لازم تھا۔

    ویسے بھی کوئٹہ بلوچستان کے وسیع و عریض صوبے میں واحد مقام ہے جسے محدود معنوں میں شہر کہا جا سکتا ہے۔ یعنی جہاں مریضوں کے علاج کے لیے اسپتال ہیں۔ پڑھنے کے لیے کالج اور یونیورسٹی ہے۔ اشیائے صرف اور ضرورت کی خریدو فروخت کے لیے بڑی بڑی مارکٹیں ہیں۔ سیوریج اور واٹر سپلائی کا نظام ہے۔ اسٹریٹ لائٹس ہیں۔ ٹریفک ہے اور ٹریفک کے سپاہی بھی ہیں۔ یہ سب کچھ آپ کو صرف اور صرف کوئٹہ میں نظر آئے گا۔

    اگرچہ کہ اس سب کی حالت زار دیکھ کر رونا آتا ہے۔ آپ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ جس سنڈیمن پروونشل اسپتال کی حالت پنجاب کے کسی بھی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر سے بھی ابتر ہے۔ وہاں ہزار کلو میٹر دور گوادر، سات سو کلو میٹر دور تفتان، پانچ سو کلو میٹر دور کراخراسان اور اتنے ہی دور علاقوں سے مریض لائے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ پورے بلوچستان میں دل، گلے، گردے، ہڈی جلد یا کسی اور جسم کے حصے کے علاج کا اسپیشلسٹ صرف اور صرف کوئٹہ میں ملے گا۔

    باقی پورا بلوچستان اس اسپیشلسٹ نام کی مخلوق سے ناآشنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے ہر خطے کے افراد  کوئٹہ میں آ کر آباد ہو چکے ہیں۔ اس لیے جب بھی کوئی سانحہ یا حادثہ ہوتا ہے جس میں مرنے والے کتنے دور دراز علاقے سے کیوں نہ ہوں اس کا اثر کوئٹہ پر ضرور پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر ڈیرہ بگٹی، تربت یا ژہوب میں کوئی سانحہ ہو جائے، کوئٹہ سوگوار ضرور ہوتا ہے۔

    کوئٹہ کے تمام بازار بند تھے۔ لیکن کوئٹہ کی جناح روڈ وہ مقام ہے جہاں بند دکانوں کے باہر بھی لوگ کھڑے ہوکر حالات و واقعات پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کا سیاسی شعور پاکستان کے کسی بھی خطے سے زیادہ بلند اور بہتر ہے۔ مثلاً لاہور گوجرانوالہ میں آپ کو عموماً گفتگو ’’کھابے، لسّی، کھانوں کے بارے میں نظر آئے گی۔

    فوڈ اسٹریٹ کہاں ہے، نئی ’’کھابوں‘‘ کی دکان کونسی ہے۔ لیکن کوئٹہ کا بلوچ، پشتون، بروہی یا ہزارہ کی محفل میں آپ کو بیٹھنے کا اتفاق ہو تو آپ کو قبائلی تنازعات سے لے کر برصغیر پاک و ہند کی سیاست اور عالمی و علاقائی صورتحال سے متعلق گفتگو ملے گی۔ بلوچی میں ’’حال احوال‘‘ اور پشتو میں ’’روغبڑ‘‘ دو ایسی رسوم ہیں جن میں ایک سفر سے واپس آنے والا ہر ملنے والے کو ان علاقوں کا احوال بیان کرتا ہے جہاں سے وہ ہو کر آیا ہے۔

    یہ احوال اس قدر طویل ہوتا ہے اور اس قدر مفصل ہوتا ہے کہ اس میں رسم و رواج سے لے کر سیاست اور بازار سے لے کر حکومتی مراکز تک سب کا ذکر ہوتا ہے۔ ویسے بھی بلوچستان کے افراد کی ایک کثیر تعداد نے افغانستان اور ایران کا سفر بار بار ضرور کیا ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے تجربے کی وسعت کی سطح عالمی نوعیت کی ہوتی ہے اور ایسا تجربہ آپ کو پاکستان کے اور کسی خطے میں نہیں ملے گا۔ مثلاً یہاں کے چھوٹے کاروباری اور خانہ بدوش نے بھی افغانستان یا ایران کا سفر کر کے ایک ایسا تجربہ ضرور حاصل کیا ہوتا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

    پاکستان کے کسی خطے کے افراد کو بالکل علم نہیں  اور ہے بھی تو اخباری نوعیت کا ہے کہ روس افغانستان میں کیسے آیا، مجاہدین کون تھے، طالبان کیسے بنے، امریکا کیسے حملہ آور ہوا، وہاں کیا چل رہا ہے، ایران شاہ کے دور میں کیا ہوتا تھا، خمینی نے کونسی تبدیلی لائی، ایران میں بلوچوں کی حالت زار کیسی ہے، ان سب کے بارے میں بلوچستان کے لوگوں کی معلومات بہت خالص ہیں۔ بالکل ایسے جیسے قصور یا فیصل آباد کا آدمی لاہور آئے اور میٹروبس کو آنکھوں سے چلتا ہوا دیکھے۔

    بلوچستان کے لوگوں نے اس خطے میں گزشتہ چالیس سال سے آنے والی بے شمار تبدیلیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جہاں آپ کو آج بھی کوئٹہ میں ایسے کئی سو افراد مل جائیں گے جو یہ بتاتے ہوں کہ وہ شام کو سیرینا یا جناح روڈ کے کسی ہوٹل میں حامد کرزئی کے ساتھ گپ لگاتے تھے یا پھر خمینی انقلاب کے بعد وہاں سے بھاگے ہوئے ایرانی وزیروں کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ وہاں سیاسی اور علاقائی معاملات پر آپ کی ذہنی وسعت باقی پورے خطے سے زیادہ ہوگی۔

    یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں 1973ء میں سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت گرا کر ذوالفقار علی بھٹو فوجی ایکشن شروع کرے، نواب اکبر بگٹی کے جاں بحق ہونے کا سانحہ ہو، پشاور کا اے پی ایس ہو، کوئٹہ کے وکلاء کی موت کا المناک واقعہ یا گزشتہ روز ہونے والا پولیس کالج کا دردناک واقعہ یہاں کے لوگوں کا ان سب کے پس منظر کے بارے میں ایک طویل اور مفصل تجزیہ ہوتا ہے۔ وہ ان سب واقعات کو ایک عام سا واقعہ نہیں سمجھتے۔ وہ اس کے تانے بانے ملکی سیاست سے بھی جوڑتے ہیں اور عالمی و علاقائی حالات سے بھی۔ دنیا کے جتنے بڑے بڑے صحافی بلوچستان نے دیکھے ہیں کسی اور صوبے نے نہیں دیکھے۔

    یہ سب 1980ء سے یہاں آنے شروع ہوئے تھے۔ عام بلوچ اور پشتون ان کے ساتھ مترجم کی ڈیوٹی دیتا تھا۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد تو یوں لگتا تھا کہ جیسے بی بی سی، سی این این، فوکس، ڈی بلیو اور دیگر عالمی نیٹ ورک کے بڑے، بڑے ناموں کا ٹھکانہ ہی کوئٹہ ہے۔ یہاں کا عام پڑھا لکھا شخص جس نے ان کے ساتھ مترجم کا کام کیا ہے وہ ان عالمی میڈیا والوں کے تعصبات سے بھی واقف ہے اور ان کی نفرتوں سے بھی آشنا۔ اسے ان کے سوالوں کے پس منظر کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور دنیا بھر میں چلنے والی سازشی کہانیوں سے بھی آشنا۔

    یہی وجہ ہے کہ سریاب روڈ پر واقع پولیس کالج میں ہونے والے واقعے کو یہاں کے لوگ ایک عام واقعہ نہیں سمجھتے۔ ان کا تبصرہ پورے پاکستان سے مختلف ہے۔ آپ لاہور میں کھڑے ہوکر بازار میں لوگوں سے سوال کریں ’’سی پیک‘‘ کیا ہے شاید کوئی ایک جواب دے سکے۔ لیکن یہاں کوئٹہ میں آپ کو ایسے کئی مل جائیں گے جو اس کے روٹ کے اختلاف اور بلوچستان سے زیادتی کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے۔

    ایسے سیاسی طور پر زندہ لوگوں کے نزدیک یہ خون بہایا گیا ہے اور اس میں بہت سے عوامل شامل ہیں۔ وہ اسے ہلمند میں تازہ ترین طالبان فتوحات کا ردعمل بھی سمجھتے ہیں لیکن وہ گزشتہ تین دنوں سے ایک سوال کا جواب ہر کسی سے پوچھ رہے ہیں کہ جب 6 ستمبر 2016ء کو پاسنگ آؤٹ پریڈ ہو چکی، ان کو محرم کی ڈیوٹی کے لیے روکا گیا۔ پھر 13 اکتوبر 2016ء کو اپنے اپنے اضلاع میں ڈیوٹی کے لیے بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد انھیں اس مقتل گاہ میں واپس کیوں بلایا گیا۔

    بلوچستان کے اعلیٰ ترین عہدیدار سے لے کر پولیس کے اہم اہلکار تک کسی کے پاس اس کا تسلی بخش جواب نہیں ہے۔ تمام جواب آئیں بائیں شائیں ہیں۔ کوئی مزید ٹریننگ شیڈول نہیں، کوئی ڈیوٹی کا اعلان نہیں، وہ واپس پولیس ٹریننگ کالج میں کوئی سیر کرنے کے لیے تو بلائے نہیں گئے تھے۔ جب تک یہ سوال بلوچستان کے عوام کے ذہنوں میں ہتھوڑے برساتا رہے گا وہ ایک درخواست ضرور کرتے رہیں گے جو وہ کوئٹہ کی شاہراہوں پر آج کر رہے ہیں۔ یہ تمہاری اقتدار کی جنگ ہے، اس میں ہمارا خون کیوں بہاتے ہو۔ انھیں تسلی بخش جواب دو گے، سچ بولو گے تو مسئلہ حل ہو گا ورنہ پہلے سے موجود نفرتوں کو اور آگ ملے گی۔

  • مرد جری کا انتظار-حامد میر

    مرد جری کا انتظار-حامد میر

    hamid_mir1

    جس ملک میں جوان لاشیں اٹھانا آسان اور سوال اٹھانا مشکل ہوجائے وہاں لو گ ایک دوسرے سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے بھی ڈرنے لگتے ہیں۔ سوال اٹھانے والوں کو کفر کے فتوئوں اور غداری کے ا لزامات سے خاموش کرنے کی کوشش دشمنوں کی خفیہ مدد کے مترادف ہوتی ہے لیکن ایسے مشکل وقت میں بھی سوال اٹھاتے رہنا خوف خدا اور انسانیت سے محبت کا ثبوت بن جاتا ہے۔ پولیس ٹریننگ کوئٹہ پر تین دہشت گردوں کے حملے میں 61نوجوان کیڈٹس کی شہادت کے بعد کچھ سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور ایک دفعہ پھر سوالات اٹھانے والوں کو دشمنوں کا ایجنٹ کہا جارہا ہے۔ بلوچستان کے ایک معروف وکیل نے دکھ بھرے لہجے اور پرنم آنکھوں سے مجھے کہا کہ کوئٹہ کے مضافات میں بنائے گئے پولیس ٹریننگ کالج پر پرویز مشرف کے دور میں بھی حملہ ہوا تھا لیکن پھر بھی اس کی سیکورٹی کے مناسب انتظامات نہ کئے گئے۔

    2008ء میں اسلام آباد کی پولیس لائنز، 2009ء میں پولیس ٹریننگ اکیڈمی مناواں اور2014ء میں پولیس ٹریننگ کالج ہنگو پر حملے کے بعد بلوچستان کے واحد پولیس ٹریننگ کالج کو محفوظ بنانے کی ضرورت تھی لیکن کسی کو یہ خیال کیوں نہ آیا؟ کوئٹہ میں طاقتور اداروں کے دفاتر اور رہائشی علاقوں کو اتنا محفوظ بنادیا گیا کہ شہر کے اندر کئی شہر بن گئے جن میں عام شہری داخل نہیں ہوسکتے لیکن پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کو صرف ایک بندوق بردار گارڈ کے سہارے کیوں چھوڑ دیا گیا؟کیا اس لئے کہ بلوچستان پولیس ایک کمزور ادارہ ہے؟ 6ستمبر 2016ءکو آئی جی نے وزیر اعلیٰ کو واضح الفاظ میں یاد دلایا کہ پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کے ارد گرد چار دیواری تعمیر کرنا بہت ضروری ہے۔ وزیر اعلیٰ نے منظوری تو دیدی لیکن دو ماہ میں کوئی کام شروع نہ ہوا حالانکہ دیوار تعمیر کرنا چند دنوں کا کام ہے۔ کیا اس پورے واقعہ کی ذمہ داری صرف پولیس افسران پر ڈال دینا انصاف ہے؟ اس پولیس ٹریننگ کالج کی طرف جانے والے راستوں پر کس کے ناکے ہیں؟ دہشت گردوں نے بھاری اسلحے سمیت یہ ناکے کیسے عبور کئے؟

    یہ تمام سوالات اٹھانا دشمن کی مدد کرنا ہے یا دشمن کے طریقہ کار کو ناکام بنانے کی کوشش ہے؟ پاکستان میں 26خفیہ ادارے ہیں۔ ان اداروں کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کے بہترین خفیہ ادارے ہیں۔ کیا کسی ایک ادارے کو بھی خیال نہیں آیا کہ دہشت گرد لاہور اور اسلام آباد میں پولیس کی عمارتوں پر حملے کرسکتے ہیں تو کوئٹہ میں بھی کریں گے؟ حیرت کی بات ہے کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے ایک فلم بنائی گئی جس کا نام’’وار‘‘ رکھا گیا۔ اس فلم کی کہانی میں بتایا گیا کہ کس طرح بھارتی خفیہ ادارے نے اسلام آباد میں پولیس اکیڈمی پر حملہ کیا تاکہ سیکورٹی اداروں کو افراتفری کا شکار کیا جائے اور پھر جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد پر حملہ کردیا جائے۔فلم کا ہیرو شان کنونشن سینٹر پر حملے کو ناکام بنادیتا ہے۔ جس جس نے یہ فلم دیکھی ہے وہ سوچ رہا ہوگا کہ ہم پولیس اکیڈمی پر حملے کو فلم کا موضوع بنارہے ہیں لیکن پولیس کے تربیتی مراکز کی حفاظت سے غافل کیوں ہیں؟

    کہنے کو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ2009ءمیں جی ایچ کیو راولپنڈی میںدس حملہ آو ر گھس گئے، 2011ءمیں مہران بیس کراچی میں 15حملہ آورگھس گئے، 2012ءمیں کامرہ ائر بیس میں9حملہ آوروں نے تباہی مچادی اور 2014 ء میں بھی دس حملہ آورکراچی ائرپورٹ میں گھس گئے جہاں اچھے خاصے حفاظتی انتظا مات تھے پھر آپ پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کی کچی دیوار پر شور کیوں مچارہے ہیں؟ عرض یہ ہے کہ کوئٹہ کے واقعہ میں صرف تین حملہ آوروں نے60نہتے کیڈٹس کو گولیوں کا نشانہ بنایا، اگر حفاظتی انتظامات بہتر ہوتے تو ا تنا زیادہ جانی نقصان نہ ہوتا۔ میں غلام حیدر نامی پولیس گارڈ کی جرأت کو سلام کرتا ہوں جس نے حملہ آوروں کو روکنے کی کوشش کی لیکن جب اس پر تین اطراف سے حملہ ہوا تو وہ شہید ہوگیا۔ یہاں مناسب حفاظتی انتظامات ہوتے تو ایف سی اور فوج کو آپریشن نہ کرنا پڑتا اور فوج کے دو بہادر جوان بھی شہید نہ ہوتے، کاش کے جب2013ءمیں علمدار روڈ کوئٹہ کے حملے میں 105پاکستانی شہید اور169زخمی ہوئے تو کوئی کسی سے پوچھتا کہ اس چھوٹے سے شہر میں خود کش حملہ آوردرجنوں چیک پوسٹوں سے کیسے نکل جاتے ہیں؟ ستم تو یہ تھا کہ2013ءمیں پولیس لائنز کوئٹہ میں پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ پر حملہ ہوگیا جس میں39نمازی شہید ہوگئے اور یہ پتہ نہ چل سکا کہ پولیس لائنز میں خود کش حملہ آور کیسے گھس گیا؟

    سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی اور زیارت ریذیڈینسی پر حملے کے بعد بھی غفلت کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی ۔8اگست 2016ءکو ایک خود کش حملے میں بلوچستان کے56وکلاء سمیت 70افراد شہید ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد ضروری تھا کہ صرف مذمت اور ہمدردی نہ کی جائے بلکہ کامیابیوں کے دعوئوں کے پیچھے اپنی غفلتیں چھپانے والے کچھ سوالوں کا جواب دے دیں لیکن سوال کرنے والے ایک دفعہ پھر دشمن کے ایجنٹ قرار پائے ا ور ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اپنوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرادیا گیا لیکن دشمن خاموش نہیں بیٹھا اور اس نے ایک اور حملہ کرا کے اہل اختیار کی غفلتوں اور نااہلیوں کا پردہ چاک کردیا۔ کامن سینس تو یہی کہتاہے کہ دشمن نے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی حمایت کا بدلہ لینے کے لئے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ کرادیا لیکن ہم ان حملوں کو روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟ آخر کسی کو تو جواب دینا ہوگا۔

    اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام اور سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں لیکن ان قربانیوں میں مسلسل اضافہ قابل فخر نہیں۔ عوام اور سیکورٹی فورسز کو مسلسل مرواتے رہنا کہاں کی بہادری ہے؟ کیا یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے؟ جب ہم یہ دعویٰ سنتے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے تو ایک لمحے کے لئے ہم سکھ کا سانس لیتے ہیں لیکن اگلے ہی لمحے پتہ چلتا ہے کہ جن کی کمر توڑی جاچکی ہے وہ دیواریں پھاند کر کسی سکول، یونیورسٹی یا پولیس ٹریننگ کالج میں گھس کر موت کا کھیل شروع کرچکے ہیں تو پھر کس پر یقین کریں؟ کیا ٹوٹی کمر61پولیس کیڈٹس کو موت کی نیند سلاسکتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ ان ٹوٹی کمر والوں کو پاکستان کے اندر پناہ گاہیں کون فراہم کرتا ہے؟ یہ گھر کے بھیدی کب گرفت میں آئیں گے؟ میں جانتا ہوں میرے سوالات 61جوان لاشوں سے زیادہ بھاری ہیں لیکن مجھے اس مرد جری کا انتظار ہے جو مجھے خاموش کرانے کی بجائے ان سوالات کا جواب دے۔

  • رک جاؤ‘ خدا کے لیے رک جاؤ-ہارون الرشید

    رک جاؤ‘ خدا کے لیے رک جاؤ-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed
    انگریزی میں کہتے ہیں “Someone Should cry halt”۔رک جائو خدا کے لیے اب تو رک جائو۔ اجیت دودل کا ہاتھ‘ ہماری شہ رگ تک آپہنچا ہے اور اس وقت آ پہنچا ہے‘ جب غنیم‘ ہم سے قوی ہرگز نہیں۔
    کوئٹہ کا سانحہ دلدوز ہے۔ اصل اوربنیادی المیہ مگر اس سے بڑا ہے۔ صبح سویرے نصرت جاوید کو فون کیا تو اس نے کہا: تم دل لگی کرتے ہو‘ شب مجھے نیند کی گولی کھانا پڑی۔ سویا میںبھی نہیں تھا‘ بس یہی‘ ایک ڈیڑھ گھنٹہ۔ کاہلی کا شکار نہ ہوتا تو بلوچستان پہنچ چکا ہوتا۔ بارہ بجے کی پرواز میں سیٹ میسر تھی ۔سبھی کے دل دکھ سے بھرے ہیں ۔ اپنے آپ پر ترس کھانے سے مگر کیا حاصل؟

    جنگ ٹھہری ہے ‘ کوئی کھیل نہیں ہے اے دل
    دشمن جاں ہیں سبھی‘ سارے کے سارے قاتل
    یہ کڑی رات بھی‘ سائے بھی‘ تنہائی بھی
    درد اور جنگ میں کچھ میل نہیں ہے اے دل
    اورپھر شاعر نے یہ کہا
    لائو سلگائو کوئی جوشِ غضب کا انگار
    طیش کی آتش جرار کہاں ہے لائو
    وہ دھکتا ہوا انگار کہاں ہے لائو
    جس میں گرمی بھی ہو ‘ حرکت بھی توانائی بھی
    ہونہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
    منتظر ہو گا اندھیرے کی فصیلوں کے اُدھر
    ان کو شعلوں کے رجز اپنا پتا تو دیں گے
    خیر‘ ہم تک وہ نہ پہنچیں بھی‘ صدا تو دیں گے
    دُورکتنی ہے ابھی صبح‘ بتا تو دیں گے

    المیہ یہی نہیں کہ اتنے بہت سے بانکے سجیلے فرزند اس بے بسی کے عالم میں‘ مقابلے کی حسرت لیے گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے گئے۔ حکومت کی صاحباں نے ہر ایک مرزے کا تیر جنڈ کے درخت میں ٹانک دیا‘ اور بے موت وہ مارا گیا۔ حادثہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ سگ آزاد ہیں اور پتھر بندھے ہوئے ہیں۔ غنیم تباہی پر تلا ہے اور ہم جوتم پیزارمیں مصروف ہیں۔ گریبان میں جھانکنے کا اگر یارا ہو تو اب بھی سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ آئندہ کے لیے تباہی ‘ ناکامی اور حسرت کا دروازہ بند کیا جا سکتا ہے۔

    پولیس ٹریننگ کالج کی دیوار؟ حفاظتی انتظامات میں المناک بلکہ مجرمانہ تساہل؟ پولیس کی قیادت اور صوبائی حکومت کی اذیت ناک غفلت؟ ان سب سے بڑھ کر خود کو حالات کے حوالے کر دینے کی روش۔ قوم نے خود کو حاکموں کے حوالے کر دیا اور حاکموں نے حالات کے۔
    شرمناک بات ہے‘ شرمناک کہ اہل اقتدار اور اپوزیشن‘ ایک دوسرے کو دشمن سے ملی بھگت کا طعنہ دے رہے ہیں۔ سمجھانے کی کوشش کرے تو سمجھنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ علامہ طاہرالقادری کو کون قائل کرسکتا ہے۔ خواجہ محمد آصف کس کے بس کے ہیں ؟ کپتان کو تنقید کی کیا پروا؟ وزیر اعظم کو خود احتسابی کی فرصت کیا میسر آ سکتی ہے؟

    کوئی چیز ایسی نہیں جو قابل فہم نہ ہو۔ غفلت اور نااہلی کمزور الفاظ ہیں۔ بلوچستان اور سندھ میں سول انتظامیہ کا حال ہمیشہ سے پتلا ہے۔ وزیر اعلیٰ ثناء اللہ نواب زہری سے خاص طور پر شکایت نہیں ‘ پوری صوبائی انتظامیہ سوئی پڑی رہتی ہے۔ مسلّح افواج کا جو واحد ادارہ بچ رہا ہے‘ سارے کا سارا بوجھ اس پر ڈال دیا گیا ہے۔ نظم و نسق کا عملی تجربہ نہ رکھنے والا ‘ ایک عام ذہن بھی ادراک کر سکتا ہے کہ بیرونِ شہراس ویرانے میں کالج کی دیوار بلند ہونی چاہیے تھی۔ اردگرد اور چھت پر محافظوں کی تعداد دو تین درجن چاہیے تھی۔ اس سے بھی پہلے یہ کہ کورس کی تکمیل کے بعد‘ کیڈٹس کو غیر ضروری طور پر روکنے کا جواز ہی نہ تھا۔

    بنیادی سوالات اوربھی بڑے ہیں۔ وفاقی حکومت مستقل طور پر‘ عدم دلچسپی کی مرتکب کیوں ہے؟ کوئٹہ میں کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد سے آنے والے‘ اس طرح آتے ہیں ‘ جیسے ولیمے یا تعزیت کے لیے تشریف لائے ہوں۔
    دوسری صدی ہجری میں‘ امام نفس ذکیہ کا خروج‘ اسلامی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ بدترین حاکموں کے خلاف‘ بہترین انسانوں کی بغاوت۔ خلیفہ منصور عباسی کے چچا نے اسے کہا تھا کہ امام ابو حنیفہؒ کے لیے داروگیرہوئی تو (صرف کوفہ میں) ایک لاکھ تلواریں بے نیام ہونے کوتیار ہوں گی۔ ایک سوال کرنے والے کو امامؒ نے بتایا تھا کہ آزادی کی اس جدوجہد میں شریک ہونا پچاس حج کرنے سے زیادہ افضل ہے۔

    کالم کے مقالہ بننے کا اندیشہ نہ ہوتا تو تفصیلات عرض کرتا۔ نکتہ یہ ہے کہ نو دن کی مسافت طے کر کے دربان کی منت سماجت کرتا پیامبر ‘ دجلہ کنارے زیر تعمیر نئے دارالحکومت کے دربار میں داخل ہوا تو منصور اٹھ کھڑا ہوا۔ برق رفتاری سے دارالحکومت کوفہ پہنچا۔ پچاس
    دن تک وہ قالین کے ایک ٹکڑے پر بیٹھ کر‘ اجلاس کرتا اور اسی پہ سوتا رہا۔ تاریخ اس ٹکڑے کو جائے نمازکہتی ہے۔ ممکن ہے سجادہ ہی ہو‘ چھوٹا سا فرش۔ پچاس دن تک اس نے غسل نہ کیا‘ سرخ رنگ کا جو جبّہ وہ پہنے ہوئے تھا‘ میلا ہوتا گیا۔ فتح کے حصول تک وہ تدبیر میںرہا۔ بگولہ رقص میں رہتا ہے‘ صحرا میں نہیں رہتا۔ دوسری طرف بھی عالم یہی تھا۔ مورخوں نے‘ واعظوں نے موشگافیاں بہت کی ہیں۔ واقعہ یہ ہے خروج کی حمایت کے باوجود ‘ امام ابوحنیفہؒ اس لیے کوفہ میں مقیم رہے کہ نگرانی کرتے رہیں۔ جہاں کہیں رخنہ ہو‘ اسے دور کر سکیں۔

    جیسی رعایا‘ ویسے حاکم۔ امام حسنؓ کی اولاد کو اقتدار مل جاتا تو عالم اسلام کی تقدیر بدل جاتی۔ اللہ کو مگر منظور نہ تھا۔ جیسا کہ بعد میں خروج کرنے والے ‘ تاریخ انسانی کے اعلیٰ ترین خاندان کے ایک بزرگ نے کہا تھا: اللہ سے ہم ہار گئے۔ ظاہر ہے کہ قوم اپنے اعمال کی سزا میں محروم رہ گئی ۔ جہاد کرنے والوں نے منصوبہ بندی میں اگرچہ کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ امامؒ کے چاروں فرزند اور سارے بھائی تاریخ کی اس عظیم ترین سلطنت میں پھیل گئے تھے۔ دور دور تک چراغاں کردیا تھا۔ منصور کا حال یہ تھا کہ درجن بھر دروازوں پر سواری کے جانور ہمہ وقت مہیا رکھتاکہ ضرورت پڑے تو بھاگ کر” رے ‘‘ چلا جائے۔ اس قدر بے یقینی اور خطرناک حالات کے باوجود‘ جان ہتھیلی پر رکھے‘ پچاس دن‘ پوری یکسوئی سے‘ جنگ کی وہ قیادت کرتا رہا۔ ”حالات فیصلہ کریں گے کہ میرا سر(مجاہدین کے جنرل) ابراہیم کے سامنے پیش کیا جاتا ہے یا اس کا سر میرے پاس لایا جاتا ہے‘‘۔اس نے کہا تھا ۔

    کس چیز نے وزیراعظم کو روک رکھا ہے کہ بلوچستان کو اتنا وقت وہ دیا کریں جتنا کہ دینا چاہئے۔ ٹیلی ویژن کے مزاحیہ پروگرام دیکھنے کی فرصت انہیں میسر ہے۔ ”میرا سلطان ‘‘ایسے ڈرامے دیکھنے کو۔ امن و امان کے لیے کیوں نہیں؟اس سوال کا جواب بہت تلخ ہے۔ منصور کی وہ اپنی سلطنت تھی۔ اسی دیار میں اسے جینا اور مرنا تھا۔ وزیراعظم کی دولت کا بڑا حصہ اور اولاد ملک سے باہر ہے۔ ان کی حمایت کا ایک حصہ بھی۔ پاکستان کی سلامتی کے یقینا وہ آرزو مند ہیں مگر یہ ان کی واحد اور اوّلین ترجیح ہرگز نہیں۔

    پولیس کو انہوں نے بہتر بنایا ہوتا۔ برصغیر کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ کسی بھی علاقے کا اصل محافظ‘ اس کا تھانیدار ہوتا ہے‘ مقامی پولیس اسٹیشن۔ اسامہ بن لادن کو قتل کرنے والے آئے تو جو آدمی سب سے پہلے وہاں پہنچا وہ ایک پولیس انسپکٹر تھا۔ سول انٹیلی جنس کو بہتر بنایا ہوتا۔ جون 1995ء میں الطاف حسین کے دہشت گردوں کے خلاف عظیم کامیابی پولیس کی تھی مگر اتنی ہی انٹیلی جنس بیورو کی تھی۔ شریف خٹک کی تھی‘ محمد فواد کی بھی‘ شجاعت اللہ کی بھی۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو‘ ہمہ وقت پولیس افسر کے ساتھ رابطے میں رہا کرتیں۔ وزیرداخلہ نصیراللہ بابر مہینے میں چار پانچ بار کراچی جایا کرتے۔ نیشنل ایکشن پلان ؟ماتم کافی ہو چکا‘ مزید سینہ کوبی سے حاصل کیا؟پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے ۔

    سیاست اپنی جگہ‘ اختلافات بجا۔ قوم کے دفاع پر پوری کی پوری سیاسی قیادت میں ہم آہنگی ہونا چاہئے۔ سول اور فوجی قیادت میں تنائو کا مطلب تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ وزیراعظم کے مشیر مشاہد اللہ خان کی شہادت واضح ہے:ایک صفحے پر دونوں کبھی نہ تھے۔ نریندر مودی سے وزیراعظم خوش دلی سے بات کرتے ہیں۔ اشرف غنی سے جنرل صاحبان اتنی ہی بشاشت کے ساتھ گفتگو کرتے رہے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے‘ قوم سوال کرنے کا حق رکھتی ہے کہ باہمی اختلافات کو کم کرنے کی انہوں نے کتنی کوشش کی؟

    انگریزی میں کہتے ہیں” “Someone Should cry halt۔ رک جائو خدا کے لیے اب تو رک جائو۔ اجیت دودل کا ہاتھ‘ ہماری شہ رگ تک آپہنچا ہے اور اس وقت آ پہنچا ہے‘ جب غنیم‘ ہم سے قوی ہرگز نہیں۔

  • عقل نہیں ڈالرز چاہئیں۔۔۔۔!-رؤف کلاسرہ

    عقل نہیں ڈالرز چاہئیں۔۔۔۔!-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra
    دہشت گردوں نے ایک دفعہ پھر کوئٹہ میں ظلم ڈھا دیا ہے۔ حسب دستور اس کی مذمت جاری ہے اور جاری رہے گی۔ چند دن اجلاس ہوںگے، سخت کارروائی کرنے کے اعلانات کئے جائیں گے، قوم کو دو تین عالمی سازشیں سنائی جائیں گی اور پھرکاروبار زندگی معمول کے مطابق چلتا رہے گا۔

    تحقیقات کے بعدپریس کانفرنسیں کرکے ہمیں وہ راستے سمجھانے کی کوشش کی جائے گی جن کو عبور کرکے دہشت گرد پولیس ٹریننگ سکول تک پہنچے۔ پھر ان کے سہولت کاروں کے بارے میںبتایا جائے گا۔ ایسے لگے گا کہ جب دہشت گرد گھر سے حملہ کرنے نکلے تھے تو ہمارا کیمرہ ان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔لیکن حملہ رک نہ سکا۔

    ہماری نااہلیوں کی داستان اتنی طویل ہوگئی ہے کہ اب ہر جگہ آپ کو اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئٹہ میں جاری ظلم و ستم تو اپنی جگہ، حالت یہ ہو چکی ہے کہ اب اسلام آباد بھی ایسے لوگوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جو اس کی تباہی و بربادی کے در پے ہیں۔ ملک کے پالیسی میکرز اور بیوروکریٹس سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں!

    کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ سکول کی چار دیواری تک نہیں تھی۔ باقی اندازہ آپ خود کر لیں۔ اگر ہوتی بھی تو ہم نے کیا کر لینا تھا۔ پشاور آرمی سکول کی تو عمارت بھی تھی، اس پر حملے کی دھمکی بھی آئی ہوئی تھی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان فرماتے ہیںکہ اس سکول پر حملے کی خبر پہلے سے موجود تھی۔ سو، سب پتا ہوتا ہے۔ ہماری اوقات ہی یہ ہے کہ اس کے باوجود حملے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے بچے مارے جاتے ہیں۔ جب ہم یہ رونا رو رہے ہیں کہ کوئٹہ کے ٹرینگ سکول کی دیوار تک نہ تھی تو اسلام آباد کی حالت بھی سن لیں۔

    میجر عامر ایک پرائیویٹ ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ خیریت پوچھنے گیا تو حیرت کا پہاڑ مجھ پر آ گرا۔ ان کے بیٹے عمار نے بتایا کہ چند دن پہلے بابا کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ وہ انہیں اسلام آبادکے بڑے ہسپتال پمز لے کرگئے۔ وی آئی پی روم لیا۔ چوبیس گھنٹوں تک کوئی ڈاکٹر چیک اپ کے لئے نہ آیا۔ فریج کھولا تو اس کی بہت بری حالت تھی، واش روم کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب! جو صاحب پمزکے سربراہ ہیں وہ ایک بڑے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد بابا کی طبیعت بگڑنی شروع ہوئی تو ان کی چھوٹی بہن نے والد کے دوست ملک ریاض کو فون کیا کہ انکل بابا کی طبیعت بگڑ گئی ہے اور ہسپتال میں انہیں اٹنڈکرنے والا کوئی نہیں۔ ملک ریاض آئے اور انہیں پرائیویٹ ہسپتال لے گئے، جہاں ان کی طبیعت بہتر ہو رہی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال میں آپ کی زندگی بچ سکتی ہے، سرکاری ہسپتال میں آپ صرف مرنے کا انتظار کریں۔

    میجر عامر وضع دار انسان ہیں۔ دوستوں کا گلہ نہیںکرتے۔ نواز شریف سے قریبی تعلق رہا، حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ اگر میجر عامر جیسا نامور اور وسیع تعلقات رکھنے والا انسان بھی سرکاری ہسپتال سے بھاگ جائے اور پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرانے پر مجبور ہو تو کیا وزیراعظم کے رحیم یار خان میں غریبوں کا علاج نہ ہونے پر بہائے گئے آنسوئوں کو ہمیں سنجیدہ لینا چاہیے؟ اگر اسلام آباد کے ایک ہسپتال کی یہ حالت ہے کہ چوبیس گھنٹے تک علاج شروع نہ ہوسکا توکیا ایسی حکومت کے سربراہ کو آنسو بہانے کا ڈرامہ کرنا چاہیے؟ خود کو چھینک بھی آ جائے تو اگلے دن لندن تشریف لے جاتے ہیں۔

    درست، جوکچھ کوئٹہ میں ہوا اس کے سامنے پمز میں میجر عامرکی کہانی عام سی بات لگے گی۔ لیکن اسے سنانے کا مقصد یہ تھا کہ جن حکمرانوں سے اسلام آباد کا ایک چھوٹا سا ہسپتال نہیں چل پا رہا، وہ ملک کو در پیش بڑے مسائل سے کیسے ہماری جان چھڑائیںگے؟ ہرجگہ اپنا بندہ لگانے کی کوشش ہوگی تو پھر گورننس اور سروس لیول تو نیچے ہی جائے گا!

    ہم سب جانتے ہیںکہ شاید پاکستان کے پاس دہشت گردی کے ناسورکا کوئی پائیدار حل موجود نہیں ہے۔ ہم اس خطے میں جاری پراکسی وار کا حصہ ہیں۔ کچھ پراکسی کھیل ہم کھیل رہے ہیں اور کچھ ہمارے دشمن۔ معصوم شہریوںکو مارا جاتا ہے اور الزام دوسرے پر لگا دیا جاتا ہے۔کابل،کوئٹہ، ممبئی۔۔۔۔ ہر جگہ بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔ اسّی کی دہائی میں بھی اس طرح کی دہشت گردی ہوئی تھی۔ بازاروں میں اسی طرح بم دھماکے ہوتے تھے۔ اس وقت ہم افغانستان میں روس کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ جی ہاں، وہی روس جس کے فوجی دستے کچھ روز قبل ہمارے ہاں مشترکہ مشقیں کرتے پائے گئے۔ دوست اور دشمن بدلتے رہتے ہیں۔ اُس وقت امریکی ہمارے جان جگر تھے اور آج روس پر ہم صدقے واری جا رہے ہیں۔ اُس وقت امریکی ہماری جان تھے اور ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہ اہل کتاب ہیں، ان کی خواتین سے تو شادی جائز ہے جبکہ روسی تو کمیونسٹ ہیں، خدا تک کو نہیں مانتے۔ آج ہمیں بتایا جا رہا ہے، اسلامی فرمودات کے مطابق یہود و ہنود تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ یوں آج ہم نے کیمونسٹوں سے دوستی کر لی ہے۔

    ہمارے ملک کے اصل حکمرانوں کے پاس جنرل ضیاء دور میں روس کے خلاف لڑنے کی ہزاروں دلیلیں تھیں۔ آج اسی روس کے ساتھ دوستی کی بھی وجوہات ہیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا روس گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے افغانستان کے بعد پاکستان پر قبضہ کرے گا۔ روس نے تو آج تک بھول کر بھی گرم پانیوںکا ذکر نہیں کیا؛ تاہم پتا چلا کہ ہم تو افغانستان میں روسیوں کوگرم پانی تک نہ پہنچنے دینے کے لئے لڑتے رہے جبکہ گرم پانی پر نظریں تو چین کی تھیں۔ اب چین گوادرکے ذریعے بیرونی دنیا تک پہنچ گیا ہے۔ ہمیں کبھی کسی نے بتانے کی کوشش نہیں کی کہ ہم کیوں اورکب دشمن اور دوست بناتے ہیں۔

    افغانستان کو ہی لے لیں۔ چار سابق پاکستانی سفارتکاروں نے پچھلے دنوں ایک انگریزی اخبار میں اہم مضمون لکھا تھا۔ یہ چاروں عام لوگ نہیں۔ پوری دنیا دیکھی ہوئی ہے۔ اچھا برا سب سمجھتے ہیں۔ یہ سفارت کار بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ دنیا میں ہمارے بارے میں مشہور ہوگیا ہے کہ ہم دہشت گردوں کے ساتھی ہیں۔ غلط یا درست لیکن ہمار امیج یہی بن گیا ہے۔ مثلًا افغانستان ہمارے بارے میں کہتا ہے کہ ہم حقانی نیٹ ورک کے ذریعے وہاں کارروائیاں کراتے ہیں۔ بھارت کہتا ہے ہم مسعود اظہرگروپ کے ذریعے وہاں کارروائیاں کراتے ہیں۔ ہم یہی الزامات افغانستان اور بھارت پر لگاتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی پراکسی کے ذریعے پاکستان میں حملے کراتے ہیں۔

    ان سفارتکا روں نے ایک اہم سوال اٹھایا: ہم ہر بار افغانستان میں طالبان کے ساتھ کیوں کھڑے ہوتے ہیں جو وہاں بربادی، قتل و غارت اور پس ماندہ قوتوں کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں؟ ہم افغانستان کے پڑھے لکھے، روشن خیال اور سمجھدار طبقات کے ساتھ کیوں تعلقات نہیں رکھتے؟ طالبان کو افغانستان میں پروموٹ کر کے ہم نے کیا نتائج حاصل کیے؟ پاکستان کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ تیس برس سے زیادہ عرصے سے ہم افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی کر رہے ہیں، اس کے بدلے میں افغانستان اور بھارت نے پاکستان میں تحریک طالبان کو ایکٹوکرکے ہمارے ساٹھ ہزار افراد قتل کرا دیے۔

    ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے تھی کہ افغانستان میں باون ملکوں کی افواج پر مشتمل عالمی فورس موجود ہے۔ ہم پوری دنیا سے ٹکر لے رہے ہیں۔ اب پوری دنیا دہشت گردی کا سامنا کر رہی ہے۔ ہمیں دنیا میں بھارت نے تنہا نہیں کیا بلکہ ہم نے خود اپنے آپ کو تنہا کیا ہے۔ ہمیں طالبان کو راضی کرنا چاہیے کہ وہ بھی کابل کے ساتھ تعلقات درست کریں۔ گلبدین حکمت یار کی طرح پاور میں شیئر لیں اور وہاں بیٹھ کر پاکستان کے مفادات کی نگرانی کریں۔ طالبان کابل حکومت میں بیٹھ کر ہمارے لیے زیادہ فائدہ مند ہو سکتے ہیں، پہاڑوں پر رہتے ہوئے کابل کی مارکیٹوں پر حملہ آور ہوکر بے گناہ افغانوںکو قتل کر کے نہیں۔ پاکستان کو بہر صورت افغانستان میں امن کرانے کے لیے آخری حد تک جانا ہوگا۔ میرے خیال میں اس وقت افغانستان میں امن قائم کرنا افغانوں سے زیادہ پاکستان کے لیے ضروری ہے۔اس پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔بڑھکیں بہت مار لیں اور اس کے نتائج بھی بھگت لیے۔

    چکوال کے ٹاپ آسٹرولوجسٹ پروفیسر غنی جاوید مجھے بڑے عرصے سے خبردار کر رہے ہیںکہ تم کالموں میں لکھو اور بار بار لکھو کہ پاکستان سمجھداری سے کام لے۔ پاکستان کے حالات 1971ء سے بھی زیادہ خراب ہونے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس وقت دنیا کو دوست بنانے اور بچا کچھا پاکستان بچانے کی ضرورت ہے۔ میں انہیںکہتا ہوں پروفیسر صاحب! ہمارے عقلمندوں کو ان مشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔وہ 1971ء میں بھی سمجھدارکہلاتے تھے اور اب بھی ماشاء اللہ سمجھدار ہیں۔ آپ لاکھ انہیں ستاروں کی چالیں سمجھاتے رہیں، انہیں آسمان پر ہونے والی تبدیلیوں سے خبردار کرتے رہیں، انہوں نے پھر بھی کرنی وہی ہے! یہ واحد قوم ہے جس نے ماضی سے سیکھنے سے انکار کیا ہوا ہے۔ جس روس کے ساتھ جنگیں لڑیں، ہزاروں بچے مروائے آج اس کے ساتھ فوجی مشقیں اور جس امریکہ کے لیے اپنے بچے مروائے آج اسے دشمن بنایا ہوا ہے۔ ان کو عقل کی نہیں ڈالروں کی ضرورت ہے۔جہاں سے ملیں، جیسے ملیں۔ پراکسی جنگوں میں دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والے ہمارے نوجوان بچوںکی ماتم کرتی مائوںکا کیا ہے، وہ اور پیدا کر لیں گی۔۔۔۔!

  • حسن رضا چنگیزی اور انعام رانا صاحب کے نام – امتیاز خان

    حسن رضا چنگیزی اور انعام رانا صاحب کے نام – امتیاز خان

    مجھے میرا کوئٹہ واپس چاہیے کے عنوان سے حسن رضا چنگیزی صاحب کا مضمون دلیل پر دیکھا، محترم انعام رانا صاحب نے بھی اس کو اپنی فیس بک وال پر دردمندانہ اپیل کے ساتھ شیئر کیا ہوا تھا. پہلے تو چنگیزی صاحب کی ہمت و حوصلے کی داد دینی چاہیے کہ انھوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر سچ لکھا اور یہ نہیں دیکھا کہ اس کی زد میں ان کا اپنا فرقہ، قبیلہ اور برادری آ رہی ہے.

    یہ وہ مسئلہ ہے جس کا حل ہر دردمند انسان کو چاہیے لیکن مؤدبانہ گزارش یہ ہے کہ وجوہات ختم کیے بغیر مسئلے کو سلایا تو جاسکتا ہے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کیا بے ہوشی کا انجیکشن کسی مرض کی دوا ہوسکتا ہے؟

    چنگیزی صاحب اور انعام رانا صاحب کو اپنا کوئٹہ اور لاہور واپس چاہیے جہاں عاشور ہوتا تھا لیکن خوف کے سائے سے پاک، محبتوں سے لبریز اور الفتوں سے معمور۔
    بجا!۔ ہم سب کو بھی وہی پاکستان چاہیے جہاں کشت و خون کے بغیر ہم آباد تھے تو ہم اسے پانے کے لیے تھوڑا پیچھے کیوں نہیں چلے جاتے۔
    کیا شیعہ سنی علمی و فکری جدال و اختلاف ”ضیادور کی پیداوار“ ہے؟
    کیا 13 صدیوں سے شیعہ اپنی کتب میں اہل سنت اور اہل سنت اپنی کتب میں شیعہ کے خلاف فتوے نہیں دیتے چلے آرہے؟
    کیا پاکستان میں 80 کی دہائی کے وسط سے پہلے شیعہ سنی کا اختلاف نہیں تھا اور یہ ایک دوسرے کو باطل نہیں ثابت کیا کرتے تھے؟
    پھر یہ شیعہ سنی فسادات ابن تیمیہ کے دور میں کیوں نہ چھڑ گئے؟ تحفہ اثنا عشریہ کی تالیف کے وقت کیوں نہ ہوگئے؟ باگڑ سرگانہ خانیوال میں تین دن تین راتیں شیعہ اور سنی ایک ہی میدان میں بیٹھے ابطال شیعیت و سنیت کے دلائل سنتے رہے تو فساد کیوں نہ پھوٹ پڑا؟ وجہ اصل میں وہ ہے ہی نہیں جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے اور جسے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

    میری داڑھی 70 فیصد سفید ہو چکی ہے، میں نے اپنی زندگی میں کسی سنی عالم کی نہ کتاب میں پڑھا ہے نہ خطبے میں سنا ہے اور نہ مدرسے میں گذرے 33 سالوں میں کسی کو یہ پڑھتے پڑھاتے سنا ہے کہ شیعہ عاشور کے جلوس نکالتے ہیں، اس لیے انہیں مارو، یا شیعہ ماتم کرتے ہیں اس لیے واجب القتل ہیں، یا شیعہ ائمہ کو معصوم مانتے ہیں اس لیے ان کا خون حلال ہے، یا شیعہ ولایت علی کے قائل ہیں اس لیے انہیں مار ڈالو، یا شیعہ کا عقیدہ توحید و عقیدہ رسالت ہم سے مختلف ہے اس لیے انھیں مٹادو، یا شیعہ ذوالجناح کو سجدہ کرتے ہیں اس سے مرادیں مانگتے ہیں اس لیے انھیں قتل کردو۔ مولانا عبدالشکور لکھنوی سے لے کر مولانا عبدالستار تونسوی تک کسی ایک کی ایسی کوئی تقریر و تحریر ملے تو دکھائیے۔

    میں نے اپنی حیات مستعار میں یا ماضی کے جھرونکوں میں جب بھی اہل سنت کو شیعہ کے خلاف نکلتے، بولتے، شدت میں آتے اور آپے سے باہر ہوتے دیکھا ہے، صرف ایک مسئلے پر دیکھا ہے، صرف ایک، اور وہ ہے؛
    گالی گالی اور صرف گالی۔
    وہی گالی چنگیزی صاحب نے اپنے مضمون میں جس کا ذکر کیا ہے. جب بھی کوئی مسئلہ ہوا، اسی وجہ سے ہوا۔ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند اگر احتجاجا لکھنؤ کی طرف چل پڑا تو اسی گالی کے ردعمل میں اور پاکستان میں جو کچھ ہوا، کرنے والوں کے اپنے بیان شاہد ہیں کہ انہیں چڑ کسی کے وجود سے نہیں، گالی سے ہے۔ مرنے مارنے پر اکسانے والوں نے اسی گالی کو بنیاد بنایا نہ کہ کسی کے عقیدے یا عمل کو.

    کیا وجہ ہے کہ سیدنا مولا علی و سیدنا امام حسین کا مقدمہ سنی لڑتا ہے۔ اپنوں سے بھی اور غیروں سے بھی۔ مضبوط دلیل کی بناء پر لڑتا ہے اور مسکت انداز میں لڑتا ہے اور جب ادھر دیکھتا ہے کہ گالیاں ہی گالیاں، جیسے انھیں عبادت کا درجہ حاصل ہو گیا ہے، تو برداشت ضرور جواب دیتی ہے۔

    دست بستہ درخواست ہے کہ ”گالی“ بند کروائیے۔ میں اس کوئٹہ اور پاکستان کی واپسی کےلیے آپ کے ساتھ مل کر جدوجہد کروں گا۔ میں اور آپ قتل و مقاتلے کے قائل نہیں ہیں، ہم بھی دلیل کے ساتھ مکالمہ چاہتے ہیں، مگر جس بنیاد پر عام و خاص کو اکسایا جاتا ہے، وہ وجہ ختم کروانے کے لیے سب دوست مل کر کام کیجیے، سوشل میڈیا پر، اپنی ویب سائٹس کے ذریعے، اپنی محافل اور حلقہ احباب میں توجہ دلائیے. یاد رکھیے کہ یہ مسئلہ روتے رلاتے افسانے لکھنے، مذمتی قراردادیں پاس کرنے سے نہیں، اسباب مٹانے سے حل ہوگا۔

  • مجھے میرا کوئٹہ واپس چاہیے – حسن رضا چنگیزی

    مجھے میرا کوئٹہ واپس چاہیے – حسن رضا چنگیزی

    حسن-رضا-چنگیزی-1-1.jpg زمانہ طالب علمی کی بات ہے۔ میں اور میرے دوست عام لا ابالی نوجوانوں کی طرح گھومنے پھرنے بلکہ بقول والدین آوارہ گردی کے شوقین تھے۔ ہمارے گروپ میں شیعہ اور سنی دونوں مسالک کے دوست شامل تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ ہم نے کبھی آپس میں مسلکی موضوعات پر کوئی گفتگو کی ہو۔ زندگی بڑے نارمل انداز میں بسر ہو رہی تھی۔ ان دنوں میرے کئی شیعہ دوست شیروانیاں زیب تن کر کے ایک مقامی مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے جبکہ سنی دوست شام کے اوقات میں ٹوپیاں پہنے علاقے کی مساجد میں قرآن پڑھنے جایا کرتے تھے۔ اس بات کی کسی کو پرواہ نہیں تھی کہ کون شیعہ ہے اور کون سنی، نہ ہی ہم ان موضوعات پر کبھی آپس میں بحث کیا کرتے۔

    اس کے برعکس ہم نہ صرف اکھٹے پکنک منایا کرتے بلکہ محرم کی رسومات میں بھی مل جل کر شرکت کرتے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات ہمارے سنی دوست بھی ہمارے ساتھ محرم کی مجالس میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ دوسری طرف محلے کی مساجد کے طالب علم بچے جب شام کے وقت ہر دروازے پر دستک دے کر ”ٹکی راوڑی خیر یوسی“ کی آواز لگا کر مسجد کے طالب علموں کے لیے کھانا جمع کرتے تو محلے کی دیگر ماؤں کی طرح میری ماں بھی ان کے برتن میں ہمیشہ کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز ڈال دیتی۔ تب مساجد اور امام بارگاہوں میں لاؤڈ اسپیکر پر بلند آواز میں خطبہ دینے کا چلن عام نہیں تھا۔ عاشورہ کے دن شیعہ ماتم کرتے تو سنی نذر و نیاز اور سبیل کی ذمہ داریاں سنبھالتے۔ علمدار روڑ پر واقع حاجی رفیق کا ”چکوال گرم حمام“ عاشورہ کے دن بال سنوارنے اور شیو بنانے سے یکسر انکار کردیتا لیکن اسی حمام میں صبح سے ہی پانی گرم کرنے کی تیاری شروع ہوتی تاکہ ماتمیوں کو مفت غسل کرنے کی سہولت میسر ہو۔

    لیکن پھر بڑے غیر محسوس طریقے سے سارا نظارہ بدلنے لگا۔ جنرل ضیاءالحق کی پالیسیوں اور ایرانی انقلاب کی حشر سامانیوں کے باعث مساجد اور امام بارگاہوں میں لاؤڈ اسپیکر کی آوازیں بلند سے بلند تر ہونے لگیں۔ داڑھیوں کے سائز میں اضافے کے ساتھ دلوں میں کدورتیں بھی بڑھتی گئیں اور زبانیں محبت کا پرچار کرنے کے بجائے زہر اگلنے لگیں۔ ہمیں پہلی بار اس بات کا احساس دلایا گیا کہ چونکہ ہم شیعہ ہیں، اس لیے حق پر ہیں، جبکہ ہمارے سنی دوستوں کو اس بات کا یقین دلایا گیا کہ جنت صرف ان کے لیے بنی ہے۔

    انہی دنوں پاکستان میں فقہ جعفریہ نافذ کرنے کی مہم چل نکلی اور پاکستان خصوصاَ کوئٹہ کو لبنان بنانے کی باتیں کی جانے لگیں۔ مجھے یاد ہے کہ تب کچھ امام بارگاہوں کے منتظمین میں محرم کے دس دنوں کے لیے پنجاب اور سندھ کے پیشہ ور خطیبوں اور ذاکرین کو بھاری معاوضوں کے عوض ”بک“ کرنے کی ایک دوڑ سی لگ جاتی۔ مجالس میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ بِھیڑ جمع کرنے کی خاطر ان خطیبوں کے بھاری معاوضوں کی خصوصی تشہیر کی جاتی۔ ان دنوں امام بارگاہ کلان میکانگی روڈ میں پنجاب سے آئے ایک خطیب ضمیر الحسن نجفی کا بڑا شہرہ تھا جو اس وقت کا سب سے ”مہنگا“ خطیب تھا۔ وہ بڑے مضحکہ خیز انداز میں اصحاب رسول ﷺ کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ وہ ان اصحاب کے خلاف بولنے اور تبریٰ بھیجنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ تب اسے محرم کے دس دنوں میں خطابت کے عوض چالیس ہزار روپے ملتے تھے جو شاید آج کے آٹھ دس لاکھ روپے کے برابر ہوں۔
    ہم سارے شیعہ دوست ان کے شیدائیوں میں شامل تھے۔ ایک دن میرے کسی دوست نے ایک پرچی پر ان کے لیے سوال لکھ بھیجا کہ ”ہم نماز کے وقت سجدہ گاہ ( مہر) کیوں استعمال کرتے ہیں؟“ ضمیر الحسن نجفی نے اس سوال کے جواب میں ایک لمبی چوڑی کہانی سنائی۔ کہنے لگے ”ایک دن میں پنجاب کے کسی گاؤں سے گزر رہا تھا تو نماز کا وقت آن پہنچا۔ میں نماز پڑھنے ایک قریبی مسجد میں گھس گیا جو سنیوں کی تھی۔ میں نے مصلیٰ بچھایا اور سجدہ گاہ رکھ کر نماز پڑھنے لگا۔ اس دوران مجھے محسوس ہوا کہ مسجد کا امام بڑی بے چینی اور غصے میں ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔ میں نے نماز ختم کی تو امام مسجد میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ تم اس ’ٹکیا‘ پہ سجدہ کیوں کرتے ہو؟ میں نے جواب میں کہا کہ کربلا کی اس مٹی پر سجدہ کرنے سے شیطان کو غصہ آتا ہے، کہیں آپ کو تونہیں آیا؟“ نجفی صاحب کا یہ کہنا تھا کہ امام بارگاہ نعرہ حیدری سے گونج اُٹھی۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس نعرے میں میری بلند آواز بھی شامل تھی۔ تب دوسروں کی طرح میں بھی یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ مولوی صاحب نے بڑی چالاکی سے ہمارے دوست کا سوال ایک من گھڑت قصے میں لپیٹ کر ہماری عقل پر دے مارا تھا۔

    انھی دنوں ہم نے پہلی بار ”ایک ، دو ، تین پر لعنت“ کا نعرہ اور جواب میں ”بےشمار“ کی تکرار سنی۔ اور انھی دنوں شاید پہلی بار سامنے کی مسجد سے امام بارگاہ کلان پر پتھراؤ کیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب اگلے دن ایک شخص نے مولوی (ضمیر الحسن نجفی) سے کہا کہ آپ تو اپنا کام کر کے چلے جائیں گے لیکن آپ کی ان تقریروں کی وجہ سے جو نفرت پھیل رہی ہے، اس کے باعث آج کے بعد ہمیں اسلحہ لے کر گھومنا ہوگا تو جناب کا جواب تھا کہ ”میں نےاپنا کام کردیا، اب آپ لوگ جانیں اور آپ کا کام جانے“۔ موصوف اگلے کئی سالوں تک بھاری بھر کم فیس لے کر نوجوانوں کے اذہان کو زہر آلود کرتے رہے۔

    پھر ایک سال محرم کے دوران پنجابی امام بارگاہ میں پنجاب کے ایک اور آتش سخن خطیب کو دعوت دی گئی اور محرم کے آغاز سے قبل ہی بڑے منظم طریقے سے موصوف کی تشہیر کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا۔ ان کی پہلی خاصیت یہ بتائی گئی کہ وہ پہلے ایک دیوبندی مولوی تھے لیکن اب شیعہ مذہب کی حقانیت قبول کر کے ”راہ راست“ پر آگئے ہیں۔ ان کی دوسری خوبی جو ان کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بنی ان کی بھاری بھرکم فیس تھی۔ اس بات کی خصوصی تشہیر کی گئی کہ انہیں محرم کے دس دنوں کے دوران خطابت کے عوض 90 ہزار روپے دیے جائیں گے جو اس سیزن میں کسی بھی خطیب کو دی جانے والی سب سے بڑی رقم تھی۔ میں اس خطیب کا نام شاید زندگی بھر نہ بھول سکوں۔ اس کا نام مظہر دیوبندی تھا۔ وہ بلا کا خطیب تھا۔ اس کا یہ جملہ بڑا مشہور ہوا تھا کہ ”مجھ سے پوچھو میں بتاتا ہوں کہ سنیوں میں کیا خرابیاں ہیں، کیونکہ میں 45 سال تک سنی تھا اور ابھی ابھی شیعہ ہوا ہوں۔“

    اس وقت اس ”نو شیعے“ کو جتنا معاوضہ اورعزت ملی، اتنی عزت کبھی کسی مقامی شیعہ عالم کے حصے میں نہیں آئی۔ انہی دنوں ایک موقع پر جب دیوبندی صاحب نفرتیں پھیلا کر اور اپنی روزی حلال کر کے منبر سے اترے تو ہم دوست بھی ان کے پیچھے پیچھے پنجابی امام بارگاہ کے مختصر سے حجرے میں چلے گئے۔ سلام دعا کے بعد ہم نے ان سے سجدہ گاہ سے متعلق وہی سوال پوچھا جو اس سے قبل ہم ضمیرالحسن نجفی سے پوچھ چکے تھے۔ پہلے تو انہوں نے تھکاوٹ کا بہانہ بنا کر ہم سے جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن ہمارے اصرار پر انہوں نے جو جواب دیا، وہ آج بھی میرے حافظے میں محفوظ ہے۔ فرمانے لگے ”بیٹے میں تو ابھی ابھی شیعہ ہوا ہوں، اس لیے اس بارے میں کچھ نہیں جانتا، بہتر ہوگا یہ سوال آپ اپنے کسی جید عالم سے پوچھ لیں۔“ ہماری سادگی دیکھیے کہ ہم تب بھی یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ ہمارے ہی چندوں پر پلنے والے یہ پیشہ ور ”علماء“ جو اپنی کمائی کی خاطر مسلک بدلنے پر ہمیشہ تیار رہتے ہیں، جن کو دین کی معمولی سمجھ بوجھ بھی نہیں اور جو ہمارے اذہان میں اُبھرنے والے بنیادی سوالوں کے جواب دینے کے بجائے انہیں ہنسی مذاق میں اڑا دیتے ہیں، ہمیں مستقبل میں کن آزمائشوں میں مبتلا کرنے والے تھے۔

    وقت گزرتا گیا اور ساتھ ہی سنی امیرالمؤمنین ضیاءالحق کے نظام مصطفیٰ اور شیعہ امام خمینی کے ایرانی انقلاب کی بدولت خطے میں مذہبی جنون بھی بڑھتا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ محبت کی جگہ نفرت نے لے لی، دلائل کے بجائے پستول، کلاشنکوف اور بموں کے ذریعے بات کرنے کا سلسلہ چل پڑا، گھروں کی دیواریں اونچی ہونے لگیں، اپنی حقانیت ثابت کرنے کی خاطر سعودی عرب اور ایران سے طاقتور لاؤڈ اسپیکر منگوانے کی ریت چل پڑی۔ فتووں کا بازار گرم ہوا، معصوم لوگوں کو ذبح کرنے کی رسم چل پڑی اور میرے سنی ہمسائیوں نے محرم کے دنوں میں نذر و نیاز کا سلسلہ بند کر دیا۔ ساتھ ہی ”ٹکی راوڑی خیر یوسی“ کی آوازیں بھی آنا بند ہو گئیں۔ ماحول پر آسیب کا سایہ پڑ گیا۔ حاجی رفیق اپنا چکوال گرم حمام بند کر کے پنجاب چلا گیا۔ ہمارے اسکول کے کلین شیو استاد ماسٹر عزیز نے اپنی ساری توجہ داڑھی بڑھانے پر مرکوز کر دی اور میرے بچپن کے سنی دوست مجھ سے دور ہوتے چلےگئے۔

    پھر تو ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک بھر سے قتل و غارت کی خبریں آنے لگیں۔ لوگ امن کی تلاش میں ملک سے بھاگنے لگے۔ سینکڑوں لوگ برف زاروں اور سمندروں کی نذر ہونے لگے، بم دھماکے ہونے لگے، ٹارگٹ کلنگ اپنے عروج پر پہنچ گئی، بچے اور عورتیں خون میں نہلانے لگیں اور مائیں اپنے بچوں کو گھر سے رخصت کرتے وقت ان پر دعائیں پڑھ کر پھونکنے لگیں تاکہ وہ خیریت سےگھر لوٹ سکیں۔ لیکن امن ایسا روٹھا کہ اس نے پلٹ کر دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔

    میں آج بھی ماضی کے مزاروں میں جھانک کر ایک ایسے پرسکون معاشرے کی تلاش میں ہوں جہاں میں اپنے سنی دوستوں کے ساتھ پھر سے پکنک پر جا سکوں۔ مجھے ایک ایسے معاشرے کی تلاش ہے جہاں عقیدے کی بنیاد پر کسی کو قتل نہ کیا جاتا ہو اور جہاں لوگ شیعہ، سنی یا ہندو، مسلمان اور عیسائی بن کر نہیں بلکہ انسان بن کر رہیں۔ مجھے میرا کوئٹہ واپس چاہیے۔ میں ہزاروں ریاض، تہران اور لبنان اپنے کوئٹہ پر قربان کرنے کو تیار ہوں۔ لیکن کیا کوئی ہے ایسا جو میرا پرانا کوئٹہ مجھے واپس دلا سکے؟
    ہے کوئی جو میری مدد کرے؟ ہل من ناصر ینصرنا؟