پورا کوئٹہ شہر سوگوار ہے۔ یوں تو اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کا تعلق بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تھا، لیکن اس شہر کی خصلت اور عادت میں شامل ہے کہ ہر کسی کے غم میں ضرور شریک ہوتا ہے۔ یوں بھی بلوچستان کے بلوچ اور پشتون قبائل میں فاتحہ کی رسم کئی مہینے تک چلتی رہتی ہے۔
لوگ میلوں کا سفر کر کے مرنے والے کا پرسہ دینے آتے ہیں۔ فاتحہ کی رسم بھی ان کے ہاں کمال کی ہے۔ سب سے پہلے کسی کے گھر جا کر بچھی ہوئی دری یا قالین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی سے سلام دعا یا ہاتھ نہیں ملاتے، بلکہ فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ علاقے کا مولوی مستقل وہاں بیٹھا رہتا ہے۔ جو باآواز بلند دعا کرتا ہے۔ فاتحہ کرنے کے بعد ایک دوسرے کا حال پوچھا جاتا ہے۔
اس معاشرے کا کمال یہ ہے کہ دو قبیلوں یا گھرانوں کے درمیان شدید دشمنی بھی چل رہی ہو، ایک دوسرے کے افراد قتل بھی ہو رہے ہوں لیکن جب تک کوئی شخص اپنے عزیز کی فاتحہ پر بیٹھا ہوتا ہے اتنے عرصے کے لیے دشمنی ترک کر دیتے ہیں جسے یہاں کی زبان میں ’’خیر‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح کی روایتوں کے امین معاشرے میں ’’کوئٹہ‘‘ شہر کا سوگوار ہونا لازم تھا۔
ویسے بھی کوئٹہ بلوچستان کے وسیع و عریض صوبے میں واحد مقام ہے جسے محدود معنوں میں شہر کہا جا سکتا ہے۔ یعنی جہاں مریضوں کے علاج کے لیے اسپتال ہیں۔ پڑھنے کے لیے کالج اور یونیورسٹی ہے۔ اشیائے صرف اور ضرورت کی خریدو فروخت کے لیے بڑی بڑی مارکٹیں ہیں۔ سیوریج اور واٹر سپلائی کا نظام ہے۔ اسٹریٹ لائٹس ہیں۔ ٹریفک ہے اور ٹریفک کے سپاہی بھی ہیں۔ یہ سب کچھ آپ کو صرف اور صرف کوئٹہ میں نظر آئے گا۔
اگرچہ کہ اس سب کی حالت زار دیکھ کر رونا آتا ہے۔ آپ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ جس سنڈیمن پروونشل اسپتال کی حالت پنجاب کے کسی بھی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر سے بھی ابتر ہے۔ وہاں ہزار کلو میٹر دور گوادر، سات سو کلو میٹر دور تفتان، پانچ سو کلو میٹر دور کراخراسان اور اتنے ہی دور علاقوں سے مریض لائے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ پورے بلوچستان میں دل، گلے، گردے، ہڈی جلد یا کسی اور جسم کے حصے کے علاج کا اسپیشلسٹ صرف اور صرف کوئٹہ میں ملے گا۔
باقی پورا بلوچستان اس اسپیشلسٹ نام کی مخلوق سے ناآشنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے ہر خطے کے افراد کوئٹہ میں آ کر آباد ہو چکے ہیں۔ اس لیے جب بھی کوئی سانحہ یا حادثہ ہوتا ہے جس میں مرنے والے کتنے دور دراز علاقے سے کیوں نہ ہوں اس کا اثر کوئٹہ پر ضرور پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر ڈیرہ بگٹی، تربت یا ژہوب میں کوئی سانحہ ہو جائے، کوئٹہ سوگوار ضرور ہوتا ہے۔
کوئٹہ کے تمام بازار بند تھے۔ لیکن کوئٹہ کی جناح روڈ وہ مقام ہے جہاں بند دکانوں کے باہر بھی لوگ کھڑے ہوکر حالات و واقعات پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کا سیاسی شعور پاکستان کے کسی بھی خطے سے زیادہ بلند اور بہتر ہے۔ مثلاً لاہور گوجرانوالہ میں آپ کو عموماً گفتگو ’’کھابے، لسّی، کھانوں کے بارے میں نظر آئے گی۔
فوڈ اسٹریٹ کہاں ہے، نئی ’’کھابوں‘‘ کی دکان کونسی ہے۔ لیکن کوئٹہ کا بلوچ، پشتون، بروہی یا ہزارہ کی محفل میں آپ کو بیٹھنے کا اتفاق ہو تو آپ کو قبائلی تنازعات سے لے کر برصغیر پاک و ہند کی سیاست اور عالمی و علاقائی صورتحال سے متعلق گفتگو ملے گی۔ بلوچی میں ’’حال احوال‘‘ اور پشتو میں ’’روغبڑ‘‘ دو ایسی رسوم ہیں جن میں ایک سفر سے واپس آنے والا ہر ملنے والے کو ان علاقوں کا احوال بیان کرتا ہے جہاں سے وہ ہو کر آیا ہے۔
یہ احوال اس قدر طویل ہوتا ہے اور اس قدر مفصل ہوتا ہے کہ اس میں رسم و رواج سے لے کر سیاست اور بازار سے لے کر حکومتی مراکز تک سب کا ذکر ہوتا ہے۔ ویسے بھی بلوچستان کے افراد کی ایک کثیر تعداد نے افغانستان اور ایران کا سفر بار بار ضرور کیا ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے تجربے کی وسعت کی سطح عالمی نوعیت کی ہوتی ہے اور ایسا تجربہ آپ کو پاکستان کے اور کسی خطے میں نہیں ملے گا۔ مثلاً یہاں کے چھوٹے کاروباری اور خانہ بدوش نے بھی افغانستان یا ایران کا سفر کر کے ایک ایسا تجربہ ضرور حاصل کیا ہوتا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
پاکستان کے کسی خطے کے افراد کو بالکل علم نہیں اور ہے بھی تو اخباری نوعیت کا ہے کہ روس افغانستان میں کیسے آیا، مجاہدین کون تھے، طالبان کیسے بنے، امریکا کیسے حملہ آور ہوا، وہاں کیا چل رہا ہے، ایران شاہ کے دور میں کیا ہوتا تھا، خمینی نے کونسی تبدیلی لائی، ایران میں بلوچوں کی حالت زار کیسی ہے، ان سب کے بارے میں بلوچستان کے لوگوں کی معلومات بہت خالص ہیں۔ بالکل ایسے جیسے قصور یا فیصل آباد کا آدمی لاہور آئے اور میٹروبس کو آنکھوں سے چلتا ہوا دیکھے۔
بلوچستان کے لوگوں نے اس خطے میں گزشتہ چالیس سال سے آنے والی بے شمار تبدیلیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جہاں آپ کو آج بھی کوئٹہ میں ایسے کئی سو افراد مل جائیں گے جو یہ بتاتے ہوں کہ وہ شام کو سیرینا یا جناح روڈ کے کسی ہوٹل میں حامد کرزئی کے ساتھ گپ لگاتے تھے یا پھر خمینی انقلاب کے بعد وہاں سے بھاگے ہوئے ایرانی وزیروں کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ وہاں سیاسی اور علاقائی معاملات پر آپ کی ذہنی وسعت باقی پورے خطے سے زیادہ ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں 1973ء میں سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت گرا کر ذوالفقار علی بھٹو فوجی ایکشن شروع کرے، نواب اکبر بگٹی کے جاں بحق ہونے کا سانحہ ہو، پشاور کا اے پی ایس ہو، کوئٹہ کے وکلاء کی موت کا المناک واقعہ یا گزشتہ روز ہونے والا پولیس کالج کا دردناک واقعہ یہاں کے لوگوں کا ان سب کے پس منظر کے بارے میں ایک طویل اور مفصل تجزیہ ہوتا ہے۔ وہ ان سب واقعات کو ایک عام سا واقعہ نہیں سمجھتے۔ وہ اس کے تانے بانے ملکی سیاست سے بھی جوڑتے ہیں اور عالمی و علاقائی حالات سے بھی۔ دنیا کے جتنے بڑے بڑے صحافی بلوچستان نے دیکھے ہیں کسی اور صوبے نے نہیں دیکھے۔
یہ سب 1980ء سے یہاں آنے شروع ہوئے تھے۔ عام بلوچ اور پشتون ان کے ساتھ مترجم کی ڈیوٹی دیتا تھا۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد تو یوں لگتا تھا کہ جیسے بی بی سی، سی این این، فوکس، ڈی بلیو اور دیگر عالمی نیٹ ورک کے بڑے، بڑے ناموں کا ٹھکانہ ہی کوئٹہ ہے۔ یہاں کا عام پڑھا لکھا شخص جس نے ان کے ساتھ مترجم کا کام کیا ہے وہ ان عالمی میڈیا والوں کے تعصبات سے بھی واقف ہے اور ان کی نفرتوں سے بھی آشنا۔ اسے ان کے سوالوں کے پس منظر کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور دنیا بھر میں چلنے والی سازشی کہانیوں سے بھی آشنا۔
یہی وجہ ہے کہ سریاب روڈ پر واقع پولیس کالج میں ہونے والے واقعے کو یہاں کے لوگ ایک عام واقعہ نہیں سمجھتے۔ ان کا تبصرہ پورے پاکستان سے مختلف ہے۔ آپ لاہور میں کھڑے ہوکر بازار میں لوگوں سے سوال کریں ’’سی پیک‘‘ کیا ہے شاید کوئی ایک جواب دے سکے۔ لیکن یہاں کوئٹہ میں آپ کو ایسے کئی مل جائیں گے جو اس کے روٹ کے اختلاف اور بلوچستان سے زیادتی کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے۔
ایسے سیاسی طور پر زندہ لوگوں کے نزدیک یہ خون بہایا گیا ہے اور اس میں بہت سے عوامل شامل ہیں۔ وہ اسے ہلمند میں تازہ ترین طالبان فتوحات کا ردعمل بھی سمجھتے ہیں لیکن وہ گزشتہ تین دنوں سے ایک سوال کا جواب ہر کسی سے پوچھ رہے ہیں کہ جب 6 ستمبر 2016ء کو پاسنگ آؤٹ پریڈ ہو چکی، ان کو محرم کی ڈیوٹی کے لیے روکا گیا۔ پھر 13 اکتوبر 2016ء کو اپنے اپنے اضلاع میں ڈیوٹی کے لیے بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد انھیں اس مقتل گاہ میں واپس کیوں بلایا گیا۔
بلوچستان کے اعلیٰ ترین عہدیدار سے لے کر پولیس کے اہم اہلکار تک کسی کے پاس اس کا تسلی بخش جواب نہیں ہے۔ تمام جواب آئیں بائیں شائیں ہیں۔ کوئی مزید ٹریننگ شیڈول نہیں، کوئی ڈیوٹی کا اعلان نہیں، وہ واپس پولیس ٹریننگ کالج میں کوئی سیر کرنے کے لیے تو بلائے نہیں گئے تھے۔ جب تک یہ سوال بلوچستان کے عوام کے ذہنوں میں ہتھوڑے برساتا رہے گا وہ ایک درخواست ضرور کرتے رہیں گے جو وہ کوئٹہ کی شاہراہوں پر آج کر رہے ہیں۔ یہ تمہاری اقتدار کی جنگ ہے، اس میں ہمارا خون کیوں بہاتے ہو۔ انھیں تسلی بخش جواب دو گے، سچ بولو گے تو مسئلہ حل ہو گا ورنہ پہلے سے موجود نفرتوں کو اور آگ ملے گی۔
تبصرہ لکھیے