Tag: پولیس

  • سڑکوں کو سپریم کورٹ بنا دیں-جاوید چوہدری

    سڑکوں کو سپریم کورٹ بنا دیں-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    آپ پرسوں کی مثال لے لیجیے‘ پولیس نے کراچی میں دو لوگ گرفتار کر لیے‘ ایک پر اختلافی تقاریر کا الزام تھا اور دوسرے پر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا‘ گرفتاری سے اگلے دن پچاس ساٹھ لوگ ملیر میں اکٹھے ہوئے اور نیشنل ہائی وے بند کر دی‘ آدھ گھنٹے میں ہزاروں گاڑیاں کھڑی ہو گئیں‘ ریلوے کی مین لائین بھی قریب تھی‘ پاکستان ایکسپریس گزری‘ ہجوم نے ٹرین پر پتھراؤ شروع کر دیا‘ انجن کے شیشے ٹوٹ گئے‘ ٹرینوں کی آمدورفت بھی رک گئی‘ ہجوم کی وجہ سے دکانیں‘ پٹرول پمپس اور گھروں کی کھڑکیاں دروازے بھی بند ہو گئے۔

    پولیس نے مظاہرین سے مذاکرات کیے لیکن وہ ملزمان کی باعزت رہائی کے بغیر سڑک کھولنے کے لیے تیار نہیں تھے‘ عوام اس دوران دفتروں اور گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے‘ نیشنل ہائی وے پر سو کلو میٹر تک ٹریفک بلاک تھی‘ اسکول وینیں بھی پھنس گئیں اور ایمبولینسز بھی سٹک ہو کر رہ گئیں‘ مسافروں کی فلائیٹس بھی مس ہو گئیں اور نوکری کے لیے انٹرویو دینے والے انٹرویو بھی نہ دے سکے‘ ڈیلیوری ٹرک بھی پھنس گئے اور ٹرالر اور کنٹینر بھی الجھ گئے‘ ہزاروں گاڑیوں نے لاکھوں ٹن دھواں پیدا کیا اور یہ مہلک دھواں بھی آبادیوں کے پھیپھڑوں میں جذب ہو گیا‘ میڈیا پہنچا اور اس نے عوام کو لائیو تھیٹر دکھانا شروع کر دیا۔

    یہ سلسلہ ساڑھے آٹھ گھنٹے چلتا رہا‘ پولیس نے اس دوران تین بار مذاکرات کیے لیکن یہ تینوں مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے‘ پولیس نے 13 گرفتار مظاہرین بھی سڑک کی ایک لین کھولنے کی شرط پر رہا کر دیے مگر احتجاجیوں نے رہائیوں کے باوجود سڑک نہ کھولی یہاں تک کہ ساڑھے آٹھ گھنٹے بعد پولیس مظاہرین پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج پر مجبور ہو گئی‘ شیلنگ کی دیر تھی‘ مظاہرین بھاگ کر گلیوں میں غائب ہو گئے‘ پولیس نے پیچھا کیا‘ چند نوجوانوں نے اہلکاروں پر پتھراؤ کیا مگر یہ سلسلہ بھی ایک آدھ گھنٹے میں ختم ہو گیا‘ تاہم پولیس کو ٹریفک بحال کرنے میں چار گھنٹے لگ گئے‘ ساڑھے آٹھ گھنٹے کی تاخیر کے بعد ٹرینیں بھی بحال ہو گئیں لیکن اس دوران لوگوں کو جو کوفت‘ پریشانی اور تکلیف ہوئی‘ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔

    یہ کیا ہے؟ یہ اس ملک کے ایک شہر کا ایک دن کا ایک واقعہ ہے‘ آپ اگر تفصیل میں جائیں تو آپ کو معلوم ہو گا ملک کی تمام بڑی سڑکیں چیف جسٹس‘ آئی جی‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم اور پارلیمنٹ بن چکی ہیں‘ ملک میں جب بھی جس کا بھی دل چاہتا ہے یہ سڑک پر لاش رکھ کر ٹریفک بلاک کر دیتا ہے‘ یہ دو ٹائر لاتا ہے‘ سڑک کے درمیان رکھتا ہے‘ آگ لگاتا ہے اور نامنظور‘ نامنظور‘ گو‘ گو کے نعرے لگانے لگتا ہے اور یوں چند سیکنڈ میں بیچارے شہری اپنے تمام حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں‘ مریض ایمبولینس میں مر جاتے ہیں‘ مسافر فلائیٹس سے رہ جاتے ہیں‘ بچے اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں پہنچ پاتے‘ دفتر جانے والے دفتر‘ گھر جانے والے گھر اور مارکیٹ جانے والے مارکیٹ نہیں پہنچتے اور لوگ نوکریوں‘ امتحانوں اور ڈاکٹروں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔

    آپ کسی دن شہر کی کسی مرکزی سڑک پر نکل جائیں آپ کو وہاں کوئی نہ کوئی تماشا ضرور ملے گا‘ لوگوں کو پولیس تنگ کرتی ہے تویہ مرکزی سڑک پر سینہ کوبی شروع کر دیتے ہیں‘ لوگ جج تک اپنی فریاد پہنچانا چاہتے ہیں تویہ سڑک پر لیٹ جاتے ہیں اور یہ تنخواہوں میں اضافہ چاہتے ہیں‘ یہ اپنی کچی نوکری کو پکا کرنا چاہتے ہیں‘ یہ اپنے پے اسکیل کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اور یہ اگر اپنے مریض کا بروقت آپریشن کرانا چاہتے ہیں تو یہ شہر کی مرکزی شاہراہ پر دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے‘ میڈیا آئے گا‘ کیمرے اور مائیک لگیں گے اور ان کا کام ہو جائے گا لیکن ان کے کام کی وجہ سے جن ہزاروں لوگوں کو تکلیف پہنچی وہ کہاں جائیں‘ وہ کہاں فریاد کریں‘ یہ شاید ان لوگوں کا مسئلہ نہیں‘ عام لوگ خواہ جہنم میں چلے جائیں ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    آپ لاہور کی مال روڈ کو دیکھ لیجیے‘ یہ روڈ دس برسوں سے احتجاج کا شکار ہے‘ یہ ڈاکٹروں‘ نرسوں اور اساتذہ کی احتجاج گاہ بن چکی ہے‘ راولپنڈی میں مری روڈ‘ فیض آباد‘ ایکسپریس وے اور فیصل ایونیو بھی اکثر کسی نہ کسی دھرنے کا ہدف رہتی ہے‘ کراچی کی نیشنل ہائی وے اور شاہراہ فیصل پر بھی ٹائر جلتے بجھتے رہتے ہیں‘ کوئٹہ میں لاشیں سڑکوں پر رکھنے کا رواج عام ہے اور آپ اگر ذرا سی ریسرچ کریں گے تو آپ کو پشاور کی سڑکیں بھی احتجاج کا شکار نظر آئیں گی‘ آپ کسی دن جی ٹی روڈ کا جائزہ بھی لے لیں آپ کو یہ بھی جگہ جگہ سے بند ملے گی‘ آپ کو اس کے کسی نہ کسی پورشن پر کوئی نہ کوئی دھڑا قابض نظر آئے گا‘ یہ کیا ہے‘ یہ کیوں ہے اور اس کا ذمے دار کون ہے؟ میں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال کا ذمے دار سمجھتا ہوں‘ کیسے؟

    کیا یہ سچ نہیں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری تک پاکستان پیپلزپارٹی نے تمام بڑی سیاسی کامیابیاں سڑکوں پر حاصل کیں‘ بھٹو کا سیاسی کیریئر ٹرین سے شروع ہوا تھا‘ یہ ایوب خان کی کابینہ سے نکلنے کے بعد ٹرین میں سوار ہوئے‘ ہر ریلوے اسٹیشن پر تقریر کی اور لاہور پہنچتے پہنچتے لیڈر بن گئے‘ اس دن ریلوے کا سارا شیڈول خراب ہو گیا تھا‘ ٹرینیں پانچ پانچ گھنٹے لیٹ تھیں‘ ایوب خان کے خلاف پوری تحریک سڑکوں پر پروان چڑھی‘ مشرقی پاکستان بھی سڑکوں پر بنگلہ دیش بنا‘ بھٹو کے خلاف تحریک نے بھی سڑکوں پر جنم لیا۔

    جنرل ضیاء الحق کو بھی سڑکوں نے الیکشن کرانے پر مجبور کیا‘ میاں نواز شریف کو بھی سڑکوں نے صنعت کار سے سیاستدان بنایا‘ بے نظیر بھٹو بھی سڑکوں کے ذریعے مشرق کی بیٹی بنی‘ عدلیہ بحالی کی تحریک بھی سڑکوں پر پروان چڑھی‘ جنرل مشرف کا یونیفارم بھی سڑکوں نے اتارا‘ آصف علی زرداری بھی سڑکوں کے ذریعے دبئی منتقل ہوئے‘ عمران خان کو بھی سڑکوں نے قائد تبدیلی بنایا اور میاں نوازشریف بھی اب سڑکوں کی وجہ سے پانامہ کے شکنجے میں آئے ہیں لہٰذا عوام جب یہ دیکھتے ہیں ہمارے سیاستدان سڑکیں‘ ریلوے ٹریک اور شہر بند کر کے عظیم قائدین بن جاتے ہیں۔

    یہ سڑک سے وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر پہنچ جاتے ہیں تویہ بھی سڑکوں کو امرت دھارا مان لیتے ہیں‘ یہ بھی فیل ہونے کے بعد سڑک بلاک کرتے ہیں اور پورا امتحانی نظام تبدیل کرا دیتے ہیں‘ یہ سڑک بلاک کر کے کچی نوکریوں کو پکا کرا لیتے ہیں‘ یہ اپنی تنخواہیں بڑھا لیتے ہیں‘ یہ اپنی معطلی ری ورس کرا لیتے ہیں‘ یہ ایس ایچ او‘ ڈی ایس پی اور ایس پی کو فارغ کرا دیتے ہیں‘ یہ قاتل کو گرفتار کرا دیتے ہیں اور یہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو سوموٹو نوٹس پر مجبور کر دیتے ہیں‘ عوام سمجھتے ہیں سڑکیں ہماری عدالت‘ پولیس اسٹیشن‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم‘ صدر اور پارلیمنٹ ہیں‘ عوام کے یہ خیالات غلط بھی نہیں ہیں۔

    ملک میں جب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ سڑکیں کریں گی اور جب الیکشن میں دھاندلی کے خلاف جوڈیشل کمیشن اور پانامہ لیکس پر لارجر بینچ سڑکیں بنوائیںگی تو پھر عوام انصاف کے لیے لاشیں سڑکوں پر کیوں نہیں رکھیں گے‘ یہ تنخواہوں میں اضافے کے لیے سڑکیں بلاک کیوں نہیں کریں گے اور یہ پے اسکیل‘ نوکری کی بحالی اور مستقل ملازمت کے لیے سڑکوں پر پٹیشن دائر کیوں نہیں کریں گے ‘یہ ہو رہا ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلتے۔

    ہمارے پاس اب دو آپشن بچتے ہیں‘ ہم سڑکوں کو اپنا آئین‘ قانون‘ ضابطہ‘ عدالت‘ سسٹم اور اقتدار اعلیٰ ڈکلیئر کر دیں‘ لوگ آئیں‘ یہ جتنی دیر سڑک بلاک رکھ سکیں ‘ یہ جتنے لوگوں کو بنیادی حقوق‘ سکون اور آرام سے محروم کر سکیں ان کے اتنے مطالبات مان لیے جائیں‘ انھیں اتنا انصاف دے دیا جائے یا پھر ہم یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔

    سپریم کورٹ حکم جاری کرے ملک کا جو بھی شہری‘ لیڈر یا ادارہ کوئی مرکزی شاہراہ بند کرے گا ریاست اسے مجرم سمجھے گی‘ یہ اس کے خلاف پوری فورس استعمال کرے گی‘ یہ اس سے املاک اور شہریوں کی تکلیف کا ہرجانہ بھی وصول کر ے گی اور جو شخص ہجوم کو لیڈ کرے گا وہ سرکاری عہدے کے لیے ’’ڈس کوالی فائی‘‘ ہو جائے گا‘ سپریم کورٹ حکم جاری کرے حکومت ملک میں درجن بھر تحریر اور تقسیم اسکوائر بنا دے‘ عوام نے جتنا احتجاج کرنا ہے یہ وہاں جا کر کریں لیکن انھیں سڑک بلاک کرنے کا کوئی حق نہیں ہو گا‘ یہ راستہ نہیں روک سکیں گے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان یہ کام بہت آسانی سے کر سکتے ہیں‘ یہ ایک حکم جاری کریں گے اور عوام کو سکھ کا سانس مل جائے گا اور اگر چیف جسٹس کے پاس وقت نہیں ہے تو پھر یہ مہربانی فرما کر سڑکوں کو سپریم کورٹ کا درجہ دے دیں‘ یہ شاہراہوں کو فل بینچ ڈکلیئر کر دیں‘ لوگ سڑکوں پر آئیں اور اپنے فیصلے کرا لیں‘ نہ وکیل کا خرچہ اور نہ تاریخ پر تاریخ‘ بس دو ٹائر جلیں‘ دس گھنٹے ٹریفک بلاک ہو اورلوگوں کے مطالبات منظور ہو جائیں‘ بات ختم‘ انصاف ہو گیا۔

  • مورال – سعید ارشاد

    مورال – سعید ارشاد

    سعید ارشاد درد کی شدت سے اس نے ایک دفعہ پھر آنکھیں بند کر لیں، اسے اپنا دماغ ماؤف ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا، پورے جسم سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں، لیکن اس کا جذبہ اب بھی قائم و دائم تھا، اس ملک کے لیے وہ ایسی ہزاروں جانیں قربان کر سکتا تھا. دکھ تھا تو ان مرنے والے معصوم بچوں اور مرد و خواتین کا تھا جو بےگناہ اس خودکش دھماکے میں اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے. سارا منظر اس کی آنکھوں میں کسی فلم کی طرح چلنے لگا، اس کی عمر بمشکل چھبیس سال تھی، محکمہ پولیس جوائن کیے اسے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا، سب ٹھیک چل رہا تھا اپنی نوکری سے بھی وہ مطمئن تھا، ملک میں انتخابات ہونے والے تھے، جلسوں جلوسوں کا زمانہ تھا، اوپر سے محرم الحرام بھی شروع ہو گیا تھا، بہت سے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ اس کی ڈیوٹی بھی ایک عبادت گاہ کے باہر لگ گئی تھی، یہ ایک معمول کا عمل تھا، لیکن اس کی ماں کو بہت فکر تھی جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتی رہتی تھی، مائیں تو آخر مائیں ہوتی ہیں، وہ ہر دفعہ یہی کہتا ماں موت تو ہر حال میں آنی ہے اور شہادت مل جائے تو اور کیا چاہیے، ماں اس کو ہر روز سینکڑوں دعاؤں منتوں مرادوں کے ساتھ رخصت کیا کرتی تھی.

    اس صبح بھی جب وہ ماں کی دعائیں لے کر رخصت ہوا تو اس کا دل قدرے پریشان تھا، لیکن اس نے کچھ خاص توجہ نہ دی اور اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گیا، سب کچھ بالکل نارمل تھا، اکا دکا لوگ سڑک پر نظر آ رہے تھے، نماز ظہر کے بعد عبادت گاہ میں آہستہ آہستہ لوگ آ رہے تھے، نماز عصر تک پوری عبادت گاہ بھر چکی تھی، پولیس کے علاوہ چند فوج کے جوان بھی عبادت گاہ کی سکیورٹی پر معمور تھے کہ اچانک دور کچھ ہلچل سی ہوئی، اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھتا ایک شخص مجمعےکو چیرتا ہوا عبادت گاہ کی طرف بڑھا اور ایک کان پھاڑ دھماکہ ہوا اور قیامت صغری برپا ہو گئی. جب اسے ہوش آیا تو ہر طرف انسانی اعضا پھیلے ہوئے تھے، چیخ و پکار اور ایمبولینسز کے سائرن کی آواز سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، کسی نے انتہائی بے دردی سے اسے ایمبولینس میں ڈالا اور ہسپتال پہنچا دیا. اس کی ایک ٹانگ کٹ چکی تھی، بازو شدید زخمی تھا، اس کے ساتھ ڈیوٹی کرنے والے پولیس اور فوج کے جوان بہادری کی داستانیں رقم کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر چکے تھے، جس کا اسے ابھی ہسپتال کے ویٹنگ روم میں ٹی وی دیکھتے ہوئے پتہ چلا. ایک نیوز چینل پر فوجی جوانوں کے لیے اعزازات اور ان کی ملک کے لیے خدمات کی خبر چل رہی تھی جسے شاندار الفاظ میں سراہا جا رہا تھا، اسے ایک انجانا سا حوصلہ اور خوشی ملی کہ ہماری قربانیاں رائیگاں نہیں ہیں، بس اسے انتظار تھا، اپنے ساتھیوں کے متعلق خبر کا کہ ان کی خدمات اور قربانی کو بھی سراہا جائے تو اسے کچھ قرار نصیب ہو، ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کسی نے چینل بدل دیا. دوسرے چینل پر ایک مشہور سیاستدان اعلان کر رہا تھا کہ میں پولیس کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا.

  • اس سوال کا جواب ضروری ہے-اوریا مقبول جان

    اس سوال کا جواب ضروری ہے-اوریا مقبول جان

    orya

    پورا کوئٹہ شہر سوگوار ہے۔ یوں تو اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کا تعلق بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تھا، لیکن اس شہر کی خصلت اور عادت میں شامل ہے کہ ہر کسی کے غم میں ضرور شریک ہوتا ہے۔ یوں بھی بلوچستان کے بلوچ اور پشتون قبائل میں فاتحہ کی رسم کئی مہینے تک چلتی رہتی ہے۔

    لوگ میلوں کا سفر کر کے مرنے والے کا پرسہ دینے آتے ہیں۔ فاتحہ کی رسم بھی ان کے ہاں کمال کی ہے۔ سب سے پہلے کسی کے گھر جا کر بچھی ہوئی دری یا قالین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی سے سلام دعا یا ہاتھ نہیں ملاتے، بلکہ فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ علاقے کا مولوی مستقل وہاں بیٹھا رہتا ہے۔ جو باآواز بلند دعا کرتا ہے۔ فاتحہ کرنے کے بعد ایک دوسرے کا حال پوچھا جاتا ہے۔

    اس معاشرے کا کمال یہ ہے کہ دو قبیلوں یا گھرانوں کے درمیان شدید دشمنی بھی چل رہی ہو، ایک دوسرے کے افراد قتل بھی ہو رہے  ہوں لیکن جب تک کوئی شخص اپنے عزیز کی فاتحہ پر بیٹھا ہوتا ہے اتنے عرصے کے لیے دشمنی ترک کر دیتے ہیں جسے یہاں کی زبان میں ’’خیر‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح کی روایتوں کے امین معاشرے میں ’’کوئٹہ‘‘ شہر کا سوگوار ہونا لازم تھا۔

    ویسے بھی کوئٹہ بلوچستان کے وسیع و عریض صوبے میں واحد مقام ہے جسے محدود معنوں میں شہر کہا جا سکتا ہے۔ یعنی جہاں مریضوں کے علاج کے لیے اسپتال ہیں۔ پڑھنے کے لیے کالج اور یونیورسٹی ہے۔ اشیائے صرف اور ضرورت کی خریدو فروخت کے لیے بڑی بڑی مارکٹیں ہیں۔ سیوریج اور واٹر سپلائی کا نظام ہے۔ اسٹریٹ لائٹس ہیں۔ ٹریفک ہے اور ٹریفک کے سپاہی بھی ہیں۔ یہ سب کچھ آپ کو صرف اور صرف کوئٹہ میں نظر آئے گا۔

    اگرچہ کہ اس سب کی حالت زار دیکھ کر رونا آتا ہے۔ آپ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ جس سنڈیمن پروونشل اسپتال کی حالت پنجاب کے کسی بھی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر سے بھی ابتر ہے۔ وہاں ہزار کلو میٹر دور گوادر، سات سو کلو میٹر دور تفتان، پانچ سو کلو میٹر دور کراخراسان اور اتنے ہی دور علاقوں سے مریض لائے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ پورے بلوچستان میں دل، گلے، گردے، ہڈی جلد یا کسی اور جسم کے حصے کے علاج کا اسپیشلسٹ صرف اور صرف کوئٹہ میں ملے گا۔

    باقی پورا بلوچستان اس اسپیشلسٹ نام کی مخلوق سے ناآشنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے ہر خطے کے افراد  کوئٹہ میں آ کر آباد ہو چکے ہیں۔ اس لیے جب بھی کوئی سانحہ یا حادثہ ہوتا ہے جس میں مرنے والے کتنے دور دراز علاقے سے کیوں نہ ہوں اس کا اثر کوئٹہ پر ضرور پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر ڈیرہ بگٹی، تربت یا ژہوب میں کوئی سانحہ ہو جائے، کوئٹہ سوگوار ضرور ہوتا ہے۔

    کوئٹہ کے تمام بازار بند تھے۔ لیکن کوئٹہ کی جناح روڈ وہ مقام ہے جہاں بند دکانوں کے باہر بھی لوگ کھڑے ہوکر حالات و واقعات پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کا سیاسی شعور پاکستان کے کسی بھی خطے سے زیادہ بلند اور بہتر ہے۔ مثلاً لاہور گوجرانوالہ میں آپ کو عموماً گفتگو ’’کھابے، لسّی، کھانوں کے بارے میں نظر آئے گی۔

    فوڈ اسٹریٹ کہاں ہے، نئی ’’کھابوں‘‘ کی دکان کونسی ہے۔ لیکن کوئٹہ کا بلوچ، پشتون، بروہی یا ہزارہ کی محفل میں آپ کو بیٹھنے کا اتفاق ہو تو آپ کو قبائلی تنازعات سے لے کر برصغیر پاک و ہند کی سیاست اور عالمی و علاقائی صورتحال سے متعلق گفتگو ملے گی۔ بلوچی میں ’’حال احوال‘‘ اور پشتو میں ’’روغبڑ‘‘ دو ایسی رسوم ہیں جن میں ایک سفر سے واپس آنے والا ہر ملنے والے کو ان علاقوں کا احوال بیان کرتا ہے جہاں سے وہ ہو کر آیا ہے۔

    یہ احوال اس قدر طویل ہوتا ہے اور اس قدر مفصل ہوتا ہے کہ اس میں رسم و رواج سے لے کر سیاست اور بازار سے لے کر حکومتی مراکز تک سب کا ذکر ہوتا ہے۔ ویسے بھی بلوچستان کے افراد کی ایک کثیر تعداد نے افغانستان اور ایران کا سفر بار بار ضرور کیا ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے تجربے کی وسعت کی سطح عالمی نوعیت کی ہوتی ہے اور ایسا تجربہ آپ کو پاکستان کے اور کسی خطے میں نہیں ملے گا۔ مثلاً یہاں کے چھوٹے کاروباری اور خانہ بدوش نے بھی افغانستان یا ایران کا سفر کر کے ایک ایسا تجربہ ضرور حاصل کیا ہوتا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

    پاکستان کے کسی خطے کے افراد کو بالکل علم نہیں  اور ہے بھی تو اخباری نوعیت کا ہے کہ روس افغانستان میں کیسے آیا، مجاہدین کون تھے، طالبان کیسے بنے، امریکا کیسے حملہ آور ہوا، وہاں کیا چل رہا ہے، ایران شاہ کے دور میں کیا ہوتا تھا، خمینی نے کونسی تبدیلی لائی، ایران میں بلوچوں کی حالت زار کیسی ہے، ان سب کے بارے میں بلوچستان کے لوگوں کی معلومات بہت خالص ہیں۔ بالکل ایسے جیسے قصور یا فیصل آباد کا آدمی لاہور آئے اور میٹروبس کو آنکھوں سے چلتا ہوا دیکھے۔

    بلوچستان کے لوگوں نے اس خطے میں گزشتہ چالیس سال سے آنے والی بے شمار تبدیلیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جہاں آپ کو آج بھی کوئٹہ میں ایسے کئی سو افراد مل جائیں گے جو یہ بتاتے ہوں کہ وہ شام کو سیرینا یا جناح روڈ کے کسی ہوٹل میں حامد کرزئی کے ساتھ گپ لگاتے تھے یا پھر خمینی انقلاب کے بعد وہاں سے بھاگے ہوئے ایرانی وزیروں کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ وہاں سیاسی اور علاقائی معاملات پر آپ کی ذہنی وسعت باقی پورے خطے سے زیادہ ہوگی۔

    یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں 1973ء میں سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت گرا کر ذوالفقار علی بھٹو فوجی ایکشن شروع کرے، نواب اکبر بگٹی کے جاں بحق ہونے کا سانحہ ہو، پشاور کا اے پی ایس ہو، کوئٹہ کے وکلاء کی موت کا المناک واقعہ یا گزشتہ روز ہونے والا پولیس کالج کا دردناک واقعہ یہاں کے لوگوں کا ان سب کے پس منظر کے بارے میں ایک طویل اور مفصل تجزیہ ہوتا ہے۔ وہ ان سب واقعات کو ایک عام سا واقعہ نہیں سمجھتے۔ وہ اس کے تانے بانے ملکی سیاست سے بھی جوڑتے ہیں اور عالمی و علاقائی حالات سے بھی۔ دنیا کے جتنے بڑے بڑے صحافی بلوچستان نے دیکھے ہیں کسی اور صوبے نے نہیں دیکھے۔

    یہ سب 1980ء سے یہاں آنے شروع ہوئے تھے۔ عام بلوچ اور پشتون ان کے ساتھ مترجم کی ڈیوٹی دیتا تھا۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد تو یوں لگتا تھا کہ جیسے بی بی سی، سی این این، فوکس، ڈی بلیو اور دیگر عالمی نیٹ ورک کے بڑے، بڑے ناموں کا ٹھکانہ ہی کوئٹہ ہے۔ یہاں کا عام پڑھا لکھا شخص جس نے ان کے ساتھ مترجم کا کام کیا ہے وہ ان عالمی میڈیا والوں کے تعصبات سے بھی واقف ہے اور ان کی نفرتوں سے بھی آشنا۔ اسے ان کے سوالوں کے پس منظر کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور دنیا بھر میں چلنے والی سازشی کہانیوں سے بھی آشنا۔

    یہی وجہ ہے کہ سریاب روڈ پر واقع پولیس کالج میں ہونے والے واقعے کو یہاں کے لوگ ایک عام واقعہ نہیں سمجھتے۔ ان کا تبصرہ پورے پاکستان سے مختلف ہے۔ آپ لاہور میں کھڑے ہوکر بازار میں لوگوں سے سوال کریں ’’سی پیک‘‘ کیا ہے شاید کوئی ایک جواب دے سکے۔ لیکن یہاں کوئٹہ میں آپ کو ایسے کئی مل جائیں گے جو اس کے روٹ کے اختلاف اور بلوچستان سے زیادتی کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے۔

    ایسے سیاسی طور پر زندہ لوگوں کے نزدیک یہ خون بہایا گیا ہے اور اس میں بہت سے عوامل شامل ہیں۔ وہ اسے ہلمند میں تازہ ترین طالبان فتوحات کا ردعمل بھی سمجھتے ہیں لیکن وہ گزشتہ تین دنوں سے ایک سوال کا جواب ہر کسی سے پوچھ رہے ہیں کہ جب 6 ستمبر 2016ء کو پاسنگ آؤٹ پریڈ ہو چکی، ان کو محرم کی ڈیوٹی کے لیے روکا گیا۔ پھر 13 اکتوبر 2016ء کو اپنے اپنے اضلاع میں ڈیوٹی کے لیے بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد انھیں اس مقتل گاہ میں واپس کیوں بلایا گیا۔

    بلوچستان کے اعلیٰ ترین عہدیدار سے لے کر پولیس کے اہم اہلکار تک کسی کے پاس اس کا تسلی بخش جواب نہیں ہے۔ تمام جواب آئیں بائیں شائیں ہیں۔ کوئی مزید ٹریننگ شیڈول نہیں، کوئی ڈیوٹی کا اعلان نہیں، وہ واپس پولیس ٹریننگ کالج میں کوئی سیر کرنے کے لیے تو بلائے نہیں گئے تھے۔ جب تک یہ سوال بلوچستان کے عوام کے ذہنوں میں ہتھوڑے برساتا رہے گا وہ ایک درخواست ضرور کرتے رہیں گے جو وہ کوئٹہ کی شاہراہوں پر آج کر رہے ہیں۔ یہ تمہاری اقتدار کی جنگ ہے، اس میں ہمارا خون کیوں بہاتے ہو۔ انھیں تسلی بخش جواب دو گے، سچ بولو گے تو مسئلہ حل ہو گا ورنہ پہلے سے موجود نفرتوں کو اور آگ ملے گی۔

  • ایک سیلوٹ اور دو باتیں – سید بدر سعید

    ایک سیلوٹ اور دو باتیں – سید بدر سعید

    بدر سعید پاک ٹی ہائوس اب صرف ادیبوں اور شاعروں کا ٹھکانا نہیں رہا۔ سچ کہیں تو اب یہاں ادیب شاعر اقلیتی جبکہ یونی ورسٹی کے طلبا و طالبات اکثریتی گروپ بن چکا ہے۔ ماضی میں شاعر ایک کپ چائے کے ساتھ سارا سارا دن گزار دیتے تھے۔ اب حالات یہ ہیں کہ چائے پینے کے بعد عزت سادات بچاتے ہوئے گھر کی راہ لیتے ہیں۔ ان کی جگہ نوجوانوں کی اکثریت سارا دن یہیں ڈیرہ جمائے نظر آتی ہے۔ سگریٹ کا دھواں، لیپ ٹاپ، قہقہے اور دھواں دار گفتگو کے ساتھ ساتھ سرگوشیاں بھی ان کی پہچان ہے۔ شروع میں تو پاک ٹی ہائوس میں نوجوانوں کی آمد اور اس طوفان بدتمیزی پر کئی کالم بھی لکھے گئے اور ادبی حلقوں میں اس پر طنز بھی کیا گیا لیکن اب دونوں پارٹیاں ہی ایک دوسرے کو سوکنوں کی طرح برداشت کرنے کی عادی ہوچکی ہیں۔

    پاک ٹی ہائوس میں آنے والے طلبا و طالبات میں کئی ایسے گروہ بھی ہیں جو بظاہر تو ’’برگر کلب‘‘ کے نمایندے لگتے ہیں، لیکن ان کا مطالعہ اور ادب سے لگائو قابل تعریف ہے۔ یہ بھی ایسا ہی ایک گروہ تھا۔ ہم چند دوست پاک ٹی ہائوس میں بیٹھے صحافتی جھگڑوں اور ملکی مسائل پر گفتگو کررہے تھے جبکہ ساتھ کی میز پر غصہ سے بھرے بیٹھے یہ نوجوان پاکستان کے نظام پر تنقید کے نشتر چلارہے تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ ملک کے تمام سرکاری محکمے بند کردیئے جائیں تو لاتعداد مسائل خودبخود حل ہوجائیں۔ ایک نوجوان تو اس قدر جذباتی تھا کہ چاہتا تھا کہ تمام سرکاری ملازموں کو تختہ دار پر لٹکادیا جائے۔ ایسے جذباتی ماحول میں خاموشی ہی ہمیشہ بہتر پالیسی رہتی ہے۔ جذباتی نوجوان آپ کو یا تو بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے یا پھر درمیان سے جملے اچک لیتے ہیں۔ یہاں البتہ صورت حال مختلف تھی۔ یہ لوگ دھواں دار گفتگو کرنے کے بعد ہماری رائے سننے کے متمنی تھے۔ فتح مندی کے تاثرات ان کے چہروں پر عیاں تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اختلاف کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی۔

    ان سے مخاطب ہوتے ہوئے میں نے کہا: آپ میں سے کس کس کو گذشتہ ایک سال کے دوران کسی تھانے جانے کا اتفاق ہوا ہے؟ سب خاموش رہے۔ اس خاموشی سے مجھے گفتگو آگے بڑھانے کا موقع مل گیا۔ میں نے بولنا شروع کیا۔ مجھے پولیس کا حوالہ اس لیے دینا پڑا کہ آپ سب سے زیادہ پولیس کے خلاف بول رہے تھے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ میں سے کوئی بھی کسی تھانے میں نہیں گیا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سنی سنائی باتوں پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ اگر ماضی میں ہمیں پولیس اسٹیشن میں کسی ناخوشگوار واقعہ کا سامنا کرنا پڑا تو آج بھی اسی کو بنیاد بناکر پولیس کے خلاف بول رہے ہیں، لیکن یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کریں گے کہ اس عرصہ میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں؟

    ایک سروے کے مطابق صرف 30 فیصد لوگوں کو پولیس سے براہ راست واسطہ پڑتا ہے لیکن پولیس کے خلاف بولنے والوں میں باقی ستر فیصد لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ کیوں؟ اس کیوں کا جواب ہمیں سوشل میڈیا سے ملتا ہے۔ سوشل میڈیا بتاتا ہے کہ ہم شہرت اور ریٹنگ کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ ہم بنا تصدیق خبریں اپ لوڈ کرکے اپنے پیجز پر زیادہ سے زیادہ ریٹنگ لینا چاہتے ہیں۔ ہم جھوٹی اور من گھڑت باتیں پھیلاتے ہیں۔ اپنی پوسٹ شیئر کرنے پر جنت کا لالچ دیتے ہیں اور اس ریٹنگ کے چکر میں تبرکات اور مقدس ہستیوں کا نام استعمال کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔

    نوجوانوں کے چہرے کے تاثرات بتارہے تھے کہ وہ مجھ سے متفق ہیں۔ میں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ریٹنگ کی یہ دوڑ ہمیں پولیس اور دیگر محکموں پر بے سروپا تنقید پر اکساتی ہے۔ پولیس افسران بار بار صحافیوں کو بتارہے ہیں کہ انہوں نے محکمہ پولیس میں جدید سائنسی بنیادوں پر تبدیلیاں کی ہیں۔ ٹریننگ سے لے کرتھانوں تک سارا نظام بدل رہا ہے لیکن ہم میں سے شاید ہی کسی نے اس نئے نظام کو سمجھنے میں دلچسپی لی ہو۔ ہم ان 70 فیصد کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کرتے ہیں جن کے بارے میں آقا دو جہان ﷺ نے کہا کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ کوئی بات بنا تصدیق آگے پھیلا دے۔ جھوٹ کا یہ کلچر ہمارے سارے معاشرے کو تباہی کے راستے پر لے آیا ہے۔ ہم اب ایسے آتش فشاں کے دھانے پر بیٹھے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

    ایک نوجوان کچھ پریشان نظر آیا۔ کہنے لگا پھر ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہمارے پاس کوئی راستہ بھی تو نہیں۔ میں نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور چند لمحوں کے بعدکہا: ہم ہی سب سے بڑی طاقت ہیں۔ خدا یہ معاشرہ ٹھیک کرنے کے لیے اب کوئی نبی نہیں بھیجے گا۔ اب ذمہ داری ہمارے کاندھے پر ہے۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ جس ملک کے اداروں کا مورال گرجائے وہ ملک تباہ ہونے لگتا ہے۔ ہمیں سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی عادت ختم کرنا ہوگی۔ ہمیں یونی ورسٹی کے اساتذہ کے ساتھ پولیس افسران سے ملنا ہوگا اور اس نئے سسٹم کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ ہم کس طرح جرائم کے خلاف پولیس کی مدد کرسکتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات ہمیں پولیس کو اپنا سمجھنا ہوگا، بالکل ویسے ہی جیسے ہم فوج کو اپنا سمجھتے ہیں۔ ہمیں اسی طرح پولیس اہلکاروں کو سیلوٹ کرنا ہوگا۔ ہمارا یہ ایک سیلوٹ ان کی دن بھر کی تھکاوٹ اور چڑ چڑا پن ختم کرکے انہیں تازہ دم کرسکتا ہے۔ یہ ایک سیلوٹ اور دو حوصلہ افزا باتیں ہم پر قرض ہیں۔ جس دن ہم یہ قرض اتارنے لگے اسی دن ہماری پولیس سے شکایات بھی ختم ہوجائیں گی۔

  • کیکر کے بیج سے انگوروں کی امید – محمد عمیر

    کیکر کے بیج سے انگوروں کی امید – محمد عمیر

    محمد عمیر پنجاب پولیس صوبے کا بدنام ترین محکمہ ہے۔سفارش،رشوت،ناانصافی سمیت ہر وہ خامی جو اس محکمے میں نہیں ہونی چاہیے وہ اس میں موجود ہے۔وزیراعلی پنجاب اپنے تمام تر دعووں کے برعکس پنجاب پولیس کو راہ راست پر نہیں لاسکے۔پولیس شاید اس وجہ سے بھی زیادہ بدنام ہے کہ ایک عام شہری کو ہر روز پویس سے واسطہ پڑتا ہے،کبھی چیکنگ کے نام پر ناکے پر رکنا پڑتا ہے،کبھی انصاف کے حصول کے لئے تھانے جانا پڑتا ہے توکبھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان ۔کیونکہ پولیس سے ہمارا روز کا واسطہ ہے تو ان کی خامیاں اور کوتاہیاں سب کے سامنے ہیں۔مگر کسی دوسرے سرکاری محکمے میںجانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ سب محکمے ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔پنجابی کی مثال ’’مجاں مجاں دیاں بھیناں‘‘ والا معاملہ ہے۔

    شہری ہر جگہ ہی خوار ہورہے ہیں، رشوت ہرجگہ ہر مسئلے کا حل ہے۔ سفارش کے بغیر کسی بھی محکمے میں کام نہیں ہوتا۔ عام شہری کی ہر جگہ تذلیل اور تحقیر کی جا رہی ہے۔ ایم پی اے اور ایم این اے کے لئے ہر دفتر میں کرسی موجود ہے مگر عام شہری کے لئے لمبی لائنیں۔ عام شہری کو انتظار اور صبر کا مشور ہ ہے تو رشوت اور سفارش سے وہی کام پلک جھپکنے سے پہلے ہوجاتا ہے۔ جو فارم، چالان فارم عام شہری کے لئے ختم ہوا ہوتا ہے، رشوت پر وہی فارم باآسانی دستیاب ہوتا ہے۔ فائل پر صاحب کے دستخط ہو، صاحب موجود نہ ہو، ٹائم ختم ہوگیا ہو، سمیت تمام مسائل کا حل سفارش اور رشوت میں پوشیدہ ہیں۔

    چند ماہ قبل میرا موبائل فون چوری ہوا۔ پولیس کی مہربانی کے چور پکڑا گیا تو معلوم ہوا کہ واپسی کے لئے سامان کی سپرد داری کروانی پڑے گی۔ سپرد داری کے لئے تھانے دار نے کہا کہ سادہ کاغذ پر درخواست لکھیں، مجسڑیٹ کے سامنے پیش ہوں، وہ دستخط کردے گا اور سامان واپس مل جائے گا۔ ماڈل ٹاؤن کچہری گیا، سادہ کاغذ پر درخواست لکھ کردی تو مجسڑیٹ کے ریڈر نے واپس کردی، مجسٹریٹ کے کمرے میں ہی ایک شخص نے بلایا کہ بھائی ایسے کام نہیں ہوگا۔ پوچھا تو کیسے ہوگا؟ وہ صاحب ساتھ لے گئے، اس کاغذ پر ایک فائل لگائی، 500روپے لیے، دوبارہ مجسڑیٹ صاحب کے کمرہ میں گئے، مجسڑیٹ کی موجودگی میں 300 روپے فائل میں رکھ کر ریڈر کو دیے اور 200 اپنی جیب میں رکھ کر درخواست پر دستخط کروادیے، یوں چوری شدہ سامان واپس ملا۔

    چند روز قبل ایک دوست کے ہمراہ لاہور بورڈ سے منسلک ادارے IBBC جانا ہوا۔ دو چکر لگانے سے ہونے والا کام 5چکر لگانے اور لڑائی جھگڑے کے بعد مکمل ہوا۔ پنجاب کے 36اضلاع میں اس ادارے کے صرف 2دفتر ہیں ایک اسلام آباد اور دوسرا لاہور۔بیرون ملک جانے والے افراد کومیٹرک اور انٹر میڈیٹ کی اسناد یہاں سے تصدیق کروانی لازمی ہیں۔قانونی طور پر امیدوار یا خونی رشتے دار آئے تو ہی اسناد کی تصدیق ہوتی ہے،اس کے علاوہ آپ کی جتنی بھی مجبوری ہو آپ کی سندکی تصدیق نہیں ہوتی،مگر بورڈ دفتر کے باہر فوٹو اسٹیٹ والا 4ہزار وپے لیکر یہ کام بخوبی کردیتا ہے۔دور دراز کے علاقوں سے آنے والے افراد کو اس دفتر کی کاغذی ضروریات پوری کرنے کے لئے کئی چکر لگانا پڑتے مگر رشوت یہی کام دو دن میں امیدوار اور خونی رشتے کی عدم موجودگی میں کروادیتی ہے۔

    پنجاب انسٹیوٹ آف کارڈیالوجی یہاں دل کا بائی پاس آپریشن کروانے کے لئے عام شہری کو ایک سال کی تاریخ دی جاتی ہے۔مگر ڈاکٹر اور ایم ایس اگر آپ کے جاننے والے ہیں تو وہی ڈیٹ ایک مہینے یا ایک ہفتے تک آجاتی ہے۔جتنی سفارش بڑی ہو اتنی جلدی ڈیٹ مل جاتی ہے۔لاہور کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں MRIکروانے کے لئے تین ماہ کی تاریخ دی جاتی ہے۔مگر ہسپتالوں کے باہر موجود میڈیل سٹورز کے لوگ3000سے 3500روپے لیکر یہ ٹیسٹ اسی دن میں کروادیتے ہیں۔لاہور کے سب سے بڑے میو ہسپتال میں اس ٹیسٹ کی سہولت ہی موجود نہ ہے۔ جنوبی پنجاب سمیت متعدد اضلاع سے شہریوں کو ایم آر آئی ٹیسٹ کے لئے لاہور کارخ کرنا پڑتا ہے۔چند بڑے ہسپتالوں کے علاوہ دیگر ہسپتالوں میں اس ٹیسٹ کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔

    الغرض جس سرکاری محکمے میں بھی جائیں ایک جیسا حال ہے۔ایک محکمے میں جانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اس کے حالات سب سے خراب ہیں اور یہاں صرف رشوت اور سفارش کا نظام ہے مگر آپ کی یہ غلط فہمی اس وقت دور ہوجاتی ہے جب آپ کسی دوسرے محکمے میں جاتے ہیں۔سرکاری محکموں کا یہ حال دیکھ کر مجھے حکمرانوں نہیں بلکہ اپنے آپ پر عوام پر غصہ آتا ہے کہ ہم سب اسی کے مستحق ہیں۔ہم ایم پی اے اور ایم این کو ووٹ ہی اس وجہ سے دیتے ہیں کہ وہ ہمارے کام کروائیں اس لئے ان کے کہنے سے ہی ہمارا کام ہوتاہے۔ہم نے آج تک نظام کی تبدیلی،سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لئے تو ووٹ ہی نہیں دیا۔ہم جس کام کے لئے ووٹ دے رہے ہیں وہی ہمارے ساتھ ہورہا ہے اور پھر گالی ہم نظام کو دیتے ہیں تو میرا سوال ہے نظام کو آپ نے ووٹ کب دیا تھا؟جب کیکر کا بیج بویا ہے تو اس سے انگوروں کی امید رکھنا بیوقوفی ہی ہے۔آپ جو کاٹنا چاہ رہے اس کے لئے اسی چیز کو بیج بونا پڑے گا۔

  • اسٹیبلشمنٹ کیا ہے؟ رضوان اسد خان

    اسٹیبلشمنٹ کیا ہے؟ رضوان اسد خان

    رضوان اسد خان اوون جونز اپنی کتاب ”دی اسٹیبلشمنٹ“ میں لکھتے ہیں:

    The Establishment includes politicians who make laws; media barons who set the terms of debate; businesses and financiers who run the economy; police forces that enforce a law which is rigged in favour of the powerful. The Establishment is where these interests and worlds intersect with each other, either consciously or unconsciously. It is unified by a common mentality, which holds that those at the top deserve their power and their ever-growing fortunes, and which might be summed up by the advertising slogan of cosmetics giant L’Oréal: ‘Because I’m worth it’. This is the mentality that has driven politicians to pilfer expenses, businesses to avoid tax, and City bankers to demand ever greater bonuses while plunging the world into economic disaster. All of these things are facilitated – even encouraged – by laws that are geared to cracking down on the smallest of misdemeanours committed by those at the bottom of the pecking order.

    “The Establishment”
    By:
    Owen Jones

    ”اسٹیبلشمنٹ“ میں شامل ہیں:
    .. وہ سیاستدان جن کا کام (اپنے مطلب کی) قانون سازی ہے.
    .. میڈیا کے وہ کرتا دھرتا جو مباحث کے (موضوع اور) اصول وضع کرتے ہیں.
    .. وہ تاجر اور سرمایہ دار جن کی مٹھی میں معیشت ہے.
    .. وہ پولیس جو اس قانون کو بزور نافذ کرتی ہے جو طاقتور کی طرفداری کرتا ہے.

    اسٹیبلشمنٹ وہ مقام ہے جہاں یہ مختلف جہان اور ان کے مفادات آپس میں ارادی یا غیر ارادی طور پر آ ملتے ہیں.
    انہیں ایک ایسی متفقہ ذہنیت نے آپس میں باندھ رکھا ہے جس کے مطابق چوٹی پر موجود لوگ اپنی طاقت اور دن دگنی رات چگنی ترقی کرتے اثاثوں کے ”مستحق“ ہیں. اور اس بات کو مختصراً مشہور کاسمیٹکس برانڈ ”لوری ایل“ کے اشتہاری پیغام میں بخوبی سمویا جا سکتا ہے:
    ”کیونکہ یہ میری حیثیت کا تقاضا ہے.“
    ”I am worth it“
    کا حقیقی ترجمہ تقریباً ناممکن ہے
    یہی وہ ذہنیت ہے جو سیاستدانوں سے غبن اور کاروباری حضرات سے ٹیکس چوری کرواتی ہے اور بینکنگ کے سورماؤں کو بونس پر بونس دلواتی ہے، باوجود اس کے کہ دنیا کو وہ معاشی تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں.
    اور ان سب باتوں کی سہولت دیتے ہیں بلکہ بسا اوقات حوصلہ افزائی کرتے ہیں. وہ قوانین جو اپنی ساخت کی بدولت نچلی ترین سطح کے کارکنوں کی معمولی ترین لغزشوں کو بھی نظر انداز کرنے پر تیار نہیں.

    یعنی اسٹیبلشمنٹ کی یک سطری تعریف یوں بن سکتی ہے:

    ”ما انزل اللہ“ کے سوا کسی بھی بنیاد پر قائم نظام کے وہ تمام ”اہل حل و عقد“ جن کا مفاد اور بقا ”ہر قیمت پر“ اس کی مروجہ شکل (سٹیٹس کو) کو برقرار رکھنے سے ہی وابستہ ہو.
    …………….

    احقر کی رائے:

    .. اوون جونز چونکہ برطانیہ اور مغربی اقوام کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی وضاحت کر رہے ہیں، جہاں فوج کا کردار اور دائرہ کار محدود ہے، لہٰذا اس فہرست میں اس کا ذکر نہیں. جبکہ ہمارے ماحول میں وہ فوج جو متعدد بار اقتدار پر براہ راست قابض رہ چکی ہے، اس کے ذکر کے بغیر یہ لسٹ قطعاً نامکمل ہے.

    .. بہت سے لوگ میڈیا کو اسٹیبلشمنٹ کا حصہ نہیں سمجھتے، جو کہ اس کی طاقت کے انکار کے مترادف ہے. میڈیا کے جغادریوں اور چودھریوں کا معاشی اور نظریاتی مفاد بھی اسی نظام کی بقا سے جڑا ہے جس میں ان پر پابندی صرف اور صرف اپنے ”قبیلے“ کے لوگوں کے خلاف بولنے اور لکھنے پر ہو جبکہ دنیا کے دیگر موضوعات پر انہیں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہو، خواہ معاملہ کتنا ہی سنجیدہ، حساس یا تکنیکی نوعیت کا ہی کیوں نہ ہو.

    .. ہمارے یہاں سیاست دانوں کو ”پرو اسٹیبلشمنٹ“ اور ”اینٹی اسٹیبلشمنٹ“ میں تقسیم کیا جاتا ہے، جو اس لحاظ سے بجا ہے کہ اسلام پسند جماعتوں کے منشور کے مطابق وہ اقتدار کے حصول کے بعد نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی علمبردار ہیں جو کہ ”سٹیٹس کو“ کے تسلسل کی خواہاں قوتوں کے مفاد کے خلاف ہے. شاید اسی وجہ سے ان جماعتوں کو کبھی بھی ”گیم چینجنگ“ حیثیت حاصل نہیں کرنے دی گئی.
    البتہ جن سیکولر پارٹیوں یا سیاستدانوں کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے، وہاں اسٹیبلشمنٹ کا نہایت محدود تصور کارفرما ہے.

    .. اور آخر میں ہو سکتا ہے کہ آپ میری بات سے اتفاق نہ کریں، لیکن ایک ایسا طبقہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا ایک طاقتور حصہ بننے میں کامیاب ہو چکا ہے جس نے (دہشتگردی کی طرح)، نہایت غیر محسوس طریقے سے ”فرقہ واریت“ کی بھی ایک نئی تعریف وضع کر دی ہے.

  • پولیس یونیفارم نہیں، سسٹم تبدیل کریں – ملک محمد سلمان

    پولیس یونیفارم نہیں، سسٹم تبدیل کریں – ملک محمد سلمان

    ملک سلمان پولیس کا نام آتے ہی کئی لوگوں کے چہرے اتر جاتے ہیں کیوں کہ بظاہر پولیس کا امیج ڈرؤنا اور خطرناک ہے۔ یہ تلخ حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ تھانہ پولیس والوں کی ایک علیحدہ سلطنت ہوتی ہے جہاں وہ ہر سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔ ایف آئی آر درج کروانے اور اسے خارج کروانے کے چارجز مختلف ہیں، بےگناہ اور غریبوں پر مظالم کی بےشمار داستانیں ہیں۔ عید اور فوری گھریلو ضرورت کو پورا کرنے کا فن صرف اور صرف پولیس والوں کی ایجاد ہے کہ کہیں بھی دستی چیک پوسٹ لگا دیں۔

    تھانہ کلچر کو بگاڑنے والے کوئی اور نہیں ہم خود ہیں، اگر رشوت کی وصولی حرام ہے تو دینا بھی حلال نہیں۔ مانا لوگ جائز کام کے لیے بھی رشوت دینے پر مجبور ہیں مگر زیادہ تر واقعات میں شہریوں کے ناجائز اور مذموم مقاصد کی تکمیل اور دوسروں کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے پولیس کاسہارا لیا جاتا ہے۔ ہم من حیث القوم بدنیت، بددیانت، کام چور، متعصب، منافق اور فاسق ہیں۔ جہاں پورا معاشرہ اور نظام بدعنوانی اور بدانتظامی کی بندگلی میں کھڑا ہو، وہاں کوئی ادارہ کس طرح صاف ستھرا رہ سکتا ہے۔

    ہر فرد، ادارے اور معاشرے میں جہاں خوبیاں ہوتی ہیں وہاں خامیاں بھی ضرور ہوتی ہیں۔ دنیا کا کوئی معاشرہ اور ادارہ پوری طرح گندی مچھلیوں سے پاک نہیں ہے۔ تاہم ان گندی مچھلیوں کے سبب مجموعی طور پر اس ادارے کے بارے میں منفی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ ہم افراد اور اداروں پر تنقید اور ان کی توہین کرتے وقت ان کی معاشرے کے لیے ضرورت اور اہمیت کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ پولیس کا ادارہ کسی بھی ملک اور معاشرے کے لیے انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔ جس طرح ہمارے فوجی سرحدوں کے محافظ ہیں، وہ ہماری آرام دہ نیند کے لیے خود رات بھر جاگتے اور دشمن کی سنگینوں سے نکلی گولیاں روکنے کے لیے اپنے سینوں کو ڈھال بناتے ہیں۔ اس طرح شہروں میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس کے آفیسر اور اہلکار سردھڑ کی بازی لگاتے ہیں۔ مسجد، مدرسہ، مجلس عزا، مقدس شخصیات کے مزار، عرس، عدالتوں، جلسہ، جلوس، بنک، وی آئی پی روٹ، ججوں کے گھروں سمیت وی آئی پی حضرات کے محلات کی حفاظت اور الیکشن ڈے سمیت کوئی بھی ہنگامی صورتحال ہو تو پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے۔ یہ چوروں، ڈاکوؤں اور قاتلوں کا تعاقب اور انہیں گرفتار کرتے کرتے کئی بار موت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں۔ پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی اوقات آٹھ گھنٹے سے زائد ڈیوٹی کرتے ہیں، مگر انہیں کوئی اوور ٹائم نہیں دیا جاتا، بعض اوقات سیکورٹی کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کو چوبیس چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کرنا پڑتا ہے، تہواروں کے موقع پر یہ اپنی خوشیاں چھوڑ کر ہماری حفاظت کے لیے ڈیوٹی کرتے نظر آتے ہیں، مگر پھر بھی پولیس کا محکمہ چند کالی بھیڑوں کے سبب بدنام کر دیا جاتا ہے۔اچھی کارکردگی دیکھنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ کیا ریاست کے پاس پولیس کاکوئی متبادل ادارہ ہے؟ پولیس آفیسرز انگوٹھا چھاپ سیاستدانوں کی طرح ووٹ لے کرنہیں آتے بلکہ یہ فوج کی طرح تعلیم وتربیت کے کئی کٹھن مرحلے طے کرکے اس مقام تک آتے ہیں۔

    عام شکایت پولیس کے بارے میں یہ ہے کہ وہ رشوت خور ہے، کرپٹ ہے۔ ہوگی ضرور ہو گی مگر وہ جو کہتے ہیں کہ [pullquote]’’ الناس علی دین ملو کھم ‘‘[/pullquote]

    اگر ملک کا صدر، وزیراعظم، وزیر، مشیر، ایم پی اے، ایم این اے سبھی رشوت خور ہوں تو ان حالات میں پولیس اہلکار کیسے فرشتے بن سکتے ہیں؟

    اگر آپ پولیس کا امیج بہتر کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ریاست اور ڈیپارٹمنٹ کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا پڑے گی، امن وامان قائم کرنے والوں کے گھر والوں اور ان کے بیوی بچوں کو سب سے پہلے امن و سکون مہیا کیا جانا چاہیے. فوجی فاؤنڈیشن، بحریہ فاؤنڈیشن اور پی اے ایف اسکول قائم ہو سکتے ہیں تو ان کے بچوں کے لیے کیوں نہیں، باقی فورسز والوں نے اپنے حاضر و ریٹائرڈ افسروں اور اہلکاروں ان کے بچوں حتی کے ان کے ماں باپ کی ویلفئیر اور علاج معالجے کا بندوبست کر رکھا ہوتا ہے جو کہ نہایت خوش آئند ہے مگر پولیس والوں کے بچوں کے اسکولز اور ان کے والدین کے علاج کے آگے سوالیہ نشان کیوں ہے؟

    پولیس فورس کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے یونیفارم نہیں سسٹم تبدیل کریں، اسے سیاسی مداخلت سے آزاد کریں۔ سیاستدان اپنے سیاسی مفادات کے لیے اپنے وفادار ڈی پی اوز اور ایس ایچ اوز کی پوسٹنگ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت ہے، جس سے نجانے کب جان چھوٹے گی، چھوٹے گی بھی یا نہیں؟ کوئی پولیس والا آزاد رہ کر پرسکون ماحول میں اپنی ڈیوٹی سرانجام نہیں دے سکتا، ہر وقت اسے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر کسی ایم این اے ایم پی اے کو انکا رکیا تو اگلے دن کہیں دور دراز بیٹھا ہوں گا. اب اگر ایک ایس ایچ او کو تعینات ہی ایم پی اے یا ایم این اے کرواتا ہے تو وہ کیسے اپنے متعلقہ سیاسی آقا کو انکار کر سکتا ہے. حکومتی ارباب اختیار اگرپولیس کا امیج بہتر کرنا اور ان سے کوالٹی ورک لینا چاہتے ہیں تو ان کے کام میں سیاسی مداخلت بند کر دیں، ان کو شارپ شوٹر، نئی گاڑیاں اور نئے موٹر سائیکل مہیا کر دیں، اور پھر دیکھیں کہ یہ لوگ کیسے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں. جہاں عام سیکورٹی ادارے فیل ہو جاتے ہیں وہاں آرمی فی الفور کنٹرول کر لیتی ہے، وجہ کیا ہے کہ وہ اپنے کام میں کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرتے، اور فراہم کردہ بہترین وسائل کا استعمال بھی بہترین کرتے ہیں. پولیس ناکام کیوں ہے؟ وجہ صرف بےجا سیاسی مداخلت ہے ورنہ پولیس کے جوان بھی نہ صرف اپنے فرائض سے بخوبی آگاہ ہیں بلکہ جرائم کے خاتمے کے لیے بہترین اہلیت رکھتے ہیں، فرق صرف مکمل اختیارات اور ان کے استعمال کا حق دینے کا ہے۔

    ملک محمد سلمان
    0300/880566

  • کیا عمران خان اپنا مقدمہ ہار چکے ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    کیا عمران خان اپنا مقدمہ ہار چکے ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانی سیاسی پس منظر میں یہ سوال بہت اہم ہے۔ ہمارے بعض محترم تجزیہ کار اس پر قلم اٹھا چکے ہیں، ان میں سے بعض یہ حتمی فیصلہ سنا رہے ہیں کہ عمران خان اپنا مقدمہ ہار گیا ہے۔ اس خاکسار کی رائے میں یہ رائے درست نہیں۔ یہ رائے اگرتعصب اوربد نیتی پر مبنی نہیں اور میرا حسن گمان ہے کہ ایسا نہیں، تو پھر عمران خان کے مقدمہ ہار دینے والی بات کو عاجلانہ اور سادہ لوحی پر محمول ضرور کرنا چاہیے۔

    اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے کہ عمران خان کا موازنہ اپنے سیاسی حریفوں سے کرنا ہوگا، سب کے لیے ایک جیسے پیمانے بنانے پڑیں گے۔ یہ نہیں کہ ایک کو ہاتھی گیٹ سے گزارا جائے اور دوسرے کے لیے اتنی چھوٹی کھڑکی کہ وہ رینگ کر بھی نہ گزر پائے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ سیاسی تجزیہ تو زمینی حقائق، عملیت پسندانہ سوچ کو سامنے رکھ کر کریں، میدان سیاست میں موجود بڑے پہلوانوں کو رعایت بلکہ بےپناہ رعایتیں دیں، ان کے بلنڈرز سے آنکھیں بند کر لیں اور عمران خان کو آئیڈیل ازم کی کسوٹی پر پرکھیں۔ رومانوی سیاست کے وہ تمام پیمانے جن کا اطلاق پاکستان بلکہ جنوبی ایشیائی سیاست میں بھی ممکن نہیں، وہ تمام عمران خان پر آزما ڈالیں۔ اسے انصاف نہیں کہتے، عدل اور توازن پر مبنی رائے یوں نہیں دی جاتی۔

    عمران خان کا مقدمہ آخر ہے کیا ؟ تین بنیادی نکات ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستانی سیاست سٹیٹس کو کے گرد گھوم رہی ہے، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتیں سٹیٹس کو کی علمبردار ہیں، نظام کو وہ بدلنا نہیں چاہتیں، تھانے ، کچہری، پٹوار کے اسی ظالمانہ نظام کو قائم رکھنا چاہتی ہیں، تعلیم، صحت کے شعبوں میں اصلاحات لانا ان کا مقصد نہیں ، طاقتور طبقات سے وہ ٹیکس وصول نہیں کرنا چاہتے، غریبو ں کی زندگی بدلنا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ سیاستدان کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں، شریف خاندان، زرداری خاندان اور ان جیسے دیگر بڑے سیاستدانوں نے ملک سے لوٹی دولت بیرون ملک لے جا کر وہاں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، اسے واپس لانا چاہیے اور اگر میں یعنی عمران خان خود بھی کرپٹ ہے یا اس کے ساتھ کرپٹ ہیں تو ان کا بھی بے رحمانہ احتساب کیا جائے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کے مقدمہ کا تیسرا نکتہ یہی ہے کہ گورننس بہتر کی جائے، سٹرکوں اور ظاہری چمک دمک دمک والے میگا پراجیکٹس کے بجائے حقیقی اصلاحات لائی جائیں، پولیس اور انتظامیہ کو سیاسی دبائو سے آزاد رکھا جائے، بلدیاتی ادارے مضبوط کئے جائیںتاکہ گراس روٹ لیول تک جمہوریت کے اثرات مرتب ہوں۔

    اب اس مقدمہ میں سے کون سی بات ہے جو ثابت شدہ نہیں۔ ایک بھی نکتہ ایسا نہیں جس پر کسی تجزیہ کار کو اعتراض ہوگا، سب باتیں آئینے کی طرح واضح اور شفاف ہیں۔ کیا مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سٹیٹس کو کی علمبردار نہیں ہیں؟ کسی مزید دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔ پچھلے آٹھ برسوں سے دونوں پارٹیاں حکمران ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن، سندھ میں پیپلزپارٹی۔ ان دونوں صوبوں کو لے لیں، کسی ایک شعبے میں بھی اصلاحات کسی نے کیں۔ کیا پنجاب یا سندھ پولیس سیاسی اثرورسوخ سے پاک ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ مخصوص مقاصد کے لیے اپنی مرضی کے ڈی پی او اور ڈی سی اوز لگائے جاتے ہیں؟ کیا یہ غلط ہے کہ لاہور میں تھانوں کے ایس ایچ اوز کے تقرر بھی مخصوص لوگ کرتے ہیں۔ پچھلے آٹھ برسوں کے دوران تعلیم اور صحت میں کیا ریفارمز لائی گئیں؟ ٹیکس ریکوری بڑھانے کے لیے کیا کیا گیا؟ تین برسوں میں ٹیکس اصلاحات کے نام پر کچھ نہیں ہوا، ہر ایک جانتا ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوگا۔ سیاستدانوں کی کرپشن کے بارے میں سینہ گزٹ کو چھوڑیں، آڈیٹر جنرل کی رپورٹوں اور نیب کے سکینڈلز ہی کو سامنے رکھ لیں تو حیران ہوجاتا ہے۔برادرم رئوف کلاسرا کے پچھلے تین چار برسوں کے کالموں میں اتنے بڑے سکینڈل اور کرپشن دھماکے سامنے آئے ہیں،کسی کو تردید کرنے کی بھی جرأت نہیں ہوئی۔ ایسے کالم ہی اکٹھے کر دیے جائیں تو کرپشن پر اچھی خاصی ضخیم کتاب بن جائے گی۔

    پاناما لیکس ہی کو دیکھ لیں۔ جس ہوشیاری اور ہنرمندی سے حکمران جماعت نے اپنی فرینڈلی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر جو ڈرامہ رچایا، وہ سب کے سامنے ہے۔ پاناما سکینڈل آنے کے اگلے روز ہی وزیراعظم ٹی وی پر آئے اور قوم سے خطاب میں اس کی شفاف تحقیقات کا وعدہ کیا۔ کہاں گیا وہ وعدہ ؟سب جانتے ہیں کہ کیسی چالاکی سے پارلیمانی کمیٹی بنا کر ٹی اوآرز کے سلسلے کو اتنا طویل کیا گیا کہ لوگ یہ بات سن سن کر تنگ آ جائیں اور معاملہ معلق ہوجائے۔ عمران خان کے تیس ستمبر والے جلسے، مارچ وغیرہ پر تنقید کی جاسکتی ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ حکومت نے سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے کے سوا اور کیا راستہ چھوڑا ہے۔ کتنے مہینے گزر گئے، ٹی او آرز کی کمیٹی کے کتنے اجلاس ہوگئے، مگر اتفاق رائے نہیں ہوا اور صحافتی حلقے یہ بات پہلے سے جانتے تھے، بلکہ سیاسی فہم رکھنے والے ہر شخص کو علم تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ ن لیگ کے ارکان اسمبلی سرگوشیوں میں، معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ نجی محافل میں کہتے تھے کہ جب اتفاق رائے ہوجائے، تب ہمیں بتائیے گا۔ وہی ہوا جس کی توقع تھی۔ آج اگر کوئی صاحب دانش یہ مشورہ دے کہ عمران خان اپنے مقدمہ کو عدالتوں میں لے جائیں تو ان کی سادگی اور بھولپن پر رحم آتا ہے۔ بھائی کیا پاکستان میں کرپشن کی تحقیقات کرنے والے ادارے اس قدر آزاد ہیں کہ حکومتوں کے خلاف عدالتوں کو ثبوت فراہم کریں گے؟ پھر پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانا ہے، اس کے لیے مگر قانون تو پاس کرو، تب ہی اس کمیشن کو اختیار ملے گا۔ اتنی سامنے کی بات آخر ناقدین کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں؟کیاآرڈی ننس عمران خان نے جاری کرنا ہے؟ وہ تو کہتا ہے کہ اس پر خود الزام ثابت ہو جائیں، اس کے قریبی ساتھیوں پر ثابت ہوں تو انہیں بھی سزا دو۔ اس سے بڑھ کر کیا بات کی جا سکتی ہے؟

    عمران خان کا اخلاقی مقدمہ اس کے سیاسی مقدمہ سے جڑا ہوا ہے۔ جن تین نکات کے گرد اس کا مقدمہ گھومتا ہے، انہی کو عمران خان اور اس کی سیاست پر منطبق کرنا چاہیے۔ عمران خان پر کرپشن ثابت ہونا تو دور کی بات ہے، الزام تک نہیں لگ پایا۔ اس کے بدترین مخالف بھی یہ نہیں کہہ سکے کہ عمران خان نے فلاں معاملے میں کمیشن کھایا یا وہ گھپلوں میں ملوث ہے، پیسے لے کر ٹکٹیں جاری کرتا ہے۔ اکتوبر تیرہ کے انتخابات سے پہلے ن لیگ کے تیز دھار رہنما ایک بات تواتر سے دہراتے تھے کہ عمران خان کرپٹ اس لیے نہیں کہ اسے اقتدار نہیں ملا، جب ملے گا تب دیکھیں گے۔ تین سال ہوچکے، خیبر پی کے پر اس کی جماعت حکمران ہے، کئی سو ارب کا سالانہ بجٹ ہوتا ہے، ایک معاملے میں بھی عمران خان پر الزام نہیں لگ سکا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکا کہ اس نے پیسے لے کر ٹرانسفر، پوسٹنگ کی ہیں یا وزارتیں دی ہیں۔ واضح رہے کہ پنجاب اور سندھ میں ایسے درجنوں بلکہ بیسیوں الزام اور ہوش ربا واقعات موجود ہیں۔

    خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی مثالی نہیں، بہت کچھ ہوسکتا تھاجو نہیں ہوا، یہ مگر ہر ایک کو ماننا چاہیے کہ کچھ نہ کچھ اصلاحات انہوں نے کی ہیں۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار پولیس سیاسی اثرورسوخ سے پاک ہوئی، طاقتور ترین آئی جی لگایا گیا جو ٹرانسفر، پوسٹنگ کے لیے وزیراعلیٰ کے اجازت بھی نہیں لیتا۔ پنجاب میں اس کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ سیاسی اثرورسوخ سے بےنیاز چیف سیکرٹری لگایا گیا، دیگراعلیٰ انتظامی عہدوں میں بھی ایسا کیا گیا۔ تعلیم کے شعبے میں بہت بہتری آئی۔ منہ زور ڈاکٹر مافیا کو ڈسپلن میں لانے کی سعی ہو رہی۔ سٹیٹس کو کے علمبردار وزیراعلیٰ کے ہونے کے باوجود یہ اصلاحات لائی گئیں، حالانکہ بیشتر حکومتی ارکان اسمبلی اور وزرا ناتجربہ کار ہیں، اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے جو تجربہ چاہیے، وہ ان کے پاس نہیں، مگر کمٹمنٹ نظر تو آئی ہے۔ بلدیات کی وزارت جماعت اسلامی کے پاس ہے، اس کی کارکردگی قابل رشک رہی۔اس کے برعکس پنجاب میں کئی ماہ ہوگئے، مگر بلدیاتی ادارے ابھی تک نہیں بن سکے۔ پنجاب کے ہر ضلع میں ن لیگ کے اپنے لوگ ہی مئیر، ناظم بنیں گے، مگر برائے نام اختیار دینے کا جی نہیں چاہ رہا۔ کے پی کے میں نصف سے زیادہ اضلاع میں اپوزیشن کے مئیر، ضلعی ناظم بنے ہیں۔ پھر بھی وہاں بلدیاتی ادارے فعال ہیں بلکہ صوبائی تاریخ میں پہلی بار ترقیاتی فنڈز کا معقول حصہ بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ عمران خان کا یہ مقدمہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ چاہے سٹیٹس کو کے علمبردار ، روایتی سیاستدان اس کے ساتھ ہیں، مگر وہ ان سے بلیک میل نہیں ہوا، پولیس اور انتظامیہ کے ٹرانسفر، پوسٹنگ کو سیاسی دبائو سے باہر رکھا اور تعلیم، صحت، بلدیات اور کئی دوسرے شعبوں میں اصلاحات کی کوشش تو کر رہا ہے، مکمل کامیابی نہ سہی، کچھ نہ کچھ تو ہوگا۔ ادھر پنجاب اور سندھ میں تو کسی نے اصلاحات کی طرف پہلا قدم ہی نہیں بڑھایا۔

    بات ابھی ختم نہیں ہوئی، اس کے بعض پہلوئوں پر ان شاء اللہ آئندہ گفتگو کریں گے۔

  • جمہوریت کی لانڈری-اوریا مقبول جان

    جمہوریت کی لانڈری-اوریا مقبول جان

    orya

    ایک معمولی پولیس اہلکار جس کے ہم کاتب تقدیر ہیں، جس کا دانہ پانی ہم جب چاہیں روک دیں اور جب چاہیں فراخ کر دیں، جس کی عزت و ذلت بھی ہمارے ہاتھ میں ہے، جب چاہیں اسے کامیاب پولیس آفیسر قرار دے کر میڈل سے نواز دیں اور جب چاہیں بددیانتی، ماورائے قتل یا کسی اور جرم کا الزام لگا کر اسے زمانے بھر میں بدنام کر دیں۔

    پولیس آفیسر بھی اس شہر کا‘ جہاں بھتہ خوروں، بوری بند لاشوں کے ٹھیکیداروں، اغواء برائے تاوان کے مجرموں، مسخ شدہ لاشوں کے تحفے دینے والوں اور انسانوں کے جسموں میں ڈرل مشینوں سے سوراخ کر کے چنگیز خان اور ہلاکو کی وحشت و بربریت کی داستانیں رقم کرنے والوں کے خلاف جب آپریشن ہوا تو ایسے سب ’’معمولی‘‘ پولیس اہلکار جو اس آپریشن کو ایک فرض منصبی سمجھ کر شریک ہوئے تھے، انھیں ایک ایک کر کے چن چن کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔

    حالت یہ ہے کہ برطانیہ میں کراچی کا ایک پولیس آفیسر پناہ کی درخواست دیتا ہے تو برطانوی جج اپنے فیصلے میں لکھتا ہے کہ اسے پناہ اس لیے دی جا رہی ہے کہ کراچی میں اس کے ساتھی دو سو پولیس آفیسروں کو قتل کر دیا ہے اور اگر یہ پاکستان واپس چلا گیا تو اسے بھی قتل کر دیا جائے گا۔ ایسے شہر میں اس پولیس آفیسر کی یہ جرأت کہ جمہوری طور پر منتخب ایک ممبر صوبائی اسمبلی اور لیڈر آف اپوزیشن کو قتل اور گھیراؤ جلاؤ جیسے فوجداری جرائم کے تحت درج مقدموں میں گرفتار کرنے جائے، اس کو اس بات کا احساس تک نہیں یہ ایک ایسی شخصیت کا گھر ہے جسے ووٹ کی طاقت نے پاکبازی و معصومیت کا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا ہے۔

    اسے اندازہ نہیں اس نے خواجہ اظہار کو گرفتار نہیں کیا‘ جمہوریت کی عزت و حرمت پر ہاتھ ڈالا ہے۔ اس کی یہ جرأت، یہ ہمت جب کہ اس ملک میں ایک ایسی حکومت ہے جس نے پاکستان کی ساری بیوروکریسی اور ساری پولیس کو پرونواز اور اینٹی نواز میں تقسیم کرنے کا ’’شرف‘‘ حاصل کیا ہے۔ اس معمولی پولیس اہلکار کو جاننا چاہیے تھا کہ ساری بیوروکریسی اور ساری پولیس جمہوری نظام کی بقاء کے لیے کیا کچھ کر گزرتی ہے اور تب جا کر ان جمہوری حکمرانوں کی آنکھوں کا تارا بن جاتی ہے۔ اسے نہیں معلوم کیسے الیکشن کے دنوں میں یہ تمام افسران رائے ونڈ اور بلاول ہاؤس میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔

    اپنے اپنے عظیم ’’جمہوری‘‘ رہنماؤںکو بہترین مشوروں سے نوازتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ہم نے پولنگ اسکیم کیسے بنائی ہے کہ آپ ہی جیتیں گے‘ بتاتے ہیں کہ ہم نے ان کے مخالفین کے اہم ترین لوگوں کو کیسے مقدموں میں الجھا دیا ہے۔ ہم نے کیسے دباؤ ڈال کر جعلی کیس بنا کر کتنے لوگوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ آپ کی حمایت کا اعلان کریں۔ ہم نے پولنگ اسٹیشنوں کے عملے کو انتہائی احتیاط سے تعینات کیا اور اب آپ بے فکر ہو جائیں، ہم موجود ہیں فیلڈ میں، کوئی ہم پر شک تھوڑا کرے گا کہ ہم میاں نواز شریف کے وفادار ہیں یا آصف علی زرداری کے۔ ہم پولیس اور انتظامیہ کے آفیسر ہیں، غیر جانبدار۔ جیتنے پر انعامات کی سب سے پہلی بارش انھی افسران پر ہوتی ہے۔

    ایک منظور نظر کو جب پنجاب کا چیف سیکریٹری لگایا تو وہ بہت جونیئراور دیگر سیکریٹری سینئر تھے۔ جو نالاں رہتے تھے ایک دن اس نے سیکریٹری کمیٹی میں بے لاگ اور کھرا سچ بول دیا۔ اس نے کہا دیکھو میں نے پہلے دن اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ نوکری اب سیاسی وفاداریوں کی نوکری بن چکی ہے۔ ضیاالحق کا دور تھاجب میں سروس میں آیا اور سب سے منظور نظر گھرانہ ماڈل ٹاؤن کا شریف گھرانہ تھا۔ میں نے ان کی چوکھٹ پر خود کو ’’سرنڈر‘‘ کیا اور آج تک ان کا وفادار ہوں۔ جب تک یہ ہیں میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا۔ یہ نوکری عوام کی نہیں گھرانوں کی نوکری ہے۔

    اس ’’معمولی‘‘ پولیس آفیسر کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ جمہوریت کی بقا اور سسٹم کے تحفظ کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اخلاق، ضمیر، قانون اور ذاتی غیرت کو بھی میٹھی نیند سلانا پڑتا ہے۔ جمہوری حکمران تمہیں میٹنگ میں بے نقط سنائے، عوام کے سامنے بے عزت و رسوا کرے، بے شک تم پولیس کے انسپکٹر جنرل ہو جاؤ، تمہارے چہرے پر شرعی داڑھی ہو، وہ تمہیں تحقیر کے ساتھ ’’دڑھیل‘‘ کہہ کر پکارے، تمہیں سب سننا پڑتا ہے۔ تمہیں سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے کیس بنانا ہوتے ہیں۔ ان کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کی بیٹیوں، بہنوں، بہوؤں اور ماؤں تک کو تھانے میں لا کر بٹھانا ہوتا ہے۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ممبر اسمبلی قتل بھی کر سکتا ہے، یا کروا سکتا ہے۔ چوری کر بھی سکتا ہے یا چوروں کی سرپرستی بھی کر سکتا ہے۔ توبہ توبہ، ہزار بار توبہ۔ جس شخص کو یہ قوم منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتی ہے اس کے بارے میں ایسا سوچنا بھی تمہاری نوکری میں جرم ہے۔

    یہ تو معصوم لوگ ہیں۔ اللہ کے بنائے معصوم تو پیغمبر ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی جمہوریت کے بنائے معصوم پارلیمانی نظام کے منتخب لوگ ہوتے ہیں۔ جمہوری نظام کے ستون، جن کے دست قدرت میں سارا نظام یرغمال ہے۔ اگر آپ کا وفادار نیب کا سربراہ ہے، ایف آئی اے کا ڈائریکٹر ہے، پولیس کا انسپکٹر جنرل ہے اور ایف بی آر کا چیئرمین ہے تو آپ پر لاکھ الزام لگے، پوری قوم کا بچہ بچہ جانتا ہو کہ آپ نے بددیانتی کی ہے، قتل کروائے ہیں، لوگوں کی جائیدادیں ہڑپ کی ہیں، آپ پاکستان کی کسی بھی عدالت میں سزا کے مستحق نہیں ہو سکتے۔

    اس لیے کہ آپ کے خلاف مقدمے کے شواہد جج نے نہیں، نیب نے، پولیس نے، ایف آئی اے یا ایف بی آر نے جمع کروانے ہیں اور آپ نے کس خوبصورتی سے ان کو رائے ونڈ اور بلاول ہاؤس کی چوکھٹوں کا غلام بنا لیا ہے۔ جب ان عہدوں پر ایسے وفادار بیٹھے ہوں گے تو کون ان سیاستدانوں کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ثبوت اکٹھا کرے گا۔ 1999ء تک یہ جمہوری لیڈران تھوڑے بے وقوف تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف ثبوت اکٹھا کرتے تھے۔ اب یہ سب متحد ہو گئے ہیں۔یہ کس کے خلاف متحد ہوئے ہیں اٹھارہ کروڑ عوام کے خلاف۔ کس ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے تمہاری جرأت تم ایک رکن اسمبلی پر ہاتھ ڈالو جس پر قتل کا الزام ہے۔ ہاتھ ڈالنے کے لیے اٹھارہ کروڑ عوام جو موجود ہیں۔ جاؤ ان کے گھروں پر چھاپے مارو، جاؤ ان کی عورتوں کو اٹھا کر تھانے لاؤ، جاؤ ان کو ننگی گالیاں نکالو، جاؤ ان کو تھانے لے جا کر اتنا مارو کے ان کی چمڑی ادھڑ جائے، ان پر بے گناہ کیس بناؤ، تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔

    لیکن خبردار جمہوری طور پر منتخب شخص کی طرف آنکھ اٹھا کر مت دیکھنا اور دیکھو ہمیں قاتل، بددیانت، چور، بھتہ خور مت بولو، جب تک عدالت میں جرم ثابت نہ ہو جائے اور جرم تمہارا باپ بھی ثابت نہیں کر سکتا۔ تفتیش کرنے والے سب کے سب تو اپنی مٹھی میں ہیں، آدھے رائے ونڈ کی غلامی میں اور آدھے بلاول ہاؤس کی۔ کراچی والوں کا کیا ہے ان کو تو دو سو پولیس افسروں کی لاشیں ہی ڈرانے کے لیے کافی ہے اور جو ایسا پولیس آفیسر جرأت کرے اسے نشان عبرت بنا دو۔

    اگر عدالت میں ثابت ہونے سے ہی کوئی شخص واقعی مجرم کہلاتا ہے تو کیا مسند اقتدار پر بیٹھے یا اپوزیشن کے عظیم جمہوری لیڈران اپنی بیٹیوں کا رشتہ جان بوجھ کر کسی ایسے لڑکے سے کریں گے جس کے بارے میں مشہور ہوکہ وہ قاتل ہے، بھتہ خور ہے، چوروں کا سرغنہ ہے، جوئے کا اڈہ چلاتا ہے، کئی بار خواتین کے ساتھ جنسی تشدد میں ملوث ہوا مگر ثبوت نہ ہونے پر صاف بچ نکلا۔ کیا یہ سیاست دان ایسے شخص کو اپنی شوگر مل، اسٹیل مل یا کسی دفتر میں ملازم رکھیں گے، حالانکہ اس کے خلاف کوئی جرم تو ثابت نہیں ہوا ہوتا۔ وہ بھی یہی کہتے پھرتے ہیں کہ ہم پر پولیس نے ناجائز کیس بنائے ہیں۔ لیکن تمہارا فیصلہ چونکہ جمہوری بنیاد پر نہیں بلکہ بہترین مفاد کے لیے ہوتا ہے اس لیے آپ بیٹی یا بیٹے کا رشتہ اور اپنا ملازم تک اس کی شہرت دیکھ کر رکھتے ہیں۔ عدالت کے فیصلے نہیں مانگتے۔

    ان جمہوری لیڈران کو اگر اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ ان کی شہرت کیا ہے اور اللہ اس پر انھیں شرمندہ ہونے کی توفیق عطا فرما دے تو شرم کے مارے سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں کو بھاگ جائیں لیکن کیا کیا جائے جس ملک میں جرم دھونے کی سب سے بڑی لانڈری الیکشن ہو وہاں کبھی انصاف اپنی جڑیں نہیں پکڑ سکتا۔

  • کیا عام پاکستانیوں کی مائوں‌ کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوتے؟ عبید اللہ عابد

    کیا عام پاکستانیوں کی مائوں‌ کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوتے؟ عبید اللہ عابد

    عبید اللہ عابد اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے کی قومیں اسی لیے ہلاک ہوگئیں کہ جب اُن میں کوئی شریف آدمی چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑدیتے تھے، اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتاتھا تو اس پر حد نافذ کرتے تھے۔

    ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہارالحسن کی گرفتاری پر جس طرح وزیراعظم نوازشریف سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ حرکت میں آئے، انھوں نے جس طرح فون کھڑکائے۔ اس پر ایک سوال بنتاہے ان سے،
    کیا کبھی کسی عام پاکستانی کی غیرقانونی گرفتاری پر بھی وہ اسی طرح حرکت میں آئے؟

    ایک عام پاکستانی کو کس اندازمیں گرفتار کیا جاتا ہے، کس طرح اس کی گرفتاری کےلیے اس کے گھر کی چادر اور چاردیواری کو پامال کیا جاتاہے، ’’ملزم‘‘ گرفتار نہ ہوسکے تو کس طرح‌اس کی جوان بہنوں کو مہینوں تک تھانوں اور انویسٹی گیشن سنٹرز میں رکھا جاتاہے، اس کے بزرگ والدین کے ساتھ کس طرح انتہائی بہیمانہ سلوک کیا جاتاہے، ملزم اور اس کے رشتہ داروں کےساتھ کس طرح کا سلوک کیاجاتاہے، اس کا حکمرانوں کو بخوبی اندازہ تو ہے لیکن وہ ایک ایسے حکمران کلب (ایک مافیا) کا حصہ ہیں جس کے ارکان کے دلوں‌میں موجود سفاکی درد کی لہر پیدا نہیں ہونے دیتی

    وزیراعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور خواجہ اظہارالحسن سب اسی خاص کلب کے لوگ ہیں۔ اس کلب کے ارکان صرف سویلین ہی نہیں بلکہ عسکری بھی ہیں۔ اس ’’خاص کلب‘‘ کے ہر رکن کے دلوں‌میں خون نہیں سفاکی دوڑتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ خواجہ اظہار کی ’’غیرقانونی‘‘ پر درد زہ میں مبتلا ہوئے لیکن ایک عام پاکستانی کے ساتھ کس طرح سلوک ہوتا ہے، اس کی انھیں پرواہ نہیں۔ پولیس اور دیگر سکیورٹی ادارے ان کے ساتھ جو اور جیسا مرضی سلوک کریں، انھیں کھلی چھوٹ ہے۔ بس فکر اس بات کی ہے کہ کوئی اس مخصوص کلب کے ارکان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے، کیا عام پاکستانیوں کے ساتھ برا سلوک ہو تو ان کی مائوں‌کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوتے؟ ان کی بیویوں کی حرمت نہیں‌ہوتی؟ ان کی بہنوں اور بیٹیوں کا تقدس نہیں ہوتا؟