Tag: پشاور

  • جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا: علی عالم زادہ

    جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا: علی عالم زادہ

    کس کی آستین ، اور کونسا خنجر..ایک گرنیڈ پھینکو نہ رہے گی آستین اورنہ ہی لہو بچے گا، رہیں‌گےتوبس چیتھڑے اس زندہ قوم کے.

    باقی رہا خنجرتواس کی قوت گویائی تو ان دھماکوں کی گونج میں‌کب کی سلب ہو چکی، بےچارہ اس دور کے انساں کی جلادی پرمہربلب سہما ہوا خود سے لگی توقعات پر بے وجہ ہی شرمندہ کسی کونے کھدرے میں‌منہ چھپائے بیٹھا ہے.

    آرمی پبلک سکول پشاور جسے ہم نے سانحہ اے پی ایس کا نام دے رکھا ہے کی گونج سے ابھی کانوں کے پردوں کی لرزش تھمی نہیں‌تھی کہ کوئٹہ میں قوم کی خدمت کا عزم کرنے والے ماؤں کے لال، جنہوں نے ابھی صرف عزم ہی کیا تھا ،جنہوں نے ابھی اس یزیدی دنیا کے “پریکٹیکل تھپیڑوں” سے آشنائی اورانتہا پسندی کے بھڑکے ہوئے آتش کدے کی تپش کو محسوس ہی نہیں‌کیا تھا بڑے بڑے خواب آنکھوں میں‌سجائے دہشتگردی کے عفریت کا شکار ہو گئے.

    لیکن ایسا ہوا کیوں؟ کس کے گناہ کا کفارہ ادا کیا ان پرعزم جوشیلے جوانوں نے. یہ تو اپنی جان دینے ہی نکلے تھے اپنے گھروں سے ان شہیدوں کی مائیں‌بھی یہ جانتی ہوں‌گی کہ ان کے بیٹوں نے جس مقدس پیشے کا انتخاب کیا ہے اس میں ایک نہ ایک دن ایسی خبر بیواؤں کی مانگ اور ماؤں کی نیندیں اجاڑنے آ ہی جاتی ہے تاہم کیا انہوں نے سوچا بھی ہو گا یہ زیرتربیت سپاہی جو ابھی جوبن پر پہنچے ہی نہیں جنہیں‌ابھی خود اپنی حفاظت کے طریقہ کار سے مکمل واقفیت نہیں انہیں‌ یوں بے موت قربان کر دیا جائے گا.

    کون ہے اس دہشتگردی کا ذمہ دار، کس کی اتنی ہمت ہےکہ پاکستان کی دنیا کی بہترین افواج کے جاری آپریشن میں‌بھی ہمارے بچوں، بوڑھوں اورجوانوں کو مارنے چلے آتے ہیں، جتنی بھی احتیاطی تدابیر کر لی جائیں جتنے بھی ناکے، چیکنگ پوائینٹز، مورچے یا آپریشن کر لیں لیکن ابھی ایک زخم بھی ٹھیک سے بھرا نہیں‌ ہوتا کہ اسے پھر سے تازہ کر دیا جاتا ہے.

    ابلتے لہو کے دھاروں نے پوری قوم کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے. اور اضطراب کیوں نہ ہو؟ جن کے بچے مرتے ہیں ان میں‌تو بس اضطراب ہی زندہ رہ جاتا ہےایک جھوٹی آس ایک امید پر سسکتے زندگی گزارتے ہیں‌کہ شاید کبھی ہمارے بچوں کے خون ناحق کا انصاف ہو سکے شاید کبھی تو اس درد کا مداوا ہو سکے اور کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو صدمے کی شدت سے سود و زیاں کے احساس سے بھی مبرا ہو جاتے ہیں مرنے والوں کے ساتھ گھر والے بھی مرجاتے ہیں بس ضروریات زندہ رہ جاتی ہیں زندہ لاشیں ایک دوجے کو دیکھتے ایک دوسرے کے لئے جینے کی کوشش میں سسک سسک کر اپنے زندہ لاشے گھسیٹتے رہتے ہیں.

    سانحہ کوئٹہ بے شک ایک المیہ ہے لیکن اس سے بھی بڑا ایک المیہ ہے کہ اس سانحے میں جام شہادت نوش کرنے والوں کو تو ایمبولینسیں‌بھی میسرنہ آ سکیں ان شیر جوانوں کے شہید لاشوں کو مسافر بسوں کی چھتوں پر رکھ کر بھجوایا گیا

    protocol
    جبکہ دوسری جانب اس سلطنت پاکستان کے بادشاہوں کو جب کوئی خطرہ ہوتا ہے، جو کہ انہیں‌ہمیشہ ہی ہوتا ہےتو ان کے ہمراہ پروٹوکول کے قافلے چلتے ہیں.سرکاری گاڑیوں کی ایک لمبی قطار جو عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل کی جاتی ہیں اسی “باشعور” عوام کے راستے روک کر فراٹے بھرتے گزر جاتی ہیں. کیونکہ یہ “بڑے لوگ” ہیں “اہم لوگ” ان کے سر پہ ملک چلتا ہے انہیں کچھ ہو جائے تو شاید ہمارا وطن “یتیم” ہو جائے گا تو پھر ان کا کیا جو اپنی جانوں کو مشقتوں کی بھٹی میں تپا کر فولاد بناتے ہیں اس وطن عزیر کی حفاظت کےلیئے ،ان جوانوں نے اپنے “ڈنڈ” نہیں دکھانے ہوتے اور اگر دکھائیں بھی تو اس طاقت کا مظاہرہ وطن کے دشمنوں کے لئے ہوتا ہے بادشوں کی بادشاہی کے مظاہرے کی طرح نہیں‌جودشمن سے “دیدہ دل فرش راہ کیئے” ملتے ہیں اور دشمن چاہے ملک پر حملہ بھی کر دے لیکن ایک مذمتی بیان جاری کرنے سے پہلے بھی لاکھوں روپے مشورے دینے کی مد میں‌لینے والوں کے تحفظات دور کرنے کے چکر میں‌پڑے رہتے ہیں‌اور”باشعور”عوام نگاہیں جمائے بیٹھی رہتی ہے کہ ابھی بادشاہ سلامت کوئی ایسا فرمان جاری کریں گے کہ جلتے کلیجوں میں‌ٹھنڈک اتر جائے گی .

    لیکن یہ جمی ہوئی نگاہیں اسی امید پر جمے جمے پتھرا جاتی ہیں‌ اور بازی کوئی اور مار جاتا ہے. یہ جو سلطنت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہلالی پرچم ہے یہ تو ہم نے لہرانے کے لیئے بنایا تھا. پاک سر زمین شاد باد کا ترانہ پڑھتے اس معززپرچم کو فخر بھرا سیلیوٹ کرنے کیلئے لیکن یہ کیا…کہ ہمارا سبز ہلالی پرچم شہیدوں کی لاشوں پر لپیٹ لپیٹ کر اتنا خوں رنگ کر دیا گیا ہے اس کا سفید حصہ ہی نہیں بلکہ سبز بھی ان بچوں کے خون کی لالی میں‌ڈوب گیا ہے .

    خون کی یہ لالی ہم سے لہو لہو لہجے میں‌پوچھتی ہے کہ اس پاک وطن پر چھاتے ہوئے سرخ اندھیروں کے بادل کب چھٹیں گے اس پرچم کا لہو اگلتا رنگ کب دھل کر ہلالی ہوگا؟

    اس پرچم کے لئے جان دینے والوں‌کو “پروٹوکول” کب ملے گا ؟
    یہ “بادشاہ” کب مسافر بسوں میں سفر کریں گے ..

    آخر کب ہم جاگیں‌گے..کب تک “سانوں کی ” کی بین بجاتے رہیں گے ؟ “سانوں کی” جی کوئٹہ میں‌ہواجوبھی ہوا، پرہم تو محفوظ ہیں‌..پشاور میں‌ہوا تو “سانوں کی” ہم تو محفوظ ہیں‌،ہمارے بچے محفوظ ہیں ..

    آخرمیں‌ دوخبریں آپ کے ساتھ شیئر کرتا چلوں‌، دیکھتے ہیں ان خبروں میں‌چھپی شہیدوں کی چیخیں‌آپکے کانوں تک پہنچتی ہیں‌یا پھر وہی”سانوں‌کی” کی گردان کرتے دامن بچا جاتے ہیں.

    پہلی خبر یہ ہے کہ بلوچستان کے وزیراعلی کی توجہ گزشتہ مہینے ہی کوئٹہ کے ٹریننگ سینٹرکی گارے سے بنی بناء‌حفاظتی اقدامات کے پانچ فٹ کی دیواروں کی جانب مبذول کروائی گئی تھی ،جس پر انہوں نے جو ایکشن لیا وہ قوم کے سامنے ہے اور دوسری خبر یہ بھی ہے کہ اسحق ڈارنے “جاتی عمرہ” کے حفاظتی اقدامات کیلئے 75 کڑوڑ روپے کی مانگ کی ہے.

    یہ “سانوں کی ” اب اور نہیں‌چلے گی، بے حسی کے اس دلدل سے نکلیئے کہ اس سے پہلے کوئی آپ کے “زندہ لاشے” سے ناک پر رومال رکھے اپنا پاک دامن بچاتے “سانوں کی ” کہتا ہوا گزر جائے

  • شربت بی بی سے شربت قیدی تک-سلیم صافی

    شربت بی بی سے شربت قیدی تک-سلیم صافی

    saleem safi

    اسی کی دہائی کا تذکرہ ہے کہ جب جنرل محمد ضیاالحق کی قیادت میں پوری پاکستانی ریاست افغانوں کو ترغیب دے رہی تھی کہ وہ سوویت یونین کے خلاف بندوق اٹھائیںاور اپنے گھر کو چھوڑ کر پاکستان کے کیمپوں میں تشریف لے آئیں ۔تب پولیس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے کارکن بھی مہاجر کیمپوں کے باہر اس نیت سے پہرہ دیا کرتے تھے کہ کوئی ان معزز مہمانوں کو نقصان نہ پہنچائے ۔ تب ہم پاکستانیوں کے لئے پستول کے لائسنس کا حصول ناممکنات میں سے تھا لیکن افغان مہاجرین اور مجاہدین کے ساتھ کلاشنکوفوں کے انبار لگے رہتے تھے ۔ ان کو پاکستان کے ان حساس مقامات اور علاقوں میں بھی وی آئی پی پروٹوکول ملتا تھا جہاں ہم پاکستانیوں کا داخلہ بھی حرام سمجھا جاتا ہے ۔ تب پاکستانیوں کے لئے امریکی اور یورپ جانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا لیکن افغان مہاجرین کو امریکہ اور برطانیہ کے ویزے ، مجاہدین لیڈروں کی سفارشی چٹ پر منٹوں میں جاری ہوتے تھے ۔ تب سعودی عرب سے لے مصر تک اور قطر سے لے کر چین تک ، من وسلویٰ کے جہاز بھرکرپاکستان لائے اور پھر پورے تزک و احتشام کے ساتھ ان معزز مہمانوں کی خدمت میں پیش کئے جاتے ۔ کئی جگہ پر پاکستانی پختونوں کی زمینوں پر ریاست نے جبراً قبضہ کرکے انہیں مہاجر کیمپوں میں تبدیل کیا اور یوں افغان مہاجر ہونا اتنا فائدہ مند اور معزز بن گیا تھا کہ ہزاروں پاکستانیوں نے بھی افغان مہاجر ین کے کارڈز اور افغانی پاسپورٹ بنالئے ۔ تب افغان مجاہدین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہیرو تھے اورمغربی میڈیا ان مہاجرین کی کوریج کرکے انہیں کمیونزم کا مقابلہ کرنے کے لئے گھر بار چھوڑنے والے آزاد دنیا کے محسنوں کے طور پر پیش کررہا تھا۔

    چنانچہ اسی تسلسل میں نیشنل جیوگرافک کے فوٹو گرافر اسٹیو میک کری (Stev McCurry) نے ایک مہاجر کیمپ میں نیلی اور حسین آنکھوں کی حامل ایک افغان بچی کی ایسی شانداراور پرکشش تصویر بنالی کہ وہ نیشنل جیوگرافک کے میگزین کے ٹائٹل پیج پر جگہ پاگئی ۔ حسین آنکھوںاور معصومیت کی وجہ سے وہ تصویر پوری دنیا میں مشہور ہوگئی اور اسے مونالیزا کی مشہور زمانہ پینٹنگ سے تشبیہ دی جانے لگی تاہم چونکہ وہ بچی ماڈل یا ایکٹر نہیں بلکہ ایک روایتی معصوم افغان بچی تھی ، اس لئے پوری دنیا میں شہرت پانے کے باوجود وہ اپنی تصویر کی شہرت کو کیش نہ کرسکی اور نہ پشاور یا پاکستان میں وہ بعد کے سالوں میں توجہ کا مرکز بنی ۔ نائن الیون کے بعد جب افغانستان اور اس کی وجہ سے پاکستان ایک بار پھر مغربی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا تو نیشنل جیوگرافک کے اسی فوٹوگرافر کو خیال آیا کہ وہ پوری دنیا میں شہرت پانے والی اور خود ان کی وجہ شہرت بننے والی اس معصوم اور حسین آنکھوں والی افغان بچی کو تلاش کرلیں ۔ چنانچہ وہ ان کی تلاش میں پہلے افغانستان آئے اور پھر پاکستان ۔ بڑی کوششوں کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ بچی اب کئی بچوں کی ماں بن کر ایک عام مہاجر خاتون کی حیثیت میں پشاور کے ناصر باغ کیمپ میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے ۔

    مقامی صحافیوں کے تعاون سے اسٹیو میک کری ان تک پہنچے اور اور انہیں برقع میں آنکھوں کی تصویر پر آمادہ کیا۔ اس تصویر کا یورپ کی لیبارٹریوں میں یہ جاننے کے لئے ٹیسٹ کرایا گیا کہ واقعی یہ وہی بچی ہے یا نہیں اورتصدیق ہوجانے کے بعد ان پر پوری ڈاکومینٹری تیار کرلی گئی ۔ اس ڈاکومینٹری کے ذریعے وہ ایک پھر عالمی شہرت حاصل کرنے لگی اور پتہ چلا کہ اس بچی کا اصل نام شربت گلہ ہے جو اس شہرت کے بعد شربت بی بی کے نام سے مشہور ہوئی۔ شربت بی بی اب ایک بار پھر عالمی ، پاکستانی اور افغانی میڈیا پر چھا گئی لیکن ظاہر ہے اس کی اپنی حالت نہ بدلی ۔ حالت بدلی تو یوں کہ گزشتہ چند سالوں سے دوسرے افغان مہاجرین کی طرح وہ بھی پاکستان کے لئے بوجھ بن گئی ۔ امریکہ ، ہندوستان اور بعض دوسرے ممالک کی شہہ پر افغان حکمرانوں نے پاکستان کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا شروع کیا تو سزا ان معصوم اور مجبور افغان مہاجرین کو ملنے لگی ۔

    افغان میڈیا پاکستان کے خلاف جو نفرت پھیلارہا ہے ، اس کے جواب میں پاکستانی میڈیا نے جو نفرت پھیلائی ، اس کا نشانہ یہی مہاجر بننے لگے ۔ پھر خیبر پختونخوا میں بعض حکمرانوں نے افغان مہاجر کیمپوں کی زمینوں پر قبضے کے لئے منصوبے بنائے ہیں ، اس لئے یہاں مہاجرین کے خلاف کچھ ضرورت سے زیادہ پھرتی دکھائی جارہی ہے ۔ انتہائی غلط وقت پر ، انتہائی غلط طریقے سے افغان مہاجرین کی پکڑ دھکڑ شروع کردی گئی لیکن ظاہر ہے کہ کسی جرم میں ملوث مہاجرین کی بجائے پہلی فرصت میں وہ مہاجرین نشانہ بننے لگے کہ جن کا ریکارڈ موجود تھا اور جو یہاں کاروبار کررہے تھے یا پھر اپنے گھر بنارکھے تھے ۔ دوسری طرف نادرا ، ایف آئی اے اور اسی نوع کے دیگر ادارے بھی حرکت میں آگئے چنانچہ پہلی فرصت میں شربت بی بی نشانہ بنی ۔ جعلی پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے کے جرم میں پچھلے ہفتے ان کو گھر سے اٹھا کر پشاور جیل میں بند کردیا گیا ۔ اب ہے تو وہ ایک عام ، مجبور اور بے بس افغانی خاتون لیکن دوسری طرف پوری دنیا میں شہرت پاگئی ہے ۔ چنانچہ عالمی میڈیا میں ان کی گرفتاری کا غلغلہ بلند ہوا ۔ افغانی اور ہندوستانی میڈیا اسے پاکستان کے خلاف ایک چارج شیٹ کے طو رپر استعمال کرنے لگا۔ نیشنل جیوگرافک کے وہی فوٹوگرافر ان کے معاملے پر ایک اور فلم بنانے کے لئے پاکستان آرہے ہیں لیکن دوسری طرف خیبرپختونخوا کے حکمران اسلام آباد بند کروانے اور اسلام آباد کے حکمران ،اپنی حکومت بچانے میں مگن ہیں ۔

    افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال پہلے دن سے کوششوں میں لگ گئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ اس دوران مجھے یہ دردناک حقیقت بھی معلوم ہوئی کہ شربت بی بی کے میاں کچھ عرصہ قبل وفات پاگئے ہیں اور اس وقت وہ خود بھی ایک موذی مرض میں مبتلا ہیں ۔ گزشتہ روز میں نے فون کرکے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عاصم سلیم باجوہ صاحب سے درخواست کی کہ اگرچہ ان کا ڈومین نہیں لیکن انسانی ہمدردی کے ناطے وہ اس میں دلچسپی لیں اور انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ایسا کریں گے ۔ میں خود بھی دکھی تھا کہ چوہدری نثار علی خان ، جو موجودہ حکومتی ٹیم میں انسانی اور اخلاقی حوالوں سے سب سے بہتر انسان سمجھے جاتے ہیں کیوں کر اس معاملے پر خاموش ہیں لیکن یہ جان کر مزید دکھ ہوا کہ اسلام آباد کھلا رکھنے کی کوششوں کی وجہ سے یہ معاملہ ان کے نوٹس میں ہی نہیں آسکا ۔ گزشتہ روز جب پریس کانفرنس میں یہ معاملہ ان کے نوٹس میں لایا گیا تو انہوں نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ مکمل کیس وہ یوں ختم نہیں کرسکتے کہ جعلی سازی میں ملوث ان کے محکمے کے لوگ نہ بچ سکیں لیکن وہ فوری طور پر ان کی ضمانت کرادیں گے ۔

    اتفاق کی بات ہے کہ جب چوہدری نثار علی خان یہ اعلان کررہے تھے تو میں محترم بھائی میجر عامر اورقیصر بٹ صاحب کے ساتھ شربت گلہ کا معاملہ ڈسکس کررہاتھا ۔ میں نے شربت گلہ کی بیماری کا بتایا تو میجر عامر صاحب نے ان کے علاج کی ذمہ داری بھی اٹھالی لیکن اب شربت گلہ کی جیل سے رہائی کا انتظار ہے ۔ مجھے امید ہے کہ قول کے پکے انسان کی شہرت رکھنے والے چوہدری نثار علی خان اپنا وعدہ پورا کرکے شربت بی بی کو رہا کردیں گے اور مجھے یقین ہے کہ میجر عامر صاحب کے ذریعے ان کا اور ان کے بچوں کے علاج معالجے کا بندوبست بھی ہوجائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جو بدنامی ہوئی ، اس کو نیک نامی میں کون بدلے گا؟۔ ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ یہاں اسلام آباد میں دھرنوں کے ڈرامے بنا کر اور ٹی وی کیمروں کا رخ اس طرف کرکے شترمرخ کی طرح آنکھیں بند کرلیںتو کیا دنیا نے بھی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ۔ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر جو کچھ ہونا ہے ، وہ ہورہا ہے ۔ جب ہم ڈراموں سے فارغ ہوکر اس طرف متوجہ ہوں گے تو لگ پتہ جائے گا کہ پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ گیا ہے اور وہ بھی پاکستان کے مخالف سمت میں

  • یہ ہیں پاکستانی ڈاکٹرز – عابد صدیق

    یہ ہیں پاکستانی ڈاکٹرز – عابد صدیق

    عابد صدیق یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں بلکہ 20 سے 25 سال پرانی ہے کہ اس خطے میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر بہت کم تھے۔ کسی ہسپتال میں نرسنگ کا کام کر کے چند دوائیوں کے نام یاد کرلینے والے یا پھر کسی میڈیکل سٹور پر کام کرنے والے شخص کو پیار سے ہی لیکن تقریباً سارے ہی محلے والے’’ ڈاکٹر صاحب‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔اس طرح کے معالج تقریبا ہر گاؤں میں ہوتے تھے، ان کا اپنا اپنا علاقہ ہوتا تھا۔ یہ ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ گھر گھر جا کر علاج کرتے تھے، دوسرے کے علاقے میں مداخلت نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی’’ ہم عصر‘‘ کے خلاف کوئی بات کرتے تھے۔ مخصوص سے مریض ان کے پینل پر ہوتے تھے۔ ممکن ہے اس وقت بیماریوں کی دریافت بھی کوئی زیادہ نہ تھی اور نہ بیماریوں کی اتنی اقسام تھیں جتنی آج ہیں۔ بس’’ درد‘‘’’کالی ‘‘’’کلیجہ منہ کو آنا‘‘ اور’’ کلنج‘‘ جیسی چند ایک بیماریاں تھیں جن کے علاج کے لیے میڈیکل سٹور بھی ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘کے بیگ میں ہی ہوتا تھا جو چمڑے سے تیار کیا گیا انتہائی دیدہ زیب ہوتاتھا۔یہ ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ بیماریوں سے متعلق کم اور شجرہ نسب سے متعلق زیادہ جانتے تھے۔مریض کا علاج شروع کرنے سے قبل وہ دادا جی کا نام ضرور پوچھتے تھے اور ساتھ ہی ان کو لاحق بیماریوں کی جانکاری بھی لیتے تھے۔ بس یہی وہ ہسٹری ہوتی تھی جس کی بنیاد پر وہ خطرناک سے خطرناک مرض کو بھی بھگا دیتے تھے۔ جس گھر میں یہ عام طور پر انجکشن لگانے کے لیے جاتے تھے (سیرپ یاگولیاں دینے کا رواج کم تھا) وہاں کھانے پینے کا اہتمام بھی خاص طور پر کیا جاتا تھا، لیکن جو خاص بات مجھے اب تک یا دہے وہ یہ تھی کہ مذکورہ ڈاکٹر صاحب صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے، پچیس سال پہلے اس طرح کی اشیاء کم بلکہ نا پید ہوتی تھیں جو ایک ہی دفعہ استعمال کی جاتی ہوں، چنانچہ انجکشن لگانے والی ایک سرنج درجن بھر مریضوں کے لیے کافی ہوتی تھی لیکن ڈاکٹر صاحب مریض کا بہت خیال رکھتے تھے، سٹیل کے صاف برتن میں پانی ابالا جاتا تھا، پھر ساتھ سرنج کوبھی یوں ابالا جاتا تھا کہ جراثیموں کے خاندان میں سے بھی کوئی زندہ نہیں رہتا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب اپنے ہاتھ دو سے زائد مرتبہ صابن سے دھوتے تھے ، یوں نفاست میں اْن کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ جہاں تک انجکشن یا ٰ’’ لال سیرپ‘‘ سے مستفید ہونے کا تعلق ہے اس کا اثر آج کے دور سے قدرے زیادہ ہو تا تھا ، فیس بھی مناسب لیتے تھے۔گھر آکر علاج کرنے کا کوئی اضافی الانس نہیں ہوتا تھا۔

    اس ساری تمہید کا مقصد ’’پاکستان جنرل آف میڈیکل سائنس‘‘ نامی طبی جریدے کی دو سال پہلے چھپنے والی ایک رپورٹ کے حوالے سے قارئین کو آگاہ کرنا ہے جس میں بعض حیرت انگیز انکشافات کیے گئے ہیں، رپورٹ کے مطابق طبی قواعد کے برعکس پاکستان میں عام ڈاکٹر جنہیں جنرل پریکٹینشز کہا جاتاہے، 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے۔78 فیصد مرض کی تشخیص کا ذکر نہیں کرتے جبکہ 58 فیصد نسخے اتنے بد خط ہوتے ہیں کہ انہیں پڑھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، رپورٹ کے مطابق تحقیق کے دوران یہ بھی دریافت ہوا کہ 63 فیصد نسخوں پر دوا کی مقدار 55 فیصد پر دوا لینے کا دورانیہ درج نہیں ہوتا۔ یہ ریسرچ بظاہر پشاور کے 6ہسپتالوں پر کی گئی ہے لیکن اس کے نتائج کو پورے ملک کے ساتھ جوڑا گیا ہے، رپورٹ میں بنگلہ دیش اور یمن جیسے ممالک کو پاکستان سے بہتر قرار دیا گیا ہے، اس تفصلی رپورٹ میں کئی اور ایسے انکشافات کیے گے ہیں کہ جن سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ مریض علاج کے لیے نہیں بلکہ’’ موت کے حصول‘‘ کے لیے ہسپتال جاتاہے۔

    اس رپورٹ کے کیا حقائق ہیں یہ اپنی جگہ لیکن روزمرہ کی زندگی میں ہم اس سے بھی بد تر حالات دیکھتے ہیں ، دوائیاں بنانے والی کمپنیاں غیر معیاری ادویات کی خرید و فروخت کیلئے رائج الوقت کئی طریقوں سے فائدہ اْٹھاتی ہیں، قیمتی تحائف اور زائد کمیشن کی ادائیگی اْن رائج الوقت کئی طریقوں میں سے بعض آزمودہ طریقے ہیں۔ ہسپتالوں میں دوائی کے نام کے ساتھ اس کمپنی کا نام بھی نسخے کے ساتھ لکھا جاتاہے جس کمپنی نے اْسے تیار کیا ہوتاہے۔ ساتھ ہی مریض کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ اس دوائی کے متبادل کوئی دوائی نہیں لینی ہے ، دلچسپ امر یہ ہے کہ آپ کسی ایک ڈاکٹر سے چیک کروا کر کے دوسرے کے پاس جائیں تو پہلے والی رپورٹ یکسر مستر کر دی جاتی ہیِ ، خاص کر آزاد کشمیر سے مریض جب پاکستان کے کسی شہر میں جا کر چک اپ کرواتا ہے تو اس کی پہلے والی تقریباً سب ہی رپورٹس کو یکسر مسترد کر دیا جاتاہے ، اب حکومت نے آزا دکشمیر میں سرکاری سطح پر تین میڈیکل کالج قائم کر دیئے ہیں، ان کالجز کے قیام سے قبل جو ڈاکٹر صاحبان پاکستان کے کسی میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہوتے تھے وہ کم ازکم پاکستان کے کسی بڑے ہسپتال کی منظر کشی ضرور کر سکتے تھے ، کیونکہ انہیں اس سے واسطہ پڑچکا تھا ، لیکن ہمارے ان تین میڈیکل کالجز سے فارغ ہونے والے ڈاکٹر صاحبان وہ کام بھی نہ کرسکیں گے ، بات صرف طب کے شعبے کی ہی نہیں، زندگی کے کسی بھی شعبے پر نظر دوڑائی جائے تو یوں لگتاہے کہ ہم دنیا میں بس ’’ایڈہاک ازم‘‘کی بنیاد پر آئے ہیں، روز مرّہ کی بنیاد پر واسطہ پڑنے والے ان حالات کے بعد بھی اپنے آپ کو زندہ دیکھ کر خاصی حد تک فخر محسوس کرنے کو دل چاہتاہے کہ ان حالات میں بھی ہم زندہ ہیں، ورنہ ہم درزی سے لے کر باربر تک کے خود ساختہ اصولوں اور مکینک سے لیکر دھوبی تک کے چکروں میں کتنا پہلے مر چکے ہوتے ، بس اس یقین کے ساتھ زندگی کی اس پٹڑی پر محوِ سفر ہیں کہ شایدآنے والا کل آج سے بہتر ہو لیکن امید کے سہارے کب تک زندہ رہیں گے؟

  • عید اور قائد اعظمؒ کے حوالے سے غلط بیانیاں-ڈاکٹر صفدر محمود

    عید اور قائد اعظمؒ کے حوالے سے غلط بیانیاں-ڈاکٹر صفدر محمود

    dr-safdar-mehmood

    تین دن کی عید منانے کے بعد اور مختلف اقسام کے لذیذ پکوان اور بکروں کی کلیجیاں کھانے کے بعد شاید آپ کسی سنجیدہ اور تحقیقی کالم کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہوں لیکن میرے مزاج کی مجبوری کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے معاف فرمادیں۔ میری مجبوری یہ ہے کہ جب قائد اعظمؒ یا تاریخ پاکستان کے حوالے سے بے بنیاد یا غیر ذمہ دارانہ باتیں لکھی جائیں تو میں مداخلت کئے بغیر نہیں رہ سکتا بشرطیکہ ایسی تحریریں میرے علم میں ہوںاور میرے محدود مطالعے کے مطابق بے بنیاد ہوں۔

    ظاہر ہے کہ میرا مطالعہ محدود ہے ، مجھے ساری تفصیلات اور تاریخی حقائق کے علم کا دعویٰ نہیں، عید سے دو روز قبل 11ستمبر کو قائد اعظم کا یوم وفات تھا۔ میں بمشکل تین اخبارات پڑھ سکتا ہوں۔ ان میں مجھے بعض ایسی تحریریں نظر آئیں جو حقائق کے منافی تھیں اور ان سے یقیناً قارئین کے ذہنوں میں غلط تاثرات پیدا ہوئے ہوں گے۔ اسے کہتے ہیں تاریخ کو مسخ کرنا اور نوجوان نسلوںکو گمراہ کرنا……اصل موضوع کی طرف آنے سے قبل مجھے اس دکھ کے اظہار کرنے کی اجازت دیجئے کہ ہمارے میڈیا کی قائد اعظم اور تحریک پاکستان میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عید کے مسلسل تین روز مجھے تقریباً ہر چینل پر بکرے، بیل، اونٹ اور ان کی ادائیں، سجاوٹیں اور بیلوں کی بغاوتوں کے مناظر بے تحاشا نظر آئے، کھابوں اور پکوانوں کے مناظر بھی بھوک پیدا کرتے رہے لیکن گیارہ ستمبر کو قائد اعظم کے حوالے سے ایک بھی ڈھنگ کا پروگرام دیکھنے کو آنکھیں ترستیں رہیں۔

    الیکٹرانک میڈیا ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں اپنا قومی فرض بھول چکا ہے اور وہ قومی فرض ہے قوم کی ذہنی تعمیر، نوجوان نسلوں کی تعلیم و تربیت اور تحریک پاکستان کے جذبوں کا احیاء…..اس کے ساتھ ساتھ قائد اعظم کی شخصیت اور کردار کو اجاگر کرکے ناظرین کے ذہنوں میں ایک آئیڈیل قیادت کے تصور کو پروان چڑھانا بھی ایک اہم قومی فرض ہے۔ ہر قوم اپنے ہیروز پر فخر کرتی ہے اور انہیں قوم کے لئے باعث تفاخر بناتی ہے۔ میرے نزدیک معاشرے میں آئیڈیلز (Ideals)،تاریخی شعور اور عظیم شخصیات کے کردار اور کارناموں کو زندہ رکھنا خود اپنے معاشرے کو زندہ رکھنے کے لئے ناگزیر ہوتا ہے اور یہ کام میڈیا ہی کرسکتا ہے۔ اخبارات نے تو قائد اعظم کو ایک ایک رنگین صفحہ دے کر حاتم طائی کو شرمندہ کردیا لیکن الیکٹرانک میڈیا بدستور سیاستدانوں کے دنگل کروانے اور تجزیات کی آڑ میں نفرتیں پھیلانے میں مصروف رہا یا پھر گانوں سے لوگوں کے دل بہلاتا رہا۔ میری جسارت کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ گانے نہ سنائے جائیں، بکروں کی سجاوٹ، بیلوں کے فرار اور اچھل کود کے مناظر نہ دکھائے جائیں۔

    آپ جس طرح چاہیں قوم کی خدمت کریں اور تفریح کا سامان مہیا کریں لیکن اپنے آٹھ یا بارہ گھنٹوں میں سے اہم قومی ایام کو بھی45منٹ دے دیں تو اس سے قوم کی صحت پر اچھا اثر پڑے گا۔ پھر پورے سال میں اہم قومی ایام ہیں ہی کتنے؟ بس یہی کوئی چھ سات…..اگر ان مواقع پر ریٹنگ کے چکر سے تھوڑا سا آزاد ہوجائیں تو گھاٹے کا سودا نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس بار14اگست کو بھی یہی بے حسی دیکھنے میں آئی۔ ایک چینل نے 14اگست کے حوالے سے معمولی درجے کا پروگرام کیا اور پھر محسوس کیا کہ اس کی ریٹنگ توقع سے کم تھی۔ میرا مشاہدہ ہے کہ ایسے اہم مواقع پر ریٹنگ کی کمی کا باعث عام طور پر وہ حضرات ہوتے ہیں جنہیں پروگراموں میں مدعو کیا جاتا ہے اگر شریک گفتگو موضوع پر گرفت رکھتا ہو اور گفتگو کا ڈھنگ جانتا ہو تو ناظرین اتنے بدذوق یا علم دشمن نہیں کہ پروگرام نہ دیکھیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے مجھے ہر ہفتے کئی کتابیں موصول ہوتی ہیں اور ہر سال مجھے قائد اعظم اور تحریک پاکستان وغیرہ پر کئی درجن کتابیں ملتی ہیں۔

    اس کا مطلب یہ ہے کہ ان موضوعات پر لکھنے اور پڑھنے کا سلسلہ جاری ہے اور قارئین کی ان موضوعات میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ اس لئے اگر الیکٹرانک میڈیا یا ایسے پروگراموں کے حوالے سے ریٹنگ (Rating)کی شکایت کرے تو مجھے اس کے پروگرام کی کوالٹی پر شبہ ہوگا نہ کہ ناظرین کی دلچسپی پر…..ان دنوں مجھے قائد اعظم کے حوالے سے چند کتابیں موصول ہوئیں جن میں محترم جبار مرزا کی کتاب قائد اعظم اور افواج پاکستان، میاں عطا ربانی مرحوم کی کتاب(Jinnah a political saint) قابل ذکر اور قابل مطالعہ ہیں تحقیق، گہری ریسرچ اور اعلیٰ درجے کی دو کتابیں جن کے مصنّفین نے کئی برس عرق ریزی کی اور حوالہ جاتی کتابیں لکھیں وہ ہیں ڈاکٹر شہلا کاظمی کی کتاب( M A Jinnah leadership pattern) اور ڈاکٹر سکندر حیات کی کتاب(The charismatic leadership)کا نظرثانی شدہ ایڈیشن …..دنیا جہان میں قائد اعظم پر تحقیقی کام جاری ہے اور ہر سال غیر ممالک میں اس موضوع پر اعلیٰ درجے کی علمی کتابیں اور تحقیقی مقالے چھپ رہے ہیں۔ میں یہ کیسے مان لوں کہ پاکستانی عوام کی اپنے قائد ،قائد اعظم اور تحریک پاکستان میں دلچسپی کم ہوگئی ہے جبکہ میں پریس میں ہر روز ایسے مضامین پڑھتا ہوں جن میں موجودہ قائدین کے کردار، کارناموں اور بصیرت کے فقدان کا نوحہ لکھتے ہوئے قائد اعظم کی مثالیں دی جاتی ہیں، ان کی زندگی کے واقعات کے حوالے دئیے جاتے ہیں۔

    دوستو! معاف کرنا بات ذرا دور نکل گئی، میں کہہ رہا تھا کہ گیارہ ستمبر کے حوالے سے صرف تین اخبارات پڑھتے ہوئے مجھے قائد اعظم کے حوالے سے تین ایسے مضامین یا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا جن میں واقعاتی اور تاریخی غلطیاں تھیں۔ یہ غلطیاں نہ صرف غلط تاثر پیدا کرتی تھیں بلکہ تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف تھیں، اس لئے میں نے تصحیح یا وضاحت اپنا قومی فرض جانا۔ ہمارا پرابلم یہ ہے کہ ہمیں لکھنے کی جلدی ہوتی ہے اور تحقیق کی ہم ضرورت نہیں سمجھتے ،چنانچہ سنی سنائی کو مستند تاریخ کا درجہ دینے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ گہری نظر سے مطالعہ اور تحقیق بڑا کٹھن اور صحت لیوا کام ہے جس کے لئے ہمارے پاس وقت ہی نہیں۔ ا فسوس، میں ان ’’ہوائیوں‘‘ اور بے بنیاد باتوں کی شواہد کے ساتھ کئی مرتبہ وضاحت اور تردید کرچکا ہوں لیکن چونکہ ہمیں پڑھنے کی عادت نہیں اس لئے انہیں دہراتے رہتے ہیں۔

    جنگ میگزین میں جھانکتے ہوئے میری نظر محترم سلطان صدیقی(پشاور) کے مضمون پر پڑی جس میں انہوں نے نیپ سابق نیشنل عوامی پارٹی اور محترم غفار خان کے ساتھیوں کی پھیلائی ہوئی سازش کہانی کو تاریخی واقعے کے طور پر پیش کیا ہے۔ صدیقی صاحب نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ1948کے دورے کے دوران گورنر جنرل قائد اعظم کی غفار خان سے ملاقات نہ ہوسکی جس سے مستقبل کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ افسوس محترم صدیقی صاحب تھوڑی سی تحقیق کرلیتے اور آنکھیں بند کرکے مخالفین کی بات نہ مانتے۔ میں تحقیق کے بعد یہ عرض کررہا ہوں کہ یہ جھوٹ ہے، افسانہ ہے۔ قائد اعظم کی غفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب سے ملاقاتیں ہوئیں اور ہر ملاقات ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھی۔16اور17اپریل 1948کی ملاقاتوں کے بعد خود خان برادران نے اخباری رپورٹروں سے کہا کہ گفتگو دوستانہ ماحول میں ہوئی لیکن تفصیل نہیں بتاسکتے۔ اے کاش! صدیقی صاحب صرف اور صرف اپریل1948کا پرانا پاکستان ٹائمز اخبار دیکھ لیتے جس میں ان ملاقاتوں کی خبریں بھی موجود ہیں اور فرنٹیئر ریجن کے جوائنٹ سیکرٹری کرنل اے ایس بی شاہ کی پریس بریفنگ بھی شائع ہوئی ہے۔

    کرنل صاحب قائد ا عظم کی ڈیوٹی پر مامور تھے جو حضرات اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ میرا تفصیلی مقالہ میری کتاب ’’دور آگہی‘‘ میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ میرے ایک محترم دوست نے روزنامہ نوائے وقت میں 11ستمبر1948کو کراچی میں قائد اعظم کی آمد کے موقع پر لیاقت علی خان کی غیر حاضری پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ یہ تاثر لیاقت مخالف لابی نے اتنی محنت سے گھڑا اور قائم کیا ہے کہ ہر شخص اس سازش تھیوری میں یقین رکھتا ہے۔ میں تحقیق کے بعد کئی بار اس کی تردید کرچکا ہوں لیکن مہربان پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ سچ یہ ہے کہ لیاقت علی خان نہ صرف ائیر پورٹ پر آئے بلکہ جب ایمبولینس خراب ہوگئی تو دوسری ایمبولینس کے آنے تک وہیں موجود رہے۔ کیپٹن(بعد ازاں بریگیڈیر) نور حسین قائد اعظم کے اے ڈی سی کی حیثیت سے ساتھ آئے انہوں نے نہ صرف میرے ساتھ انٹرویو میں اس کی تصدیق کی بلکہ اس موضوع پر ایک فکر انگیز مضمون بھی لکھا جو دی نیوز میں شائع ہوا اور میری کتاب’’اقبال جناح اور پاکستان‘‘ میں بطور ضمیمہ شامل ہے۔ بریگیڈیر نور حسن نے اپنے ایک اور انٹرویو میں بھی لیاقت علی خان کی ائیر پورٹ پر موجودگی کی تصدیق کی ہے(بحوالہ دی گریٹ لیڈر، منیر احمد منیر صفحہ155)

    سید بشیر حسین جعفری نے اپنے مضمون پاکستان کے ساتھ میرا سفر میں قائد ا عظم کے سیکورٹی آفیسر کریم اللہ کی خود نوشت ڈائری کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ لیاقت علی خان ائیر پورٹ پر آئے۔ ایمبولینس کی کہانی ذرا طویل ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اس کی خرابی کسی سازش کا حصہ نہیں تھی اور اس کی ذمہ داری قائد اعظم کے ملٹری سیکرٹری کرنل نوٹلز ا ور معالج کرنل رحمان پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اس کا انتخاب کیا۔ قائد اعظم سے منسوب تیسری بات جگن ناتھ آزاد کے ترانے کے حوالے سے لکھی گئی جو سراسر بے بنیاد ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ قائد اعظم جگن ناتھ آزاد کے نام سے شناسا تھے، نہ اسے ترانہ لکھنے کے لئے کہا گیا اور نہ ہی کبھی جگن ناتھ آزاد کا ترانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ اس حوالے سے ریڈیو پاکستان کا حلفی بیان میرے پاس موجود ہے جو حضرات اس موضوع پر تفصیلی مضمون پڑھنا چاہتے ہیں وہ میری کتاب ’’پاکستان میری محبت‘‘ میں اس پر شامل تحقیقی مقالہ ملاحظہ فرمائیں۔

  • کچھوے کا دوسرا نام فاٹا ہے-وسعت اللہ خان

    کچھوے کا دوسرا نام فاٹا ہے-وسعت اللہ خان

    wusat

    کوئی بھی کام کرنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ کر دیا جائے۔ مثلاً سینتالیس سے ستر تک گلگت بلتستان کو فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز کے تحت چلایا جاتا رہا۔ پھر بھٹو صاحب نے انیس سو چوہتر میں اس علاقے کی ایک کاغذی کونسل بنا دی جس کا مجازی خدا وفاقی وزیرِ امورِ کشمیر تھا۔ جب زرداری حکومت نے دو ہزار نو میں گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈر نافذ کیا تو نہ تو علاقے کے دو ملین لوگوں کی رائے جاننے کے لیے ریفرنڈم کروایا گیا نہ اس مسودے کو عوامی بحث کے لیے پیش کیا بس نافذ کر دیا گیا اور لوگوں نے چار و ناچار قبول بھی کر لیا۔

    لیکن کسی بھی کام کو کرنے کا اگر صرف ایک طریقہ ہے تو نہ کرنے کے ہزار طریقے ہیں۔ جیسے وفاق کے زیرِ انتظام قبائیلی علاقہ جات (فاٹا) میں سیاسی و اقتصادی اصلاحات۔

    پاکستان میں جو بھی جب بھی سیاحت کو پروموٹ کرنے کا بروشر چھاپتا ہے تو  کے ٹو سے نانگا پربت تک  ہر چوٹی، ہنزہ سے دیوسائی تک تمام وادیوں میدانوں، اور نذیر صابر و اشرف امان سے ثمینہ بیگ تک تمام کوہ پیماؤں اور بالتورو و بیافو سمیت تمام بلتی و گلگتی گلیشیرز کو ’’پاکستان کے جنت نظیر قابلِ دید‘‘ مقامات کے طور پر شو کیس کیا جاتا ہے۔ مگر جب ان جنت نظیر قابلِ دید مقامات کی اختیار و اقتدار میں مساوی شراکت کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو فوری جواز و جواب یہ ہوتا ہے کہ آپ تو متنازعہ علاقہ ہیں آپ تو پاکستان کا باقاعدہ حصہ ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔

    اسی طرح  وفاق کے زیرِ انتظام سات قبائلی ایجنسیوں (باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، جنوبی و شمالی وزیرستان) اور پشاور، کوہاٹ، بنوں، لکی مروت، ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان سے متصل چھ فرنٹیر ریجنز کے پچاس لاکھ قبائلیوں کو  ویسے تو پاکستان کا بازوئے شمشیر زن کہا جاتا ہے۔ انیس سو سینتالیس کی جنگِ کشمیر سے اب تک ان کی عسکری و قومی قربانیاں کو سراہنے میں زمین و آسمان ایک کر دیے جاتے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف گزشتہ سولہ برس سے جاری جنگ اور اس سے بھی پہلے اڑتیس برس سے جاری ڈیورنڈ لائن کے آر پار کی بدامنی سے نمٹنے، ڈرون حملے سہنے اور بے گھری کا بوجھ اٹھانے جیسی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنے کے وعدوں کی مسلسل تحسینی بارش بھی نہیں رکتی۔

    لیکن یہی قبائل جب مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر ہم اتنے ہی اچھے اور پیارے ہیں تو پھر انگریز دور کے ایک سو پندرہ سال سے نافذ فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز سے ہمیں نجات کیوں نہیں دلاتے۔ آئینِ پاکستان کے تحت ہمیں بھی بنیادی انسانی حقوق اور انصاف کی اعلیٰ ترین عدالتوں تک رسائی کیوں نہیں۔ ایسے مطالبات کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ حضور آپ کی تو ایک مخصوص شناخت و تشخص ہے۔آپ تو آزاد منش ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی خود مختاری آپ کے رواجوں کے ساتھ برقرار رہے۔ مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ایف سی آر جیسا قانون کس قبائلی رواج کا نام ہے؟ پولیٹیکل ایجنٹ محض شبہے کی بنیاد پر کسی بھی قبائلی کو تین برس کے لیے کیوں نظربند، قید یا علاقہ بدر کر سکتا ہے اور پھر اس سزا میں مزید توسیع کے صوابدیدی اختیارات کیوں رکھتا ہے۔ پولیٹیکل ایجنٹ استغاثہ بھی ہے  جج بھی اور کورٹ آف اپیل بھی۔

    فاٹا کو پہلی بار ون مین ون ووٹ کا حق انیس سو چھیانوے میں ملا۔ اس سے قبل محض پینتیس ہزار ملکوں اور عمائدین کو ہی قومی اسمبلی کے لیے بارہ نمایندے چننے کا حق تھا اور پھر منتخب نمایندے آٹھ سینیٹر چنتے تھے اور یہ سارا جمہوری کام بولی لگا کے ہوتا تھا۔

    فاٹا میں اصلاحات کی کہانی دو ہزار آٹھ سے سننے میں آ رہی ہے۔ جب سابق چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور اس کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں دو ہزار گیارہ میں ایف سی آر میں یہ ترمیم کی گئی کہ فاٹا ٹریبونل کے اختیارات ہائی کورٹ کے مساوی کر دیے گئے۔ اجتماعی سزا کی شق جس کے تحت ایک شخص کے جرم کا ذمے دار پورے قبیلے کو ٹھہرایا جاتا تھا اس میں تبدیلی کر کے اجتماعی ذمے داری کے عمل سے بچوں، بوڑھوں اور قبیلے کو نکال دیا گیا اور ’’جو کرے وہ بھرے‘‘ کا یونیورسل اصول لاگو کیا گیا۔

    اس کے بعد راوی اصلاحات کے معاملے میں گھمبیر خاموشی لکھتا ہے۔ راستے میں قبائلی ایجنسیوں میں طالبان کے خلاف بھر پور فوجی ایکشن، آپریشنِ ضربِ عضب اور شمالی و جنوبی وزیرستان کی آبادی کی بے گھری و بے سرو سامانی تو پڑاؤ کرتی نظر آتی ہیں مگر اصلاحات کا خیمہ دور کسی چوٹی پر گڑا ٹپائی دیتا ہے۔

    موجودہ نواز شریف حکومت نے فاٹا اصلاحات کے کچھوے کو اب سے سال بھر پہلے فوج کے دباؤ پر چھ رکنی سرتاج عزیز کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ اس کمیٹی نے اس ہفتے جو سفارشات وزیرِ اعظم کو پیش کی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ ایف سی آر کی جگہ ٹرائبل ایریا رواج ایکٹ نافذ کیا جائے جو مقامی رواج اور جرگہ سسٹم پر مشتمل ہو اور اس میں جج پولیٹیکل ایجنٹ نہ ہو بلکہ ایک الگ سے جوڈیشل افسر بطور جج کام کرے۔ ایک سفارش یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرۂ کار فاٹا تک بڑھایا جائے۔ لیکن انفرادی جھگڑے نمٹانے کے لیے جرگہ و رواج سسٹم بھی برقرار رکھا جائے…

    یہ تجاویز بالکل ایسی ہیں کہ کوئی کہے کہ تمہارے پاؤں میں جو زنجیر پڑی ہے اس زنجیر کے ساتھ تم جہاں چاہے جانے کے لیے آزاد ہو۔ باقی سفارشات فاٹا میں مالی اصلاحات و بجٹ سے متعلق ہیں اور ایک سفارش یہ بھی ہے کہ فاٹا میں اگلے برس تک بلدیاتی انتخابات کروا دیے جائیں۔

    مگر سب سے اہم فیصلہ ہونا باقی ہے۔ یعنی فاٹا کو اصلاحات کے بعد بھی جوں کا توں برقرار رکھا جائے، ایک علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے، خیبر پختون خوا میں ضم کر دیا جائے یا پھر گلگت بلتستان کی طرز پر ایک کونسل اور اسمبلی بنا دی جائے۔

    فاٹا کی بیورو کریسی اور روایتی معززین چاہتے ہیں کہ موجودہ نظام جوں کا توں رکھا جائے البتہ تھوڑی بہت مرمت و لیپا پوتی اور ڈیکوریشن کر دی جائے۔ پشتون قوم پرست جماعتیں کہتی ہیں کہ فاٹا کے قبائلی عملاً سیاسی، سماجی، املاکی و معاشی طور پر خیبر پختون خوا سے جڑے ہوئے ہیں۔ فاٹا سیکریٹیریت تک پشاور میں ہے۔ امن و امان کے حالات کے سبب زیادہ تر پولیٹیکل ایجنٹ بھی سیٹلڈ ایریاز میں دفتر لگاتے ہیں۔ لہذا اگر فاٹا کو صوبے کا حصہ بنا دیا جائے تو کیا مضائقہ ہے۔

    ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ٹھوس دو ٹوک شکل میں سامنے آتیں، پارلیمنٹ ان پر بحث کرتی اور پھر جو بھی ایکٹ تیار ہوتا اسے نافذ کر دیا جاتا۔ مگر نہیں۔ اب یہ سفارشات عام بحث کے لیے عوام کے سامنے رکھی جائیں گی۔ ان  پر بحث پارلیمنٹ میں ہو گی مگر قانون کی منظوری قبائلی جرگہ دے گا۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ منگنی شمائلہ سے ہو گی مگر شادی شہناز سے…

    اگر واقعی فاٹا کو پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح مساوی آئینی حیثیت و حقوق دینے کی نیت ہوتی تو فاٹا کے عوام کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آئینی حیثیت کے انتخاب کا حق دینا سب سے آسان راستہ ہوتا۔ اگر وہ عام انتخابات میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنے نمایندے منتخب کر سکتے ہیں تو اپنی قسمت کا فیصلہ کیوں نہیں کر سکتے؟ یا پھر پارلیمنٹ اتفاقِ رائے سے ایک مسودہ منظور کر لیتی جو اکیسویں صدی کے انسانی و آئینی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتا۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اصلاحات کے عمل کو نیلے ٹرک کے پیچھے سے ہٹا کر پیلے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔

    قانون سازوں کی بلا سے کہ اس وقت فاٹا کی آدھی آبادی دربدر ہے۔ یہاں کے آدمی کی فی کس آمدنی باقی پاکستان سے آدھی، صحت کی سہولتیں آدھی اور خواندگی کا تناسب باقی پاکستان کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہے۔

    فاٹا میں حقیقی اصلاحات مستقبلِ قریب میں ہوتی نظر نہیں آتیں۔ کیونکہ فاٹا کی پسماندگی اور جغرافیہ اربوں روپے کی صنعت ہے۔ بھلا کون سا پولیٹیکل ایجنٹ، عسکری، قبائلی ملک، سیاستداں، ٹرانسپورٹر اور مافیائی چاہے گا کہ یہ صنعت اتنی آسانی سے ٹھپ ہو جائے اور اس کے پیٹ پر لات پڑ جائے۔

  • کیا کابل میں پنجابی بستے ہیں؟ فیض اللہ خان

    کیا کابل میں پنجابی بستے ہیں؟ فیض اللہ خان

    10525943_1543930889188656_8708287563584166301_nمسئلہ یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف اچکزئی صاحب جیسے لوگ صرف اٹک و بولان تک کے علاقے کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ افغان سلاطین ہند تک حکمراں رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مودی سے کہا جائے کہ بھیا ذرا دلی ہمیں پکڑانا۔
    ظاھر ہے کہ یہ لوگ نہیں بولیں گے ، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس قسم کے غیر سنجیدہ مطالبات کی حقیقت کیا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ سکندر یونانی نے بھی یہاں اقتدار قائم کیا تھا لیکن یونان کے نام پہ پوشیدہ امراض کے دواخانے تو خوب کھلے پر کسی حکیم نے ان علاقوں کو سکندراعظم کے دیس کی علمداری میں دینے کا مطالبہ نہیں کیا
    تاریخی طور پہ یہ بات بالکل درست ہے کہ افغانوں یا پشتونوں کا علاقہ اٹک تک رہا لیکن وہ ماضی تھا۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ہر پشتون کی بطور قوم شناخت افغان ہی ہے لیکن جس طرح عراقی یا کویتی عرب قومی ریاستوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے، بعینہ دونوں ممالک میں بسنے والے پختون اب افغانی و پاکستانی پشتونوں کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ گزرے برسوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے اور تبدیلی کے اس فطری عمل کو پاکستانی پشتونوں کی اکثریت وفاق و اسٹیبلشمنٹ سے بہت سے معاملات میں اختلافات کے رکھتے ہوئے بھی خوش دلی سے تسلیم کرچکی ہے۔
    باوجود اس کے کہ مسلسل آپریشنز ہوئے، دربدری مقدر بنی لیکن آپ کل اس معاملے پہ ریفرنڈم کرالیں تو پشتونوں کا فیصلہ پاکستان کے ساتھ ہی رہنے کا ہوگا، اس حوالے سے ماضی میں قوم پرستوں کی جانب سے دکھائے گئے تمام خواب سراب نکلے۔
    ایک چھوٹی سی مثال خیبر و بلوچستان کے پشتون قوم پرستوں کی انتخابی کامیابی ہے۔ جب انھیں حکومتیں ملیں تو انھوں نے اقربا پروری و کرپشن کے ریکارڈز توڑ ڈالے، اور یہ بھی بتا دیا کہ قوم پرستی سے انھیں کتنا شغف ہے۔ اچکزئی صاحب جن کی میں بہت عزت کرتا ہوں ، نے اپنے پورے خاندان کو اعلی ترین عہدے دلا کر بتا دیا کہ کہ وہ کتنے اصول پسند ہیں اور پشتون قوم کو حقوق دلانے یا ڈیورنڈ لائن مٹانے کےلیے کس قدر پرعزم ہیں۔
    کام شام کرنا نہیں ہے جو ان کے اختیار میں ہے ، ہاں اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دے کر اپنے کارکنوں کو مطمئن ضرور رکھنا ہے۔
    ویسے پشتونوں کی اکثریت اب ان کے چکروں سے نکل چکی ہے اور قومی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنے جارہی ہے، البتہ قبائلیوں کے ساتھ ابھی تک غیر انسانی و غیر قانونی رویوں کی وجہ سے اندر ہی اندر اشتعال پیدا ہو رہا ہے جس کا بروقت تدارک بہت زیادہ ضروری ہے۔ اسی طرح مکمل کوائف رکھنے کے باوجود طویل عرصے سے شناختی کارڈ کے حصول میں بہت سی مشکلات ہیں جنھیں رفع کرنا سرکار و متعلقہ اداروں کا کام ہے کیونکہ قوم پرست اس جیسے دیگر معاملات پر سیاست کرکے اپنی دکانیں چمکا سکتے ہیں۔
    آخری بات یہ کہ افغانستان اگر پشتونوں کا اتنا ہی بڑا گھر ہے تو یہ قوم پرست عناصر اسلام آباد، کراچی، لندن، دبئی، نیویارک اور کوالالمپور وغیرہ میں ہی کاروبار و رہائش کا انتظام کیوں کرتے ہیں ؟
    ننگرہار، لغمان، پکتیا، لوگر، فراہ، قندھار و کابل پہ نظر کرم کیوں نہیں، کیا وہاں پنجابی بستے ہیں ؟ ؟ ؟