Tag: پختون

  • جب چادر پوشی بھی ستر پوشی نہ کر سکے-محمد اظہار الحق

    جب چادر پوشی بھی ستر پوشی نہ کر سکے-محمد اظہار الحق

    izhar
    کون سی آزمائش ہے جس سے پاکستان کے پختون نہیںگزرے!
    سینکڑوں سال پر محیط اُن حملہ آوروں کا تو ذکر ہی کیا جو درۂ خیبر سے آتے رہے اور پختونوں کے سکون کو درہم برہم کرتے رہے! صرف ماضی قریب کی تاریخ ہی پر نظر ڈال لیجیے! پاکستان کے کسی اور حصے نے اتنی قربانیاں نہیں دیں جتنی پختونوں نے دی ہیں۔ جتنے دھماکے صرف کے پی میں ہوئے، اتنے ملا کر کل ملک میں نہ ہوئے ہوں گے۔ مولوی فضل اللہ اور مسلم خان جیسی مصیبتیں نازل ہوئیں۔ گلے کاٹے گئے۔ سکول جلا کر خاکستر کیے گئے۔ اعتزاز نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ آرمی پبلک سکول کو خون میں نہلایا گیا۔

    پھر مہاجرین آئے۔ انہوں نے مزدوری سے لے کر ٹرانسپورٹ تک ہر معاشی سرگرمی پر قبضہ کر لیا۔ رہائشی مکانوں کے کرائے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ خیمے اور اونٹ کی مثال اگر کہیں صادق آتی ہے تو پختونوں پر! مہاجر ابھی تک خیمے میں گھسے ہیں۔ نکلنے کا نام نہیں لیتے۔ عوام کی تکالیف کی پروا کیے بغیر، چند طالع آزما خود غرض سیاست دان، اِن مہاجرین کو یہیں رکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کے پی کے عوام کیا چاہتے ہیں!

    اور اب … ایک نئی آزمائش!
    ٹوٹے گی کوئی تازہ بلا جانِ نہاں پر
    لَو شمعِ حوادث کی ہے تھرائی ہوئی سی

    محمود اچکزئی پختونوں کے سر پر ایک تازہ افتاد بن کر ٹوٹے ہیں! زمانہ کہاں سے کہاں جا پہنچا۔ ظاہر شاہ کا عہد لد گیا۔ سردار داؤد پیشِ منظر سے ہٹ گئے‘ اچکزئی صاحب ابھی تک وہیں رہ رہے ہیں! خدا جنرل حمید گُل صاحب کی لغزشوں سے درگزر کرے اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرے، وہ بھی گزرے وقت کے ساتھ چمٹ کر رہ گئے تھے۔ اسی کی دہائی سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اچکزئی کا معاملہ بھی ویسا ہی ہے۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد! ملک کن مسئلوں میں گھرا ہے، اُن کی بلا سے! دنیا کی بہترین خُوردبین سے اُن کے بیانات کا جائزہ لے لیجیے، کیا مجال جو ایک لفظ عوام کو درپیش مسائل کے بارے میں مل جائے۔ انہیں ان مسائل کا ادراک ہی نہیں! تعلیم، صحت، خواندگی، صنعت و حرفت، تجارت، زراعت! وہ اور ان کا خاندان سرکاری خزانے سے پرورش پا رہا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو رہا ہے جو دامادوں کے ساتھ ہوتا ہے! فیوڈلزم اور سرداری نظام ایسے طالع آزماؤں کو خوب راس آتا ہے۔ جس دن پس ماندہ علاقوں میں انڈسٹری لگ گئی، جس دن عوام تعلیم یافتہ ہو کر شعور کی منزل پر پہنچ گئے، ان طالع آزماؤں کے سنہری دن خاتمے کو پہنچ جائیں گے۔

    اب وہ پھول دیکھیے جو اچکزئی کے منہ سے جھڑے ہیں، ”ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان بننے کے بعد پختونوں کے تمام علاقے اکٹھے کرکے اسے صوبہ افغانیہ قرار دیا جاتا لیکن ایسا نہ کرکے پختونوں کو تقسیم کر دیا گیا‘‘۔

    ان سے کوئی پوچھے کہ کیا بلوچستان اور کے پی کے صوبے الگ الگ پاکستان نے بنائے ہیں؟ اور پھر کیا اچکزئی کو معلوم ہے کہ پختون کراچی میں کثیر تعداد میں رہتے ہیں۔ راولپنڈی سے لے کر لاہور تک لاکھوں پختون آباد ہیں۔ اُن کے لیے اچکزئی کے اس قسم کے بیانات میں کون سی خیر خواہی چھپی ہے؟ اچکزئی صاحب کبھی پشاور یا کے پی کے کسی علاقے سے الیکشن لڑ کر دیکھ لیں۔ یہ جو پختونوں کی خود ساختہ ماماگیری انہوں نے اپنے اوپر سوار کر رکھی ہے اس کا ملمّع اُتر جائے گا!

    اپنی اپنی قسمت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ چادر اوڑھ کر بھی ستر پوشی نہیں کر سکتے۔ اندر کی برہنگی باہر آ کر دم لیتی ہے۔ ”پاکستان زندہ باد کا نعرہ کسی پر تھونپا نہیں جا سکتا‘‘۔ کوئی سیاق و سباق نہ موضوع! اس مسئلے پر کوئی اسمبلی میں بات ہی نہیں ہو رہی تھی۔ پیٹ میں پاکستان زندہ باد کے نعرے سے مروڑ اُٹھیں تو قے کے علاوہ منہ سے کیا نکلے گا! پاکستان زندہ باد کا نعرہ کوئی کسی پر تھونپ نہیں رہا۔ جو یہ نعرہ لگاتے ہیں، دل سے لگاتے ہیں۔ ہاں! یہ الگ بات کہ صوبہ افغانیہ جیسا بے سروپا نعرہ کسی پر مسلط نہیں کیا جا سکتا!

    کیا مسلم لیگ نون والے اپنے اس چادر پوش اتحادی کو نفاق کے بیج بونے سے منع کریں گے؟ افسوس! مسلم لیگ نون اپنی حکومتی اور حد درجہ وقتی مصلحتوں پر قومی حمیت کو قربان کیے جا رہی ہے۔ کبھی اس کے اتحادی مودی کو سنا سنا کر اسمبلی میں کہتے ہیں کہ فاٹا کے حالات مقبوضہ کشمیر کی نسبت زیادہ خراب ہیں اور کبھی پاکستان زندہ باد کی توہین کرتے ہیں۔

    جو جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو بدبخت نہیں جانتا وہ جان لے کہ ”پ‘‘ سے پختون ہے اور ”پ ‘‘ سے پاکستان ہے اور ”پ‘‘ ہی سے پروردگار ہے! پختون پاکستان سے ہیں اور پاکستان پختونوں سے ہے۔ پروردگار کا کرم ہے پختونوں پر جنہوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ دے کر اُن نابیناؤں کے سینے پر مونگ دلے تھے جنہیں سورج کی روشنی نظر نہیں آرہی تھی اور جن کی ذریت آج بھی سینہ کوبی کرکے عبرت کا مرقع بنی ہوئی ہے!

    رہی حقوق کی بات! تو اچکزئی صاحب جیسے سرداروں ہی نے تو عوام کے حقوق عضب کر رکھے ہیں۔ جب تک قبل مسیح کا یہ سرداری نظام بلوچستان کے عوام پر مسلط ہے وہ عہدِ جدید میں نہیں داخل ہو سکتے! اس نظام کے محافظ اچکزئی جیسے رجعت پسند سردار ہی تو ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ایک فیوڈل صحافیوں پر اس لیے برس پڑا کہ اس کے نام کے ساتھ سردار نہیں لگایا جا رہا تھا! اُتھلے پن کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ پاتال کا آخری سرا کبھی کبھی تحت الثریٰ سے بھی نیچے جا پڑتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ بلوچستان میں سکولوں اور کالجوں کی عمارتیں ان سرداروں کے غلّے کے گودام بنی ہوئی ہیں۔ یہ نئی بندوق کو ٹیسٹ کرنے کے لیے گلی میں چلتے رہگیر کو نشانہ بناتے ہیں۔ سرکاری ملازموں کو مہینے کے آخر میں حلال کی تنخواہ قومی خزانے سے وصول کرنے سے پہلے ان سرداروں سے پرچی لینا پڑتی ہے۔ کوئی پڑھ لکھ جائے تو یہ اس کے جسم پر گُڑ کا شیرہ مَل کر چیونٹیوں بھرے غاروں میں پھینک دیتے ہیں۔ یہ اِس زمانے میں بھی اپنے محکوموں کو جلتے انگاروں پر چلاتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ کون چور ہے حالانکہ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ کون چور ہے!

    پاکستان زندہ باد کے نعرے سے جن کی انتڑیوں میں تیزابی شعلے اُٹھتے ہیں‘ اُٹھتے رہیں، جن کے پیٹ میں بغض کے مروڑ پڑتے ہیں، پڑتے رہیں، جن کے سینوں میں آگ لگتی ہے، لگتی رہے، جن کے حلق میں منافقت کی ہڈی پھنستی ہے، پھنستی رہے۔ پختون ہمیشہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے رہیں گے۔ پاکستان زندہ باد! سرداری نظام مردہ باد!

  • باچاخان کی نواسی کی مودی سے مدد کی اپیل – نور الہدیٰ شاہین

    باچاخان کی نواسی کی مودی سے مدد کی اپیل – نور الہدیٰ شاہین

    %d9%86%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%84%db%81%d8%af%db%8c-%d8%b4%d8%a7%db%81%db%8c%d9%86 عوامی نیشنل پارٹی کے بانی اور عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان کی نواسی یاسمین نگار نے پاکستان سے علیحدگی اور پختونستان کے قیام کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے مدد کی اپیل کی ہے۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے یاسمین نگار نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد خوش آئند ہے۔ اب وقت آیا ہے کہ ہندوستان پختونوں کے لیے الگ وطن ’’پختونستان‘‘ کے قیام میں ہماری مدد کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس سلسلے نریندر مودی سے ملاقات کرکے ان سے باقاعدہ درخواست کریں گے کہ ہمیں پاکستان سے آزادی دلائی جائے اور ہمارے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی جائے۔ یاسمین نگار آج کل بھارتی شہر کلکتہ میں مقیم اور ایک خود ساختہ ’’ پختوادبی ٹولنہ‘‘ یعنی پشتو ادبی انجمن کی سربراہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بہت جلد پشتونوں پر پاکستانی مظالم کے خلاف کلکتہ میں احتجاجی مظاہرے کرکے بھارت سمیت عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کرائیں گے۔

    یاسمین نگار خان کے ہندوستان ٹائمر کو دیے گئے انٹرویو کا لنک

    پاکستان کے مقتدر حلقوں نے یاسمین نگار کے بھارتی اخبار کو دیے گئے انٹرویو پر تاحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

    کلکتہ میں مقیم یاسمین نگار خان
    کلکتہ میں مقیم یاسمین نگار خان

    قوم پرستوں اور خود باچا خان کے گھرانے سے یہ پہلی آواز نہیں ہے. بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا کی قوم پرست ماضی میں بھی علیحدگی مسلح تحریکیں چلا چکے ہیں۔ عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان کو سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے فرزند خان عبدالولی خان اوراجمل خٹک نے پختونستان کے قیام کے لیے پاکستان کے خلاف مسلح جدو جہد کی۔ جس کو باچاخان کی خاموش حمایت حاصل رہی۔

    عبدالولی خان نے اس مقصد کے لیے افغانستان کے صدر سردار دائود سے مدد کی درخواست کی۔ یہ بھٹو کا دور تھا۔ سردار دائود نے ابتدا میں پس و پیش کے بعد قوم پرستوں کی مدد پر رضا مندی ظاہر کی۔ اس کے بعد ابتدائی طور پر پختونخوا کے قوم پرستوں کو خفیہ طور پر عسکری ٹریننگ کے لیے افغانستان اور روس بھیجا گیا جن میں زیادہ تر پختون اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے نوجوان شامل تھے۔ ان تربیت یافتہ نوجوانوں کے لیے الگ تنظیم تشکیل دے کر اس کانام پشتون زلمے رکھا گیا۔ ان میں سے متعدد آج کل عوامی نیشنل پارٹی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

    سردار دائود کی نگرانی میں افغانستان کے مختلف علاقوں میں عسکری تربیتی مراکز قائم کیے گئے اور پختون نوجوانوں کو تربیت دے کر واپس پاکستان بھیجا جاتا رہا۔ ان تربیت یافتہ نوجوانوں نے ملک کے طول عرض میں عوامی مقامات اور سرکاری املاک کو بموں سے اڑانا شروع کردیا۔ وزیراعلی سرحد حیات شیرپائو کو بھی قتل کیا گیا. بعد ازاں بلوچستان، سندھ اور بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کے بیٹوں شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو نے بھی اپنے جوانوں کو افغانستان میں تربیت دلاکر پاکستان میں تخریب کاری کرائی۔ بھٹو کے بیٹوں نے الذوالفقار کے نام سے دہشت گرد تنظیم بنائی تھی۔ اسی تنظیم کے دہشت گردوں نے پی آئی اے کا جہاز ہائی جیک کرکے افغانستان میں اتارا اور طیارے میں سوار میجر طارق رحیم کو قتل کردیا۔

    افغانستان میں عسکری کیمپ کے مرکزی انچارج اجمل خٹک رہے جو پشتو کے شاعر بھی تھے۔ جمعہ خان صوفی ان کے ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے رہے۔ اس دوران افغانستان میں بغاوت ہوئی اور سردار دائود مارا گیا تاہم قوم پرست بدستور افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کراتے رہے۔

    اس جدوجہد لاحاصل میں ناکامی کے بعد جمعہ خان صوفی نے گزشتہ سال ’’فریب ناتمام‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس مہم جوئی کی تمام تر تفصیلات موجود ہیں۔

  • پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    ملک جہانگیر اقبال بچپن میں جب مٹی میں کھیل کود کے بعد خیال آتا تھا کہ ابو جی نے دیکھ لیا تو ”چمپا پریڈ“ ہوجانی ہے تو فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوتے، ہاتھ جھاڑتے اور سائیڈ پر کھڑے ہو کر مٹی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر افسوس سے سوچتے ”افففف کتنے گندے بچے ہیں“. اپنے تئیں تو ہم معزز بن جایا کرتے تھے اور اگر اس دوران ابو جی دور سے آتے دکھائی دیتے تو ان ”گندے بچوں“ کو بظاہر مٹی میں کھیلنے سے منع بھی کرنے لگ جاتے تھے کہ چلو اسی بہانے ابو جی دیکھیں گے کہ ان کا بیٹا کتنا اچھا ہے، خود مٹی میں کھیلتا ہے نہ دوسرے بچوں کو کھیلنے دیتا ہے. مگر ابو جی جب آتے تو گھوم پھر کر شامت ہماری ہی آجاتی تھی کہ ہم نے بھی صرف ہاتھ ہی جھاڑے ہوتے تھے جبکہ کپڑوں پر لگی مٹی ہمارے ”مجرم“ ہونے کی گواہی دے رہی ہوتی تھی.

    کہنے کو تو یہ میرے بچپن کی بات ہے مگر یقیناً بہت سے دوستوں کے بچپن میں ایسے واقعات گزرے ہوں گے جب وہ خود کسی جرم میں شریک ہوں، ابو یا کسی اور بڑے کو آتا دیکھ کر سائیڈ پر کھڑے ہو کر شرارت کرنے والوں کو کوسنے کی اداکاری کر رہے ہوں، اور پھر بھی پکڑے جائیں.

    یہ صرف ”میرے“ بچپن ہی کی شرارت نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی قوم کے بچپن کی بھی شرارت ہے. اقوام صدیوں بعد کہیں جا کر راہ کا تعین کرتی ہیں، خود میں شامل مختلف گروہوں کو سمجھتی ہیں، جبکہ پاکستان کو تو بنے ہوئے ہی ابھی بمشکل صرف ستر سال ہوئے ہیں، اور یہ جن گروہوں پر مشتمل ہے ان کی زبان، ثقافت، رنگ، نسل، زمین اور پانی تک سب جدا جدا ہیں، اگر ان میں کوئی شے مشترک ہے تو وہ ”اسلام“ ہے جس نے اسے جوڑ کر رکھا ہوا ہے. اگر ایک لمحے کے لیے بھی اسلام کو پاکستان میں سے نکال دیا جائے تو آپ اس قوم کا شیرازہ بکھرتا ہوا دیکھیں گے. فرض کریں کہ ہمارے درمیان ”اسلام“ کا رشتہ نہ ہو تو پنجابی اور پٹھان کیوں کر ایک دوسرے کی بات سمجھیں گے؟ بلوچوں کو سندھیوں سے کیا لینا دینا؟ اور باقی پاکستان والے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کو اپنی زمین پر کیوں رہنے دیں؟ پاکستانی کوئی زمینی خطہ نہیں ہے بلکہ یہ مختلف اقوام کی باہمی رضامندی یا مکسچر سے طلوع ہونے والا مجموعہ اور ”ملک“ ہے. جہاں ہر قوم ہر ریاست ہر صوبے نے صرف اور صرف اس بات پر اتحاد کیا تھا کہ ”ہم مسلمان ہیں“، اس لیے ہمارا الگ سے ملک ہونا چاہیے جہاں ہم اکٹھے رہیں گے. وگرنہ پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان اور باقی اقوام اپنے اپنے علاقوں میں رہ ہی رہے تھے، پاکستان بنتا نہ بنتا، وہ اپنے علاقوں میں ہی رہتے. کیا ضرورت تھی کسی کو یوپی، بہار، دہلی، لکھنؤ، امرتسر وغیرہ میں اپنی آبائی زمین اور گھر چھوڑنے کی؟ کیا کوئی پکنک منانے جارہے تھے یہ لوگ؟

    جواب نہیں ملے گا.

    قیام پاکستان کے بعد روسی انقلاب سے متاثرہ دانشور اور امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے حامی سیکولرز پاکستان کی جڑوں میں آ کر بیٹھ گئے. اسلامی جمہوریہ پاکستان نام تو رکھ دیا گیا مگر ”اسلام“ کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے پاکستان تین طبقات میں بٹ گیا، ایک بیوروکریسی جو سیکولرز پر مشتمل تھی، دوم دانشوری جو کمیونسٹ عناصر کے نرغے میں تھی جبکہ تیسری کروڑوں کی تعداد میں موجود عوام جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف ”اسلام“ تھا، اس کی آواز مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز سے بھی باریک تھی. اس دور میں ”ادیب“ کہلوانے کے لیے آپ کو تقسیم پر نوحہ لکھنا اور انقلاب انقلاب کے منجن میں سرخ انقلاب سوویت سے امپورٹ کرنے کی خواہش کا دبے لفظوں میں پرچار کرنا ضروری تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ جب سیکولر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت لبرلزم کا جعلی منجن بیس پچیس سال پرانا ہو چکا تھا لہٰذا مشرقی پاکستان اپنی زبان کی بنیاد پر علیحدہ ہوگیا، دونوں حصوں کو جوڑ کر رکھنے والا صرف ایک اسلام کا ہی رشتہ تھا جسے پاکستان بننے کے بعد ہی فراموش
    کردیا گیا. جب اسلام ہی نہ رہا تو پیچھے جھوٹے وعدے، تسلیاں، برابر کی تقسیم کے وہ نعرے رہ گئے جو اپنی کشش صرف اور صرف نعروں میں ہی رکھتے تھے. اگر لوگوں کو ساتھ جوڑے رکھنا ہے تو کوئی ایک مشترکہ نقطہ ضرور ہونا چاہیے جس پر قوم کے مختلف گروہوں کو جوڑے رکھا جا سکے.

    پاکستان دو لخت ہوگیا تو یہ سیکولر لبرل لابی ہاتھ جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑی ہوگئی، کہ دیکھو جی پاکستان تو کبھی ترقی کر ہی نہیں سکتا کہ ان میں تو آپس میں ہی اتحاد نہیں، بندہ ان سے پوچھے کہ یہ جو پاکستان سے اسلام کو نکالنے کے داغ تمہارے کپڑوں پر لگے ہیں، پہلے اس کا تو جواب دو. جو پاکستان کی بنیاد تھی، تم نے اسے ہی کمزور کردیا، تمھیں کیا لگتا ہے کہ محض سیاسی نعروں کی بنیاد پر دو ایک دوسرے سے یکسر مختلف گروہوں کو ساتھ رکھا جاسکتا ہے؟

    اس کے بعد دور آیا سیاسی رسہ کشیوں کا یعنی ذولفقار علی بھٹو صاحب کا، یہاں شروع میں ملک کو استحکام دینے کے لیے اسلام کا سہارا لیا گیا، اسلامی تنظیموں کے مطالبات پہلی بار سنے گئے، اور بظاہر ایک نئی شروعات کی گئی لیکن یہاں اسلام کو جس طرح سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی اور پھر اسلام کو پاکستان کی اساس کے بجائے حکومت کی بقاء کے لیے استعمال کرنے کا دور ضیاء الحق تک چلا. ضیاء الحق کٹر اسلام پسند حکمران تھا مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی مخالفت سیکولر حضرات نے کم اور کمیونسٹ حضرات نے زیادہ کی، حالانکہ آمرانہ نظام کمیونزم یا سوشلزم سے بہت زیادہ قربت رکھتا ہے. کمیونسٹوں کی ضیاء الحق کی مخالفت کی وجہ ”پاکستان“ نہیں بلکہ وہ ”سرخ انقلاب“ تھا جو افغانستان تک پہنچ چکا تھا اور جلد یا بدیر اس کے پاکستان میں آنے کے سہانے سپنے دیکھے جانے لگے تھے. ضیاء الحق کی سوویت یونین کے خلاف تاریخی جنگ سے ان کے سپنے ٹوٹ گئے. ضیاء الحق کو جہاں ایک جانب افغانستان میں موجود مختلف اقوام کی نسل کشی اور بھٹو دور میں پاکستان میں پناہ حاصل کرنے والے افغان لیڈرز کی فکر تھی تو دوسری جانب اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کا مخالف طبقہ کن لوگوں پر مشتمل ہے، اس اندازہ تھا کہ اگر سوویت یونین پاکستانی سرحد تک آگیا تو ان ”اپنوں“ کا اس کے بعد کا کردار کتنا بھیانک ہوگا؟ لہٰذا امریکہ، پاکستان، اور پشتون قبائل ان تینوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے روس سے جنگ کی. یہاں کوئی کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوا بلکہ اپنا مقصد تینوں نے ہی حاصل کیا .

    اس جنگ کے بعد کمیونسٹ حضرات کی کمر تو ٹوٹ گئی اور سیکولر لابی کی طرح وہ بھی اپنے کپڑے جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑے ہوگئے، اور نوے کی دہائی میں سیاست میں ہونے والی رسہ کشی اور عدم استحکام دیکھ کر پاکستانی قوم پر تف کرنے لگے جبکہ اس دوران وہ اپنے کپڑوں پر لگنے والے ان داغوں کو نظر انداز کرتے رہے جو انھوں نے پاکستان سے زیادہ سوویت یونین سے وفاداری نبھا کر اپنے کپڑوں پر ملے تھے.

    پھر دور آیا مشرف صاحب کا یعنی لبرلزم کا، جس طرح پچھلی بار لبرلزم ہمارا مشرقی پاکستان کھا گیا تھا، ٹھیک اسی طرح اس لبرلزم نے سندھ، بلوچستان اور قبائلی پٹی پر شورش پیدا کی، سب سے پہلے پاکستان بہت خوب نعرہ ہے مگر بنا اسلام کے پاکستان کا کوئی وجود ہی نہیں تو نعرہ کس کام کا ؟ لیکن اس دوران مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے والوں کا بھی بھیانک روپ سامنے آیا جس میں مذہب کو بطور بلیک میلنگ اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا یعنی عملی طور پر اسلام کا دور دور تک کوئی نام و نشان ہی نہیں تھا. سول سوسائٹی کے طور پر یا تو اسلام کو پاکستان میں دیکھ کر ناک بھوں چڑھانے والے لوگ تھے یا پھر اسلام پسندوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے.

    نتیجہ کیا نکلا؟ ہر صوبے میں شورش، دنیا میں بدنامی، صوبائیت کا فروغ، قوم پرستی کا عروج.

    اس دور سے لے کر اب تک پاکستانی قوم نہیں بن سکے، سیاست سے لے کر ایک عام فرد کی سوچ تک میں صوبائیت کی بو رچ بس گئی. جب اسلام سے زیادہ شخصیات طاقتور ہوئیں تو کالے کوے بھی سفید ہونے لگے، یہاں کے مذہبی حضرات سیاست کرنے لگے ہیں جبکہ سائنسدان حضرت مذہبی بحث و مباحثہ، غرض اپنے پروفیشن سے زیادہ اپنے عقائد کی ترویج پہلا مقصد بنا چھوڑا ہے. مذہبی انتہا پسندی نے اگر پاکستان کے اندر بدنام کیا تو لبرل حضرات نے پاکستان سے باہر جا کر پاکستان کو بدنام کیا. ایک طویل فہرست ہے کہ کون کس طرح کے فراڈ میں ملوث ہے.

    اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان ایسے ہی بنا دیا گیا؟ کوئی اصول اور ضابطہ نہیں طے کیا گیا؟

    پاکستان بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا. قائد اعظم کی 22 مارچ 1940ء کی تقریر ہو یا علامہ اقبال کا جمہوریت کا وہ نظریہ جو مغربی جمہوریت سے ہزار گنا بہتر تھا، یا پھر وہ قرارداد مقاصد ہو جس نے پاکستان کی بنیاد رکھ چھوڑی تھی. اگر اس پر کاربند رہتے تو لبرلزم میں جعلی پن ہوتا نہ مذہب میں انتہا پسندی. پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظم کے معتمد لیاقت علی خان کی قرارداد مقاصد پیش کرنے کے دوران تقریر کا اگر متن ہی پڑھ لیا جائے تو سب باتیں واضح ہوجاتی ہیں کہ پاکستان کو کن اصولوں پر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا. لیاقت علی خان نے کہا تھا:
    ”جناب والا! آپ کو یاد ہوگا کہ قائداعظم اور مسلم لیگ کے دوسرے رہنمائوں نے ہمیشہ یہ واضح اور غیر مبہم اعلانات کیے کہ پاکستان کا اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا طریق زندگی اور ضابطہ اخلاق موجود ہے جو ہندوؤں سے الگ ہے۔ انہوں نے باربار اس امر پر بھی زور دیا کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ خدا اور بندہ کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم ہو جسے مملکت کے کاروبار میں کسی قسم کا دخل نہ ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں عمرانی اخلاق کے متعلق مخصوص ہدایات ہیں اور اسلام روز مرہ پیش آنے والے مسائل کے متعلق معاشرہ کے طرزِ عمل کی راہنمائی کرتا ہے۔ اسلام صرف ذاتی عقائد اور اخلاق کا نام نہیں ہے بلکہ اپنے پیروؤں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں جس کا مقصد حیات صالح ہو۔ یونانیوں کے برخلاف اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے اس کی اساس لازماً روحانی اقدار پر قائم ہے۔ ان اقدار کو اہمیت دینے اور انہیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقہ پر ہمنوائی کریں کہ ایک ایسا نیا عمرانی نظام قائم ہوجائے جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو، جن میں جمہوریت، حریت، رواداری اور عمرانی عدل شامل ہیں۔ ان کا ذکر تو میں نے تمثیلاً کیا ہے کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن اور سنت نبویﷺ پر مشتمل ہیں، محض اس پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اللہ اور اسوہ رسول ﷺ ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمہ ہیں۔ ان کے متعلق مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی فرقہ نہیں ہے جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو۔“

    جناب والا! یہ قوم زبردست کامیابیوں کی روایات رکھتی ہے۔ اس کی تاریخ کارناموں سے پھر پور ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبہ میں کامیابی کے ساتھ پورا پورا حصہ لیا ہے۔ ہماری قوم کی بہادری کے کارنامے قومی تاریخ کی زینت ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کے ارباب نظم و نسق نے ایسی روایات قائم کی ہیں جو زمانہ کی دستبرد سے اب تک محفوظ ہیں۔ اس کے تخلیقی فنون میں شعر و شاعری، فنِ تعمیر اور جمالیاتی ذوق کے لیے اسے خراج تحسین ادا کیا گیا ہے۔ روحانی عظمت کے لحاظ سے یہ قوم عدیم المثال ہے۔ اب پھر یہ قوم راہ عمل پر گامزن ہے اور اگر اسے ضروری مواقع میسر آجائیں تو وہ اپنی شاندار کامیابیوں کی سابقہ عظیم الشان روایات کو پھاند کر ان سے بہتر کام کر دکھائے گی۔ یہ قرارداد مقاصد اس ماحول کے پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے جس میں قوم کی روح پھر بیدار ہو جائے گی۔ ہم لوگوں کو قدرت نے قوم کی اس نشاۃ ثانیہ کے زبردست ہنگامہ میں حصہ لینے کے لیے خواہ وہ حصہ کتنا ہی حقیر اور غیر اہم ہو، منتخب کیا ہے اور ہم ان زبردست گوناگوں مواقع سے جو ہمیں حاصل ہیں، محو حیرت ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مواقع سے خردمندی اور دور اندیشی کے ساتھ فائدہ اٹھائیں اور مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اس اللہ کے فضل وکرم سے جس کی رحمت سے پاکستان قائد ہوا ہے، ہماری یہ کوشش ہماری برے سے بڑی توقعات سے برھ کر بار آور ہوگی۔ قوم کی نشاۃ ثانیہ کا باب ہر روز نہیں کھلتا اور ہر روز قدرت مظلوموں اور محکوموں کو نہیں ابھارتی اور انہیں شاندار مستقبل کی طرف بڑھنے کی باربار دعوت نہیں دیتی۔ روشنی کی کرنیں افق پر تحریر ہو۔ (لیاقت علی خان 12مارچ 1949)

    دوستو! پاکستان برا نہیں ہے. ہمارے اپنے ہی کپڑوں پر داغ ہیں. قصور پاکستان کا نہیں ہے، ہم خود ہی مٹی سے کھیلتے آئے ہیں. پاکستان کو قائم رکھنا ہے تو اس کی اصل اساس کو سامنے رکھ کر ہی آگے بڑھنا ہے. ورنہ ملک جہانگیر اقبال پنجابی کسی ولی افضل خان پٹھان کے دکھ درد میں شریک کیوں ہوگا؟ میر باز بلوچ کو اللہ بخش سندھی سے کیسی ہمدردی؟ اور وقاص دہلوی مہاجر کے لیے کوئی وحید عباسی ہزارے وال کیوں اپنا نوالہ چھوڑے؟ سوچیے گا ضرور، کیوں کہ سوچنے پر فی الحال کوئی حکومتی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا.
    پاکستان زندہ باد

  • پاکستان کا کیا قصور؟ کامران امین

    پاکستان کا کیا قصور؟ کامران امین

    کامران امین برصغیر پر جب انگریز حاکم بنے تو شرح خواندگی90 فیصد تھی۔ دلی کے بازاروں میں خوب رونق ہوا کرتی، اگرچہ عام لوگوں کے پاس زمینیں نہ ہونے کے برابر ہوتیں لیکن پھر بھی لوگ خوشحال تھے. انگریز سیاح اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بھکاری ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتے تھے۔ یہی انگریز جب سو سال حکومت کرنے کے بعد رخصت ہوا تو برصغیر کی صرف 5 فی صد آبادی خواندہ تھی اور جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر نمازیوں سے زیادہ بھکاری ہوتے تھے۔

    چونکہ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور مسلمان بھی خود کو برصغیر کا جائز حکمران سمجھتے تھے اس لیے عتاب زیادہ تر مسلمانوں پر ہی گرا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے برصغیر کی سب سے بڑی آبادی ہندئووں اور مسلمانوں میں نفرت کے بیج بھی بونا شروع کر دیے. نتیجہ یہ نکلا کہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں مسلمانوں کا سوچ سمجھ رکھنے والا طبقہ یہ محسوس کرنا شروع ہو گیا تھا کہ ہندو اور مسلمانوں کا ایک ملک میں نباہ کرنا اب تقریباً نا ممکن ہو گیا ہے۔ کانگریسی وزارتوں کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے نے اس رائے کو اور تقویت دی اور ہندو مسلم اتحاد کے داعی قائداعظم جیسے مدبر شخص نے بھی مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا فیصلہ کر لیا۔

    پاکستان اپنے قیام کے روز سے ہی اس لحاظ سے بدقسمت رہا ہے کہ حصول کے وقت کیے گئے وعدے پورے نہیں ہو سکے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں وہ اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں بلکہ ہندوئوں کے معاشی جبر سے بھی آزاد ہوں۔ اگر چہ یہ مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کا فیصلہ تھا لیکن پھر بھی اس دور کے مومنین صالحین نے کھل کر اس کی مخالفت کی، چنانچہ اس اصول پرست اور دیانتدار شخص پر فتوے لگائے گئے جو ایک غلام قوم کا مقدمہ لڑ رہا تھا۔ کوئی ایسی قوم بھی ہوگی جس کے رہنما خود اسے یہ بتا رہے ہوں کہ آزادی تمارے مفاد میں نہیں، تم غلام ہی ٹھیک ہو۔ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان بن کر ہی رہےگا تو راتوں رات وہ تمام لوگ جو قیام پاکستان کے لیے سد راہ تھے، توبہ تائب ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ جی ہاں وہ تمام راجے مہاراجے، نواب، جاگیردار، زمیندار اور سرمایہ دار جو گزشتہ سو سالوں سے انگریزوں کے تلوے چاٹ رہے تھے، عین آزادی کے وقت وہ بھی آزادی والی ٹرین میں سوار ہو گئے۔ قائد اعظم نے اگرچہ ایسے لوگوں کو عہدے نہ دینے میں عافیت جانی لیکن ان کی وفات کے فوراً بعد یہ لوگ اپنے اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا کر نوزائیدہ مملکت میں اہم عہدوں پر فائز ہو گئے اور اس کے بعد سے پاکستانی عوام آزادی کے بہلاوے میں ابھی تک غلام ہی ہیں۔ مثال کے طور پر خان عبد الغفار خان کی عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے ہند پاکستان کے مخالاف تھے لیکن اسی پاکستان کے ایک صوبے میں ان کے وارثوں نے کئی دفعہ جم کر حکومت کی۔ پنجاب میں سکندر حیات کی اولاد مخدوموں، کھروں اور ٹوانوں کی کہانیاں بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔

    ایک ملک بنانے کے بعد جب ایک قوم بنانے کی باری آئی تو اس قوم کی باگ دوڑ ان ہاتھوں میں چلی گئی جنہیں اس قوم سے تو کیا ملک سے بھی دلچسپی نہ تھی چنانچہ سب سے پہلے تو انہوں نے بنگالیوں سے جان چھڑائی جو اس وقت تک پاکستان میں سب سے باشعور طبقہ تھا اور تحریک آزادی میں جس کا کردار ناقابل فراموش رہا تھا۔ اس کے بعد بھی چین نہیں ملا تو انہوں نے باقی ماندہ پاکستان کو ایک اکائی کے طور پر مضبوط کرنے کے بجائے لوگوں کو پنجابی، بلوچی، سندھی، پختون، مہاجر، سرائیکی وغیرہ میں بانٹ دیا اور ایسے اسباب مسلسل فراہم کیے جاتے رہے کہ یہ لسانی گروہ ایک دوسرے سے باہم دست و گریبان ہی رہیں ۔

    سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ قائداعظم کے بعد کوئی رہنما نہ ملا جو بھیڑ بکریوں کے اس گلے کی نگہبانی کے ساتھ رہنمائی کرتا۔ اور اس سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ ایشیا کا ڈیگال، قائد عوام، مرد مومن اور مشرق کی بیٹی تو آج بھی زندہ ہے لیکن حضرت قائداعظم صاحب انتقال کر گئے۔ آج حال یہ ہے کہ ایک ملک جسے کوئی اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں لیکن سارے اس سے اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس ملک کا کیا قصور ہے؟ کیا جب ہم الیکشن میں بار بار آزمائے ہوئے لوگوں کو، کرپٹ ترین لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں تو یہ پاکستان کا قصور ہے؟ ہمارے اپنے بھائی ہمارے خاندان کے لوگ جو پولیس، فوج اور اسٹیبلیشمنٹ کا حصہ ہیں، کرپشن اور لوٹ مار کے ذریعے محرومی و ناانصافی کو جنم دے رہے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ ہماری عدالتیں انصاف نہیں کرتیں، ہمارے منصف سرعام بک جاتے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ ہمارا تعلیمی نظام عوام میں شعور و بیدار کرنے میں ناکام ہے تو کیا اس میں بھی پاکستان کا قصور ہے؟ اس ملک نے تو ہمیں یہ موقع دیا تھا کہ ہم اپنے نصیب خود اپنے ہاتھوں سے لکھیں لیکن وہ نصیب لکھنے والا قلم ہم نے اپنی مرضی سے غلاموں کے ہاتھوں میں تھما دیا تو یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ نوجوان جو 14 اگست کو سڑکوں پر پاکستان کی جھنڈیاں سجا کر ناچتے نطر آئے، تعلیمی اداروں میں لسانی جھگڑوں میں بھی سب سے آگے ہوتے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ کبھی انڈیا میں پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں کی حالت زار پر غور کیا ہے؟ سفر کرتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں اور جس علاقے سے بدبو آنا شروع ہو جائے سمجھ لیں کہ مسلمانوں کا علاقہ شروع ہوگیا ہے۔ کیا پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے؟ کیا کسی نے سچر کمیٹی کی رپورٹ پڑھنے کی کوشش کی ہے وقت نکال کر؟

    آج تک پنجابی، سندھی، بلوچی، مہاجر اور پٹھان بن کر تو سوچتے رہے تو آئیے آج ایک لمحے کے لیے پاکستانی بن کر سوچتے ہیں کہ آخر پاکستان کا کیا قصور ہے؟ ہم پاکستان سے کیوں ناراض ہیں؟ آئیے ایک دفعہ پاکستانی بن کر سوچتے اور عمل کرتے ہیں.

  • مہاجر، اردو اسپیکنگ یا سندھی – محمد فیصل شہزاد

    مہاجر، اردو اسپیکنگ یا سندھی – محمد فیصل شہزاد

    ’’جی بیٹا! تو کہاں سے تعلق ہے آپ لوگوں کا؟‘‘
    احمد صاحب نے بڑی شفقت سے پوچھا تھا۔
    ’’جی یہیں کراچی سے، میں سندھی ہوں۔‘‘
    ’’سندھی.‘‘
    احمد صاحب نے بری طرح چونک کر مجھے دیکھا اور میں بھی ہکا بکا علی کو دیکھنے لگا۔
    ’’یہ کیا مذاق ہے علی؟‘‘
    میں نے کسی قدر غصے میں مگر دھیرے سے کہا۔
    ’’نہیں میں سچ کہہ رہا ہوں فیصل بھائی !میں سندھی ہی ہوں بلکہ اول مسلمان ہوں، پھر پاکستانی، پھر سندھی!‘‘
    ’’مسلمان اور پاکستانی تو ٹھیک ہے مگر تو سندھی کب سے ہوگیا؟ کیوں میری بات خراب کر رہا ہے، اگر شادی نہیں کرنی تھی تو یہاں تک آنے کی ضرورت کیا تھی.‘‘
    میں نے غصے سے دانت چباتے ہوئے کہا تھا۔
    احمد صاحب جو اچانک سنجیدہ نظر آنے لگے تھے، کہہ اٹھے:
    ’’بہت معذرت بیٹا! بےشک سندھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں مگر ہماری بٹیا کو تو ایک لفظ سندھی کا نہیں آتا، پھر رسوم و رواج اور ثقافت کے بھی ہزار مسائل ہو جاتے ہیں، آپ لوگوں کو ہی تکلیف ہوگی۔ ویسے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہماری بٹیا کے لیے کسی بھی مسلمان کا رشتہ آئے، مگر ہم فیصل میاں سے پہلے ہی اس بابت صاف کہہ چکے تھے، آپ برا نہیں منانا مگر…‘‘
    انہوں نے رک کر مجھے شکایتی انداز میں دیکھا، مجھے علی پر شدیدغصہ آنے لگا۔
    ’’مم مگر انکل! بات یہ ہے کہ تھوڑی بہت سندھی مجھے آتی تو ہے، مگر میں سندھی نہیں، اوہ مم میرا مطلب ہے کہ میں سندھی تو ضرور ہوں، کچھ سندھی بول بھی لیتا ہوں، مگر وہ سندھی نہیں ہوں!‘‘
    علی نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا تو مجھے اس کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگا۔ ادھر احمد صاحب چہرے پر شدید حیرت کے آثار لیے علی کو اور مجھے دیکھ رہے تھے۔ مجھ سے اور برداشت نہ ہوا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے احمد صاحب کو سلام کیا، معذرت چاہی اور تیزی سے علی کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھک سے باہر نکل آیا۔
    باہر آتے ہی اس نے میرے خطرناک ارادے بھانپ کر جلدی سے کہا:
    ’’ایک منٹ فیصل بھائی جان! آپ لوگ میری بات سمجھ نہیں ر ہے. وہ فلاں دانشور نے فیس بک پر فلسفہ بگھارا تھا کہ آپ سندھ میں پیدا ہوئے ہوتو سندھی ہو، اردو اسپیکنگ یا مہاجر کا ٹائٹل نہ لگاؤ، اپنے آپ کو سندھی کہلواؤ. میں تو اس لیے بولا۔‘‘
    ’’کیا؟؟ حمق! تو نے ان دانشوروں کی باسی دانش کی وجہ سے مجھے اتنے اچھے پڑوسی کے سامنے شرمندہ کر دیا. ابے ادھر آ. ‘‘ میں اسے اگلی گلی میں لے آیا۔
    سامنے میرے بہت پیارے پڑوسی دوست محسن بھائی کھڑے ہوئے تھے. ’’ اب سن‘‘
    میں علی کو ان کے پاس لے گیا۔
    ’’محسن بھائی! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ سندھی ہو؟‘‘
    ’’ہائیں…‘‘ وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگے۔
    ’’کک کیا کہہ رہے ہو فیصل بھائی! جیسے ہمیں جانتے ہی نہیں، کوئی بیس سال سے آپ کا پڑوس ہے، اب ہم سندھی ہو گئے سائیں، واہ چھا تو کرے میرا میڈا سائیں‘‘
    محسن بھائی نے مزاحیہ انداز میں سندھی بولنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔
    ’’پھر آپ کون ہو؟‘‘
    ’’کیا ہوگیا بھائی؟ ہم پنجابی ہیں، پیچھے سے فیصل آباد ی ہیں. کیا آپ ہمارے ساتھ رائیونڈ اجتماع کے بعد ہمارے گاؤں گئے نہیں تھے کیا؟‘‘
    اب ان کے چہرے پر الجھن کے آثار نمودار ہو چلے تھے۔
    ’’بس ٹھیک ہے.‘‘ میں مسکرایا اور انہیں الجھتا چھوڑ کر علی کا ہاتھ تھامے کونے میں بنے کوئٹہ وال چائے ہوٹل پر چلا گیا۔
    ’’ہاں عبدالرحمن! میں نے سنا ہے تم سندھی ہو؟‘‘
    میں نے چائے بناتے کھلنڈرے سے عبدالرحمن سے پوچھا۔
    عبدالرحمن نے حیرت سے مجھے دیکھا، پھر گویا مذاق سمجھتے ہوئے بولا:
    ’’زڑ خہ منہ کن خرژیش …مچ مچ ٹشن دا ڈغہ … زہ تا سرا مینا کوم پیسل بھائی!‘‘
    وہ مخصوص کوئٹہ کے لہجے میں پشتو کے پھول نچھاور کرنے لگا۔
    ’’آداب آداب میرے چھوٹے خان… میری طرف سے بھی زہ تا سرا مینا کوم…‘‘
    میں نے مسکرا کر جواب دیا اور آگے بڑھ گیا۔
    قصہ مختصر سرائیکی خالد اعظم نے سرائیکی ہی کہا. ہزارے وال طاہر عابد نے ہزارے وال کی نسبت ہی بتلائی. اور ادھر علی کا چہرہ برابر رنگ بدل رہا تھا۔
    ’’دیکھا تو نے یہ سب ہمارے بھائی یہیں پیدا ہوئے، یہ سب سندھی نہیں ہوئے تو کمینے تو کہاں سے سندھی ہو گیا؟‘‘
    ’’بے شک ہم سندھ میں رہتے ہیں مگر ہمارے جو مہان دانشور دو چار دنوں سے گاہے یہ فلاسفی جھاڑ رہے ہیں ناں کہ سندھ میں رہتے ہو تو سندھی کہلاؤ، تو بیٹا یہ صرف تمہارے میرے لیے لارے لپے ہیں. ان سے پوچھو، باقی ہمارے دوسری زبان سے نسبت رکھنے والے بھائیوں کے لیے بھی یہی لالی پاپ ہے یا نہیں؟! بیٹا یہاں کی بات تو چھوڑو، خود پنجاب میں رہنے والے سرائیکی بیلٹ کے ساتھی خود کو پنجابی نہیں کہتے. ہزارے وال خود کو پنجابی نہیں کہتے.
    ارے پیارے یہ لفظ مہاجر اب صرف پہچان کے لیے بولا جاتا ہے نہ کہ لغوی واصطلاحی طور پر کہ آگے سے یہ جاہلانہ سوال پوچھا جائے کہ اچھا بتاؤ تم نے کب ہجرت کی؟ پھر چلولفظ مہاجر کو چھوڑو، اگر اس سے تکلیف ہوتی ہے تو’اردو اسپیکنگ‘کی اردو انگریزی مخلوط معصوم سی ترکیب سے کیا مسئلہ ہے جسے اب قبول خاص و عام حاصل ہو گیا ہے، مگر دانشور اس پر بھی چیں بجیں ہیں، کس وجہ سے؟ صرف متحدہ جیسی فسطائی دہشت گرد تنظیم کی وجہ سے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود متحدہ برسوں قبل لفظ مہاجر سے جان چھڑا چکی، جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم حقیقی وجود میں آئی!
    ڈئیر! قبیلے، علاقے اور زبان پہچان کے لیے ہوتے ہیں اور شادی بیاہ اور ہزار معاملات میں لوگ علاقہ یا زبان کے بارے میں عام سوال پوچھتے ہی ہیں. یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ تو اپنی لسانی پہچان امریکا جا کر بھی برقرار رکھو، پنجابی مسلم سوداگران تنظیمیں بناؤ اور ہم اپنے ہی ملک میں اپنی پہچان تلاشتے رہیں.!
    کیا یہ بات سراسر اکرام مسلم کے خلاف نہیں کہ ایک مسلمان جس بات کو پوچھنا چاہ رہا ہے، آپ اس کو سمجھنے کے باوجود اپنے فیس بکی دانشوروں کی ہدایت پر مسلمان ہوں، پاکستانی ہوں، سندھی ہوں کی تکرار کرتے رہیں، اور نتیجے میں کنوارے ہی رہ جائیں!
    ٭٭٭
    اس کہانی میں بات بہت وضاحت سے آ گئی. مزید کنفیوژن دور کرنے کے لیے بات کو اس طرح سمجھیے:
    دیکھیں اپنی پہچان اور تعارف کے لیے مختلف دائرے ہوتے ہیں. ہر دائرہ پہلے سے چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔
    ٭پہلا دائرہ:
    آپ کسی غیر مسلم کے مقابل اپنی پہچان مسلمان کہہ کر کرواتے ہیں. بس یہی پہچان و تعارف کا سب سے بڑا اور بنیادی دائرہ ہے اور یہی دائرہ دنیا آخرت دونوں کو وسیع ہے. اسی دائرے کا حق ہے کہ اسے اللہ کے شکر کے ساتھ بیان کیا جائے!
    ٭دوسرا دائرہ:
    آپ پاکستان سے باہر ہیں تو آپ دوسرے ملک والوں کے سامنے اپنی وطنیت کی پہچان کروائیں گے، یعنی پاکستانی! یہ دوسرا دائرہ ہے جس میں دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان گویا مائنس ہو گئے!
    ٭تیسرا دائرہ:
    آپ پاکستان میں ہیں تو آپ اپنے شہر کے توسط سے اپنی پہچان کرواتے ہیں یعنی لاہوری، کراچی والے، ملتانی، کوئٹہ وال، پشاوری وغیرہ، آپ چاہے کوئی بھی زبان بولتے ہوں، اپنے شہر کی خوبیاں، اپنے شہر کی تعریف، اپنے شہر پر فخر اور کبھی کبھار اپنے شہر کی وجہ سے تعصب بھی اپنائیں گے، یہ بھول کر کہ آپ پختون ہیں، پنجابی بولتے ہیں یا اردو! یہ ہے پہچان و تعارف کا تیسرا دائرہ اس میں پاکستان کے دوسرے شہر والے گویا مائنس ہو جاتے ہیں۔
    ٭چوتھا دائرہ:
    یہاں آ کر ایک عجیب بات مگر یہ سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں صوبائی پہچان کرانے کا رواج بالکل بھی نہ چل سکا، پاکستان کے اندر اول شہر کی پہچان ہے، اس کے بعد براہ راست زبان کی پہچان ہے!
    پنجابی بولنے والے پنجابی اسپیکنگ، سرائیکی بولنے والے سرائیکی اسپیکنگ، سندھی بولنے والے سندھی اسپیکنگ، ہزارہ وال ہزارہ کی زبان بولتے ہیں، پشتو بولنے والے پختون اور اردو بولنے والے اردو اسپیکنگ!
    ٭ یہ ہے پہچان اور تعارف کا چوتھا دائرہ اس میں دوسری زبان والے مائنس ہو گئے۔
    اس سے چھوٹے بھی کئی دائرے ہیں، ذات یا علاقائی وغیرہ کے، جیسے پنجابی بھائیوں میں جٹ اور کھوکھر وغیرہ اور اردو بولنے والوں میں بہاری، دہلی والے، الہ آبادی، حیدرآبادی وغیرہ کے، لیکن انہیں چھوڑیے۔
    مندرجہ بالا چار دائرے کسی قسم کے تعصب کے بغیر بیان کیے جاتے ہیں اور ان میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ان دائروں کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ یہ حقیقت ہے۔ اس کے خلاف کوئی ’نکتہ شناس‘ زبردستی یہ کہے کہ جس صوبے میں رہتے ہو، اس سے اپنی پہچان کروائو تو یہ زمینی حقائق کے بالکل خلاف بات ہے۔
    جب ہمارے دفتر کے سرائیکی بھائی جو کراچی میں ہی پیدا ہوئے، اپنی پہچان سرائیکی کہہ کر کراتے ہیں تو ہم بھلا کیوں سندھی کی پہچان کروائیں؟!
    ٭٭٭

  • فاٹا پر مغربی ریڈیو چینلز کی یلغار اور گریٹر پختونستان منصوبہ – بادشاہ خان

    فاٹا پر مغربی ریڈیو چینلز کی یلغار اور گریٹر پختونستان منصوبہ – بادشاہ خان

    بادشاہ خان فاٹا میں ریاستی رٹ کی بحالی تقریبا مکمل ہونے کو ہے، مگر اس دوران غیر ملکی ریڈیو چینلز اور بیرونی امداد پر چلنے والی این جی اوز کو یہاں پروپیگنڈہ کرنے میں آزادی حاصل رہی، یہ غیر سرکاری تنظیمیں بیرونی ایجنڈے کے فروغ کے لیے سرگرم رہیں، کسی کو کینیڈا سے ڈیل کیا جاتا رہا تو کوئی جرمنی سے، یورپی اداروں نے اس دوران جاسوسی بھی کی جس کی ایک رپورٹ خود برطانوی نشریاتی ادارے نے چند روز قبل جاری کی ہے. محرومی کا شکار قبائلی جوان براہ راست ٹارگٹ تھے اور ہیں، مصنوعی چکاچوند اور چمک کے ذریعے ان کی برین واشنگ کی جاتی رہی ہے اور اب بھی جاری ہے. فاٹا کے اکثر علاقے الیکٹرونک میڈیا کی سہولت سے محروم ہیں، آج بھی اخبارات اور ریڈیو معلومات اور خبروں کا بنیادی ذریعہ ہیں. ان علاقوں میں ریڈیو کی اہمیت آج بھی ہے، اسی وجہ سے مغربی میڈیا اور بیرونی ممالک کے ریڈیو چینلز نے فاٹا میں اس پر فوکس کیا ہوا ہے. انتہائی فعال ان چینلز کی نشریات پورے دن جاری رہتی ہیں۔ ان پروگرامات میں اکثر کا ٹارگٹ آڈینس قبائلی نوجوان ہیں، غیر محسوس طریقے سے بےحیائی اور فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے. جیسے ہی فجر کی نماز کا وقت ختم ہوتا ہے، یہ ریڈیو جاگ اٹھتے ہیں اور گانے بجانے اور گفتگو کے نام پر قبائلی معاشرے میں رائج جوائنٹ فیملی سٹسم پر ضرب لگانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

    سال میں دو تین بار اپنے آبائی علاقے کرم ایجنسی جانا ہوتا ہے ، اس بار بھی جانا ہوا. یہاں بیرونی دنیا سے رابطے کا ذریعہ یہی غیر ملکی ریڈیو چینلز ہیں، ہمیں بھی ریڈیو کے چینلز کے ذریعے خبریں سننا پڑیں. ایک ہفتے کے دوران یہ محسوس کیا کہ ایک منظم سازش کے تحت قبائل میں پروپیگنڈے اور ایجنڈے کو فروغ دیا جا رہا ہے. ہر چینل کی کوشش ہے کہ نوجوانوں کو بیکار اور لغویات کی جانب لایا جائے اور مزید احساس کمتری میں مبتلا کیا جائے، محرومیوں کو ہوا دی جائے. کیا پیمرا اس سنگین سازش سے بےخبر ہے؟ ان کی نشریات پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کیوں نہیں ہے؟ پاکستانی ریڈیو چینلز بھی ان سے متاثر ہیں اور قبائلی نوجوانوں میں آگاہی وشعور کے بجائے بیرونی چینلز کی پیروی کرتے ہوئے ٖفضول پروگرامات نشر کرنے میں مصروف ہیں. ریڈیو فاٹا میں اہم تبدیلی لاسکتا ہے اور اس کے ذریعے تعلیم اور رواداری کو عام کیا جاسکتا ہے. کئی نوجوان ہر وقت ریڈیو لیے نظر آئے، پوچھنے پر بتایا کہ اب عادت بن گئی ہے. ایک اور عجیب بات سامنے آئی، جمعہ کے دن ایک بجے سے دو بجے تک خصوصی فرمائشی پروگرامات ان چینلز سے نشر کیے جاتے ہیں، نوجوانوں کے پسندیدہ گانے نشر کیے جاتے ہیں، نوجوان اپنا نام ریڈیو پر سننے کے لیے انتظار کرتے ہیں، اس طرح ہزاروں نوجوانوں کی جمعہ کی نماز رہ جاتی ہے.

    اس ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چند برس پہلے قبائلی علاقوں میں سولر توانائی سے چلنے والے لاکھوں ریڈیو سیٹ تقسیم کیے گئے، وہ بھی بالکل مفت، تاکہ شمسی توانائی والے یہ سیٹ آسانی سے ان کے ایجنڈے کے فروغ میں معاون ثابت ہوں. اس کے بعد آگاہی و امداد کے نام پر غیر سرکاری تنظیمیں سرگرم کی گئیں جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے. ان کی آڑ میں کئی غیر ملکی ادارے پختونستان کی تحریک کو فعال کرنے کے لیے سرگرم ہیں، نوجوان خصوصی نشانے پر ہیں، ورکشاپس، سیمینارز، بڑی تنخواہیں، اعلی سرکاری عہدیداروں سے ملاقاتیں. آزادی رائے کے نام پر انھیں گمراہ کیا جارہا ہے، نا پختہ ذہن کے نوجوان بیرونی ایجنڈے کو سمجھنے سے قاصر ہیں. انڈیا سمیت کئی ممالک اس سازش میں ملوث ہیں. اس وقت افغانستان کے صوبہ جلال آباد میں گریٹر پشتونستان منصوبے پر نہایت ہی سرگرمی کے ساتھ کام ہورہا ہے. فاٹا و خیبر پختونخوا سے تقریباً 2500 پڑھے لکھے بیروزگار پختون نوجوان جلال آباد میں مقیم ہیں، جبکہ کئی پڑے لکھے نوجوان کابل میں میڈیا سے منسلک ہوچکے ہیں اور ان کے اندر پاکستان کے خلاف اتنا زہر بھرا جارہا ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا. اس منصوبے کے مرکزی کرداروں میں ایک بڑی لسانی جماعت کے چند رہنما اور کچھ دوسرے رہنما اور این جی اوز کے کارندے شامل ہیں. خاموشی سے اس سازش پر زور و شور سے کام ہو رہا ہے، را فنڈز مہیا کر رہی ہے جبکہ افرادی قوت افغان انٹیلیجنس این ڈی ایس فراہم کرتی ہے۔

    سوال یہ ہے کہ ریاستی ادارے اس سنگین سازش کو کیوں محسوس نہیں کر رہے؟ مغربی ریڈیو چینلز کے ذریعے کیا جانے والا پروپیگنڈہ ملکی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے. را اور این ڈی ایس کی سازشوں کے سدباب کے لیے چیک اینڈ بیلنس مزید ضروری ہوگیا ہے. یہ قبائلی نوجوان ملک کی ترقی کے لیے قیمتی سرمایہ بن سکتے ہیں، ان کو بیرونی عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانے کا فرض ریاست کا ہے. قبائل کو ان کی دہلیز پر سہولیات فراہم کی جائیں، ریاستی توجہ کی فوری ضرورت ہے. قبائل آج بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں، دوسری طرف برہمداغ بگٹی کا تازہ ویڈیو بیان آپ کے سامنے ہے جس میں اس نے مودی کے بیان کو بلوچ عوام کے لیے اچھا قرار دیا ہے. کہیں ایسا نہ ہو کہ فاٹا میں بھی دشمن کی سازش کامیاب ہو، دشمن ہمارے لیے گڑھے کھود رہا ہے، بچنا ہم نے خود ہے، وقت کم ہے اور دشمن چاروں طرف پھیل چکا ہے، فوری طور پر غور کرنے اور لائحہ بنانے کی ضرورت ہے۔