Tag: ٹیسٹ میچ

  • نہیں نہیں، فواد عالم تم نہیں – شاہد اقبال خان

    نہیں نہیں، فواد عالم تم نہیں – شاہد اقبال خان

    fawad_alam ’نہیں نہیں، فواد عالم تم ون ڈے ٹیم میں نہیں کھیل سکتے۔‘
    ’مگر کیوں؟ میں نے تو ون ڈے انٹرنیشنل میں 40 اور ڈومیسٹک ون ڈے میں 48 کی ایوریج سے بیٹنگ کی ہے۔‘
    ’ایوریج تو ٹھیک ہے مگر تمھارا سٹرائیک ریٹ ٹھیک نہیں‘
    ’اتنی ایوریج پر کتنا سٹرائیک ہو تو کافی ہوتا ہے؟‘
    ’75 تو ہو کم از کم‘
    ’ہاں میرا بھی سٹرائیک 75 کا ہی ہے۔‘
    ’مگر تم تیز نہیں کھیل سکتے۔ میرا مطلب ہے کہ آخری اوورز میں 150 کے سٹرائیک ریٹ کی ضرورت ہوتی ہے، تب تم سے نہیں کھیلا جاتا۔ تب جب چھکوں چوکوں کی ضرورت ہو۔‘
    ’میری آخری دونوں ون ڈے ففٹیز میں میں نے ٹوٹل 6 چھکے لگائے تھے اور ایشیا کپ کے فائنل میں جب میں نے سنچری کی، تو اس میں میں نے آخری 78 رنز صرف 38 بالز پر بنائے تھے۔‘
    ’اچھا ہاں سری لنکا کے خلاف ناں؟ ان کے تو سپنرز تھے۔ فاسٹ باولر کو نہیں مار سکتے تم‘
    ’مگر اس میچ میں میں نے مالنگا کو بھی 2 چھکے اور 2 چوکے مارے تھے‘
    ’اچھا پر تم ہٹر لگتے نہیں ہو۔ اگر میں نے تمہیں ٹیم میں رکھا تو مجھ پر بہت تنقید ہو گی۔‘
    ’چلیں ٹیسٹ ہی کھلا لیں۔ میری ٹیسٹ اوسط بھی 42 اور ڈومیسٹک میں 56 ہے۔‘
    ’اچھا 56 کی اوسط ہے؟‘
    ’ہاں جی اور پاکستان کی طرف سے تاریخ کی سب سے زیادہ ڈومیسٹک اوسط میری ہی تو ہے۔ دنیا میں بھی ٹاپ ٹین میں آتا ہوں۔‘
    ’مگر تمھارا سٹائل بڑا عجیب سا ہے۔ ‘
    ’چندرپال اسی سٹائل سے کھیلتا تھا مگر بڑا کامیاب تھا‘
    ’ہاں مگر اس ٹیکنیک سے انگلینڈ میں نہیں کھیلا جاتا۔‘
    ’مگر میں نے تو کاؤنٹی میں بھی 80 سے زیادہ کی اوسط سے بیٹنگ کی‘
    ’تم نے کاؤنٹی بھی کھیلی ہے؟‘
    ’جی 2006ء میں لیور پول چیمپئن شپ اور 2011ء میں لنکا شائر کی طرف سے کھیلا تھا۔‘
    ’واہ بھئی زبردست مگر مسئلہ یہ ہے کہ تم ہو مڈل آرڈر کے کھلاڑی اور یونس، مصباح اور اسد شفیق کے ہوتے ہوئے ہم مڈل آرڈر کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتے۔‘
    ’مجھے اوپنر کھلا لیں۔ میں نے تو اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری سری لنکا کے خلاف بطور اوپنر ہی کی تھی۔‘
    ’ہاں مگر اب جو بچے اوپنر کھیل رہے ہیں، وہ بھی اچھے ہیں، کبھی کبھی ففٹی بھی کر جاتے ہیں۔ ان کو فی الحال ٹرائی کرنا ہے، اس کے بعد 5،4 اور بچے ہیں۔ اس کے بعدخدا نے چاہا تو تمہیں بھی چانس ملے گا۔‘
    ’تو ابھی میں کیا کروں؟‘
    ’ابھی۔۔ تمھیں ٹی ٹونٹی کھیلا لیتے ہیں۔‘
    ’اس میں کس نمبر پر کھیلوں گا‘
    ’چھٹے یا ساتویں نمبر پر کھیلو گے‘
    ’مگر آپ تو کہ رہے تھے کہ میں تیز نہیں کھیل سکتا‘
    ’ہاں ۔۔ پر چلو فیلڈنگ کر لینا‘

    2008ء میں 10 سال تک مسلسل نظرانداز ہونے کے بعد مصباح الحق نے کہا تھا کہ خدا کرے پاکستان میں کوئی اور مصباح پیدا نہ ہو۔ اب اس لائن میں آپ مصباح کاٹ کر فواد عالم لکھ سکتے ہیں۔ 2003ء میں فواد عالم پاکستان کی طرف سے انڈر 19 کھیل رہا تھا۔ پوری دنیا کے کمینٹریٹر اسے مستقبل کا پاکستان کا کپتان بتا رہے تھے مگر شاید وہ بھول رہے تھے کہ وہ آسٹریلیا یا انگلینڈ میں نہیں پاکستان میں کھیل رہا ہے۔ اس وقت فواد عالم ایک زبردست ہٹر تھا۔ 2006ء میں جب پاکستان نے ڈومیسٹک کرکٹ میں پہلے ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا تو اس میں پاکستان کے تمام بڑے سٹارز نے بھرپور شرکت کی۔ 22 سالہ فواد عالم نے اس میں شعیب اختر، محمد سمیع اور محمد آصف کی خوب درگت بنائی۔ اس وقت فواد عالم آل راؤنڈر تھا۔ اس ایونٹ میں فواد عالم بہترین بیٹسمین کے ساتھ ساتھ بہترین باؤلر بھی قرار پایا اور فائنل کا مین آف دی میچ بھی۔ مگر ٹورنامنٹ کے بعد عمران نذیر کو سلیکٹ کر لیا گیا۔ 2008ء میں کینیڈا میں چار ملکی ٹورنامنٹ میں فواد عالم کی ٹیم میں انٹری ہوئی۔ فائنل میں آخری اوور میں پاکستان کو 18 رنز درکار تھے۔ باؤلر فرنینڈو تھا جو بہترین یارکر نے کے ساتھ ساتھ اس وقت سلو بال کرنے والے چند بالرز میں شامل تھا۔ فواد عالم نے اسے اوور میں 2 چھکے جڑ کر میچ جیت لیا۔ اس کے بعد فواد عالم کو ڈراپ کر دیا گیا۔ اسے کہا گیا کہ ون ڈے ٹیم میں آل راؤنڈر کی جگہ خالی نہیں۔ وہ اگر اپنے آپ کو پراپر بیٹسمین بنا لے تو اس کی ٹیسٹ اور ون ڈے میں جگہ بن سکتی ہے۔

    بیچارے فواد عالم نے خود کو پراپر ٹیسٹ بیٹسمین کے روپ میں لانے کے لیے اپنا سٹائل بدل لیا اور رنز کے انبار لگانے لگا۔ اسے ٹیسٹ کھیلایا گیا مگر 3 میچز کھلانے کے بعد پتہ نہیں کیوں ڈراپ کر دیا گیا جبکہ اس نے ان 3 میں سے ایک میچ میں 168 کی شاندار اننگز بھی کھیلی تھی۔ اس کے بعد کبھی اسے ٹیسٹ نہ کھیلایا گیا۔ اسے ون ڈے میں بار بار چانس دیا گیا اور ہر بار سکور کرنے کے باوجود یہ کہہ کر ڈراپ کر دیا جاتا تھا کہ سٹرائیک ریٹ کم ہے۔ میں ایسی سلیکشن کو نہیں مانتا۔ کیا آپ مانتے ہیں؟

  • پش اپس نہیں، نوافل پڑھیں – نجم الحسن

    پش اپس نہیں، نوافل پڑھیں – نجم الحسن

    نجم الحسن پاکستان کرکٹ ٹیم نے پش اپس کیے انگلینڈ میں لارڈز کے میدان پر اور وبال پہنچ گیا پارلیمنٹ تک۔ پاکستانی سیاستدان آجکل کب کیا قدم اٹھا لیں، یہ تو ان کو بھی نہیں معلوم۔ پچھلے جملے میں ان کو کی جگہ لکھتا تو کچھ اور ہی، مگر کیا فائدہ، بلا وجہ کسی کو فتوی جاری کرنے کی زحمت کیوں دوں۔ ایسے کچھ لوگ کیا ہیں، کیا کرتے ہیں، کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں، ہم کوسمجھ میں نہیں آتا، اگر ان کا نام احمق رکھ دیا جائے، تو شاید لوگ جلدی سمجھ جائیں گے۔ اب یہ ہی دیکھ لیں، پاکستان انگلینڈ کے درمیان جولائی میں لارڈز میں ٹیسٹ میچ کھیلا گیا، مطلب پورے تین مہینے پہلے۔ میچ میں 16 جولائی کو مصباح الحق نے شاندار سنچری مکمل کی اور کرکٹ کا گھر مانے جانے والے گراؤنڈ پر 10 پش اپس کیے تھے۔ لارڈز کےمیدان میں، ایک بہترین کارکردگی کے باعث جب پاکستان نے میچ جیتا تو پوری ٹیم نے ایک ساتھ پانچ پش اپس لگائے۔ اور وہ ایسے ہی نہیں تھا، بلکہ وہاں باقاعدہ آرمی کی طرز پریونس خان کی قیادت میں ہوشیار باش کیی اواز لگائی گئی ، پش اپس لگائے گئے اور پھر پرچم کو سلامی دی۔ میچ ختم ہونے کے بعد مصباح نے بتایا تھا کہ میں نے ایبٹ آباد میں آرمی کے لوگوں کو وعدہ کیا تھا کہ جب بھی میں انگلینڈ میں سنچری بناؤں گا تو پورے 10 پش اپس کروں گا۔

    لگ گئی ہمارے کچھ سیاسی شعبدہ بازوں کو مرچیں، اس لیے نہیں کہ پش اپس لگا دیے، بلکہ اس لیے کہ کسی کی نقل کیوں کی یا شاید کسی کو خوش کرنے کے لیے ہی کیوں پش اپس جیسے عمل کو اپنایا۔ بات دل میں ہی رہ گئی کیونکہ کوئی مناسب موقع نہیں ملا اور عین وقت پر چپکی سادھ لی۔ تاہم ایک ایسے موقع پر معاملہ پارلیمنٹ تک پہنچ گیا، جب کرکٹ کے بجائے کوئی اور میدان گرم ہوگیا ہے۔ معاملہ پارلیمنٹ تک پہنچ گیا، کیونکہ امن سے کچھ ہو جائے، ایسا بھلا یہ نوٹنکی سیاسی لوگ کیسے ہونے دیں گے۔ بدھ کے روز پارلیمنٹ میں اس بات پہ جرح ہوئی، جس میں ایسی باتیں ہوئیں کہ پاگل کو بھی ہنسی آ جائے۔ پاکستان مسلم ليگ نواز کے ممبر اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے رکن رانا محمد افضل نے کھلاڑیوں کے پش اپس کرنے پر اعتراض کیا۔ کہا کہ آخر مصباح الحق اور ٹیم پش اپس کرکے کس کو پیغام دینا چاہتے تھے۔ کھلاڑی جیت کر تو پش اپس کرتے ہیں، لیکن ہارنے پر خاموش کیوں ہو جاتے ہیں۔ ڈان نیوز کے مطابق مسلم لیگ ن کے چوہدری محمد عاصم نذیر کچھ اس طرح گویا ہوئے کہ جیت پراچھلنا کودنا اچھا ہے، لیکن پش اپس کرنے کے بجائے کھلاڑی کامیابی پر نوافل ادا کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ نوافل بھی ایک طرح کی نماز ہی ہوتی ہے، جس کو پڑھنا واجب مطلب ضروری تو نہیں، لیکن اگر پڑھا جائے تو ثواب ملتا ہے۔ یہ عجیب و غریب باتیں دماغ میں گھس ہی نہیں رہی ہیں۔ یہ ہی نہیں، بلکہ پی سی بی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی کو اس معاملے پر جواب دہ قرار دیا گیا جنہوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ مصباح الحق نے آرمی کو خراج تحسین پیش کرنے کے طور پر پش اپس کیے تھے۔ وہ اپنی فٹنس دکھانا چاہتے تھے، کیونکہ كاكول میں آرمی کے تربیتی کیمپ نے پاکستانی ٹیم کو فٹنس کی ٹریننگ دی تھی۔ تبھی مصباح نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ انگلینڈ کے خلاف سنچری لگائیں گے تو پش اپس ماریں گے۔

    بقول چوہدری صاحب کے، ہارنے پر یہ کھلاڑی خاموش ہوتے ہیں اور جیت پر پش اپس جیسی حرکتیں؟ اب ہارنے پر کھلاڑی خاموش نہ رہیں، تو کیا کریں؟ جشن منائیں؟ پھر تو انہیں غدار قرار دے دیا جائے گا، پھر اور فتوے جاری ہوں گے۔ جیتنے پر جشن منائیں تو بھی دقت، نفل کیوں نہیں پڑھا؟ رانا جی معاف کرنا، رہنما بن گئے مگر عقل بیچ کر۔ واہ کیا خوبصورت الفاظ کہے چوہدری صاحب نے، دل کر رہا ہے ایک مسجد بنوا کرچوہدری عاصم نذیر کو پارلیمنٹ سے نکال کر اس مسجد کا امام بنا دوں۔ اور پھر چوہدری صاحب اپنی کرکٹ ٹیم کو میدان پر کھیلنے دیکھنے یا پارلیمنٹ میں ایسی بھاڑ بجائے نماز ہی پڑھاتے رہیں، کیونکہ یہ زیادہ بہتر رہے گا۔ پہلے خبر آئی کہ نجم سیٹھی نے معاملے کو طول پکڑتے دیکھ کر دو ٹوک کہہ دیا کہ پی سی بی نے کھلاڑیوں پر پش اپس کرنے پر روک لگا دی ہے، اب کوئی بھی کھلاڑی میدان پر پش اپس نہیں کرے گا۔ واہ! اور اللہ ان تمام باتوں سے خوش ہوں گے؟ ایک ملک کو نمائندگی کرنے والا کھلاڑی اپنے ہی ملک کی آرمی سے ایک وعدہ کر کے آتا ہے۔ سنچری مارنے پر پش اپس مارنے کا وعدہ، وہ سنچری مار دیتاہے تو وعدہ پورا بھی کرتا ہے، ٹیم میچ جیتتی ہے تو پش اپس کرتی ہے۔ اور آپ نے ایسے وعدہ پورے کرنے والوں پر پابندی لگا دیا؟ یہ مذہب کے خلاف ہے یا ملک کے خلاف ہے؟ لیکن، بہر حال بعد میں خبر آئی کہ نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ ایسی کوئی پابندی نہیں ہے اور کھلاڑی سنچری پوری کرنے پر 100 پش اپس مارے۔

    سوچنے والی بات یہ ہے کہ میدان پر ایک کھلاڑی سے نوافل پڑھوانا اتنا ضروری کیوں لگ رہا ہے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر دفعہ کچھ اچھا کرنے پر دنیا کو دکھائے کہ اپنے خدا کو شکریہ کہا جائے؟ یا اس کی عبادت جائے؟ کل کو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ کھلاڑی وکٹ لینے کے بعد ایک دوسرے کو ہائی فائیو کیوں دیتے ہیں؟ نوافل کیوں نہیں پڑھتے؟بیٹسمین سنچری بنانے کے بعد ہیلمیٹ نکال کر بلا اٹھا کر میدان میں چاروں طرف کیوں دیکھتا ہے؟ نوافل کیوں نہیں پڑھتا؟ یا یہی کیوں نہ کہا جانے لگے کہ کوئی اللہ کا بندہ کھلاڑی کیوں بنتا ہے؟ مولوی کیوں نہیں بن جاتا؟ گھر میں رہے اور تا عمر نوافل پڑھے۔ اس جہاں کی زندگی بھی سکون سے جی لے گا اور آخرت کی بھی کامیابی۔ لیکن آپ سیاستدان تو وہ بھی نہیں ہونے دیتے، کسی کو طالبان بنا دیا تو کسی کی زندگی ایسی اجیرن کردی کہ وہ ایک پیشہ ور ملا بن گیا، کسی کو مسلکیت پہ لگا دیا تو کسی کو سیاست میں ہی کھینچ لے آئے۔ خیرمٹی پاؤ، میرے حساب سے پاکستان ٹیم کے پش اپس لگانے پر پابندی لگانے والوں کو سیاستدان بننے کے بجائے عمر بھر نوافل پڑھنا چاہیے تھا۔ اللہ کرم فرماتا، انسانیت دعائیں دیتی، کرکٹ میں چک چک نہ ہوتی، پاکستان کا یوں مذاق نہ اڑایا جاتا۔ افسوس صد افسوس چوہدری صاحب آپ بھی ہمارے غریب عوام کے ووٹوں سے جیتے ہوئے نمائندے ہیں، آپ پر، آپ کی سوچ پر افسوس کریں یا اپنے لوگوں پر جنہوں نے آپ کو اپنا نمائندہ منتخب کیا ہے۔ پتہ نہیں کب عوام کو بھی عقل آئی گی اور وہ بھی چوہدری صاحب سے پوچھیں کہ چوہدری صاحب آپ نے بھی تو اپنے حلقے میں وعدے کیے تھے، کیا کام کیا؟ عوام کو روٹی، کپڑا، مکان دینے کے لیے کیا عملی اقدام اٹھائیں؟ دیگرمسائل سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ یا پانی اوربجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے کتنے نوافل پڑھیں؟ پہلے آپ ان وعدوں سے انخراف کی پاداش میں پش اپس لگانا شروع کردیں، پھر دوسروں پہ اعتراض کریں۔

  • آج کے دن کی ایک عظیم فتح – محسن حدید

    آج کے دن کی ایک عظیم فتح – محسن حدید

    محسن حدیدا آج کے دن 1956ء میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان سب سے پہلا ٹیسٹ میچ نیشنل سٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا تھا. فخر کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے آسٹریلیا کو پہلی اننگز میں صرف 80 رنز پر آؤٹ کر دیا تھا. پاکستان کی طرف سے صرف دو بالرز خان محمد (4 وکٹیں) اور فضل محمود (6 وکٹیں ) نے ساری آسٹریلین ٹیم کو آؤٹ کر دیا تھا. اس سے بھی زیادہ ناقابل یقین بات یہ ہے کہ آسٹریلیا نے 80 رنز بنانے کے لیے 53.1 اوورز کھیلے تھے اور یہ سارے اوورز انھی دو باؤلرز نے پھینکے تھے. آج کل اکثر فاسٹ باؤلرز زیادہ سے زیادہ 8 یا 9 اوورز کا سپیل ہی کر پاتے ہیں، اتنا لمبا سپیل کرنے کا توسوچا بھی نہیں جا سکتا، ان دو کے علاوہ کسی بھی فاسٹ باؤلنگ جوڑی نے اتنا لمبا سپیل کیا ہو، میرے علم میں نہیں ہے. (ریکارڈ نہیں مل سکا)

    پاکستان کے اس وقت کے صدر اسکندر مرزا اور وزیراعظم حسین شہید سہروردی تاریخی میچ دیکھ رہے ہیں
    پاکستان کے اس وقت کے صدر اسکندر مرزا اور وزیراعظم حسین شہید سہروردی تاریخی میچ دیکھ رہے ہیں

    ٹیسٹ میچ کے پہلے دن صرف 95 رنز بنے تھے، اور یہ کسی بھی ٹیسٹ میچ کے پہلے دن (جب مکمل دن کا کھیل ہوا ہو) کا سب سے کم سکور بھی ہے. پاکستان نے اپنی پہلی باری میں 199 رنز بنائے تھے، جس میں لٹل ماسٹر حنیف محمد کا صفر بھی شامل تھا. آسٹریلیا نے جواب میں 187 رنز بنائے تھے. یہ رنز بنانے کے لیے آسٹریلیا نے 110 اوورز کھیلے. یہاں ایک اوردلچسپ بات یہ ہے کہ ان 110 اوورز میں سے 89 اوورز پھر فضل محمود (48 اوورز) اور خان محمد (41 اوورز) کے حصے میں آئے. دوسری اننگز میں بھی آسٹریلیا کی ساری وکٹیں انھی دو باؤلرز کے حصے میں آئیں، فضل محمود نے 7 آسٹریلوی بلے بازوں کو پویلین بھیجا اور خان محمد کے حصے میں 3 وکٹیں آئیں. یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے کہ جب کسی ٹیسٹ میچ کی تمام 20 وکٹیں صرف دو باولرز نے حاصل کر لی ہوں.

    پاکستان نے یہ ٹیسٹ 9 وکٹوں کے بڑے مارجن سے جیت لیا تھا. یاد رہے آسٹریلیا اور انگلینڈ کو ہرانے کے لیے اکثر ٹیموں نے بہت لمبے عرصے تک انتظار کیا ہے. پاکستان کی یہ فتح ایک عظیم ترین فتح گنی جاتی ہے۔ اس آسٹریلین ٹیم میں رچی بینو، نیل ہاروے اور کیتھ ملر جیسے عظیم کھلاڑی شامل تھے. خاص کر نیل ہاروے اپنے زمانے کے عظیم ترین بلے بازوں میں سے ایک شمار کیے جاتے ہیں.

    amtiaz-ahmd اس یادگار فتح میں بطور وکٹ کیپر حصہ ڈالنے والے امتیاز احمد بہت سالوں بعد اس میچ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کھیل کے چوتھے دن 20 ہزار کے قریب تماشائیوں کا جوش و خروش دیدنی تھا. پاکستان کو چوتھی اننگز میں میچ جیتنے کے لیے صرف 69 رنز کا ٹارگٹ ملا تھا مگر کھیل بہت سلو تھا، تماشائی بے تاب تھے اور آج ہی فتح چاہتے تھے، ان کے نعروں سے تنگ آ کر ایک بار تو علیم الدین جو اس وقت کریز پر کھڑے تھے، انہون نے اپنا بیٹ تماشائیوں کی طرف لہرا کر کہا کہ آؤ تم لوگ بیٹنگ کرلو. اس دن فتح کے لیے 6 رنز باقی تھے، جب کھیل ختم ہوگیا، اگلے دن ریسٹ ڈے تھا کیونکہ لیاقت علی خان کی شہادت کی یاد میں پبلک ہالی ڈے تھا، اس سے اگلے دن پاکستان نے 6 رنز بنا کر میچ جیت لیا. تماشائی بھی سچے تھے کیونکہ پاکستان نے 69 بنانے کے لیے 48 اوورز بیٹنگ کی تھی اور تماشائیوں کو ایک عظیم فتح کے لیے تقریبا 36 گھنٹے انتظار کرنا پڑا.

  • اظہر علی، مصباح الحق کا نیا جنم – شاہد اقبال خان

    اظہر علی، مصباح الحق کا نیا جنم – شاہد اقبال خان

    misbah-ul-haq-and-azhar-ali-3 کچھ دنوں سے تمام توپوں کا رخ اظہر علی کی طرف ہو گیا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے ہر مسئلے کی وجہ اظہر علی ہے۔ تجزیہ نگار اور کچھ سابق کرکٹرز اظہر علی پر مضحکہ خیز حد تک تنقید کر رہے تھے. عبدالقادر صاحب نے تو ایک اوور میں 20 رنز پڑنے پر اظہر علی پر ون ڈے کرکٹ پر تاحیات پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کر دیا تھا۔ سرفراز احمد کی بطور کپتان 4 لگاتار فتوحات نے اس جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مگر ون ڈے سیریز کے تینوں میچ جیت کر اور آخری ون ڈے میں سنچری کر کے اظہر علی نے وقتی طور پر ناقدین کو خاموش تو کیا ہے مگر چند اور ناکامیوں کے بعد یہی تبصرے پھر سے شروع ہو جانے کا قوی امکان ہے۔ اظہر علی پر ہونے والی تنقید اور اس کی حقیقت کو جاننے کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔

    2011ء میں ویسٹ انڈیز کی اس وقت کی کمزور ترین ٹیم جس میں کرس گیل، ڈیرن براوو، سیمی، پولارڈ، ساروان، چندرپال سمیت کوئی بھی اہم کھلاڈی حصہ نہیں لے رہا تھا، اس سے دو میچ ہارنے کے بعد اس وقت کے کوچ وقاریونس کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے شاہد آفریدی کو ہٹا کر مصباح الحق کو کپتان بنا دیا گیا جو اس وقت ٹیسٹ ٹیم کو فتوحات کی طرف گامزن کر چکے تھے۔ اس تبدیلی کے مثبت رزلٹ آئے۔ مصباح کی قیادت میں پاکستان نے بہت تسلسل کے ساتھ ون ڈے میں فتوحات تو حاصل نہیں کیں مگر پاکستان نے ون ڈے کرکٹ میں بہت سے سنگ میل ضرور عبور کیے۔ پاکستان نے بہت عرصے بعد بھارت کو بھارت میں ہرانے کا کارنامہ سرانجام دیا، تاریخ میں پہلی بار جنوبی افریقہ کو اسی کی سرزمین پر شکست دی،12 سال بعد ایشیا کپ بھی جیتا۔ پھر سعید اجمل اور محمد حفیظ پر اچانک لگنے والی پابندی اور پچھلے 2 سال میں پاکستان کے سب سے کامیاب فاسٹ باؤلر جنید خان کے ان فٹ ہو جانے سے پاکستان مصباح کی کپتانی کے آخری سال میں اچھی کارکردگی نہ دکھا سکا جس میں ورلڈکپ2015ء بھی شامل ہے کیونکہ پاکستان کی ٹیم کا 2 سال سے چلتا ہوا کمبی نیشن اچانک ڈسٹرب ہو گیا تھا، مگر اس سب میں حقیقت کو سمجھنے کے بجائے مصباح الحق پر تنقید شروع ہو گئی؛
    ”وہ بہت دفاعی کپتان ہے، اسے ماڈرن کرکٹ کی سمجھ ہی نہیں ہے، وہ آہستہ کھیلتا ہے جس سے ٹیم پریشر میں آجاتی ہے، وہ ٹیم کے لیے نہیں اپنے آپ کے لیے کھیلتا ہے، مسٹر ٹک ٹک ہے“، جیسی باتیں ہر طرف سنای دینےلگیں۔

    mibah-reuters2 2015ء ورلڈ کپ کے بعد اس نے ون ڈے کو خیر آباد کہہ کر صرف ٹیسٹ کھیلنا جاری رکھا مگر وہ کسی کو بھی پسند نہیں تھا سوائے چند پرانی سوچ کے لوگوں کی۔ وہ کھیلتا رہا، کھیلتا رہا، ہر بار ملک سے باہر کھیلتا رہا اور پھر اس نے پاکستان کو ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی بار پہلی پوزیشن دلا دی۔ پاکستان کی طرف سے بطور کپتان سب سے زہادہ ٹیسٹ جیتنے کا ریکارڈ بنا دیا۔ بطور کپتان 50 سے زیادہ کی اوسط سے کھیلا۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تیز ترین ففٹی اور تیز ترین سنچری بنا ڈالی۔ اس نے ٹیسٹ میں یہ سب اس لیے حاصل کیا کیونکہ ہم نے اسے ٹیسٹ میں اپنے طریقے سے کھیلنے دیا۔ وہ ورلڈکپ نہ جیت سکا کیونکہ قسمت نے عین موقع پر اس سے اہم کھلاڈی چھین لیے اور کیونکہ ہم نے اسے ون ڈے میں اپنے طریقے سے نہیں کھیلے دیا۔

    azhar-ali 2015ء کے ورلڈ کپ کے بعد اظہرعلی کو کپتان اس لیے بنایا گیا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان ٹیم میں اس وقت پورے 50 اوور کھیلنے والا اور کوئی کھلاڈی تھا ہی نہیں۔ اسے نوجوانوں کی ٹیم دی اور ہر سیریز کے بعد اس میں تبدیلی کی جاتی رہی۔ اس نے انگلینڈ کے خلاف چند میچ نکال کر ہمیشہ اچھی کارکاردگی دکھائی اور اس کی اوسط اب بھی 42 کی ہے جو ٹیم میں بابر اعظم کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ اب اس پر بھی انھی الفاظ میں تنقید کی جا رہی ہے جن میں مصباح پر کی جاتی تھی، اور مجھے پورا یقین ہے کہ کچھ عرصہ بعد اسے بھی ایسے ہی سراہا جائے گا جیسے مصباح کو سراہا جا رہا ہے کیونکہ اظہر علی مصباح الحق کا ہی دوسرا کرکٹنگ جنم ہے۔

  • سیاسی ٹیسٹ میچ کو ٹی ٹوئنٹی نہ بنائیں – محمد عامر خاکوانی

    سیاسی ٹیسٹ میچ کو ٹی ٹوئنٹی نہ بنائیں – محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانیعمران خان ایسے سیاستدان ہیں، جن کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ وہ کسی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کا مقدمہ میں نے چند دن پہلے دو کالموں میں پیش کیا تھا۔ محاورے کے مطابق ابھی وہ اخبار ردی میں تبدیل بھی نہیں ہوئے کہ اچانک ہی خان نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس سے اتفاق کرنا ممکن نہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کرنا ان کا ایک غلط فیصلہ تھا کیونکہ یہ اجلاس سرحدوں پر درپیش بھارتی جارحیت اور کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے بلایا گیا۔ عمران خان نے اپنا مؤقف میڈیا پر بیان کیا ہے، اس پر مزید کیا بات کی جائے۔ ان کے ڈائی ہارڈ فین اور حامیوں کو ممکن ہے اس میں کشش محسوس ہوئی ہے، میرے جیسے لوگوں کو اس فیصلے سے مایوسی ہوئی۔ عمران خان نے عجلت میں یہ قدم اٹھایا۔ یوں لگ رہا ہے کہ وہ ٹیسٹ میچ کو ٹی ٹوئنٹی بنانے کے چکر میں ہیں۔ سیاست ٹی ٹوئنٹی مگر ہے نہیں۔ کرکٹ کی اصطلاح میں بات کریں تو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے لیے جس ٹمپرامنٹ، ذہنی مضبوطی اور صبرکی ضرورت ہے، سیاست میں بڑی کامیابی پانے کے لیے وہی ہنر چاہییں۔ عمران خان یہ باتیں جانتے بوجھتے عجلت میں لگتے ہیں۔

    بنیادی طور پر ان کا سیاسی مقدمہ درست ہے۔ تبدیلی کے ایجنڈے کو انہوں نے ہنرمندی کے ساتھ اپنایا اور ایک بڑے حلقے کی سپورٹ حاصل کی۔ خیبر پختون خوا میں اے این پی، پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمن کے طرز سیاست سے شاکی ووٹروں کو تحریک انصاف نے اپنی طرف کھینچ لیا، سیاسی خلا کو پر کیا اور اب صوبائی حکومت چلا رہی ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اگلے انتخابات میں کے پی کے میں صوبائی حکومت وہ باآسانی بنا لیں گے۔ پنجاب میں تحریک انصاف نے بنیادی طور پر اینٹی نواز شریف ووٹ بینک کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ پیپلزپارٹی کی بدترین کارکردگی کے باعث اس کے ووٹر اور کارکن شکستہ دل تھے۔ پیپلزپارٹی کے پاس پنجاب میں کوئی قیادت ہی نہیں، اس لیے ان کا ووٹ بینک عمران خان کی طرف چلا گیا۔ عمران خان آج بھی اینٹی نواز شریف ووٹر کی پہلی چوائس اور مجبوری ہے۔ اب انہیں دو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلی الیکشن ریفارمز کو یقینی بنانے کے لیے دبائو ڈالیں، بائیومیٹرک ووٹنگ، اوورسیز ووٹرز کی رجسٹریشن، غیر جانبدار الیکشن کمیشن اورفوج کی زیرنگرانی انتخابات. ان سب کے لیے عمران کو پریشر ڈالنا اور جدوجہد کرنی چاہیے۔ دوسرا انتخابات سے پہلے انہیں ایک اچھا انتخابی اتحاد بنانا چاہیے۔ میاں نواز شریف کو ہرانے کے لیے وہی حکمت عملی اپنانی ہوگی جو نوے کی دہائی میں نواز شریف نے بھٹو ووٹ بینک کا مقابلہ کرنے کے لیے اینٹی بھٹو اتحادکی شکل میں بنائی۔ عمران خان کو نسبتاً چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ ملانا ہوگا۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف فطری اتحادی بن سکتے ہیں۔ ان کا ایجنڈا بڑی حد تک ملتا جلتا ہے۔ جماعت اسلامی کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ ٹف بارگیننگ کرتی ہے اور اپنے سائز سے زیادہ نشستوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں، اگر عمران خان خود جماعت اسلامی کی قیادت سے مذاکرات کریں اور انہیں ٹھوس یقین دہانی کرائیں۔ جماعت کے ساتھ اتحاد کی صورت میں تحریک انصاف کو تجربہ کار سیاسی کارکنوں کی مدد حاصل ہوگی، جو الیکشن ڈے میں اسے فائدہ پہنچائے گی۔ جماعت اسلامی میں اس وقت سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی سوچ غالب ہے، ا س کا تحریک انصاف کو فائدہ نہیں پہنچے گا، اسے ملک گیر اتحاد کی آپشن کو یقینی بنانا چاہیے۔ اسی طرح الیکشن کے موقع پر عوامی تحریک سے پنجاب کے بعض نشستوں پر اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ ضرور کرنی چاہیے۔ پانچ سات ہزار ووٹ بھی اگر ضائع ہونے کے بجائے تحریک انصاف کو مل جائیں تو وہ تمام مقابلے جیتے جا سکتے ہیں، جہاں دو چار ہزار ووٹو ں سے شکست ہو رہی ہے۔ بظاہر تو یہ آسان نہیں لگتا، مگر تحریک انصاف کو پنجاب میں بعض نشستوں پر پیپلزپارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بھی غور کرنا چاہیے۔ اصول وہی سادہ ہے کہ نواز شریف کو ہرانا ہے تو اینٹی نواز شریف ووٹ بینک متحد کرنا ہوگا، ورنہ 2018 ء تو کیا 2023ء میں بھی شریف خاندان ہی میدان مارے گا۔ عمران خان ان بنیادی سیاسی حقیقتوں کو سمجھنے کے بجائے پانامہ لیکس والے ایشو کو آگے بڑھانے، اس پر سیاسی ٹمپریچر بہت زیادہ بڑھانے اور الیکشن سے پہلے نواز شریف حکومت کو چلتا کرنے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔

    عمران خان کے لیے دو بڑے مسائل ہیں۔ سب سے بنیادی یہ کہ ایسا کھیل مگر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر کامیاب ہو نہیں سکتا۔ دوسرا ماضی میں جب بھی حکومت اس طرح کی ایجی ٹیشن کے نتیجے میں رخصت ہوئی، اس وقت ملک گیر اپوزیشن اتحاد موجود تھا، جس نے ایسی تبدیلی کی حمایت کی ۔آج یہ دونوں فیکٹرز سپورٹنگ نہیں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی شاید اس وقت کھلی مداخلت کے موڈ میں نہیں ہے۔ فوج کئی محاذوں پر الجھی ہوئی ہے، اپنے لیے مسائل وہ کیوں بڑھائے گی؟ دھرنے کے وقت کچھ اور حالات تھے، اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ دھرنا ٹائپ اقدام دوبارہ شاید ممکن نہ ہو، جو نتائج اس وقت ملے، ممکن ہے اس بار زیادہ برے اثرات مرتب ہوں۔ اس قسم کی تبدیلی کے حق میں جو دوسرا فیکٹر کارفرما رہا، آج وہ بھی موجود نہیں۔ اپوزیشن کا ملک گیر اتحاد تو دور کی بات ہے، عمران خان کے دھرنے کے ساتھی بھی اس وقت ان کے ساتھ چلنے کو رضامند نہیں۔ اپوزیشن کی جماعتوں میں سے لگتا ہے کسی کو جلدی نہیں۔ پیپلزپارٹی اگلے سال کو الیکشن کا سال بنا کر سندھ میں کچھ کام کرنا چاہتی ہے۔ تین سال اس نے ووٹروں کو شدید مایوس کیا، اب وہ اس کی تلافی چاہتی ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ دو ہزار آٹھ سے پیپلزپارٹی سندھ میں مسلسل حکمران چلی آ رہی ہے، اسے آٹھ برسو ں میں ہوش نہیں آیا اور اب وہ نوے کے عشرے میں نواز شریف حکومت کی طرف سے برطرف کیے سرکاری ملازمین کو واجبات کے ساتھ بحال کرنا چاہتی ہے۔ جو لوگ ستانوے میں نکالے گئے تھے، دو ہزارآٹھ سے سولہ تک کسی کو انہیں رکھنے کا خیال نہیں آیا، اب الیکشن کو سامنے رکھ کر ان ہزاروں لوگوں کو بحال کیا جائے گا۔ اسی طرح کے کچھ مزید کام پیپلزپارٹی کرنا چاہتی ہے۔ وہ کیوں چاہے گی کہ سسٹم لپیٹا جائے اور الیکشن میں ڈیڑھ دو سال پہلے جانا پڑا۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں بھی ایسا کیوں چاہیں گی؟جے یوآئی کو جلد الیکشن پر تو کوئی اعتراض نہیں۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا ہر دن حضرت مولانا کی طبیعت نازک پر گراں گزرتا ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ وفاق میں وہ مسلم لیگ ن کے اتحادی ہیں اور ن لیگ کے مفادات کا تحفظ ان کی کسی حد تک ذمہ داری بنتی ہے۔ وزارتیں ایسے تو نہیں ملتیں ناں۔ اے این پی کے بھی ملتے جلتے مسائل ہیں۔ اسی وجہ سے یہ تمام جماعتیں عمران خان کے کسی بھی ایڈونچر کے حق میں نہیں اور نہ ہی وہ سیاسی کشیدگی بڑھانا چاہتی ہیں۔ مشرقی سرحد پر بھارتی دبائو بھی حکومت کے حق میں جائے گا۔

    ایسی نازک صورتحال میں کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو۔ عمران خان مگر اپنے فیصلے کا اعلان کر چکے ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا انہوں نے بائیکاٹ کر دیا۔ وہ محرم کے بعد اسلام آباد کی جانب چڑھائی کا اعلان کر چکے ہیں۔ لگتا ہے کہ ہر گزرتا دن تحریک انصاف کے جوش میں اضافہ کر رہا ہے۔ عمران خان کو اپنے فیصلے لینے کا حق حاصل ہے۔ ہم تو صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ وہ غیر ضروری عجلت سے کام لے رہے ہیں۔ پانامہ لیکس کی تحقیقات جلد شروع کرنے کے لیے سیاسی دبائو ضرور بڑھائیں، مگر معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے جانا مناسب نہیں۔ سیاست ٹیسٹ کرکٹ ہے، پانچواں روز بھی جلد آجائے گا، مگر اسے ٹی ٹوئنٹی بنانے کے چکر میں وہ اپنی جیت کو ہار میں بدل بیٹھیں گے۔

  • پاکستانی بلےباز کیا غلطیاں‌ کر رہے ہیں ؟ عمرفاروق

    پاکستانی بلےباز کیا غلطیاں‌ کر رہے ہیں ؟ عمرفاروق

    انگلینڈ کے مشہور بیٹسمین این بیل ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ 2006 کی سیریز میں پاکستان کے کوچ باب وولمر نے ایک نیٹ سیشن میں بیٹنگ کرتا ہوا دیکھ کر کہا کہ “بیٹ کی گرپ کو تھوڑا سا لوز کریں” اس سیریز سے پہلے مجھ سے رنز نہیں بن رہے تھے لیکن اس مشورے پہ عمل کرنے سے مجھے بہت فائدہ ہوا اور پاکستان کے خلاف اسی سیریز میں تین سینچریز بنانے میں کامیاب رہا. موجودہ نئ سلیکشن کمیٹی، نئے کوچ، ان کی نئ ٹیکنیکس اور ہمارے وہی پرانے پلیئرز اور ان سب پہ کروڑوں میں اخراجات، یہ ایسا کمبینیشن ہے جو کوئی بہتری ہی نہیں لا پا رہا کیونکہ کوئی سیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں اور کہاں وہ پلیئرز جو صرف ایک مشورہ سن کر اس پہ ایسے عمل کرتے ہیں کہ رنز کے انبار لگا دیتے ہیں. پہلے دو ٹیسٹ میچز میں ٹیم کی بیٹنگ پرفارمنس سب کے سامنے ہے، جس پہ بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے اس لیے کچھ ٹیکنیکل چیزوں کو دیکھتے ہیں جو ان کے مسلسل ڈائون فال کا سبب بن رہی ہیں. سب سے پہلے تو ایک بات سب کو مان لینی چاہیے کہ ہمارے بیٹسمین میں ڈیٹرمینیشن اور ایپلیکیشن کی شدید کمی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے اور مسائل بھی ہیں جن پہ نظر ڈالنا ضروری ہے.

    شان مسعود ……..شان مسعود…….
    ان کو کھلانے اور ان کے مسلسل فیل ہونے میں سلیکٹرز اور کوچز برابر کے شریک ہیں. سب سے پہلے ان کا آف سٹمپ پہ گارڈ لینا( جہاں بیٹسمین سٹمپس کے سامنا کھڑا ہوتا ہے) ان کو مصیبت میں ڈال رہا ہے کیونکہ اگر آپ پہلے ہی آف سٹمپ پہ ہوں تو آپ کے پاس کسی بھی قسم کی موومنٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی. ایک سٹیپ بھی اور اٹھانے پہ ان کی لیگ سٹمپ اوپن ہوجاتی ہے اور ان کا سر ان کے لیفٹ سائڈ پہ فال کر جاتا ہے جس سے وہ گیند کی لائن کو مس کر جاتے ہیں تو وہ لیگ سٹمپ پہ گری ہوئی گیند پیڈز پہ لگواتے ہیں اور ایل بی ڈبلیو کے امیدوار بنتے ہیں اور آف سٹمپ سے باہر جاتی ہوئی گیند کو سوائے پش کرنے یا سلپس میں کیچنگ پریکٹس کروانے کہ اور کچھ نہیں کرپاتے کیونکہ وہ بیک فٹ یا فرنٹ فٹ پہ جانے سے خود کو پہلے ہی محروم کر چکے ہوتے ہیں. سوئنگ کو کور کرنے اور کھیلنے کا اگر یہ طریقہ انھیں کسی کوچ نے بتایا ہے تو یہ کوچنگ کے معیار پہ بھی سوالیہ نشان ہے. اگر انھیں مزید پاکستان کے لیے کھیلنا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنا گارڈ اور سٹانس دونوں کو بدلنا ہوگا.

    ……محمد حفیظ……..
    MUHAMMAD HAFEEZ ٹیم میں پروفیسر کے نام سے جانے جاتے اس اوپنر کا حال بھی اتنا ہی برا ہے. 2010 سے یہ مسلسل ٹیم میں ہیں اور تب سے ان کی ٹیسٹ میچز میں ایک ہی پرابلم ہے آف سٹمپ سے باہر جاتی یا اندر آتی ہوئی گیند کو کھیلنا. ون ڈے کرکٹ میں چونکہ گیند زیادہ سوئنگ نہیں ہوتی اور پچز بھی فلیٹ ہوتی ہیں اس لیے وہاں تیکنیکی خامیوں کے ساتھ بھی رنز مل جاتے ہیں اس لیے زیادہ مسائل نہیں ہوتے. اگر تو انھیں اگلے میچز میں کھلایا جاتا ہے تو انھیں اپنے آف سٹمپ کا آئیڈیا ہونا بہت ضروری ہے، دوسرا انھیں اپنا گیم پلان بدلنا ہوگا اور ون ڈے موڈ اپنانا ہوگا شاید اس طرح کچھ سکور کرنے میں کامیاب ہوجائیں کیونکہ صرف بلاک کرنے کی نہ ان میں اہلیت نظر آتی ہے نہ ان کی تیکنیک اس قابل ہے.

    ………..اظہر علی………
    اظہر علی پاکستان کی ون ڈے ٹیم کے کپتان نے پریکٹس میچز میں دو سنچریاں بنائیں اور اپنے فارم میں ہونے کا ثبوت دیا لیکن لارڈز ٹیسٹ کی پہلی اننگز سے ہی مشکل میں نظر آئے. اظہر نے بھی شان مسعود والی ٹیکنک اپنائی اور سوئنگ کو کنٹرول کرنے کے چکر میں آف سٹمپ کا گارڈ لیا. جس سے وہ آف سٹمپ سے باہر یا لیگ سٹپ پہ گری ہوئی ڈلیوریز کھیلتے ہوئے ہر بار اپنا بیلنس کھو دیتے ہیں اور ایک سے زیادہ بار ایل بی ڈبلیو ہو چکے ہیں. اس سٹانس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بیک فٹ یا فرنٹ فٹ پہ دونوں طرح کھیلتے ہوئے گیند کی لائن آسانی سے مس ہو جاتی ہے جس سے بالر کے لیے انھیں آئوٹ کرنا بہت آسان ثابت ہو رہا ہے. سٹرائیک روٹیٹ کرنے میں بھی اظہر علی بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں، ہر گیند کو صرف بلاک کرنے کی نیت سے کھیلنا بھی ان کے سکورنگ چانسز کو بہت محدود کر رہا ہے جس سے بھی بالرز انھیں ٹریپ کر پا رہے ہیں. اپنی فارم حاصل کرنے کے لیے انھیں اپنی پرانی ویڈیوز دیکھنی چاہییں اور اپنی پرانی ٹیکنیک کو اپنانا چاہیے جس سے وہ پہلے رنز کر چکے ہیں.

    ………یونس خان…….
    YUNIS KHAN اپنے آخری دورہ انگلینڈ کو یادگار بنانے میں یونس خان ابھی تک ناکام ہی نظر آرہے ہیں. 4 اننگز میں ابھی تک وہ کسی ایک اننگز میں بھی مکمل کنٹرول میں نظر نہیں آئے. کریز کے باہر گارڈ لینا، اپنا سٹانس بہت نیچا رکھنا اور ہر بار جمپ کر کے گیند تک پہنچنا ان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے. اس دورے میں ابھی تک بیٹنگ کا ردھم اور فلو وہ حاصل نہیں کر پائے جس کی ان سے بہت توقع تھی. نمبر 4 پوزیشن پر کھیلتے ہوئے رنز نہ کرپانا ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے کہ کیونکہ ٹاپ آرڈر کو ساتھ لے کر چلنے میں وہ کافی تجربہ رکھتے ہیں لیکن اس بار ان کی ناکامی سے ٹاپ آرڈر مکمل طور پر ناکام نظر آرہا ہے. انھیں چاہییے کہ کریز کے اندر لیگ سٹمپ پہ گارڈ لیں. اور اپنی ٹرگر موومنٹس کو جتنا کم اور اپنا سر جتنا ساکت رکھ سکتے ہیں رکھ کہ کھیلیں اور سوئنگ اور سیم کو کھیلتے ہوئے اپنا بیلنس برقرار رکھیں اور غیر ضروری جمپ لگانے سے پرہیز کریں. اس سیریز میں وہ جن مختلف طریقوں سے آئوٹ ہوئے ہیں وہ بھی ان جیسے مایہ ناز بلے باز کے لیے لمحہ فکریہ ہے.

    ……..مصباح الحق……….
    مصباح الحق اپنے ناقدین کو بلے سے جواب دینا مصباح کو بہت اچھی طرح آتا ہے. اپنی ڈیٹرمینیشن اور گیم پلان سے مصباح ابھی تک ٹیم کے سب سے کامیاب بیٹسمین رہے ہیں. کریز پہ ڈٹے رہنا اور سکور کرنے کا کوئی بھی آسان موقع جانے نہ دینا ہی ان کی کامیابی کا راز رہا ہے. اپنی رینج سے دور بالنگ کو انھوں نے ابھی تک اچھی طرح کنٹرول کیا ہے. ابھی تک انھیں ٹیم کے باقی پلیئرز کی جانب سے خاص سپورٹ بھی نہیں مل سکی. انھیں چاہیے کہ اپنے اس سٹائل کو اپنائے رکھیں اور ٹیم کے لیے سکور بناتے رہیں. انھیں بھی سٹرائک روٹیشن پہ دھیان دینے کی ضرورت ہے. کریز پہ نئے آنے والے بیٹسمین کو سیٹ ہونے کا موقع دینے کے لیے بھی انھیں اپنی گیم کو ایڈجسٹ کرتے رہنا چاہیے. بعض دفعہ کسی خاص بالر کے سامنے کسی بیٹسمین کو اننگز کی شروعات میں نہ آنے دینا بالنگ سائیڈ کے لیے فرسٹریشن کا باعث بنتا ہے.

    ……..اسد شفیق………
    اسد شفیق برطانوی میڈیا نے مصباح الحق کے بعد اس ٹور پہ سب سے زیادہ جس پلیئر کو اپریشیٹ کیا ہے وہ اسد شفیق ہیں. ان کی تکنیک اور اسٹائل کو کافی سراہا گیا ہے. اس سیریز میں جو سب سے خاص بات نوٹ کی گئی ہے وہ ان کا اسٹانس ہے اور انھوں نے اپنی بیٹنگ تکنیک میں جو تبدیلی کی ہے وہ ان کا بیٹ گرپ کو تھوڑا سا اوپن کرنا ہے. جس سے ان کا بیلنس اور سٹروکس کی رینج میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے ایل بی ڈبلیو یا انسائیڈ ایج سے بولڈ ہونے کی روایت ختم ہوئی ہے. اس لیے بھی وہ اب آف سائیڈ پہ رنز بنا پا رہے ہیں. انھیں رنز بنانے کا یہ سلسلہ برقرار رکھنا ہوگا. بیٹنگ آرڈر میں انھیں ٹاپ آرڈر میں بھی آزمایا جا سکتا ہے.

    ………..سرفراز احمد………
    سرفراز احمد یو اے ای اور سری لنکا میں ٹیسٹ کرکٹ میں کافی رنز کرنے والے سرفراز احمد انگلینڈ میں ابھی تک اپنا ٹاپ گیم پیش نہیی کرسکے. کچھ ان کی شاٹ سلیکشن بھی بہت اچھی نہیں رہی. وہ بزی پلیئر ہیں اور ہر بال پہ سٹرائیک روٹیٹ کرنے کا سوچتے ہیں. وکٹ کی جانب آتی ہوئی گیند کھیلنے میں انھوں نے کافی مہارت کا ثبوت دیا ہے اسی لیے اب بالرز انھیں آف سٹمپ کے باہر زیادہ بالنگ کرتے ہیں جس کے مطابق انھیں اچھا گیم پلان بنانا ہوگا اور لوز بال کا انتظار کرنا ہوگا کیونکہ ابھی تک اس تکنیک سے وہ کامیاب نظر نہیں آرہے اور ایک آسان شکار ثابت ہو رہے ہیں.

    …….لیٹ آرڈر بیٹنگ….
    ٹیسٹ کرکٹ کی ٹاپ ٹیمز میں پاکستان شاید وہ واحد ٹیم ہے جس کا لیٹ آرڈر بیٹنگ کا کنٹری بیوشن نہ ہونے کے برابر ہے. اس لیے بھی ہماری ٹیم اچھی بیٹنگ پرفارمنسز پیش کرنے مین ناکام رہی ہے. مکی آرتھر کو چاہیے کہ وہ اس شعبے میں تھوڑی سی بہتری لانے کی کوشش کریں اور بالنگ پریکٹس کے بعد ان پلیئرز کو بیٹنگ بھی انجوائے کرنا سکھائیں. آسٹریلیا، سائوتھ افریقہ، انگلینڈ، انڈیا اور نیوزی لینڈ نے اپنے ٹیل اینڈرز کی بیٹنگ کی وجہ سے کئ ٹیسٹ میچز بچائے بھی ہیں اور جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں. اس لیے ہماری ٹیم کو بھی اس سلسلے میں کافی محنت کی ضرورت ہے.

  • دوسرے ٹیسٹ میچ کا پہلا دن – محسن حدید

    دوسرے ٹیسٹ میچ کا پہلا دن – محسن حدید

    محسن حدیدا پہلے دن کا کھیل مکمل طور پر انگلینڈ کے نام رہا. اولڈ ٹریفورڈ کی ڈرائی پچ پر بیٹنگ کے لیے سازگار ماحول میں انگلینڈ کا ٹاس جیت جانا بہت بڑا بونس تھا. کک اینڈ کمپنی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستانی بائولرز کو حاوی ہونے کا کوئی موقع نہیں دیا. محمد عامر کا پہلا سپیل شاندار تھا گو کہ پچ میں بائونس کافی بہتر ہے مگر اس کے علاوہ بائولرز کے لیے کچھ زیادہ مدد نہیں تھی مگر عامر نے ہیلز کو بڑی حکمت عملی سے قابو کی،ا انہیں ایک دو گیند باہر کھلا کر جب وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ عامر کی ان سوئنگ ابھی شاید نا آئے بلکہ جیفری بائیکاٹ بھی کہہ رہے تھے کہ آج عامر گیند اندر نہیں لا پا رہا، اسی وقت ایک شاندار ان سوئنگر پر ہیلز کی وکٹیں بکھر گئیں حالانکہ اس سے دو گیند پہلے ہی آوٹ سوئنگر پر اسد شفیق سلپ میں کیچ ڈراپ کر چکے تھے.dc-Cover-oou9ltbnnperrbnmvl0dkdk0k0-20160722171059.Medi سیریز میں عامر کی بائولنگ پر ابھی تک 4 کیچز ڈراپ ہو چکے ہیں اورعامر نے اب تک سیریز میں جو 5 وکٹیں حاصل کی ہیں سب کی سب بولڈ کر کے حاصل کی ہیں. فیلڈرز کو عامر کا ساتھ دینا ہوگا

    اس پہلے نقصان کے بعد ٹیکسٹ بک بیٹنگ کا شاندار مظاہرہ دیکھنے کو ملا. روٹ اور کک کی سنچری اننگز بہت لاجواب ہیں. دونوں نے کسی بھی موقع پر غلط شاٹ نہیں کھیلا اور نہ ہی کسی باہر جاتی ہوئی گیند کو چھیڑنے کی کوشش کی. پاکستانی بائولرز کسی حد تک اوور ایکسائٹڈ بھی نظر آئے اور اس کوشش میں کئی ایک بری گیندیں تحفہ کیں جن کا روٹ اور کک نے بخوبی فائدہ اٹھایا. فاسٹ بائولرز کے خلاف آسانی دیکھتے ہوئے کپتان مصباح الحق یاسرشاہ کو 13 ویں اوور میں ہی بائولنگ کے لیے لے آئے. ڈرائی پچ اور چمکتے ہوئے سورج کو دیکھتے ہوئے یاسر سے اچھے شو کی امید تھی مگر یاسر تھوڑی جلد بازی کرتے نظر آئے گو کہ بال کو ٹرن مل رہا تھا مگر مطلوبہ لینتھ اور لائن نہیں سیٹ ہو پائی. خاص کر کک نے انہیں اپنے پیڈ پر گیند نہیں مارنے دیا. یاسر انہیں ٹریپ کرنے کے چکر میں نظر آئے جس کا انہوں نے بخوبی جواب دیا اور یاسر کو زچ کر کے رکھ دیا. مجبورا یاسر تھوڑی سی جگہ دیتے اور کک اس گیند پر ٹوٹ پڑتے. سچی بات تو یہ ہے کہ وہاب ریاض کی جگہ ایک رائٹ آرم فاسٹ باولر کھلانا چاہیے تھا. اگر رائٹ آرم فاسٹ بائولر کھیلتا تو یاسر کو لیفٹ آرم بیٹ کے لیے رف مل جاتا مگر یہاں مینجمنٹ چوکتی نظر آئی.promo293458483 روٹ نے سکوائر کے پیچھے شاٹ نہیں مارے اور واضح طور سے محسوس ہورہا تھا کہ روٹ اپنے جسم سے دور گیند کو نہیں کھیلنا چاہتے تاکہ یاسر کو کوئی ایج نا مل سکے. جب جب یاسر ان کی حکمت عملی کا توڑ کرنے کے لیے مڈل کی طرف آئے، روٹ نے انہیں لیگ پر چوکا مارنے میں کوئی غلطی نہیں کی. یاسر کی 50٪ گیندیں ہاف وولی تھیں جس کی وجہ سے انہیں اتنی مار بھی پڑی. یاسر کو لارڈز ٹیسٹ میں ٹوٹل 17 چوکے پڑے تھے اور کل صرف ایک دن کی باولنگ میں 16 چوکے پڑ گئے. پاکستان نے کل پانچواں بائولر بہت مس کیا. اگر حفیظ کا ٹیسٹ کلیئر ہوجائے تو کمال ہوجائے ورنہ یاسر سے زیادہ کام لینا ان کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے. حفیظ ویسے بھی لیفٹ ہینڈڈ بلے بازوں کے لیے بہت موثر ہیں. انگلینڈ کے پاس 4 -5 بائیں بازو کے بلے باز ہیں اس لیے ایک آف سپنر بہت ضروری ہے جو کم از کم 15-20 اوورز کروا سکے.

    مجموعی طور پر کل سب بائولرز نے انتہائی خراب باولنگ کی. وہ تو انگلینڈ کے دوسرے بلے باز اپنی ناتجربہ کاری سے مار کھاگئے اور 300 پر چار وکٹیں مل گئیں، اب بھی انگلینڈ کے پاس بہت موقع ہے کیونکہ ان کی بیٹنگ میں ڈیپتھ بہت ہے مگر صبح کا سیشن بہت اہم ہے. اب بھی میچ میں واپسی ہوسکتی ہے. اگر پہلے گھنٹے میں دو تین وکٹیں مل جائیں. بہرحال اگر لنچ تک انگلینڈ نے اچھا کھیل لیا تو پاکستان بیک فٹ پر چلا جائےگا. کپتانی بھی کل تھوڑی آف کلر رہی. غیر ضروری سنگل ہم نے بہت لیک کیے، شاید اس کی وجہ خراب بائولنگ اور لیگ سائیڈش لائن بھی رہی ہو مگر بعض دفعہ لگا جیسے مصباح بیٹسمین کی غلطی پر تکیہ کر بیٹھے ہیں. اتنی آسان پچ پر کک اور روٹ جیسے بلے باز کیوں غلطی کریں گے؟ یہاں آپ کو کچھ خاص کرنا پڑے گا اور کل پاکستان کچھ خاص نہیں کر پایا. امید ہے رات میٹنگ میں سب نے چیزوں کو نئے سرے سے دیکھا ہوگا اور آج ہم 400 سے کم پر انگلینڈ کو آوٹ کر سکیں گے. کک نے کل اپنی 29 ویں سنچری مکمل کی اور سر ڈان بریڈ مین کا ریکارڈ برابر کردیا. بطور کپتان یہ ان کی 11 ویں سنچری تھی جو کہ انگلینڈ کی طرف سے سب سے زیادہ سنچریاں ہیں