Tag: نظریہ پاکستان

  • نظریہ پاکستان کے بانی علامہ اقبال – خنیس الرحمن

    نظریہ پاکستان کے بانی علامہ اقبال – خنیس الرحمن

    مفکر اسلام ڈاکٹر علامہ اقبال بانی نظریہ پاکستان نے 9 نومبر 1877ء کو شیخ نو ر محمد کے گھر آنکھ کھولی۔ویسے تو نور محمد سیالکوٹ میں چمڑے کا کام کرتے تھے۔علامہ اقبال کے آباؤ اجداد انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کرکے پاکستان لوٹے۔اقبال کے والد محترم ایک دیندار آدمی تھے اسی نسبت سے بیٹے کو شہر کے بڑے اسکول میں داخل نہیں کروایا ۔سب سے پہلے بنیادی اور لازمی تعلیم کے لئے سیالکوٹ میں محلہ شوالہ کی معرف جامع مسجد کے عالم دین ابو عبداللہ غلام حسن کے پاس بھیج دیا کرتے جو اس مسجد میں باقاعدگی سے درس قرآن و حدیث دیا کرتے تھے۔اس مسجد میں میر حسن بھی آیا کرتے تھے ۔اقبال کو اس مسجد مین دینی تعلیم حاصل کرتے دیکھا تو فوری اپنے دوست نور محمد کے پاس پہنچے اور ان کو بتلایا کے یہ بچہ بہت عظیم بچہ لگتا ہے اس کو دین کے ساتھ ساتھ عصری علوم بھی سکھاؤ ۔شیخ نور محمد اپنے دوست میر حسن کے پرزاور اصرار پر ان کے مکتب بھیج دیتے ۔ادھر میر حسن سے اقبال نے اردو،عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔

    میر حسن حافظ قرآن بھی تھے ۔وہ مشن اسکول سیالکوٹ میں بطور استاد مقرر ہوگئے اور اقبال بھی وہیں داخل ہوگئے لیکن باقی تعلیم معمول پر تھی ۔اقبال اسلامی تعلیمات سے واقف ہو چکے تھے ۔میر حسن سر سید کے بہت بڑے حامی تھے ۔وہیں سے یعنی اسی تربیت گاہ سے اقبال کو آزادی اور نظریہ پاکستان کا سبق ملا۔

    بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرکے واپس لوٹے تو دل میں مسلمانوں کی اصلاح اور تحریک آزادی کا جذبہ پیدا ہوا جو اس وقت عروج پر تھا۔علامہ اقبال نے تحریک پاکستان میں شامل ہونے کے لئے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا ۔اس تحریک میں تنظیم میں شامل ہوکر پاکستان کے لئے دن رات ایک کردیا۔اقبال کو صرف مسلمانوں کی ہی فکر رہتی ۔اقبال اس مقصد کے لئے نوجوانوں کو بیدا رکرنا چاہتے تھے۔علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں کے اندر تصور خودی پیدا کیا۔ان کو جگایا اٹھو نوجوانوں ہم آج حالت جنگ میں ہیں ۔ایک طرف انگریز کی غلامی دوسری طرف ہندو کی اکثریت جو انگریز کیساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف ناپاک عزائم بنا رہے تھے ۔اقبال ؔ نے نوجوانوں کو پیغام دیا خالدؓ اور حیدر کرار کا کردار ادا کرو۔

    ؔ قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن
    یا خالدؓ جانبازِ ہے یا حیدر ؓ کرار

    اب قائد اعظم بھی اس مشن میں شامل ہوچکے تھے۔ اب ہرطرف ایک ہی صدا تھی کہ انگریز کی غلامی سے نجات اور علیحدہ ریاست کا قیام ،مسلمانوں کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالا نہ جلسہ جو الہ آباد میں ہوا کرتا تھا اس میں ایک علیحدہ وطن کی طرف اشارہ کرنا تھا۔وہ وقت بھی آن پہنچا جب سب قافلے الہ آباد پہنچے اور اقبال سٹیج پر مخاطب ہوئے اور مسلمانان ہندوستان سے فرمایا:
    ’’اسلام ایک زندہ قوت
    اسلام ریاست اور فرد دونوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے‘ دستور حیات ہے اور ایک نظام ہے جس شخص کو آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے اعزاز سے نوازا وہ اب بھی ایک اسلام کو ایک طاقت سمجھتا ہے اور یہی طاقت انسان کے ذہن کو وطن اور نسل کے تصور کی قید سے نجات دلا سکتی ہے۔
    اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے
    یورپ میں مذہب ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہاں فرد روح اور مادہ میں تقسیم ہے، ریاست اور کلیسا جدا ہیں، خدا اور کائنات میں کوئی تعلق نہیں لیکن اسلام ایک وحدت ہے جس میں ایسی کوئی تفریق نہیں ہے۔ اسلام چند عقائد کا مجموعہ نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ مذہب کو فرد اور ریاست کی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔
    مسلمان ایک قوم ہیں
    ہندوستان کے مسلمان اپنے تہذیب و تمدن، ثقافت اور اسلام کی وجہ سے یہاں کی دوسری قوموں سے مختلف ہیں۔ ان کی توداد برعظیم میں سات کروڑ ہے اور ہندوستان کے دوسرے باشندوں کی نسبت ان میں زیادہ ہم آہنگی اور یکسانیت پائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہی جدید ترین معنی میں قوم کہا جا سکتا ہے۔
    متحدہ قومیت کی تردید
    مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ حالت نہیں ہے کہ اس میں ایک ہی قوم آباد ہو۔ ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے جن کی نسل، زبان، مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں وہ احساس پیدا نہیں ہو سکا ہے جو ایک ہی نسل کے مختلف افراد میں ہوتا ہے۔
    ہندو مسلم دو الگ قومیں
    ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں، ان میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گزشتہ ایک ہزار سال میں اپنی الگ حیثیت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ہی ملک میں رہنے کے باوجود ہم میں یک جہتی کی فضا اس لیے قائم نہیں ہو سکی کہ یہاں ایک دوسرے کی نیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ کس طرح فریق مقابل پر غلبہ اور تسلط حاصل کیا جائے۔
    مسلم ریاست کی ضرورت
    ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ تنہا ایک ملک میں سات کروڑ فرزندان توحید کی جماعت کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس مقصد کے لیے ایک مرکز قائم کرنا ہو گا۔
    علاحدہ وطن کا مطالبہ
    میں یہ چاہتا ہوں کہ صوبہ پنجاب، صوبہ شمال مغربی سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی شکل دی جائے یہ ریاست برطانوی ہند کے اندر اپنی حکومت خوداختیاری حاصل کرے‘ خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظماسلامی ریاست قائم کرنا ہی پڑے گی۔
    سائمن کپیشن کی سفارشات پر تنقید
    علامہ سر محمد اقبال جداگانہ انتخاب‘ بنگال‘ پنجاب اور سرحد میں مسلم اکثریت کو قائم رکھنے کے زبردست حامی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تجاویز کی مخالفت کرتے ہوئے سر شفیع کی حمایت کی تھی۔ کیوں کہ سائمن کمیشن نے بھی بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کی آئینی اکثریت کی حمایت نہیں کی تھی اس لئے آپ نے اس پر بھی سخت تنقید کی۔
    ہندوستان کی آزادی کے لئے ضرورت اتحاد
    علامہ محمد اقبال نے اپنے خطبے میں واضح کر دیا کہ اگر مسلمانوں کے جائز مطالبات پورے نہ کئے گئے تو وہ متحد ہو کر کوئی آزادانہ سیاسی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ مسلم مملکت کا میرا یہ مطالبہ ہندو اور مسلمان دونوں کے لئے منفعت بخش ہے۔ ہندوستان کو اس سے حقیقی امن و سلامتی کی ضمانت مل جائے گی۔‘‘
    ولایت (انگلینڈ) سے آئے چوھدری رحمت علی خان نے اپنے کتابچےNow or Neverمیں اس آزاد ریاست کا نام پاکستان رکھا۔

    اس جلسہ لے بعد ہر طرف دھوم مچ گئی لے کر رہیں گے آزادی۔۔۔بٹ کے رہے گا ہندوستان۔مسلم لیگ کے اراکین و عہدیدران کیا قائد اعظم خود گاوں گاؤں قریہ قریہ جا کر لوگو ں کو پاکستان کی افادیت سے آگاہ کیا ۔اقبال نے اپنی شعری کے ذریعے لوگوں کو بیدار کیا۔اور لوگوں کو نظریہ پاکستان کا مفہوم سمجھایا لوگو ہم مل جل کر نہیں رہ سکتے یہ ہندو نجس ہر لحاظ سے ہم سے الگ ہیں ان کی عبادات ،عبادت گاہیں سب کچھ ہم سے الگ ہے اور انگریز کے جانے کے بعد یہ ہمیں ایک بار پھر غلامی کی زنجیر میں قید کرڈالیں گے ۔
    جس ریاست کا قیام اقبال اور ان کے رفقاء چاہتے تھے اس کی بنیا د لاالہ الا اللہ تھی لیکن آج ہم نے اس کو بھلا دیا

    نظریہ پاکستان کے بانی، مفکراسلام، عالم دین، شاعر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال انتھک کوششوں کے باوجود اس تحریک میں آگے آگے تھے لیکن ملک پاکستان بنتا نہ دیکھ سکے اور اپریل 1938ء میں اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ اور وہ وقت بھی آیا اقبال ؔ کا خواب بھی پورا ہوگیا ۔مسلم لیگ کے سب عہدیدران اور قائدین ایک صف میں کھڑے رب کا شکر ادا کررہے تھے لیکن اقبالؔ کی کمی محسوس ہورہی تھی۔
    ملک بھی بن گیا۔ قربانیاں بھی دیں۔ ہجرتوں کو سفر بھی کیا۔ ہمارے اسلاف نے خون کی لازوال داستانیں رقم کردیں۔ جن کو پڑ ھ آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور آج ہم نظریہ پاکستان کو ،افکارِاقبال کو اور مسلم لیگ کے مشن کو بھول چکے ہیں اور نام نہاد مسلم لیگز بنا کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے بہت قربانیاں دیں ۔ہم قائد اعظم اور علامہ اقبال کے مشن پر چلنے والے لوگ ہیں۔لیکن سیاست نے ان کو غرق کر ڈالا ۔کرسیوں کے حصول نے ان کو نفسیاتی مریض بنا ڈالا ۔اب ان کے ذہنوں میں نظریاتی،اسلامی پاکستان نہیں بلکہ ایک لبرل پاکستان کی تخلیق ہے۔ اللہ ہمیں اقبال کے مشن کو پورا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔جن کی شاعری یعنی ہر شعر کے پیچھے ہمارے لیے کوئی نہ کوئی پیغام لکھا ہے۔

  • بیانیے کی جنگ میں ایک نئے سپاہی کی آمد کیوں؟ میاں احمد جہاں زیب انور نورپوری

    بیانیے کی جنگ میں ایک نئے سپاہی کی آمد کیوں؟ میاں احمد جہاں زیب انور نورپوری

    احمد جہاں زیب چوتھی طرز کی پیکار ( فورتھ جنریشن وار) میں قلم کو شمشیر اور دلیل کو سپر کی صورت کر کے اترنے تک ذہن و دل میں کئی مراحل تہہ ہوئے، کتنے ہی موسم بیتے، کئی زاویے نظر میں رہے اور مختلف خیالات شعور نے مقبول اور نامقبول کیے۔ مثلا لکھا کیوں جائے؟ کتنے ہی اخبار ہر روز کاغذی اور برقی پیرہن میں قاری کو میسر ہوتے ہیں۔ ان گنت لکھنے والوں کے درمیاں میرا لکھنا کیا معانی رکھے گا اور جب نہ تو کوئی تکمیلِ ذات کا مقصدپیشِ نظر اور نہ ہی تسکین انا کا کوئی پہلو مطلوب، اور نہ ہی میرا رزق بہت سے لکھاریوں کی طرح ایسے روزگار مثلا وکالت، تدریس یا کسی بیرونی امداد پر چلنے والی سماجی تنظیم کی ملازمت سے وابستہ ہے، جہاں صاحبِ قلم ہونا شخصی لیاقت کا اضافی وصف شمار ہوتا ہے اور ترقی و شہرت کے زینے طے کرنے کے معاون بھی، تویہ الجھن کہ اس مشقت کا حاصل کیا ہے۔

    دیگر اسباب کے علاوہ خام ارادے کو پختہ فیصلے میں بدلنے کی وجہ پچھلے دنوں کے دوران شہید جنرل محمد ضیاالحق کی برسی پر جدیدیت، روشن خیالی اور جمہوریت پر اجارہ داری کے دعویدار طبقے کا انتہائی غیر شائستہ اور لغو اظہارِخیال بنا، جس سے ان افراد کے فکری رجحان اور نسب کا پتہ ملتا تھا۔ یہ بات اور ہے کہ جب سے حالات نے کروٹ لی ہے تو بہت سے لوگوں نے، جنہیں اپنے لکھے اور کہے پر مستند ہونے کا گمان اور ناز ہے، ذرائع ابلاغ پر شہید کے عسکری و خارجہ امور کے تدبر اور شجاعت کو اْس جنگ کے حوالے سے یاد کیا ہے، جس کی فتح، شہید نے بپا ہونے سے قبل ہی الفاظ کے توپخانے سے ایسی جوہری دھمکی کو داغ کر چھین لی تھی، جس کی دھمک سےسب سے بڑی جمہوریہ کا پردھان منتری تنکے کی طرح لرز اْٹھا تھا۔ بقولِ ممتاز راشد
    چراغ لے کے ہمیں لوگ ڈھونڈنے نکلے
    ہمارے بعد وفاؤں کا احترام ہوا

    شہید جنرل محمد ضیاالحق اْن علامتی اہداف میں سے ایک ہیں جن کی تضحیک کی آڑ میں خود ساختہ وسیع المشرب دانش کے علمبردار اپنے سینے کی آگ ٹھنڈی کرتے ہیں۔ یہ یلغار گذشتہ پندرہ بیس برس سے بےضمیری اور جہل کے اونچے مناصب پر فائز افراد کی جانب سے اخبارات و جرائد میں جاری ہے۔ کبھی حضرت قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے 11 اگست کی تقریر کی من چاہی تشریح کا شوشہ چھوڑ دیا، کبھی جوگندر ناتھ منڈل اور سر ظفراللہ کی بطور وزیر تقریری کوثبوت کہہ دیا، جب چاہا مغرب کے سائنسی اداروں کا دینی مدارس سے تقابل کر کے تمسخر کا سامان کر لیا، کبھی 1965ء کی جنگ کا ذکر چھیڑ کر ہمارے مفتوح ہونے کااعلان کرتے ہیں، اور کبھی انسانی حقوق کا نعرہ بلند کر کے توہین رسالت اور امتناع قادیانیت کو تنگ نظری اور رجعت پسندی کی علامت قرار دے کر ان کی تنسیخ کا مطالبہ بلند کرتے ہیں۔ جب سے سماجی روابط کے دریچوں (سوشل ویب سائٹس) سے واسطہ پڑا ہے تو اس طبقہ گمراہاں کے نت نئےسوالات اور انکشافات نظر سے گزرتے ہیں جن کی عبارت کا سرچشمہ سرحد پار سے ملتا ہے۔ ان کےخود تراشیدہ سچ کےمطابق سلطان محمود غزنوی اور محمد بن قاسم بدکردار، غاصب اور لٹیرے تھے۔ ان کے دعوٰی کے مطابق پاکستان کی تاریخ موہنجوداڑو سے جنم لیتی ہے نہ کہ ”712ء کے حادثے سے“۔ یہ حضرات ابھی تک اورنگ زیب عالمگیر اور دارہ شکوہ کے معاملے کو لے کر نوحہ گری میں بھی مصروف ملتے ہیں اور اب مجددالف ثانی کی تحریک نشاۃ ثانیہ کے بخیے ادھیڑنے کے درپے ہیں۔

    غنیم، جو نظریہ پاکستان اور ہر اس تصور، شخصیت اور مظہر جو عام پاکستانی کے لیے مشعل راہ ہے، کو اپنی تعصبانہ تنقید کے نشانے پر لیے ہوئے ہے، کا جائزہ لیں تو عجیب و غریب صف بندی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اگر ہراول میں دانشوری، صحافت اور محقق کی دستار لگائے بھاڑے کے سپاہی بظاہر امن اور انسانی حقوق کا پرچار کرنےکی آڑ میں اپنے آقاؤں کی آشاؤں کی تکمیل کے لیے ملیں گے تو یمین میں بائیں بازو کے سیاسی و فکری یتیم، جام و مینا کے رسیا اور ہم جنسیت کےحوالےسے ترمیم آئین کے تمنائی نظر آئیں گے۔ میسرہ الحادی و باطل مذہبی عقائد والے راندہ درگاہ اور ایسے بےچہرہ لوگوں پر مشتمل ہے جن کا مذہب، شہریت اور انفرادی شناخت تو ایک طرف جنس تک نامعلوم ہے کیونکہ مرد پردے کے پیچھے سے گفتگو نہیں کرتے۔ قلب میں ایک گرگٹ صفت مخلوق جو بیک وقت حسینیت، سوشلزم، اقلیتی حقوق اور جمہوریت کی بالادستی کے علم اٹھائے ہوئے منطق اور دلائل کے رجز پڑھتی ملتی ہے۔ عقب میں اکثریت میں وہ لوگ جنہوں نے اگلی صفوں میں پائے جانے والے اپنے استادوں اور آجروں یا سینئر ہم پیشہ ساتھیوں پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے ہوتے ہیں؛ ان کا حاصل اپنے ممدوح کی خوشنودی ہوتا ہے یا اپنے آپ کو مستقبل کے دانشور تسلیم کروانے کے سلسلے کی ابتدا کرنا ہوتا ہے۔ اس سارے ٹولے کا مقصد حیات صرف دشنام بکنا، غلط یا یکطرفہ تاریخی حقائق پر اپنے مؤقف کی تصویر کشی کرنا اور اعتدال و اصلاح پسندی کے نام کی کھوکھلی عمارت کو نظریہ پاکستان اور اسلامی اصولوں کے مدفن پر تعمیر کرنا ہے ۔

    اس طبقے کے سرخیلوں میں سے ایک نامبارک تاریخ داں اگر یہ بھاشن دیتے ہیں کہ سیکولرازم پاکستان کے لیے وقت کی ضرورت ہے مگرحضرت قائداعظم کا حوالہ استعمال نہ کریں کیونکہ اُن کی تقریروں میں اسلامی سوچ کا عنصر بھی موجود ہے تو دوسری طرف اک کم رو دانشور، جنہیں یہ دکھ کہ حاکمیت اعلٰی اللہ کی ملکیت کیسے ہو سکتی ہے؟ انسانی حقوق اور قائد کے پاکستان کے نام پر تواتر سے قرارداد مقاصد اور دوسری آئینی ترمیم کے خلاف فطرت ہونے کے اپنے کریہہ مؤقف کا اعادہ کرتے ہیں۔ کسی نے یا تو انہیں سمجھایا نہیں یا ان کے دل و دماغ پر باطل قوتوں کے ہاں ذہن رہن رکھنے کے سبب حاکم اعلی نے مہر ثبت کر دی ہے کیونکہ رب العالمین کی حاکمیت تو اٹل ہے اور صرف اس امر کا اعتراف ہی دستورکے کاغذی پلندے کو آئین پاکستان کے نام سے معتبر کرتا ہے ورنہ ذات باری اس انسانی تائید سے ماورا اور بے نیاز ہے۔ کہیں سے یہ راگ بھی الاپا جاتا ہے کہ قائداعظم نے اسلام کا نام بطور سیاسی ہتھیار استعمال کیا تھا، تو کہیں پر ایک سابق چیف جسٹس کے سپوت اپنے غیر رضامند چورن کو چائے خانے نام کی دکان سے بیچ رہے ہیں اور ان کا ایک چیلا، جسے ٹیچی ٹیچی والے مجہول کے پیروکاروں کے کا غم بڑا ستاتا ہے؛ اس بحث میں ہلکان پایا جاتا ہے کہ تپ دق کی مرض سے کھوکھلےوالے 76 سالہ قائداعظم نے دورہ قلات میں کس برانڈ کی مے کو شرف پسندیدگی بخشا تھا۔ ایک مشہور تگڑمِ نابکاراں کے اہم رکن کی وسعت خیالی ہمیشہ سے ایسے موضوعات تک محدود رہی ہے جن سے وطن عزیز میں منفی عناصر کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ ان رواداری کے مبلغوں کے ہاں کی تمثیلوں میں، تقریروں میں، تحریروں میں بھگت سنگھ، سرحدی گاندھی، دارا، راجہ داہر کو جائز توقیری مقام نہ ملنے کا واویلا تو ملے گا مگر کبھی شہید رائے احمد خاں کھرل یا شہید سید صبغت اللہ شاہ راشدی کا تذکرہ نہیں۔

    مندرجہ بالا تفصیل سے آسانی سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بیانیے کی بحث اب مکالمے کی سطح سے بلند ہو کر تصادم کا روپ دھار گئی ہے تو اب قلم کو کمان کرنا عین عبادت اور آئین اسلام کی رو سے لازم ہے۔ ان شاءاللہ مستقبل میں اپنی استطاعت کے مطابق اس قلمی جہاد میں اپنا کردار نبھاؤں گا۔ اور عدو کے سورماؤں کے نام ایک شعر جو جون ایلیا نے اپنی کسی فرضی یا اصلی مخاطب کو کہا تھا
    آپ، وہ ، جی،مگر ، یہ سب کیا ہے
    تم میرا نام کیوں نہیں لیتی

    آپ لوگ بھی روشن خیالی، جمہوریت، سیکولر ازم ، الحاد، سوشلزم، زنانہ و اقلیتی حقوق کے نقاب اپنے چہرے سے اتار پھینکیے اور اپنے فکری جدِ امجد کی طرح باطل کے ایک جھنڈے کے تلے مقابلے پر اتر آئیے تاکہ بیانیے کا معرکہ کسی فیصلہ کن نتیجے پر منتج ہو سکے۔

  • جعلی سیکولر پرچہ اور اصلی مطالعہ پاکستان – محمد بلال

    جعلی سیکولر پرچہ اور اصلی مطالعہ پاکستان – محمد بلال

    کچھ دن پہلے ایک صاحب نے مطالعہ پاکستان کو بےہودہ ثابت کرنے کے لیے ایسے سوالات کیے ہیں جن کا فہم و دانش سے کوئی تعلق نہیں بلکہ زمینی حقائق سے دور چونکہ چنانچہ اور اگر مگر جیسے فرضی سوالات ہیں۔ اپنے نظریہ کی ترویج کے لیے لکھنا اور دوسرے کی فکر کا رد کرنا اہل علم کا اسلوب ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ٹھہرا کہ دوسرے کے نظریے کو ”بےہودہ“ قرار دیا جائے۔ کیا سوسائٹی کی کثیر تعداد کے نظریے کو جو آئینی اور ہر لحاظ سے ہر شہری کے لیے معتبر ہے، اس کو یوں اپنی دانشوری کے زعم میں ”بےہودہ“ کہنا کیا بدتہذیبی نہیں۔ لیکن کیا کہیے کہ سیکولرزم و جمہوریت کی بنیادی اقدار آزادی اظہار رائے پر عمل پیرا ہونے کے دعویداروں میں تہذیب کا کچھ زیادہ لینا دینا نہیں رہا۔ سوالات کا پلندہ تیار کرنے والے صاحب نے شاید اندرا گاندھی کے بعد خود کو دوسرا شخص سمجھا جس نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا سہرا اپنے سر لیا، لیکن کوئی بتائے ان کو کہ نظریات کو ڈبویا نہیں جا سکتا۔ خود بنگال والے بھی ایک قومی نظریے کے تحت ہندوستان میں ضم نہیں ہوئے بلکہ الگ ملک ہی ہیں. کوشش کی ہے کہ ان سوالات کا معتدل انداز میں جواب دیا جائے، انسانی فطرت کی وجہ سے کہیں زیادتی بھی ہوسکتی ہے اس لیے کسی کی دل آزاری ہو تو معافی کی درخواست ہے ۔

    سوال نمبر1: اگر علامہ ڈاکٹر سر محمد علامہ اقبال نے واقعی خطبہ الہ آباد میں مسلمانان ہند کے لیے الگ آزاد مملکت کا مطالبہ پیش کیا تھا تو کس کی سازش کے تحت ان کے یہ الفاظ خطبے کے اصل متن سے غائب کیےگئے جبکہ مملکت خداداد کی تیسری جماعت سے لے کر ایم اے تک کے نصاب میں ان کا حوالہ موجود ہے؟
    جواب: علامہ اقبال کی شاعری ان کے نظریات کی عکاسی کرتی ہے۔ باقی آپ خطبے کا متن دیں تاکہ ہمیں بھی پتہ چلے کہ خالی سنی سنائی ہے یا کہیں کوئی حقیقت کا عنصر بھی ہے۔ یہاں کا نصاب صحیح نہ لگے تو کیمبرج یونیورسٹی کی تجویز کنندہ کتاب، ”نیگل کیلی“ کی مطالعہ پاکستان بھی اس بیان کی تائید کرتی ہے کہ اقبال سرحد ، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک ریاست کے قیام کا مطالبہ اپنے اسی خطبے میں ہی کر چکے تھے۔ شاید انگریز مصنفین کی دیانت داری پر اعتراض نہ ہو۔

    سوال نمبر 2: نظریہ پاکستان کب اور کس نے لکھا تھا؟ قائداعظم محمد علی جناح کی تمام تقاریر میں نظریہ پاکستان نامی کسی ترکیب کا ذکر کیوں نہیں ملتا؟ جنرل شیر علی خان پٹوڈی کون تھے اور کیا یہ ممکن ہے کہ ملک پہلے بن جائے اور نظریہ بعد میں جنم لے؟
    جواب: دنیا میں کوئی بھی نظریہ کئی ارتقائی مراحل سے گزر کر اپنی منطقی شکل پاتا ہے۔ یہی حال نظریہ پاکستان کا ہے۔ شاہ ولی اللہ کی مساعی سے لے کر سرسید کی کوششوں تک، مولانا عبدالحلیم شرر کے مسلمانوں کے علیحدہ ملک کے علاقوں کی حدود کا بیان، شملہ وفد کی شکل میں مسلمانوں کے حقوق کی بات اور ان کے لیے علیحدہ انتخابات کا مطالبہ، مسلم لیگ کا قیام ، خلافت کی بقا کے لیے مساعی، قائداعظم کے چودہ نکات، علامہ اقبال کی علیحدہ ریاست کے لیے تجویز، ہندو ذہنیت کی حقیقت دیکھ کر چوہدری رحمت علی کا مطالبہ پاکستان، قرارداد پاکستان، قائداعظم کی اسلامی نظریے اور اسلامی نظام کےلیے سینکڑوں تقریریں، پاکستان کے قیام پر اسلامی فلاحی نظام اور اسلامی رواداری کے نظام کو اپنانے کا قائد کا عزم، یہ سب کچھ نظریہ پاکستان نہیں تو کیا ہے۔ نظریہ پاکستان کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان برطانیہ کی غلامی سے نکل کر ہندؤوں کی غلامی میں نہیں آنا چاہتے، ان کی شناخت الگ ہے اور اس کے لیے علیحدہ ریاست ضروری ہے۔ اس نظریہ کی عملی شکل مملکت خداداد پاکستان ہے۔ یہ لفظی جنگ ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی یہ کہے کہ مارکسزم کی اصطلاح مارکس نے کیوں نہ استعمال کی۔ عمارت کا نام اس کی بنیادوں میں نہیں، عمارت بننے کے بعد ہی لکھا جاتا ہے، اس لیے عمارت کا نام اس کی بنیادوں میں ڈھونڈنا آپ جیسے دانشوروں کی قسمت میں ہی آیا ہے ۔

    سوال نمبر 3: اگر دو قومی نظریے کے تحت مسلمانان ہند اور ہندوئوں کا تشخص اتنا جداگانہ تھا تو ہزار سال یہ اکٹھے کیسے رہتے رہے؟ اور اگر یہ دو قومی نظریہ جمہوریت کے خطرے سے عبارت تھا تو اس پر عملدرآمد کے بعد یہ کیونکر ممکن تھا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پھر بھی ہندوستان ہی میں رہتی اور ایک الگ مملکت بننے سے جنم لینے والی نفرت کا کفارہ ہمیشہ کے لیے ادا کرتی؟ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو دو قومی نظریے کی رو سے فائدہ ہوا یا نقصان؟
    جواب: اس سطحی سوال کا جواب اتنا ہے کہ نظریہ پاکستان میں یہ کہیں نہیں تھا کہ آپس میں اکٹھے رہنا غلط ہے بلکہ یہ تھا کہ ہمارا اس صورت میں مسلم تشخص برقرار نہیں رہ سکتا. جب برطانیہ کی ”ہیجمنی“ کے بعد مہا بھارت کا تسلط آئےگا جس کے نیچے رہنا مشکل ہو جائے گا. یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ ایک صدی پہلے بھی گائے کی قربانی پر ویسے ہی قتل کیا جاتا تھا جیسے آج مہا بھارت کیا جا رہا ہے، اصل مسئلہ اپنے بنیادی آئینی حق کا مطالبہ تھا. عجیب المیہ ہے کہ بعض سیکولر اور قوم پرست دانشوروں کو ہم مختلف قومیتوں کے حقوق کا نعرہ بلند کرتے دیکھتے ہیں مگر انھیں برصغیر کے مسلمانوں کا آئینی حق اور نظریہ چبھتا ہے۔ بنگال سے بلوچستان، خیبر سے سندھ تک، اور پنجاب سے بلتستان تک، یہ قومیت کے ساتھ کھڑے ہیں مگر حیرانی ہے کہ ہندو اکثریت میں انھیں یہ قومیتیں یا ان کی شناخت گم ہوتی محسوس نہیں ہوتی، اس لیے آج تک ہندوستان اور ہندو کی محبت ختم ہونے میں نہیں آ رہی. مسلمانوں سے ہندوئوں کی نفرت صدیوں پرانی ہے، البیرونی کی کتاب الہند میں اس کی تفصیل موجود ہے اور بتایا گیا کہ ان کو ”ملیچھ“ سمجھا جاتا تھا۔ جمہوریت کے نظام کی حقیقت کے لیے صرف اتنا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں 25 کروڑ مسلمانوں کے شاید پچیس نمائندے بھی بھارتی پارلیمنٹ میں نہیں ہیں تو جمہوریت کے نظام کا یہی طرز عمل پاکستان کے لیے خطرہ تھا جس کے لیے پہلے جداگانہ انتخابات اور پھر علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔ جہاں تک ہندوستان کے مسلمانوں کے فائدہ یا نقصان کی بات ہے تو اس میں کئی عوامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹ حائل کی، بائونڈری کمیشن کی نا انصافی، سرحدوں کی غیرمنصفانہ تقسیم اور متعصب کانگریسی سیاستدان، ان 25 کروڑ کا سوال آپ ان سے کریں جن کے کہنے پر وہ وہاں رہے۔ یہی سوال ہمارا بھی ہے کہ جمہوریت کو پاکر وہاں کے 25 کروڑ مسلمانوں کو کیا ملا ہے؟ اس کا جو جواب آپ دیں گے وہی میرا جواب سمجھیے گا۔

    سوال نمبر 4: کیا دو قومی نظریے کے تحت پاکستان آج تمام ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستانی شہریت دینے کا پابند ہے؟
    جواب: کیا ایک ہندوستانی قوم کے نظریے کے تحت بھارت آج پاکستانیوں کو وہاں کی شہریت دینے کا پابند ہے۔ پاکستان نے تو اس وقت تنگ دستی کے باوجود آنے والوں کو خوش آمدید کہا، جو وہاں مرضی سے رک گئے، آج وہ روتے ہیں کہیں گجرات میں، کہیں مظفر نگر میں اور کہیں مہاراشٹر میں۔ اس کے باوجود پاکستان نے وہاں سے آنے والوں کو ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے، مہاجرین کے قافلے سالوں بعد تک آتے اور یہاں بستے رہے. 90ء کی دہائی میں آنے والے کشمیری بھائیوں کو بھی پاکستان نے خوش آمدید کہا تھا۔ افغانستان کے 3 ملین مہاجرین تو اب تک یہاں ہیں جن کا ایک یا دو قومی نظریہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، بطور مسلم ریاست ہماری بانہیں مسلمانوں کےلیے کھلی ہیں. جو اس وقت اپنے پیروں میں بیڑیاں پہن کر بیٹھ گئے، ان کی اپنی مرضی ہے۔

    سوال نمبر 5: کیا بنگلہ دیش میں پناہ گزین بہاری بنگالی کہلائیں گے یا پاکستانی؟ اور اگر انہیں پاکستان بلایا گیا تو کون سا صوبہ کون سے نظریے کے تحت ان کا استقبال کرے گا؟
    اس کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے ۔

    سوال نمبر 6: اگر دو قومی نظریہ ایک آفاقی سچائی ہے تو کیا پاکستان کو برطانیہ، فرانس اور چین میں مسلمان آبادی کے لیے الگ ملک بنانے کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کرنی چاہیے؟
    جواب : میں جناب کی دانشوری پر حیران ہوں کیونکہ یہ سوال اور ابہام صرف اس لیے ہیں کہ جناب کو نظریہ پاکستان کی بنیاد اسلام سے ہی چڑ ہے جس کی ایک شکل یہ ہے کہ نظریہ پاکستان کا نام لے کر مسلمانوں کی اسلامی سوچ کا رد کیا جائے۔ پاکستان کا آئین موجود ہے، اس میں کیا یہ چیز لکھی ہے۔ یہ آئین نظریہ پاکستان کی عملی شکل ہی ہے۔ کیا مطالعہ پاکستان میں یہ بات کہیں ہے۔ تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ تنقید کا اصل ہدف آفاقی نظریہ اسلام ہے۔ مسلمان غیر مسلم ملک میں رہ سکتے ہیں، اس کی ممانعت نہیں ہے، جب نجاشی مسلمان نہیں ہواتھا تو اس کے پاس مسلمان ہجرت کرکے گئے، وہاں رہے اور علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہیں کیا، جب مکہ میں تھے تب بھی علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہیں کیا، مگر جب مدینہ میں گئے اور کثرت ان کے پاس تھی تو اپنی حکومت قائم کی اور اپنے اور دوسروں کے حقوق کا تحفظ کیا۔ فقہ میں دارالاسلام، دارالکفر اور دارالحرب میں رہائش کے حوالے سے ہدایات موجود ہیں. اب دنیا کے قانون بھی دیکھیں ذرا، کوئی بھی قوم اگر اس حد تک آبادی رکھتی ہے اور علاقہ بھی کہ اس کو ریاست تسلیم کیا جائے، پھر اگر وہ جمہوری یا عسکری طریقے سے اس علاقے پر قبضہ کرلیتی ہے تو وہ بین الاقوامی فورم میں ایک ملک کی حیثیت سے آ سکتی ہے جس کی مثالیں سنگاپور، مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان وغیرہ ہیں۔ اب برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کا بقیہ حصہ الگ ہونا چاہتا ہے، سپین اور دیگر ممالک میں علیحدگی کی تحریکیں ہیں، ایک قومی نظریہ یا علاقہ کوئی چیز ہے تو یہ سب ایک ساتھ کیوں نہ رہے یا کیوں نہیں رہنا چاہتے؟ یا برق صرف مسلمانوں‌ پر گرانی ہے. ویسے اب اگر جمہوریت ایک بہترین نظریہ ہے تو کیا برطانیہ، فرانس اور چین میں مسلمان آبادی کے لیے الگ ملک بنانے کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کرنی چاہیے؟

    سوال نمبر 7: دو قومی نظریے کی رو سے پاکستانیوں کو سعودی عرب، ایران، ترکی یا متحدہ عرب امارات کی اعزازی شہریت کا حق حاصل کرنے کے لیے کیا او آئی سی کے پلیٹ فارم پر آواز بلند کرنی چاہیے؟
    جواب: دو قومی نظریہ اور آو آئی سی کا مقصد کیا ہے. سرحدات اور ویزے جیسے ماڈرن ریاست کے جمہوری تصورات کے ہوتے اور ان پر عمل کرتے ہوئے ایسے سوالات اٹھانا تجاہل عارفانہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے. اگر مسلم امہ جس کا نام سنتے ہی آپ جیسے دانشوروں کو چڑ ہوتی ہے، عملی شکل پہنے تو یہ مشکل دور ہو جائے گی. ریاستی یا جمہوری دور حکومت سے پہلے ایسا ہی تھا، کوئی بھی کہیں بھی جا کر رہ سکتا تھا، کاروبار کر سکتا تھا. اسلامی نقطہ نظر سے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے. او آئی سی کا مقصد مسلمانوں کے حقوق کےلیے آواز اٹھانا ہے، یہ اس وقت قائم ہوئی جب بیت المقدس میں آگ لگانے کی کوشش کی گئی، اس سے دوقومی نظریہ ایک آفاقی نظریہ ثابت ہورہا ہے کہ نہیں اور اس کی سمت کا بھی صحیح تعین ہو رہا ہے، کہ مسلمان دوسری اقوام سے الگ اور متحد ہیں۔ ہمارے خیال میں تو پاکستان کو آگے بڑھ کر کوشش کرنی چاہیے کہ او آئی سی کو یورپی یونین جیسا بنانا چاہیے. شہریت کا سوال ہی ختم ہو جائے گا.

    سوال نمبر 8: بنگلہ دیش کون سے نظریے کے تحت بنا؟ کیا ہمیں انہیں اب بھی مسلم برادر سمجھنا چاہیے؟
    جواب: بنگلہ دیش جس نظریے کے تحت بنا اس کو قوم پرستی کہتے ہیں اور بنگلہ دیش کی حکومت اب کیا کررہی ہے اور کیسے بنی اور کس نے بنائی سب کے سامنے ہے۔ شاید اندرا گاندھی کا جملہ آپ کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے کہ آج دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ یا پھر مودی جی کا اعتراف حق کہ بنگلہ دیش ہم نے بنایا۔ یہ سوال اپنی جگہ کہ کیا کیا کسی کی غداری اور کسی سازش سے نظریہ پر کوئی حرف آئے گا مگر پھر بھی یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان سے الگ ہو کر بنگال ہندوستان میں ضم ہو گیا، اس نے ایک قومی نظریہ قبول کر لیا؟ بنگلہ اب بھی اسلامی ریاست ہے، الگ ہے، منموہن سنگھ کے بقول 25 فیصد بنگالی اس سے سخت نفرت کرتے ہیں، پاکستان ہندوستان بنگلہ دیش میں کھیلیں تو اسٹیڈیم پاکستان کے ساتھ ہوتا ہے، اور آج بلوچستان میں مداخلت کے اشارے کے بعد ہندوستانی دانشور اور اخبارات اسے سمجھا رہے ہیں کہ بنگلہ دیش بنوا کر دیکھ لیا، وہاں اب بھی ویسی نفرت ہے، اور کئی تنازعات ہیں. بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلق کی بحالی او آئی سی کے سر ہے، 1974ء میں لاہور کانفرنس میں مجیب کی شرکت اس کی دلیل ہے اور یہ آپ کی او آئی سی کی ذمہ داریوں کے بارے میں غلط فہمی کا بھی جواب ہے ۔ تنازعات اور حسینہ واجد کے ظلم کے باوجود بھی بنگلہ دیشی ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور ان کی نسبت سے بنگلہ دیش برادر اسلامی ملک ہے۔

    سوال نمبر 9: کیا مسلمانوں کی اکثریت پاکستان بننے کے لیے تحریک کے دوران قتل ہوئی یا پاکستان بننے کےاعلان کے بعد فسادات کے دوران؟ کیا ان کی قربانیوں کی وجہ سے ملک بنا یا ملک بننے کی وجہ سے وہ قربان ہوئے۔ یہی سوال لاکھوں عورتوں اور بچیوں کی عصمت دری کے حوالے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایک ملک بننے کی قیمت میں کتنی لاشوں اور عزتوں کا سودا منافع بخش کہلائے گا؟
    جواب: تحریک پاکستان قیام پاکستان بننے کے اعلان تک تو نہیں تھی، ظاہر ہے کہ ریاست نے عملی طور پر وجود میں آنا تھا. یہاں ایک بات تو یہ ہے کہ ہجرت نہ کرتے تو پھر آپ نے زیادہ شدت سے سوال کرنا تھا کہ دو قومی نظریہ تھا تو ہجرت کی نہ کی گئی دوسرے علاقوں سے، ہجرت تو بذات خود اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان اپنی الگ ریاست کےلیے دل و جان سے پرعزم اور ہر قربانی دینے کے لیے تیار تھے. دوسرا یہ کہ یہ سوال تو قاتلوں سے ہونا چاہیے، جن کی محبت آپ کو ستائے جا رہی ہے. مسلمانوں کا اپنے وطن میں آنا اسی تحریک کا حصہ ہی تھا اور قتل عام تحریک کے بعد نہیں بلکہ تحریک کے دوران بھی ہوا۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ یہ اعتراض صرف برصغیر کے مسلمانوں تک محدود کیوں؟ آزادی کی تحریک جہاں بھی چلی ہے، ایسے ہی قربانیاں دینی پڑی ہیں، امریکہ و سوویت یونین تک اور مشرقی تیمور سے جنوبی سوڈان تک، کوئی بھی خانہ جنگی سے پاک نہیں رہا. آج کی طاقتوں نے عراق سے افغانستان تک جمہوریت لانے کے نام پر لاکھوں لوگ قتل کر دیے تو اس جمہوریت اور جمہوری نظام کے بارے میں کیا کہیے گا۔ یہ تعین کرلیں ظالم کون ہے؟ ظالم تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ٹھہری اور مظلوم کو یہ کہا جارہا ہے کہ تمھیں کس نے کہا تھا کہ جمہوریت کی خلاف دو قومی نظریہ کا راگ الاپو، اب بھگتو جمہوری ظلم۔ کیا انصاف اور کیا جمہوریت ہے۔ ایک اور بات کہ کشمیر میں دو لاکھ شہید ہوئے، کیا وہ بھی اس نئے ملک میں آنے کے دوران شہید ہوئے۔ افسوس کہ مظلوم کو کوسا جاتا ہے اورظالم کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔

    سوال نمبر 10: ” خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی“ سے کون سی قوم مراد ہے؟ اور یہ کہاں قیام پذیر ہے؟
    جواب: یہ وہی قوم ہے جس کی فکر سے سیکولرزم کو خطرہ ہے ۔ اور وہ دن رات اسی تگ و دو میں ہے کہ اس فکر کو فضول سوالات کرکے مشتبہ بنایا جائے۔

    سوال نمبر 11: قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ کی اعلی قیادت میں جاگیرداروں، نوابزادوں، وڈیروں اور اشرافیہ کا کیا تناسب تھا؟ کیا یہ سب واقعی عوام کے غم میں گھلنے کے سبب ایک الگ مملکت کے قیام کے حامی تھے؟
    جواب: یہ سوال تو انھیں کرنا چاہیے جو خود جاگیردار کے حامی نہ ہوں. ہم نے دیکھا ہے کہ یہاں کی کمیونسٹ اور لبرل لابی بھٹو جیسے جاگیردار کی فدائی رہی ہے اور اس سے ان کی انقلابیت پر کوئی حرف نہیں آیا. پھر اگر برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت الگ وطن چاہتی تھی تو یہ خود جمہوری اصولوں کے عین مطابق تھا، اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ لیڈر بھٹو ہے یا نوازشریف. جہاں تک تناسب کی بات ہے تو یہ حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت مطالبہ پاکستان کی حامی تھی، اور پاکستان بننے کے بعد اپنی جاگیریں چھوڑ کر یہاں منتقل ہو گئی. کسی کے جاگیردار یا وڈیرہ ہونے سے اس کی کریڈیبیلیٹی پر کوئی حرف نہیں آتا۔ آج کسی بھی ملک کا لیڈر آپ کو غریب طبقے سے نظر نہیں آئے گا۔ اس کی سوچ کیا ہے اصل بات یہ ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اس طبقے نے وعدے پورے نہیں کیے اور ملک کی جڑیں کھوکھلا کرنے میں مصروف رہے. مگر آپ تو آج انھی جاگیرداروں اور جمہوری نظام کے حامی ہیں جس میں صرف وہی آسکتا ہے جس کی جیب میں کچھ ہے۔ جمہوریت کے جتنے نام لیوا آج آپ کو نظر آتے ہیں، کیا یہ عوام کے غم میں گھلے جا رہے ہیں۔ آج پاکستان میں جمہوریت سے مخلص دو چار ہی ہوں شاید لیکن جمہوریت کے غم میں گھلنے کےلیے ہر کوئی تیار بیٹھا ہے۔

    سوال نمبر 12: مسلم لیگ کے اولین اجلاس منعقدہ 1906ء میں تاج برطانیہ سے وفاداری کے بارے میں موقف کیا تھا؟
    جواب : سوال نمبر 2 کے جواب میں اس کا جواب موجود ہے اور بتایا گیا ہے کن کن ارتقائی مراحل سے گزر کر مسلم لیگ ایک منطقی حل ”قیام پاکستان“ تک پہنچی۔ لیکن اس سب کے باوجود مسلم لیگ کے قیام سے لے کر قیام پاکستان تک جو سب سے بڑا مقصد نظر آیا، وہ یہ تھا”مسلم قوم“ کا تحفظ۔ جو دو قومی نظریہ کی بنیاد ہی تھا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تحریک آزادی مختلف ارتقائی مراحل سے گزر کر حتمی نتیجے تک پہنچی. جب تاج برطانیہ سے ہی آزادی حاصل کر لی گئی تو یہ سوال ویسے ہی بےمعنی ہو جاتا ہے.

    سوال نمبر 13: اگر جواہر لال نہرو عوام کی فلاح کے لیے لینڈ ریفارمز ایکٹ انڈیا میں نافذ کر سکتا تھا تو ہماری حکومت کے ہاتھ کس نے باندھے تھے بلکہ کس نے آج تک باندھے ہوئے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ انڈیا میں جاگیرداریاں ختم ہو گئیں لیکن ہم آج بھی ایک جاگیردارانہ معاشرہ ہیں؟
    جواب: پاکستان میں یہ کام نہیں ہوسکا، اس کا افسوس ہے، یہ کام ہونا چاہیے تھا۔

    سوال نمبر 14: اگر 1919ء میں جلیانوالہ باغ میں 380 نہتوں کا قتل جنرل ڈائر، وائسرائے ہند اور ملکہ برطانیہ کے سر ہے تو اگست 1948ء میں بابڑہ میں حکومتی گولیوں سے مرنے والے 1300 نہتوں اور پھر مرنے والوں کے خاندانوں سے گولیوں کی قیمت تک وصول کرنے کا الزام خان عبدالقیوم اور گورنر جنرل پر رکھنا جائز ہو گا؟ یاد رہے کہ اس سانحے سے ایک ماہ قبل قائداعظم کی خواہش پر ڈاکٹر خان کی حکومت ختم کر کے خان عبدالقیوم کو اقتدار سونپا گیا تھا۔ کیا ایسے واقعات مثلا ڈھاکہ بنگلہ بھاشا فائرنگ 1952ء، لالو کھیت فائرنگ 1965ء، مشرقی پاکستان ملٹری ایکشن 1971ء، لیاقت باغ فائرنگ 1973ء، ٹیکسٹائل کالونی فائرنگ 1978ء، پکا قلعہ حیدر آباد فائرنگ 1989ء، 12 مئی کراچی فائرنگ 2007ء وغیرہ کو مطالعہ پاکستان کی کتب میں شامل کرنا چاہیے یا جلیانوالہ باغ ہر سینہ کوبی ہی کافی ہوگی؟

    جواب: تحریک پاکستان کی تاریخ میں تو وہی پڑھایا جائے گا جو اس وقت وقوع پذیر ہوا. حیرانی ہے کہ انگریز سرکار اور ہندو بنیے سے تو محبت ہے مگر اسلام اور پاکستان کے حوالے سے بس سوال ہی ہیں. سیدھا جواب تو یہ ہے کہ جب اس ملک میں آپ سیکولرزم نافذ کرلیں تب سیکولر مطالعہ پاکستان لکھ کر ان واقعات پر ماتم کیجیےگا، لیکن فی زمانہ جمہوریت کی اماں اور ابا کے دنیا پر ظلم و ستم ہی لکھ دیں۔ دنیا کی کوئی حکومت اپنے دفاع کے لیے کسی حد تک جاتی ہے، اس میں اکثر اوقات وہ انصاف کا دامن چھوڑ دیتی ہے۔ بغاوت کو کچلنا ہر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن بغاوت کو کچلنے اور قتل و غارت میں فرق ہوتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ جالیانوالہ باغ حملے سے پہلے ایک ایکٹ متعارف کرایا گیا، روولٹ ایکٹ، جس کا مقصد یہی تھا کہ آزادی کی لہر کا انجام دکھایا جائے، اور اصل مسئلہ ہے پری پلان قتل و غارت کی منصوبہ سازی، یہی ڈائر نے کیا تھا۔ چونکہ اس کو آئینی شکل دی گئی تھی اس لیے اس کی اتنی زیادہ مذمت کی گئی ورنہ اس سے پہلے برطانیہ نے لاکھوں مارے لیکن ایک آئینی شکل میں غنڈہ گردی کو متعارف کرانا ”جمہوریت کی بڑی اماں“ کے سر ہے۔ باقی جتنے واقعات نقل کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک کا جواب کافی ہوگا۔ 48ء میں کس نے ”جہاد پاکستان“ برائے ”افغانستان و کانگریس“ کے لیے لوگوں کو اکسایا۔ جب آپ کی حدود میں غیروں کے دیے ہوئے مال سے جہاد کا نام لے کر فساد پھیلایا جائے اور اس کی سرکوبی میں آپ لڑیں تو کیا یہ غلط ہوگا، ہرگز نہیں۔ آج کے دہشت گردوں سے پاکستان کی لڑائی دیکھ لیں، کیا یہ صحیح ہے یا نہیں۔ 30 سال بعد کوئی دانشور اس پر سوال اٹھائے گا؟

    سوال نمبر 15: 1947ء سے لے کر اب تک فسادات، دنگوں اور بم دھماکوں میں انڈیا میں کتنے مسلمان مرے ہیں او پاکستان میں کتنے؟ آپ چاہیں تو 1971ء کے مقتولوں کو جواب سے خارج کر سکتے ہیں؟ کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اگر ایک ملک میں مرنے والے مسلمان دوسرے ملک میں مرنے والوں سے کئی گنا کم ہوں تو اس ملک کو مسلمانوں کے لیے زیادہ محفوظ سمجھا جائے؟
    جواب: آپ انصاف چاہتے ہیں لیکن اپنے بنائے ہوئے خودساختہ قوانین کی روشنی میں جبکہ انصاف غیر جانبدارانہ ہی ہوتا ہے۔ آپ کا سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ جتنے غیر حربی لوگ انڈیا میں مارے گئے، ان کی تعداد اور پاکستان میں مارے جانے والوں کی تعداد کا موازنہ کیا جائے کیونکہ انسانی جان کسی کی بھی ہو وہ قیمتی ہے لیکن آپ نے صرف مسلمان کی قید لگائی جس سے خاص ذہن کی عکاسی ہوتی ہے۔ دوسری بات اگر مسلمان کی قید لگائی تو ٹھیک ہے پھر ہجرت کے دوران اور کشمیر میں مارے جانے والوں کو بھی شمال کریں اور پھر موازنہ کرلیں۔ اصل سوال تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ انڈیا میں اقلیتی افراد کے قتل عام اور پاکستان میں ہونے والے قتل عام کا موازنہ کیا جائے؟ جویقینا آپ نہیں کریں گے۔

    سوال نمبر 16: اگر آپ کو پتہ ہو کہ آپ کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں لیکن پھر بھی آپ خریداری کے لیے بازار جا پہنچیں اور خریداری کی کوشش بھی کریں تو کیا یہ طرز عمل دانش مندانہ کہلائے گا؟
    جواب: اگر جمہوریت کی جیب میں موجود کھوٹے سکوں کے باوجود ہمارے احباب جمہوری اقدار کے نفاذ کی کوشش کر رہے ہیں اور پھر بھی جمہوریت کی خریداری کے لیے کوشاں ہے توکیا اس کو دانش مندی کہا جائے گا۔ کبھی بھی کسی کے پاس سارے سکے کھوٹے نہیں ہوتے جیسے جمہوریت کے حامیوں کے پاس کچھ نظریاتی جمہوریت پسند موجود ہیں جو اپنے نظریہ سے مخلص ہیں اور وہ دن رات اس کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ تو کیا اس کو دانش مندی کہا جائے گا؟

  • پاکستان بطورِ اسلامی فلاحی ریاست اور نمایاں اعتراضات – سنگین زادران

    پاکستان بطورِ اسلامی فلاحی ریاست اور نمایاں اعتراضات – سنگین زادران

    13 جنوری 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں طلبہ سے خطاب کے دوران قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔“ ریاست پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ ایک ملک حاصل کر کے وہاں اسلامی اصولوں کے عین مطابق اسلامی فلاحی ریاست قائم کی جائے بلکل اسی طرح جیسے 14 سو سال قبل مدینہ نام کی ایک ریاست وجود میں آئی اور اسلامی معاشرے کو فروغ ملا۔ جب ہم اسلامی معاشرہ کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد مذہبی بحث و مباحثے والا معاشرہ نہیں ہوتا بلکہ اس معاشرے کا قیام ہوتا ہے جہاں اسلامی قوانین کی حد میں رہتے ہوئے شخصی آزادی حاصل ہو اور فرد کو مجموعی و انفرادی حیثیت میں ایسا ماحول میسر ہو جس میں بتدریج وہ بالیدگی اختیار کرتے ہوئے اپنی روح کو عرفان کی بلندیوں پر لے جا سکے۔

    یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی قوانین کی موجودگی میں یا ان کے اندر رہتے ہوئے کون سی شخصی آزادی ہے۔ جس کا سادہ اور حقیقت پر مبنی جواب یہ ہے کہ دنیا کا کون سا معاشرہ یا ملک ہے جو قوانین سے آزاد ہو؟ آزادی کی اپنی اپنی تعریف ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف انداز میں رائج ہے۔ کہیں پر انسان کی آزادی کا مطلب ہے جنسی آزادی، کہیں پر انسان کی آزادی کا مطلب ہے کہ افعال و اعمال میں کوئی شخص کسی دوسرے پر اثر انداز ہوئے بغیر جو مرضی کرنا چاہے کر لے۔ ایسے آزاد معاشروں کے اندر بھی قوانین ہیں جن کی پابندی لازم ہے۔ تو کیا وہ اقوام جو قوانین کی پابندی کرتی ہیں غیر آزاد کہلاتی ہیں؟ یقینا اس کا جواب ہر انسان نہیں میں ہی دے گا۔ کیونکہ فلاحِ انسانیت کےلیے بنائے گئے قوانین کی پاسداری اور ان کا احترام کرنا غلامی نہیں کہلاتا ہے۔ اسلامی فلاحی ریاست کے اندر معاشرے اور فرد کی انفرادی و اجتماعی فلاح اور بہتر عقلی و فکری نشو و نما کے اپنے الگ قوانین ہیں جیسے دیگر ریاستوں کے اپنے قوانین۔ فرق محض یہ ہے کہ دیگر اقوام فرد کےلیے فرد کے بنائے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں اور ہم مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کے بنائے افراد کےلیے قوانین بہتر ہیں بہ نسبت ان قوانین کے جو افراد افراد کےلیے بناتے ہیں۔ بطورِ انسان اگر میں کسی شخص کو یہ اختیار دیتا ہوں کہ میرے جینے کے ضابطے مقرر کرے تو وہ کس حیثیت سے وہ ضابطے طے کرے گا کیونکہ ہے تو وہ بھی ایک انسان ہی؟ اور اگر مجھے کہا جائے کہ کسی انسان کے میرے لیے مقرر کردہ ضابطے اور قوانین کی پیروی کروں تو میں کس حیثیت سے ان کی پیروی کرنے کا پابند ہوں؟

    ایک آفاقی حقیقت یہ بھی ہے کہ طاقت کے اپنے قوانین ہوتے ہیں اور طاقت کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں۔ کون ہے جو جھٹلا سکے کہ کمزور اور طاقتور انسان کے بنائے قانون میں سے نفاذ اسی کے قانون کا ہوتا ہے جو طاقتور ہے۔ 11/09 کے بعد چند سو افراد کے مرنے پر جو امریکہ نے افغانستان میں کیا، وہ طاقت کا قانون تھا۔ جو عراق میں امریکہ نے ویپین آف ماس ڈسٹرکشن کے نام پر کیا، وہ طاقت کی اخلاقیات تھیں۔ اوپینیئن ریسرچ بزنس سروے کے مطابق دس لاکھ سے زائد افراد امریکہ عراق جنگ میں مرے مگر طاقت کا قانون آج بھی اسے ایک تنازعہ قرار دیتا ہے۔ میڈیا میں امریکہ عراق جنگ کے بجائے امریکہ عراق تنازعے کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ 5 لاکھ کے لگ بھگ لوگ افغانستان میں مرے الگ ہیں۔ اقوامِ متحدہ کو دنیا کا سب سے بااثر ادارہ سمجھا جاتا ہے، کیا وہ بااثر ادارہ ان 15 لاکھ افراد میں سے کسی ایک کو بھی بچا سکا؟ چلیں امریکہ کے خلاف کوئی ایک عمل ثابت کر دیں جو اقوامِ متحدہ نے ان اموات کے بدلے کیا ہو۔ اتنی بڑی زمینی حقیقت کے باوجود کون ہے جو یہ تسلیم نہ کرے کہ طاقتور کا قانون کمزور کے قانون سے بالاتر ہوتا ہے۔ اس پر یہ کہنا کہ انسان کے انسان کےلیے بنائے قانون انسان کےلیے موزوں ہوتے ہیں، دراصل انسان کو انسان کا غلام بنانے کے مترداف ہے اور اس عیاری یا پھر سادگی پر محض مسکرایا ہی جا سکتا ہے۔

    تھیوری بھلے جتنی بھی کارآمد ہو تب تک محض تھیوری ہی قرار پاتی ہے جب تک اسے پریکٹیکل کی کسوٹی پر پرکھ نہ لیا جائے۔ کہنے کی حد تک ہم جتنا بھی کہہ لیں کہ ایک اسلامی معاشرہ فلاحِ انسانیت پر مبنی ہوتا ہے جب تک ہم اسے عملی طور پر جانچ نہ لیں، دوسروں کو مطمئن نہیں کر سکتے۔ تو اسلامی فلاحی ریاست کو 14 سو سال قبل دنیا کے سامنے بطور ماڈل پیش کیا جا چکا ہے۔ جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مدینے کی گلیوں میں لوگ خیرات و زکوٰۃ جھولیوں میں ڈال کر پھرا کرتے تھے مگر خیرات لینے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ یہاں پر ایک اعتراض یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ اسلامی فلاحی ریاست کا وہ نظریہ 14 سو سال پرانا ہے جو آج نافذالعمل نہیں ہو سکتا۔ میرے بھولے دانشور یہ بات کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ جس جمہوریت کو آج جدید نظام کہا جاتا ہے، یہ جمہوریت کا نظریہ بذاتِ خود 508 قبلِ مسیح متعارف ہوا۔ اس حساب سے جمہوریت کی عمر 2524 سال بنتی ہے جبکہ اسلامی نظریہ ریاست کی عمر محض 1437 برس ہے۔ تو ڈھائی ہزار سال قبل کے ایک نظریہ کو جدید قرار دے کر 14 سو برس قبل کے نظریہ کو زیادہ پرانا آخر کس بنیاد پر قرار دیا جا سکتا ہے؟ دوسرا اور مقبول ترین اعتراض جو اسلامی نظریاتی ریاست پر کیا جاتا ہے وہ جنگیں ہیں جو مختلف مسلمان حکمرانوں کے ادوار میں ہوئیں۔ اسلامی ادوار میں جنگ و جدل کا اعتراض یوں کیا جاتا ہے جیسے اسلامی فلاحی ریاست سے قبل تو تاریخ میں کوئی جنگ کبھی ہوئی ہی نہیں۔ پتھر کے زمانے سے لے کر اسلامی فلاحی ریاست کے قیام تک کوئی ایک بھی دور ایسا نہیں گزرا جس میں انسان نہ لڑا تو کیا وہ جنگیں بھی اسلامی ریاست کی وجہ سے تھیں؟ دوسرا اہم نکتہ جسے میرا آج کا معزز دانشور درخورِ اعتنا نہیں جانتا، وہ دنیا میں ہونے والی وہ جنگیں ہیں جو جمہوری ادوار میں جمہوریت پسند انسانوں نے لڑیں۔ اگر تقابلی انداز میں اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو ہم اس نتیجے پر بلا تامل پہنچ جائیں گے کہ جمہوریت اور دیگر نظاموں میں ہونے والی جنگیں اور انسانی جانوں کا ضیاع اس سے کئی گناہ زیادہ ہے جو اسلامی ادوار میں ہوا۔ جب ہم اس نکتے پر آتے ہیں تو ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ جمہوری ادوار میں لڑی جانے والی جنگیں جمہوریت کی وجہ سے نہیں تھیں بلکہ جنگ لڑنے والوں کی”اپنی مرضی“ تھی جبکہ اسلام جہاد کا حکم دیتا ہے۔

    اچھا جہاد آپ کا مسئلہ ہے بہت خوب۔ ٹھیک ہے جن جمہوری و غیر جمہوری جنگوں کے متعلق آپ یہ رائے قائم کیے بیٹھے ہیں کہ وہ لڑنے والوں کی”اپنی مرضی“ سے لڑی گئیں تھیں تو ان کی ”مرضی“ کو ڈیفائن کر دیں زرا۔ یہ جو ”ان کی مرضی“ تھی، وہ کیا تھی؟ کیا یہ محض جنگ و جدل کی خواہش تھی؟ کیا اقتدار کی خواہش تھی؟ کیا زمین اور وسائل کے قبضے کی خواہش تھی؟ کیا یہ طاقت کا نشہ تھا جو اس مرضی کا پسِ منظر تھا؟ ذرا وضاحت کر دیں اس مرضی کی۔ عقلی اعتبار سے جمہوریت اور قبلِ جمہوریت لڑی جانے والے تمام جنگوں کے اسباب و علت کا موازنہ جہاد کے اسباب و علت سے کریں اور پھر فیصلہ خود کر لیں کہ جہاد ممتاز ہے یا نہیں ہے۔ اس درخواست کے ساتھ کہ ذہنی کج روی کا جو مظاہرہ مغرب کی اقوام اسلامی نظریہ ریاست کے متعلق اپناتی ہیں اس سے اجتناب برت کر کوئی فیصلہ کیجیے گا۔

    یہ چند نمایاں اعتراضات تھے جو اسلامی فلاحی ریاست کے نام پر اکثر ان لوگوں کی طرف سے سننے میں آتے ہیں جن کی تعداد پہاڑ کے مقابلے میں رائی جیسی ہے۔ اسلامی فلاحی ریاست کا قیام ہی اس قوم کا نصب العین تھا جس کےلیے اس نے قربانیاں دیں۔ اور جلد یا بدیر یہ قوم اس نصب العین کو حاصل کر کے رہے گی۔ کسی کو گراں گزرتا ہے تو ضرور گزرے مگر اس زمانی حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا نا کہ قوم کے 80 فیصد سے زائد افراد اس ملک کو بطورِ اسلامی فلاحی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کے ڈنکے بجانے والے افراد کو پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے جب اس 80 فیصد کی بات کی جاتی ہے۔ حضور ان کی رائے کا بھی تو کوئی احترام ہونا چاہیے نا۔

  • مسجدوں اور اذانوں کا پاکستان – حامد کمال الدین

    مسجدوں اور اذانوں کا پاکستان – حامد کمال الدین

    حامد کمال پیش ازیں ہمارے شائع ہو چکے ایک مضمون ’’نیشنلزم اور انسان کے اندر کچھ طبعی جذبے‘‘ کے تسلسل میں۔

    ہمارے فقہاء بہت پہلے کہہ چکے، اصطلاحات میں کوئی تنگی نہیں۔ ایک ہی لفظ مختلف ادوار یا مختلف طبقوں میں مختلف معنیٰ دے، عین ممکن ہے اور اس میں چنداں مضائقہ نہیں۔ یہ بات بحث و جدل کا سبب نہیں بننی چاہیے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ کہاں ایک لفظ کا کیا مطلب لیا جاتا ہے۔ اصرار کریں تو حقائق پر نہ کہ لفظوں اور پیرائیوں پر۔ [pullquote]العِبْرَہُ بالمَعَانِي، لَا بِالالفَاظِ وَالمَبَانِي.[/pullquote]

    ایک علمی گفتگو کی حد تک تو بالکل ایسا ہے۔ رہ گیا الفاظ کا عوامی استعمال تو اصطلاحات ایک پھسلن بھی ہو سکتی ہے، یعنی یہ اندیشہ کہ ایک دَور یا ایک طبقے میں مستعمل ایک لفظ کا مفہوم آپ کسی دوسرے دَور یا دوسرے طبقے میں مستعمل اُسی لفظ کے مفہوم کے ساتھ خلط کر جائیں۔ یہاں سے؛ کچھ فکری وارداتیں ہو جانے کا امکان رہتا ہے۔ لہٰذا اصطلاحات کے مسئلہ کو اتنا سادہ لینا بھی درست نہیں۔
    اب مثلاً ’’قوم‘‘ کا لفظ حدیث میں کیا اُسی معنیٰ کے اندر استعمال ہوا ہے جو ’’نیشن‘‘ کے تحت ہمارے سیاسی استعمال میں آج ہے؟
    [pullquote]قُلْتُ يَا رَسُولَ اللّہ امِنَ الْعَصَبِيَّۃ انْ يُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَہ قَالَ لَا وَلَكِنْ مِنْ الْعَصَبِيَّۃ انْ يَنْصُرَ الرَّجُلُ قَوْمَہ عَلَى الظُّلْم [/pullquote]

    میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا یہ عصبیت شمار ہوگا کہ آدمی کو اپنی قوم سے محبت ہو؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ عصبیت شمار ہوگی یہ بات کہ آدمی اپنی قوم کا ظلم میں ساتھ دے‘‘۔’’

    یہاں ظاہر ہے قوم سے مراد پورے چار عناصر (آبادی، رقبہ، حکومت اور حاکمیتِ اعلیٰ) کے اجتماع سے سامنے آنے والی وہ ایک مخصوص انسانی وحدت نہیں جو ’’نیشن‘‘ کے زیرعنوان دورِحاضر میں معروف ہے، بلکہ ’’قوم‘‘ سے مراد یہاں وہی ہے جو آج سے ڈیڑھ دو صدی پہلے تک خاصے طبعی سے انداز میں آدمی کے ذہن میں آ جایا کرتی تھی۔ حدیث میں اس سے مراد اسی طرح کی اشیاء ہیں جیسے اُس زمانہ میں بنو تغلب، بنو بکر یا قحطان، ربیعہ اور مُضر وغیرہ۔ پس ضروری ہے کہ ’’قوم سے محبت‘‘ کا وہ حوالہ جو حدیث سے سمجھ آتا ہے، اپنے اُس طبعی معنیٰ پر رہے۔ اس کو فی زمانہ ’’نیشن‘‘ کا وہ مخصوص معنیٰ پہنانا جولفظ ’’قوم‘‘ کے اُس طبعی معنیٰ سے ہٹ کر ایک چیز ہے، درست نہ ہو گا۔ (اس نقطہ کو ذرا آگے چل کر ہم مزید کھولیں گے)۔ حدیث میں مذکورہ ’’قوم‘‘ سے مراد آدمی کی برادری یا ہم زبان یا ہم علاقہ لوگ رہیں گے۔ اب جہاں تک برادری، زبان یا علاقہ ایسی اشیاء کا تعلق ہے تو ان کو دیکھنے کا حوالہ بڑے قریب کا بھی ہو سکتا ہے اور خاصے دُور کا بھی۔ اپنی اپنی نسبت سے ایسا ہر دائرہ آدمی کی ’قوم‘ ہو گا۔ مثلاً ایک ہاشمی کےلیے قریش کے بقیہ خانوادوں کے مقابلے پر تو بنوہاشم ہی اس کی قوم ہوں گے لیکن کنانہ کے بقیہ گوتوں کے مقابلے پر پورا قریش اس کی قوم کہلائے گا۔ جبکہ عدنانی شاخوں کے مقابلے پر صرف قریش نہیں تمام کنانہ اور اس سے اوپر کی سطح پر تمام عدنان اس ’’ہاشمی‘‘ کی قوم ہو گا۔ علیٰ ھٰذالقیاس۔ (بڑے دائرے کے مقابلے پر چھوٹا دائرہ آدمی کی ’قوم‘ کہلائے گا)۔ یہ ہے حدیث میں آنے والے اِس لفظ کا مفہوم۔

    یہاں سے ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے، اور میں معذرت خواہ ہوں اگر کچھ لوگوں کے ’نیشنلسٹ‘ جذبات اس سے مجروح ہوں۔ وہ سوال یہ ہے کہ حدیث کا ذکر کردہ یہ طبعی ’محبت اور لگاؤ‘ جو آدمی کو اپنی ’قوم‘ سے ہو جاتا ہے، اس کا رخ اور ترتیب کیا ہے: آیا یہ لگاؤ ’وسیع‘ دائرہ سے جنم پا کر ’تنگ‘ کی طرف آئے گا یا ’تنگ‘ سے جنم پا کر ’وسیع‘ کی طرف جائے گا؟ دوسرے لفظوں میں، آدمی کی یہ ’طبعی محبت‘ اپنے قریب کے خونی رشتوں یا خاص اپنے محلے اور گاؤں کے لوگوں سے شروع ہو کر اپنے شہر اور اپنے صوبے وغیرہ سے ہوتی ہوئی اپنے ملک تک جائے گی؟ یا اپنے ملک سے شروع ہو کر اپنے صوبے اور اپنے شہر سے ہوتی ہوئی اپنے محلے اور گاؤں تک پہنچے گی؟ ظاہر ہے، محبت کا حوالہ اگر طبعی ہے (نظریاتی نہیں ہے) تو اس کا آغاز چھوٹے دائرہ سے ہو گا۔ یعنی سب سے پہلے آپ کو اپنا محلہ یا گاؤں پیارا ہوگا، پھر اپنا شہر، پھر اپنا صوبہ اور پھر اپنا ملک، پھر اس سے کوئی بڑا دائرہ (اگر ہو، جیسے مثلاً ’یورپی یونین‘ یا ’عرب لیگ‘ وغیرہ)۔ ’’طبعی محبت‘‘ کا رخ اس سے الٹ کبھی نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس طبعی محبت کے برعکس، ہم سب کے نزدیک یہ واجب اور ضروری ہے کہ لوگوں کو اپنے وسیع تر دائرہ ہی سے زیادہ محبت کی تاکید کرائی جائے۔

    دنیا میں پائے جانے والے تمام قومی و مِلّی فلسفے اس پر متفق ہیں کہ معاشرے میں ایک وسیع تر دائرہ کی محبت پر ایک تنگ تر دائرہ کی محبت کو قربان کر دینے ہی کی مسلسل تلقین کی جائے، اِسی سے انسان ’’بڑا‘‘ ہوتا ہے، باوجود اس حقیقت کے کہ ’’طبعی محبت‘‘ کا رخ اس سے برعکس ہے. بالفاظِ دیگر، کوئی محبت یہاں ضرور ایسی ہونی چاہیے جو آپ کی ’طبعی محبت‘ پر غالب ہو۔ اس کے بغیر انسانی اجتماعیتوں کا گزارا نہیں۔ نیز اس کے بغیر انسان کا خودغرضی سے چھٹکارا پانا متصور نہیں۔ خودغرضی یعنی خاص اپنی ذات یا اپنی جنس ہی کو بقیہ انسانوں پر ترجیح دینا۔ پس کوئی نہ کوئی دائرہ انسان کو ایسا رکھنا ہو گا جس پر اپنی ذات یا اپنی جنس کو ترجیح دینا اس کے حق میں عیب کہلائے اور وہ بار بار اس سے بلند ہو کر اپنے آپ کو ایک اعلیٰ مخلوق ثابت کرنے کی ’آزمائش‘ سے گزارا جائے۔ یہ ایک فارِق divider ہے جو اس کی ’’انسانیت‘‘ کو اس کی ’’حیوانیت‘‘ سے ممیّز کرتا ہے۔ وابستگی کے اِس بالا و برگزیدہ دائرہ کی گو اپنی ایک حد ہونی چاہیے، یہ بھی سبھی کا ماننا ہے۔ اس چیز کا نام ہماری تاریخی اصطلاح میں ’’ملت‘‘ ہے۔ انسان کی انسانیت کا ظہور کروانے کےلیے یہ ناگزیر ہے۔ سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ اِس خانہ کو اپنی حیاتِ اجتماعی میں آپ کس اعلیٰ چیز سے پُر کرتے ہیں؟ واضح رہے، اِس خانہ کو ختم کرنا آپ کے بس میں نہیں۔ اِس کو آپ نے پُر ہی کرنا ہے۔

    اب ایک بات تو یہ طے ہوئی کہ طبعی (جبلِّی) محبت بالکل اور چیز ہے جبکہ ہمارا اور ’جدید انسان‘ کا ما بہ النزاع ایک بالکل اور چیز۔ دوسرا، یہ طے ہوا کہ طبعی (جبلِّی) محبت کو قربان ہونا ہی ہونا ہے، اس سے مفر نہ ہم ’قدامت پسندوں‘ کو ہے اور نہ داعیانِ جدت کو۔ سوال بس یہ ہے کہ وہ محبت کیا ہو جس کا آدمی کی جبلِّی محبت پر غالب ہونا فرض رکھا جائے؟ وہ کیا حوالہ ہو جس پر آدمی کو اپنے خون، نسل، اقلیم اور زبان ایسے عزیز رشتے خوشی خوشی قربان کر دینے چاہییں، اور ا س کی دلیل کیا ہو؟ بھرنے کو تو میڈیا اور تعلیم آج جس چیز میں بھی رنگ بھر دے اور اسے ’یہی دستورِ دنیا ہے‘ (وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَلِكَ يَفْعَلُونَ) کا ایک ’ناقابلِ رد‘ سٹیٹس دلوا دے، یہاں تک کہ ایک ذہن سازی کے نتیجے میں پہلی و دوسری عالمی جنگ میں ہندوستانی ماؤں کے بچے تاجِ برطانیہ کی عظمت پر قربان ہونے کےلیے جاپان اور سنگاپور کی خاک چھاننے پہنچ جاتے ہیں، لیکن اس بات کی دلیل کیا ہو کہ کسی چیز کی عظمت پر لوگ اپنے طبعی رشتے اور وابستگیاں فخر سے وار دیا کریں؟

    ہم دیکھ آئے، لفظ ’’قوم‘‘ کا وہ جبلِّی مفہوم بالکل اور ہے جس میں اپنائیت اور لگاؤ کا حوالہ نیچے سے شروع ہو کر اوپر جاتا ہے، جبکہ اِسی لفظ کا یہ ’’نیشن‘‘ والا نظریاتی مفہوم جس میں اپنائیت اور لگاؤ کا حوالہ اوپر سے شروع ہو کر نیچے آتا ہے، بالکل اور ہے۔ بقیہ گفتگو میں اب ہم ان دونوں کو الگ الگ رکھیں گے۔ آسانیِ مبحث کی خاطر، پہلے کےلیے ہم بولتے ہیں: جبلِّی محبت، یا جبلِّی قوم جبکہ دوسرے کےلیے: نظریاتی محبت، یا نظریاتی قوم۔

    انسان کی زندگی میں ان دونوں چیزوں کی فی الحقیقت اپنی اپنی جگہ اور گنجائش ہے۔ حیاتِ اجتماعی کے اِن دو الگ الگ خانوں کو آپ نے الگ الگ ہی پُر کرنا ہوتا ہے۔ لفظ ’’قوم‘‘ کا ماڈرن استعمال ذرا دیر نظرانداز کر دیں تو انہی دو مفہومات کو الگ الگ ادا کرنے کےلیے ہمارے تاریخی استعمال میں دو لفظ رہے ہیں: ایک قوم، دوسرا ملت۔ قوم کا حوالہ جبلِّی اور ملت کا حوالہ نظریاتی۔ (’نظریاتی‘ یا ’نظریہ‘ کےلیے ہمارے ہاں ’عقیدہ‘ کا لفظ مستعمل رہا ہے)۔ حق یہ ہے کہ اِن دو لفظوں ’’قوم‘‘ اور ’’ملت‘‘ کو آج بھی آپ ان کے الگ الگ معانی میں استعمال کریں تو یہ اشکال ختم ہو جاتا ہے۔

    1) اول الذکر یعنی ’’قوم‘‘ آپ کو بہت عزیز ہوتی ہے، خود شریعت آپ کے اِس (طبعی و جبلِّی) جذبے کا بھرپور لحاظ کرتی ہے۔ بس اس کےلیے قید اتنی سی رکھتی ہے کہ اس کی محبت میں بہہ کر آپ دوسرے پر ظلم کرنے تک نہ چلے جائیں۔ خود اپنی قوم کو آپ حق اور انصاف کے اصولوں کا پابند رکھنے کا مکلَّف رہتے ہیں۔ مگر یہ (جبلِّی معنیٰ کی) ’’قوم‘‘ ایک لحاظ سے انسان کے حیوانی خصائص میں آتی ہے۔ یعنی اپنی جنس سے آدمی کا ایک تعلق اور اس کے مقابلے پر دوسری اجناس سے اس کا ایک بُعد، خودبخود، طبعی طور پر۔ یہ بھی ایک درجہ میں انسان کی ضرورت یقیناً ہے۔ جس طرح اپنے نفس کی محبت انسان میں سب سے زیادہ رکھی گئی ہے کیونکہ اسی سے زندگی کو تمام تر مہمیز ملتی ہے، اسی طرح اپنی اپنی جنس کے ساتھ لگاؤ انسانی زندگی کو ایک رنگا رنگ سرگرمی عطا کرتا ہے۔

    2) البتہ ’’ملت‘‘ اس کے مقابلے پر انسان کے خالص انسانی خصائص میں سے ہے۔ عقل و شعور ملا ہونے کے باعث انسان کو دراصل ’’اجتماع‘‘ اور ’’تعاونِ باہمی‘‘ کا ایک اعلیٰ تر تصور بھی عطا ہوا ہے۔ ایسے ایک ’’اجتماع‘‘ اور ’’تعاون‘‘ کا حوالہ انسان کے ’’نظریات‘‘ اور ’’مقاصد‘‘ ہوتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر ’’ملتیں‘‘ وجود میں آتی ہیں۔ جس قسم کے ’’نظریات‘‘ اور ’’مقاصد‘‘ انسان کی اختیارکردہ ’’اجتماعیت‘‘ میں کارفرما ہوں گے اسی درجہ کی ’’ملت‘‘ پر وہ پایا جائے گا۔ چونکہ لازم ہے کہ انسان کے انسانی خصائص اس کے بہیمی خصائص پر حاوی ہو کر رہیں، اس لیے واجب ہوا کہ انسان کی ’’ملت‘‘ اس کی ’’قوم‘‘ پر مقدم ہو۔ اصولاً اس پر نہ اہل مشرق کو اعتراض ہے نہ اہل مغرب کو۔ قدیم انسان کو اور نہ جدید انسان کو۔ فرق صرف یہاں سے آتا ہے کہ ’’ملت‘‘ کا خانہ آپ کس چیز سے پُر کرتے ہیں۔

    ایک خلط ہمارے ہاں پیدا ہوتا ہے جب ہم ’’نیشن‘‘ کا مطلب ایک روایتی (و جبلِّی) معنیٰ کی ’’قوم‘‘ کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ہماری روایتی لغت میں ’’نیشن‘‘ کا معنیٰ ادا کرنے کےلیے ایک اور لفظ قدرے مناسب تر پایا گیا ہے اور وہ ہے ’’ملت‘‘۔ اس ’’ملت‘‘ کی بنیاد آج ’’ریاست‘‘ ہے تو وہ اس لیے کہ ’’ریاست‘‘ اِس جدید انسان کا دین ہے نہ کہ محض ایک انتظامی اکائی۔ یہ ’’ریاست‘‘ چرچ کو انسان کی زندگی میں مرکزی ترین حیثیت رکھنے کے اُس پرانے منصب سے معزول کر کے اور ’’چرچ‘‘ کی جگہ یہاں پر خود کو رونق افروز کروا کر سامنے آئی ہے۔ اب ’’ریاست‘‘ محض کسی حکومتی انتظامِ کار کا نام نہیں؛ اب یہ انسان کی نظریاتی وفاداری اور جہان میں اس کا باقاعدہ تشخص ہے۔ یوں ’’ملت‘‘ اب بھی انسان کے قوم، قبیلہ، رنگ اور نسل وغیرہ ایسی جبلِّی اشیاء پر غالب رہی۔ فرق یہ آیا کہ ’’ملت‘‘ اپنے وجود کےلیے اب ’’چرچ‘‘ نہیں بلکہ ’’ریاست‘‘ سے رجوع کرنے لگی ہے۔ غرض جدید انسان کا دین بدلا، خدا بدلا، تو کیسے ہو سکتا تھا کہ اس کی ملت نہ بدلتی؟ اِس کا خدا چونکہ دھرتی پر ہی آ بیٹھا ہے اور اِس کا دین اِس دھرتی والے خدا ہی کو زیادہ سے زیادہ آسودہ کرنا، لہٰذا اِس کی ’’ملت‘‘ بھی اِسی دھرتی سے وابستہ ٹھہری۔ پس ملت بدل گئی، یہ درست ہے۔ ملت کا حوالہ اب آسمان نہیں رہا بلکہ دھرتی ہو گئی، یہ سچ ہے۔ لیکن ملت انسان کی جبلِّی وابستگیوں پر غالب رہے گی، یہ چیز ویسے کی ویسے برقرار ہے۔ اور یہ چیز کبھی نہیں بدلے گی۔ انسان کی نظریاتی وابستگی اس کے ہر رشتے اور تعلق پر بالاتر رہے گی، یہ بات کل بھی سچ تھی اور آج بھی سچ ہے۔ ’’معاشرے‘‘ نام کی چیز اس کے بغیر پائی ہی نہیں جا سکتی؛ کیونکہ ’’معاشرہ‘‘ خالصتاً ایک انسانی عمل ہے اور ’ریوڑ‘ سے خاصی منفرد ایک چیز۔

    عالم اسلام میں آئیں تو سب کشمکش آج اس پر ہے، اور ہوگی، کہ ہم اپنی اُسی ملت پر اصرار کریں جو چودہ سو سال سے ہماری نظریاتی تشکیل کرتی آئی؛ اور اُن کے دیے ہوئے اِس نئے تصورِ ملت کو اپنے لیے قبول نہ کریں۔ ’اپنی ملت کو قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کرنے‘ کا اپنا وہ کھلم کھلا اعلان نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ اس کے عملی اطلاقات کی طرف پورے اعتماد، جرأت، اور بےپروائی سے بڑھیں اور اسی کی بنیاد پر یہاں اپنی اجتماعی زندگی کی بلند و بالا تعمیرات اٹھائیں، خواہ اسلام کی اِس (مِلّی) حیثیت کو ناپید کروانے کے خواہشمند جہان میں ہماری اس سرگرمی کو کتنا ہی ناپسند کریں. ہاں یہ ایک بڑا میدانِ جنگ ہے جو دو نظریوں کے مابین ابھی مزید سجے گا، عالمی طور پر بھی اور کسی حد تک مقامی طور پر بھی۔ بقیہ مضمون میں اب ہم اس پر کچھ بات کریں گے۔

    لوگوں کا خیال ہے کہ ’’نیشن‘‘ (ملت) کےلیے صحیح حوالہ تجویز کرنے پر دنیائے اسلام نے اتباعِ مغرب کا طوق برضا و رغبت پہن لیا ہے، اور یہ کہ عالمِ اسلام میں یہ معاملہ حتمی طور پر سرے لگ چکا مگر یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ایک بڑی خلقت یہاں اپنے ملک سے محبت کرتی ہے۔ بہ برحق ہے۔ اپنی سب جبلِّی وابستگیوں (مانند قوم، نسل، زبان اور اقلیم وغیرہ) کو اس ملک پر ہم ہزار بار قربان کرتے ہیں، بلکہ جتنا ہم اپنے ملک کو چاہتے ہیں اتنا کوئی قوم اپنے ملک کو چاہ ہی نہیں سکتی، کیونکہ اُن کی چاہت کا کُل حوالہ یہی دنیا کی فانی محبتیں ہیں جبکہ ہماری محبت کا حوالہ اِس دنیاو ما فیہا سے بڑا۔ (ایک ایسی چیز جو خدا و آخرت پر ایمان نہ رکھنے والی قوم کو کبھی عطا نہیں ہو سکتی)۔ مگر یہ خلقتِ حق اپنےاِس لازوال رشتے کو جو نام اور حوالہ دیتی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ یہ ان تمام حوالوں سے منفرد ہے جو مغرب کی چربہ قوموں کے ہاں چلتا ہے، اور یہ ہے لاالٰہ الا اللہ۔

    بےشک آپ چند (لبرل) لوگ اس لڑی کو جو پٹھان، پنجابی، سندھی اور بلوچی کو ایک وحدت میں پروتی ہے، کوئی بھی حوالہ دیں، حتیٰ کہ اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ اِس ملک کو بناتے وقت چند لوگوں کا حوالہ لا الٰہ الا اللہ کے ماسوا کوئی چیز رہا تھا، اور بےشک وہ چند لوگ یہاں ڈھیروں اختیارات کے مالک بھی چلے آئے ہوں یہاں تک کہ تعلیم و ابلاغ کی بہت سی تاریں آج بھی انہی کی ہلائی ہلتی ہوں. اس کے باوجود ایک خلقتِ عظیم اِس ملک کو بنانے سے لے کر آج تک اس کی روح لاالٰہ الا اللہ میں دیکھتی ہے۔ یہاں کے ایک فرد کو دوسرے سے اور یہاں کی ایک نسلی یا لسانی یا اقلیمی اکائی کو دوسری سے جوڑنے کا حوالہ وہ لا الٰہ الا اللہ کے سوا کسی چیز میں نہیں پاتی۔ اور اسی لاالٰہ الا اللہ پر ان کے اعتقاد کو پختہ کرانے میں اس لڑی کے پختہ سے پختہ تر ہونے کا راز چھپا ہے۔ یہاں کی مختلف اجناس کو ایک ’’نیشن‘‘ ٹھہرا دینے والی چیز اس خلقت کی نظر میں سوائے اِن کے دین کے کچھ نہیں ہے۔ خود یہ دین اِن کو ایک ہونے اور ایک رہنے کا حکم دیتا ہے اور اِن کا ٹکڑیوں میں بٹا ہونے کو اِن پر شیطان کا وار چل جانے سے تعبیر کرتا ہے۔ پس یہاں کی رنگارنگ اجناس کی اِس باہمی محبت، مودت اور وابستگی کا حوالہ یہاں بدستور ’’خدا اور رسولؐ‘‘ رہتا ہے اور یہی اِس قوم کو متحد اور اٹوٹ اکائی بنا رکھنے والے عناصر میں مضبوط ترین۔ اِس کے سوا بہت کچھ ہو گا مگر سب اِس ایک حوالہ کے بعد اور اِس کے تابع۔

    ’جدید انسان‘ کے نقطۂ نگاہ سے ظاہر ہے یہ ایک بڑا خلطِ مبحث ہے، بلکہ تڑپ اٹھنے کی بات! اس کے نزدیک ’’نیشن‘‘ نام ہے ایک ایسی انسانی اجتماعی اکائی کا جو اپنا کوئی حوالہ ’مذہب‘ سے تو بالکل نہ لے (جبکہ ’نسل‘، ’لسان‘ اور ’اقلیم‘ سے وہ پہلے ہی نہیں لے سکتی، کیونکہ ’’نیشن‘‘ اس کی نظر میں ان وابستگیوں سے بلند تر ایک چیز ہے، جیساکہ پیچھے گزر چکا۔ پھر وہ اپنا حوالہ کس چیز سے لے؟ ’مادی مفادات کا حصول ممکن بنا رکھنے والی ایک جداگانہ اکائی‘ کے سوا اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے؟ کہ جس کی محبت اور اپنائیت ownership میں ہندو، مسلمان، پارسی، عیسائی، سکھ، یہودی اور ملحد یکساں رہیں اور یہاں اپنی تعداد و نفوذ سے قطعی بےلحاظ، خالص قومی جذبے و اجتماعی اسپرٹ سے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے قدم سے قدم ملا دل سے دل جوڑ چلتے جائیں اور ایک دوسرے پر فدا ہونے کی اعلیٰ سے اعلیٰ داستانیں رقم کریں)۔ یعنی ایک چیز کےلیے ان کو جینا اور مرنا تو ہے، اور جہان میں اسی کو اپنا اجتماعی وجود اور تشخص بھی ٹھہرانا ہے، لیکن اس کا کوئی تعلق ہرگز ہرگز آسمان سے نہیں جوڑنا (نیز کسی جبلِّی رشتے سے بھی نہیں جوڑنا، جوکہ اِس ماڈرن نیشنلزم کی تشخیص میں نہایت نوٹ کرنے کی چیز ہے، اور جس پر کچھ گفتگو پیچھے ہو چکی)۔

    یہ جتھہ بندی جدید انسان (اور خود ہمارے اسلامی جدت پسند) کے نزدیک فرض تو ہے اور اس پر اپنی ذات، برادری، نسل، لسان اور علاقے سمیت اپنے عزیز سے عزیز رشتے کو قربان کر دینا یہاں بسنے والے انسانوں پر واجب (بلکہ اَوجبُ الواجبات)۔ لیکن ایسی کسی الفت اور یگانگت کا قوی ترین حوالہ خدا اور رسولؐ کو مانا گیا ہو اور اس ’’پاکستان‘‘ کا مطلب کیا لاالٰہ الااللہ کا وِرد ان کے یہاں تھمنے کا نام نہ لیتا ہو؟ یہ اگر کسی بات کی دلیل ہے تو وہ یہ کہ ’عجم ہنوز نہ داند رموزِ نیشنلزم‘! اتنا پڑھا سکھا لینا گویا اِس قوم پر بےاثر ہی رہا، یہ برابر اپنے اجتماعی رشتوں میں ’دھرتی‘ اور ’مادہ‘ کے ماسوا حوالے گھسیٹ لاتی ہے (جنہیں یہ ’دھرتی‘ اور ’مادہ‘ پر مقدم جاننے کا پاپ بھی کثرت سے کرتی ہے۔ یوں عالمی معیاروں کے ساتھ ساتھ یہاں کے اسلامی جدت پسندوں کےلیے باعثِ آزار چلی آتی ہے)! اِس کو اتنا پڑھا سکھا لیا کہ ’’خدا اور رسولؐ‘‘ کو یہ اپنے اِس ’مقدس‘ رشتے سے یکسر باہر کر دے اور محض ایک مادی دائرے کو ہی اپنی اجتماعی زندگی کی کُل کائنات جانے اور اسی پر فدا ہو ہو کر بےحال ہو… مگر یہ ’’خدا اور رسولؐ‘‘ کو چھوڑ کر ’ملت‘ میں گم ہونے پر آتی ہی نہیں! ’’خدا اور رسولؐ‘‘ کو اپنی اجتماعی زندگی میں ایک نہایت ’پرائیویٹ مسئلہ‘ ٹھہرا دینے پر یہ ابھی تک آمادہ نہیں! اندازہ کر لیجئے، دو سو سال کی شبانہ روز تعلیم، اور تاحال یہ پسماندگی اور ہٹ دھرمی! کتنا اور پڑھایا جائے اِس کو اور کس دن کی آس رکھی جائے!

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جدید انسان ’’نیشن‘‘ والے اِس مسئلہ پر کوئی حوالہ ’مذہب‘ سے نہ لینے میں کم از کم کسی تضاد کا شکار نہیں ہے۔ البتہ ہمارا اسلامی جدت پسند ’’نیشن‘‘ کے اِس تصور پر جسے مذہب سے کوئی حوالہ نہیں لینا، احادیث میں وارد ’’الجماعۃ‘‘ کا اطلاق کرنا نہیں بھولتا!

    غرض پاکستان سے محبت میں ایک کثیر خلقت یہاں جو بنیاد رکھتی ہے وہ اپنی نہاد میں ملت کے اُس تصور پر کھڑی ہے جو اِس کے دین اور اِس کی تاریخ سے چلا آتا ہے اور جوکہ مغرب کے دیے ہوئے اصولِ اجتماع کے ساتھ ایک جوہری تصادم رکھتا ہے۔ ہاں اس بات سے ہمیں انکار نہیں کہ مناسب اسلامی تعلیم نہ ہونے کے باعث، نیز خارجی تعلیمی اثرات کے تحت، اِس معاملہ کی تفصیلات میں یہ اپنی اشیاء کو مغرب کی اشیاء کے ساتھ کہیں کہیں گڈمڈ بھی کر بیٹھی ہے۔ نتیجتاً اسلام اور نیشنلزم کا کچھ خلط بعض نیک طبقوں کے یہاں نظر آ جانا مستبعَد نہیں۔ مگر یہ کچھ جزئیات یا تعبیرات کی حد تک ہو سکتا ہے۔ بنیاد خاصی سلامت ہے۔ یہاں کا کوئی بھی نمازی اللہ کا شکر ہے ایسا نہیں جو نری دھرتی پر مرتا ہو۔ وہ اِن وادیوں اور کہساروں کو اور اِن دریاؤں سے سیراب ہونے والے کھیتوں اور کھلیانوں کو پہلے اپنی نماز اور سجدہ گاہ سے جوڑتا ہےاور یہاں گونجتی اذانوں اور بلند ہوتی تکبیرات پر فدا ہوتا ہے اور پھر اِس ’’اسلام کے دیس‘‘ کو ہر میلی آنکھ سے تحفظ دلانے کے لیے بےچین ہوتا اور اس مقصد کی خاطر اپنا جان مال اور جگرگوشے پیش کر دینے نیز اِس کی تعمیر و ترقی کےلیے سرگرم ہونے کو اپنے حق میں باعثِ سعادت جانتا ہے۔ بتائیے اس میں نیشنلزم کہاں ہے؟ کچھ مسائل آئے ہوں گے تفصیلات یا تطبیقات میں۔ ان اشیاء کی تنقیح اب جتنی بھی ضروری ہو، مگر میرے نزدیک یہ وقت ہے کہ اُس اصولی بنیاد ہی کو پختہ کرایا جائےجو دو سو سال کا ’تعلیمی تیزاب‘ سہہ لینے کے بعد بھی اذہان سے محو نہ ہو سکی (گو ایک حد تک متاثر ہوئی ہے) مگر اب تو اِس پر کلہاڑے برسائے جانے لگے ہیں۔ خصوصاً جبکہ تفصیلات میں ایک بڑا دائرہ فقہی آراء کا بھی رہے گا جن میں عام خلقت کو الجھانا درست ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس دائرہ میں تو فی الحال جس بھی علمی گروہ کی راہنمائی اِس قوم کو میسر ہو، عوامی سطح پر اسی پر اکتفاء کروانا چاہئے خواہ آپ کی اپنی رائے اس سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہو۔ ہاں وقت گزرنے کے ساتھ اس میں بھی پختگی اور بہتری لائی جا سکتی ہے؛ جس کےلیے علمی رویوں کو پروان چڑھانا اور صبر و حوصلہ سےکام لینا ہو گا۔ داعیوں کی اصل توجہ فی الوقت جس چیز پر مرکوز ہونی چاہیے، وہ ہے اصولِ اجتماع میں مغرب کی دی ہوئی بنیادوں کا اِبطال اور اسلام کی دی ہوئی بنیادوں کا اِحیاء۔ نیز ان رجحانات کی حوصلہ شکنی جو اِن دو متضاد عقیدوں کو گانٹھنے اور ایک بنا کر پیش کرنے میں مصروف ہیں ۔

    رہی اس کی تفصیلات تو ان کے بہت سے ایریاز areas ایسے رہیں گے جن میں جانا یا تو اِس وقت ہماری ضرورت نہیں، یا ہماری انتہائی محدود توانائی ان بحثوں کی متحمل نہیں، یا پھر وہ فقہی آراء کا محل ہے جس میں قبولِ اختلاف ہمارا پرانا دستور چلا آتا ہے۔ پس تفصیلات میں بھی انہی ایریاز areas تک رہنا ہو گا جو اِس حالتِ اژدہام کو ختم کرانے اور لوگوں کو ایک بڑی شاہراہ پر چڑھا لانے کےلیے فی الوقت ناگزیر ہیں اور جن میں ہماری ابلاغی محنت عوام کو دلجمعی اور یکسوئی دے نہ کہ پہلے سے بڑھ کر الجھنیں اور بحثیں۔ دینی طبقے کی چونچیں آپس میں الجھتی دیکھنے سے بڑھ کر کوئی چیز اس وقت لبرل کو خوش کرنے والی نہیں۔ کلیرٹی clarity اِس موقع پر ہمارا بہت بڑا ہتھیار ہو گا۔ عملاً یہ اسی صورت ممکن ہے کہ دعوت کو اندریں حالات اصولی اشیاء پر ہی زیادہ سے زیادہ فوکس رکھوایا جائے، خواہ نصابیات کے شائقین یا یہاں کے جذباتی طبقے ہماری اِس سٹرٹیجی سے کتنی ہی بےچینی و عدم تشفی محسوس کریں۔ ہمیں ایک جنگ درپیش ہے، جس میں سبھی طبقوں کو اینٹرٹین entertain کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک مغربی مفکر کا کہنا ’ابھی میں صرف جنگ کروں گا، اس امکان کو پیدا کرانے کےلیے کہ کل میرا بیٹا یونیورسٹی میں پڑھے‘۔

    ہمارا کُل سامنا encounter یہاں کے لبرل بیانیہ سے ہے۔ تاہم دو ’مذہبی‘ رجحانات ایسے ہیں جو ہمارے اسلامی مواقف کو یا تو تفریط اور یا پھر اِفراط کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔ یوں عملاً ہمارا راستہ بند کر دیتے اور نادانستہ ہمارے مدمقابل کا راستہ وسیع اور آسان کر دیتے ہیں:

    1) پہلا گروہ ہمیں آگے بڑھانا چاہتا ہے مگر مغرب کے راستے میں۔ یہ ہمارے ریاست کےلیے ’اسلامی‘ کا لفظ ہی بول دینے پر چیخ اٹھتا اور یہاں کی قراردادِ مقاصد تک کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے۔ نیشن اور اجتماع کے تصور کو دین سے برآمد کرنے پر ہی بنیاد سے معترض ہے۔ (حق تو یہ ہے کہ اعتراضات کے معاملہ میں یہ طبقہ ہمارے دورِسلف و صحابہؓ تک پیچھے جاتا اور پورے دین کی ایک نئی تعبیر دینے کےلیے کوشاں ہے)۔ سقوطِ بنگال کو یہاں پائے جانے والے دو قومی نظریے کے بطلان پر ایک قوی دلیل یا اس کی ناکامی و بےبسی پر ایک حوصلہ شکن مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اصولِ اجتماع کے موضوع پر اس کے کھڑے کیے ہوئے کچھ اشکالات ، جو تاحال ہمارے زیربحث نہیں آئے، ان پر ابھی ہمیں کچھ بات کرنی ہے۔

    2) دوسری جانب ایک گروہ ’خلافت‘ وغیرہ کے زیرعنوان ہمیں کچھ ایسے راستوں پر چلانے میں دلچسپی رکھتا ہے جو دنیا میں کہیں موجود ہی نہیں ہیں اور ایک غیر معینہ مدت تک ان کا نشان ملنا بھی مشکل ہے۔ خلافت سر آنکھوں پر۔ لیکن پچھلے کئی عشروں پر محیط بند کمروں کی محنت سے اس طبقہ نے یہ موضوع کچھ ایسا الجھا دیا ہے کہ ہمارے مخلص و باصلاحیت نوجوانوں کی بڑی تعداد ایک حسین یوٹوپیا میں بسنے لگی ہے۔ یہ طبقہ ’’امکان‘‘ اور ’’مثالیت‘‘ کو بری طرح خلط کرتا ہے۔ جب بھی ہم یہاں کے پنجابی، بلوچی، سندھی اور پختونی کے رشتے کو خالص اسلام اور لاالٰہ الا اللہ پر کھڑا کرنے کی بات کرتے ہیں، اور جوکہ اندریں حالات ہمارے لیے امکان کا ایک حقیقی دائرہ اور محنت کا ایک باقاعدہ میدان فراہم کرتا ہے، یہ نیک طبقہ فوراً معترض ہوتا ہے کہ مراکش کا صوبہ طنجہ اور فلپائن کا جزیرہ منڈاناؤ ساتھ کیوں نہیں! اس کے خیال میں ان ناممکنات اور ممکنات کا اکٹھا ذکر نہ کرنا ہی ’’نیشنلزم‘‘ ہے! یہی نہیں بلکہ اس کی اٹھائی ہوئی الجھنوں نے ہمارے مدمقابل فریق کو ہمارے کیس پر طعن کے کچھ تُند و تیز فقرے بھی عطا کر دیے ہیں۔ چنانچہ جب بھی ہم پنجابی اور بلوچی کے مابین رشتۂ لا الٰہ الا اللہ کی بات کرتے ہیں یہاں کا لبرل بھی ہمیں یہاں سے نکال کر ’مراکش‘ اور ’انڈونیشیا‘ کی طرف بھیج دینے کی کوشش کرتا ہے۔

    پہلا رجحان تفریط تو دوسرا اِفراط۔ اپنے اِن دونوں قابل احترام طبقوں کے ساتھ بھی اِس موقع پر ہمارا کوئی بحث کرنا نہیں بنتا۔ بس جس حد تک یہ دونوں ہمارے فریقِ مقابل کا راستہ آسان کرتے ہیں اس حد تک اِن کا رد کرنا ہماری مجبوری ہے۔ اِن دونوں رجحانات پر الگ الگ مضمون میں ہم کچھ بات کریں گے۔ ان شاء اللہ

  • عامر خاکوانی صاحب سے ملاقات کا احوال – زوہیب زیبی

    عامر خاکوانی صاحب سے ملاقات کا احوال – زوہیب زیبی

    زوہیب زیبی الحمدللہ محترم عامر ہاشم خاکوانی صاحب سے پاکستان پر فتنہ لادینیت کی یلغار اور اس کے سدّباب کے حوالے سے 4 گھنٹوں پر مشتمل ایک بھرپور نشست منعقد ہوئی جس میں سیکولرز کی طرف سے اپنی حدود پھلانگنے کی وجوہات اور انہیں واپس ان کی حدود میں دھکیلنے کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا۔ خاکوانی صاحب نے اپنے مشاہدے و فراست کے مطابق مختلف مشوروں سے نوازا نیز انتہائی اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوران نشست ہی ممکنہ مدد و تعاون کی فراہمی کا آغاز بھی کردیا۔ ان سے مل کر ایک بات پر اطمینان ہوا اور ایک لحاظ سے ڈھارس بندھی کہ پرنٹ میڈیا میں ایسے صحافیوں کی ایک معقول تعداد موجود ہے جو سیکولرازم کو اسلام کا متبادل نہیں سمجھتی ہے، اسلامی عقیدے اور نظریے پر سختی سے کاربند ہے اور اس کے لیے کام کرنے کو تیار ہے۔

    خاکوانی صاحب کے بارے میں ان کی تحاریر کی روشنی میں جیسا اندازہ قائم کیا تھا، انھیں اس سے کہیں بڑھ کر پایا۔ بلاشبہ وہ مخلص انسان، سچے پاکستانی، اسلام پسند مسلمان اور معتدل مزاج صحافی ہیں۔ ان کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ہم مسلمانوں کے دل کی آواز یعنی دوسرے اوریا مقبول جان بن کر ابھریں گے۔ اگرچہ آغاز نشست میں قدرے تکلف تھا مگر پرتکلف عشائیے کے دوران سارے تکلفات مٹ گئے اور پھر ان سے کھل کر گوناگوں موضوعات پر گفتگو ہوئی۔

    خاکوانی صاحب کی جو بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے، وہ ان کی آخری حد تک معتدل مزاجی ہے۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے ہر سوال کا جواب نیز کسی بھی دیگر معاملے میں قول وسط ہی اختیار کیا۔ ناچیز کے پاک فوج کے حوالے سے جو اشکالات تھے بشمول ممتاز قادری رحمہ اللہ کا حکومت کی جانب سے پرفریب قتل وغیرہ، ان کو بھی بہت حد تک دور کرنے کی کوشش کی نیز بالخصوص آرمی چیف کے بارے ایک قدرے تلخ اعتراض کا بھی اپنی معتدل مزاجی سے بہت حد تک دفاع ہی کیا۔ ان کے علاوہ کچھ باتیں نہاں از دستاویزات ”Off the record“ ہونے کے سبب بیان نہیں کی جا سکتیں۔

    خوش قسمتی سے خاکوانی صاحب ہماری اینٹی سیکولرازم موومنٹ سے قدرے آگاہ ہونے کے سبب ناچیز سے پہلے ہی غائبانہ متعارف تھے، چنانچہ نام و پہچان سنتے ہی نہایت شفقت سے ملے اور سوشل میڈیا کی مہم کو تیز کرنے کے لیے اپنی انقلابی ویب سائٹ جو کہ بلاشبہ اس وقت کی اہم ضرورت ہے یعنی دلیل داٹ پی کے سے متعلق حتی المقدور تحاریر و تجاویز بھیجنے کا حکم بھی دیا۔

    دوران گفتگو ایک بار کہنے لگے”میری یادداشت، میرے جسم کی مانند ہاتھی جیسی ہے.“ ۔ الغرض کہ جوں جوں وقت گزرتا گیا، میں ان کی شخصیت میں موجود انکساری و سادگی کا قائل ہوتا گیا اور وقت رخصت میں صدق دل سے یہ جملہ کہنے سے نہ رک سکا؛
    ”Sir ! No doubt you are a great person“
    دعا ہے کہ خاکوانی صاحب اپنی صلاحیتوں کو مزید بہتر طور پر نیک مقاصد کے لیے استعمال کرسکیں ۔۔ آمین

  • نظریہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ – غلام نبی مدنی

    نظریہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ – غلام نبی مدنی

    غلام نبی مدنی پروپیگنڈہ ایٹم بم سے زیادہ مہلک ہتھیار ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو فریب دے کر ان کے پختہ عقائد و نظریات کے بارے شک میں ڈالنا ہوتا ہے۔ دنیا میں آج سیکولرز کی طرف سے یہ کہاوت مشہور ہے کہ ’’جھوٹ کو اتنا اور بار بار پھیلاؤ کہ لوگ اسے قبول کر لیں‘‘ اسی طرح یہ بھی مشہور ہے کہ ’’اگر تم اپنے مخالف کو قائل نہیں کر سکتے تو کم از کم اسے الجھا دو، تا کہ اس کی یکسوئی برقرار نہ رہے۔‘‘

    پروپیگنڈے کا عالمی چیمپئن استعمار ہے جس نے بڑی چالاکی سے دنیا کو محکوم اور غلام بنانے کے لیے ایکا کیا، پھر لوگوں کو مختلف گروہوں اور پارٹیوں میں تقسیم کر کے لسانیت، عصبیت اور پروپیگنڈے کی تحریک کو خوب بڑھکایا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں پروپیگنڈے کا زیادہ تر استعمال سیاسی مقاصد کے لیے کیا جاتاہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے لوگوں میں جھوٹ اور کچھ سچ ملا کر ایسا پھیلاتی ہیں کہ ہر آدمی جھوٹ کو سچ سمجھنے لگتا ہے۔ اس وقت دنیا میں بین الاقوامی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کا خوب استعمال کیا جا رہا ہے۔ پہلے مسلمان اور کافر دوبدو ایک دوسرے کے حریف بن کر لڑتے تھے، پھر استعمار نے دھوکہ دہی سے عالم اسلام پر دراندازیاں کر کے خون کی ندیاں بہائیں اور اکیسویں صدی کے اس پرفتن دور میں استعمار نے’’پروپیگنڈے‘‘ کی صورت عالم اسلام کے خلاف پراکسی وار کا آغاز کیا ہے، جس میں مسلمانوں کو نہ صرف ان کے عقائد ونظریات کے بارے شک میں ڈالنا اور اسلام سے دور کرنا ہے بلکہ ان کو اپنا ہمنوا بنا کر اسلام پر عمل کرنے والے دیگر مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کرنا حتی کہ انہیں قتل کرنا بھی شامل ہے۔

    اس وقت سب سے زیادہ پروپیگنڈہ میڈیا کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ موبائل فون کی آمد کے بعد اب میڈیا ہر انسان کی جیب میں آگیا ہے۔ جسے یوں کہنا بالکل بے جانہ ہوگا کہ اب پوری دنیا سمٹ کر انسان کی جیب میں آگئی ہے۔ یہی میڈیا ہے جو سیاست، کلچر، تہذیب وثقافت، مذہب اور سماج بنانے کے لیےگائیڈ کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ اتنا پاورفل ہے کہ اب کسی بھی خطے کی سیاست کو تبدیل کرسکتا ہے۔ عرب بہار میں تونس، لیبیا، مصر کا سیاسی منظرنامہ اسی میڈیا نے تبدیل کروایا۔ مختلف قوموں کے مختلف کلچر، اخلاقیات اور اقدار میں دراڑیں ڈالنے والا بھی یہی میڈیا ہے۔

    پاکستانی میڈیا میں کس طرح پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اس کا اندازہ آپ’’نظریہ پاکستان‘‘ کے خلاف اٹھنے والی اس تحریک سے لگاسکتے ہیں جس میں کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ ہرگز نہیں تھا، بلکہ قائداعظم تو خود سیکولر تھے اور سیکولر پاکستان بنانے کے حامی تھے۔ کبھی اس پروپیگنڈے کو یوں بھی پیش کیا جاتا ہے کہ ’’ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ ریاست تو سیکولر ہوتی ہے۔اگرریاست کسی مذہب کو اپنالے تو ریاست میں بدامنی پھیل جائے۔‘‘

    حیرت کی بات ہے کہ پچھلے 70 سالوں سے ہرکوئی یہ جانتا آ رہا ہے کہ پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ تھا، انگریز جس نے مسلمانوں کی حکومت پر قبضہ کرکے پاکستان اور انڈیا کو آزاد کیا، وہ بھی یہ جانتا ہے کہ مسلمانوں نے دو قومی نظریے یعنی اسلام کے نام پر پاکستان حاصل کیا، پوری دنیا جانتی ہے کہ مذہب کے نام پر بننے والی معاصر دنیا میں پاکستان ہی اول ریاست ہے۔ ان سب حقائق کے باوجود میڈیا کے ذریعے نظریہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کو ہوا دی جاتی ہے، ٹاک شوز میں سیکولرز اور لبرلز کو اقلیتی نمائندوں کے ساتھ بٹھا کر نظریہ پاکستان پر بحث کروائی جاتی ہے، اخبارات جان بوجھ کر آزادی اظہار رائے کے نام پر نظریہ پاکستان کے خلاف کالم اور خبریں چھاپتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کا کتنا اثر ہوا، اس کا اندازہ وزیراعظم نوازشریف کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی ترقی کا راز سیکولر ریاست میں ہے۔

    میڈیا کے اس پروپیگنڈے کا اثر سوشل میڈیا پر بھی ہوا ہے اور وہاں بھی اب نظریہ پاکستان کے بارے بحث و مباحثے کو سنجیدگی سے لیا جانے لگا ہے، نظریہ پاکستان کے مخالف سیکولر اور لبرل تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ کم ازکم ان کے مقدمے کوسنجیدگی سے لیا جائے، اس پر بحث کی جائے تاکہ کم از کم وہ اسلام پسندوں کو اتنا کنفیوز کرسکیں کہ وہ نظریہ پاکستان کے بارے شک میں مبتلا ہو جائیں۔ تعجب بالائے تعجب ہے کہ پاکستان کے نظریے کے خلاف دن رات سازشیں کرنے والوں کے خلاف حکومت اور ادارے خاموش ہیں اور زبان تک نہیں کھولتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نظریہ پاکستان کے خلاف بولنے کا مطلب پاکستان کے وجود کا انکار کرنا ہے کیونکہ قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقا کا مقدمہ ہی یہ تھا کہ اسلام ایک الگ دین ہے اور ہندومت الگ، مسلمان اپنی پہچان رکھتے ہیں اور ہر لحاظ سے ہندئووں سے الگ ہیں۔

    عوامی سطح پر اس پروپیگنڈے کامقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اللہ اور اس کے محبوب کی تعلیمات سے مضبوط تعلق قائم کرنا ہوگا، ہر دکھتی چیز پر اندھا ایمان لانے سے بچنا ہوگا اور نظریہ پاکستان کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ نظریہ پاکستان کے خلاف بولنے والوں کو قانون کی گرفت میں لانا ہوگا تاکہ کسی طرح وہ سماج میں انتشار اور خلفشار کا باعث نہ بن سکیں اور پاکستان کی سالمیت کے خلاف کوئی محاذ نہ بن سکے۔

  • ادھوری آزادی – فرہاد علی

    ادھوری آزادی – فرہاد علی

    جیسے جیسے اگست کا مہینہ قریب آرہا تھا اس کی آنکھوں کی چمک غائب ہورہی تھی۔ مسکراہٹ پر اداسی غالب آرہی تھی اور اس کا جھریوں بھرا چہرہ مزید لٹکنے لگا تھا. وہ پھر سے خلا میں خالی خولی آنکھوں سے دور دور تک نہ جانے کیا کچھ تلاش کرنے لگا تھا۔ اس کے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں جوان ہوگئی تھیں۔ سب تعلیم یافتہ تھے۔ ہر ایک کو اپنے دادا نانا کی اس کیفیت کا علم تھا مگر وہ غم کو اکیلے تن تنہا اٹھانے کا عادی تھا باوجود اصرار کے کبھی کسی کو اس غم میں شریک نہیں کیا۔

    سب کو پتہ تھا کہ تقسیم ہند کے ہنگامے اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ اس کا ذہن اس کی عمر کی طرح معصوم اور نوخیز تھا۔ اس نے وحشت ناک آنکھوں سے دیکھا تھا کہ جوان لڑکیوں کی چیخوں سے آسمان کا کلیجہ پھٹ رہا تھا اور درندوں کے قہقہوں میں شیطان رقص کر رہا تھا۔ اس نے دیکھا جو لڑکیاں اس کے ساتھ مذاق کرتی تھیں وہ دیوانہ وار کنوئوں میں چھلانگیں لگا رہی تھیں۔ اس کی اپنی بہن کو درندےاس کے ننھے ہاتھوں سے کھینچ کر لے گئے۔ وہ بھی روتا بلکتا رہا، اس کی بہن کی آنکھیں بھی سرخ تھیں مگر آنسو خشک، گال گیلے اور چہرے پر خوف کے سائے چھائے تھے لیکن انسان کے روپ میں شیطانوں کے چہروں پر کمینگی کے اثرات تھے اور آنکھوں میں شیطنت ناچ رہی تھی۔

    اس نے جو اندوہناک، دردناک اور کرب انگیز مناظر دیکھے تھے، وہ آج بھی اس کی آنکھوں میں مجسم تھے۔ عروہ اس کی چہیتی اور ذہین پوتی تھی اور اس کی ہمدرد اور غم گسار بھی۔ دادا پوتی پہروں بیٹھ کر مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ اگست میں موضوع زیادہ تر آزادی اور تقسیم کے واقعات ہوتے تھے۔ وہ خلاوں میں احساسات سے عاری آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ عروہ کے آنے کی آہٹ نے اس کو واپس زمیں پر آنے پر مجبور کیا۔

    دادا جانی آپ پھر ان واقعات کو سوچ کر غم زدہ نظر آرہے ہیں جو کب کے ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ عروہ نے کہا۔
    نہیں بیٹا ان واقعات کے لیے ہم نے خود کو اسی روز تیار کرلیا تھا جس دن ہم اس ملک کی محبت میں سب کچھ چھوڑ کر آگئے تھے ۔ اس نے کہا .
    یہ بات آپ پہلے بھی بتا چکے ہیں مگر میری الجھن کا جواب آپ نہیں دیتے؟ عروہ نے مصنوعی ناراضگی کا اظہار کیا ۔
    کیسی الجھن؟ اس نے سوالیہ انداز سے عروہ کو دیکھا۔
    دادو آپ کو پتہ ہے کہ میری الجھن کیا ہے۔ پھر بھی آپ انجان بن رہے ہیں۔
    اچھا بتائو تو سہی۔ اس کو جیسے یاد نہیں آرہا تھا۔
    یہی کہ اگر آپ سب ان واقعات کے لیے ذہنی طور تیار تھے تو پھر آج اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی اگست کے مہینے میں اتنے غم زدہ کیوں نظر آتے ہیں؟
    ادھوری آزادی کا غم کھائے جارہا ہے۔ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
    ادھوری آزادی کا غم؟ عروہ حیران بھی تھی اور متجسس بھی۔ دادو پہلی مرتبہ پیاز کے چھلکے کی طرح تہہ در تہہ راز کے پرت کھول رہا تھا۔
    ہاں بیٹا ہم انگریز اور ہندو سے آزاد ہو کر بھی آدھے آزاد ہیں۔ اس نے کہا۔
    وہ کیسے؟ عروہ کی حیرانی عروج پر تھی۔ ہم آزاد ملک میں جی رہے ہیں۔
    ہمارا نعرہ کیا تھا اس وقت؟ اس نے عروہ سے پوچھا۔
    پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ۔ عروہ نے میکانکی انداز میں جواب دیا۔
    تو کیا یہ مطلب پورا ہوگیا؟ عروہ سے جواب نہ بن پڑا۔ وہ پھر بولا۔ انگریز اور ہندو سے آزادی کی خاطر ہم نے اس سرزمین کو خون سے لالہ زار بنایا مگر ان کے طور طریقوں،
    روایات اور تہذیب وتمدن کی زنجیریں آج بھی ہماری گردنوں میں طوق نہیں ہیں؟ وہ جذبات کی رو میں بہنے لگا۔
    کیا ہم نے نااہل حکمرانوں سے جان چھڑالی؟ کیا ہم نے کرپشن سے آزادی حاصل کرلی؟ کیا ہم جہالت کے تنگ و تاریک کوٹھڑیوں سے علم کی آزاد اور وسیع فضا میں آئے ہیں؟ وہ مسلسل سوالات کیے جارہا تھا اور عروہ ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ اس کے لہجہ میں درد تھا۔
    اس نے رکے بغیر کہا۔ کیا ہم اس ملک کو ترقی یافتہ اقوام کی صفوں میں لا کھڑا کیا ہے؟ کیا انصاف آج بھی کوڑیوں کے مول نہیں بکتا؟ کیا ہم آج بھی لاشیں نہیں اٹھاتے؟ کیا ہماری قوم زبان، رنگ اور نسل کی عصبیتوں سے آزاد ہے؟ کیا ہم فرقہ واریت کی آگ میں نہیں جھلس رہے؟ ہمیں ہندو اکثریت کا ڈر تھا مگر کیا ہم نے یہاں کی اقلیتوں کو مکمل تحفظ دیا ہے؟ ہمارے زمیں کا جنت نظیر ٹکڑا کشمیر آزادی کے لیے نہیں ترس رہا؟ اگر یہ سب کچھ موجود ہیں تو پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے مکمل آزادی حاصل کرلی ہے؟
    عروہ خاموشی سے سن رہی تھی اور دادو کا لہجہ اندر ہی اندر ٹپکنے والے آنسوئوں سے بھیگ گیا تھا۔ اس کی آواز آہستہ آہستہ مدھم ہوتی جارہی تھی، وہ کہہ رہا تھا نہیں یہ مکمل نہیں، ادھوری آزادی ہے ادھوری.

  • اسلام ملک کا سامانِ بقا ہے – ابن الحسین عابدی

    اسلام ملک کا سامانِ بقا ہے – ابن الحسین عابدی

    ملک میں امن وآشتی کا پرندہ کیوں عنقا ہے؟ ساکنان پاکستان چین کی نیند کیوں نہیں سو سکتے؟ آئے روز بم دھماکوں سے فضا کیوں مکدر رہتی ہے؟ عوام کو تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا، سرچھپانے کے لیے سائبان اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے روٹی کیوں میسر نہیں؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں 7 دھائیاں پیچھے سفر کرنا پڑے گا۔

    ارض پاک کا حصول اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کیا گیاتھا، اس کی داغ بیل قرآن وسنت پہ ڈالی گئی تھی، اس کے اجزائے ترکیبی میں لاالٰہ الا اللہ کو خاص درجہ حاصل تھا، یہ نعرہ ہندوستان کے ہرمسلمان کی زبان پہ عام تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ، اس نعرہ کی باز گشت نے ہندوؤں کو لرزہ براندام کرکے رکھ دیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں مولانا ظفر احمد عثمانی اور مغربی پاکستان میں مولانا شبیر احمد عثمانی سے پاکستان کی پرچم کشائی کروا کر اس بات کا ثبوت بہم پہنچایا گیا کہ یہاں شیطان کی نہیں رحمان کی چلے گی، سیکولرازم نہیں دین محمدی کا بولا بالا ہوگا، قائد اعظم نے ملاؤں سے پرچمِ اول لہروا کر اپنی روشن خیالی کی تعریف متعین کردی تھی۔

    یہ ملک ہمیں تحفہ میں نہیں ملا، اس کے لیے پندرہ سے بیس لاکھ مسلمانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ساٹھ ہزار سے زائد مسلمان خواتین اغوا کی گئیں، اسی لاکھ مسلمانوں کو اپنے گھر بار سے محروم ہونا پڑا۔ اللہ تعالیٰ شکرگزار بندوں کو شکر کرنے پہ اپنی نعمتوں سے مزید نوازتا ہے، اس کا وعدہ ہے اگر تم شکر کروگے تو میں تم پہ زیادہ (انعامات کی بارش) کروں گا۔ ملک پاکستان جیسی عظیم نعمت کے حصول کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور اس نعمت کا سب سے بڑا شکر یہ تھا کہ ہم یہاں اسلام کا علم لہراتے، دین کا بول بالا کرتے، اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے فرامین سے اس ملک کو چار چاند لگا دیتے۔

    اگر ہم ملک کی خستہ حالی پہ غور کریں اور پھر قیام پاکستان کے مقصد پہ نظر دوڑائیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ ہم اپنے مقصد سے دور چلے گئے ہیں، اپنی ماؤں کی تارتار عزت، بیویوں کا اجڑتا سہاگ، بہنوں کی لٹی حرمت بھلا چکے ہیں، اپنی قربانیوں سے رقم تاریخ کا مقصد فراموش کر بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے یہاں امن وآشتی کا پرندہ عنقا ہے، آئے روز بم دھماکوں سے فضا مکدر رہتی ہے، عوام چین کی نیند نہیں سو سکتے۔ جب تک یہاں اسلامی نظام نافذ نہیں ہوگا ہم اپنے پیارے ملک پاکستان کو ترقی کی راہ پہ گامزن نہیں دیکھ سکیں گے، کیوں کہ بقول زکی کیفی
    اسلام کی بنیاد پہ یہ ملک بنا ہے
    اسلام ہی اس ملک کا سامانِ بقا ہے

  • پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ – ناصر فاروق

    پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ – ناصر فاروق

    ناصر فاروق ابھی پاکستان پیدا بھی نہ ہوا تھا کہ برصغیر کے گلی کوچوں سے لاالہ الا اللہ کی صدائیں بلند ہونے لگيں، پاکستان کا مطلب مسلمانوں میں زبان زد عام ہورہا تھا۔ بلاشبہ پاکستان بطور اسلامی ریاست وجود میں آیا۔ 12 مارچ 1949کودستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کرکے اسے کلمہ پڑھایا۔ اس ایک کلمہ کی خاطرسید مودودیؒ نے انیس ماہ ملتان سینٹرل جیل میں بخوشی قید کاٹی، جیل ہی سے قرارداد مقاصد کے مسودے کی منظوری دی۔ اس ایک کلمہ کے لیے جبل پور سے بمبئی، بمبئی سے کراچی، کلکتہ سے ڈھاکہ، اور دلی سے لاہور تک لُٹے پٹے شہادتوں کے قافلے خون کی مقدس لکیرکھینچتے چلے آئے۔ اسی ایک نعرہ مستانہ کا نشہ تھا جو حویلیوں میں ٹھاٹ کی زندگی گزارنے والے بندر روڈ پر پناہ گزین کیمپ کی ٹپکتی چھت تلے شب و روز گزارنے لگے۔ کسی کا باپ ہندوستان میں رہ گیا، کسی کی ماں ٹرین میں کٹ کر رہ گئی، کسی ماں کا کلیجہ سکھوں نے کاٹ دیا، کسی کی بہن سکھنی بنادی گئی۔ کلمہ لا الہ کی عظیم قوت ہی اس عظیم قربانی کا محرک ہوسکتی تھی، ہوسکتی ہے۔ عظیم انسانوں کی یہ عظیم ہجرت اسی ایک کلمہ کی خاطر راہ پرگامزن ہوسکی۔

    پاکستان کے وجود کا مطلب بس یہی ایک کلمہ توحید ہے، پاکستان کا مطلب ہے لا الہ الااللہ۔ اس ایک مطلب میں ریاست پاکستان کے وجود کی تمام وجوہات، توجیحات، اسباب، اور محرکات سمٹ آئے ہیں، گویا سمندر کوزے میں بند ہے۔ پاکستان جب مغرب میں تھا اور مشرق میں تھا، تب بھی پاکستان کا یہی مطلب تھا۔ جب پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ دیا گیا تب بھی پاکستان کا یہی مطلب تھا۔ جب تک پاکستان میں دم ہے کلمہ احد ہی بلند ہوتا رہے گا۔ بالکل جس طرح اسلام کا مطلب دہشت گردی نہیں ہوسکتا چاہے پوری دنیا اور ذرائع ابلاغ چوبیس گھنٹے اسلام پردہشت گردی کا لیبل چپکاتے رہیں، کورس میں اسلام دہشت گرد کا گیت گاتے رہیں۔ اسلام کا مطلب سلامتی ہے، اور رہے گا۔ اسی طرح قرارداد مقاصد اور آئین پاکستان کے دشمن صبح شام قائداعظم کی نامعلوم ‘منتخب شدہ’ گیارہ اگست کی تقریرکوچوبیس گھنٹے کورس میں پڑھتے رہیں، لکھتے رہیں، اور چباتے رہیں۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے، اور رہے گا۔

    اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بُرا چاہنے والوں کا انجام وہی مقدر ہوچکا جس سے بھٹو، مجیب، اور اندرا گاندھی گزرے۔ پاکستان کی فلاح چاہنے والوں کا انجام وہی مقدر ہے جوعلامہ اقبال، محمد علی جناح، اور سید ابوالاعلٰی مودودی کا ہوا۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کو کلمہ لا الہ سے محروم کر دے گا، مطلب و مفہوم سے عاری کر دے گا، تو وہ جان لے کہ یہ کام گورنر جنرل غلام محمد سے جنرل پرویز مشرف تک کوئی نہ کرسکا، نہ کرسکے گا۔ 17 اپریل 1953ء کوشریف النفس اور نیک اطوار وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرکے امریکا سے ناجائز وزیراعظم محمد علی بوگرہ امپورٹ کیے گئے تاکہ قرارداد مقاصد کی بنیاد پر ریاست کا دستور بننے سے روکا جاسکے۔ درآمد شدہ نواب زادوں کی کوشش رہی کہ پاکستان 1935ء کے برطانوی ایکٹ کے تحت ہی چلتا رہے۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے ایک فون پر پاکستان پلیٹ میں رکھ کر رچرڈ آرمیٹج کے سامنے رکھ دیا تھا. اسلامی ریاست پاکستان کے خلاف سازشوں کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی آئین کی منظوری کے بعد پہلے صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان غدار میرجعفر کے جانشین اسکندر مرزابنائے گئے۔ یہ محض اتفاق نہیں سازشیوں کا باہمی اتفاق تھا۔ (برطانوی استعمار نے 1857ء اور دیگر محاذوں پر مسلمانوں سے غداریاں کرنے والوں کو صرف جاگیریں ہی عنایت نہ کیں بلکہ پاکستان کي نسوں میں زہر گھولنے کے لیے ان غداروں کی نسلوں تک کو بھی دودھ پلا کر پروان چڑھایا)۔ اسکندر مرزا نے پہلے اسلامی دستور پر شب خون مارنے کے لیے راتوں رات محمد علی بوگرہ سے ریڈیو پاکستان پر تقریرکروائی، اس تقریر میں دستور ساز اسمبلی توڑنے کا اعلان کیا گیا۔ قرارداد مقاصد سے چڑنے والوں پر مبنی نئی کابینہ بنائی گئی۔ اسکندر مرزا کو وزارت داخلہ کا تحفہ ملا، حسین شہید سہروردی وزیرقانون بنائے گئے۔ اللہ مغفرت کرے! مرحوم مولوی تمیز الدین نے جرات دکھائی۔ سیشن کورٹ نے اسمبلی بحال کردی مگرسپریم کورٹ میں بیٹھے جسٹس منیر اور ساتھیوں نے اسمبلی توڑنے کا فیصلہ بحال رکھا۔ ملک شدید آئینی بحران میں مبتلا ہوا۔ جرنیلوں نے اس فیصلے کا سہارا لے کر اسمبلیوں اور اقتدار کا رستہ دیکھ لیا۔ 56ء میں اسکندر مرزا نے اقتدار پرقبضہ کیا۔

    مارشل لاء کی روایت چلی توایوب خان نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اقتدار چھینا اور اسکند مرزا کو چلتا کیا۔ ایوب خان کا پورا عہد اسلامی دستور سے بدعہدی میں گزرا۔ ایوب خان نے حتی المقدور روڑے اٹکائے، آئین میں موجود اسلام کے عائلی قوانین تک بدل ڈالے۔ پاکستان کے نام سے اسلامی نکالنے کی جرات بھی کی۔ آٹھ جون 1962ء کو آئین کے نام پر پاکستان کو مشرف بہ سیکولرزم کرنے کی سعی کی۔ مسلم لیگ کے دوٹکڑے کیے، مارشل لاء کے کاندھے سے اُتر کر کنونشن مسلم لیگ کے کاندھے پر سوار ہوگئے۔ بنگلہ دیش بنانے کے لیے بھارت اور مجیب الرحمان کی تیار کردہ سازش اگرتلہ سے مجرمانہ غفلت برتی۔ غرض ایوب خان کے دور میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بدخواہوں کوپھلنے پھولنے کا خوب موقع ملا، یحیٰی خان جیسا بدترین حکمران اسی دورمیں توانا ہوا۔

    یحیی خان اور ذوالفقار بھٹو پاکستان کودولخت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ آئین اسلامی کی غیرموجودگی نے مجیب، بھٹو اور یٰحيٰی کی سازشوں کو جلادی۔ مجیب نے چھ نکاتی فارمولے کا تیر چلایا، مولانا مودودی نے میجب کو اپنے گھر تک لے جا کرسمجھانے کی کوشش کی، مگر شومئی قسمت۔ اسلامی دستور کے نفاذ سے انحراف کی صورت میں پاکستان کوبنگلہ دیش کی سزا ملی۔ یحیی خان، مجیب، اور بھٹو نے خونیں تماشا لگایا۔ اسلامی دستور سے محروم پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ بنگالی بھائیوں سے جُدا ہوئے تو یحیي خان نے پاکستان کی بچی کھچی جان بخشی، مگر بھٹو کے خطرناک ارادے آگے تک گئے۔ بھٹو کی نظر میں آئین کی کوئی وقعت نہ تھی، ایوب خان کی گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے بھٹو نے کہا ’’آئین سے کیا ہوتا ہے؟ آئین سے پیٹ نہیں بھرا کرتا‘‘۔ ستر کے انتخابات کے موقع پر بھٹو نے کہا ’’آئین کوئی چپلی کباب نہیں کہ اس سے پیٹ بھرا جائے‘‘۔ بھٹوکے لیے آئین کی اہمیت چپلی کباب سے بھی کم تھی۔ آئین کی یہی وقعت پیپلزپارٹی کی تمام حکومتوں میں رہی۔۔ اکہتر کی بربادی کے بعد بھٹو جو امریکا میں انفلوئنزا سے شغل فرمارہے تھے، یکایک 20 دسمبر کو پاکستان چلے آئے، مگرامریکی صدر نکسن سے ملنا نہیں بھولے۔ پاکستان پہنچتے ہی اقتدار کی ٹرافی وصول کی اور جمہوری سربراہ بننے کے بجائے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے کو ترجیح دی۔ اپنے مارشل لاء کو برقرار رکھنے کے لیے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کر لیا۔ ارادہ تو تاحیات بادشاہ سلامت بننے کا تھا مگر تقدیر سے مفر کسے ہے؟

    بہت سی جمہوری اور قانونی مجبوریوں نے بھٹو کو تہتر کا آئین نافذ کرنے پر مائل کیا۔ جس وقت تہتر کا آئین بنا بھٹو پیپلزپارٹی چئیرمین، صدر مملکت، صدر اسمبلی، اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر کے عہدوں پر بہ یک وقت اختیارات کے مزے لوٹ رہے تھے۔ تہتر کے آئین کے بعد خود کو بادشاہ سلامت بناکر تخت پر براجمان ہوگئے۔ بے اختیار اسمبلی تماشا بن کر رہ گئی۔ بھٹو کی زندگی تھی جو پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کے بعد بھی بادشاہ بادشاہ کھیلنے کا بھرپور وقت مل گیا۔ بھٹو نے تہترکے آئین کو غیر اسلامی رکھنے کی بہیترا کوشش کی، مگرنہ چلی۔ اپوزیشن اتحاد کا دباؤ چند ترامیم کا سبب بنا۔ اسلامی سوشلزم کی بدعت آئین سے نکال پھینکی گئی۔ تاہم بھٹوکی فطرت میں عیاری ضرورت سے بہت زیادہ تھی، باز نہ آئے۔ اختیارات کی ہوس اور مخالفین کونشانہ بنانے کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ آئینی ترامیم کر کر کے عدالتوں کے اختیارات خطرناک حد تک محدود کردیے (عام طور پر سب جانتے ہیں بھٹو نے دو آئین دیے، عبوری اور تہترکا آئین۔ مگربہت کم جانتے ہیں کہ بھٹو کی وجہ سے یہ آئین کن کن مشکلات سے گزرا اور کتنی مشکل سے حتمی حالت تک پہنچا)۔ ستتر تک بھٹو پاکستان کی ناگزیر برائی بن چکے تھے، جس سے نحیف و نزار ریاست کی جان چھڑانا ناگزیر ہوچکا تھا۔ انتخابات میں بھٹو کی چالبازیوں کا یہ حال تھا کہ حریف امیدوار جان محمد عباسی کو اغوا تک کروا لیا، جان محمد عباسی کاغذات نامزدگی تک جمع نہ کرواسکے۔ پاکستان بھٹو کی بدترین آمریت میں جکڑا جاچکا تھا۔ انتخابات بدترین بحران کا شکار ہوئے، دھاندلیاں پکڑی گئیں اور ہٹ دھرمی نے ملک کا پہیہ جام کردیا۔

    گو کہ جنرل ضیاءالحق آمر تھے، مگر اسلامی آئین کی جانب پیش رفت شروع ہوئی۔ ستمبر 77ء میں اسلامی نظریاتی کاؤنسل کی تشکیل نو ہوئی۔ کاؤنسل نے اسلامی قوانین کے نفاذ کیلئے ترجیحات طے کیں۔ کاؤنسل کے مشورے سے اسلامی قوانین کی مناسب حیثیت اور اہمیت متعین کی گئی۔ شراب کی خرید و فروخت قانونا ممنوع قرار دے دی گئی۔ اسلامی حدود کے چار قوانین کو23 مارچ 79 میں نافذ کیا گیا۔ ہائی کورٹ کی مساوی شریعت کورٹس قائم کی گئیں۔ اس کے خلاف اپیل کیلئے سپریم کورٹ کی مساوی شریعت اپیل بنچ قائم کی گئیں۔ زکوۃ کا نظام رائج کیا گیا۔ دفتری اوقات میں نماز کا قیام، رمضان روزے کا احترام، اور سود سے پاک معاشی نظام کے قیام کے لیے کوششیں اہم تھیں۔ ٹیلی ویژن پر بےہودگی کا سدباب کیا گیا۔ نائٹ کلب کلچرختم کیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پہلی بار آئین کے اسلامی تقاضوں کا قابل لحاظ احترام کیا گیا۔ یقینا جنرل ضیاءالحق نے آمریت اور اختیارات کی بھول بھلیوں میں کھوکراسلامی جمہوری نظام کے نفاذ کا سنہری موقع ضائع کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے سوویت یونین کی سامراجیت کے سامنے بند باندھنے کا کارنامہ انجام دیا، کمیونزم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے تاہم امریکا کے لیے غیرضروری لچک ضیاء الحق کو مارگئی۔

    آئین پاکستان کے اسلامی تقاضے ضیاالحق کے بعد پھر پس پشت ڈال دیے گئے۔ ضیاء الحق سے آج تک کوئی ایک جمہوریت ایسی نہیں گزری جس نے آئین کی رتی برابر بھی پرواہ کی ہو یہ سب خاندانی بادشاہتیں، اور مافیا ہیں جو جمہوریت کی قبائیں پہن کر پارلیمنٹ کی نشستوں پر براجمان ہیں۔ آج اگر آئین پرعملدرآمد ہوجائے تو چند ایک کو چھوڑ کر پوری پارلیمنٹ گھروں کو بھی نہ جائے بلکہ احتساب عدالت کے کٹہرے میں پہنچ جائے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی آئین کی پاسداری اور اس سے غداری کے مختصر جائزے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ قرارداد مقاصد پر مستحکم ہونے والا آئین زخمی زخمی ہوسکتا، پس پشت ڈالا جاسکتا ہے، مگر اس میں سے لا الہ کی روح کسی طور نہیں نکالی جاسکتی۔ اس روح کو نکالنے کی تگ و دو میں بہت سی بد روحیں جہان فانی سے کوچ کرگئیں (ان بدروحوں میں سے کسی نے قرارداد مقاصد اور آئین کے بنیادی اسلامی ڈھانچے کو چیلنج نہیں کیا، کسی نے بھی نظریہ پاکستان کی اسلامی روح سے انکار نہ کیا، مگر آج کل کے دانشور براہ راست آئین کی نظریاتی شناخت پر ہی حملہ آور ہیں)۔ اسلامی آئین کا نفاذ روکنے کےلیے پہلی بار علی الاعلان نظریہ پاکستان کو للکارا جا رہا ہے۔ اسلامی قوانین کوضیاء الحق کا عظیم جرم بتایا جارہا ہے، Draconian Law بیان کیا جارہا ہے۔ صبح شام ضیاء دور ضیاء دور پر تبرا بھیجنے والوں کو درحقیقت ضیاء سے نہیں قرارداد مقاصد اور اسلامی آئین سے پریشانی ہے۔ اگر موازنہ کیا جائے تولعن طعن کے مستحق وہ ہیں جنہوں نے وطن توڑا، جنہوں نے سودی نظام دانستہ قائم و دائم رکھا، جنہوں نے کشمیر کو بتدریج بھارت کی گود میں ڈال دیا، جنہوں نے آئین کو تکمیل تک پہنچنے سے روکا، جنہوں نے جمہوری تماشہ لگا کر اختیارات کا گھناؤنا کھیل کھیلا۔

    نظریہ پاکستان کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ محتاج وہ ہیں جو آج تک اپنی شناخت ہی طے نہیں کرپائے۔ سیکولرزم کے شائقین اپنی دو رنگی شناخت کے ساتھ سب سے بڑی نام نہاد ہندو جمہوریت میں پناہ تلاش کریں۔ اگر پاکستان کا بھلا عزیز ہے تو 11 اگست کی خود ساختہ تقریر میں نظریہ پاکستان ڈھونڈنے کے بجائے آئین پاکستان کے مخلصانہ نفاذ پر متفق و متحد ہوجائیں۔ اصلاحات کی گنجائش ہمیشہ رہے گی مگر یہ گنجائش قراردادمقاصد کی حدود میں ہی رہے گی۔ یہ حدود کوئی پار نہیں کرسکتا۔ جسے یہ حدود پار کرنی ہیں وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حدود سے نکل جائے، کیونکہ پاکستان کا صرف ایک ہی مطلب ہے لا الہ الااللہ۔