ابھی پاکستان پیدا بھی نہ ہوا تھا کہ برصغیر کے گلی کوچوں سے لاالہ الا اللہ کی صدائیں بلند ہونے لگيں، پاکستان کا مطلب مسلمانوں میں زبان زد عام ہورہا تھا۔ بلاشبہ پاکستان بطور اسلامی ریاست وجود میں آیا۔ 12 مارچ 1949کودستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کرکے اسے کلمہ پڑھایا۔ اس ایک کلمہ کی خاطرسید مودودیؒ نے انیس ماہ ملتان سینٹرل جیل میں بخوشی قید کاٹی، جیل ہی سے قرارداد مقاصد کے مسودے کی منظوری دی۔ اس ایک کلمہ کے لیے جبل پور سے بمبئی، بمبئی سے کراچی، کلکتہ سے ڈھاکہ، اور دلی سے لاہور تک لُٹے پٹے شہادتوں کے قافلے خون کی مقدس لکیرکھینچتے چلے آئے۔ اسی ایک نعرہ مستانہ کا نشہ تھا جو حویلیوں میں ٹھاٹ کی زندگی گزارنے والے بندر روڈ پر پناہ گزین کیمپ کی ٹپکتی چھت تلے شب و روز گزارنے لگے۔ کسی کا باپ ہندوستان میں رہ گیا، کسی کی ماں ٹرین میں کٹ کر رہ گئی، کسی ماں کا کلیجہ سکھوں نے کاٹ دیا، کسی کی بہن سکھنی بنادی گئی۔ کلمہ لا الہ کی عظیم قوت ہی اس عظیم قربانی کا محرک ہوسکتی تھی، ہوسکتی ہے۔ عظیم انسانوں کی یہ عظیم ہجرت اسی ایک کلمہ کی خاطر راہ پرگامزن ہوسکی۔
پاکستان کے وجود کا مطلب بس یہی ایک کلمہ توحید ہے، پاکستان کا مطلب ہے لا الہ الااللہ۔ اس ایک مطلب میں ریاست پاکستان کے وجود کی تمام وجوہات، توجیحات، اسباب، اور محرکات سمٹ آئے ہیں، گویا سمندر کوزے میں بند ہے۔ پاکستان جب مغرب میں تھا اور مشرق میں تھا، تب بھی پاکستان کا یہی مطلب تھا۔ جب پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ دیا گیا تب بھی پاکستان کا یہی مطلب تھا۔ جب تک پاکستان میں دم ہے کلمہ احد ہی بلند ہوتا رہے گا۔ بالکل جس طرح اسلام کا مطلب دہشت گردی نہیں ہوسکتا چاہے پوری دنیا اور ذرائع ابلاغ چوبیس گھنٹے اسلام پردہشت گردی کا لیبل چپکاتے رہیں، کورس میں اسلام دہشت گرد کا گیت گاتے رہیں۔ اسلام کا مطلب سلامتی ہے، اور رہے گا۔ اسی طرح قرارداد مقاصد اور آئین پاکستان کے دشمن صبح شام قائداعظم کی نامعلوم 'منتخب شدہ' گیارہ اگست کی تقریرکوچوبیس گھنٹے کورس میں پڑھتے رہیں، لکھتے رہیں، اور چباتے رہیں۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے، اور رہے گا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بُرا چاہنے والوں کا انجام وہی مقدر ہوچکا جس سے بھٹو، مجیب، اور اندرا گاندھی گزرے۔ پاکستان کی فلاح چاہنے والوں کا انجام وہی مقدر ہے جوعلامہ اقبال، محمد علی جناح، اور سید ابوالاعلٰی مودودی کا ہوا۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کو کلمہ لا الہ سے محروم کر دے گا، مطلب و مفہوم سے عاری کر دے گا، تو وہ جان لے کہ یہ کام گورنر جنرل غلام محمد سے جنرل پرویز مشرف تک کوئی نہ کرسکا، نہ کرسکے گا۔ 17 اپریل 1953ء کوشریف النفس اور نیک اطوار وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرکے امریکا سے ناجائز وزیراعظم محمد علی بوگرہ امپورٹ کیے گئے تاکہ قرارداد مقاصد کی بنیاد پر ریاست کا دستور بننے سے روکا جاسکے۔ درآمد شدہ نواب زادوں کی کوشش رہی کہ پاکستان 1935ء کے برطانوی ایکٹ کے تحت ہی چلتا رہے۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے ایک فون پر پاکستان پلیٹ میں رکھ کر رچرڈ آرمیٹج کے سامنے رکھ دیا تھا. اسلامی ریاست پاکستان کے خلاف سازشوں کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی آئین کی منظوری کے بعد پہلے صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان غدار میرجعفر کے جانشین اسکندر مرزابنائے گئے۔ یہ محض اتفاق نہیں سازشیوں کا باہمی اتفاق تھا۔ (برطانوی استعمار نے 1857ء اور دیگر محاذوں پر مسلمانوں سے غداریاں کرنے والوں کو صرف جاگیریں ہی عنایت نہ کیں بلکہ پاکستان کي نسوں میں زہر گھولنے کے لیے ان غداروں کی نسلوں تک کو بھی دودھ پلا کر پروان چڑھایا)۔ اسکندر مرزا نے پہلے اسلامی دستور پر شب خون مارنے کے لیے راتوں رات محمد علی بوگرہ سے ریڈیو پاکستان پر تقریرکروائی، اس تقریر میں دستور ساز اسمبلی توڑنے کا اعلان کیا گیا۔ قرارداد مقاصد سے چڑنے والوں پر مبنی نئی کابینہ بنائی گئی۔ اسکندر مرزا کو وزارت داخلہ کا تحفہ ملا، حسین شہید سہروردی وزیرقانون بنائے گئے۔ اللہ مغفرت کرے! مرحوم مولوی تمیز الدین نے جرات دکھائی۔ سیشن کورٹ نے اسمبلی بحال کردی مگرسپریم کورٹ میں بیٹھے جسٹس منیر اور ساتھیوں نے اسمبلی توڑنے کا فیصلہ بحال رکھا۔ ملک شدید آئینی بحران میں مبتلا ہوا۔ جرنیلوں نے اس فیصلے کا سہارا لے کر اسمبلیوں اور اقتدار کا رستہ دیکھ لیا۔ 56ء میں اسکندر مرزا نے اقتدار پرقبضہ کیا۔
مارشل لاء کی روایت چلی توایوب خان نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اقتدار چھینا اور اسکند مرزا کو چلتا کیا۔ ایوب خان کا پورا عہد اسلامی دستور سے بدعہدی میں گزرا۔ ایوب خان نے حتی المقدور روڑے اٹکائے، آئین میں موجود اسلام کے عائلی قوانین تک بدل ڈالے۔ پاکستان کے نام سے اسلامی نکالنے کی جرات بھی کی۔ آٹھ جون 1962ء کو آئین کے نام پر پاکستان کو مشرف بہ سیکولرزم کرنے کی سعی کی۔ مسلم لیگ کے دوٹکڑے کیے، مارشل لاء کے کاندھے سے اُتر کر کنونشن مسلم لیگ کے کاندھے پر سوار ہوگئے۔ بنگلہ دیش بنانے کے لیے بھارت اور مجیب الرحمان کی تیار کردہ سازش اگرتلہ سے مجرمانہ غفلت برتی۔ غرض ایوب خان کے دور میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بدخواہوں کوپھلنے پھولنے کا خوب موقع ملا، یحیٰی خان جیسا بدترین حکمران اسی دورمیں توانا ہوا۔
یحیی خان اور ذوالفقار بھٹو پاکستان کودولخت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ آئین اسلامی کی غیرموجودگی نے مجیب، بھٹو اور یٰحيٰی کی سازشوں کو جلادی۔ مجیب نے چھ نکاتی فارمولے کا تیر چلایا، مولانا مودودی نے میجب کو اپنے گھر تک لے جا کرسمجھانے کی کوشش کی، مگر شومئی قسمت۔ اسلامی دستور کے نفاذ سے انحراف کی صورت میں پاکستان کوبنگلہ دیش کی سزا ملی۔ یحیی خان، مجیب، اور بھٹو نے خونیں تماشا لگایا۔ اسلامی دستور سے محروم پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ بنگالی بھائیوں سے جُدا ہوئے تو یحیي خان نے پاکستان کی بچی کھچی جان بخشی، مگر بھٹو کے خطرناک ارادے آگے تک گئے۔ بھٹو کی نظر میں آئین کی کوئی وقعت نہ تھی، ایوب خان کی گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے بھٹو نے کہا ’’آئین سے کیا ہوتا ہے؟ آئین سے پیٹ نہیں بھرا کرتا‘‘۔ ستر کے انتخابات کے موقع پر بھٹو نے کہا ’’آئین کوئی چپلی کباب نہیں کہ اس سے پیٹ بھرا جائے‘‘۔ بھٹوکے لیے آئین کی اہمیت چپلی کباب سے بھی کم تھی۔ آئین کی یہی وقعت پیپلزپارٹی کی تمام حکومتوں میں رہی۔۔ اکہتر کی بربادی کے بعد بھٹو جو امریکا میں انفلوئنزا سے شغل فرمارہے تھے، یکایک 20 دسمبر کو پاکستان چلے آئے، مگرامریکی صدر نکسن سے ملنا نہیں بھولے۔ پاکستان پہنچتے ہی اقتدار کی ٹرافی وصول کی اور جمہوری سربراہ بننے کے بجائے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے کو ترجیح دی۔ اپنے مارشل لاء کو برقرار رکھنے کے لیے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کر لیا۔ ارادہ تو تاحیات بادشاہ سلامت بننے کا تھا مگر تقدیر سے مفر کسے ہے؟
بہت سی جمہوری اور قانونی مجبوریوں نے بھٹو کو تہتر کا آئین نافذ کرنے پر مائل کیا۔ جس وقت تہتر کا آئین بنا بھٹو پیپلزپارٹی چئیرمین، صدر مملکت، صدر اسمبلی، اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر کے عہدوں پر بہ یک وقت اختیارات کے مزے لوٹ رہے تھے۔ تہتر کے آئین کے بعد خود کو بادشاہ سلامت بناکر تخت پر براجمان ہوگئے۔ بے اختیار اسمبلی تماشا بن کر رہ گئی۔ بھٹو کی زندگی تھی جو پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کے بعد بھی بادشاہ بادشاہ کھیلنے کا بھرپور وقت مل گیا۔ بھٹو نے تہترکے آئین کو غیر اسلامی رکھنے کی بہیترا کوشش کی، مگرنہ چلی۔ اپوزیشن اتحاد کا دباؤ چند ترامیم کا سبب بنا۔ اسلامی سوشلزم کی بدعت آئین سے نکال پھینکی گئی۔ تاہم بھٹوکی فطرت میں عیاری ضرورت سے بہت زیادہ تھی، باز نہ آئے۔ اختیارات کی ہوس اور مخالفین کونشانہ بنانے کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ آئینی ترامیم کر کر کے عدالتوں کے اختیارات خطرناک حد تک محدود کردیے (عام طور پر سب جانتے ہیں بھٹو نے دو آئین دیے، عبوری اور تہترکا آئین۔ مگربہت کم جانتے ہیں کہ بھٹو کی وجہ سے یہ آئین کن کن مشکلات سے گزرا اور کتنی مشکل سے حتمی حالت تک پہنچا)۔ ستتر تک بھٹو پاکستان کی ناگزیر برائی بن چکے تھے، جس سے نحیف و نزار ریاست کی جان چھڑانا ناگزیر ہوچکا تھا۔ انتخابات میں بھٹو کی چالبازیوں کا یہ حال تھا کہ حریف امیدوار جان محمد عباسی کو اغوا تک کروا لیا، جان محمد عباسی کاغذات نامزدگی تک جمع نہ کرواسکے۔ پاکستان بھٹو کی بدترین آمریت میں جکڑا جاچکا تھا۔ انتخابات بدترین بحران کا شکار ہوئے، دھاندلیاں پکڑی گئیں اور ہٹ دھرمی نے ملک کا پہیہ جام کردیا۔
گو کہ جنرل ضیاءالحق آمر تھے، مگر اسلامی آئین کی جانب پیش رفت شروع ہوئی۔ ستمبر 77ء میں اسلامی نظریاتی کاؤنسل کی تشکیل نو ہوئی۔ کاؤنسل نے اسلامی قوانین کے نفاذ کیلئے ترجیحات طے کیں۔ کاؤنسل کے مشورے سے اسلامی قوانین کی مناسب حیثیت اور اہمیت متعین کی گئی۔ شراب کی خرید و فروخت قانونا ممنوع قرار دے دی گئی۔ اسلامی حدود کے چار قوانین کو23 مارچ 79 میں نافذ کیا گیا۔ ہائی کورٹ کی مساوی شریعت کورٹس قائم کی گئیں۔ اس کے خلاف اپیل کیلئے سپریم کورٹ کی مساوی شریعت اپیل بنچ قائم کی گئیں۔ زکوۃ کا نظام رائج کیا گیا۔ دفتری اوقات میں نماز کا قیام، رمضان روزے کا احترام، اور سود سے پاک معاشی نظام کے قیام کے لیے کوششیں اہم تھیں۔ ٹیلی ویژن پر بےہودگی کا سدباب کیا گیا۔ نائٹ کلب کلچرختم کیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پہلی بار آئین کے اسلامی تقاضوں کا قابل لحاظ احترام کیا گیا۔ یقینا جنرل ضیاءالحق نے آمریت اور اختیارات کی بھول بھلیوں میں کھوکراسلامی جمہوری نظام کے نفاذ کا سنہری موقع ضائع کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے سوویت یونین کی سامراجیت کے سامنے بند باندھنے کا کارنامہ انجام دیا، کمیونزم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے تاہم امریکا کے لیے غیرضروری لچک ضیاء الحق کو مارگئی۔
آئین پاکستان کے اسلامی تقاضے ضیاالحق کے بعد پھر پس پشت ڈال دیے گئے۔ ضیاء الحق سے آج تک کوئی ایک جمہوریت ایسی نہیں گزری جس نے آئین کی رتی برابر بھی پرواہ کی ہو یہ سب خاندانی بادشاہتیں، اور مافیا ہیں جو جمہوریت کی قبائیں پہن کر پارلیمنٹ کی نشستوں پر براجمان ہیں۔ آج اگر آئین پرعملدرآمد ہوجائے تو چند ایک کو چھوڑ کر پوری پارلیمنٹ گھروں کو بھی نہ جائے بلکہ احتساب عدالت کے کٹہرے میں پہنچ جائے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی آئین کی پاسداری اور اس سے غداری کے مختصر جائزے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ قرارداد مقاصد پر مستحکم ہونے والا آئین زخمی زخمی ہوسکتا، پس پشت ڈالا جاسکتا ہے، مگر اس میں سے لا الہ کی روح کسی طور نہیں نکالی جاسکتی۔ اس روح کو نکالنے کی تگ و دو میں بہت سی بد روحیں جہان فانی سے کوچ کرگئیں (ان بدروحوں میں سے کسی نے قرارداد مقاصد اور آئین کے بنیادی اسلامی ڈھانچے کو چیلنج نہیں کیا، کسی نے بھی نظریہ پاکستان کی اسلامی روح سے انکار نہ کیا، مگر آج کل کے دانشور براہ راست آئین کی نظریاتی شناخت پر ہی حملہ آور ہیں)۔ اسلامی آئین کا نفاذ روکنے کےلیے پہلی بار علی الاعلان نظریہ پاکستان کو للکارا جا رہا ہے۔ اسلامی قوانین کوضیاء الحق کا عظیم جرم بتایا جارہا ہے، Draconian Law بیان کیا جارہا ہے۔ صبح شام ضیاء دور ضیاء دور پر تبرا بھیجنے والوں کو درحقیقت ضیاء سے نہیں قرارداد مقاصد اور اسلامی آئین سے پریشانی ہے۔ اگر موازنہ کیا جائے تولعن طعن کے مستحق وہ ہیں جنہوں نے وطن توڑا، جنہوں نے سودی نظام دانستہ قائم و دائم رکھا، جنہوں نے کشمیر کو بتدریج بھارت کی گود میں ڈال دیا، جنہوں نے آئین کو تکمیل تک پہنچنے سے روکا، جنہوں نے جمہوری تماشہ لگا کر اختیارات کا گھناؤنا کھیل کھیلا۔
نظریہ پاکستان کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ محتاج وہ ہیں جو آج تک اپنی شناخت ہی طے نہیں کرپائے۔ سیکولرزم کے شائقین اپنی دو رنگی شناخت کے ساتھ سب سے بڑی نام نہاد ہندو جمہوریت میں پناہ تلاش کریں۔ اگر پاکستان کا بھلا عزیز ہے تو 11 اگست کی خود ساختہ تقریر میں نظریہ پاکستان ڈھونڈنے کے بجائے آئین پاکستان کے مخلصانہ نفاذ پر متفق و متحد ہوجائیں۔ اصلاحات کی گنجائش ہمیشہ رہے گی مگر یہ گنجائش قراردادمقاصد کی حدود میں ہی رہے گی۔ یہ حدود کوئی پار نہیں کرسکتا۔ جسے یہ حدود پار کرنی ہیں وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حدود سے نکل جائے، کیونکہ پاکستان کا صرف ایک ہی مطلب ہے لا الہ الااللہ۔
تبصرہ لکھیے