Tag: نظام تعلیم

  • تعلیم سے تربیت کا رشتہ‎‎‎‎ – شیخ محمد ہاشم

    تعلیم سے تربیت کا رشتہ‎‎‎‎ – شیخ محمد ہاشم

    شیخ محمد ہاشم ٹی وی پروگرام میں میزبان طلعت حسین کو اپنی رائے دیتے ہوئے ایک تعلیم یافتہ نوجوان نے کہا کہ معاشرتی علوم کے مضمون کو نصاب سے خارج کردینا چاہیے کیونکہ معاشرتی علوم کے مضمون کا ہماری مستقبل کی اعلی پیشہ ورانہ تعلیم کوبہتر بنانے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ پروگرام کے میزبان طلعت حسین نے نوجوان کو منطقی دلیل دے کر قائل کیا اور بتایا کہ بچوں کو معاشرتی علوم پڑھانا کیوں ضروری ہے.

    یہ بات قابل غور ہے کہ آج کا نوجوان تعلیم کو دراصل نوکری کا ذریعہ سمجھتا ہے، وہ اپنی تعلیم و تربیت کو تاریخی حوالے سے ڈھالنے کو بےسود سمجھ رہا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ تعلیم کو کاروبار کی شکل دے دی گئی ہے اور اس میں سے تربیت کا پہلو نکل گیا ہے. آئین پاکستان نے آرٹیکل 25(A) میں تعلیم کو ہر شہری کے بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ دستور میں واضح لکھا گیا ہے کہ ریاست پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لیے مفت تعلیم دینے کا بندوبست کرے جیسا کہ تعلیم کے حق کے سلسلے میں قانون کی شقوں میں درج ہے لیکن حکومت اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی ہے. اور پرائیویٹ سیکٹر نے اسے کاروبار اور مال بنانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔

    دنیا پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے تعلیم کی ترقی کو خصوصی اہمیت دے رہی ہے۔ USAID اساتذہ کی بھرتی، تربیت، وظائف ،اسکولوں کی تعلیم اور HEC سمیت تعلیم کے کئی شعبوں میں فنڈنگ کر رہی ہے، اس کے باوجود پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں بہتری ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔

    والدین کے لیے بھی یہ بات قابل غور ہے کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پہ تعلیم کو نوکری کا ذریعہ جیسی محدود سوچ اپنے بچوں میں پروان چڑھاتے ہیں، ڈگریوں کی ریس میں بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ توکہلا رہے ہیں، لیکن بطور انسان چھوٹے ہوتے جارہے ہیں۔ یہ بات باعث تشویش ہے کہ پاکستان میں انسان سازی کا کوئی تربیتی ادارہ قائم نہیں ہے جہاں یہ تربیت دی جا سکے کہ ایک بہترین قوم بننے کے لیے سب سے اہم عنصر، اس قوم کا تاریخی پس منظر ہوتا ہے جس کے ذریعے اُس قوم کی تربیت مؤثر انداز میں ہوسکتی ہے. قوموں میں ارتقا کا عمل تاریخ سے سبق سیکھنے کے بعد ہوتا ہے، اگر کسی قوم کی تعمیر تاریخی و ثقافتی حوالے سے نہ ہو تو وہ قوم قوم نہیں بلکہ ٹولیوں میں بٹا ایک اجتماع کہلاتا ہے. المیہ ہے کہ ہم تاریخ اور ثقافت کے لحاظ سے اپنی قوم کی تربیت نہیں کر رہے بلکہ اپنے اسلاف کی ناقابل فراموش تاریخ کو پس پشت ڈال چکے ہیں۔

    بہترین قوم بنانے کا واحد راستہ یکساں تعلیمی نصاب ونظام ہے۔ طبقاتی تعلیم کا خاتمہ اور تعلیم کا عام کرنا ناگزیر ہوگیا ہے. تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں میں بدعنوانی کو گناہ عظیم سمجھنا ہوگا کیونکہ تعلیم ہی وہ ڈھال ہے جو منفی سو چ کی تیز دھار تلوار کے وار کو روک سکتی ہے اور تربیت ہی وہ دروازہ ہے جہاں سے اخلاقی پہلوؤں کا خیال رکھنے کی راہیں کھلتی ہیں.

  • میری نسلوں کا مستقبل بچائو – محمد نورالہدیٰ

    میری نسلوں کا مستقبل بچائو – محمد نورالہدیٰ

    ’’تعلیمی نصاب اور دفاتر و تعلیمی اداروں میں خط و کتابت اردو میں تبدیل کی جائے اور اعلیٰ تعلیم و سرکاری ملازمتوں کے امتحانات اردو میں لیے جائیں.‘‘
    یہ وہ مطالبہ تھا جو ’’پاکستان قومی زبان تحریک‘‘ کے سیمینار میں رکھا گیا اور اس قرارداد کو کثرت رائے سے منظور بھی کیا گیا۔ میں اس قرارداد کا اس لیے بھی حامی ہوں کہ اس میں مجھے اپنے نوجوانوں کا مستقبل دکھائی دیتا ہے۔ میں اس لحاظ سے ایک نکما طالبعلم رہا ہوں کہ میری انگریزی بہت کمزور ہے، اسی لیے موجودہ تعلیمی سسٹم میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کرسکا۔ مجھے بارہا کہا گیا کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کرلوں لیکن کوشش کے باوجود میں اس کا آغاز نہ کر پایا. کئی بار مقابلے کے امتحان میں حصہ لینے کا سوچا، لیکن ناکامی کا ایک انجانا سا خوف تھا جس نے مجھے جکڑ رکھا تھا۔ سول سروس کے لیے متعدد امتحانات میں اپلائی کیا لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کیونکہ یہ سب کچھ انگلش میں تھا اور میں 16 سال انگریزی پڑھنے کے باوجود اس سے نابلد تھا۔

    مجھ جیسے کتنے ہی لوگ ہیں جن کی ترقی کی راہ میں انگریزی رکاوٹ بنی ہوگی۔ کوئی ان کے دکھوں کا مداوا نہ کرسکا اور نہ ہی موجود نظام ان کی حوصلہ افزائی کا سبب بن پایا۔ 7 دہائیاں گزر گئیں، ملک سے انگریزی کا تسلط ختم نہ ہوسکا. کتنے ہی ذہین افراد اس نظام کی وجہ سے ضائع ہوگئے. ایسے میں، میں تحریک اردو پاکستان کی اس قرارداد کی حمایت نہ کروں تو اور کیا کروں۔ میں نہیں چاہتا کہ میری اور میرے طرح کے دیگر نوجوانوں کی طرح اب کسی کا مستقبل ضائع ہو، کسی کے خواب ٹوٹیں، کسی کی خواہشیں ادھوری رہ جائیں. بلاشبہ اب ہمیں مکمل طور پر متفق ہونا پڑے گا کہ تمام امتحانات سمیت مکمل تعلیمی سسٹم اردو زبان میں ہونا چاہیے۔

    بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک کی کوئی ایسی پالیسی نہیں جس پر بیوروکریسی اثرانداز نہ ہوتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جسٹس جواد ایس خواجہ کا نفاذ اردو بارے دیا گیا فیصلہ ابھی تک لاگو نہیں کیا جاسکا۔ اگرچہ کچھ یونیورسٹیوں نے اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کیا ہے، لیکن مجموعی طو پر صورتحال اب بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔

    یہ کیسا دوغلا سسٹم ہے جہاں قومی زبان فقط بولنے کی حد تک نافذ ہے ، عمومی طور پر انگلش میں لکھت پرت کرنے والے خود بھی آپس میں انگریزی بولنے کا تکلف نہیں کرتے، سرکاری و نجی میٹنگز کی کارروائی اردو میں ہوتی ہے لیکن اس کے منٹس انگلش میں بنائے جاتے ہیں، عدالتوں میں بحث اردو میں کی جاتی ہے لیکن فیصلہ انگریزی میں لکھا جاتا ہے، کلاس روم میں اسباق سمجھاتے ہوئے اردو کا سہارا لیا جاتا ہے مگر رٹا ہم انگلش میں لگانے پر مجبور ہیں، یعنی اردو صرف ہمارے گھروں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔ اردو کا یہاں وجود تو ہے، لیکن یہ اپنے پورے قد کے ساتھ نافذ نہیں ہے۔

    عملاً دیکھا جائے تو ہماری انگریزی اردو سے زیادہ کمزور ہوتی ہے۔ دفتری خطوط اور دیگر کاغذی کارروائی میں رٹے رٹائے جملے ہی استعمال ہوتے ہیں۔ انگریزی زیادہ تر ان کی ضرورت ہے جنہیں تحقیق کرنا مقصود ہو، ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ ایک عظیم اکثریت کا کیا قصور ہے جنہیں جبری اس سے نبردآزما ہونے پر لگادیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے سکولوں / کالجوں میں ڈراپ آئوٹ ریشو بھی بڑھ رہی ہے۔ غیر ملکی قرضے ہمیں تعلیمی ترقی سے آشکار کرسکتے تو اب تک کرچکے ہوتے۔ لیکن المیہ ہی یہی ہے کہ ہم لوگ آسان راستوں پر نہیں چلتے جس کی وجہ سے منزل سے کوسوں دور ہیں. سہل راستہ اختیار کریں تو ہی سفر جلدی طے ہوتا ہے وگرنہ راستے میں رکاوٹیں آتی رہیں گی اور منزل دور سے دور ہوتی رہے گی۔

    اقوام متحدہ کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ 2016ء کے مطابق پاکستان تعلیمی نظام میں دنیا بھر سے پیچھے ہے۔ پرائمری سطح پر دنیا سے 50 سال اور سیکنڈری سطح پر 60 سال پیچھے ہے۔ 56 لاکھ بچے پرائمری اور 55 لاکھ بچے سیکنڈری ایجوکیشن سے محروم ہیں۔ یہ تعداد دنیا بھر میں کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ دیہی علاقوں میں مردوں کی شرح خواندگی 64 اور خواتین کی شرح خواندگی 14 فیصد ہے۔ واشگاف انداز میں ہماری تعلیمی حالت زار بیان کرتی یہ رپورٹ حکومتی مہمات پر سوالیہ نشان چھوڑ رہی ہے. اگر دیکھا جائے تو ہماری تعلیمی ’’ترقی‘‘ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی انگریزی کے جبری تسلط کی پالیسی ہے. ہم دو کشتیوں میں سوار ہونے کی وجہ سے ہی تعلیم کے میدان میں اس قدر پیچھے ہیں ۔ ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں، اگر انہیں قومی زبان میں تعلیم دی جائے گی تو نہ صرف ان کے ذہنوں کو وسعت ملے گی بلکہ سوچ کا دائرہ اور تحقیق کا معیار بھی بڑھے گا۔ یوں وہ خود کو ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا بھی نہیں پائیں گے. ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارے سکولوں میں جو طلبہ تیار ہوں وہ اپنے علم کے بل بوتے پر گلوبل چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اعلیٰ تعلیم ان کی دسترس میں ہو گی تو ہی کامیابی کے زینے طے ہوں گے، تب ہی والدین کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا اور ملک کے روشن مستقبل پر مہر ثبت ہوسکے گی۔

    بدقسمتی سے زبانوں کی کشمکش کی وجہ سے ہمارے تعلیمی ادارے طالب علوں کی انگریزی بنیاد مضبوط بنانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ ہمارے تعلیمی سسٹم کو غیر محسوس طریقے سے انگلش میں تبدیل کردیا گیا ہے اور ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ اسی نظام کو قبول کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ 16 سال مسلسل انگریزی سے’’فیض یاب‘‘ ہونے کے باوجود اس پر گرفت حاصل نہیں کرسکے۔ طلبہ اس مضمون کو نہ تو سمجھ پا رہے ہیں اور نہ ہی عبور حاصل کر پارہے ہیں، بس بے مقصد ڈگریاں حاصل کرتے چلے جارہے ہیں جو ہمیں روزگار مہیا کرنے میں بھی معاون ثابت نہیں ہو رہیں۔ اگر ہمارے ماہرین تعلیم تعلیمی سفر کے آغاز پر ہی اس پر توجہ دیتے اور طالبعلموں کی ذہنی استطاعت کو مدنظر رکھتے، تو آج ناکام طلبہ کا تناسب اور ڈراپ آئوٹ ریشو یقینا بہت کم ہوتی۔ لیکن شاید انہیں صرف تنخواہ سے غرض ہے. سسٹم کی یہ نااہلی نہ صرف معیشت کو چاٹ رہی ہے بلکہ طلبہ کے بستے بھاری کرکے انہیں ذہنی طور پر مفلوج بھی کررہی ہے۔

    اسی کا شاخسانہ ہے کہ این ٹی ایس، سی ایس ایس، پبلک سروس کمیشن سمیت اعلیٰ سطح کی ملازمتوں اور داخلوں کے لیے تمام امتحانات میں ناکامی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اگر یہی امتحانات اردو میں لیے جائیں تو ملک میں زیادہ سے زیادہ مقابلے کی فضا پیدا ہوگی اور کوئی فرد اپنی قسمت آزمانے سے نہیں ہچکچائے گا۔ لیکن شاید یہ سازش ہے کہ ہماری نسلیں سر اٹھا کر نہ جئیں، معاشرے میں باوقار مقام حاصل نہ کرسکیں اور قومی وسائل پر ایک مخصوص طبقے کی اجاہ داری رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو محض فقیروں اور درویشوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے اور صرف ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ہی اسے زندہ رکھا ہوا ہے۔

    ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم صرف اردو ہی کے ہوکر رہ جائیں، دیگر زبانیں بھی انفرادی حیثیت میں سیکھنا اہم ہے۔ آپ انگریزی کو بیشک اہمیت دیں مگر اسے بطور ایک مضمون پڑھائیں، ذریعہ تعلیم کے طور پر مسلط کرنا ہماری نسلوں کےلیے نقصان دہ ہے۔ زبردستی اور مجبوری میں پڑھے جانے والا سبق ان کے نتائج پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ اسی لیے آج طلبہ کی صلاحیتیں ٹھیک سے اجاگر نہیں ہو پا رہیں اور بوٹی مافیا کا کلچر بڑھ رہا ہے۔ طلبہ انتشار کا شکار اور تعلیم سے باغی ہو رہے ہیں۔ لہذا اردو کا حق محض ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھائے جانے سے پورا نہیں ہوتا، اسے تمام شعبوں میں عملاً اور مکمل طور پر نافذ اور انگریزی کی غیر ضروری بالادستی ختم کرنا ہوگی۔ جب ذریعہ تعلیم کا فیصلہ ہوگا تب ہی معاشرے کی سمت متعین ہوگی اور ہم ترقی کی جانب بڑھیں گے۔

    نفاذ اردو کی جدوجہد نتیجہ خیز مراحل میں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ فیصلہ کرلیا جائے۔ پنجاب سے طلبہ کو چینی زبان سیکھنے کے لیے سکالر شپ پر چین بھیجا جا رہا ہے۔ یہ بہت خوش آئند اقدام ہے کہ اس سے طلبہ کو دوسرے ممالک کی زبانوں اور ان کے کلچر سے آگہی حاصل ہوگی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ وقت کب آئے گا جب دیگر ممالک سے لوگ اردو سیکھنے کے لیے یہاں آئیں گے؟

  • ملکی نظام تعلیم اور حل طلب مسائل – عائشہ چودھری

    ملکی نظام تعلیم اور حل طلب مسائل – عائشہ چودھری

    %d8%b9%d8%a7%d8%a6%d8%b4%db%81-%da%86%d9%88%d8%af%da%be%d8%b1%db%8c ایک پرانی کہاوت ہے کہ اگر سال بھر کوئی منصوبہ بندی کرنی ہے تو فصلیں اگاؤ. اگرایک سو سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو درخت اگاؤ اور اگر ایک ہزار سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو تعلیم پر سرمایہ لگاؤ.

    یہ بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ قوموں کی ترقی کا راز بہترین نظام تعلیم میں ہی ہے. تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے. اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جن قوموں نے تعلیم پر توجہ دی وہ آج کی ترقی یافتہ قوموں میں سے ایک ہیں جس کی چند بڑی مثالیں امریکہ، برطانیہ، ملائشیا، چین، فرانس، جرمنی وغیرہ ہیں. پاکستان میعار تعلیم میں بہت پیچھے ہے اور اس کی بڑی اور اہم وجہ حکمرانوں کی عدم دلچسپی اور نااہلی ہے.

    ہر دور حکومت میں تعلیم کے متعلق مختلف نعرے جیسا کہ ”مار نہیں پیار“، ”ہمارا خواب پڑھا لکھا پنجاب“ اور ”ہم نے بدلا ہے پنجاب ہم بدلیں گے پاکستان“، ”تعلیم کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا“ وغیرہ وغیرہ صرف نعرے ہی رہے، کبھی حقیقت نہ بن سکے. رٹے رٹائے یہ نعرے اور فلسفے ہی ہماری قوم کا مقدر بنتے جا رہے ہیں.

    موجودہ حکومت بھی یہ دعوٰی کر رہی ہے کہ وہ بھی تعلیم کے فروغ کے لیے بہت کچھ کر رہی ہے، موجودہ حکومت کی جانب سے تعلیم کے بجٹ میں 2 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے. مگر تاحال یہ صرف دعوی ہی ہے. دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے کے لیے مختص کی جانے والی رقوم 1947ء سے اب تک کل قومی پیداوار کے 2.1 فیصد سے کبھی آگے بڑھ ہی نہیں سکیں.

    پاکستان شرح خواندگی میں دنیا کے 162 اور پرائمری کی تعلیم کے معیار میں 116 ممالک سے پیچھے ہے. 18 ویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کے سپرد ہے اور پچھلے چند سالوں میں تعلیم کی صورتحال بہتر بنانے سے متعلق صوبوں کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے مگر خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آرہا.

    پاکستان میں تعلیم کی صورتحال پر کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے (اینول اسٹیٹس آف ایجوکیشن ) ”اثر“ کے مطابق اگرچہ ملک میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں کچھ کمی آئی ہے تاہم اب بھی 6 سے 16 سال کی عمر کے 20 فیصد بچے سکول نہیں جا رہے. ”اثر“ کی سالانہ رپورٹ برائے 2015ء کے مطابق پاکستان میں 2014ء میں سکول نہ جانے والے بچوں کا تناسب 21 فیصد تھا جو 1 فیصد بہتری کے بعد اس سال 20 فیصد رہا. ان میں سے بھی کبھی بھی سکول نہ جانے والے بچوں کی شرح 14 فیصد ہے اور مختلف وجوہات کی بنا پر سکول چھوڑنے والے بچوں کی شرح 6 فیصد تھی.

    یہ سروے پاکستان کے تقریباً 150 دیہی اور 21 شہری علاقوں میں کیا گیا. جس میں 6 سے 16 سال کی عمروں کے 2 لاکھ 20 ہزار بچوں کی زبان ( اردو، سندھی، پشتو ) سمیت انگریزی اور ریاضی میں مہارت کے حوالے سے جائزہ لیا گیا. اعداد و شمار کے مطابق صوبہ سندھ میں پرائمری اسکولوں میں داخلوں کی شرح سب سے کم رہی ہے. اس کے علاوہ 2015ء میں سرکاری اسکولوں میں 6 سے 16 سال کے عمر کے بچوں کے داخلوں کی شرح میں 6 فیصد اضافہ ہوا ہے. رپورٹ کے مطابق 2015ء میں لڑکیوں کے اسکولوں میں داخلے کی شرح میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے. یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ پاکستان پچھلے پندرہ سالوں میں اقوام متحدہ کے ان آٹھ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے جو ملینیم ڈویلپمنٹ گولز کے تحت تمام ترقی پذیر ممالک کے لیے طےکیے گئے تھے اور ان اہداف میں ایک بنیادی ہدف پرائمری تعلیم تھی. آخر وہ کون سی کوتاہیاں ہیں جو تعلیم جیسے شعبے کو ناکام بنا رہی ہے اور صوبائی حکومتیں تعلیم کے لیے کیوں موثر اقدامات کرنے میں ناکام نظر آرہی ہیں. ہمارا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ”زرخیز زمین پر بنجر قوم ہیں“. عمارت اس وقت تک مضبوط نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کی بنیاد مضبوط نہ ہو. اور اگر بنیاد ہی کمزور ہو تو عمارت کھڑی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. بالکل اسی طرح پرائمری اسکول بھی ہماری بنیاد ہیں اور اس کی مضبوطی اچھا استاد ہے. یونیورسٹی کا راستہ سکول سے ہو کر ہی آتا ہے. اور ہماری حکومتیں بنیاد کو ہی نہیں سنبھال پا رہی تو مضبوط عمارت کا قیام تو یقیناً ناممکن ہی ہوگا.

    پاکستان میں ناکام نظام تعلیم کی ایک بہت بڑی وجہ ملک میں بیک وقت دو خصوص نظام تعلیم کا رائج ہونا ہے، ایک اُردو میڈیم اور دوسرا انگلش میڈیم اور یہی فرق بڑا مسئلہ ہے. جو استاد اور طالب علم دونوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے. اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں شعبہ نظام تعلیم کے لیے بہت بڑا نظام موجود ہے مگر تیزی سے بڑھتی آبادی کے پیش نظر یہ ہماری تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہے. غربت اور مہنگائی بھی شعبہ تعلیم کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے.والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کی بجائے مزدوری کروانے کو ترجیح دیتے ہیں.بنیادی طور پر بچہ والدین سے زیادہ ریاست کی ذمہ داری ہے. والدین چاہیں نہ چاہیں وہ کہیں نہ کہیں ریاست کو ہر حال میں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے. جہاں تک میرا خیال ہے پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں تعلیم جیسا شعبہ بھی سیاست کی نذر ہوجاتا ہے. تعلیم سے متعلق پالیسیاں تو بنتی ہیں. اس پر عمل درآمد ہونا تو دور کی بات پہلی پالیسی کی جگہ دوسری پالیسی بن جاتی ہے. حکومت کو چاہیے کے تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ دے اور تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرے. ملک میں یکساں نصاب ونظام تعلیم کو درست راہ پر گامزن کرے. اس سے نہ صرف معاشرے سے امیر اور غریب کا فرق ختم ہو گا بلکہ معیار تعلیم میں بھی بڑھوتری آئے گی. اس کے ساتھ ساتھ امتحانی نظام کو بہتر بنایا جائے کیونکہ خراب امتحانی نظام کی وجہ سے طلبہ تعلیم سے ہی نہیں زندگی سے بھی مایوس ہو جاتے ہیں. استاد کی سلیکشن 10 منٹ کے بجائے مرحلہ وار ہونی چاہیے. اساتذہ پر تدریس کا بوجھ جتنا زیادہ ہے تدریسی تربیت کی اتنی ہی کمی ہے. یہ کچھ ایسے مسائل ہیں جنہیں ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے. یہ مسائل سنگین ضرور ہیں مگر ایسا نہیں کے انہیں حل نہیں کیا جا سکتا. ہاں تبدیلی کا سفر آہستہ اور کٹھن ضرور ہوتا ہے مگر منزل تک جانے کا راستہ مل جاتا ہے بس محنت کی ضرورت ہے. کیونکہ تاریخ ہمیشہ اس بات کی گواہ رہی ہے کہ قوموں کی ترقی میں تعلیم نے ہمیشہ کردار ادا کیا ہے اور جس بھی قوم نے اسے ہتھیار بنایا، دنیا اس کے سامنے سرنگوں ہوتی گئی.

    (عائشہ چودھری پنجاب یونیورسٹی سے کامرس میں پوسٹ گریجویٹ ہیں. ٹوئٹر آئی ڈیayexhach1@)

  • اُف، یہ انگلش میڈیم – ہمایوں مجاہد تارڑ

    اُف، یہ انگلش میڈیم – ہمایوں مجاہد تارڑ

    ہمایوں تارڑ ذرا تصور کریں، چوتھی یا پانچویں جماعت کا بچّہ درج ذیل انگریزی زبان میں لکھی عبارت کو رٹنے کی مشقّت میں اپنی بیسیوں قیمتی ساعتیں گھلائے چلا جاتا ہے تاکہ پرچہ امتحان پر یہ الفاظ کامیابی سے انڈیل سکے، تاکہ پاس ہو جائے، تاکہ شرمندہ ہونے سے بچ جائے، تاکہ اگلی جماعت میں کسی طرح پروموٹ کر دیا جائے۔ یاد کرتا ہے، لکھتا ہے، پھر بھول جاتا ہے، پھر یاد کرتا ہے، اور با لآخر اگلی صبح مضطرب دل لیے آیت الکرسی کا ورد کرتے سکول کے لیے رخصت ہوتا ہے:
    Photosynthesis is a process used by plants and other organisms to convert light energy, normally from the Sun, into chemical energy that can be later released to fuel the organisms’ activities (energy transformation).

    پوری ایمانداری سے کہیے، کیا بات محض اتنی سی نہیں کہ:
    Photosynthesis وُہ عمل ہے جس میں کچھ جاندار سورج کی روشنی میں پائی جانے والی توانائی کو جذب کر کے اسےشوگر یا گلوکوز میں بدل ڈالتے ہیں۔ اس عمل سے بننےوالا یہ نیا کیمیائی فارمولا یعنی گلوکوز اصل میں کسی بھی جاندار وجود کے لیے، حرکت و عمل کی خاطر، توانائی کا ایک اہم ذریعہ ہے، جو دنیا کی تقریباً ہر مخلوق کی زندگی کو سہارا دیتا ہے۔
    انسانی جسم میں شوگر یا گلوکوز کی سطح کے ایک حد سےگر جانے یا حد سے بڑھ جانے کی باتیں تو آپ نے سن ہی رکھی ہوں گی۔
    یہ عمل بڑے پیمانے پر پودوں کی پتیوں میں انجام پاتا ہے۔ اسے انجام دینے کو پتیوں میں موجود سبز مادہ یعنی کلوروفل (chlorophyll) نہایت ضروری ہے۔
    اِس عمل میں سورج کی توانائی، پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خرچ ہوتے ہیں اور شوگر (گلوکوز) اور آکسیجن حاصل ہوتے ہیں۔

    ہم تو بس یہ جانتے ہیں کہ سائنسی علوم کی تدریس بذریعہ قومی و علاقائی زبان کے ضمن میں اصطلاحات ہرگز رکاوٹ نہیں۔ یوں بھی اس لشکری زبان میں جب فارسی، ترکی، عربی، سنسکرت ایسی زبانوں کے الفاظ مستعمل ہیں، تو انگریزی زبان کے الفاظ کا استعمال کیا برا لگے گا! جن کی جگالی پہلے سے ہی ہم شب و روز کیے چلے جاتے ہیں۔ تو ایک زبان اور سہی۔

    اصطلاحات کو ویسا ہی کیوں نہ رہنے دیا جائے؟ سوال یہ ہے کہ Photosynthesis کو ضیائی تالیف لکھنا بھی کیوں ضروری ہے؟
    مطمح نظر اگر یہ ہے کہ طالبعلم کے دماغ میں ایک علمی نکتہ مستحکم طور پر اتر جائے، نہ صرف اس کا کانسپٹ کسی طرح کلیئر ہو، بلکہ اس سے ایک درجہ آگے بڑھ کر وہ اپنی زبان کے ذریعے تنقیدی اور تخلیقی انداز میں سوچنے کے قابل ہو سکے، تو اصطلاحات اور اشیاء کے نام وغیرہ بدلنے کی کوئی خاص ضرورت؟
    بس اس کی تشریح اور وضاحتی مواد کو آسان پیرائے میں لکھنے کی فکر کی جائے۔ تدریسی معیار بلند کرنے کی تدبیر کی جائے۔ اوپر جس مثال کا سہارا لیا گیا، اس سے یہی واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیسے اصطلاح کو من و عن پیش کرتے ہوئے بنیادی تصور کو بذریعہ اپنی زبان میں ذہن نشین کرایا جا سکتا ہے۔ علاقائی زبان تک استعمال کی جا سکتی ہے!

    مقصد بنیادی تصور بچے کے دل و دماغ میں راسخ کرنا ہے، تاکہ اس کا خلّاق دماغ گردوپیش میں دکھنے والی اشیا اور عوامل کو ہوشمندی سے سمجھنے، اور ان کوتنقیدی اور تعمیری انداز میں دیکھنے، پرکھنے کے قابل ہو سکے۔ پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی، پشتو وغیرہ کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے، اس میں کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے۔ کوئی شرم آڑے نہ آئے۔

    ذرا تصور کریں، سائنسی علوم کی تدریس بذریعہ قومی و علاقائی زبان کا چلن یہاں عام ہو جائے۔ یہ سب کچھ عملاً متشکّل ہو جائے۔ آپ سنہ 2019ء میں سندھ یا پنجاب وغیرہ کے کسی دور دراز گاؤں میں کسی سہانی صبح اپنی گاڑی سے اتر کر وہاں قائم کسی پرائمری سکول کے بچوں سے ملاقات میں یہی سوال ان سے کر بیٹھیں، اور جواباً وہ بچے بھاگم بھاگ سکول کے کسی کونے سے ایک گملا اٹھا لائیں اور پھر آپ کے روبرو پٹاخ پٹاخ معلومات کا ڈھیر لگا ڈالیں، تو آپ کی مسرت کا کیا عالم ہو گا! بقول پروفیسر پریشان خٹک مرحوم: ”اس تدریس کو علاقائی زبان تک اتار ڈالو۔پھر میں دیکھتا ہوں کیسے یہاں گلی گلی میں عبدالقدیر خاں پیدا نہیں ہوتے!“

    اقوام متحدہ اور یونیسکو کی رپورٹس اٹھا کر دیکھیں۔ بڑی جامعات کے تھیسس پر سرسری سی نظر ڈال لیں۔ حال ہی میں خود برٹش کونسل کی جاری کردہ رپورٹ پڑھ کر دیکھ لیں۔ یہ سب اسی بات کی دہائی دیتے ہیں کہ خدا کے بندو، تعلیم و تدریس کوقومی اور مادری زبان میں لے کر چلو۔ غیر زبان نے تو اُلٹا پردہ تان رکھا ہے۔ سراسر رکاوٹ ہے، نہ کہ سہولت۔ دعا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کسی طور اس جانب متوجہ ہوں، اور عملاً یہ معرکہ سر کر ہی ڈالیں۔

    رہی بات تعلیم میں انگریزی زبان کی اہمیت کی تو اس کا آسان حل وہی ہے جس کا تجربہ جاپان اور چین ایسے ممالک میں نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں انٹرنیٹ پر تھوڑی برائوزنگ کی تو نوائے وقت میں چھپے ایک کالم پر نظر پڑی۔ سید روح الامین نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
    ”جاپان اور چین میں ہر بالغ اپنی زبان پر دسترس حاصل کرنے کے بعد صرف چھ ماہ میں کسی بھی زبان پر قدرت حاصل کر سکتا ہے اور اس کے لیے بارہ اور چودہ سال کی لگاتار محنت کی ضرورت نہیں۔ جبکہ ہمارے یہاں طلبہ و طالبات کو بارہ اور چودہ سال تک انگریزی پڑھانے کے باوجود دیگر ممالک میں TOFEL اور GRE کے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ہم کیوں نہ اپنے ممالک کی ہر علاقہ میں سب سے زیادہ سمجھی اور بولی جانے والی زبان کی تعلیم کو معیاری بنانے کے ساتھ انگریزی زبان کی تعلیم کو ایک سالہ یا شش ماہی Crash Programme کے ذریعہ زیادہ مؤثر بنانے پر زور دیں۔ تاکہ انگریزی کی حمایت میں دی جانے والی دلیل کی (فی زمانہ انگریزی کے بغیر جدید علوم تک رسائی ممکن نہیں ہے) غلط ثابت ہو سکے اور ہم ایک پنتھ دو کاج کے مصداق اردو اور انگریزی کی یکساں تحصیل کر سکیں۔“

  • المیہ – کامران امین

    المیہ – کامران امین

    کامران امین 2013ء کے آخری ایام کی بات ہے. میں اپنی تعلیم کی وجہ سے اسلام آباد میں ایک ہاسٹل میں رہائش پذیر تھا۔ میرے روم میٹ نے مجھے سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک لڑکے سے متعارف کروایا جو آئی ایس ایس بی کی تیاری کر رہا تھا۔ خیر مجھے کہا گیا کہ اگر ممکن ہو تو میں ریاضی میں اس لڑکے کی مدد کروں۔ ابتدائی کچھ گفتگو کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ لڑکا تو ریاضی کے بنیادی اصولوں سے بھی واقفیت نہیں رکھتا۔ میری حیرانی میں اور اضافہ ہوا جب مجھے بتایا گیا کہ اس لڑکے نے ایف ایس کے امتحان میں اسی فی صد سے زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں۔ مجھے پوری امید تھی کہ وہ لڑکا ابتدائی ٹیسٹ بھی نہیں کر پائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ جس شام کو نتیجہ آیا اس نے اپنے گھر والوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسے صرف اس لیے منتخب نہیں کیا گیا کیوں کہ وہ سندھی تھا۔ آرمی میں پنجابی افسران کی بالادستی ہے اور ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ پنجابی ہی بھرتی ہوں۔ اس نے نہ جانے کتنے لوگوں کو یہ کہانی سنائی ہوگی اور اپنے ایف ایس کے نمبر بھی بتائے ہوں گے۔ یقیناً اس کے دوست احباب یہی کہیں گے کہ وہ لڑکا بہت ذہین اور فطین ہے اور سچ کہ رہا ہے۔ یہی حال کشمیر سے تعلق رکھنے والے میرے ایک اور ساتھی کا ہوا۔ وہ دو دفعہ منتخب نہیں ہو سکا اور آج کل وہ ہر وقت پاکستان کے خلاف بھرا ہوتا ہے۔

    کیا یہ صرف سند ھ کی کہانی ہے؟ جی نہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں ہوش سنبھال رہا تھا تو آزاد کشمیر میں پاکستان کے خلاف بات کرنا کبیرہ گناہ سمجھا جاتا تھا۔ آرمی کی گاڑیاں سڑکوں پر گشت کرتی تھیں تو ہم بچے کنارے کھڑے ہو کر انہیں سلیوٹ کیا کرتے۔ اب مگر اسی کشمیر میں قوم پرست گروہ نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ مگر کیا یہ جائز ہے؟ کیا سنجیدہ فکر رکھنے والے کچھ لوگ اس بارے میں بھی مباحثہ کریں گے کہ نوجوان فرقہ پرستی، لسانی گروہ بندی کی طرف کیوں مائل ہو رہے ہیں ؟ چھوٹے گروہوں میں بڑھتے ہوئے احساس محرومی سے کوئی نقصان ہو سکتا ہے۔

    اس کی ہزاروں وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن میرے خیال میں تعلیمی نظام پر بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ میں جب پرائمری اور مڈل سکول میں تھا تو ہر روز کم از کم ایک گھنٹہ ہمارے اساتذہ اخلاقی اور سماجی برائیوں پر ہمیں درس دیا کرتے (جو اگر چہ اس وقت ہم توجہ سے نہیں سنتے تھے لیکن آج ان کی افادیت خوب معلوم ہوتی ہے). ایک دفعہ میں نے قمیص پر کافی شوخ قسم کی کڑھائی اور بٹن لگوائے تو میرے ایک معزز استاد نے مجھے کہا: آپ جیسے طالب علم پر یہ بازاری لڑکوں کا سا لباس جچتا نہیں۔ اس کے بعد کبھی بھی وہ قمیص نہیں پہنی۔ میں دراصل یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ استاد اس وقت طالب علم کی پڑھائی سے لے کر اس کے لباس گفتگو، چلنے پھرنے اور کھیلنے کودنے تک نظر رکھا کرتے تھے، لیکن کیا یہ اب بھی ہے؟ مجھے افسوس ہے کہ اب یہ سلسلہ کہیں متروک ہو چکا ہے اور کہیں متروک ہوتا جا رہا ہے۔ استاد کی پوری توجہ اب صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ طالب علم کس طرح زیادہ سے زیادہ نمبر لے اور بس۔

    لیکن اس سارے معاملے میں صرف استاد کو قصور وار ٹھہرانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ جہاں پر استاد کی ترقی اور عزت افزائی کا سارا دارومدار صرف اسی بات پر ہو کہ اس کے طالب علموں نے 100 میں سے کتنے نمبر لیے تو استاد پھر اچھے نمبروں کی دوڑ کے پیچھے نہیں بھاگے گا تو اور کیا کرے گا۔ بہت سارے لوگوں نے تھری ایڈیٹس دیکھی ہوگی (اگر نہیں دیکھی تو ضرور دیکھیں) ہیروئین کا باپ کالج کا پرنسپل ہوتا ہے۔ اور جب ہیروئین ایک موقع پر ہیرو سے یہ پوچھتی ہے کہ تمہیں میرے باپ سے کیا دشمنی ہے تو ہیرو اسے جواب دیتا ہے کہ تمہارا باپ ایک ایسی فیکٹری چلا رہا ہے جس میں ہر سال گدھے مینو فیکچر ہوتے ہیں۔ کیا ہمارے تعلیمی ادارے ہماری سوسائٹی بھی ایسی ہی ایک فیکٹری نہیں بنتی جا رہی؟

  • جدید تعلیم اور نصاب (2) – محمد دین جوہر

    جدید تعلیم اور نصاب (2) – محمد دین جوہر

    محمد دین جوہر مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم پر گفتگو میں یہ پہلو سرے سے موجود نہیں ہے۔ قومی تعلیم پر داد سخن ایک مستقل سرگرمی ہے لیکن عموماً یہ نصاب سے شروع ہوتی ہے اور نصاب پر ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ہماری قومی بدنصیبی تو ہے ہی، لیکن تعلیم کے لیے بھی کوئی نیک فال نہیں ہے۔ اس مختل تناظر کی وجہ سے ہماری تعلیم کبھی سیدھی نہیں ہو سکی اور نہ ہو سکتی ہے۔ گزارش ہے کہ جس صورت حال کو بہتر کرنا، یا اسے یکسر تبدیل کرنا مطلوب ہو، اس کا درست تجزیہ ہی نئے عمل کی بنیاد بن سکتا ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر جدید تعلیم کو نصاب کے مساوی سمجھا جاتا ہے اور اس موقف پر کھڑے ہو کر جدید یا روایتی تعلیم کے بارے میں کوئی بصیرت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس صورت حال کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کریں ایک بڑا سا موٹروے ہے، اس موٹروے پر ایک بس دوڑتی چلی جاتی ہے، اس بس میں بہت سی سیٹیں ہیں، ان سیٹوں پر بچے بیٹھے ہیں، ان بچوں کے پاس بستے ہیں، ہر بستے میں پانچ سات کتابیں ہیں۔ ہمارے اہل نظر کا خیال ہے کہ ہر بستے کی دو تین کتابیں بدل دینے سے یہ سارا نظام بدل جائے گا۔

    جدید تعلیمی نصاب چند موضوعات اور مضامین پر متون کا مجموعہ ہے۔ یہ مضامین معاشرے کی عملی اور معاشی زندگی میں اہم خیال کیے جاتے ہیں۔ لیکن جدید عہد میں متن کی بدحالی پر گفتگو کیے بغیر نصاب کا مسئلہ طے نہیں ہو سکتا۔ جدید عہد میں متن واقعے کی پیداوار ہے، یعنی جدید عہد میں متن واقعہ کے تابع ہے۔ یہ ”واقعہ“ فطری، ارضی، سائنسی، نفسی یا ذہنی ہو سکتا ہے۔ اور یہ واقعات بہت ہی تیزی سے بدلتے اور بدلے جاتے ہیں۔ جدید پیداواری وسائل متن کو ان کے تابع اور ہم قدم رکھتے ہیں۔ زمانے کے مطابق، جدید تعلیم میں شامل متون اور نصابات از اول تا آخر، بلا اطلاع مکمل طور پر بدل جاتے ہیں، اور سابقہ متون بیک آن و بیک قلم متروک ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ جدید تعلیم کے مجموعی عمل میں متن مقدس ہے نہ مستقل، اور نہ ہی اس کا معنی مقدس اور مستقل ہے۔ جدید تعلیم میں متن اور نصاب کی حیثیت ایک کنویئر بیلٹ (conveyer belt) کی ہے جو نئے معانی کے بسکٹ بچے تک پہنچاتا ہے۔ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد اس بیلٹ کا ڈیزائین اور رفتار تبدیل ہو جاتی ہے اور بسکٹ بھی نیا آ جاتا ہے۔ جدید تعلیم کا مقصد اور طریقۂ کار یہی ہے۔ جدید تعلیم میں متن و معنی مطلوب و مقصود نہیں ہیں، محض آلاتی ہیں۔ جدید نصابات بچے کے ذہن کی نئی تنظیم کاری کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے مذہبی متون کے ساتھ یہ رویہ اختیار کر سکتے ہیں؟ جدید عہد میں ہمارے ہاں مذہبی متون کا آلاتی استعمال بھی جدید تعلیم کی نحوست کا اثر ہے۔
    جدید تعلیم متن اور نصاب کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اس کا مقصد دو چیزوں کو مسلسل مٹاتے چلے جانا ہے۔ خارج میں روایت اور تاریخ، اور داخل میں حافظہ۔ جدید تعلیمی نظام متن اور نصاب کو بہت مہارت سے استعمال کرتا ہے تاکہ بچے کا روایت اور تاریخ سے کوئی تعلق باقی نہ رہے، اور وہ لیبارٹری تک محدود ہو جائے، اور روایت جس چیز کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے وہ اس بچے کی رسائی میں نہ رہے۔ دوسری طرف یادداشت اور حافظے کو جدید تعلیم میں کوئی اہمیت دینا ناپسندیدہ اور دقیانوسی خیال کیا جاتا ہے۔ جدید تعلیم میں نصاب یا کسی تدریسی طریقے کا پرانا اور مندرس (out of date) ہونا بہت ہی بڑا عیب ہے۔ جدید تعلیم، نصاب کے ذریعے تاریخ اور روایت کے ذکر ہی کو شرم ناک بنا دیتی ہے، اور حافظے پر انحصار کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ جدید تعلیم کے ذریعے روایت کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں کوئی ”متعین“ چیز باقی نہ رہے اور حافظے کے خاتمے کا مطلب ہے کہ ذہن میں کوئی ”متعین“ چیز باقی نہ رہے۔ اگر یہ مقصد حاصل ہو جائے تو فرد مکمل طور پر سیاسی، معاشی اور میڈیائی قوتوں کے جھکڑ میں ریگ رواں بن جاتا ہے۔

    جدید تعلیم اور نصاب میں تخلیقی عمل اور رویوں پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ تخلیقی عمل کا مرکز جمالیاتی تجربہ ہے، اور تخلیقی عمل نفس انسانی کی آزادی اور حریت کا اظہار ہے۔ جدید تعلیم جسے تخلیقی عمل قرار دیتی ہے، وہ دراصل ابداع (innovation) ہے، یعنی ایک ہی معلوم چیز کے کئی نمونے اور ڈیزائین بنانا۔ ابداعی عمل دراصل مارکیٹ کی ضرورت کے تابع اور کاروباری نوعیت کی سرگرمی ہے۔ جدید تعلیم میں سکھایا جانے والا تخلیقی یا ابداعی عمل حافظے اور فہم میں بھی ایک جدلیات پیدا کر دیتا ہے۔ اس طریقۂ کار کا مقصد پرانی چیز کی تنقیص کرنا اور نئی چیز کی تعظیم سکھانا ہے۔ اس رویے اور ذہنیت میں ”پرانا ہونا“ ازخود اور بغیر دلیل کے مذموم ہو جاتا ہے۔ آگے چل کر یہی چیز فیشن، نئے ماڈل، اور نئی نئی مصنوعات کو قبولیت دے کر کاروبار میں معاون ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں استعمار کی عطا کردہ جدید تعلیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا ”مذہبی حافظہ“ کباڑ خانہ بن گیا، اور جدید ذہن بالکل ہی بنجریلا اور میکانکی ہو گیا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ حافظے اور ذہن میں زندہ نسبتیں تلاش کی جاتیں، کیونکہ اپنی کوئی چیز بنانے میں محنت کرنا پڑتی ہے اور یہ محنت ہم پر بہت گراں گزرتی ہے۔

    جدید تعلیم کا تدریجی عمل متن کے ساتھ بچے کے نفسی رویے اور ذہنی تعلق کو تبدیل کر دیتا ہے۔ تعلیم میں جدید نصاب کی حیثیت کو دیکھے بغیر ان کی جگہ یا ان کے ہم پہلو مذہبی متون رکھنے سے ہمارے اعتقادی اور اخلاقی مقاصد حاصل نہیں ہو پاتے۔ بطور مسلمان ہم جس متن پر ایمان رکھتے ہیں وہ کسی تاریخی واقعے کا پیدا کردہ نہیں ہے، نہ کسی واقعے کے تابع ہے، نہ انسانی شعور کا پیدا کردہ ہے، نہ انسانی شعور کے تابع ہے، نہ وہ جدید ہے، نہ وہ مندرس ہے۔ وہ حق ہے، حق کا اظہار ہے، اور ہدایت ہے۔ جدید تعلیم کا متن صرف ذہن کے لیے ہے جبکہ مذہبی متن کا مخاطب صرف ذہن نہیں، پورا انسان ہے۔ جدید تعلیم کا نصاب بچے کو زمانے کی ہمقدمی سکھاتا ہے اور بہت جلد یہی زمانہ اس کے ذہن اور عمل کا مقتدا بن جاتا ہے۔ مذہبی متن کو زمانے کی ہمقدمی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ زمانے کی مقتدائیت کو رد کرتا ہے۔ جدید تعلیم انسان کو مرکبِ ایام (زمانے کی سواری) بنا دیتی ہے، جو عبد کے دینی تصور کی ضد ہے۔

    لارڈ میکالے نے جب تعلیم کو ریاستی اختیارات کے ذریعے باقاعدہ حیثیت دی، اور اسے ”تعلیمات عامہ“ بنا دیا تو اس میں ایک نہایت بنیادی ایجنڈا یہ تھا کہ ہماری زبانوں کو بالکل تباہ کر دیا جائے۔ کچھ زمانے تک ہمیں اس کا خفیف سا احساس رہا، لیکن بہت جلد ہم خود عین اسی ایجنڈے پر کاربند ہو گئے۔ یعنی جدید تعلیم کے ذریعے اپنی زبانوں کی مکمل تباہی اب ہمارا مقصد بھی ہے۔ آج ہماری زبانوں کی تباہی مکمل ہو گئی ہے اور اس پر فخر ہمارے کلچر کی بڑی روایت بن گئی ہے۔ گولی سے جسم ہلاک ہوتا ہے اور زبان کو متن سے ہلاک کیا جاتا ہے۔ زبان کی ہلاکت دراصل انسانی شعور کی ہلاکت ہے۔ جدید تعلیم کے طریقۂ کار اور نصابوں سے آج لارڈ میکالے کا منصوبہ پورا ہو گیا ہے اور ہماری زبانیں اور ہمارا شعور ہلاکت میں ہیں۔ ہم اپنی تہذیب اور شعور کے ملبے سے بس ایک بستہ بچا لائے ہیں، اور اسی کی مجاوری پر خوش ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے ذہنی اور ثقافتی وسائل فراہم کیے جا سکتے ہیں، جن سے یہ بچا کھچا بستہ ہمارے شعور کی رگِ زندگی اور ہماری تہذیب کی اصلِ حیات بن سکے؟ نصاب کا سوال ضمنی ہے، اور شعور اور تہذیب کی زندگی کا سوال بنیادی ہے۔ نصاب درست ترتیب اور تناظر ہی میں بامعنی ہوتا ہے۔ آج ہماری یہ ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔

    پہلی قسط یہاں ملاحظہ کیجیے

  • جدید تعلیم اور تنظیمی عمل‌ (1) – محمد دین جوہر

    جدید تعلیم اور تنظیمی عمل‌ (1) – محمد دین جوہر

    محمد دین جوہر زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ہے۔ معلوم ”نصوص“ کے ساتھ ہمارا روزمرہ عملی رویہ، ان کی تشریحاتی غارت گری، اور ان کا آلاتی استعمال ہمارے انہدام شعور، نفسی گراوٹ اور نظری علوم کے خاتمے ہی پر دلالت کرتا ہے۔ ”نص“ ہمارے لیے اب ”پیکر محسوس“ کا کام کرتی ہے، اور اسے ”دیکھ“ کر بس خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس کی ہمارے ذہن سے علمی نسبتیں، نفس سے اخلاقی نسبتیں، وجود سے حق کی نسبتیں کمزور پڑ گئی ہیں، یا معدوم ہو گئی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہوئی ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے فقہ الاکبر کے تناظر میں ہم اپنے دینی عقیدے کے ساتھ جڑی ہوئی نظری علم کی روایت کو نہ سمجھتے ہیں، نہ اس کی طرف مڑ کر دیکھنے کے روادار ہیں، اور نہ ہمیں اس میں کوئی دلچسپی باقی رہی ہے۔ عہد زوال میں نظری علوم سے لاتعلقی اور پھر نفرت کی وجہ سے ہم ”عرفان“ کی طرف مائل ہو گئے۔ لیکن نظری علوم سے دشمنی کی فضا میں عرفان پر طبع آزمائی ایسے ہی ہے جیسے آدمی ہوائی جہاز کی دم سے رسی باندھ کر اس پر ”سوار“ ہو جائے۔ آغاز ہی میں جملہ معترضہ کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جدید تعلیم، عملی سرگرمی سے پہلے، از اول تا آخر ایک نظری مبحث ہے، اور ہم اس پر صرف وعظ کرنے یا دم کرنے پر بضد ہیں، اور زمین ہمارے پیروں تلے سے نکلتی جا رہی ہے اور آسمان سر سے ہٹتا جا رہا ہے۔ وعظ یا دم کی افادیت سے کسے انکار ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا محل نہیں ہے۔

    گزارش ہے کہ جدید تعلیمی عمل تنظیمی ہے جبکہ روایتی تعلیمی عمل اخلاقی تھا۔ ”تنظیم“ (آرگنائزیشن) تو پرانے معاشرے میں بھی موجود تھی، اور نئے معاشرے میں بھی موجود ہے، لیکن ان میں نوعی فرق ہے۔ روایتی معاشرے میں ”تنظیم“ اخلاقی اصولوں کی پاسداری اور حفظ مراتب کے نظام میں تشکیل پاتی تھی، جبکہ جدید تنظیم کا اصول طاقت اور پیداوار ہے۔ روایتی تنظیم میں شمولیت کا منبع فرد کے داخل میں تھا، جبکہ جدید تنظیم میں یہ فرد کے خارج میں ہے۔ جدید تنظیم کی بنیادی ترین تعریف ہی یہ ہے کہ:
    Modern organization is an artificial construct set up by the power of law.

    جدید تنطیم اور تنطیمی عمل اپنی پوری وجودیات اور فعلیات میں سیاسی طاقت کے تابع اور اصول پیداوار پر اساس رکھتا ہے۔ جدید تنظیم مکمل طور پر تجریدی، آلاتی اور میکانکی ہے۔ مذہبی معنوں میں ”حضور“ کا تصور انفسی ہے، لیکن ”جدید تنظیم“ سیاسی طاقت کے ”حضور“ کو آفاق میں ممکن بنا دیتی ہے۔ جدید تنظیم قواعد و ضوابط اور اختیار کی جادوئی رسیوں سے بنا ہوا جال ہے جو سانپ تو نہیں بنتیں، غیرمرئی ہو کر سارے کو لپیٹ لیتی ہیں۔ تنظیم میں ملفوف انسان اندر باہر سے بدل جاتا ہے۔ تنظیم کی شرط وجود اور شرط فعلیت چونکہ قانون ہے اس لیے یہ سیاسی فیصلے کا حاصل ہے، اور قانون طاقت کا نفاذ ضمناً ہے اور سیاسی طاقت کی توسیع اصلاً ہے۔ اگر تنظیم کی شرطِ وجود اور شرطِ فعلیت قانون ہو، تو وہ صرف دو کام کر سکتی ہے: ایک پیداوار کو کئی گنا بڑھانے کا کام اور دوسرا اختیار اور طاقت کے ارتکاز کا کام۔

    اس ”دراز نفسی“ کی ضرورت صرف یہ عرض کرنے کے لیے پیش آئی کہ تنظیم میں اخلاقیات اور انسانی رشتوں کی چونکہ کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اس لیے ان کا خاتمہ بالخیر ازخود ہو جاتا ہے۔ تنظیم میں ”اخلاقی“ کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ یہاں اخلاقیات کا مطلب ”ڈیوٹی“ اور ڈسپلن ہے جو تنظیم کی نئی اخلاقیات ہے۔ جدید تعلیم از اول تا آخر ایک بہت وسیع اور طویل تنظیمی عمل ہے، اور اس کے نتائج تنظیمی وجودیات کے تابع ہیں، اور اخلاقی معنوں میں ارادی نہیں ہیں، جبری ہیں۔ ہمارا روایتی تصورِ تعلیم از اول تا آخر اخلاقی ہے۔ ہمارا یہی دبدھا ہے، اور یہی اشکال ہے۔ کیا تعلیم کا کوئی بھی دینی تصور ”تنظیمی“ ہیئت میں قابل حصول ہے یا نہیں، یہ ہمارا سوال ہے۔ جدید عہد میں ہر اجتماعی سرگرمی تنظیمی ہے، اور کوئی دوسرا طریقہ دستیاب بھی نہیں۔ تنظیم کی ساری بحث میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ تنظیم اب شرائط ہستی میں داخل ہے۔

    ”تنظیمی ڈھانچہ“ بہت بامعنی ترکیب ہے اور جدید تنطیم کو مکمل طور پر بیان کرتی ہے۔ ”تنظیمی ڈھانچہ“ اپنا کام میکانکی طریقے سے کرتا ہے اور ساتھ کھڑکھڑاتا بھی رہتا ہے۔ ”تنظیمی ڈھانچہ“ طاقت اور بالائی اختیار سے حرکت کرتا ہے، یہ موجود ہوتا ہے، محسوس بھی ہوتا ہے، سمجھ میں بھی آتا ہے لیکن نظر نہیں آتا۔ ”تنظیمی ڈھانچے“ میں ہڈیاں وغیرہ نہیں ہوتی بلکہ ہڈی کی طرح پتھرایا ہوا آدمی ہڈیوں کی جگہ نصب ہوتا ہے۔ ”تنظیمی ڈھانچے“ میں انسان دوستی، دلداری، خیرخواہی، اخلاقیات بھی اسی طرح کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے جیسے اصلی ڈھانچے میں ہوتی ہے!

    سوال یہ ہے کہ تنظیم کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ گزارش ہے کہ پانی میں ایک بڑے پتھر کو پھینکا جائے تو پانی کی پوری ترتیب بدل جاتی ہے۔ یہ تبدیلی اضطراری ہے، ارادی نہیں ہے، یعنی پتھر گرنے کے بعد پانی اپنی ترتیب بدلے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اسی طرح انسانی معاشرے میں مشین کے داخل ہوتے ہی انسانی رشتوں کی پوری ترتیب بدل جاتی ہے۔ یہ تبدیلی بھی اضطراری ہے، ارادی نہیں ہے، یعنی انسانی معاشرے کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ ایسے روایتی رشتوں پر باقی رہ سکے، جن کی اساس اخلاقی ہو۔ انسانوں کے باہمی تعامل میں اخلاقی رویے اور رشتے اہم ہوتے ہیں اور تنظیمی رشتوں کی ضرورت نہیں پڑتی، جبکہ مشین سے تعامل تنظیمی رشتوں کے بغیر ممکن نہیں ہو پاتا ہے۔ مشین ایک ایسی ”تنظیم“ ہے جو نظر آتی ہے، اور ”تنظیم“ ایک ایسی مشین ہے جو نظر نہیں آتی۔ تنظیمی رشتے اور مشین لازم و ملزوم ہیں۔ انسان کے تنظیمی رشتوں کی بنیاد طاقت اور پیداوار کے اصول ہیں، اخلاقی نہیں ہیں۔

    اگر ہم تھوڑا سا غور سے دیکھنے کی کوشش کریں تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ہمارے روایتی معاشرے میں تعلیم کا پیڑڈائم استاد اور شاگرد کا اخلاقی رشتہ تھا، جو پوری تہذیب کا گہوراہ بھی تھا۔ اس کی کچھ جھلکیاں آج بھی نظر آتی ہیں لیکن نادر کالمعدوم ہیں۔ روایتی معاشرے میں بچوں کی تعلیم معاشی ارتکاز کا طریقۂ کار اور اسناد کا پیداواری عمل نہیں تھا۔ جدید اور روایتی تعلیم کے تناظر میں ہمارے ہاں سب سے عام بحث نصاب کی ہے جو ہماری ساری بد نصیبیوں اور فکری نارسائیوں کا خلاصہ بھی ہے۔ جب تک ہم جدید تعلیم کو اس کے اپنے تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے، ہم کسی طرح کی تبدیلی لانے کے قابل بھی نہیں ہو سکیں گے، کیونکہ جدید تعلیمی ادارہ بھی ایک تنظیم ہی ہے جسے اصول پیداوار پر بنایا گیا ہے، اور اس کے تمام اہداف مقداری ہیں، اخلاقی نہیں ہیں۔

    یہاں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ ہم صرف صورت حال کا تجزیہ پیش کر رہے ہیں، کوئی فیصلہ وغیرہ نہیں دے رہے۔ اپنی مجموعی صورت حال کے بارے میں ہم عمومی طور پر غیر مطمئن ہیں، اور اس کا تجزیہ کسی اطمینان بخش حل کے لیے ضروری ہے۔

    دوسری قسط یہاں ملاحظہ کیجیے

  • ہاں سازش تو کہیں ہے-انصار عباسی

    ہاں سازش تو کہیں ہے-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    آج کے اخبار ات میں ایک خبرپڑھی تو بہت دکھ ہوا۔ لیکن جب میں نے تصدیق کےلیے متعلقہ افراد سے بات کی تو معاملہ بالکل مختلف نکلا۔ گزشتہ چند ہفتوں سے میں اس معاملےپر لکھنا چاہتا تھا لیکن کسی نہ کسی وجہ سے تاخیر ہوتی گئی۔ آج کے تقریباً تمام اخبارات میں اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالےسے ایک خبر شائع ہوئی۔ خبر کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نےوفاق کی جانب سے تعلیمی اداروں میں قرآن پاک کی تعلیم کےلیے تیار کردہ نصاب پر اعتراض کر دیاجس کی وجہ جہادسے متعلق آیات نصاب میں شامل نہ کرناہے۔ ان خبروں کے مطابق کونسل کے ممبران کی اکثریت کاموقف تھا کہ جہادسے متعلق 484 آیات میں سے کسی ایک آیت کو نصاب میں شامل نہ کرنا ایک سازش ہے۔ مجھے چونکہ حکومت کی طرف سےا سکولوں کالجوں میں مسلمان طلبا و طالبات کو قرآن حکیم ناظرہ اور ترجمہ کے ساتھ پڑھانےکےفیصلے کےبارےمیں علم تھا اور اس بارے میں میں نے کچھ عرصہ قبل ایک خبر بھی جنگ اورنیوز میںشائع کی تھی، اس لیے نظریاتی کونسل کے حوالےسے یہ خبرپڑھ کر دکھ ہوا کہ یہ کیا ہو گیا۔

    دکھ اس بات پر تھا کہ حکومت کس طرح قرآن پاک کے کسی بھی حصہ کو اسکولوں کالجوں کے نصاب سے نکال سکتی ہے۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک کےپریشر میں حکومت نے واقعی یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ جہادسے متعلق قرآنی احکامات کو نصاب میں شامل نہ کیا جائے۔ لیکن اس بارے میں جب میں نے متعلقہ وزیر مملکت جناب بلیغ الرحمنٰ سے بات کی تو معلوم ہوا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔

    بلیغ الرحمنٰ جنہوں نے قرآن پاک کو اسکولوں کالجوں میں پڑھانے کی حکومتی پالیسی کے بننے میں کلیدی کردار ادا کیاتھا، کا کہنا ہے کہ نصاب میں سے قرآن پاک کا کوئی ایک لفظ بھی وہ نکالنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے تحت اسکول کے بچوں کو مکمل قرآن پڑھایا جائے گا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلی سے پنجم جماعت تک کے بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھایا جائے گا۔ چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک کے طلبہ کو قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھایا جائے گا۔ ترجمہ پڑھانےکےلیے قرآن پاک کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ مکی سورتوں کو چھٹی سےلے کر دسویں جماعت تک کے طلبہ کوپڑھایا جائے گا جبکہ گیارویں اور بارہویں جماعت کے بچوں کو مدنی سورتیں ترجمعہ کے ساتھ پڑھائی جائیں گی۔ بلیغ الرحمنٰ کا کہنا تھا کہ چونکہ مدنی سورتوں میں جہاد سمیت دوسرے قرآنی احکامات کا ذکر ہے اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ بچے جب نسبتاً سمجھ کے قابل ہوں تو انہیں قرآن پاک کے اس حصہ کا ترجمہ پڑھایا جائے۔ مکی سورتوں کا نصاب تیار ہو چکاہے جسے اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے رکھا گیا جبکہ مدنی سورتوں کا نصاب تیاری کے عمل میںہے۔

    سوچا حکومتی وزیر ہونے کی حیثیت سے ہو سکتا ہے بلیغ الرحمنٰ کوئی بات چھپا رہے ہوں تو نظریاتی کونسل کے ایک ممبر کے علاوہ ایک سینئر افسر سے بات کی تو دونوں حضرات نے میڈیا کی خبروں کے بالکل برعکس مجھے بتایا کہ کونسل نے تو حکومت کی اس پالیسی سے اتفاق کیا ہے۔ دونوں حضرات نے جہادسے متعلق قرآن پاک کے حصہ کو نصاب سے نکالنے کی بات کی تصدیق نہیں کی اور وہی بات کی جو بلیغ الرحمنٰ صاحب نے کی۔ کونسل نے ترجمہ میں بہتری کی کچھ تجاویز دیں اور ساتھ ہی یہ مطالبہ کیا ہے حکومت جلد از جلد مدنی سورتوں سے متعلقہ نصاب کو بھی تیار کرے تا کہ قرآنی تعلیم کا یہ سلسلہ جلد از جلد شروع ہو سکے۔ جو خبر بدھ کے روز کے اخبارات میں شائع ہوئی اور جو کچھ متعلقہ وزیر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے دو معتبر ذرائع نے مجھ سے کی، اُن دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

    آج کے خبارات کی خبروں میں جہاد کی آیتوں کو نکالنےکے حوالے سے ـ’’سازش‘‘ کی بھی بات کی گئی۔ یقینا ًسازش تو کہیں ہے لیکن شاید اُس کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کے اس قابل تحسین فیصلےپر عمل درآمد کو روکا جائے۔ اگر ہمارے بچوں نے قرآن پاک پڑھ لیا، اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو سمجھ لیا تو پھر اس پر تکلیف تو ملک کے اندر اور ملک سےباہر بیٹھے بہت سوں کو ہو گی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ مختلف مکاتب فکر کےبڑےبڑے علمائے کرام سے حکومت نے متعلقہ نصاب کے سلسلے میں رابطہ کیا اور تقریباً ہر ایک نے نصاب میں شامل کیےگئے ترجمہ کواصولی طورپر منظور کرتےہوئےحکومت کے اس عمل کو سراہا۔ ترجمہ کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں علم فاونڈیشن کے متعلقہ افراد نے منگل کے روز نظریاتی کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کی اور بہتری سے متعلق تجاویز حاصل کیں۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ تمام تر سازشوں کے باوجود حکومت کس طرح اس فیصلےپر عمل درآمد کرتی ہے۔ بلیغ الرحمنٰ صاحب کے مطابق وفاقی حکومت تواس سلسلے میں کافی سنجیدہ ہے جبکہ صوبوںنےابھی اس بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ میری وزیر اعظم نواز شریف صاحب سے گزارش ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کےلیے وہ ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے فوری طورپر وفاقی اسکولوں کالجوں میں اس نصاب کو پڑھانے کا حکم صادر کریں۔ جہاں تک صوبوں کا تعلق ہے تو پنجاب اور بلوچستان میں تو ن لیگ ہی کی حکومت ہے جبکہ خیبر پختون خوا میں اس فیصلے پر عملدرآمد کےلیے جماعت اسلامی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ امید کرتےہیں کہ سندھ میں بھی اسکولوں کالجوں کے بچوں کو قرآن پڑھایا جائے گا۔ یقین جانیں اس اقدام سے یہاں بہت بہتری آئے گی

  • نظام تعلیم، لارڈ میکالے سے مائیکل باربر تک – سبطین عباس

    نظام تعلیم، لارڈ میکالے سے مائیکل باربر تک – سبطین عباس

    ایک مشہور چینی کہاوت ہے “تمہارا منصوبہ اگر سال بھر کے لیے ہے تو فصل کاشت کرو, دس سال کے لیے ہے تو درخت اگاو, دائمی ہے تو مناسب افراد پیدا کرو۔” اور مناسب افراد صرف تعلیم ہی کے ذریعے پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ ابھی تک ہم لارڈ میکالے کے نظام تعلیم والے زخم نہیں صاف کر پائے کہ اب پھر برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ ماہر تعلیم سر مائیکل باربر ( Sir Michael Barber)کا دیا ہوا نظام تعلیم پنجاب میں نافذ کر دیا گیا ہے۔ اور کچھ ہی سالوں میں دوسرے صوبوں میں لاگو کر دیا جائے گا۔ تعلیمی نظام سمجھنے کے لیے سرمائیکل نے دس سال پنجاب میں گزارے ہیں اور پنجاب کے تقریباً سکولوں کا وزٹ بھی کیا۔ اس نے جو سلیبس پیش کر کے لاگو کروایا ہے، وہ صرف سکولوں کے لیے ہے تاکہ بچوں کا بنیادی ذہن ہی غلامی اور روشن خیالی کی طرف مائل ہونا شروع ہو جائے۔ اب رہا سہا اور گھسا پٹا پہلے والا نظام تعلیم جس کو ہم نے کچھ نہ کچھ مسلمانیت والا بنانا چاہا تھا وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہا ہے۔

    میرے ابو اور امی دونوں ٹیچر ہیں اور میں جب بھی اسلام آباد سے گھر جاتا ہوں تو تقریباً ہر کلاس کی کتاب دیکھتا ہوں۔ بڑی ہوشیاری اور چابکدستی سے اسلامک آئیڈیالوجی کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے کہ نہ خدا ہی ملے نہ وصال صنم۔اول کلاس سے سب کچھ انگلش میں کر دیا گیا تاکہ نہ ٹیچرز کو سمجھ آئے نہ سٹوڈنٹس کو ۔ اب Brain Storming (مغز ماری) جیسا لفظ تیسری کلاس کا بچہ کیا سمجھے گا۔ لارڈ میکالے کے نصاب تعلیم سے جو نسل تیار ہوئی تھی، اس کے اثرات آج چاروں طرف دیکھے جا سکتے ہیں. اس نے جو پاکستان کا حال کیا سب کے سامنے ہے کہ ہم آج تک اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بننا چاہیے کہ نہیں؟ کیا واقعی یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ؟؟ قرارداد مقاصد کا مقصد کیا تھا؟

    پہلے والے نظام تعلیم کو سمجھنے کےلیے اتنا کافی ہے کہ جب جھنگ کے ایک MNA سے جج نے کہا تھا کہ جناب صرف ABC ہی سنا دو تو اس نے جواب دیا حضور، چھوٹی سنڑاواں کہ وڈی. اور اب نئی نسل کو عقل و خرد سے تہی دست و تہی دامن، سو چنے، سمجھنے سے عاری صرف وقتی جذبات اور انفجار ہیجان کی مخلوق بنایا جا رہا ہے، جن کے نزدیک تعلیم کا مقصد صرف اور صرف دولت و شہرت کا حصول ہے۔ کوئی تخلیقی صلاحیت ہے ان میں نہ کوئی اخلاقی تربیت۔ اسلام اور دین بیزار نئی نسل کے حور و غلمان آخر کس کے ترانے گائیں گے، کیا کبھی ہم نے سوچا ہے؟

    ایک قوم کی زندگی کا انحصار اس کے نظام تعلیم پر ہوتا ہے اور اس سے نکلنے والے افراد پر تاکہ وہ ثقافتی ذہن اور ذہنی ورثے کو آئندہ نسلوں تک پہنچا سکیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ کون سی مجبوری ہے کہ اپنا تعلیمی نظام نصف صدی سے زیادہ عرصہ بیت جانے کے بعد بھی ہم درست نہیں کر سکے؟ کیا کوئی ایک بھی علمی تبحر و عبقری ذہن کا شخص نہیں تھا جو اس پر کام کرتا؟ اور کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا کہ ملک بھر کے ارباب علم و دانش و حل وعقد اور اصحاب قیل و قال سر جوڑ کر بیٹھیں اور آنے والی نسل نو کو الحاد سے پاک ایک منظم نظام تعلیم دینے کی منصوبہ بندی کریں.

  • قضیہ نصاب تعلیم کا – کامران ریاض اختر

    قضیہ نصاب تعلیم کا – کامران ریاض اختر

    کامران ریاض اختر اکثر اوقات یہ شکایت کی جاتی ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب نفرت پھیلاتا ہے خصوصاً مطالعہ پاکستان کے نصاب کو ہندوؤں اور بھارت سے دشمنی کے جذبات ابھارنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے. اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہم تاریخ کو اپنے زاویے سے پڑھاتے ہیں. یہ اعتراض درست ہے اور بالکل اسی قسم کے اعتراضات چین اور کوریا کے نصاب میں جاپانی فوجی قبضے کے تذکرے، امریکی نصاب میں برطانیہ سے جنگ آزادی، اتحادی ممالک کے نصاب میں عالمی جنگوں میں محوری طاقتوں کے کردار کے بارے میں بھی کیے جا سکتے ہیں. لیکن فی الوقت نصاب کے قضیے کو اپنے ملک تک محدود رکھتے ہوئے چشم تصور سے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ معترضین کے موقف کے مطابق نصاب کو تبدیل کرنے کے بعد کیا صورت بنے گی
    ہمارے نصاب کے اندر شامل جس مواد کو ہندوؤں اور بھارت کے خلاف نفرت پھیلانے کا باعث کہا جاتا ہے، اسے نکالنے کے بعد ہم بچوں کو جو تاریخ پڑھا رہے ہوں گے، وہ کچھ اس قسم کی ہو گی

    برصغیر میں اسلام کی آمد
    آٹھویں صدی عیسوی کے آغاز میں سندھ پر راجہ داہر کی حکومت تھی. داہر بڑا مہمان نواز تھا. سراندیپ سے مسلمان خاندانوں کا ایک بحری جہاز عرب کے لیے روانہ ہوا. سندھ کے ساحل کے قریب سے گزرتے ہوئے راجہ داہر کے آدمیوں نے جہاز کو عزت و احترام سے روک لیا اور مسافروں کو شاہی مہمانداری سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا. عرب کے حکمرانوں کو ایک آنکھ نہ بھایا کہ راجہ داہر کی سخاوت اور مہمان نوازی کا شہرہ چار دانگ عالم میں ہو، لہٰذا انھوں نے محمد بن قاسم کی سرکردگی میں سندھ فتح کرنے کے لیے فوج بھیج دی

    برصغیر میں اسلام کا فروغ کیسے ہوا؟
    اسلام کی آمد سے پہلے موجودہ پاکستان کے علاقوں میں ہندوؤں کی اکثریت تھی. ہندومت بہت ہی کشادہ ظرف اور وسیع المشرب مذہب ہے جس میں نہ صرف ہر انسان کی ایک جیسی تکریم کی جاتی ہے بلکہ لوگوں کی “پروفیشنل ڈیویلپمنٹ” کا خصوصی خیال رکھتے ہوئے انھیں “جاب ٹریننگ” کی غرض سے مختلف ذاتوں میں بھی بانٹا جاتا ہے. ہندومت کی ان خصوصیات کی بنا پر اسلام کی آمد سے قبل یہاں کے لوگ مذہبی اور سماجی طور پر بہت مطمئن تھے لیکن اسلام نے یہاں جو نئی چیز متعارف کروائی وہ قوالی کا فن تھا. چونکہ مقامی لوگ موسیقی کے بہت رسیا تھے لہٰذا وہ قوالی کے ساز و آہنگ سے بہت متاثر ہوئے اور ان میں سے اکثر قوالی سے بہتر طریقے سے لطف اندوز ہونے کے لیے مسلمان ہوگئے. اسلام کے فروغ کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ چونکہ مقامی لوگ نہایت رقیق القلب واقع ہوئے تھے لہٰذا یہ سوچ کر کہ کہیں عرب حملہ آور اجنبیت کا شکار نہ ہو جائیں، ان میں سے کئی نے اسلام قبول کر لیا، اگرچہ ان کو ہندومت سے قطعاً کوئی شکایت یا مسئلہ نہیں تھا

    مسلم لیگ کا قیام
    اٹھارہ سو پچاسی میں انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیا. اگرچہ کانگریس میں زیادہ تعداد ہندوؤں کی تھی لیکن وہ مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہوئے ان کے مسائل پر خصوصی توجہ دیتے تھے. لیکن مسلمان رہنماؤں کی اکثریت گائے کا گوشت کھانے کی بہت شوقین تھی. چونکہ کانگریس کے جلسوں میں انہیں بیف سینڈوچ دستیاب نہیں ہوتے تھے، اس لیے انھوں نے ایک علیحدہ جماعت مسلم لیگ بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ گوشت خوری کا شوق پورا کیا جاسکے.

    تحریک آزادی اور قیام پاکستان
    برصغیر میں ہندو مسلم ہمیشہ بھائی بھائی بن کر رہے ہیں. انگریز کے دور حکومت میں بھی دونوں یک جان دو قالب ہوتے تھے اور ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے. سب لوگ گاندھی جی کی بےلوث قیادت میں متحد ہو کر آزادی کی جدوجہد کر رہے تھے. ایک صاحب ہوتے تھے محمد علی جناح نام کے، جن کا مشغلہ سگار پینا اور بلیرڈ کھیلنا تھا. ایک دن وہ گھر بیٹھے بیٹھے بور ہو گئے تو اچانک ان کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ ایک نیا ملک بنایا جائے، اچھا شغل رہےگا. چونکہ مسلمان ہمیشہ سے “ایڈونچر اور تھرل” کے شوقین رہے ہیں اس لیے دیگر مسلمانوں کو بھی جناح صاحب کا یہ خیال پسند آیا. ہندوؤں نے بہت سمجھایا کہ انگریز کے جانے کے بعد حکومت تو آپ مسلمانوں نے ہی کرنا ہے، ہم ہندو تو بس مندروں میں بھجن گایا کریں گے. پیر پڑے، التجائیں کیں کہ ایسا نہ کریں لیکن گوشت خوری کی وجہ سے مسلمانوں کے دل سخت ہو چکے تھے لہٰذا اپنی ضد پر قائم رہے. بالآخر ہندوؤں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس سے نقصان آپ کا ہی ہو گا، لیکن اگر آپ مسلمان اسی میں خوش ہیں تو یونہی سہی. چنانچہ پاکستان کے نام سے ایک نئے ملک کا قیام عمل میں آیا

    قیام پاکستان اور ہجرت
    پاکستان بنا تو جو علاقے پاکستان میں شامل نہیں ہوئے تھے وہاں کے مسلمانوں کے دل میں خیال آیا کہ ہم بھی پاکستان جا کر رہتے ہیں. گرمیوں میں سیر سپاٹے کے لیے جانا ہو تو یورپ قریب پڑے گا چنانچہ وہ بھی اپنا مال اسباب باندھ پاکستان روانگی کے لیے تیار ہو گئے. ہندوؤں نے بہت منتیں کیں، زار زار روئے کہ ظالمو کیا کرتے ہو، ہمیں چھوڑ کر کہاں جاتے ہو، لیکن مسلمان ٹھہرے سدا کے ضدی، نہ مانے. آخر دل پر پتھر رکھ کر ہندوؤں نے بڑی محبت سے مسلمان مہاجروں کے سفر کے انتظامات کیے اور انھیں اپنی حفاظت میں اس احتیاط سے پاکستان تک پہنچایا کہ کسی کا بال بھی بیکا نہ ہوا

    امید ہے کہ اس طرح کے وسیع المشرب اور روشن خیال نصاب کے تحت تعلیم حاصل کرنے والی نسل تاریخ کو صحیح طریقے سے جان سکے گی اور انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو گی.