ہوم << نظام تعلیم، لارڈ میکالے سے مائیکل باربر تک - سبطین عباس

نظام تعلیم، لارڈ میکالے سے مائیکل باربر تک - سبطین عباس

ایک مشہور چینی کہاوت ہے "تمہارا منصوبہ اگر سال بھر کے لیے ہے تو فصل کاشت کرو, دس سال کے لیے ہے تو درخت اگاو, دائمی ہے تو مناسب افراد پیدا کرو۔" اور مناسب افراد صرف تعلیم ہی کے ذریعے پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ ابھی تک ہم لارڈ میکالے کے نظام تعلیم والے زخم نہیں صاف کر پائے کہ اب پھر برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ ماہر تعلیم سر مائیکل باربر ( Sir Michael Barber)کا دیا ہوا نظام تعلیم پنجاب میں نافذ کر دیا گیا ہے۔ اور کچھ ہی سالوں میں دوسرے صوبوں میں لاگو کر دیا جائے گا۔ تعلیمی نظام سمجھنے کے لیے سرمائیکل نے دس سال پنجاب میں گزارے ہیں اور پنجاب کے تقریباً سکولوں کا وزٹ بھی کیا۔ اس نے جو سلیبس پیش کر کے لاگو کروایا ہے، وہ صرف سکولوں کے لیے ہے تاکہ بچوں کا بنیادی ذہن ہی غلامی اور روشن خیالی کی طرف مائل ہونا شروع ہو جائے۔ اب رہا سہا اور گھسا پٹا پہلے والا نظام تعلیم جس کو ہم نے کچھ نہ کچھ مسلمانیت والا بنانا چاہا تھا وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہا ہے۔
میرے ابو اور امی دونوں ٹیچر ہیں اور میں جب بھی اسلام آباد سے گھر جاتا ہوں تو تقریباً ہر کلاس کی کتاب دیکھتا ہوں۔ بڑی ہوشیاری اور چابکدستی سے اسلامک آئیڈیالوجی کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے کہ نہ خدا ہی ملے نہ وصال صنم۔اول کلاس سے سب کچھ انگلش میں کر دیا گیا تاکہ نہ ٹیچرز کو سمجھ آئے نہ سٹوڈنٹس کو ۔ اب Brain Storming (مغز ماری) جیسا لفظ تیسری کلاس کا بچہ کیا سمجھے گا۔ لارڈ میکالے کے نصاب تعلیم سے جو نسل تیار ہوئی تھی، اس کے اثرات آج چاروں طرف دیکھے جا سکتے ہیں. اس نے جو پاکستان کا حال کیا سب کے سامنے ہے کہ ہم آج تک اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بننا چاہیے کہ نہیں؟ کیا واقعی یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ؟؟ قرارداد مقاصد کا مقصد کیا تھا؟
پہلے والے نظام تعلیم کو سمجھنے کےلیے اتنا کافی ہے کہ جب جھنگ کے ایک MNA سے جج نے کہا تھا کہ جناب صرف ABC ہی سنا دو تو اس نے جواب دیا حضور، چھوٹی سنڑاواں کہ وڈی. اور اب نئی نسل کو عقل و خرد سے تہی دست و تہی دامن، سو چنے، سمجھنے سے عاری صرف وقتی جذبات اور انفجار ہیجان کی مخلوق بنایا جا رہا ہے، جن کے نزدیک تعلیم کا مقصد صرف اور صرف دولت و شہرت کا حصول ہے۔ کوئی تخلیقی صلاحیت ہے ان میں نہ کوئی اخلاقی تربیت۔ اسلام اور دین بیزار نئی نسل کے حور و غلمان آخر کس کے ترانے گائیں گے، کیا کبھی ہم نے سوچا ہے؟
ایک قوم کی زندگی کا انحصار اس کے نظام تعلیم پر ہوتا ہے اور اس سے نکلنے والے افراد پر تاکہ وہ ثقافتی ذہن اور ذہنی ورثے کو آئندہ نسلوں تک پہنچا سکیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ کون سی مجبوری ہے کہ اپنا تعلیمی نظام نصف صدی سے زیادہ عرصہ بیت جانے کے بعد بھی ہم درست نہیں کر سکے؟ کیا کوئی ایک بھی علمی تبحر و عبقری ذہن کا شخص نہیں تھا جو اس پر کام کرتا؟ اور کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا کہ ملک بھر کے ارباب علم و دانش و حل وعقد اور اصحاب قیل و قال سر جوڑ کر بیٹھیں اور آنے والی نسل نو کو الحاد سے پاک ایک منظم نظام تعلیم دینے کی منصوبہ بندی کریں.

Comments

Click here to post a comment