Tag: میت

  • لیڈر، دھرنا اور میت – الماس چیمہ

    لیڈر، دھرنا اور میت – الماس چیمہ

    میں دھرنے میں شرکت ضرور کروں گا، کرپٹ حکومت روک سکتے ہو تو روک لو.
    ان شاءاللہ اپنے لیڈر کی قیادت میں ہم روشن پاکستان کی بنیاد رکھیں گے.
    وہ پرجوش گھر سے نکلا مگر چار کندھوں پر واپس آیا تھا.
    حالات کافی کشیدہ تھے.
    پتھراؤ، لاٹھیاں، آنسو گیس کی شیلینگ، فائرنگ،
    حکومت اپنی کرسی بچانے کے لیے ہر حد پار کر گئی تھی.
    ادھر انقلابی سوچ کو موت نے نگل لیا تھا،
    روشن پاکستان کا خواب لیے دو آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئی تھیں.
    یہ موت بھی نا..
    جب جینے کا طریقہ آ جائے، اپنا حق مانگنا آ جائے، ظلم کے خلاف کھڑا ہونا آ جائے، انسان کامیابی حاصل کرنے والی خود اعتمادی کی زنجیر سے بندھ جائے، تب موت ہی وہ واحد شے ہے جو اس زنجیر کو توڑتی ہے.
    اس نوجوان کے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا تھا.
    اسے اپنے گزرے ہوئے سالوں پر افسوس تھا، گزری ہوئی زیست پر ملال تھا.
    اس نے اپنے ووٹ کا صحیح استمال نہیں کیا تھا تو ہی تو غربت جان نہیں چھوڑ رہی، غلط لوگ منتخب ہو کر عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں.
    لیکن اب اسے عقل آ گئی تھی، وہ اپنے مستقبل کے لیے سڑکوں پر آنے کے لیے تیار تھا لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ جس مستقبل کے وہ سپنے دیکھ رہا، جس جگہ جن لوگوں کے درمیان رہ کر دیکھ رہا ہے، انھیں اس کی کوئی پروا نہیں.
    اس نوجوان کی ماں دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی، اس کی دنیا اجڑ گئی تھی، کتنی مشکل سے فاقے کاٹ کاٹ کے بیٹا پڑھایا تھا کہ پڑھ لکھ کر ان کی غربت دور کرے گا، بڑھاپے کا سہارا بنے گا.
    جس کا بیٹا بھائی مرتا ہے، اسی کی زندگی مرتی ہے، اسی کو دکھ ہوتا ہے، دوسرے لوگ وقتی ہمدردی اور رسمی بول ادا کر کے اپنی زندگی میں واپس مگن ہو جاتے ہیں.
    چین تو اس کا لٹتا جس کا بیٹا مرتا ہے.
    وقت گزرتا رہا.
    چند سالوں بعد اس نوجوان کی ماں بہت خوش تھی، مرحوم بیٹے کا خواب جو پورا ہوا تھا، اس کا پسندیدہ لیڈر وزیراعظم بن گیا تھا.
    لیکن محض چند سالوں بعد ہی اس ماں کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں، سالوں پہلے مرے بیٹے کا ماتم، آج اس کا دل چاہتا تھا کہ چیخ چیخ کر منائے، اذیت بڑی تھی، اس لیڈر پر بھی اربوں روپے کی کرپشن ثابت ہوئی تھی البتہ حکومت گرانے کے لیے دھرنا اب کوئی اور لیڈر دے رہا تھا..

  • موت، دیگیں اور معاشرے کا المیہ – دُرّ صدف ایمان

    موت، دیگیں اور معاشرے کا المیہ – دُرّ صدف ایمان

    یوں تو ہمارا معاشرہ بے حس اور بے شمار المیوں سے بھرپور ہے لیکن آج جس المیہ پر الفاظ قلمبند کی جسارت کررہی ہوں، وہ المیہ لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس میں ازحد پریشانی کا باعث ہے اور اگر دیکھا جائے تو یہ المیہ سنگین صورتحال اختیار کر رہا ہے.
    اگر کہیں کسی خاندان میں موت واقع ہوتی ہے تو میت کی تدفین ہوتے ہی دیگوں کے ڈھکن کھل جاتے ہیں اور وہی احباب جو کچھ دیر پہلے تسلی دیتے ہوئے نظر آرہے تھے، انہیں اپنے کھانے کی، بوٹیوں کی، گرم گرم بریانی کی، فکر ہو جاتی ہے.
    *اس کے بعد اہل خانہ جو غم سے نڈھال ہوتے ہیں، اب وہ بے چارے مصروف میزبانی ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں

    افسوس اس بات کا ہے کہ تعزیت کرنےوالے خود کیوں نہیں سوچتے کہ آیا وہ تعزیت کے لیے آئے ہیں یا پھر دعوت کھانے؟
    اگر شریعت میں ہے کہ میت کے گھر والوں کو کھانا پہنچایا جائے تو یہ کھانا صرف اور صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہوتا ہے یا پھر جو دور دراز کے علاقے سے تعزیت کےلیے آئے ہوئے ہوں، ان کےلیے پوری کمیونٹی برادری کےلیے کھانا بنوانا، کھانا کھلانا سب باتوں سے قطع نظر خود غور کریں کس پر بار ہے؟ اور کس پر بوجھ؟
    *میت کے گھر والے یا اگر بالفرض جس کے گھر میں انتقال ہوا ہوتا ہے، جو اس گھر کا واحد کفیل تھا تو جو تھوڑی بہت بھی جمع پونجی موجود بھی ہوتی ہے، وہ اس برادری کی دعوت ِطعام و سفاکیت کی نظر ہو جاتی ہے، اور اگر موجود نہ ہو جمع پونجی تو وہ بے چارے اس غم میںاور برادری کی دعوتِ شیراز کرنے میں قرض دار بھی ہوجاتے ہیں. اور اس طرح میت کے اہل خانہ ہر طرح سے خالی ہاتھ ہو جاتے ہیں جبکہ شرعی طور پر تعزیت کا حکم اس سے بالکل جداگانہ ہے۔

    میت کے گھر جائیں، اہل خانہ کو تسلی و تشفی دیں، خاندان کےقریبی اقارب میں جو مالی طور پر مستحکم ہو، میت کے گھر والوں کے لیے کھانے کا انتظام کرے، دعائے مغفرت و ایصالِ ثواب کا اہتمام کرے، اور اس کے بعد اپنے گھروں کی راہ لیں نہ کہ جنازہ اٹھنے کے بعد دیگوں کے کھلنے کا انتظار کریں اور پھر دسترخوان پر تشریف فرما ہو کر بھرے پیٹ سے دوبارہ ملنے کے اختتامی و رسماً جملے بولیں اور گھر کی طرف جائیں۔ یہ طریقہ نہ اخلاقی طور پو ٹھیک ہے نہ شرعی طور پر معتبر ہے بلکہ انسان کی انسانیت پر حرف اٹھانے والی بات ہے۔

    غرض صرف یہ ہے کہ اگر معاشرے کے رسم و رواج کے مطابق دیگیں آہی گئیں اور اہلخانہ کا کھانا کھانے پر اصرار بھی ہے تو سب اپنے اپنے طور پر عہد کر لیں کہ وہ دو لقمے سے زیادہ نہ کھائیں گے، ان شاءاللہ رفتہ رفتہ کسی نہ کسی دن یہ فرسودہ اور اخلاقی گرواٹ کا باعث رسم ختم ہو ہی جائےگی۔

    ہمیں اپنے آپ کوبدلنا ہے، جبھی اس بگڑے ہوئے نظام میں تبدیلی آ سکے گی اور ایک مستحکم معاشرہ بھی جلد وجود میں آجائے گا۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اور غلط رسم و رواج سے نجات عطا فرمائے۔ آمین

  • انسانی جان نکلنے کے فوراً بعد کیا جانے والا پہلا کام – نورین تبسم

    انسانی جان نکلنے کے فوراً بعد کیا جانے والا پہلا کام – نورین تبسم

    وہ مکمل طور پرمیرے رحم وکرم پر تھے۔ میرے ہاتھ اُن کی آنکھوں کو چھوتے تو کبھی اُن کی ٹھوڑی کو، میری انگلیوں کا لمس اُن کی انگلیوں کو سیدھا کرتا توکبھی میں بہت آرام سے اُن کی گردن کو دھیرے دھیرے حرکت دیتی۔ یہ وقت میری سخت دلی کا متقاضی تھا لیکن میرے ہاتھوں کی نرمی مجھے کوئی بھی سختی کرنے سے روکتی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب اُن کی شریک ِحیات اور بیٹی نے بھی اُن کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، وہ خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھے جاتیں۔ کچھ دیر بعد ایک پڑوسی کے ہمراہ ڈاکٹر آئے۔ ٹارچ سے آنکھ میں روشنی کی جھلک نہ دیکھ کر اور نبض کی خاموشی جان کر اُلٹے قدموں واپس لوٹ گئے۔گھر میں اس وقت اور کوئی بھی نہ تھا۔ میں نے اپنا کام شروع کیا۔ پٹی دستیاب نہ تھی۔ دکھ کے عالم میں اُن کی پرانی شرٹ کی پٹی پھاڑ کر دھجی کی صورت بنا کر پاؤں کے انگوٹھے باندھے اور پھر ایک اور پٹی ٹھوڑی کے نیچے سے گزار کر چہرے کے گرد باندھی۔ گردن کو موڑ کر داہنی جانب کیا۔

    یہ کسی انسان کی جان نکلنے کے فوراً بعد کیا جانے والا پہلا کام ہے جو اگر اُسی وقت نہ کیا جائے تو میت کے لیے زندہ انسانوں کی طرف سے پہنچنے والی اس سے بڑی سزا اور کوئی نہیں۔ رونے دھونے اور اپنا سرمایۂ حیات ہمیشہ کے لیے چھن جانے کے صدمے کو پس ِپشت ڈال کر اس کے جسم کو مٹی کے حوالے کرنے سے پہلے، اس سے اپنی محبت کا عملی اور آخری ثبوت صرف یہی ہوتا ہے۔ اگر جان نکلنے کے چند منٹوں کے اندر اندر میّت کی آنکھیں بند نہ کی جائیں، ہاتھ سیدھے نہ کیے جائیں، ٹھوڑی کو اونچا کر کے منہ بند نہ کیا جائے، مصنوعی دانت یا بتیسی نکال کر چند سیکنڈز کے لیے اُس کے دونوں ہونٹوں پر اپنی انگلیاں نہ جمائی جائیں،گردن گھما کر داہنی طرف نہ کی جائے اور پاؤں کے انگوٹھے نہ باندھے جائیں تو انسان کا جسم جو جان نکلنے کے بعد اکڑنا شروع ہو جاتا ہے اور جس حالت میں اعضا ہو اسی طور منجمد ہو کر رہ جاتا ہے۔ بعد میں جتنا چاہے کوشش کر لیں وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلتا۔ آنکھیں کھلی رہیں یا منہ کھلا رہے تو کچھ دیر بعد ہی بند کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

    اپنی زندگی کے پچھلے چند برسوں میں کئی اجنبی خواتین میت کے ساتھ ساتھ، ماں کی خوشبو لیے ماں اور اپنی حقیقی امی کی آخری سانس کے فوراً بعد میں نے یہی سب کیا تھا۔ لیکن کسی مرد اور وہ بھی جس کے ساتھ میرا کوئی رشتہ نہ تھا، میرے لیے ایک ناقابلِ فراموش لمحہ تھا۔ محرم نامحرم کا خیال آتا تو سوچتی کہ ابھی کچھ دیر پہلے آنے والے محلے دار کیسے پڑھے لکھے دیندار مرد تھے جنہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ گھر میں صرف خواتین ہیں۔ بےشک انہوں نے باہر جا کر دوسرے انتظامات کیے اور محض چند گھنٹوں کے اندر ہی اُن کےجسد ِخاکی کو خاک کے سپرد کرنے کے لیے بھاگ دوڑ بھی کی۔ اللہ اُن کی بےغرض خدمت کا اجر دے لیکن یہ خیال کی بات تھی جو اس وقت ان کے ذہن میں نہیں آیا، وہ خاموشی سے آئے اور دیکھ کر چلے گئے۔

    بحالت ِمجبوری کسی کی جان بچانے کے لیے بہت کچھ جائز ہو جاتا ہے تو جان جس حالت میں عطا کی گئی اُسے مالک کے حوالے کرنے کے وقت پیچھے رہ جانے والوں کا سب سے پہلا قرض یہی ہے۔ کفن دفن اور غسل بعد میں آتے ہیں اور اُس میں محرم نامحرم کے مسائل ہم سب جانتے ہیں۔ یہ عمل قدرت میں مداخلت یا بےجان جسم کے ساتھ زیادتی ہرگز نہیں کہ ہم تو جسم کو ایسی حالت میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بالکل نارمل محسوس ہو۔ باقی اس سے آگے بہت لمبی اختلافی بحث ہے کہ کئی علاقوں میں مرنے والے کو دو بار نہلایا جاتا ہے، پہلی بار عام کپڑے پہنا دیے جاتے ہیں اور کفن پہنانے کے وقت دوبارہ نہلایا جاتا ہے اور بعض جگہوں پر تو عورت کے ہاتھوں پر مہندی بھی لگائی جاتی ہے، چاہے وہ کسی بھی عمر میں وفات پا جائے۔ دُنیاوی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو میت کا سن کر آنے والے کیا اپنے کیا پرائے سب اس کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں، اسی پر بس نہیں بلکہ اس کی بیماری یا موت کے سبب اور یا لواحقین کی کم علمی اور بےپروائی کے سبب چہرے پر جو آثار دکھائی دیں، اُن پر اس کے اعمال کی جزا و سزا کا فیصلہ بھی صادر کر دیتے ہیں۔ کبھی ہمیں مرنے والے کا چہرہ ”پرنور“ اور جوان دِکھتا ہے تو کبھی مسکراتا ہوا، کبھی سیاہی مائل یا سپاٹ محسوس ہو تو اس کے کرب کا تعین کرتے ہیں۔ یہ سب کم علمی کے اندازے بلکہ فیصلے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جان نکلتے ہی انسانی جسم ٹھنڈا ہونے لگتا ہے تو جسم اکڑنے کے ساتھ اس کے پٹھے بھی کھنچ جاتے ہیں، چہرے کی جلد سخت ہونے سے چہرہ تروتازہ لگنے لگتا ہے تو کبھی دل کے بند ہونے سے یا کسی بیماری کے زیرِاثر خون کے دباؤ کی وجہ سے رنگ سیاہ پڑ جاتا ہے۔

    بڑے شہروں میں فلاحی اور رفاہی اداروں کے توسط سے جان نکلنے کے بعد سے تدفین تک کے مرحلوں میں سب سے بنیادی کام میت کو غسل دینا اور کفنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ اپنے جانے والے پیارے کے لیے تدفین سے زیادہ اہم اور ضروری اس کو مسنون طریقے سے غسل دینا اور کفنانا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم میں سے بہت سے تعلیم و تربیت کے اونچے درجوں پر فائز رہنے والے اپنے عزیز کے ہمیشہ کے لیے آنکھ بند کرتے ہی چاہے صدمے سے بےحال ہو جائیں، آنسو بہا کر اپنے غم کا اظہار کریں لیکن اسےچُھونے سے خوف کھاتے ہیں اور اس کے پہنے کپڑے اتارنے اور نہلانے کے لیے کسی ان جان اور مسجد کے اُسی ملا کی طرف بھاگتے ہیں جس سے ساری زندگی عجیب سے خار رکھتے ہیں۔

    عام خواتین بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین میں بھی یہ تعلیم یا اس کا احساس نہ ہونے کے برابر ہے اور ”نہلانے والی“ تلاش کے بعد مل جائے تو اسے عجیب سے نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔

    میت کو اسلامی طریقے سے غسل دینے کے ساتھ ساتھ ہمیں کورے لٹھے سے کفن اور اس کے سارے لوازمات بنانے سے آگاہی اشد ضروری ہے۔ اسلام میں عورت کے لیے کفن کم از کم پانچ کپڑوں اور مرد کے لیے تین کپڑوں میں ہونا ضروری ہے۔ عورت کے لیے دو چادر، سر پر اسکارف، کرتہ، اور سینہ بند جبکہ مرد کے لیے دو چادر، اور ایک کرتہ لازمی ہے۔
    مسنون کفن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
    مرد کے لیے:
    ۱: بڑی چادر، پونے تین گز لمبی، سوا گز سے ڈیڑھ گز تک چوڑی۔
    ۲: چھوٹی چادر، اڑھائی گز لمبی، سوا گز سے ڈیڑھ گز تک چوڑی۔
    ۳: کفنی یا کرتا، اڑھائی گز لمبا، ایک گز چوڑا۔
    عورت کے کفن میں دو کپڑے مزید ہوتے ہیں۔
    ۱: سینہ بند، دو گز لمبا، سوا گز چوڑا۔
    ۲: اوڑھنی ڈیڑھ گز لمبی، قریباً ایک گز چوڑی۔

    کفن بنانے اور غسل کا طریقہ جاننے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اہم مرحلہ ”کفن بچھانے“ کا بھی ہے، جس کا طریق کار جاننا اشد ضروری ہے۔ یہ مرحلہ غسل سے پہلے سرانجام دینا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے کفن کی چارپائی کےاطراف میں لگی کنڈی کا رُخ دیکھ کر چارپائی رکھی جائے تاکہ غسل کے بعد لکڑی کے پھٹے سے میت کو آسانی سے اور فوراً منتقل کیا جا سکے۔ اب اس چارپائی پر کفن بچھانے سے پہلے گھر میں استعمال کی عام دُھلی ہوئی چادر کی پٹی بنا کر چارپائی کے درمیان میں اس طور رکھا جائے کہ اِس کی مدد سے میت کو لحد میں اتارنے میں آسانی ہو۔ بعد میں اس پٹی نما چادر کو نکال لیا جاتا ہے۔ چادر کی اس پٹی کے ساتھ اور دونوں اطراف کفن کے لیے لائے گئے لٹھے میں سے تین دھجیاں آر پار لٹکائی جاتی ہیں جو میت لٹانے کے بعد کفن کی چادریں باندھنے کے کام آتی ہیں۔ اب دوسرا مرحلہ چادریں بچھانے کا ہے، چادریں ایک ساتھ ملا کر اس طرح رکھی جائیں کہ سرہانے اور پیر کی طرف کفن کو باندھنے کے لیے اچھا خاصا کپڑا مل جائے۔ اور ساتھ ہی دونوں طرف باندھنے کے لیے کپڑے کی دھجیاں یا ڈوریاں بھی رکھ دی جائیں۔ اب ان چادروں پر سرہانے اور سر ڈالنے کا دھیان رکھتے ہوئے کرتہ بچھایا جائے، کرتے کا اوپر والا حصہ اُٹھا کر پیچھے کر دیا جائے، اب خاتون میت ہے تو سینہ بند اس کی جگہ پر یوں بچھایا جائے کہ میت کے گرد لپیٹا جاسکے اور کرتے میں گلے کی جگہ پر اسکارف یا اوڑھنی رکھ دی جائے تا کہ بعد میں سر ڈھانپ سکیں۔ میت کو غسل دینے کے بعد سب سے مشکل مرحلہ نہلانے کی جگہ سے جنازے کی چارپائی میں منتقل کرنا ہے جس میں میت کے وزن کی وجہ سے محرم رشتہ دار کی مدد کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ اس مرحلے میں میت کو عام چادر سے مکمل طور پر ڈھانپ کر اٹھایا جاتا ہے۔

    اس پوسٹ کے لکھنے کا واحد مقصد پڑھنے والوں کو میت کے اس اکرام سے آگاہ کرنا تھا جس کی میت کو جان نکلنے کے فوراً بعد ضرورت ہوتی ہے ورنہ جانے والا تو ہر ضرورت ہر جذبے سے بےنیاز ہو چکا ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس بارے میں نہیں جانتے۔ پڑھے لکھے ڈگری یافتہ ہوں یا جہاں دیدہ عمر رسیدہ، اکثر اوقات سب ہی اپنے پیارے کی جان نکلنے کے بعد اُس کے قریب جانے سے ہچکچاتے ہیں۔ پڑھے لکھوں نے شاید یہ سبق پڑھا نہیں ہوتا اور بڑے اپنے آپ پر یہ وقت آنے کا سوچ کر ڈرتے ہیں۔ ایسے مواقع پر اپنے پرائے کے خیال کو جھٹکتے ہوئے، کسی نیکی کی نیت، اس کے صلے کی توقع کے بغیر اور اپنوں کی خدمت کے جذبے سے ہٹ کر صرف یہ سوچ کر آگے بڑھا جائے کہ ایسا وقت ہم پر بھی آئے گا جب ہم بےیار و مددگار کسی کے منتظر ہوں گے۔ اللہ جس عمل اور خیال کی توفیق دے، اس کو پھیلانا صرف خالص نیت سے بہت ضروری ہے اور ایک علم کے طور پر دوسروں کو اس میں شریک کرنا فرض اولین ہے۔

  • گھر میں فوتگی ہوجائے تو؟ طالبۃ الفردوس

    گھر میں فوتگی ہوجائے تو؟ طالبۃ الفردوس

    موت.
    ہم اس دنیا میں آئے ہیں تو سب ہی کہیں نہ کہیں فنا ہوجانے سے بھاگنے کے باوجود موت کے لیے تیار ہیں.
    موت کیا ہے؟
    کیا کبھی ہنستے مسکراتے ہوئے موت کے بارے میں سوچا ہے؟
    کسی فوتگی کے مردہ جسم کی جگہ اس چارپائی پہ خود کو محسوس کیا؟
    کبھی رات کو سونے سے پہلے تصور کیا کہ یہ ہماری آخری نیند بھی ہوسکتی ہے؟
    یہ جو مر جانے کا غم ہے ناں اسے پالنا پڑتا ہے. اللہ ہنسنے کھلینے اور زندگی جینے سے منع نہیں کرتا، ہاں وہ حد سے بڑھے ہوؤں کو پسند نہیں کرتا.
    روزانہ لاکھوں کی تعداد دنیا میں آتی ہے، اتنی ہی چلی جاتی ہے، یہ آنے جانے کے سلسلے کے ہی ہم مسافر ہیں.
    کہیں کسی مقام پر تو رک کر سوچیں.
    چلیں کبھی نہیں تو ابھی اس پوسٹ کو پڑھتے ہوئے میں آپ کو ایک منٹ دیتی ہوں، اپنی آنکھیں بند کریں، ایک گہرا سانس لیں اور موت کے سناٹے کو اپنے اندر اتاریں.
    باقی پوسٹ اس کے بعد پڑھیں.
    ……………………………………….
    یہ جو جھرجھری آتی ہے ناں! یقین جانیے موت اس سے بھی زیادہ قریب ہے آپ کے، اتنی ہی جلد جتنا آنکھیں بند کر لینا ہے.
    پهر کیا ہے اے بےخبر انسان؟ اللہ تعالیٰ بار بار پوچھتا ہے کون سی چیز تمہیں غافل کرتی ہے؟
    اللہ اللہ!
    یہ ہنسنے کا مقام ہے کہ یہ چند ٹکوں کا موبائل؟
    یہ شودا غافل کرتا ہے؟
    اس ذات سے غافل جو تمہاری زندگی اور موت پر قدرت رکھتا ہے؟
    کیا ہم نے کتنے ہی لوگوں کو ہنستے کھیلتے اپنی آنکھوں سے اس دنیا سے جاتے نہیں دیکھا؟
    کیا موت عمر کی تفریق سے آتی ہے؟
    صرف جوانوں کو؟
    بیماروں کو؟
    بوڑھوں کو؟
    بچوں کو؟
    بیمار مرتا ہے تو کہتے ہیں کہ فلاں بیماری کھا گئی،
    ہائے کینسر! آخری سٹیج پر پتہ چلا.
    بوڑھا مرتا ہے تو کہتے ہیں عمر ہی تھی بیچارے کی.
    جوان مرتا ہے تو کہتے ہیں ہائے ایسے بائک چلاتا نہ حادثہ ہوتا، یوں نہ کرتا یوں نہ کرتا، یوں بچ جاتا یوں بچ جاتا.
    مگر مجھے یہ بتائیں.
    آج تک ہونی کو کوئی ٹال سکا؟
    ایک منٹ اوپر نہ ایک منٹ نیچے، عین اپنے پورے وقت پر.
    ……………………………………….
    موت.
    رابطے ختم ، کنکشن ختم ، مسکراہٹیں ختم، ماں کی گود کی گرماہٹ غائب، باپ کا دست شفقت سرد، بھائیوں کے سہارے مکمل، بہنوں کی آہ و بکا بےسود

    موت.
    آج تو رات اندھیرے سے ڈر جاتے ہیں. برے خواب سے ڈر جاتے ہیں تو فوراً مددگار بلا لیتے ہیں، اماں مجھے ڈر لگ رہا ہے. ابو اس موذی کو بھگاؤ.
    بھیا وہ مجھے ستاتا ہے وغیرہ وغیرہ. …. اور کل ..

    موت..
    ہم سب کو ہی جانا ہے. ہم سب کو ہی تیاری کرنی ہے اس موت کی جو لذتوں کو توڑ دیتی ہے.
    اس حقیقت کا خود کو پیغام نہیں دیں گے تو غافل ہو جائیں گے. دلوں پر زنگ لگ جائےگا. آنکھیں روئیں گی نہیں تو بنجر ہو جائیں گی.
    ……………………………………….
    ہاں ہم سب نے مر جانا ہے. میں نے، آپ نے، ہمارے اہل و عیال نے، سب نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے. پھر یہ کیا رویہ ہوا کہ جیتے جی جن کا ہم دم بھرتے ہیں، جب ان کی روح قبض کر لی جاتی ہے تو ہم ان کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں. کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں برہنہ حالت میں کوئی غیر دیکھے؟ اور ایسی حالت میں کہ ہم جنبش تک نہ کر سکتے ہوں؟
    ہماری یہی خواہش ہوگی کہ ایسی بےبسی کی حالت میں ہمارا کوئی اپنا ہمارے پاس ہو، جو ہر طرح سے ہمارے پردے کا بھی خیال رکھے اور ہمیں اگلی منزل کے لیے اچھے سے تیار بھی کردے.
    تو ایسی کمائی کر جاؤ کہ کل آپ کو اللہ کے سپرد کرنے والے عمدہ طریقے سے رخصت کریں. یہی دین کی اصل ہے. یہ اطاعت کا مقام ہے. یہی تسلیم و رضا کا حسن ہے. اتنے تھڑ دلے نہ بنیں کہ اپنے اکیلے رہ جانے کے غم میں مہمان کو عمدگی سے رخصت بھی نہ کریں.
    ……………………………………….
    تو اپنے پیاروں کو پورے اعزاز کے ساتھ باپردہ غسل دے کے اپنے رب کی طرف روانہ کرنے کے لیے ازحد ضروری امر ہے. اس کا سیکھنا اور سکھانا باعث اجر و ثواب ہے. غسل میت واجب ہے (بخاری 1849)، یہ رشتہ داری کا تقاضا ہے .
    اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے موقع پر صبر کرنے والوں میں شامل کرے. بلند حوصلہ بخشے تاکہ ہم اپنے پیاروں کی آخری رسومات پوری قوت برداشت صبر اور حوصلہ کے ساتھ ادا کر سکیں. اور نبی کریم فرماتے ہیں صبر تو کسی مصبیت کے آغاز میں ہی ہوتا ہے بعد میں تو صبر آ ہی جاتا ہے. یعنی آہ و بکا، گریہ، ماتم، چیخ و پکار کے بعد کہنا کہ ہم نے صبر کیا. نہیں بلکہ مصیبت کے آغاز میں بلند حوصلگی سے خود کو اور دوسروں افراد کو سنبھالنا مؤمنانہ شان ہے. آنکھیں غم سے بہتی ہیں دل نڈھال ہے مگر زبان سے وہی کہنا ہے جس کا حکم زندگی اور موت کے مالک کا ہے.
    ……………………………………….
    غسل میت:
    #ضروری اشیاء:
    برتن، پانی، تختہ، صابن، بیری کے پتے، کافور، مٹی کے ڈھیلے، قینچی، دستانے، روئی، سوتی صاف کپڑا یا تولیہ وغیرہ
    #جگہ کا انتخاب:
    یہ ایک اہم پوائنٹ ہے جس کی طرف بعض اوقات توجہ نہیں دی جاتی. جگہ کے انتخاب میں پہلی بات میت کی آسانی کو مدنظر رکھنا ہے یعنی ایسی جگہ کو اہمیت دیں جہاں سہولت سے میت کو تختہ اور تختہ سے واپس چارپائی پر منتقل کیا جا سکے. خاص طور پر خواتین جو عموماً وزن اٹھانے کی عادی نہیں ہوتیں، وہ میت کو اٹھانے میں بےاحتیاطی کر جاتی ہیں. یاد رکھیے میت کے ساتھ ہر معاملے میں نرمی و نفاست کا معاملہ رکھیں اور اپنے اور میت کے پردے کا خاص خیال رکھیں.
    #غسل سے پہلے کی احتیاطیں:
    * میت کو سہولت و نرمی سے تختہ پر منتقل کیجیے .
    * شور و غل اور بلاوجہ کی اٹا پٹخ سے پرہیز کیجیے.
    * تمام اطراف سے پردے کا ازسرِنو جائزہ لیں.
    * اگر کہیں اضافی چادروں سے پردہ کیا گیا ہے، دیواریں نہیں ہیں تو ان کی مضبوطی جانچ لیجیے.
    * پانی ایک سٹاک کی شکل میں کسی الگ برتن میں لازمی رکھیں.
    * غیر ضروری افراد کو ہٹا دیں.
    طریقہ غسل:
    اجر و ثواب اور اللہ کی رضا کی نیت کرلیں.
    * دستانے پہن لیں.
    * میت کو چادر اوڑھا دیں
    * گریبان سے گھیر کی طرف بغیر کپڑے یا قینچی کے شور کے لباس کا دیجیے.
    * ناک، کان اور اگر آنکھیں کھلی ہیں یا کوئی بیماری ہے روئی رکھ دیں.
    * میت کے پیٹ پر ناف سے نیچے کی طرف ذرا سا دبا کر نرمی سے ہاتھ پھیریں.
    * ہوسکے تو ہلکا سا بٹھا دیں.
    * نرمی اور سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے احتیاط سے واپس لیٹا دیں
    * میت کو استنجا کروائیں اور پردے کا خیال رکھتے ہوئے جسم کو اچھی طرح صاف کریں. مٹی کے ڈھیلوں یا پانی کا استعمال کریں اور نجاست سے پاک کر دیں .
    * دستانے بدل لیجیے
    * وضو کروائیں:
    وضو کرواتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھیں کہ ہوسکے تو کلی کروائیں، وگرنہ کاٹن کی مدد سے جہاں تک ممکن ہو، منہ کا اندرونی حصہ، اسی طرح ناک کان وغیرہ صاف اور گیلی روئی سے صاف کیجیے. سختی مت کیجیے.
    وضو کے بعد:
    نیم گرم پانی میں بیری کے پتے ڈال لیں اور اپنے ہاتھوں کی پشت پر پانی بہا کر اندازہ کیجیے کہ پانی زیادہ گرم تو نہیں. اس کے بعد ہلکا سا کروٹ دے کر پہلے دائیں طرف پانی ڈالیں، پھر بائیں جانب، تین تین بار، کان کے اوپر ہتھیلی رکھی جا سکتی ہے تاکہ پانی اندر نہ جائے. سر کو شیمو یا صابن سے دھوئیں، پورے جسم پر صابن لگائیں.
    بلاوجہ کی تیزی یا چستی کا مظاہرہ مت کریں، سہولت اور نرمی سے صابن لگا کر پانی سے دھو ڈالیں.
    میت کو تین بار، پانچ بار سے زائد دفعہ بھی غسل دیا جاسکتا ہے.
    آخری بار پانی میں کافور ملا لیں. بعض کافور کو غسل کے بعد جسم پر ملنے کے حق میں ہیں. دونوں میں کوئی مضائقہ نہیں.
    میت کا جسم پردے کو مدنظر رکھتے ہوئے خشک کیجیے. دروان غسل کسی عیب کا پتہ چلے تو کہیں بیان نہ کریں. نرمی سہولت اور آسانی سے کفنائیے.
    بعد از غسل:
    اللہ کی رضا کے لیے غسل دینے کے بعد غسل دینے والا غسل کرے. یہ مستحب ہے.

    واللہ اعلم بالصواب – جزاک اللہ

  • ہندو اپنے مردے کیوں جلاتے ہیں؟ معظم معین

    ہندو اپنے مردے کیوں جلاتے ہیں؟ معظم معین

    معظم معین ا سیکولر دوستوں کا کہنا ہے کہ ہم جیسے چاہیں جیییں جیسے چاہیں مریں ہماری مرضی اور اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے ساتھ بھی محبتاں سچیاں کی پینگیں بڑھائیں تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہندوؤں کی آخری رسومات کا ہی کچھ ذکر کر دیا جائے۔ کہتے ہیں کہ جو جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ اس کا انجام ہوتا ہے۔ سنا ہے تاریخ کے کئی سپر الٹرا سیکولر لوگ وصیت بھی کر چکے ہیں کہ انہیں سپرد خاک کے بجائے سپرد آگ کیا جائے۔ اس وصیت پر عمل ہوا یا نہیں یہ تو نہیں معلوم مگر مستقبل کے ہمارے پیارے سیکولرز اگر چاہیں تو غور کر سکتے ہیں۔ اس سے انہیں کم از کم دنیا میں نہیں تو مرتے وقت ہی بدصورت مولویوں کی صورت سے نجات مل جائے گی جس کی تمنا وہ ساری عمر کرتے رہتے ہیں۔

    مردوں کو حوالہ آگ کرنے کی تاریخ بہت پرانی بتائی جاتی ہے، اتنی ہی پرانی جتنی انسانی گمراہیوں کی تاریخ پرانی ہے۔ پرانے زمانے میں لکڑیاں جمع کی جاتی تھیں، انہیں سلگایا جاتا تھا اور بچے ان میں پتا جی کی چتا کو رکھ کر آگ میں پتا جی کے بار بی کیو بننے کا عمل لائیو دیکھتے تھے۔ کئی فلموں میں بھی سیڈ سونگ کے پس منظر میں یہ سین فلمایا جاتا تھا جسے دیکھ دیکھ کر نرم دل خواتین خون کے آنسو بہاتی تھیں جبکہ سخت دل مرد مگرمچھ کے۔ مگر پھر جب دنیا ماڈرن ہوئی اور اس عمل سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہونے لگا اور جنگلات کو خطرہ محسوس ہوا تو اس کام کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جانے لگی۔ اب برقی انگیٹھیاں اور جدید بھٹیاں incinerator میدان میں آ چکی ہیں اور اب مردے کو سپرد آگ کرنے کا یہ فریضہ گھنٹوں سے کم ہو کر منٹوں میں انجام دیا جا سکتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں کئی کمپنیاں آپ کو مردہ جلانے کی خدمات مہیا کرتی ہیں۔ جدید آٹو میٹک مشینوں میں ماہر کاریگروں کی زیر نگرانی cremation کا سارا عمل طے پاتا ہے اور پسماندگان کو صرف ایک بٹن دبانا ہوتا ہے۔ چند لمحوں میں خود کار نظام کے تحت پتا جی کی چتا ایک طرف سے برقی بھٹی میں داخل ہوتی ہے، نو سو سے ایک ہزار ڈگری سنٹی گریڈ کے درجہ حرارت والی بھٹی میں گزرتی ہے اور پھر دو سے تین گھنٹوں میں دوسری طرف سے ڈیڑھ دو کلو گرام کی راکھ بچوں کو موصول ہو جاتی ہے۔ بقیہ پتا جی کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل ہو کر فضا کے حوالے ہو جاتے ہیں۔ جھٹ پٹ کام ہو جاتا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا! دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی کام آنے والے ہزاروں انسانوں کو کم وقت میں ٹھکانے لگانے کے لیے ”مہذب“ قوموں نے یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔

    ہندوؤں کے نزدیک انسان کا جسم پانچ چیزوں کا مرکب ہوتا ہے ہوا، پانی، آگ، زمین اور آسمان۔۔۔ وفات پا جانے والے کی میت کو ان تمام چیزوں کی طرف لوٹانا ضروری ہے تاکہ وہ دوبارہ کسی دوسرے جسم کا روپ دھار کے اس دنیا کی طرف لوٹ سکے۔

    ابراھیمی مذاہب یعنی اسلام، عیسائیت اور یہودیت انسان کی میت کو صرف دفنانے کی تعلیم دیتے مگر سیکولر یا ماڈرن ہونے کے بعد اب کئی عیسائی بھی اپنے مردوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے اس جدید ٹیکنالوجی سے کام لے رہے ہیں۔ ہندوؤں کی علاوہ جین مت، سکھ، اور بدھ بھی اپنے مردوں کی چتاؤں کو جلاتے ہیں۔ البتہ سادھؤں اور شیر خوار بچوں کو ہندو بھی جلانے کے بجائے زمین میں دفناتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں معصوم بچوں اور سادھؤں کے گناہ نہیں ہوتے کہ انہیں جلا کر پاک پوتر کرنا پڑے۔ پارسی (آتش پرست) اپنے مردوں کے لیے سب سے برا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ دفناتے ہیں نہ جلاتے ہیں بلکہ ایک بلند مینار (silent tower) پر چھوڑ آتے ہیں جہاں پر لاش بھوکے گدھوں اور کووں کی خوراک بنتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انسان کے جسم میں بدروح حلول کر جاتی ہے تو وہ مر جاتا ہے یعنی موت نام ہے جسم میں شیطانی روح کے حلول کر جانے کا۔ وہ آگ پانی اور زمین کو مقدس جانتے ہیں چنانچہ مقدس اشیاء سے بری شے کا چھونا مناسب نہیں لہذا لاش کو دفنایا جا سکتا ہے نہ جلایا اور نہ پانی میں غرق کیا جا سکتا ہے۔ اس کا صرف ایک حل ہے کہ لاش کو کھلی فضا میں چھوڑ دیا جائے اور وہ وہاں قدرتی طور پر قدرت کے کارندوں کا نوالہ بن جائے۔

    امریکا میں میتوں کو جلائے جانے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ وہاں کل فوت شدگان کا تقریبا نصف آگ کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ پچاس سال پہلے یہ تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس اضافے کی بڑی وجہ تدفین کے بڑھتے ہوئے اخراجات بتائے جاتے ہیں۔ چین اس فہرست میں سر فہرست ہے جہاں یہ تعداد پینتالیس لاکھ سالانہ سے متجاوز ہے۔ جاپان میں ننانوے فیصد مردے جلائے جاتے ہیں جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ تناسب ہے۔

    اسلام مردہ انسان کی بھی اسی طرح عزت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ عزت و اکرام کا سلوک کرنے کاہدایت ہے۔ اسے نہلا دھلا کر صاف کپڑے میں کفنا کر خوشبو وغیرہ لگا کر عزت سے اس کی نماز جنازہ ادا کرنے کا حکم ہے اور اسے فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ دشمنوں کی بھی لاشوں کا مثلہ کرنے یا بے حرمتی کی اجازت نہیں۔ قرآن مجید میں اس ضمن میں بڑا واضح بیان ہے۔ اللہ رب العزت سورہ المائدہ میں فرماتے ہیں کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا تو وہ بڑا فکر مند ہوا کہ اب میں اپنے اس مقتول بھائی کی میت کا کیا کروں۔ اسے کچھ سمجھ نہ آئی تو اللہ تعالی نے ایک کوا بھیجا۔ ارشاد ہوتا ہے:
    ”پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے چھپائے۔ یہ دیکھ کر وہ بولا افسوس مجھ پر! میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا اس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتایا۔“ (المائدہ آیت 31)

    یہ تبصرہ ہے قرآن کا ان لوگوں کے بارے میں جو اپنے مردہ بھائیوں کے متعلق یہ تک نہیں جانتے کہ وہ کیا کریں کہ وہ کوے سے بھی گئے گزرے ہیں۔

  • کینیڈا میں مرنے سے قبل، چند ضروری باتیں – فرح رضوان

    کینیڈا میں مرنے سے قبل، چند ضروری باتیں – فرح رضوان

    الحمد للہ ایک مسلمان یہ جانتا ہے کہ اسے کسی بھی دن اس کا رب واپس اپنے پاس بلا لے گا، اسی لیے وہ اپنے مقدور بھر اس کی تیاری بھی کرتا ہے ،جبکہ ایک تیاری وہ ہوتی ہے جو انسان کے مرنے سے لے کر قبر میں جانے تک اس کے لواحقین اس کے لیے کرتے ہیں.

    آپ اگر کینیڈا میں رہتے ہیں یا آپ کا قریب یا دور کا کوئی عزیز، تو براہ مہربانی اپنے لواحقین کو اس تیاری کے لیے، کچھ اہم ترین نکات کی تلقین ضرور کر دیجیے.

    انسان کی موت گھر میں ہو یا ہسپتال میں، ہرحال میں، غسل اور قبر سے پہلے میت کو ہسپتال کا visit ضرور کرنا ہوتا ہے. اور میت مسلم ہو یا غیر مسلم، مرد ہو یا خاتون، کینیڈا کے ہسپتالوں میں ایک dead body کے ساتھ ”حسن سلوک“ وہی رہتا ہے جو کسی بھی چرچ سے رخصت ہونے والے کا ہوتا ہے. میت کو بالکل برہنہ کر کے، ایک پلاسٹک بیگ میں ڈال دیا جاتا ہے، ہاتھ کراس کی شکل میں کر دیے جاتے ہیں اور کیونکہ یہ لوگ اپنی میت کو سجا کر رخصت کرتے ہیں لہٰذا حسن میں کوئی فرق نہ آجائے سوچ کر، جو لوگ ڈنچرز استعمال کر رہے ہوتے ہیں، فورا ان کے منہ میں dentures لگا دیتے ہیں، (کیونکہ منہ کھلا رہ جاتا ہے تو smile اچھی دکھتی ہے)، اور لواحقین کو دیتے وقت کبھی کبھی ان کی مدد کی خاطر کہ بیگ سے dead body نکالنے میں دقت نہ ہو، وہ رہی سہی پلاسٹک کی ستر بھی بےچاری میت سے ہٹا دی جاتی ہے.

    خدارا اپنے گھر والوں اور دوستوں کو اس بارے میں آگاہ کرنے میں بالکل دیر نہ کریں. کہ مسلم لواحقین کا فرض بنتا ہے کہ وہ ڈاکٹرز سے درخواست کریں بلکہ مصر ہو جائیں کہ یہ ایک مسلمان کی میت ہے. پہلی بات یہ کہ اس کے کپڑے تلف نہ کیے جائیں، دوسری اس کے ہاتھ سیدھے رکھیں اور پاؤں کے انگوٹھے آپس میں tie کر دیے جائیں. dentures کی اب انہیں کوئی ضرورت نہیں، لیکن منہ بند کیا جا سکے تو فوری بند کیجیے.

    ایک اور المیہ اس سے بھی بھیانک ہے کہ جب ہمارے بہت سے بھائی بہن اس بات کو اہمیت نہیں دیتے کہ جہاں وفات ہو، وہیں تدفین بھی ہو جائے، اور وہ اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہونے کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر کیونکہ کینیڈا میں تدفین کا عمل کم از کم پانچ ہزار ڈالرز میں انجام پا تا ہے، اور P.I.A میت کو مفت پاکستان لے جانے کی سہولت دیتی ہے، سو وہ فیملی کی بچت کی خاطر پاکستان بھیجنے کی وصیت کر جاتے ہیں، لیکن ! ایسی میت کے ساتھ جو کچھ ”لازمی“ ہوتا ہے، یہ بھی جان لیں کہ کیونکہ سفر لمبا ہوتا ہے اور میت کے خراب ہونے کا خدشہ، تو اس باڈی کے پیٹ میں سے تمام تر آنتیں/آرگنز نکال کر تلف کر دیے جاتے ہیں، کیمیکل لگایا جاتا ہے اور میت پر لگے کٹ کو پرانے پھٹے ہوئے لحاف کی مانند بڑے بڑے شلنگے (ٹانکے) لگا کر بند کر دیا جاتا ہے، اس لازمی آپریشن کی فیس کم از کم دو ہزار ڈالرز اور تابوت جو کہ ایک اور لازمی جز ہے، اس کے کم از کم ہزار ڈالرز کل ملا کر تین ہزار ڈالرز کی رقم تو بنتی ہی ہے. ماضی قریب میں ایسے واقعات بھی سننے میں آئے کہ بجٹ، (بلکہ ایمان) کی کمی کے باعث کسی بیٹے نے اپنے والد کی میت کی تدفین پر رقم خرچ کرنے کے بجائے ان کی چتا کو آگ لگا کر ”سستے“ میں جان چھڑا لی.

    الحمدللہ ثم الحمد للہ مسلم کمیونٹی میں اس مد میں، ضرورت مندوں کے لیے فنڈز بھی قائم ہیں. اور لوگ اس موقع پر انتہائی سخاوت اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ جس طرح شادی کے موقع پر لفافے دیے جاتے ہیں، اسی طرح نماز جنازہ میں شرکاء اپنے ہوں یا غیر اور بالکل انجان، وہ حسب استطاعت لفافوں میں رقم رکھ کر لواحقین کی امداد ضرور کرتے ہیں. اس لیے نہ تو کسی کو ایذا پہنچا کر پاکستان بھیجنے کی ضرورت ہے، اور نہ ہی کسی کو آگ کے حوالے کرنے کی.

    لیکن ایک آگ دل میں لگی ہی رہے تو بہتر ہے کہ کل کو جب ہمارے ہاتھ پاؤں زبان کچھ بھی حرکت نہ کر پائے گی، ہم سراسر دوسروں کے رحم و کرم پر ہوں گے، تب بھی ہوگا تو وہی، جو اللہ چاہے گا. عین وقت پر اللہ تعالیٰ ہی تو انہیں یہ سب یاد دلانے اور سرے سے بھلا دینے پر قادر ہے، تو کیوں نہ اس قادر مطلق سے بنا کر رکھی جائے؟ قبل اس کے کہ کوئی بے رحم موت کے بعد سینے کو چاک کر کے اعضاء کو تلف کرے، کیوں نہ زندگی میں ہی اس سینے میں سے، لالچ، حرص، ناشکری، تکبر، طمع، حسد، بغض، عداوت اور کینے کو تلف کر دیا جائے. کیوں نہ ایسے کانوں سے، جو اپنے رب کے احکام کو تو سنا ان سنا کر دیتے ہیں، لیکن اپنے دشمن شیطان کے وسوسوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں، نجات حاصل کر لی جائے؟

    اس وقت جبکہ ہمارے ہاتھ قلم کی ایک جنبش سے کسی کی جائیداد پر قابض ہو جانے پر قادر ہیں، کسی پر انگلی اٹھانے، کسی کا گریبان چاک کر دینے، کسی کو ایذا دینے، حق روک لینے پر مکمل اختیار رکھتے ہیں. یہ زبان، جو چغلی، غیبت اور بہتان سے کسی کی عصمت دری پر، پردہ دری پر، کسی کے سینے میں نیزے کی طرح گھپ جانے پر بلا کا عبور رکھتی ہے. کیوں نہ ہم مرنے سے پہلے ہی ان تمام فتنوں کو خود مار ڈالیں.

    کاش! نماز کے لیے اللہ اکبر کہتے جب خالی ہاتھ اٹھیں تو دوسرے کی حق تلفی سے پاک ہوں؟ یااللہ رب العزت! ہماری زبان پر تیرا ذکر جاری ہے. یہ شکوے، طعنے، غیبت، جھوٹ اور فحش سے عاری ہو. یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک (آمین )

  • ایک ہچکی – ریاض علی خٹک

    ایک ہچکی – ریاض علی خٹک

    ریاض خٹک عزیز و اقارب، دوستوں اور ڈاکٹروں کے درمیان لیٹا مریض، جانکنی میں مبتلا اس انسان کے آس پاس محتلف سوچیں محو پرواز تھیں. کوئی گھڑی دیکھ کر اگلی اپائٹمنٹ کے ٹائم کا حساب لگارہا تھا، کوئی جنازے اور اس کے لوازمات کا، کوئی وصیت میں اپنے حصے کا، کوئی ’’عیادت کو کون کون آیا‘‘ کا حساب لگا رہا تھا. کوئی قبرستان میں پہلے سے دفن عزیزوں کے ساتھ دستیاب قبر کا اندازہ کررہا تھا. تو کوئی اس مریض سے منسلک تلخ و شیریں لمحات سوچ رہا تھا.

    مگر یہ بسترِ مرگ پر لیٹا آخری ہچکی کا مسافر کیا سوچ رہا تھا. اس کی کمزور نظریں کیا کھوج رہی ہیں؟

    ایک آخری نظر، اس دنیا پر جہاں اس نے زندگی کے نام سے ماہ و سال گزارے، جہاں یہ روتا ہوا بند مٹھیاں آیا تھا، جہاں یہ بڑا ہوا، رشتے سمجھے، جینا سیکھا، رشتے بنائے، زندگی میں حاصل کی دوڑ پر بےتاب دوڑنے کی مشقت کی. جہاں اس سراب سرائے میں اُس نے اپنی مشقت کی دیواریں بنائیں. پر آج وہ مقام آیا، زندگی کا ابدی سچ. موت

    ایک ہچکی ایک ٹوٹی پھوٹی سانس اس بدن کی آخری ڈور جو کھبی صحتمند تھا، جو کبھی مغرور تھا، دنیا کو اپنی ٹھوکر پر رکھتا تھا، انا کا بھاری بھرکم بوجھ اس کے کاندھوں پر ہر وقت لدا رہتا تھا.

    اس ایک ہچکی میں دستیاب لمحۂ حیات میں اس کے سامنے پوری زندگی پلک جھپکتے نگاہ کے سامنے گزر گئی. ادراک ہوا، فہم ملا کہ بس یہ تو پلک جھپکنے جتنا عرصہ ہی تھا.
    کیا زندگی کیسی زندگی؟ بس یہ پلک جھپکنے کا لمحہ ہی زندگی تھا؟

    اس ہچکی کے دوران زندگی کا میزان آنکھوں کے سامنے آگیا. کیا پایا؟ کچھ نہیں کہ ہاتھ خالی ہیں. وہ دولت جس کی طلب میں صبح شام ایک کیے. یہاں رہ گئی. وہ طاقت جس کے حصول کےلیے مشقت اٹھائی، یہاں رہ گئی. وہ رشتے جن کے کےلیے یہ سب کیا، یہاں رہ گئے، وہ بدن جس کے اطمینان کےلیے یہ دکان سجائی، لاغر کمزور بستر مرگ پر آخری ہچکی کا ہچکولا کھا رہا ہے.
    تو کیا پایا، کیا حاصل کیا. جواب کچھ نہیں، اور آخری ہچکی میں مٹھیاں کھل گئیں. پھیلی ہوئی ہھتیلیاں، خالی ہاتھ سوالی بن گئے.
    یہ بندہ خالی ہاتھ جارہا ہے. سوالی جا رہا ہے. اس اعمال کے بھروسے جو پہلے بھیج چکا. حاصل چھوڑ کر جا رہا ہے.

    آخری ہچکی نے منظر دھندلا دیا. بندہ اپنے رب کے روبرو ہونے چل پڑا. یہ ادراک ہوا کہ یہ سب سراب ہے، سرائے ہے، اپنا نام بھی یہاں چھوڑ گیا. نام تو ہمھاری پہچان کے لیے تھا. ورنہ اس آخری ہچکی کے بعد وہ بدن نام نہیں میت کہلاتی ہے.