Tag: مہاجر

  • کمال اور عباد کا سچ – سید جواد شعیب

    کمال اور عباد کا سچ – سید جواد شعیب

    سید جواد شعیب بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
    کمال نے سچ بولا تو عباد سچائی کا علمبردار بن گیا
    لیکن قسم خدا کی نہ سچ میں بولا نہ تو بولا
    جو بولے یہی بولے
    ایک رشوت العباد بولا تو دوجے نےمصطفٰی کدال بولا
    جناب عباد نے اعتراف کیا کہ
    کراچی کی ترقی میں سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان کا کردار انتہائی کلیدی تھا
    نعمت اللہ خان انتہائی ایماندار ناظم اور بہت ویژن والے انسان ہیں۔ بطور ناظم بہت محنت کی
    نعمت اللہ خان کے بعد آنے والی سٹی حکومت نے مایوس کیا۔
    جس رفتار سے نعمت اللہ خان نے کام شروع کیا، وہ برقرار نہ رکھی جا سکی۔
    مصطفی کمال کو مصطفی کدال کہتے کہتے ٹھیکیدار کہا
    یہ بھی کہا کمیشن لیے چائنہ کٹنگ کی
    اور تو اور یہ بھی کہہ گئے کہ انہیں چوک پر لٹکا دیں گے
    جو سانحہ بارہ مئی کے قتل عام میں ملوث تھے
    جو بلدیہ فیکٹری میں انسانوں کو زندہ جلانے والے تھے
    جو فوج سے لڑنے کے لیے جدید اسلحے سے لیس تھے
    جو زمینوں پر قبضے بھتہ خوری اور چائنہ کٹنگ کے خالق تھے
    جو عظیم احمد طارق اور حکیم سعید شہید کے قاتل تھے
    صرف یہی نہیں،
    اپنے کل کے دوست و ہمنوا کو گھٹیا، اور نفسیاتی مریض قرار دیتے ہوئے ڈاؤ ہیلتھ یونیورسٹی میں علاج کی پیشکش بھی کرگئے

    لیکن ایک سچ وہ بھی تھا جو کمال کا تھا
    یعنی مصطفی کمال کا تھا
    کراچی کی سیاست میں عشرت العباد کرمنل شخصیت ہے
    کراچی کی سیاست میں سب سے برا کردار عشرت العباد کا ہے
    کون سی چائنا کٹنگ کے پیسےگورنر کو نہیں ملتے رہے
    گورنر ہمیشہ ملک دشمن قوتوں کر آکسیجن فراہم کرتا رہا
    گورنر کو کراچی کی بزنس کمیونٹی رشوت العباد کے نام سے پکارتی ہے
    اس شخص کو کوئی ایسا شخص نہ ہو جو پیسے پہنچاکر نہ آیا ہو
    گورنر آرمی چیف، ڈی جی رینجرز، وزیراعظم، وزیر اعلی سب سے رابطے میں رہتا ہے
    گورنر سندھ ہمارے متعلق ملکی اداروں کو اب منفی فیڈنگ کر رہا ہے
    یہ گورنر سندھ شپ چھوڑنا نہیں چاہتا،
    یہ الطاف حسین سے بھی رابطے میں ہے، ہم سے بھی اور فاروق ستار سے بھی
    گورنر سندھ کو عہدے سے ہٹایا جائے
    نام ای سی ایل میں ڈالا جائے
    گورنر سندھ کو فوری گرفتار کیا جائے

    اگر یہ بھی سچ ہے جو کمال کا ہے
    اور وہ بھی سچ ہے جو عباد کا ہے
    تو پھر کچھ رہ نہیں جاتا سمجھنے کو لیکن
    سمجھے وہ جو سمجھنا چاہے
    اے میرے پیارے کراچی والو!
    ذرا سوچو تو سہی
    ٹھہرو تو سہی
    دیکھو تو سہی
    آپ کے شہر کی دو پسندیدہ ہستیاں
    ایک نے دنیا بھر میں میئرشپ میں (جھوٹا) دوسرے نمبر کا اعزاز پایا
    دوسرا چودہ سالوں سے گورنر ہاؤس میں کراچی والوں کی آواز مانا جاتا رہا
    یہ دونوں سچ بول رہے ہیں
    اب انہیں جھوٹا مت کہہ دینا

    جھوٹے تو وہی تھے جو اتنے سالوں اتنے مہینوں اتنے ہفتوں اور اتنے دنوں پہلے چیخ چیخ کر بولتے رہتےتھے
    چلو ان کو دفع کرو وہ سب جھوٹے ٹھہرے
    کراچی دشمن ، مہاجر دشمن قرار دے کر مسترد کردیے گئے
    اور
    اردو بولنے والوں کا فخر ڈاکٹر عشرت العباد بنے
    کراچی کو کمال کی ترقی دینے والا مصطفی کمال کراچی کے لیے نعمت قرار دیا گیا
    دونوں ساتھ ساتھ چلے اور اس شہر کی نمائندگی کرتے رہے
    دیکھو اب قائم رہنا
    ان کے ساتھ رہنا انہیں سچا ماننا
    کمال اور عباد جو کہہ رہے وہی سچ ہے
    پیچھے مت ہٹنا
    بس یہی سچ ہے
    ایک نے کمال کا ایک سچ کیا بولا
    تو عباد سچائی کا علمبردار بن گیا
    واضح رہے یہ میں نے نہیں بولا ہے
    جو کمال و عباد نے بولا ہے
    وہی سچ ہے بس یہی بولا ہے
    اہلیان کراچی کو اور کیا کیا سننا اور دیکھنا ہے
    ابھی بہت کچھ باقی ہے
    بس دیکھتے جائیے
    آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے

    (سید جواد شعیب جیو نیوز کراچی سے وابستہ ہیں اور سینئر کورٹ رپورٹر ہیں)

  • مہاجر مہاجر مہاجر – روبینہ فیصل

    مہاجر مہاجر مہاجر – روبینہ فیصل

    بار بار کہنے سے کوئی عمر بھر کے لیے مہاجر نہیں ہو جاتا۔ یہ ایک ذہنی کیفیت ہے جسے اپنے مفادات کے لیے معصوم ذہنوں پر طاری کر دیا گیا ہے۔ سوال اٹھتا ہے:
    کیا پنجاب میں مہاجر اس لیے نظر نہیں آتے کیونکہ وہاں بھٹو کا کوٹہ سسٹم نہیں؟ تو پنجابی مہاجروں نے یہ شور کیوں نہیں مچایا کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب بڑے صوبہ تھا، اور پاکستان بننے میں پنجابیوں نے جانوں اور عزتوں کے نذرانے سب سے زیادہ دیے تھے تو پنجابی کو قومی زبان کیوں نہیں بنایا گیا؟ کیا آج تک پنجابیوں نے اپنی قربانیوں کا معاوضہ مانگا؟ کیاانہوں نے کہا کہ اردو کو قومی زبان بنا کر پنجاب کے ساتھ ناانصافی کی گئی؟ ہم نے تو پنجاب میں رہتے ہوئے کبھی لفظ مہاجر ہی نہیں سنا تھا کیونکہ پنجاب میں آکر مہاجرین، مقامی لوگوں سے زیادہ مقامی ہو گئے ہیں۔ کیا ان کی زبان اور ان کی تہذیب ایک تھی؟ مہاجر تو مہاجر ہی ہو تا ہے، زبان ایک ہو، پھر بھی اپناآبائی لہجہ، اور ثقافت کچھ نہ کچھ ساتھ اٹھا لاتا ہے۔ مگر !

    روم میں رہنا ہے تو وہی کرو جو رومن کر تے ہیں، پنجابی مہاجروں نے رونے نہیں روئے بس اپنے آپ کو وہاں ضم کر لیا، اسی لیے آج پنجاب میں لفظ مہاجر غائب ہے۔ کیا ہم آج کینیڈین شہری اس لیے نہیں ہیں کہ ہم نے یہاں کے نظام میں، سوال اٹھائے بغیر خود کو جذب کر لیا ہے. کیا ہم کینیڈا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ یہ کیا جائے یا یہاں کے مقامی لوگوں کے لیے یہ یہ نہ کیا جائے ورنہ ہم ناراض ہو جائیں گے؟۔ ہم حکومت سے مطالبے نہیں کر تے بلکہ اس کا مفید حصہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کی زبان اور ثقافت سیکھنے کے لیے سر توڑ کوششیں کرتے رہتے ہیں کیونکہ اچھی طرح پتہ ہے کہ یہ نہ کیا تو، خود بخود نہ چاہتے ہو ئے بھی تھرڈ کلاس شہری بن جائیں گے، جن پر یہاں کا سسٹم ترس کھا کر ویلفئیر تو دیتا رہے گا، مگر تنخواہ نہیں دے گا۔

    سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان نے مہاجروں کو اچھے طریقے سے خوش آمدید نہیں کیا؟ ہاں اچھے سے کیا کیونکہ لیاقت علی خان جو خود مہاجر تھے اور چاہتے تھے کہ کراچی میں مہاجر اچھے سے سیٹل ہوجائیں، ان کی فلاح کے لیے سب کیا گیا۔ 1947ء میں پناہ گرین آئے اس کے بعد 1958ء تک مسلسل ہندوستان سے مہاجرین اپنی رضا و منشا سے آتے رہے، اور یہ سلسلہ ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے. مگر شروع کی دہائی میں تو تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جواہر لال نہرو بھی مسلمانوں کی اس ہجرت سے پریشان ہو گیا تھا، کیونکہ پڑھے لکھے مہاجرین کو کراچی میں اپنا مستقبل زیادہ تابناک نظر آتا تھا، اس لیے سوچ سمجھ کر انہوں نے کراچی آنے کا فیصلہ کیا، انھیں ہندوستان میں مشکلیں اور پاکستان میں مواقع نظر آرہے تھے۔

    دانشوروں کو ابوالکلا آزاد کی یہ پیشن گوئی تو یاد ہے جس میں انہوں نے ہندوستانیوں کو پاکستان جلد ٹوٹنے کی بشارت دی تھی اور ہندوستانی مسلمانوں کو نصحیت کی تھی کہ پاکستان نہ جانا، نہ ادھر کے رہو گے نہ اُدھر کے۔ مگر انہی دانشوروں کو قائد اعظم کی بصیرت ماننے میں ہچکچاہٹ ہے، جس کے مطابق ہندوستان میں مسلم اقلیت میں ہوں گے اور ہندو انہیں اپنے اطوار کے مطابق زندگی گزارنے پر اس طرح مجبور کریں گے کہ وہ اُف بھی نہیں کر سکیں گے اور کیا ایسا نہیں ہو رہا؟ مسلمان رام دین بن کے رہ گئے ہیں یا شاہ رخ خان کی طرح گھروں میں مورتیاں رکھتے ہیں اور خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کر نے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں۔ ساری عمر کے مہمان اور کیسے ہوتے ہیں؟

    کوٹہ سسٹم، مہاجرین کو نیچے گرانے کے لیے نہیں بلکہ مفلوک الحال سندھیوں کو ان کے برابر لانے کے لیے لایا گیا تھا۔ تو کیا پڑھے لکھے مہاجروں کی سوچ بھی سرداروں، نوابوں اور وڈیروں جیسی ہے؟ یعنی گرے ہوئے کو پستی سے اٹھانے کی کوشش نہ کرو؟ اور سب سے بنیادی بات بھٹو، اسے صرف دس سال کے لیے لائے تھے تاکہ اس دوران دیہاتی اور شہری تعلیم نظام یکساں کر دیا جائے، پھر سب ایک جیسے کھلاڑی، میدان میں ایک دوسرے کے مقابل اتریں۔ ورنہ تو دیسی گھی کھانے والے اور تیل کھانے والے کو لڑوا کر آپ کس حیران کن نتیجے کی توقع رکھیں گے؟ آسائشوں والے غریبوں کو کچلتے رہیں گے۔ میرٹ پر لڑوانے کے لیے تیاری کے مواقع بھی تو ایک جیسے فراہم کیے جائیں۔

    اور کیا برا کیا پاکستان نے مہاجروں کے ساتھ، سب سے بڑے شہر میں آباد ہوئے، جہاں پورے پاکستان کی صنعتیں، کاروبار کے مواقع تھے۔ پورٹ سٹی، دنیا کی بڑی یونیورسٹی، کیا پاکستان نے آپ پر کچھ بند کیا؟ سارے ملک کی انوسٹمنٹ تو کراچی میں جائز مگر اس سے کمائی جانے والی رقم پر کہا جائے کہ یہ صرف ہمارا حق ؟ بات تو سوشلزم کی کرنا مگر جب اداروں کو قومی تحویل میں دے دیا گیا تو اسے بھی مہاجروں کے خلاف سازش کہنا اور اس کے بعد پاکستان کو گالی دینا۔ یہ کیسی وفاداری ہے ؟

    ذاتی مثال نہ دوں تو لوگ کہیں گے پنجابی ہے، اس نے کیا کھویا ہوگا؟
    میرے ابو کا قائد ماڈل کے نام سے عبداللہ پور فیصل آباد میں سکول تھا، امی ابو کی، یا کسی بھولے بھٹکے شاگرد کی زبانی ہی اس کی شان و شوکت اور کامیابی کے بارے میں سنا. اس سکول کی وجہ سے ابو پورے فیصل آباد میں جانے جاتے تھے اور ان کی عزت تھی، کیونکہ ہر دم معیاری تعلیم دینے اور سکول میں مثالی نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے کوشاں رہتے تھے. ایک دن یہ سکول قومی ملکیت میں چلا گیا۔ ابو کو اپنے ہی ہاتھوں سے آباد کیے گئے چمن میں ہیڈ ماسٹر بننے کی آفر کی گئی، مگر انھوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ساری عمر اپنا سکول چلایا، نوکری نہیں ہو سکے گی۔ اس کے بعد پرائیویٹ سکول بناتے رہے مگر اس طرح کی کامیابی اور عزت دوبارہ نہ پا سکے۔ ساری عمر ابو نہ پھر کبھی اس پائے کا سکول کھڑا کر پائے اور نہ خود اس غم سے نکل سکے مگر ان کے منہ سے میں نے کبھی پاکستان کے لیے تو دور کی بات، کبھی بھٹو کے لیے بھی برے الفاظ نہیں سنے۔ وہ بھٹوکو آج بھی ایک لیڈر کی حیثیت سے پسند کر تے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نے پاکستان کو آئین دیا، ایٹمی طاقت بنایا اور ہمارے جنگی قیدی چھڑوا کے لایا۔ بھٹو کے پاکستان کے لیے کیے گئے بڑے کارناموں کے سامنے اپنے ذاتی نقصان اور دکھ کو کبھی یاد بھی نہیں کرتے حالانکہ اس سے ان کے بچوں کی روزی ہی نہیں بلکہ ان کی عزت بھی جڑی ہوئی تھی۔

    بعد میں جب کوئی بھی کاروبار سیٹ نہیں ہو سکا تو پھر بھی کسی کو الزام دینے کے بجائے خود کو حالات کا ذمہ دار سمجھتے، کسی دوست یا رشتے دار سے اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کا رونا رو کر کبھی مدد نہیں مانگی، خودادری کے ساتھ سر اٹھا کر جیتے دیکھا، حالات نے توڑا بھی تو امی ابو کو خدا کے ہی آگے جھکتے دیکھا۔ باتوں سے نہیں، اپنے عمل سے سکھایا کہ گھر کی پریشانی باہر بتانے سے نہ گھر کی عزت باقی بچتی ہے نہ خود انسان کی، اوراگر وقتی رحم کھا کر لوگ مدد بھی کر دیں تو اس کے بدلے عزت نفس کو گروی رکھنا پڑتا ہے، اسی لیے آج بھی حیرت ہوتی ہے جب ان لوگوں کے منہ سے جنہوں نے پاکستان کے اعلی اداروں سے تعلیم حاصل کی، انگریزی زبان میں فرفر بولنا بھی وہیں سے سیکھا اور پھر اسی سیکھے کو انٹرنیشنل میڈیا میں پاکستان کو گالی دینے کے لہے استعمال کر تے ہیں۔

    سوچتی ہوں کہ کیا ان کے ماں باپ اپنے دکھوں کا رونا پوری دنیا کے سامنے روتے رہتے تھے؟ کیا انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ جب پناہ دینے والے، پالنے پوسنے والے، چھت دینے والے گھر کو گالیاں دو تو اس گھر کی عزت تو خراب ہوتی ہی ہے، آپ کو بھی دنیا عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔ شاید محرومیوں کے رونے رو کر وقتی ترس اور فائدے سمیٹنا، ایک بیماری ہے جو انفرادی سطح سے لے کر گروپوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس بیماری کا علاج کروانا چاہیے اور یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

  • کیا مصطفی کمال کامیاب ہوں گے؟ ملک صفی الدین اعوان

    کیا مصطفی کمال کامیاب ہوں گے؟ ملک صفی الدین اعوان

    صفی الدین اعوان کراچی سیاسی تبدیلیوں کی زد میں ہے اور حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، شہری ووٹ بینک خاموشی کی کیفیت میں چلا گیا ہے، شاید یہ بھی اپنی سیاسی قیادت سے خاموش احتجاج ہے جبکہ مضافاتی ووٹ تو ہمیشہ ہی مخالف رہا ہے۔

    ایم کیو ایم میں قائد کی تبدیلی کا عمل کامیاب ثابت نہیں ہوا، نئے قائد کے حادثے میں زخمی ہونے کے بعد لاکھوں افراد کا ہجوم تڑپ کر باہر بھی نہیں نکلا اور نہ ہی اسپتال اور گھر پہنچا، جب فاروق ستار بھائی صحتیاب ہوکر گھر پہنچے تو گنتی کے چند افراد استقبال کے لیے موجود تھے، یہاں تک کہ رش کی کیفیت بھی نہیں تھی۔

    بانی ایم کیو ایم کی تیزی سےگرتی ہوئی صحت سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دینے سے قاصر ہے، اس لیے بظاہر ایم کیو ایم کی سیاست بانی قائد کی صحت سے منسلک ہوچکی ہے، متبادل قیادت موجود نہیں ہے۔ اس وقت ایسا کوئی رہنما موجود نہیں جو بانی قائد کی طرح مضبوط اعصاب کا مالک ہو اور قائدانہ صلاحیت رکھتا ہو۔ عامر خان ایک واحد نام ہے جو الطاف حسین کا کسی حد تک متباد ل ہے لیکن کیا قوم عامر خان کو قبول کرلے گی؟ عامر خان میں دیگر ”صلاحیتیں“ تو موجود ہیں لیکن تقریر کی شاید وہ صلاحیت نہیں جو ایم کیوایم کے بانی قائد کے اندر موجود ہے۔ اسی طرح بانی ایم کیو ایم کے پاس فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت تھی جو کسی اور میں نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے لیے تنظیمی بحران حل کرنا آسان نہیں ہے۔ ایک بڑے فوجی آپریشن اور نصیراللہ بابر کا مقابلہ کرنے والی ایم کیو ایم آج مزاحمت کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔

    رینجرز نے بھی طریق کار تبدیل کیا اور اس انداز میں کراچی آپریشن ہوا کہ آبادی کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے مطلوب افراد کو رات کی تاریکیوں میں گرفتار کیا گیا، اس طرح پارٹی مزاحمت ہی نہ کرسکی۔ رینجرز گزشتہ دوسال سے رات کی تاریکیوں میں کارروائیاں کرتی رہی لیکن یہ بات کبھی بھی میڈیا پر نہ آئی۔ رینجرز کا نظر نہ آنے والا آپریشن ماضی کے مقابلے میں سخت ترین تھا لیکن رینجرز نے ماضی کی کمزوریوں اور خامیوں سے سبق سیکھ کر آپریشن کیا اور رونے کا موقع بھی نہ دیا۔

    اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے الطاف حسین کا نام شجر ممنوعہ ہے جس کی وجہ سے عوامی رابطہ بھی منقطع ہوچکا ہے۔ شاید عوام بھی اس ساری صورتحال سے مکمل لاتعلق ہیں۔ اس وقت وہ لڑکے بھی موجود نہیں ہیں جو ایک کال پر جان کی بازی لگا دیا کرتے تھے۔ لڑکے بھی تتر بتر ہوچکے ہیں۔ ماضی کے فوجی آپریشن کے دوران پارٹی نے شدید ترین مزاحمت کی تھی جبکہ نصیراللہ بابر کے آپریشن کا بھی پارٹی نے سخت مقابلہ کیا تھا، اس وقت مزاحمت کرنے والے لڑکے بھی موجود تھے، آج وہ موجود نہیں ہیں۔ گورنر ہاؤس میں بیٹھا ہوا لڑکا بھی اب لڑکا نہیں رہا اور خاصا سمجھدار ہوچکا ہے۔

    دوسری طرف مصطفٰی کمال صاحب کی پارٹی تیزی سے جگہ بنا رہی ہے اور آری سے نہ کٹنے والا بہاری قبیلہ مصطفٰی کمال کے ساتھ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کمال صاحب ٹیک اوور کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

  • پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    ملک جہانگیر اقبال بچپن میں جب مٹی میں کھیل کود کے بعد خیال آتا تھا کہ ابو جی نے دیکھ لیا تو ”چمپا پریڈ“ ہوجانی ہے تو فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوتے، ہاتھ جھاڑتے اور سائیڈ پر کھڑے ہو کر مٹی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر افسوس سے سوچتے ”افففف کتنے گندے بچے ہیں“. اپنے تئیں تو ہم معزز بن جایا کرتے تھے اور اگر اس دوران ابو جی دور سے آتے دکھائی دیتے تو ان ”گندے بچوں“ کو بظاہر مٹی میں کھیلنے سے منع بھی کرنے لگ جاتے تھے کہ چلو اسی بہانے ابو جی دیکھیں گے کہ ان کا بیٹا کتنا اچھا ہے، خود مٹی میں کھیلتا ہے نہ دوسرے بچوں کو کھیلنے دیتا ہے. مگر ابو جی جب آتے تو گھوم پھر کر شامت ہماری ہی آجاتی تھی کہ ہم نے بھی صرف ہاتھ ہی جھاڑے ہوتے تھے جبکہ کپڑوں پر لگی مٹی ہمارے ”مجرم“ ہونے کی گواہی دے رہی ہوتی تھی.

    کہنے کو تو یہ میرے بچپن کی بات ہے مگر یقیناً بہت سے دوستوں کے بچپن میں ایسے واقعات گزرے ہوں گے جب وہ خود کسی جرم میں شریک ہوں، ابو یا کسی اور بڑے کو آتا دیکھ کر سائیڈ پر کھڑے ہو کر شرارت کرنے والوں کو کوسنے کی اداکاری کر رہے ہوں، اور پھر بھی پکڑے جائیں.

    یہ صرف ”میرے“ بچپن ہی کی شرارت نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی قوم کے بچپن کی بھی شرارت ہے. اقوام صدیوں بعد کہیں جا کر راہ کا تعین کرتی ہیں، خود میں شامل مختلف گروہوں کو سمجھتی ہیں، جبکہ پاکستان کو تو بنے ہوئے ہی ابھی بمشکل صرف ستر سال ہوئے ہیں، اور یہ جن گروہوں پر مشتمل ہے ان کی زبان، ثقافت، رنگ، نسل، زمین اور پانی تک سب جدا جدا ہیں، اگر ان میں کوئی شے مشترک ہے تو وہ ”اسلام“ ہے جس نے اسے جوڑ کر رکھا ہوا ہے. اگر ایک لمحے کے لیے بھی اسلام کو پاکستان میں سے نکال دیا جائے تو آپ اس قوم کا شیرازہ بکھرتا ہوا دیکھیں گے. فرض کریں کہ ہمارے درمیان ”اسلام“ کا رشتہ نہ ہو تو پنجابی اور پٹھان کیوں کر ایک دوسرے کی بات سمجھیں گے؟ بلوچوں کو سندھیوں سے کیا لینا دینا؟ اور باقی پاکستان والے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کو اپنی زمین پر کیوں رہنے دیں؟ پاکستانی کوئی زمینی خطہ نہیں ہے بلکہ یہ مختلف اقوام کی باہمی رضامندی یا مکسچر سے طلوع ہونے والا مجموعہ اور ”ملک“ ہے. جہاں ہر قوم ہر ریاست ہر صوبے نے صرف اور صرف اس بات پر اتحاد کیا تھا کہ ”ہم مسلمان ہیں“، اس لیے ہمارا الگ سے ملک ہونا چاہیے جہاں ہم اکٹھے رہیں گے. وگرنہ پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان اور باقی اقوام اپنے اپنے علاقوں میں رہ ہی رہے تھے، پاکستان بنتا نہ بنتا، وہ اپنے علاقوں میں ہی رہتے. کیا ضرورت تھی کسی کو یوپی، بہار، دہلی، لکھنؤ، امرتسر وغیرہ میں اپنی آبائی زمین اور گھر چھوڑنے کی؟ کیا کوئی پکنک منانے جارہے تھے یہ لوگ؟

    جواب نہیں ملے گا.

    قیام پاکستان کے بعد روسی انقلاب سے متاثرہ دانشور اور امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے حامی سیکولرز پاکستان کی جڑوں میں آ کر بیٹھ گئے. اسلامی جمہوریہ پاکستان نام تو رکھ دیا گیا مگر ”اسلام“ کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے پاکستان تین طبقات میں بٹ گیا، ایک بیوروکریسی جو سیکولرز پر مشتمل تھی، دوم دانشوری جو کمیونسٹ عناصر کے نرغے میں تھی جبکہ تیسری کروڑوں کی تعداد میں موجود عوام جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف ”اسلام“ تھا، اس کی آواز مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز سے بھی باریک تھی. اس دور میں ”ادیب“ کہلوانے کے لیے آپ کو تقسیم پر نوحہ لکھنا اور انقلاب انقلاب کے منجن میں سرخ انقلاب سوویت سے امپورٹ کرنے کی خواہش کا دبے لفظوں میں پرچار کرنا ضروری تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ جب سیکولر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت لبرلزم کا جعلی منجن بیس پچیس سال پرانا ہو چکا تھا لہٰذا مشرقی پاکستان اپنی زبان کی بنیاد پر علیحدہ ہوگیا، دونوں حصوں کو جوڑ کر رکھنے والا صرف ایک اسلام کا ہی رشتہ تھا جسے پاکستان بننے کے بعد ہی فراموش
    کردیا گیا. جب اسلام ہی نہ رہا تو پیچھے جھوٹے وعدے، تسلیاں، برابر کی تقسیم کے وہ نعرے رہ گئے جو اپنی کشش صرف اور صرف نعروں میں ہی رکھتے تھے. اگر لوگوں کو ساتھ جوڑے رکھنا ہے تو کوئی ایک مشترکہ نقطہ ضرور ہونا چاہیے جس پر قوم کے مختلف گروہوں کو جوڑے رکھا جا سکے.

    پاکستان دو لخت ہوگیا تو یہ سیکولر لبرل لابی ہاتھ جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑی ہوگئی، کہ دیکھو جی پاکستان تو کبھی ترقی کر ہی نہیں سکتا کہ ان میں تو آپس میں ہی اتحاد نہیں، بندہ ان سے پوچھے کہ یہ جو پاکستان سے اسلام کو نکالنے کے داغ تمہارے کپڑوں پر لگے ہیں، پہلے اس کا تو جواب دو. جو پاکستان کی بنیاد تھی، تم نے اسے ہی کمزور کردیا، تمھیں کیا لگتا ہے کہ محض سیاسی نعروں کی بنیاد پر دو ایک دوسرے سے یکسر مختلف گروہوں کو ساتھ رکھا جاسکتا ہے؟

    اس کے بعد دور آیا سیاسی رسہ کشیوں کا یعنی ذولفقار علی بھٹو صاحب کا، یہاں شروع میں ملک کو استحکام دینے کے لیے اسلام کا سہارا لیا گیا، اسلامی تنظیموں کے مطالبات پہلی بار سنے گئے، اور بظاہر ایک نئی شروعات کی گئی لیکن یہاں اسلام کو جس طرح سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی اور پھر اسلام کو پاکستان کی اساس کے بجائے حکومت کی بقاء کے لیے استعمال کرنے کا دور ضیاء الحق تک چلا. ضیاء الحق کٹر اسلام پسند حکمران تھا مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی مخالفت سیکولر حضرات نے کم اور کمیونسٹ حضرات نے زیادہ کی، حالانکہ آمرانہ نظام کمیونزم یا سوشلزم سے بہت زیادہ قربت رکھتا ہے. کمیونسٹوں کی ضیاء الحق کی مخالفت کی وجہ ”پاکستان“ نہیں بلکہ وہ ”سرخ انقلاب“ تھا جو افغانستان تک پہنچ چکا تھا اور جلد یا بدیر اس کے پاکستان میں آنے کے سہانے سپنے دیکھے جانے لگے تھے. ضیاء الحق کی سوویت یونین کے خلاف تاریخی جنگ سے ان کے سپنے ٹوٹ گئے. ضیاء الحق کو جہاں ایک جانب افغانستان میں موجود مختلف اقوام کی نسل کشی اور بھٹو دور میں پاکستان میں پناہ حاصل کرنے والے افغان لیڈرز کی فکر تھی تو دوسری جانب اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کا مخالف طبقہ کن لوگوں پر مشتمل ہے، اس اندازہ تھا کہ اگر سوویت یونین پاکستانی سرحد تک آگیا تو ان ”اپنوں“ کا اس کے بعد کا کردار کتنا بھیانک ہوگا؟ لہٰذا امریکہ، پاکستان، اور پشتون قبائل ان تینوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے روس سے جنگ کی. یہاں کوئی کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوا بلکہ اپنا مقصد تینوں نے ہی حاصل کیا .

    اس جنگ کے بعد کمیونسٹ حضرات کی کمر تو ٹوٹ گئی اور سیکولر لابی کی طرح وہ بھی اپنے کپڑے جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑے ہوگئے، اور نوے کی دہائی میں سیاست میں ہونے والی رسہ کشی اور عدم استحکام دیکھ کر پاکستانی قوم پر تف کرنے لگے جبکہ اس دوران وہ اپنے کپڑوں پر لگنے والے ان داغوں کو نظر انداز کرتے رہے جو انھوں نے پاکستان سے زیادہ سوویت یونین سے وفاداری نبھا کر اپنے کپڑوں پر ملے تھے.

    پھر دور آیا مشرف صاحب کا یعنی لبرلزم کا، جس طرح پچھلی بار لبرلزم ہمارا مشرقی پاکستان کھا گیا تھا، ٹھیک اسی طرح اس لبرلزم نے سندھ، بلوچستان اور قبائلی پٹی پر شورش پیدا کی، سب سے پہلے پاکستان بہت خوب نعرہ ہے مگر بنا اسلام کے پاکستان کا کوئی وجود ہی نہیں تو نعرہ کس کام کا ؟ لیکن اس دوران مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے والوں کا بھی بھیانک روپ سامنے آیا جس میں مذہب کو بطور بلیک میلنگ اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا یعنی عملی طور پر اسلام کا دور دور تک کوئی نام و نشان ہی نہیں تھا. سول سوسائٹی کے طور پر یا تو اسلام کو پاکستان میں دیکھ کر ناک بھوں چڑھانے والے لوگ تھے یا پھر اسلام پسندوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے.

    نتیجہ کیا نکلا؟ ہر صوبے میں شورش، دنیا میں بدنامی، صوبائیت کا فروغ، قوم پرستی کا عروج.

    اس دور سے لے کر اب تک پاکستانی قوم نہیں بن سکے، سیاست سے لے کر ایک عام فرد کی سوچ تک میں صوبائیت کی بو رچ بس گئی. جب اسلام سے زیادہ شخصیات طاقتور ہوئیں تو کالے کوے بھی سفید ہونے لگے، یہاں کے مذہبی حضرات سیاست کرنے لگے ہیں جبکہ سائنسدان حضرت مذہبی بحث و مباحثہ، غرض اپنے پروفیشن سے زیادہ اپنے عقائد کی ترویج پہلا مقصد بنا چھوڑا ہے. مذہبی انتہا پسندی نے اگر پاکستان کے اندر بدنام کیا تو لبرل حضرات نے پاکستان سے باہر جا کر پاکستان کو بدنام کیا. ایک طویل فہرست ہے کہ کون کس طرح کے فراڈ میں ملوث ہے.

    اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان ایسے ہی بنا دیا گیا؟ کوئی اصول اور ضابطہ نہیں طے کیا گیا؟

    پاکستان بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا. قائد اعظم کی 22 مارچ 1940ء کی تقریر ہو یا علامہ اقبال کا جمہوریت کا وہ نظریہ جو مغربی جمہوریت سے ہزار گنا بہتر تھا، یا پھر وہ قرارداد مقاصد ہو جس نے پاکستان کی بنیاد رکھ چھوڑی تھی. اگر اس پر کاربند رہتے تو لبرلزم میں جعلی پن ہوتا نہ مذہب میں انتہا پسندی. پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظم کے معتمد لیاقت علی خان کی قرارداد مقاصد پیش کرنے کے دوران تقریر کا اگر متن ہی پڑھ لیا جائے تو سب باتیں واضح ہوجاتی ہیں کہ پاکستان کو کن اصولوں پر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا. لیاقت علی خان نے کہا تھا:
    ”جناب والا! آپ کو یاد ہوگا کہ قائداعظم اور مسلم لیگ کے دوسرے رہنمائوں نے ہمیشہ یہ واضح اور غیر مبہم اعلانات کیے کہ پاکستان کا اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا طریق زندگی اور ضابطہ اخلاق موجود ہے جو ہندوؤں سے الگ ہے۔ انہوں نے باربار اس امر پر بھی زور دیا کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ خدا اور بندہ کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم ہو جسے مملکت کے کاروبار میں کسی قسم کا دخل نہ ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں عمرانی اخلاق کے متعلق مخصوص ہدایات ہیں اور اسلام روز مرہ پیش آنے والے مسائل کے متعلق معاشرہ کے طرزِ عمل کی راہنمائی کرتا ہے۔ اسلام صرف ذاتی عقائد اور اخلاق کا نام نہیں ہے بلکہ اپنے پیروؤں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں جس کا مقصد حیات صالح ہو۔ یونانیوں کے برخلاف اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے اس کی اساس لازماً روحانی اقدار پر قائم ہے۔ ان اقدار کو اہمیت دینے اور انہیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقہ پر ہمنوائی کریں کہ ایک ایسا نیا عمرانی نظام قائم ہوجائے جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو، جن میں جمہوریت، حریت، رواداری اور عمرانی عدل شامل ہیں۔ ان کا ذکر تو میں نے تمثیلاً کیا ہے کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن اور سنت نبویﷺ پر مشتمل ہیں، محض اس پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اللہ اور اسوہ رسول ﷺ ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمہ ہیں۔ ان کے متعلق مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی فرقہ نہیں ہے جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو۔“

    جناب والا! یہ قوم زبردست کامیابیوں کی روایات رکھتی ہے۔ اس کی تاریخ کارناموں سے پھر پور ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبہ میں کامیابی کے ساتھ پورا پورا حصہ لیا ہے۔ ہماری قوم کی بہادری کے کارنامے قومی تاریخ کی زینت ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کے ارباب نظم و نسق نے ایسی روایات قائم کی ہیں جو زمانہ کی دستبرد سے اب تک محفوظ ہیں۔ اس کے تخلیقی فنون میں شعر و شاعری، فنِ تعمیر اور جمالیاتی ذوق کے لیے اسے خراج تحسین ادا کیا گیا ہے۔ روحانی عظمت کے لحاظ سے یہ قوم عدیم المثال ہے۔ اب پھر یہ قوم راہ عمل پر گامزن ہے اور اگر اسے ضروری مواقع میسر آجائیں تو وہ اپنی شاندار کامیابیوں کی سابقہ عظیم الشان روایات کو پھاند کر ان سے بہتر کام کر دکھائے گی۔ یہ قرارداد مقاصد اس ماحول کے پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے جس میں قوم کی روح پھر بیدار ہو جائے گی۔ ہم لوگوں کو قدرت نے قوم کی اس نشاۃ ثانیہ کے زبردست ہنگامہ میں حصہ لینے کے لیے خواہ وہ حصہ کتنا ہی حقیر اور غیر اہم ہو، منتخب کیا ہے اور ہم ان زبردست گوناگوں مواقع سے جو ہمیں حاصل ہیں، محو حیرت ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مواقع سے خردمندی اور دور اندیشی کے ساتھ فائدہ اٹھائیں اور مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اس اللہ کے فضل وکرم سے جس کی رحمت سے پاکستان قائد ہوا ہے، ہماری یہ کوشش ہماری برے سے بڑی توقعات سے برھ کر بار آور ہوگی۔ قوم کی نشاۃ ثانیہ کا باب ہر روز نہیں کھلتا اور ہر روز قدرت مظلوموں اور محکوموں کو نہیں ابھارتی اور انہیں شاندار مستقبل کی طرف بڑھنے کی باربار دعوت نہیں دیتی۔ روشنی کی کرنیں افق پر تحریر ہو۔ (لیاقت علی خان 12مارچ 1949)

    دوستو! پاکستان برا نہیں ہے. ہمارے اپنے ہی کپڑوں پر داغ ہیں. قصور پاکستان کا نہیں ہے، ہم خود ہی مٹی سے کھیلتے آئے ہیں. پاکستان کو قائم رکھنا ہے تو اس کی اصل اساس کو سامنے رکھ کر ہی آگے بڑھنا ہے. ورنہ ملک جہانگیر اقبال پنجابی کسی ولی افضل خان پٹھان کے دکھ درد میں شریک کیوں ہوگا؟ میر باز بلوچ کو اللہ بخش سندھی سے کیسی ہمدردی؟ اور وقاص دہلوی مہاجر کے لیے کوئی وحید عباسی ہزارے وال کیوں اپنا نوالہ چھوڑے؟ سوچیے گا ضرور، کیوں کہ سوچنے پر فی الحال کوئی حکومتی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا.
    پاکستان زندہ باد

  • متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قوم، مسئلہ کیا ہے؟ سید وجاہت

    متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قوم، مسئلہ کیا ہے؟ سید وجاہت

    سید وجاہت یہ ایم کیو ایم والے غدار ہیں، یہ دہشت گرد ہیں، یہ را کے ایجنٹ ہیں، یہ قاتلوں کے ساتھی ہیں، یہ وہ نعرے اور جملے ہیں جو اہلیان کراچی کو روز سننے کو ملتے ہیں. بتایا جاتا ہے کہ کیونکہ یہاں کے لوگ متحدہ کو سپورٹ کرتے ہیں اور متحدہ بھتہ خور، ٹارگٹ کلرز کی جماعت ہے تو ایسی جماعت کو جو بھی ووٹ دے وہ بھی مجرم ہیں. یہ تصویر کا ایک رخ ہے. کراچی سے دور رہنے والے لوگ جو کسی مخصوص اخبار کے قاری ہوں، ان کے ذہن میں اس سوال کا پیدا ہونا فطری بات ہے، لیکن کیا تصویر کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکتا ہے؟ کسی ایک فریق کی بات سن کر فیصلہ صادر کرنا انصاف ہوگا؟ یا دوسرے فریق کی بات بھی سنی جائے گی.

    چلیں ایک سوال رکھتے ہیں اہلیان کراچی کی خدمت میں ، خاص کر اردو بولنے والے لوگوں کی خدمت میں کہ وہ کیوں متحدہ جیسی ظالم جماعت کو سپورٹ کررہی ہے؟ وہ بھتہ خوری، را کے ایجنٹ، ٹارگٹ کلنگ جیسے سنگین الزامات لگائے جانے کے بعد بھی کیوں متحدہ سے الگ ہونے کو تیار نہیں، آج پورے ملک میں متحدہ کو مشکوک نظروں سے دیکھا جا رہا ہے لیکن مہاجر قوم کا حال عجیب ہے، یہ اب بھی متحدہ پر اعتماد کیے ہوئے بیٹھی ہے. کوئی تو وجہ ہوگی کہ کراچی کی باشعور، پڑھی لکھی عوام اب بھی متحدہ کے ساتھ ہے، مہاجر قومی موومنٹ، پاک سرزمین پارٹی یا کسی اور جماعت پر یہ اعتماد نہیں کررہی، وجہ کیا ہے؟ کراچی کے مسائل کا حل متحدہ کا خاتمہ اور طاقت کا استعمال نہیں ہے، اگر آپ متحدہ کو ختم کردیں، الطاف حسین کے نام کو بھی شہر سے مٹا دیں، مکمل پابندی لگا دیں تو کیا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں بلکہ کوئی اور الطاف پیدا ہوگا، کوئی اور متحدہ معرض وجود میں آجائے گی. یہ وہ حقیقت ہے جس کا ادراک اہلیان کراچی کو بخوبی ہے، اس تصویر کے دوسرے رخ سے شہر کراچی سے باہر رہنے والے شاید واقف نہ ہوں لیکن یہاں کا ہرباشعور شہری اس حقیقت کو جانتا ہے۔

    کراچی کا اصل مسئلہ متحدہ نہیں بلکہ وہ محرومیاں ہیں جن کو بنیاد بنا کر متحدہ سیاست کرتی ہے اور کامیاب ہوتی ہے. آپ ان محرومیوں کو ختم کریں، انصاف فراہم کریں، تعصب پرستی کا خاتمہ کریں، متحدہ خود بخود ختم ہوجائے گی. سب سے پہلے تو اس کوٹہ سسٹم کو ختم کریں، یہ کوٹہ سسٹم جب تک چلتا رہےگا مسائل حل نہیں ہوسکتے. یہ عجیب بات ہے کہ اہلیان شہر کو محروم کرکے دوسرے شہروں کے افراد کو نوکریوں سے نوازا جائے، کراچی پولیس میں موجود کتنے ایس ایچ او ہیں جن کا تعلق کراچی سے ہے، جو یہاں کے مقامی ہیں؟ شہر کراچی میں کتنے سرکاری ادارے ہیں جہاں میرٹ کا قتل عام ہوتا ہے اور شہر کراچی کے تعلیم یافتہ باصلاحیت نوجوانوں کو محروم کرکے دوسرے شہروں سے کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر افراد بھرتی کیے جاتے ہیں.

    یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ متحدہ نے تیس سالہ دور اقتدار میں کوٹہ سسٹم ختم کرنے میں کیا کردار ادا کیا اور کیا کوششیں کی اور وہ کس حد تک ان کوششیوں میں کامیاب ہوئی؟ جواب تو نفی میں ہے لیکن کچھ بھی ہو، ان محرومیوں اور اس ظلم کے خلاف متحدہ کے علاوہ کوئی پارٹی آواز نہیں اٹھاتی تو ظاہر ہے اب اردو بولنے والے ان پر اعتماد نہ کریں تو پھر دوسرا راستہ ان کے پاس کون سا ہے؟ دوسری جماعتیں ان کے جائز حقوق کی بات کریں اور اخلاص کے ساتھ محنت کرکے مہاجر قوم کو یقین دلائیں کہ وہ ان کے ساتھ مخلص ہے تو امید ہے کہ یہ قوم کسی دوسری جماعت پر اعتماد کرلے گی. لیکن یہاں اعتماد میں لینے کی بات تو دور اس ظلم کے خلاف کوئی آواز تک بلند نہیں کرتا، یعنی اس ظلم کو ظلم ہی نہیں سمجھا جاتا.

    اہلیان کراچی کی نفسیات سمجھے بغیر تصویر کا ایک رخ سامنے رکھ کر کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ شہر کراچی میں حقیقی امن نہیں لاسکتا. آپ پہلے محرومیاں ختم کریں، اس قوم کے جائز حقوق انہیں دیں، یہ کرنے سے ہی شہر میں امن قائم ہوسکتا ہے اور کراچی میں امن و سکون پورے ملک کے مفاد میں ہے. اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مسائل حل کیے بغیر متحدہ ختم ہوجائے تو امن قائم ہوجائے گا اور آپریشن کے ذریعے پائیدار پرامن کراچی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا تو وہ شخص سنگین غلط فہمی میں مبتلا ہے۔

  • فاروق ستار اور ندیم نصرت کی فرینڈلی فائٹنگ – ابو انصار علی

    فاروق ستار اور ندیم نصرت کی فرینڈلی فائٹنگ – ابو انصار علی

    متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے خود کو سربراہ کہنے والے فاروق ستار اور پارٹی کے وہ کنوینر یعنیٰ ندیم نصرت جنہیں گزشتہ دنوں لندن میں مقیم دیگر تین ساتھیوں سمیت پارٹی پالیسی سے اختلاف برتنے پر باہر کردیا گیا تھا، ان دونوں پارٹی رہنمائوں میں لندن اور پاکستان ایم کیوایم کے عنوان سے دلچسپ جنگ چل رہی ہے، اور اس دوران حکومت، سیکورٹی ادارے، سیاسی و مذہبی جماعتیں خاص طور پر مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی گو مگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں اور فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ کس پر یقین کیا جائے اور کس پر نہیں؟

    کراچی کی سیاست پر اگر آپ کی تھوڑی بھی نظر ہے تو اس بات سے انکار ممکن ہی نہیں کہ ایم کیوا یم کے بننے سے لے کر 22 اگست 2016ء تک ’بانی ایم کیو ایم‘ سے جدا پارٹی کا تصور تک ممکن نہ تھا، سات سمندر پار بیٹھ کر بھی بانی ایم کیو ایم کی پارٹی پر گرفت کا ان کے مخالف بھی اعتراف کرتے تھے، اس سب کے باوجود پارٹی کے کئی رہنما ان سے دلی اختلاف رکھتے تھے، کئی خوفزدہ تھے اور کئی وفادار اور ہم نوا تھے۔ بانی سے اختلاف رکھنے والی قیادت کا زیادہ تر حصہ اب پاک سرزمین پارٹی کی‌صورت اختیار کر چکا ہے۔

    22اگست کی بانی ایم کیو ایم کی تقریر جتنی صاف و شفاف الفاظ سے مزین تھی، اس کے اگلے روز فاروق ستار کی پریس کانفرنس نے اتنا ہی زیادہ ابہام پیدا کردیا تھا، لیکن پاکستان بھر میں سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ مذہبی جماعتوں نے بھی اسے تازہ ہوا کا جھونکا اور آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا، سمجھ لیا اورایم کیوایم کی پاکستان قیادت کے خلاف کوئی بڑی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی۔ فاروق ستار نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو ان کے نام سے رجسٹرڈ جماعت قرار دیتے ہوئے کئی ایک فیصلے کیے، جن میں بانی ایم کیو ایم کی مذمت اور لاتعلقی کی ساتھ ان کا نام آئین سے نکالنے اور پارٹی پرچم میں ترمیم شامل ہے، بعد ازاں قومی اور سندھ اسمبلی میں مذمتی قرادادوں تک پھیلا دیا گیا۔

    فاروق ستار نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بانی ایم کیو ایم کے کئی متنازعہ بیانات پر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ عوام انہیں معاف کرتے آئے ہیں مگر پاکستان مخالف بات کرنے اور نعرے لگانے کے عمل کو ہرگز پذیرائی نہیں ملے گی، اس سوچ کا پارٹی اراکین اسمبلی اور بڑی تعداد میں پارٹی کارکنوں نے دیا، جو سمجھ گئے تھے کہ بانی ایم کیوایم کے ساتھ اب کھڑے ہونے کا نقصان بہت شدید ہوگا، یہی وجہ ہے کہ پارٹی بانی کی ایک کال پر شہر سنسان بننے والی پارٹی نے انہیں مکھن سے بال کی باہر نکال پھینکا۔

    متحدہ قومی موومنٹ کے ایم پی ایز نے سندھ اسمبلی میں اپنے ہی قائد کے خلاف اور ملک کے ساتھ وابستگی کے حوالے سے جن جذبات کا اظہار کیا، اس پر یقینا ملک بھر کی سیاسی و مذہبی اور عسکری قیادت میں انہیں مزید موقع دیے جانے کا تاثر ابھرا ہے، کیوں کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک ڈیڑھ کروڑ سےزائد کی مہاجر آبادی کو قابو کرنے کا دم خم بھی صرف اس ہی جماعت میں ہے، تاحال دور دور تک کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو کراچی اور حیدر آباد کی پیچیدہ سیاسی اور سماجی صورتحال کو ویسے کنٹرول میں رکھ سکے جیسے گزشتہ کئی برس سے رکھی جاتی رہی ہے، جس سے سیاسی قیادت کے ساتھ کئی اور طبقات نے بھی فائدہ سمیٹا۔

    اب جبکہ ندیم نصرت نے پارٹی کے بانی کی توثیق کے بعد اراکین اسمبلی کو نشستیں چھوڑنے اور ایم این ایز اور ایم پی ایز کومستعفیٰ ہونے کا کہتے ہوئے تنظیم اور شعبہ جات تحلیل کر دیے ہیں، جس پر فاروق ستار جو خود کو پارٹی کا سربراہ کہتے ہیں، نے کسی کے بھی استعفیٰ نہ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پارٹی کی قیادت اور کارکن کیا کریں گے؟ کس کی بات کو درست مانیں گے؟ کس کا ساتھ دیں گے؟ پارٹی قیادت کی اس سیاسی رسہ کشی کا مطلب کیا ہے؟ قراردادوں کے بعد کیا بانی ایم کیو ایم کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟ نہیں تو لندن قیادت خوف زدہ کیوں ہے؟ یا پھر دونوں رہنمائوں کے بیانات اور بانی کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا اشارہ ہے؟ شہر کی سیاست کیا ر خ بدل رہی ہے؟

    میرے خیال سے ملک سیاسی صورتحال، بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی اور لندن میں منی لانڈرنگ کیس میں فردجرم عائد کیے جانے کی اطلاع کے بعد آخری دو سوالات کا جواب ہاں میں لگتا ہے، اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی بڑے سیاسی تجزیے کی ہرگز ضرورت نہیں، بس کڑیاں ملائیں تو بات سمجھ آجاتی ہے، لیکن اس سے پہلے بس اتنا معلوم ہونا شاید ضروری ہو کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا اصل والی وارث کون ہے؟ جس کا جواب شاید الیکشن کمیشن پاکستان میں پارٹی کس کے نام سے رجسٹرڈ ہے کہ عنوان سے مل جائے، جہاں پارٹی نمبر 123 متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نہیں، کنوینر ندیم نصرت ہیں۔ یعنی لندن اور پاکستان کی قیادت میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، وہ سب کچھ فرینڈلی فائٹنگ ہے۔

  • ایم کیوایم ایک غیرمنظم جماعت – شہیر شجاع

    ایم کیوایم ایک غیرمنظم جماعت – شہیر شجاع

    ملکی سطح کی سیاست ہو یا محض لسانی سیاست۔ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ فی الوقت جتنی بھی جماعتیں اقتدار میں ہیں وہ کوئی نہ کوئی لسانی عصبیت رکھتی ہیں سوائے تحریک انصآف اور جماعت اسلامی کے۔ میری اس رائے پر اعتراض کیا جاسکتا ہے مگر فی الحال ہمارا موضوع ایم کیو ایم اور اس کی سیاسی حرکیات یا تنظیم پر نظر ڈالنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کی سب سے منظم جماعت ہے۔ اس تاثر کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ اول ان کے رہنما اپنی پارٹی کے مخلص ہیں اور پارٹی کے آئین پر آخری سانس تک چلنے والے محسوس ہوتے ہیں۔ دوم : ایک اعلان ہوتا ہے اور کراچی سارا سمندر بن کر امڈ آتا ہے۔ مزید وجوہات بھی ہو سکتی ہیں مگر عموما یہی دو عنصر ہیں جو ذہن پر اثر انداز ہوتے نظر آتے ہیں ۔

    کیا کبھی غور کیا گیا کہ واقعی یہ دونوں باتیں کسی بھی جماعت کے منظم کہلانے پر دال ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی سب سے زیادہ غیرمنظم جماعت ایم کیو ایم ہے کیونکہ ایم کیوایم کا تنظیم ساز ادارہ لندن میں بیٹھا ہے، وہی ساری حرکیات پر نظر رکھتا ہے اور احکامات جاری کرتا ہے۔ اُس ادارے کے تابع ایک لایعنی سا ادارہ پاکستان رابطہ کمیٹی کے نام سے قائم ہے، جس کے سرکردہ رہنماوں کو کبھی ساری عوام کے سامنے مرغا بنا دیا جاتا ہے، کبھی تھپڑ رسید کروائے جاتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں یہ خیال راسخ کروایا جاتا ہے کہ تم ہمارے تابع ہو اور ہمیشہ رہو گے، کبھی سر اٹھانے کی کوشش نہ کرنا۔ سو پاکستان کا یہ متابع ِلندن ادارہ اکثر ایسے احکامات سے بھی لاعلم رہتا ہے، جو وہاں سے کسی بھی کارکن یا کارکنوں کے گروپ کو دیے جاتے ہیں۔ یہ وہ گروپس ہیں جنہیں لندن والے نائن زیرو کو زیر رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی بہت بڑی واردات انجام دینی ہو تو جنوبی افریقہ، دبئی، بنکاک و دیگر ممالک میں لندن کمیٹی کے تابع فرمانبرداروں کو استعمال کیا جاتا ہے جو وہاں سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، اپنا کام انجام دیتے ہیں اور رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد نائن زیرو کو علم ہوتا ہے کہ ارے یہ تو ایم کیوایم کے نام پر کام ہوگیا۔ اور پھر عجیب کیفیت کے زیر اثر نائن زیرو اس امر پر مجبور ہوتا ہے کہ اس دھبے کو دھوئے کہ اس کے چھینٹے اسی کو ناپاک کر رہے ہوتے ہیں۔ یقینا بہت سے امور باہمی مشاورت سے بھی انجام پاتے ہوں گے مگر اکثر عملا یہی صورتحال سامنے آتی ہے۔

    اس ساری غیریقیینی صورتحال میں رابطہ کمیٹی پاکستان یا نائن زیرو کس طرح سے اپنی سیاسی حرکیات کو تنظیمی طور پر درپیش امور پر زیراستعمال لائے؟ یہ یقینا نہایت ہی مشکل و کٹھن عمل ہے جو اب تک پاکستان رابطہ کمیٹی انجام دیتی آ رہی ہے۔ نتیجتاً بہت سے عناصر اپنے ذاتی فوائد اکھٹا کرنے کے لیے ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم کو نہایت ہی محفوظ مقام سمجھ کر اس میں شامل ہوتے رہے ہیں خواہ وہ کارکن کی صورت میں ہو یا لیڈر کی صورت میں۔ اوپر سے نیچے تک ایسے لوگ ایم کیو ایم میں موجود ہیں جن کو مہاجر تحریک یا الطاف حسین سے کوئی غرض نہیں، وہ میدان میں آکر الطاف بھائی کا نعرہ لگاتے ہیں اور زیر زمین اپنے ذاتی امور کی انجام دہی میں مشغول رہتے ہیں۔ کارکن سطح پر ایک مثال دوں گا کہ شیعہ سنی لڑائی کا ایک محفوظ پلیٹ فارم ایم کیو ایم ہے اور اس میں ایم کیو ایم کے مختلف لیڈرز شامل ہیں۔ ایم کیو ایم کے یونٹس و سیکٹرز کو بھی تب اس بات کا علم ہوتا ہے جب ایسے کارکن پولیس کی گرفت میں آجاتے ہیں اور پھر باقاعدہ انکشاف ہوتا ہے یہ تو لشکر جھنگوی کے لیے کام کر رہا تھا اور فلاں تو سپاہ محمد کا کارکن تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح مالی فوائد سیمٹنے والے بہت سے عناصر کراچی کے بدنام زمانہ علاقوں لانڈھی، کورنگی، ملیر کے علاقوں سے نکل کر اب کلفٹن و ڈیفینس میں کروڑوں کی پراپرٹیز کے مالک ہیں۔ کیسی تنظیم ہے یہ؟ کیسا منظم سیاسی ادارہ ہے؟ جس کے راہنما آپس میں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ محض ایک خوف کی سی کیفیت ہے اور چلتے چلے جا رہے ہیں ۔

    ایم کیوایم منظم ادارہ نہیں بلکہ خو ف کا مجموعہ ہے خواہ وہ اپنے کارکنان و ذمہ داران کے لیے ہو یا جہاں اس کا سایہ پڑ جائے. اس کے باوجود کراچی کی مہاجر عصبیت مجبور ہے۔ بھٹو کے کوٹہ سسٹم کے بعد مہاجروں کے پاس کوئی ایسا دروازہ نہیں جہاں وہ اپنا مقدمہ پیش کرسکیں۔ ان کی آواز صرف ایم کیو ایم ہی بنتی محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کا مینڈیٹ اب تک کوئی اور حاصل نہ کرسکا۔ جماعت اسلامی نے خوب ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا مگر مہاجروں کے سامنے ایسے اسباب موجود ہیں جنھوں نے کبھی بھی ان کے دل ان کی جانب مائل نہیں ہونے دیے۔ ایک عرصے کے بعد عمران خان نے کراچی کا رخ کیا تو کراچی نے ایک نئی سانس لی اور اس کی گرماہٹ پورے پاکستان نے محسوس کی مگر افسوس کہ تحریک انصاف بھی کراچی کو اپنا نہ بنا سکی، اور ایک مرتبہ پھر مینڈیٹ ایم کیو ایم کے پاس محفوظ رہا۔

    اس سرسری خاکے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر غیب سے مدد ہوئی ہے، اور خود ایم کیو ایم اپنی روش تبدیل اور اپنی سیاست کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی جانب مائل نظر آتی ہے۔ مگر ہر طرف غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ یہ وقت، ریاست کے اعصاب کا امتحان ہے کہ وہ اس موقع کو ضائع نہ کرے اور ایم کیو ایم کے ان لوگوں کو سپورٹ کرے جنہوں نے تبدیلی کی جانب قدم بڑھایا ہے۔ یہ قدم مزید مضبوط ہو سکتا ہے، اگر ان کی پیٹھ تھپتھپائی جائے، اور سیکیورٹی کا احساس دلایا جائے۔ انہیں ریاست اپنی آغوش میں لے لے بصورت دیگر لندن والے ہاتھ دراز ہونے کے امکانات ہیں۔ لندن والوں کو کمزور کرنے کے لیے یہاں والوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔

    مینڈیٹ والی جماعت کو ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ بہت سے بھڑکتے لاووں کو الائو دینے کے مترادف ہوگا۔ اس کا یہی حل ہے کہ مثبت راستہ اپنایا جائے۔ اگر یہ لوگ واقعتا سچے ہوئے تو آگے جا کر لندن سے مکمل طور پر اپنے آپ کو علیحدہ کر لیں گے، ورنہ خود ہی سارا معاملہ بےنقاب ہوجائے گا اور ریاست پر کوئی حرف نہیں آئے گا، اور یہ اپنی موت آپ ہی مرجائیں گے۔

  • مہاجر کون ہیں-جاوید چوہدری

    مہاجر کون ہیں-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    ابوالحسن نغمی ہندوستان کے شہر سیتا پور میں پیدا ہوئے‘ سیتا پور لکھنؤ ڈویژن کا خوبصورت شہر ہے‘ نغمی صاحب کے جد امجد سید سلطان شاہ اکبر اعظم کے دور میں بہار میں آباد ہوئے‘ جہانگیر کے زمانے میں انتقال فرمایا اور پٹنہ کے قریب مدفون ہوئے۔ نغمی صاحب 19 سال کی عمر میں مہاجر ہو کر لاہور آ گئے‘ یہ ریڈیو پاکستان میں ہونہار کے نام سے بچوں کا پروگرام کرتے تھے اور روزنامہ امروز میں حالات حاضرہ پر قطعہ لکھتے تھے‘ ملک کا بچہ بچہ بھائی جان نغمی کا دیوانہ تھا جب کہ جوان اور بوڑھے ان کے قطعات کے متوالے ہوتے تھے لیکن پھر یہ 1972ء میں ایک بار پھر مہاجر ہو گئے‘ یہ اپنے چھ بچوں سمیت امریکا شفٹ ہو گئے‘ وائس آف امریکا میں ملازمت کی اور باقی زندگی واشنگٹن میں گزار دی ۔

    مجھے ابوالحسن نغمی صاحب کی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ یہ کمال خوبصورت نثر لکھتے ہیں‘ میں ان کے خوشبو دار لفظوں اور دلفریب فقروں کے سحر میں گرفتار ہوں‘ ابوالحسن نغمی اور ان کی اہلیہ یاسمین نغمی نے لکھنؤ کی تہذیب میں پرورش پائی تھی اور لکھنؤ کی تہذیب کیا تھی؟ یہ سمجھنے کے لیے اتنا جاننا کافی ہے‘ ہندوستان کے نواب اپنے بچوں کو شائستگی‘ تہذیب‘ ادب اور فنون لطیفہ سکھانے کے لیے طوائفوں کے پاس بھجوا دیتے تھے‘ گویا لکھنؤ کی طوائفیں بھی تہذیب اور ادب کی یونیورسٹیاں ہوتی تھیں‘ آپ شرفاء کی شرافت اور شائستگی کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ نغمی صاحب نے لکھنوی گھرانوں کی شرم و حیاء اور شرافت کے بے شمار قصے بیان کیے ہیں لیکن ایک واقعے نے مجھے حیران کر دیا‘ نغمی صاحب کا فرمانا تھا‘ لکھنؤ سے چھیالیس میل کے فاصلے پر خیر آباد کا قصبہ تھا‘ خیر آباد کے محلے قضیارہ میں کرمانی سید رہتے تھے۔

    ریاض خیرآبادی اسی محلے کے باسی تھے‘ ان کی بھتیجی وکالت فاطمہ مدن دادی کہلاتی تھیں‘ ریاض خیر آبادی کی صاحبزادی شمع خیر آبادی ایک دن مدن دادی کے پاس بیٹھی تھیں‘ ان کا شیر خوار بیٹا ان کی گود میں کھیل رہا تھا‘ بچے نے توتلی زبان سے کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے ماں کو بچے پر پیار آ گیا‘ اس نے بچے کا منہ چوم لیا‘ مدن دادی تڑپ کر بولیں’’ ہا! بدتمیز تو کیسی بے شرم ہے تو نے میرے سامنے اپنے بچے کا منہ چوم لیا‘‘ شمع خیر آبادی شرم سے پانی پانی ہو گئیں‘ بچے کو گود سے اتارا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ چھپا لیا‘ لکھنؤ میں شرم و حیاء کے یہ پیمانے تھے‘ لوگ اپنے بیٹے کا منہ چومنا بھی بے حیائی سمجھتے تھے‘ لکھنؤ میں بچے اپنے جوان والد کو ابا نہیں کہتے تھے‘ بھائی جان‘ بھائی صاحب یا بھیا کہتے تھے‘ جوان ماں کو اماں یا امی کہنے کا رواج بھی نہیں تھا‘ ماں جب تک بوڑھی نہیں ہو جاتی تھی وہ باجی‘ آپا یا آپی کہلاتی تھی‘ دولہا شادی کے بعد کئی سال تک اس کمرے‘ دلان حتیٰ کہ اس چھت کے نیچے سے بھی نہیں گزرتا تھا ۔

    جس پر اس کی دلہن بزرگوں کے درمیان گھونگھٹ نکال کر سر جھکا کر بیٹھی ہوتی تھی‘ نغمی صاحب نے اپنی ازدواجی زندگی کے ابتدائی دنوں کے تین حیران کن واقعات تحریر کیے‘ ان کا فرمانا تھا‘ ان کی خواب گاہ چھت پر تھی اور یہ ممکن نہیں تھا ان کی دلہن ساس‘ سسر‘ دیور‘ نندوں اور ملازموں کی موجودگی میں آنگن سے گزرکر بالائی منزل پر آ جائے ‘ بیگم گھر کے تمام لوگوں کے سونے کا انتظار کرتی تھی‘ سسرال کے لوگ جب سو جاتے تھے تو بیگم پہلے پیروں کے زیور اتارتی تھی اور پھر دبے پاؤں چوروں کی طرح آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ جاتی تھی‘ نغمی صاحب نے لکھا‘ میں لاہور میں ملازمت کرتا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹی کی نعمت سے نوازا‘ میں چھٹی پر گھر گیا تو بچی چلنا سیکھ چکی تھی۔

    میں بزرگوں کے درمیان بیٹھا تھا‘ میرا بھانجا نیئر بیٹی کو اٹھا کر میرے قریب لایا اور مجھے سرگوشی میں بتایا ’’یہ آپ کی بیٹی تاج ہے‘‘ بچی کو اٹھانا اور پیار کرنا تو دور کی بات تھی مجھے اتنی ہمت نہیں ہوئی میں بزرگوں کی موجودگی میں اپنی بیٹی کی طرف دیکھ بھی سکوں‘ میں نے جب کمرے میں جا کر اپنی بیٹی کو کلیجے سے لگایا تو وہ حیران ہو کر اپنی ماں سے پوچھنے لگی ’’یہ آدمی کون ہے‘‘ نغمی صاحب کا کہنا تھا‘ میں چھ بچوں کا باپ بن گیا لیکن شرم و حیاء کی وجہ سے بچے مجھے ابا نہیں کہتے تھے یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی اچھے میاں نے ایک دن اعلان کر دیا‘ ہمارے خاندان کے تمام بچے آج سے بھائی جان کو باباجان کہیں گے اور یوں شادی کے دس بارہ سال بعد یہ مسئلہ حل ہوا جب کہ بچے ماں کو اپی کہتے تھے‘ یہ آپی کی بگڑی ہوئی شکل تھی‘ میرے بچے اور میرے بچوں کے بچے آج بھی انھیں اپی کہتے ہیں۔

    یہ ہیں وہ لوگ جو ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور مہاجر کہلائے‘ ہمیں ماننا ہو گا یہ لوگ تعلیم‘ شائستگی‘ تہذیب اور تمدن میں ہم سے بہت آگے تھے‘ یہ کھیرا بھی اتنی شائستگی سے کھاتے تھے کہ کھیرا خود کو کھیرا صاحب سمجھنے لگتا تھا‘یہ کتے کو کتاکہنا زبان کی توہین سمجھتے تھے‘ یہ اونچی آواز میں بات کرنے والوں کو گنوار کہتے تھے‘آپ کے لیے شاید یہ انکشاف ہو اردو میں گھٹیا کا مطلب سور کا بچہ ہوتا ہے‘ یہ لوگ اتنے شائستہ تھے کہ یہ سور کے بچے کو بھی سور کا بچہ نہیں کہتے تھے گھٹیا کہتے تھے۔ ڈاکٹر اجمل میرے دوست ہیں‘ یہ جوانی میں اسلام آباد کے اسسٹنٹ کمشنر تھے‘ یہ ایک بار جناب افتخار عارف کے ساتھ کسی صاحب زبان کے گھر کھانے کے لیے گئے‘ میزبانوں نے کھانے کا پرتکلف اہتمام کر رکھا تھا‘ خاتون خانہ نے کھانے کے دوران مہمانوں سے تکلفاً پوچھ لیا ’’آپ کو مزید کوئی چیز درکارتو نہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب سادہ سے پنجابی ہیں‘ یہ پٹاخ سے بولے ’’آپ کے پاس اچار ہو گا‘‘ یہ سن کر میزبانوں کے رنگ سرخ ہو گئے۔

    خاتون نے کچن سے اچار تو لا دیا لیکن وہ کھانے کے دوران ڈسٹرب رہی‘ ڈاکٹر اجمل نے واپسی پر افتخار عارف صاحب سے پوچھا ’’یہ لوگ اچار مانگنے پراتنا برا کیوں منا گئے تھے‘‘ افتخار عارف صاحب نے فرمایا ’’بیٹا ہمارے علاقے میں جب مہمان اچار مانگ لے تو اس کا مطلب ہوتا ہے اسے کھانا پسند نہیں آیا‘‘ میں جب بہاولپور میں پڑھتا تھا تو مجھے میرے دوست رانا شہزاد ایک بار کسی صاحب کے گھر لے گئے‘ یہ صاحب صوبہ بہار کے مہاجر تھے‘ یہ روز دفتر سے آنے کے بعد غسل کرتے تھے‘ سفید استری شدہ پائجامہ اور کرتہ پہنتے تھے‘ خوشبو لگاتے تھے اور اپنی بیٹھک میں بیٹھ جاتے تھے‘ محلے کے کسی شخص نے انھیں کبھی رف حالت میں نہیں دیکھا‘ میں نے ان کے سامنے غلطی سے رانا شہزاد کو اوئے کہہ دیا‘ ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا‘ ماتھے پر پسینہ آگیا اور غصے سے ان کے ہاتھ کانپنے لگے‘ میں ڈر گیا‘ وہ دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔

    ذرا سے نارمل ہوئے تو بس اتنا کہا ’’دوستی میں دوستوں کی عزت شرط ہوتی ہے‘‘ میں نے اس کے بعد زندگی میں کبھی کسی دوست کو اوئے نہیں کہا‘ شکیل عادل زادہ صاحب بھی مہاجر ہیں‘ یہ میرے بزرگ‘ مہربان اور استاد ہیں‘ پاکستان میں اس وقت ان سے بڑا اردو دان کوئی نہیں‘ گلزار صاحب جیسا شخص بھی ان کے قدموں میں بیٹھتا ہے‘ میں ان کی شائستگی دیکھ کر اکثر محسوس کرتا ہوں یہ اگر کبھی گالی دیں گے تو گالی کو بھی اپنے اوپر فخر محسوس ہونے لگے گا‘ یہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں‘ یہ زندگی بھر ’’سب رنگ‘‘ کے نام سے ملک کا مقبول ترین ڈائجسٹ شایع کرتے رہے‘ میں نے آج تک ان کے منہ سے کوئی ناشائستہ لفظ نہیں سنا‘ غیبت تو دور یہ کسی کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولتے‘ یہ بھی ہجرت کر کے پاکستان تشریف لائے تھے اور انھوں نے پوری زندگی شائستگی کی تعلیم و تربیت میں گزار دی‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں شکیل عادل زادہ‘ ابوالحسن نغمی اور افتخار عارف جیسے لوگوں نے پاکستان بنانے اور چلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یہ لوگ جب تک ہماری سول سروس میں شامل رہے یہ ملک اس وقت تک ترقی کرتا رہا لیکن جب مقامی لوگوں نے ان کی جگہ لی تو ملک تباہ ہو گیا اور ہمارے ادارے ڈھلوان پر لڑھکنے لگے۔

    یہ تہذیب اور شائستگی کے پیکر اگر مہاجر ہیں تو پھر الطاف حسین کون ہے؟ یہ کن لوگوں کا لیڈر ہے؟ یہ کس کمیونٹی کو مہاجرکمیونٹی اور کن مہاجروں کو پاکستان بنانے والوں کی اولاد کہتا ہے؟ اگر شکیل عادل زادہ‘ ابوالحسن نغمی اور افتخار عارف مہاجر ہیں تو پھر الطاف حسین کے ٹنڈے‘ کالے‘ مادھوری‘پگلا‘عرفی‘بھورا‘ملا‘ سلو‘ کاکا‘ٹوپی‘ چھوٹا‘ کانا‘ پپن‘ درندہ ‘ ناک چھپٹا‘ ڈینٹر اورچنا مولوی کون ہیں اور اگر اوئے کا لفظ سن کر اور اچار مانگنے پر سرخ ہو جانے والے لوگ مہاجر ہیں تو پھر مخالفوں کے لیے بوری کا ماپ لینے اور ’’ٹھوک دیں گے‘‘ جیسی دھمکیاں دینے والے لوگ کون ہیں‘ میرا دل تو نہیں مانتا قائداعظم کے شہر میں پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے والے لوگ مہاجر ہو سکتے ہیں۔

    کیا آپ کا دل مانتا ہے؟جواب دیجیے۔

  • سندھ میں کوٹہ سسٹم نرالا کیوں؟ فراز بیگ

    سندھ میں کوٹہ سسٹم نرالا کیوں؟ فراز بیگ

    کوٹہ سسٹم ختم کرو اور محصور پاکستانیوں کی واپسی، یہ وہ نعرے تھے جو پہلے پہل کراچی اور حیدرآباد کی دیواروں پر لکھے گئے۔ ایم کیو ایم نے ان جیسے نعروں کے ساتھ سیاست کا آغاز کیا تھا۔ آج پینتیس سال بعد بھی یہ مسائل اپنی جگہ موجود کیوں ہیں؟ یہ ایک الگ جواب کا محتاج ہے۔ فی الحال ہم کوٹہ سسٹم کی بات کرتے ہیں کہ یہ ہے کیا اور اس سے متعلق مسائل کیا ہوتے ہیں۔ اور اس سے بھی پہلے کہ ہم پاکستان کے کوٹہ سسٹم کی بات کریں، ذرا دیکھتے ہیں کہ باقی دنیا میں کیا اس کی کوئی مثال ہے۔

    پہلی جنگ عظیم کے بعد جب یورپ سے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ بڑھا تو امریکہ میں یہ قانون منظور کیا گیا کہ مہاجرین کی صرف ایک مخصوص تعداد کو ہی شہریت دی جائے گی۔ امریکہ جیسے ملک میں، جسے موجودہ شکل میں بسایا ہی مہاجرین نے تھا، ایسا قانون موجب حیرت ہے اور اس وقت بھی ہوا ہوگا لیکن یہ قانون نہ صرف منظور کیا گیا بلکہ کسی نہ کسی شکل میں ابھی تک موجود ہے۔

    اسی طرح ہر ملک میں یونیورسٹیاں کھلاڑیوں، مقرروں اور دوسرے ایسے باصلاحیت لوگوں کے لیے ایک مخصوص کوٹہ رکھتی ہیں جو اگر میرٹ پر داخلہ لیں تو پڑھائی میں کمزور ہونے کی وجہ سے ان کو داخلہ نہیں ملے گا۔ ادارے کو ان کی موجودگی سے دوسرے سماجی فوائد ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہماری اپنی اسمبلی میں بھی عورتوں اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ایک کوٹہ ہی تو ہے.

    قیام پاکستان کے وقت بھی یہ بات محسوس کی گئی کہ کچھ علاقوں کے لوگ تعلیمی قابلیت اور ملازمتوں میں دوسروں سے پیچھے ہیں۔ ظاہر ہے پچھلے ڈھائی سو سال سے انگریز نے جو نظام ہندوستانی معاشرے کو تقسیم رکھنے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ سمیٹنے کے لیے بنا رکھا تھا اس کے اثرات راتوں رات تو ختم نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لیے پاکستان میں کوٹہ سسٹم کی بنیاد رکھی گئی۔

    یہاں تک تو بات صحیح ہے اور سمجھ میں بھی آتی ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی طبقہ کو محروم نہ رکھے۔ مگر پاکستان میں جس طرح کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا وہ اپنی بنیاد میں ایک خرابی کی حیثیت رکھتا ہے۔ باقی جگہ کوٹہ سسٹم ایک استثنیٰ کی حیثیت رکھتا ہے اور میرٹ قانون، ہمارے ہاں میرٹ کو استثنیٰ کا درجہ حاصل ہے کیونکہ محض 7.5 فیصد نوکریاں پبلک سروس کمیشن میں میرٹ پر دی جاتی ہیں (شروع میں یہ بیس فیصد تھا، باقی سب کوٹے کی بھرتیاں ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک لڑکا جو سندھ سے تعلق رکھتا ہے بھلے وہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو اگر کوٹہ ختم ہوگیا ہے تو اس کو نوکری نہیں مل سکتی۔ اور بلوچستان کا کوئی لڑکا بھلے اتنا قابل نہ ہو اس کے لیے نوکری موجود ہے۔

    جس مسئلے کی طرف ایم کیو ایم بار بار اشارہ کرتی ہے، (مگر وفاقی و صوبائی حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود جس کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی!) وہ یہ ہے کہ سندھ کا کوٹہ سسٹم پورے ملک سے اور بھی نرالا ہے۔ پنجاب اپنے حجم اور جنوبی، وسطی اورشمالی کی واضح تقسیم کے باوجود پورے کا پورا ایک وحدت ہے مگر سندھ میں دیہی اور شہری کی ایک عجیب تقسیم کر دی گئی ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد جب نئی کوٹہ اسکیم 1973ء میں سامنے آئی تو اس میں سندھ میں یہ شہری اور دیہی تقسیم بھی کر دی گئی اور آج تک موجود ہے۔ کے پی ٹی جیسا ادارہ جس کے نام میں ‘کراچی’ ہے وہاں پر بھرتیوں کے لیے بنیاد میرٹ کے جائے پیدائش ہے۔

    پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس طرح کے قوانین حالات کو دیکھ کر بنائے جاتے ہیں اور حالات بدلنے پر ان کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ کوٹہ سسٹم کے آغاز میں اس کے جو بھی مقاصد تھے وہ اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ اس کے باوجود ان لوگوں کی فلاح کے لیے کچھ نہیں کیا گیا جن کے لیے یہ بنایا گیا تھا۔ اس کی مثال اس سے دی جا سکتی ہے کہ 2013ء میں اس قانون میں مزید 20 سال کی توسیع کر دی گئی۔ ایم کیو ایم نے علامتی ہی سہی اس توسیع کی مخالفت کی۔ قائمہ کمیٹی کے باقی اراکین نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جس کے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ اپنے مقاصد کو پورا کررہا ہے۔ یہ ایک غیر منطقی بات ہے کیونکہ اگر اس سے محروم طبقات کو پچھلے ستر سال میں کوئی فائدہ ہو رہا ہوتا تو اب اتنے عرصے بعد ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے اس قانون کی ضرورت نہ ہوتی۔ دوسرا مطلب اس رضامندی کا سیاسی ہو سکتا ہے کیونکہ کسی بھی ایسی برسوں سے چلی آرہی چیز کو چھیڑنے کا مطلب سیاسی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

    پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے یہاں مسائل پر آواز عموماً سیاسی فائدہ کے لیے اٹھائی جاتی ہے، ان کو حل کرانے کے لیے نہیں (حل کروا دیے تو سیاسی فائدہ ختم ہو سکتا ہے) اور کوٹہ سسٹم ان تمام مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر آواز ایم کیو ایم نے ہی سب سے زیادہ اٹھائی ہے مگر بار بار حکومتوں کا حصہ رہنے کے باوجود اس مسئلے کے حل میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ ان کے حامی کہتے ہیں کہ ان کو موقع نہیں دیا گیا اور نہ ان کے پاس اکثریت ہے۔ ان کے مخالف کہتے ہیں کہ اگر وہ ان مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہیں تو راستہ چھوڑ دیں تاکہ ممکن ہے کوئی اور یہ کام کر لے۔

    ان سب سے قطع نظر، یہ بات اپنی جگہ موجود ہے کہ پرائیویٹ کمپنیاں اگر اس طرح بھرتیاں کرنی شروع کر دیں جس میں جائے پیدائش، اہلیت سے زیادہ اہم ہو تو ایسی کمپنی کا منافع بخش ہونا ایک نہایت ناممکن بات ہے۔ تو ہم ابھی تک ایک ایسے سسٹم کو کیوں سینے سے لگائے بیٹھے ہیں جس میں میرٹ کا گلا اس بے دردی سے گھونٹا جاتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اس کو حل کروانے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ غالباً اس کو حل کرانا ہی نہیں چاہتے۔ اسی لیے پینتیس سال سے مسئلہ بھی اپنی جگہ ہے اور نعرہ بھی۔

  • فلاپ سیاسی ڈرامہ اور  پریشان حال ایم کیوایم – ثقلین مشتاق

    فلاپ سیاسی ڈرامہ اور پریشان حال ایم کیوایم – ثقلین مشتاق

    ثقلین مشتاق پاکستان میں سیاسی ڈراموں کی تاریخ پر نظر دوڑائیے تو وہ اُتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی عمر۔ پاکستانی سیاست میں ڈراموں کو وہی مقام حاصل ہے جو پرامن جنگل میں لومڑی کوحاصل ہوتا ہے۔ لیاقت علی خان کا قتل ہو یا کتیا کے گلے میں لالٹین ڈال کر مادرملت کی تذلیل یا پھر پاکستان کو دو لخت کرنا، یہ سب کارنامے ہمارے غیور حکمرانوں نے بڑی بہادری سے سیاسی ڈراموں کا سہارا لے کر سرانجام دیے ہیں۔

    چند روز قبل ایم کیو ایم نے را کی پروڈکشن کے تحت ایسے ڈرامے کی شوٹنگ شروع کی جو مکاری، فریب اور وطن عزیز سے غداری کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ خود کو بانیان پاکستان کی اولاد میں سے اور لیاقت علی خان کے خوابوں میں آنے کا دعوی کرنے والے الطاف حسین نے ایسا پاکستان مخالف خطاب کیا جو شاید را اور موساد جیسی پاکستان دشمن ایجنسیوں کے کارندے بھی نہ کرتے ہوں۔ قائد تحریک کی ایما پر ایم کیو ایم کے غنڈوں نے میڈیا ہائوسز پر ایسا حملہ کیا جیسے خونخوار بھیڑیا ہرن پر کرتا ہے۔ عوام اور صحافی تنظیموں نے ایم کیو ایم کی دہشت گردی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا۔

    بعد ازاں ڈرامہ میں ہیرو کے رول میں فاروق ستار نے انٹری مارتے ہوئے 23 اور 27 اگست کو پریس کانفرنس کر کے قائدتحریک اور اُن کے بیانات سے لاتعلقی کے اعلان کے ساتھ پارٹی امور لندن کے بجائے کراچی سے چلانے کا شوشہ چھوڑ دیا۔ اور ساتھ ہی ذہنی دبائو اور بیماری کے خاتمہ کے بعد الطاف حسین کے دوبار پارٹی امور سنبھانے کا عندیہ بھی دیا۔ واسع جلیل اور مصطفی عزیزآبادی نے فاروق ستار کی پریس کانفرنس کو مضحکہ خیز قرار دے کر قائد تحریک کے حکم سے لندن سیکرٹریٹ سے پارٹی چلانے کا دعوی کیا مگر بعد میں فاروق ستار کی تائید کر دی گئی۔ اگر پہلے کی طرح ایم کیو ایم نے قائد تحریک کے زیر سایہ ہی کام کرنا تھا تو فاروق ستار نے صحافیوں کو ہیر رانجھا اور سسی پنوں کی داستان عشق سُنانے کے لیے مدعو کیا تھا۔

    اگر فاروق ستار حقیقتا لندن اور قائد تحریک سے لاتعلق ہیں تو موصوف پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والے کے گھر نائن زیرو سیل ہونے، شہرقائد سے اس کی تصاویر ہٹانے اور املاک پر حملہ کرنے والی خواتین کی گرفتاری پر سراپا احتجاج کیوں ہیں؟ ایک طرف فاروق ستار پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب را اور موساد کے ایجنٹ کو قائد، بھائی اور صاحب کہہ کر پکار رہے ہیں۔
    وہی تو زندہ بچ کے آئے ہیں تیری گلی سے
    جنہوں نے سر تیری تلوار پر رکھا ہوا تھا
    وہ صبح و شام مٹی کے قصیدے بھی سناتا
    اور اس نے ہاتھ بھی غدار پر رکھا ہوا تھا
    تب فاروق ستار کا جذبہ حُب الوطنی کدھر تھا جب ایک سال قبل الطاف حسین کے اسی طرح کے بیانات کا وہ خود دفاع کیا کرتے تھے۔

    20 کروڑ عوام کیسے مان لیں کہ اُس فاروق ستار نے الطاف حسین کو ایم کیو ایم سے الگ کردیا جس کو غلطی پر الطاف حسین کارکنوں کے بھرے مجمع میں مرغا بنا دیتے تھے۔ جس ایم کیو ایم کے آئین میں الطاف حسین کو سپریم پاور حاصل ہے اور جس کا نعرہ ہے منزل نہیں رہنما چاہیے، اُس ایم کیو ایم اور الطاف کو الگ کرنا مشکل نہیں بالکل ناممکن ہے۔
    حقیقت میں فاروق ستار اور الطاف حسین دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ الطاف حسین نے یہ ڈرامہ را کے کہنا پر اس لیے رچایا کہ پاکستان کی مسئلہ کشمیر سے نگاہیں ہٹ جائیں اور کراچی کو ایک الگ ریاست بنایا جائے جس میں وہ یکسر ناکام رہے. ریاستی اداروں کا متحدہ کے خلاف کریک ڈائون، سپریم کورٹ سے پارٹی پر پابندی کے آثار اور مہاجر جن کے ووٹوں سے وہ خود کو ہٹلر سمجھتے تھے، اُن کے دل میں نفرت دیکھ کر بڑی مکاری کے ساتھ الطاف حسین نے عوام کے غصہ کو کم کرنے اور ریاستی اداروں کو بیوقوف بنانے کے لیے فاروق ستار کے ذریعے متحدہ کا خود سے لاتعلقی کا شوشہ چھوڑا۔

    قومی سلامتی کے اداروں اور اُردو بولنے والوں نے الطاف حسین کی سازش کو بےنقاب کردیا ہے۔ الطاف حسین کے بیانات کے بعد متحدہ کے محب وطن رہنمائوں کے لیے کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ اب وہ اپنی سیاست کو کیسے جاری رکھیں جبکہ الطاف حسین اپنی تقریروں سے باز نہیں آ رہے اور امریکہ اور سائوتھ افریقہ میں انھوں نے اس سے زیادہ غلیظ الفاظ استعمال کیے ہیں.