کراچی سیاسی تبدیلیوں کی زد میں ہے اور حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، شہری ووٹ بینک خاموشی کی کیفیت میں چلا گیا ہے، شاید یہ بھی اپنی سیاسی قیادت سے خاموش احتجاج ہے جبکہ مضافاتی ووٹ تو ہمیشہ ہی مخالف رہا ہے۔
ایم کیو ایم میں قائد کی تبدیلی کا عمل کامیاب ثابت نہیں ہوا، نئے قائد کے حادثے میں زخمی ہونے کے بعد لاکھوں افراد کا ہجوم تڑپ کر باہر بھی نہیں نکلا اور نہ ہی اسپتال اور گھر پہنچا، جب فاروق ستار بھائی صحتیاب ہوکر گھر پہنچے تو گنتی کے چند افراد استقبال کے لیے موجود تھے، یہاں تک کہ رش کی کیفیت بھی نہیں تھی۔
بانی ایم کیو ایم کی تیزی سےگرتی ہوئی صحت سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دینے سے قاصر ہے، اس لیے بظاہر ایم کیو ایم کی سیاست بانی قائد کی صحت سے منسلک ہوچکی ہے، متبادل قیادت موجود نہیں ہے۔ اس وقت ایسا کوئی رہنما موجود نہیں جو بانی قائد کی طرح مضبوط اعصاب کا مالک ہو اور قائدانہ صلاحیت رکھتا ہو۔ عامر خان ایک واحد نام ہے جو الطاف حسین کا کسی حد تک متباد ل ہے لیکن کیا قوم عامر خان کو قبول کرلے گی؟ عامر خان میں دیگر ”صلاحیتیں“ تو موجود ہیں لیکن تقریر کی شاید وہ صلاحیت نہیں جو ایم کیوایم کے بانی قائد کے اندر موجود ہے۔ اسی طرح بانی ایم کیو ایم کے پاس فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت تھی جو کسی اور میں نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے لیے تنظیمی بحران حل کرنا آسان نہیں ہے۔ ایک بڑے فوجی آپریشن اور نصیراللہ بابر کا مقابلہ کرنے والی ایم کیو ایم آج مزاحمت کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔
رینجرز نے بھی طریق کار تبدیل کیا اور اس انداز میں کراچی آپریشن ہوا کہ آبادی کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے مطلوب افراد کو رات کی تاریکیوں میں گرفتار کیا گیا، اس طرح پارٹی مزاحمت ہی نہ کرسکی۔ رینجرز گزشتہ دوسال سے رات کی تاریکیوں میں کارروائیاں کرتی رہی لیکن یہ بات کبھی بھی میڈیا پر نہ آئی۔ رینجرز کا نظر نہ آنے والا آپریشن ماضی کے مقابلے میں سخت ترین تھا لیکن رینجرز نے ماضی کی کمزوریوں اور خامیوں سے سبق سیکھ کر آپریشن کیا اور رونے کا موقع بھی نہ دیا۔
اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے الطاف حسین کا نام شجر ممنوعہ ہے جس کی وجہ سے عوامی رابطہ بھی منقطع ہوچکا ہے۔ شاید عوام بھی اس ساری صورتحال سے مکمل لاتعلق ہیں۔ اس وقت وہ لڑکے بھی موجود نہیں ہیں جو ایک کال پر جان کی بازی لگا دیا کرتے تھے۔ لڑکے بھی تتر بتر ہوچکے ہیں۔ ماضی کے فوجی آپریشن کے دوران پارٹی نے شدید ترین مزاحمت کی تھی جبکہ نصیراللہ بابر کے آپریشن کا بھی پارٹی نے سخت مقابلہ کیا تھا، اس وقت مزاحمت کرنے والے لڑکے بھی موجود تھے، آج وہ موجود نہیں ہیں۔ گورنر ہاؤس میں بیٹھا ہوا لڑکا بھی اب لڑکا نہیں رہا اور خاصا سمجھدار ہوچکا ہے۔
دوسری طرف مصطفٰی کمال صاحب کی پارٹی تیزی سے جگہ بنا رہی ہے اور آری سے نہ کٹنے والا بہاری قبیلہ مصطفٰی کمال کے ساتھ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کمال صاحب ٹیک اوور کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
تبصرہ لکھیے