Tag: مصباح الحق

  • پش اپس نہیں، نوافل پڑھیں – نجم الحسن

    پش اپس نہیں، نوافل پڑھیں – نجم الحسن

    نجم الحسن پاکستان کرکٹ ٹیم نے پش اپس کیے انگلینڈ میں لارڈز کے میدان پر اور وبال پہنچ گیا پارلیمنٹ تک۔ پاکستانی سیاستدان آجکل کب کیا قدم اٹھا لیں، یہ تو ان کو بھی نہیں معلوم۔ پچھلے جملے میں ان کو کی جگہ لکھتا تو کچھ اور ہی، مگر کیا فائدہ، بلا وجہ کسی کو فتوی جاری کرنے کی زحمت کیوں دوں۔ ایسے کچھ لوگ کیا ہیں، کیا کرتے ہیں، کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں، ہم کوسمجھ میں نہیں آتا، اگر ان کا نام احمق رکھ دیا جائے، تو شاید لوگ جلدی سمجھ جائیں گے۔ اب یہ ہی دیکھ لیں، پاکستان انگلینڈ کے درمیان جولائی میں لارڈز میں ٹیسٹ میچ کھیلا گیا، مطلب پورے تین مہینے پہلے۔ میچ میں 16 جولائی کو مصباح الحق نے شاندار سنچری مکمل کی اور کرکٹ کا گھر مانے جانے والے گراؤنڈ پر 10 پش اپس کیے تھے۔ لارڈز کےمیدان میں، ایک بہترین کارکردگی کے باعث جب پاکستان نے میچ جیتا تو پوری ٹیم نے ایک ساتھ پانچ پش اپس لگائے۔ اور وہ ایسے ہی نہیں تھا، بلکہ وہاں باقاعدہ آرمی کی طرز پریونس خان کی قیادت میں ہوشیار باش کیی اواز لگائی گئی ، پش اپس لگائے گئے اور پھر پرچم کو سلامی دی۔ میچ ختم ہونے کے بعد مصباح نے بتایا تھا کہ میں نے ایبٹ آباد میں آرمی کے لوگوں کو وعدہ کیا تھا کہ جب بھی میں انگلینڈ میں سنچری بناؤں گا تو پورے 10 پش اپس کروں گا۔

    لگ گئی ہمارے کچھ سیاسی شعبدہ بازوں کو مرچیں، اس لیے نہیں کہ پش اپس لگا دیے، بلکہ اس لیے کہ کسی کی نقل کیوں کی یا شاید کسی کو خوش کرنے کے لیے ہی کیوں پش اپس جیسے عمل کو اپنایا۔ بات دل میں ہی رہ گئی کیونکہ کوئی مناسب موقع نہیں ملا اور عین وقت پر چپکی سادھ لی۔ تاہم ایک ایسے موقع پر معاملہ پارلیمنٹ تک پہنچ گیا، جب کرکٹ کے بجائے کوئی اور میدان گرم ہوگیا ہے۔ معاملہ پارلیمنٹ تک پہنچ گیا، کیونکہ امن سے کچھ ہو جائے، ایسا بھلا یہ نوٹنکی سیاسی لوگ کیسے ہونے دیں گے۔ بدھ کے روز پارلیمنٹ میں اس بات پہ جرح ہوئی، جس میں ایسی باتیں ہوئیں کہ پاگل کو بھی ہنسی آ جائے۔ پاکستان مسلم ليگ نواز کے ممبر اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے رکن رانا محمد افضل نے کھلاڑیوں کے پش اپس کرنے پر اعتراض کیا۔ کہا کہ آخر مصباح الحق اور ٹیم پش اپس کرکے کس کو پیغام دینا چاہتے تھے۔ کھلاڑی جیت کر تو پش اپس کرتے ہیں، لیکن ہارنے پر خاموش کیوں ہو جاتے ہیں۔ ڈان نیوز کے مطابق مسلم لیگ ن کے چوہدری محمد عاصم نذیر کچھ اس طرح گویا ہوئے کہ جیت پراچھلنا کودنا اچھا ہے، لیکن پش اپس کرنے کے بجائے کھلاڑی کامیابی پر نوافل ادا کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ نوافل بھی ایک طرح کی نماز ہی ہوتی ہے، جس کو پڑھنا واجب مطلب ضروری تو نہیں، لیکن اگر پڑھا جائے تو ثواب ملتا ہے۔ یہ عجیب و غریب باتیں دماغ میں گھس ہی نہیں رہی ہیں۔ یہ ہی نہیں، بلکہ پی سی بی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی کو اس معاملے پر جواب دہ قرار دیا گیا جنہوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ مصباح الحق نے آرمی کو خراج تحسین پیش کرنے کے طور پر پش اپس کیے تھے۔ وہ اپنی فٹنس دکھانا چاہتے تھے، کیونکہ كاكول میں آرمی کے تربیتی کیمپ نے پاکستانی ٹیم کو فٹنس کی ٹریننگ دی تھی۔ تبھی مصباح نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ انگلینڈ کے خلاف سنچری لگائیں گے تو پش اپس ماریں گے۔

    بقول چوہدری صاحب کے، ہارنے پر یہ کھلاڑی خاموش ہوتے ہیں اور جیت پر پش اپس جیسی حرکتیں؟ اب ہارنے پر کھلاڑی خاموش نہ رہیں، تو کیا کریں؟ جشن منائیں؟ پھر تو انہیں غدار قرار دے دیا جائے گا، پھر اور فتوے جاری ہوں گے۔ جیتنے پر جشن منائیں تو بھی دقت، نفل کیوں نہیں پڑھا؟ رانا جی معاف کرنا، رہنما بن گئے مگر عقل بیچ کر۔ واہ کیا خوبصورت الفاظ کہے چوہدری صاحب نے، دل کر رہا ہے ایک مسجد بنوا کرچوہدری عاصم نذیر کو پارلیمنٹ سے نکال کر اس مسجد کا امام بنا دوں۔ اور پھر چوہدری صاحب اپنی کرکٹ ٹیم کو میدان پر کھیلنے دیکھنے یا پارلیمنٹ میں ایسی بھاڑ بجائے نماز ہی پڑھاتے رہیں، کیونکہ یہ زیادہ بہتر رہے گا۔ پہلے خبر آئی کہ نجم سیٹھی نے معاملے کو طول پکڑتے دیکھ کر دو ٹوک کہہ دیا کہ پی سی بی نے کھلاڑیوں پر پش اپس کرنے پر روک لگا دی ہے، اب کوئی بھی کھلاڑی میدان پر پش اپس نہیں کرے گا۔ واہ! اور اللہ ان تمام باتوں سے خوش ہوں گے؟ ایک ملک کو نمائندگی کرنے والا کھلاڑی اپنے ہی ملک کی آرمی سے ایک وعدہ کر کے آتا ہے۔ سنچری مارنے پر پش اپس مارنے کا وعدہ، وہ سنچری مار دیتاہے تو وعدہ پورا بھی کرتا ہے، ٹیم میچ جیتتی ہے تو پش اپس کرتی ہے۔ اور آپ نے ایسے وعدہ پورے کرنے والوں پر پابندی لگا دیا؟ یہ مذہب کے خلاف ہے یا ملک کے خلاف ہے؟ لیکن، بہر حال بعد میں خبر آئی کہ نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ ایسی کوئی پابندی نہیں ہے اور کھلاڑی سنچری پوری کرنے پر 100 پش اپس مارے۔

    سوچنے والی بات یہ ہے کہ میدان پر ایک کھلاڑی سے نوافل پڑھوانا اتنا ضروری کیوں لگ رہا ہے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر دفعہ کچھ اچھا کرنے پر دنیا کو دکھائے کہ اپنے خدا کو شکریہ کہا جائے؟ یا اس کی عبادت جائے؟ کل کو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ کھلاڑی وکٹ لینے کے بعد ایک دوسرے کو ہائی فائیو کیوں دیتے ہیں؟ نوافل کیوں نہیں پڑھتے؟بیٹسمین سنچری بنانے کے بعد ہیلمیٹ نکال کر بلا اٹھا کر میدان میں چاروں طرف کیوں دیکھتا ہے؟ نوافل کیوں نہیں پڑھتا؟ یا یہی کیوں نہ کہا جانے لگے کہ کوئی اللہ کا بندہ کھلاڑی کیوں بنتا ہے؟ مولوی کیوں نہیں بن جاتا؟ گھر میں رہے اور تا عمر نوافل پڑھے۔ اس جہاں کی زندگی بھی سکون سے جی لے گا اور آخرت کی بھی کامیابی۔ لیکن آپ سیاستدان تو وہ بھی نہیں ہونے دیتے، کسی کو طالبان بنا دیا تو کسی کی زندگی ایسی اجیرن کردی کہ وہ ایک پیشہ ور ملا بن گیا، کسی کو مسلکیت پہ لگا دیا تو کسی کو سیاست میں ہی کھینچ لے آئے۔ خیرمٹی پاؤ، میرے حساب سے پاکستان ٹیم کے پش اپس لگانے پر پابندی لگانے والوں کو سیاستدان بننے کے بجائے عمر بھر نوافل پڑھنا چاہیے تھا۔ اللہ کرم فرماتا، انسانیت دعائیں دیتی، کرکٹ میں چک چک نہ ہوتی، پاکستان کا یوں مذاق نہ اڑایا جاتا۔ افسوس صد افسوس چوہدری صاحب آپ بھی ہمارے غریب عوام کے ووٹوں سے جیتے ہوئے نمائندے ہیں، آپ پر، آپ کی سوچ پر افسوس کریں یا اپنے لوگوں پر جنہوں نے آپ کو اپنا نمائندہ منتخب کیا ہے۔ پتہ نہیں کب عوام کو بھی عقل آئی گی اور وہ بھی چوہدری صاحب سے پوچھیں کہ چوہدری صاحب آپ نے بھی تو اپنے حلقے میں وعدے کیے تھے، کیا کام کیا؟ عوام کو روٹی، کپڑا، مکان دینے کے لیے کیا عملی اقدام اٹھائیں؟ دیگرمسائل سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ یا پانی اوربجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے کتنے نوافل پڑھیں؟ پہلے آپ ان وعدوں سے انخراف کی پاداش میں پش اپس لگانا شروع کردیں، پھر دوسروں پہ اعتراض کریں۔

  • اگر مصباح الحق چیئرمین پی ٹی آئی ہوتا – شاہد اقبال خان

    اگر مصباح الحق چیئرمین پی ٹی آئی ہوتا – شاہد اقبال خان

    عمران خان اور مصباح الحق دونوں پاکستان کی تاریخ کے کامیاب کپتان ہیں مگر دونوں کی شخصیت اور سٹریٹجی یکسر مختلف ہے۔ عمران ایک کرشماتی شخصیت، جارحانہ مزاج اور جارحانہ سوچ رکھنے والا کپتان تھا جبکہ مصباح الحق دھیمی شخصیت، دھیما مزاج اور محتاط سوچ رکھنے والا کپتان ہے۔ عمران خان میچ کی پہلی سے لے کر آخری گیند تک مکمل کنٹرول اور جارحانہ انداز برقرار رکھتا تھا۔ وہ میچ کو پانچ دن تک لٹکانے کا عادی نہیں تھا، اس نے کافی میچ چوتھے دن ہی جیت لیے تھے۔ وہ ڈرا کے آپشن کو کبھی نہیں سوچتا تھا جبکہ مصباح الحق میچ کے پہلے دن کنٹرول حاصل کر کے اگلے 3 دن مخالف کو تھکا کر پھر آخری دن اپنے بہترین باؤلرسے دوبارہ سے حملہ کر کے میچ جیتنے میں یقین رکھتا ہے۔ ایک دو میچ نکال کر مصباح نے کبھی میچ کو 4 دن میں ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مصباح الحق ہمیشہ ڈرا کا آپشن کھلا رکھتا ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے انداز سے ناقابل یقین کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

    آئیے ایک لمحے کے لیے سوچتے ہیں کی اگر مصباح الحق چیئرمین پی ٹی آئی ہوتا تو وہ کیسے سیاست کرتا؟

    عمران نے 2013ء کے الیکشن کے بعد بہت پر زور مہم سے اپنے دل شکستہ ووٹر کو یہ یقین دلایا کہ ان کا ووٹ چوری ہو گیا تھا۔ الیکشن کے بعد یہ احساس دلانا ضروری تھا تاکہ ووٹر متحرک رہے۔ مصباح الحق بھی یہی کرتا۔ عمران خان نے اس پر مسلسل جارحانہ رویہ برقرار رکھا اور دھرنا بھی دیا مگر مصباح الحق کچھ ماہ اس بارے میں مہم چلا کر اس کو ختم کر دیتا۔ عمران نے اس سلسلے میں تمام اداروں کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر مصباح الحق کہیں درخواست نہ دیتا۔ مصباح اس سلسلے میں بس لفظی جنگ تک محدود ررہتا۔ این اے 122 اور دوسرے 3 حلقوں کے کیسز میں بھی مصباح الحق زیادہ دلچسپی نہ دکھاتا اور اس وجہ سے ان کے نتائج مصباح کے حق میں نہیں آتے۔

    عمران نے تمام ضمنی انتخابات میں زور و شور سے حصہ لیا۔اس میں کچھ میں پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی زیادہ میں شکست ہوئی۔ اس سے پی ٹی آئی کو یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ان کا ہر علاقے میں ایک مضبوط گروپ بن گیا اور تحریک انصاف ایک واحد اپوزیشن کے طور پر ابھری مگر ساتھ ہی یہ نقصان بھی ہوا کہ یہ سوچ پروان چڑھی کہ ضمنی انتخاب میں بھرپور کوشش کے باوجود شکست کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کم ہو رہی ہے۔ مصباح الحق ان الیکشنز میں برائے نام حصہ لیتا اور اس کا دفاع یہ کہہ کر کرتا کہ حکومت کے ماتحت ہونے والی الیکشن شفاف نہیں ہو سکتے، اس لیے حصہ لینے کا فائدہ نہیں۔ اسے فرینڈلی اپوزیشن کہہ کر میڈیا کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا مگر اس سٹریٹجی سے یہ امیج نہ بنتا کہ مقبولیت میں کمی آئی ہے۔

    پانامہ لیکس پر عمران خان نے ٹی او آر کمیٹی میں شرکت تو ضرور کی اور تمام اپوزیشن کو ساتھ ملانے کی کوشش بھی کی مگر پہلے دن سے ہی اس کی سٹریٹجی میں احتجاجی تحریک شامل تھی، اس نے جلسے کیے اور اب اسلام آباد لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہوا ہے۔ اس سے یا تو عمران خان اس میچ کو بھی چوتھے دن ہی جیت جائےگا یا پھر ہار جائے گا۔ اب ڈرا کا کوئی امکان نہیں۔ مصباح الحق کی سٹریٹجی مختلف ہوتی، وہ اس معاملے پر بہت آہستہ پیش رفت کرتا، حکومت اس کو لٹکانے کی کوشش کرتی اور وہ پیپلز پارٹی کی طرح معاملے کو لٹکانے میں حکومت کا پورا ساتھ دیتا۔ مگر جیسے ہی حکومت کے آخری چھ ماہ شروع ہوتے، اس کا پانامہ پر رویہ جارحانہ ہونا شروع ہو جاتا۔ الیکشن کے بالکل قریب وہ قانونی ماہرین کے ذریعے پانامہ اور حکومت کی معاشی ناکامیوں پر شدید تنقید کرتا۔ الیکشن کے پاس ایسی مہم کی کامیابی الیکشن میں حکومت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتی اور پی ٹی آئی آسانی سے الیکشن جیت جاتی یا مہم کی جزوی کامیابی کی صورت میں بھی سیاسی میچ ڈر ا ہو جاتا یعنی دونوں جما عتیں برابر نشتییں لینے میں کامیاب ہو جاتیں۔ اب دیکھیے عمران خان کے جارحانہ پن کا نتیجہ کیا نکلتا ہے.

  • اظہر علی، مصباح الحق کا نیا جنم – شاہد اقبال خان

    اظہر علی، مصباح الحق کا نیا جنم – شاہد اقبال خان

    misbah-ul-haq-and-azhar-ali-3 کچھ دنوں سے تمام توپوں کا رخ اظہر علی کی طرف ہو گیا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے ہر مسئلے کی وجہ اظہر علی ہے۔ تجزیہ نگار اور کچھ سابق کرکٹرز اظہر علی پر مضحکہ خیز حد تک تنقید کر رہے تھے. عبدالقادر صاحب نے تو ایک اوور میں 20 رنز پڑنے پر اظہر علی پر ون ڈے کرکٹ پر تاحیات پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کر دیا تھا۔ سرفراز احمد کی بطور کپتان 4 لگاتار فتوحات نے اس جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مگر ون ڈے سیریز کے تینوں میچ جیت کر اور آخری ون ڈے میں سنچری کر کے اظہر علی نے وقتی طور پر ناقدین کو خاموش تو کیا ہے مگر چند اور ناکامیوں کے بعد یہی تبصرے پھر سے شروع ہو جانے کا قوی امکان ہے۔ اظہر علی پر ہونے والی تنقید اور اس کی حقیقت کو جاننے کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔

    2011ء میں ویسٹ انڈیز کی اس وقت کی کمزور ترین ٹیم جس میں کرس گیل، ڈیرن براوو، سیمی، پولارڈ، ساروان، چندرپال سمیت کوئی بھی اہم کھلاڈی حصہ نہیں لے رہا تھا، اس سے دو میچ ہارنے کے بعد اس وقت کے کوچ وقاریونس کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے شاہد آفریدی کو ہٹا کر مصباح الحق کو کپتان بنا دیا گیا جو اس وقت ٹیسٹ ٹیم کو فتوحات کی طرف گامزن کر چکے تھے۔ اس تبدیلی کے مثبت رزلٹ آئے۔ مصباح کی قیادت میں پاکستان نے بہت تسلسل کے ساتھ ون ڈے میں فتوحات تو حاصل نہیں کیں مگر پاکستان نے ون ڈے کرکٹ میں بہت سے سنگ میل ضرور عبور کیے۔ پاکستان نے بہت عرصے بعد بھارت کو بھارت میں ہرانے کا کارنامہ سرانجام دیا، تاریخ میں پہلی بار جنوبی افریقہ کو اسی کی سرزمین پر شکست دی،12 سال بعد ایشیا کپ بھی جیتا۔ پھر سعید اجمل اور محمد حفیظ پر اچانک لگنے والی پابندی اور پچھلے 2 سال میں پاکستان کے سب سے کامیاب فاسٹ باؤلر جنید خان کے ان فٹ ہو جانے سے پاکستان مصباح کی کپتانی کے آخری سال میں اچھی کارکردگی نہ دکھا سکا جس میں ورلڈکپ2015ء بھی شامل ہے کیونکہ پاکستان کی ٹیم کا 2 سال سے چلتا ہوا کمبی نیشن اچانک ڈسٹرب ہو گیا تھا، مگر اس سب میں حقیقت کو سمجھنے کے بجائے مصباح الحق پر تنقید شروع ہو گئی؛
    ”وہ بہت دفاعی کپتان ہے، اسے ماڈرن کرکٹ کی سمجھ ہی نہیں ہے، وہ آہستہ کھیلتا ہے جس سے ٹیم پریشر میں آجاتی ہے، وہ ٹیم کے لیے نہیں اپنے آپ کے لیے کھیلتا ہے، مسٹر ٹک ٹک ہے“، جیسی باتیں ہر طرف سنای دینےلگیں۔

    mibah-reuters2 2015ء ورلڈ کپ کے بعد اس نے ون ڈے کو خیر آباد کہہ کر صرف ٹیسٹ کھیلنا جاری رکھا مگر وہ کسی کو بھی پسند نہیں تھا سوائے چند پرانی سوچ کے لوگوں کی۔ وہ کھیلتا رہا، کھیلتا رہا، ہر بار ملک سے باہر کھیلتا رہا اور پھر اس نے پاکستان کو ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی بار پہلی پوزیشن دلا دی۔ پاکستان کی طرف سے بطور کپتان سب سے زہادہ ٹیسٹ جیتنے کا ریکارڈ بنا دیا۔ بطور کپتان 50 سے زیادہ کی اوسط سے کھیلا۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تیز ترین ففٹی اور تیز ترین سنچری بنا ڈالی۔ اس نے ٹیسٹ میں یہ سب اس لیے حاصل کیا کیونکہ ہم نے اسے ٹیسٹ میں اپنے طریقے سے کھیلنے دیا۔ وہ ورلڈکپ نہ جیت سکا کیونکہ قسمت نے عین موقع پر اس سے اہم کھلاڈی چھین لیے اور کیونکہ ہم نے اسے ون ڈے میں اپنے طریقے سے نہیں کھیلے دیا۔

    azhar-ali 2015ء کے ورلڈ کپ کے بعد اظہرعلی کو کپتان اس لیے بنایا گیا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان ٹیم میں اس وقت پورے 50 اوور کھیلنے والا اور کوئی کھلاڈی تھا ہی نہیں۔ اسے نوجوانوں کی ٹیم دی اور ہر سیریز کے بعد اس میں تبدیلی کی جاتی رہی۔ اس نے انگلینڈ کے خلاف چند میچ نکال کر ہمیشہ اچھی کارکاردگی دکھائی اور اس کی اوسط اب بھی 42 کی ہے جو ٹیم میں بابر اعظم کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ اب اس پر بھی انھی الفاظ میں تنقید کی جا رہی ہے جن میں مصباح پر کی جاتی تھی، اور مجھے پورا یقین ہے کہ کچھ عرصہ بعد اسے بھی ایسے ہی سراہا جائے گا جیسے مصباح کو سراہا جا رہا ہے کیونکہ اظہر علی مصباح الحق کا ہی دوسرا کرکٹنگ جنم ہے۔

  • ایجبسٹن ٹیسٹ جیت سکتے ہیں، اگر؟ محسن حدید

    ایجبسٹن ٹیسٹ جیت سکتے ہیں، اگر؟ محسن حدید

    تیسرا ٹیسٹ آن پہنچا. پاکستان کی ٹیم نے پہلے ٹیسٹ کے بعد جتنا بھی اعتماد حاصل کیا تھا وہ اولڈ ٹریفورڈ میں کھو چکی، اب انگلینڈ پورے رعب سے میدان میں اترے گی. یاد رہے کہ یہ وہی گراونڈ ہے جہاں گزشتہ دورہ انگلینڈ میں پاکستان کی ٹیم صرف 72 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی تھی. اس گراونڈ پر پاکستان کبھی بھی ٹیسٹ میچ جیت نہیں سکا. یہاں ٹوٹل 7 میچز کھیلے ہیں جن میں سے 4 میں شکست ہوئی اور 3 ڈرا ہوئے. مشہور زمانہ وکٹ کیپر ذوالقرنین حیدر کا ڈیبیو (واحد ٹیسٹ بھی) یہیں ہوا تھا، جس میں انھوں نے ایک انوکھا ریکارڈ بنایا تھا (پہلی اننگز میں صفر اور دوسری اننگز میں ٹیم کا ٹاپ سکور88).

    England v Pakistan کیا پاکستان کے پاس کچھ بھی پازیٹو نہیں ہے تو اس کا جواب ہے کہ پاکستان کے پاس بھی چند مثبت چیزیں ہیں جن پر بات کی جاسکتی ہے مثلا گزشتہ ٹیسٹ میں انگلش ٹیم کی اچھی کارکردگی کا زیادہ حصہ روٹ اور کک کے کھیل پر مشتمل تھا، ہیلز ابھی تک ٹیسٹ معیار کے بلے باز ثابت نہیں ہو سکے جبکہ گیری بیلنس ایک سال کے بعد آئے ہیں اور ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرنے کے چکر میں ہیں، جیمز ونس بھی کیرئیر کی شروعات میں ہیں اور ابھی تک کچھ خاص نہیں کرپائے. (انگلینڈ کا سسٹم اچھا ہے جو کسی نئے لڑکے کو مسلسل موقع دیتا ہے ورنہ کسی اور ملک میں ہوتے تو ونس اب تک ٹیم سے نکالے جا چکے ہوتے) پاکستان کے کوچ نے بھی انگلش ٹیم کے ٹاپ آرڈر کی انھی کمزوریوں پر بات کی ہے. سب سے بڑی بات کہ انگلینڈ کے اہم کھلاڑی بین سٹوکس انجری کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہوچکے ہیں. پچھلے کئی دن سے بات چل رہی تھی کہ انگلینڈ ان کی جگہ ٹیم میں عادل رشید، جیک بال یا سٹیون فن میں سے کسی کو شامل کرے گا. زیادہ تر چانس یہی تھا کہ انگلینڈ اپنی سٹرینتھ پر کھیلےگا اور ایک سیمنگ پچ بنائے گا جس کی وجہ سے سٹیون فن کے ٹیم میں شمولیت کا چانس بن جائے گا. وہی ہوا اور انگلینڈ نے فن کو عادل رشید پر ترجیح دی. کرس ووکس اب تک انگلینڈ کے سب سے کامیاب بائولر ہیں اور یہ ان کا ہوم گرائونڈ بھی ہے، یہاں وہ اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے جارہے ہیں.

    یاسرشاہ ایجبسٹن کی پچ عام طور پر خشک ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ سپنر کے لیے سازگار ہو جاتی ہے، اس لیے سیمنگ پچ کے باوجود بھی یاسرشاہ اس میں اپنے لیے کچھ مدد کے منتظر ضرور ہوں گے. یاسر شاہ کا اپنی سپیڈ اور لائن لینگتھ میں تبدیلی کرنا بہت ضروری ہے ورنہ یہ ٹیسٹ بھی ان کے لیے امتحان سے کم نہں ہوگا کیونکہ انگلینڈ اس میچ میں بھی شاید سپورٹنگ پچ بنائے اور ایسی پچ پر ٹاس بہت اہم ہوجاتا ہے. یاسرشاہ کو وکٹ ٹیکنگ آپشن کے طور پر دیکھا جاتا ہے مگر اس چکر میں انھیں جلد بازی بالکل نہیں کرنی چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ پچ کا مزاج کیا ہے. ایک اور بات کہ یاسر کے بارے میں کبھی شک گزرتا ہے کہ وہ بہت سکرپٹڈ بائولر ہیں اور میچ کی صورتحال کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتے نہیں. یہ خیال بھی انہیں غلط ثابت کرنا ہوگا.

    محمد عامر کو اب کچھ کر دکھانا ہوگا، دو میچز ہوگئے، اب یقینی طور پر مشکل وقت گزر چکا، ہوٹنگ اور نعروں کا پریشر بھی وہ جھیل چکے. اب انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ٹیسٹ کے بہترین بائولر ہیں اور ان کا جو انتظار شائقین نے 6 سال کیا، وہ واقعی اسی لیول پر ہیں. Pakistan v England وہاب ریاض کو کاش کوئی بتا دے کہ اگر قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو ہی گئی ہے تو وہ کچھ محنت ہی کرلیں، سپیڈ سے کیا ہوتا ہے، گرائونڈ میں کوئی تیز ترین گیند پھینکنے کا مقابلہ نہیں چل رہا ہوتا بلکہ بات تو وکٹ لینے پر ختم ہوتی ہے جس میں وہ بری طرح ناکام ہو رہے ہیں. اور یہ کوئی زمبابوے یا بنگلہ دیش کے سب سٹینڈرڈ بلے باز نہیں جو آپ کی طوفانی بائولنگ سے ڈر کر بیک فٹ پر چلے جائیں گے اور آپ کو وکٹ دے دیں گے. یہ آپ کی 150 کی رفتار سے آنے والی گیند کو 350 کی رفتار سے باہر پھینکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں. بظاہر تو وہاب کے کھیلنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ ان کی جگہ عمران خان کو کھلانا چاہیے، ایک تو ٹیم کو رائٹ ہینڈ فاسٹ بولنگ آپشن ملے گا اور فاسٹ بائولنگ میں کچھ ورائٹی آجائے گی، دوسرا یاسر شاہ کو رف پیچز مل جائیں گے جس سے وہ بائیں بازو کے انگلش بلے بازوں کے لیے مصیبت کھڑی کرسکتے ہیں. اس کے علاوہ اگر پچ سپورٹنگ بھی ہوئی تو ٹاس ہارنے کی صورت میں شروع کے دو گھنٹے ملنے والی سوئنگ سے عمران اچھا فائدہ اٹھا سکتے ہیں. راحت ٹھیک ہیں مگر انھیں خراب گیندوں کا تناسب بہت کم کرنا ہوگا اس کی وجہ سے وہ بیٹسمین کا سارا پریشر ختم کر دیتے ہیں اور بہترین سوئنگ کے باوجود بھی وکٹ نہیں لے سکتے.

    محمد حفیظ سے صرف اتنا کہنا ہے کہ جناب آپ سپیشلسٹ اوپنر بیٹسمین ہیں، یہ نائٹ واچ مین والی باریاں نہ کھیلیں اور ذمہ داری لیں، آپ پر ایک بڑی اننگز ادھار ہے، اگر وہ اس میچ میں کھیل دیں تو کمال ہوجائے گا. بہت زیادہ چانس ہے کہ سمیع اسلم کھیلیں گے تو سمیع اسلم کے لیے دعا ہے کہ اپنا بہترین کھیل پیش کردے تاکہ ایک مدت سے جو اوپنر کا قحط ہے ختم ہوسکے، ان کے ٹیلنٹ میں کوئی شک نہیں بس پریشر کا ڈر ہے کہ جھیل پائیں گے یا نہیں. ( پریکٹس میچ میں شان مسعود کی اچھی اننگز کہیں کپتان اور کوچ کا ذہن خراب نا کردے). یونس خان آپ بہت بڑے پلئیر ہیں، اپنی پرانی تکنیک سے ہی کھیلیں، اتنے ہزار رنز اسی سے بنائے ہیں، مزید بھی بنیں گے. 575429160اظہر علی بھول جائیں کہ ون ڈے اور ٹی 20 میں آپ کی کیا پوزیشن ہے، آپ مستقبل کے ٹیسٹ کپتان ہیں، اس لیے اپنی ذمہ داری پوری کریں. ٹاپ آرڈر کی بہتری آپ کی اچھی کارکردگی سے مشروط ہے اور اگر سٹرائیک روٹیشن بہتر ہوجائے تو پریشر خودبخود ختم ہوجائےگا. سرفراز اور اسد شفیق پلیز اپنی وکٹ کی قدر جانیں 30-40 یا 60-70 کی اننگز سے آگے کا سوچیں اور خراب شاٹ کھیلنے کی عادت سے جان چھڑائیں. ٹیسٹ کرکٹ میں سیٹ ہو کر آووٹ ہوجانا بہت بڑا جرم ہے. مصباح جی آپ کمال ہیں، بس تھوڑی سی ایگریشن اور ہلہ بول کرکٹ دکھائیں، اب آپ کے پاس مکمل اختیار ہے، ان کھلاڑیوں کی بھی کھنچائی کریں. آپ نے پاکستان کرکٹ کا مثبت امیج بحال کیا بلکہ اس میں مزید شاندار روایات شامل کیں مگر اب اپنے آخری سال میں بطورکپتان جارحانہ کھیل دکھائیں تاکہ یہ کمی بھی پوری ہوجائے. دوسرا جب آپ بیٹنگ کررہے ہوں تو نان سٹرائیکر اینڈ پر کھڑے ہوکر صرف دیکھا نہ کریں بلکہ غلط شاٹ کھیلنے پر اسی وقت دوسرے بلے باز کو ٹوکا بھی کریں. بدقسمتی سے اولڈ ٹریفورڈ کی پہلی اننگز میں اسد شفیق اور سرفراز کو آپ نے نہیں سمجھایا جبکہ وہ مسلسل غلط شاٹس کھیل رہے تھے. فیلڈنگ میں بھی چیزوں کے وقوع پذیر ہونے کا انتظار نہ کیا کریں بلکہ ٹرائی کیا کریں اور فیلڈ سیٹنگ یا بائولنگ چینجز سے صورت حال بدلنے کی کوشش کیا کریں. ہم ایجبسٹن میں پہلی دفعہ جیت سکتے ہیں، بس توجہ اور جارحانہ کھیل کی ضرورت ہے صورت حال کچھ بھی ہو ہمیں مثبت کھیلنا ہوگا ورنہ غیرضروری پریشر لینے کی عادت ہمیں ہزیمت سے دوچار کردے گی.