Tag: لاہور

  • سموگ کیا ہے، وجوہات کیا ہیں؟ مصطفی ملک

    سموگ کیا ہے، وجوہات کیا ہیں؟ مصطفی ملک

    مصطفی ملک یہ دھند ہے، نہیں یار دھند ایسی نہیں ہوتی۔ پھر کیسی ہوتی ہے؟ دھند میں کچھ نظر نہیں آتا اور گاڑیاں ٹکراتی ہیں۔ دیکھ لو کچھ بھی نظر نہیں آرہا اور گاڑیاں ٹکرانے سے کئی لوگ بھی مر گئے ہیں۔ مگر دھند میں تو سردی لگتی ہے، کپکپی طاری ہو جاتی ہے، یہ کیسی دھند ہے؟ اس سے تو آنکھوں میں مرچیں لگ رہی ہیں اور گلے خراب ہو رہے ہیں۔ دھند میں لوگ شاعری کرتے ہیں، ہم بیماروں کی تیمارداری کر رہے ہیں۔ بات تو تمہاری ٹھیک ہے، سردی بھی نہیں لگ رہی، نظر بھی کچھ نہیں آرہا، اگر یہ دھند نہیں تو پھر کیا ہے؟

    اس قسم کی گفتگو آپ کو ان دنوں لاہور میں عام سننے کو ملے گی۔ سادہ لوح لاہوریے آلودہ دھوئیں کو دھند سمجھ کر مونگ پھلی کی ریڑھیاں تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے، باہر نکل کر احساس ہوا کہ اس گرمی میں مونگ پھلی کون کھاتا ہے، سو بیچارے مونگ پھلی کے بجائے آنکھوں کے ڈراپس لے کر گھروں کو لوٹ آئے۔ سارا سال روگ اور سوگ میں رہنے والی عوام فوگ اور سموگ کے فرق کو نہیں سمجھ سکی اور نہ ہی کبھی کسی نے اس کے بارے میں انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔

    کارخانوں اور گاڑیوں کا دھواں فضا میں جمع ہوتا رہتا ہے. اس دھوئیں میں زہریلی گیسیں، گرد و غبار اور دیگر کثافتیں موجود ہوتی ہیں، جب موسم ذرا سرد ہوتا ہے تو یہ کثافتیں دھند کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، جنہیں تکنیکی زبان میں سموگ کہا جاتا ہے۔ سموگ آلودہ گیسوں اور مٹی کے ذرات کا مجموعہ ہوتا ہے جو آنکھوں اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ ماہرین موسمیات کے مطابق سموگ کی وجہ تیزی سے بڑھتا ہوا تعمیراتی کام ، کارخانوں اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور زہریلی گیسیں ہیں۔ اس کے علاوہ تیزی سے کم ہوتے ہوئے درخت اور سبزہ بھی سموگ کی ایک وجہ ہیں۔ قدرتی ماحول زندگی کی بقا کا ضامن ہوتا ہے اور جب اس قدرتی ماحول کو ایک خاص حد سے زیادہ چھیڑا جائے تو اس کا ردعمل ہمیشہ تباہ کن ہوتا ہے۔ انسان اپنے گھروں اور شہروں کو تو خوبصورت بنا رہا ہے مگر اس بات کو یکسر نظرانداز کر رہا ہے کہ اس خوبصورتی کے پیچھے قدرتی ماحول کا چہرہ کتنا بھیانک ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی کرنا اور دنیا کے ساتھ قدم ملانا کوئی بری بات نہیں مگر ماحول کو داؤ پر لگا کر ترقی کرنا ضرور برا ہے۔ ترقی کس کا نام ہے؟ یہی ناں کہ انسانوں کی صحت اور ان کا معیار زندگی بلند ہو سکے، ہر فرد کو صاف پانی، صاف ہوا اور صاف غذا مہیا ہو۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کیا ہم ترقی کر رہے ہیں؟ کیا ہمیں زندہ رہنے کے لیے ایک صاف ستھرا اور صحتمند ماحول دستیاب ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا فائدہ یہ اونچی اونچی عمارتیں اور لمبی چوڑی سڑکیں بنانے کا؟ کیا فائدہ کارخانوں پہ کارخانے لگانے کا؟ یہ ترقی انسانوں کے فائدے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ انھیں بیمار کرنے کے لیے۔ ذرا سوچیں بلند و بالا عمارتوں میں رہنے والے اور چمکتی دمکتی گاڑیوں میں سفر کرنے والے انسان تندرست نہ ہوں اور ذہنی طور پر الجھے ہوئے ہوں تو ترقی کی یہ چمک دمک کس کام کی؟ بظاہر ہم ترقی کر رہے ہیں مگر حقیقت میں ہمارا سفر تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ تفریح و تعیش کے تمام اسباب مہیا ہیں مگر چہروں پر ہنسی نہیں، دلوں میں امنگیں نہیں۔

    سموگ، سموک یعنی دھوئیں اور فوگ یعنی دھند کا مرکب ہے. بدقسمتی سے بیشتر عوام عناصر سے ہی واقف نہیں تو مرکب کو کیا سمجھے گی۔ سموک سے ہماری جانکاری فقط سموکنگ تک ہے اور یہ بھی پتہ ہے کہ فوگ میں ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں اور بندے مرتے ہیں، اس کے آگے ہمیں پتہ ہے نہ ہم جاننا چاہتے ہیں۔ آلودگی ہمارا مسئلہ نہیں، یہ ساری دنیا میں ہوتی ہے تو ہم کیوں پریشان ہوں؟ کیا ہم امریکہ کی طرح بڑی بڑی عمارتیں نہ بنائیں یا جاپان کی طرح زیر زمین ٹرین نہ چلائیں۔ ہمیں آلودگی کا درس دینے والے بتائیں کیا اب ہم سائیکل پر کاروبار اور دفتروں میں جائیں؟ رب نے پیسہ دیا ہے تو خرچ کیوں نہ کریں؟ کارخانے کیوں نہ لگائیں؟ ویسے بھی آلودگی پر قابو پانا حکومت کا کام ہے ہمارا نہیں۔ ہم آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں، اس لیے ہمیں زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ ایک دن انسان نے مرنا ہی ہے ناں چاہے کسی بھی بیماری سے مر جائے۔ ویسے بھی ہمیں بچپن سے ہی یہی بتایا گیا ہے کہ کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلے گا تو ہمارے گھروں کے چولہے جلیں گے اور پکی سڑک بنانے سے ہی علاقے میں ترقی آتی ہے۔ ہم کارخانے لگائیں گے اور سڑکیں بنائیں گے تو پاکستان ترقی یافتہ ملک کہلائے گا۔ کاش کوئی اس سوچ کے حامل افراد کو یہ بتا دے کہ کارخانوں کا دھواں اب گھروں کے چولہے جلانے کے ساتھ ساتھ ان کے اور ان کے بچوں کے پھیپھڑے بھی جلا رہا ہے۔ پاکستان کو ترقی کے ساتھ ساتھ انسانوں کی بھی ضرورت ہے جو اس ترقی کے ثمرات دیکھ سکیں۔

    پچھلے دنوں ایک ماہر ماحولیات ٹی وی پر فرما رہے تھے کہ لاہور میں سموگ کی وجہ بھارت میں جلائی جانے والی چاول کی فصلیں ہیں، انہوں نے یہاں یہ بتانا مناسب نہیں سمجھا کہ لاہور جو کبھی اپنے باغات کی وجہ سے مشہور تھا، اب خطے کا چوتھا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ انفرادی سطح سے لے کر حکومتوں تک ہمیشہ یہ سننے کو ملا ہے کہ اگر فلاں ایسا نہ کرتا تو میں یہ ہوتا، یہ سب کیا دھرا ان کا ہے۔ خود کو ہمیشہ بری الذمہ قرار دینا اور تمام واقعات سے خود کو الگ کرنا ہمیں خوب آتا ہے۔ انفرادی طور پر ہمارا یہ فرض نہیں کہ ہم اپنے ارد گرد کا ماحول صاف رکھیں، حکومت کا یہ کام نہیں کہ ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے کوئی پالیسی بنائے۔ لگتا ہے کہ اب ہمیں قہر کو کہر اور مجبوری کو شکریہ پڑھ لینے کی عادت ڈال لینی چاہیے۔

  • لاہور میں پھیلی دھند کا راز فاش ہو گیا – عثمان عابد

    لاہور میں پھیلی دھند کا راز فاش ہو گیا – عثمان عابد

    ڈاکٹر عثمان عابد بریکنگ نیوز۔۔۔ پنجاب کے تمام ہسپتالوں کو الرٹ کر دیا گیا۔ کہر یا دھواں ؟ لاہور میں کیا چھا گیا ؟ باغوں کے شہر کی فضا آلودہ ہو گئی ۔ سانس لینا بھی دشوار۔ گھر سے باہر نکلنا محال ہوگیا۔ لاہور والے پریشان! پنجاب حکومت کا اسکولوں کو چھٹیاں دینے پر غور۔۔۔ ٹی وی پر اینکر چیخ چیخ کر عوام کو ہراساں کر رہی تھی۔

    شہری سمجھ رہے ہیں کہ شاید سردی کی شروعات کی وجہ سے دھند چھائی ہوئی ہے ۔ لیکن کہانی کچھ اور ہے محکمہء موسمیات کچھ اور ہی خبر دے رہا ہے۔ دراصل یہ دھند نہیں بلکہ آلودگی کے بادل ہیں جنھیں سموگ کہا جاتا ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھئی یہ سموگ کس بلا کا نام ہے؟ سموگ دراصل دھوئیں اور دھند کے ملاپ سے بنتا ہے۔ جس کا موجب فضائی آلودگی ہے۔ ماہرین کے مطابق سموگ بننے کی وجہ فضا میں نامیاتی مونو آکسائیڈ او ر سلفر ڈائی آکسائیڈ کا شامل ہونا ہے۔ جس کی وجہ سے گردوغبار کی یہ دھند چھائی ہوئی ہے۔ یہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔ ایسی صورتحال میں شہریوں کو احتیاط کی ضرورت ہے۔ جو لوگ سیر کرنے کے عادی ہیں انھیں چاہیے کہ وہ آج کل سیر نہ کریں کیونکہ سموگ کی وجہ سے نہ صرف آنکھوں کا مسئلہ بلکہ سانس کے مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ گھروں کے اندر ہی رہیں اور بلا ضرورت باہر نہ نکلیں۔ باہر جانا بھی پڑے تو ماسک لگا کر جائیں۔

    یہ سب آخر ہو کیا رہا ہے؟ کیا یہ قدرتی عمل ہے؟ کہیں اس کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ تو نہیں؟ نہیں ۔۔۔ یہ قدرتی عمل بالکل نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے دشمن ملک کی سازش ہے۔ یہ سب لغو باتیں ہیں۔ دراصل اس صورتحال کو خراب تر کرنے میں ہمارے اربابِ اختیار کا کافی حد تک عمل دخل ہے جنہوں نے حالیہ چند مہینوں میں ہی دو ہزار سے زائد درختوں کو مختلف میگا پروجیکٹس کے نام پر کاٹ کر رکھ دیا ہے اور تقریباً اتنے ہی مزید درختوں کی کٹائی کا پروگرام بھی بنا لیا گیا ہے۔

    گزشتہ سال حکومت نے پہلے اور نج ٹرین لائن پراجیکٹ کے لیے دو ہزار درختوں کی بَلی (قربانی) دی اور پھر اس کے نتیجے میں جب فضائی آلودگی بڑھی تو اسے قدرتی عمل قرار دے دیا۔ اور ٹھیک ایک سال بعد نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ ماحولیاتی صورتحال شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے۔

    آئیے اب ذرا دیکھتے ہیں حبیب جالب کے جانشین جناب میاں محمد شہباز شریف صاحب اس تمام صورتحال کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔ تو آپ سب کے لیے خوشخبری ہے کہ ہمارے دور اندیش خادمِ اعلیٰ کی ہدایت پر قائم خصوصی ٹیم نے اس سموگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال سے نپٹنے کے لیے ابتدائی منصوبہ مرتب کر لیا ہے. جی ہاں! ابتدائی منصوبہ، صحیح پڑھا آپ نے۔ وہی منصوبہ جو سیلا ب کے دنوں میں ٹانگوں پر بڑے بڑے بوٹ چڑھا کر بنایا جاتا ہے۔
    دوسری طرف بڑے میاں صاحب نے اپنی انقلابی تقاریر کے دوران مجال ہے جو فضائی آلودگی کو ایک مرتبہ بھی موضوع سخن بنایا ہو۔ میٹروبس سروس کے بعد اب پیش خدمت ہے اور نج ٹرین لائن کا شاندار منصوبہ! جی ہاں اور آپ کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ اس منصوبے کے ساتھ فضائی آلودگی بالکل مفت حاصل کریں ۔

    ایک اندازے کے مطابق لاہور کے شمالی علاقوں میں سات سو سے زیادہ کارخانوں کے یونٹس موجود ہیں۔ اس کے علاوہ لاہوری قلعے اور بادشاہی مسجد کے مضافات میں بھی چھوٹے پیمانے پر کارخانے کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال بھی لاہور کے شہریوں نے خادم اعلیٰ سے مودبانہ گزار ش کی تھی کہ وہ اس اہم صورتحال پر تھوڑی سی توجہ دیں کہ جس کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد متاثر ہو رہی ہے۔ شہریو ں کا مطالبہ ہے کہ انڈسٹریل، کمرشل اور رہائشی علاقوں کی فی الفور تقسیم کی جائے اور چھوٹے بڑے تمام کارخانوں کو انڈسٹریل زون یعنی آبادی سے باہر منتقل کیا جائے۔

    دوسری طرف اس مسئلے کا سامنا صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ ہندوستان اور چین کو بھی ہے لیکن چین نے احتیاطی تدبیر کے طور پر سموگ فری ٹاورز لگانے شروع کر دیے ہیں۔ جو کہ ہوا کو لگاتار صاف کر رہے ہیں۔ تیئس فٹ لمبا یہ ٹاور ایک گھنٹے میں تیس ہزار کیوبک میٹر سموگ کو صاف کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور مزے کی بات کہ یہ پانی کے بوائلر سے زیادہ بجلی بھی خرچ نہیں کرتا۔

    آخر میں شہباز شریف صاحب سے التماس ہے کہ زرداری صاحب کا پیٹ پھاڑنے کی بجائے زمین کا پیٹ پھاڑ کر اس میں درخت لگائیں ۔ بطور عوام میں تو اس جماعت کو ووٹ دوں گا جس نے اپنے علاقے میں زیادہ درخت لگائے ہوں گے۔آپ کا کیا خیال ہے ؟

  • راجہ لوگو! تمہاری یہ جمہوریت – سنگین زادران

    راجہ لوگو! تمہاری یہ جمہوریت – سنگین زادران

    راجہ لوگو تمہاری جمہوریت پر سو جان سے قربان ہو جاؤں گا، اگر مجھے صرف اتنا بتا دو کہ پچھلے 45 سال سے بھٹو خاندان لاڑکانہ کو پینے کا صاف پانی، معیاری تعلیم، اچھے ہسپتال دے سکا یا نہیں؟ میں تمہاری طرح جمہوریت کے قصیدے گایا کروں گا لیکن صرف اور صرف اتنا بتا دو کہ شریف خاندان پچھلے 40 سال میں صرف لاہور ضلع کے تمام افراد کا معیارِ زندگی بدلنے میں کامیاب ہوا کہ ناکام رہا؟ گویا اضطراب ہے اور بلا کا ہے کہ میں سوچتا ہوں تو دماغ میں ابھرنے والے شرارے میری نسوں تک میں سرایت کر جاتے ہیں۔ ایک طرف بھٹو خاندان کے 45 سال اور ایک ضلع لاڑکانہ نہ سیدھا ہو سکا۔ دوسری طرف شریف خاندان کے 40 سال ہیں اور ایک ضلع لاہور بھی سیدھا نہ ہوا۔ جن کی نظریں شہر لاہور کی چکا چوند پر جمی ہیں وہ ذرا ضلع لاہور کی باقی تحصیلوں کا حال احوال پتہ کریں۔ باہر جانے کی ضرورت نہیں، لاہور ضلع کےسرکاری ہستپالوں کا ہی حال دیکھ لیں۔
    ایک غیر معمولی بات جو اس ملک میں بہت خاموشی سے رائج کر دی گئی ہے، وہ جمہوریت کو مذہب کا درجہ دینا ہے۔ شاید آپ کو عجیب لگے لیکن فی الوقت دنیا بھر میں جمہوریت کو مذہب کا ہی درجہ حاصل ہے۔ صدرِامریکہ نے کبھی اپنی تقریروں میں یہ نہیں کہا کہ We believe in God. ہاں امریکہ سمیت کئی دیگر عالمی راہنماؤں کے منہ سے یہ جملہ آپ نے ضرور سنا ہو گا We believe in Democracy، پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ یہاں جمہوریت کے خلاف بات کرنا جرم ہے اور جمہوریت کی توہین کرنا اس سے بھی بڑا جرم۔ جیسے جمہوریت ہی وہ مقدس سیاسی نظام ہے جس کی تکمیل کےلیے ہم پاکستانیوں کو اس ملک میں پیدا کیا گیا۔ جمہوریت ہے کیا دراصل؟ سیاست کی چاٹی میں عیاری کی مدھانی ڈال کر ذاتی مفاد کا مکھن نکالنا ہی جمہوریت ہے۔

    اور آپ کو پتہ ہے کیا کہ جمہوریت کے خلاف بات کرنے سے ان کے پیٹ پہ لات کیوں پڑتی ہے؟ ایک کام کیجیے، اپنے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں اور اپنے حلقے کے ایم این اے اور ایم پی ایز کے موجودہ اثاثوں کی تفصیل پتہ کریں۔ موجودہ اثاثوں کا موازنہ ان کے آباؤ اجداد کے اثاثوں سے کریں، آپ کو جواب مل جائے گا کہ جمہوریت کے خلاف بات کرنے سے ان لوگوں کے پیٹ پر لات کیوں پڑتی ہے۔ سمجھ نہیں آئی تو پھر سمجھاتا ہوں۔ حاکم علی زرداری سندھ کا معمولی وڈیرہ تھا، جائیدادیں لمبی چوڑی نہیں تھی، بیٹے کی بیوی سیاست دان تھی اور پھر بیٹا آصف علی زرداری بھی سیاست میں آ گیا۔ جائیدادیں، جاگیریں اور اثاثے پہلے سندھ سے بڑھ کر ملک بھر میں پھیلے، پھر پاکستان سے نکل کر سوئس بینکوں تک چلے گئے۔ یہی کچھ حال شریف خاندان کا ہے۔ میاں شریف چنگے بھلے رئیس انسان بھی تھے تو بھی ان کا اتنا سبب نہیں تھا کہ جائیدادیں پانامہ تک پہنچ جاتیں۔ تو میرے جیسا یا کوئی بھی انسان جو جمہوریت کو کسی سامراجی سامری کا بچھڑا بنا کر پوجنے پہ تیار نہیں ہے، جب معاشرے کے خوبصورت چہرے سے جمہوریت کا میک اپ اتار کے دیکھتا ہے تو اسے بدبودار، بھیانک اور مکروہ قسم کے کیڑے اس چہرے میں رینگتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیوں کہ جمہوریت کے علمبرداروں سے 45 سالوں میں لاڑکانہ اور 40 سالوں میں لاہور نہ بدلا گیا۔ غریب کے منہ سے البتہ نوالہ چھنتا رہا، اس کی ہڈیوں سے پہلے ماس اتارا گیا پھر گوشت نوچا گیا پھر ہڈیوں میں موجود گودا تک چوس لیا گیا۔ یہ جمہوریت اور اس کا جھانسہ مزید نہیں۔ کسی کے پیٹ پہ لات پڑتی ہے پڑ جائے لیکن جمہوریت کے نام پر عام فرد کے منہ سے روٹی چھینے کا عمل مزید نہیں۔

  • لاہور میٹرو بس، کچھ میٹھا کچھ کھٹا – نعیم احمد

    لاہور میٹرو بس، کچھ میٹھا کچھ کھٹا – نعیم احمد

    نعیم احمد پاکستان اور ترکی کے اشتراک سے لاہور میں بننے والی پہلی میٹرو بس سروس کا افتتاح 10 فروری 2013 کو ترکی کے نائب وزیراعظم باقر بوزداگ (Baqir Bozdage) اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے ہاتھوں ہوا۔ میٹرو بس سروس 27 کلومیٹر طویل سڑک پر مشتمل ہے، جو گجومتہ سے شاہدرہ تک ہے۔ اس سے 27 کلومیٹر کا سفر ایک گھنٹے میں سمٹ آیا ہے۔ اس پر 27 بس اسٹیشن ہیں۔ اس منصوبے کی لاگت تقریبا 25 بلین پاکستانی روپیہ ہے۔

    افتتاح کے بعد جب پہلی مرتبہ سفر کیا تو حیرت کی انتہا نہ رہی، ایک انتہائی آرام دہ، ائر کنڈیشنر اور وی آئی پی سواری اور کرایہ صرف بیس روپے، الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ اس کی تیاری کے دوران میں گھر سے دفتر تک کا راستہ جو کہ ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے، وہ تین گھنٹے میں طے کرنا اور شدید پریشانی کا سامنا سب ہوا ہو گئے۔ بس کیا ہے گویا پانی پر ہلکورے لے کر چلتی ہوئی لگژری فیری ہے۔ سیٹ پر بیٹھ کر سفر کے دوران نیند کا اس طرح آنا جیسے کسی پنگھوڑھے میں بیٹھے جھولے لے رہے ہیں۔ میٹرو بس کا ایسا رعب و دبدبہ کہ اندر بیٹھی سواریاں بس کے اندر تھوکنے کی ہمت بھی نہ کریں۔ جن سواریوں کو پان کھانے کی عادت ہے اور بس میں بیٹھ کر بھی پان کھانا ان کی مجبوری ہے، انھیں اپنے ساتھ پولی تھین بیگ لے کر سفر کرتے دیکھنا اور بس کو آخری حد تک گندگی سے بچانے کی سعی کرنا ایک انتہائی خوشگوار تجربہ ہے۔ صفائی کا نظام ایسا کہ اچھے بھلے کپڑوں میں ملبوس افراد کو فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھے دیکھا۔ بس میں کوئی پھیری والا، کوئی چندہ لینے والا اور کوئی گداگر دکھائی نہیں دے گا۔

    میٹرو بس میں سفر کے لیے ای ٹکٹنگ (E Ticketing) کے ساتھ ساتھ اسمارٹ کارڈ کی سہولت نے سفر کو اور زیادہ آسان بنا دیا ہے، اس کی بدولت قطار میں صرف ہونے والے وقت کی بھی بچت ہے۔ کارڈ میں بیلنس لوڈ کرانے کے لیے ہر میٹرو اسٹیشن پر مشین نصب ہے۔ جس کے ذریعے بآسانی لوڈ کرایا جا سکتا ہے۔ اسٹیشن پر ایک کے بعد دوسری گاڑی کے آنے کا وقفہ دو منٹ کا ہے، یعنی یہاں بھی انتظار کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی۔ بس میں ہر اگلے اسٹیشن کی آمد کی اناؤنسمنٹ اور احتیاطوں سے متعلق اعلانات ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن کے وقفے کے درمیان نشر ہوتے ہیں۔ سفر کے بارے میں معلومات نہ رکھنے والی سواریوں کے لیے میٹرو کا اسٹاف رہنمائی کے لیے ہر وقت حاضر ہے۔ خواتین اور طالب علم بچیوں کے لیے یہ سہولت کسی نعمت سے کم نہیں ہے، کیونکہ ٹرانسپورٹ کے دوسرے ذرائع میں محدود نشستوں کی وجہ سے ان کے لیے خاصی مشکلات ہیں۔ میٹرو بس نے ان کے طرز زندگی میں بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔ لاہور کے ساتھ ساتھ راولپنڈی/ اسلام آباد میں اس کی تکمیل کے بعد اب ملتان اور کراچی میں بھی اس منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے۔

    میٹرو بس نے ہمارے روزمرہ معاملات میں جہاں بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں، وہاں ہم اپنی عادات میں پائی جانے والی کچھ کمزوریوں کا شکار اب بھی ہیں۔ شاہدرہ اسٹیشن پر سواریوں کے بس میں سوار ہونے کے لیے نظم و ضبط کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ بس میں سوار ہونے کے لیے ایسی دھکم پیل کہ خدا کی پناہ۔ بس میں نشستوں کی کل تعداد صرف انتالیس ہے جو کہ بزرگ، خواتین، بچوں اور معذور افراد کے لیے مختص ہیں، میٹرو بس کا فارمیٹ کھڑے ہو کر سفر کرنا ہے۔ نوجوان طبقہ اپنی طاقت کے زور پر ان نشستوں پر براجمان ہو جاتا ہے۔ بزرگ ان کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے کھڑے رہتے ہیں۔ دس میں سے دو افراد اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نشست کسی بزرگ کے لیے خالی کر دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ جذبہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ سواریوں کے بس میں سوار ہوتے ہی گیٹ کے سامنے والی جگہ پر جم کر کھڑے ہو جانے کا ہے جس کی وجہ سے بس کے اندرونی حصے میں جگہ ہوتے ہوئے بھی باہر کھڑی سواریاں حسرت کی تصویر بنی دکھائی دیتی ہیں، کوئی بھلا مانس شریف آدمی انھیں پیچھے ہٹنے کا کہہ دے تو چند شغل پسند نوجوانوں کا ٹولہ اس کی اچھی خاصی کلاس لے لیتا ہے۔ سو میں سے جو بیس فی صد جگہ خواتین کے لیے مختص ہے، اس میں سے بھی پانچ فی صد حصے پر چند منچلے نوجوان قابض رہنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ خواتین اور مردوں کے حصوں کے لیے درمیان میں کوئی حد بندی نہیں ہے اس کی وجہ سے خواتین خصوصاً اسکول و کالج کی بچیوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ مزید زیادتی یہ کہ محکمۂ پولیس کے ملازمین کو ڈی آئی جی کی ہدایت کے مطابق نظم سے ماورا قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مؤقف یہ اختیار کیا گیا ہے کہ انھیں اپنی ملازمتوں پر جلد پہنچنا ہوتا ہے اس لیے انھیں بس میں جلدی سوار ہونے کے لیے نہ روکا جائے۔ کیا باقی عوام گھر سے روزانہ تفریح کے لیے نکلتی ہے؟ ٹکٹ خرید کر سفر کرنے کے معاملے میں پولیس اور عام عوام بالکل برابر ہیں، چلیں یہ بھی غنیمت ہے۔ نوجوانوں سے خصوصی طور پر التماس ہے کہ وہ اپنے فرائض کو احسن انداز سے ادا کیجیے۔ خواتین، بزرگ اور معذور افراد کے لیے فوری طور پر نشست خالی کر دیجیے۔

    میٹرو ٹریک کا کارپٹ اس وقت کئی جگہ سے گڑھے پڑنے کی وجہ سے خراب ہو چکا ہے۔ بھاٹی چوک اسٹیشن کی حالت تو بہت ہی بری ہے۔ بس جب وہاں سے گزرتی ہے تو ایسے ہچکولے کھاتی ہے جیسے کسی ناہموار پہاڑی سڑک سے گزر رہی ہو۔ میرے میٹرو بس کے آفیشلی فیس بک پیج کے ذریعے سے توجہ دلانے پر ایک مرتبہ اس ٹریک کی مرمت ہو چکی ہے۔ سڑک کی خرابی کی وجہ سے یقیناً بسوں کو بھی اندرونی طور پر نقصان پہنچ رہا ہے۔ شہباز شریف صاحب، عوام ٹیکس اس وقت بھی دے رہی تھی جب ان کے پاس یہ سہولت موجود نہیں تھی، اس سہولت کی موجودگی میں ٹیکس اب بھی دے رہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس منصوبے میں بہتری لانا تو ایک طرف رہا، ٹریک کی انتہائی ضروری مرمت کو بھی مؤخر کیا ہوا ہے۔ پورے پاکستان سے شہریوں کی ایک بڑی تعداد صرف اسے دیکھنے اور اس میں سیر کرنے لاہور آتی ہے۔ جب وہ اس تجربے سے گزریں گے تو کیا تاثر لے کر اپنے شہروں کو لوٹیں گے؟ کسی بھی منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دینا ہی کافی نہیں ہوتا اسے جاری رکھنے اور اس میں بہتری لانے کے لیے اور بھی بہت سے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ سے انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے اس پر بھرپور توجہ دیجیے۔ یہ ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہے۔

  • غور فرمائیے‘ حضور والا!-ہارون الرشید

    غور فرمائیے‘ حضور والا!-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    قوموں اور ملکوں کو سب سے بڑھ کر امن اور استحکام درکار ہوتا ہے۔ بھارت ایسا دشمن ہے جس کی پشت پہ امریکہ کھڑا ہے اور اس پر یہ غیر ذمہ داری ‘غور فرمائیے‘ حضور والا‘ غور فرمائیے۔
    تحریک انصاف اب ایک جماعت ہے۔ جمعہ کو رائے ونڈ روڈ کے اجتماع سے یہ نکتہ آشکار ہے۔ وقت آ گیا کہ اس کے مخالفین‘ اب سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ خود اس کے اپنے کارکن اور رہنما بھی۔ کل عمران خان ملک کے وزیراعظم بن گئے تو نون لیگ کیا کرے گی اور وہ نون لیگ کے ساتھ کیا کریں گے؟

    اندیشہ بڑھتی ہوئی تلخی سے جنم لیتا ہے۔اس غیر ذمہ دارانہ طرزعمل سے جو ہر طرف کارفرما ہے۔ اجتماع کا ابھی آغاز تھا کہ ایک نیم سرکاری چینل نے ایک خاتون کے ساتھ مبینہ بدتمیزی کا واویلا شروع کیا۔ ممکن ہے کسی گنوار نے چھچھور پن کا مظاہرہ کیا ہو‘ مگر یہ تو ایک مہم تھی۔ پیپلز پارٹی کے جلسوں میں گاہے ایسے واقعات ہوا کرتے۔ خوش بختی یہ تھی کہ الیکٹرانک میڈیا سرگرم نہ تھا۔ مقبولیت کی دوڑ اخبارات میں بھی ہوتی ہے‘ لیکن ایک ذرا مختلف انداز میں۔ لکھنے والے کے پاس غور و فکر کا وقت ہوتا ہے۔ پھر وہ کسی نہ کسی مدیر کی تنقیدی نگاہ سے گزرتا ہے۔

    ”قسم ہے قلم کی جو کچھ وہ لکھتے ہیں‘‘۔ تحریر کی ایک تقدیس ہوتی ہے۔ ٹیلی ویژن ایک عجیب و غریب چیز ہے۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ آپ ستر کے ستر چینل دیکھ لیجئے‘ کہیں ڈھنگ کی کوئی بات نہ ہو رہی ہو گی۔ جب وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں ایک واقف حال نے بتایا کہ کس طرح کے پروگرام وہ دیکھتے ہیں‘ تو میں ہکا بکا رہ گیا۔ خود وزیراعظم طیب اردوان نے ایک بار انہیں ٹوکا تھا۔ کتاب سے جس کا رشتہ نہ ہو‘ صاحبان علم کی صحبت سے گریز ہو‘ خیال و فکر کی گہرائی اور بالیدگی اس میں کہاں سے آئے گی۔ خود تنقیدی کا شعور کس طرح پیدا ہو۔

    نجیب اور کامران حاکم وہ تھے‘ اعتراض اور اختلاف کرنے والوں کو جو دعوت دے کر بلایا کرتے۔ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ اور جناب عمر بن عبدالعزیزؒ‘ دونوں کا شعار یہ تھا۔

    حجاج بن یوسف وہ پہلا بدبخت تھا‘ اسلام قبول کرنے والوں سے بھی‘ جس نے جزیہ وصول کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بنو امیہ میں پھر یہ شعار ہو گیا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ جب سلیمان بن عبدالملک کے وارث قرار پائے‘ اپنی جاگیروں سمیت‘ شاہی خاندان کی سب جاگیریں منسوخ کر دیں۔ پھر نو مسلموں سے جزیہ وصول کرنے کا سلسلہ موقوف کرنا شروع کیا۔

    ٹوکنے والا ان کے گھر میںموجود تھا۔ ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد شب بھر جاگتے رہے تھے۔ یوں بھی شب بیدار تھے‘ کم ہی سویا کرتے۔ رات گئے مشورے کا سلسلہ جاری رکھتے۔ چن چن کر کھرے لوگوں کو جمع کرتے۔ فقہ سے شغف سوا تھا۔ بہت بعد میں آنے والے صلاح الدین کی طرح‘ عمر بھر سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک زمانے میں خود اس قدر دسترس تھی کہ بڑے بڑے ششدر رہ جاتے۔ ایوان اقتدار کا شہزادہ‘ رئیسانہ زندگی‘ مدینہ کے گورنر بنائے گئے تو ستر اونٹوں پر سامان لد کر گیا۔جس گلی سے گزرتے خوشبو گواہی دیتی۔ نجابت تب بھی ایسی تھی کہ جناب امام حسینؓ کی صاحبزادی تشریف لائیں تو مو￿دب کھڑے رہے۔

    بنو امیہ نے ستم یہ کیا تھا کہ سیدنا علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ‘ پہ تبریٰ کیا کرتے۔ یک قلم اسے منسوخ کر دیا ۔ احترام سے اہل بیت کا نام لیتے۔ دوپہر ہوئی تو کہا کچھ دیر آرام کر لوں۔ فرزند عبدالملک نے کہا : اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ سو کر اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ ابھی احکامات صادر کیجئے۔

    گاہے طبیعت میں جلال جاگ اُٹھتا۔ ایسے ہی ایک موقع پر عبدالملک نے ٹوکا : آپ تو غصے میں آ گئے۔ کہا : فرزند کیا تمہیں کبھی غصہ نہیں آتا۔ اس کا پیٹ کچھ بڑا تھا۔ کہا : اس پیٹ کا کیا فائدہ‘ اگر میں برہمی ہضم نہ کر سکوں۔

    ایک کے بعد دوسرے گورنر کو لکھتے کہ نو مسلموں سے جزیہ نہ لیا جائے۔ بعض اوقات افراد اور علاقوں کے نام لکھ بھیجتے کہ فلاں سے زیادتی ہے۔ ایک کے بعد دوسرے مشیر نے جب یہ کہا کہ اس طرح آمدن کم ہو جائے گی تو کہا : اللہ نے اپنے آخری پیغمبر کو تحصیلدار بنا کر نہیں بھیجا تھا۔ اتنی کثرت سے یہ جملہ برتا کہ ضرب المثل ہو گیا۔ ایک دن کہا : میں چاہتا ہوں کہ میں خزانے جھاڑ دے دوں۔

    یاللعجب ‘کم ہونے کی بجائے ٹیکس بڑھنے لگا۔ اب تو ایک طرح کی عبادت ہی تھی۔ سرمائے پر سب سے بڑا حق اب محتاجوں کا تھا۔ لشکروں کے اخراجات‘ سڑکیں اور پل۔ آخری برس آمدن ساڑھے دس کروڑ سے تجاوز کر گئی۔ عمر فاروق اعظمؓ کے دور سے ایک ڈیڑھ فیصد کم۔ کہا : انشاء اللہ اگلے برس‘ ان کے دور سے بھی بڑھ جائے گی ۔وہ سال مگر ان پر طلوع نہ ہوا۔ قیصر روم نے ان کی وفات پر کہا تھا : بادشاہ نہیں‘ وہ ایک راہب تھا۔ دنیا اس کے قدموں میں ڈھیر کر دی گئی مگر اس نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ پھر صلاح الدین ایوبی نے اس طریق کو زندہ کیا ۔بہت بعد میں ایک حد تک سلطان ٹیپو نے۔ مغربی ممالک سے ڈیڑھ صدی پہلے‘ 1799 ء میں تو وہ دنیا کو خیرباد کہہ گئے۔

    اقتدار اور دولت کے بھوکوں کو کون بتائے کہ ہاتھ اٹھا لینے میں کیسی عافیت اور رفعت ہے۔ ٹیپو کے حسن اخلاق کا عالم یہ تھا کہ ہزاروں لوگ‘ اس کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ان میں ایک ڈاکو بھی تھا‘ سلطان شہید کے بعد جس نے جنگل کا رُخ کیااور دو برس تک انگریزوں سے برسر جنگ رہا۔ اقبالؔ کو یونہی ان سے عقیدت نہ تھی۔ اس کے مزار کا قصد کیا اور کتنی ہی نظمیں لکھ ڈالیں ؎

    روز ازل مجھ سے یہ جبریل نے کہا
    جو عقل کا غلام ہو‘ وہ دل نہ کر قبول

    اقبالؔ کے ہاں عقل ایک اور معنی رکھتی ہے۔ وحی کی روشنی سے محروم منصوبہ بندی کا استعارہ۔
    دانش تو وگرنہ دین کا حصہ ہے‘ ایمان‘ ایثار اور حکمت۔ہاں !مگر دنیا کی محبت۔ قرآن کریم کہتا ہے ”مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘‘۔ فرمایا” آدمی میں دولت کی محبت زیادہ ہوتی ہے‘‘ جنگ اسی سے لڑنا ہوتی ہے۔ خود اپنی جبلت سے۔ یہی جہاد اکبر ہے۔ روزہ رکھنا مشکل سہی‘ مسافروں اور محتاجوں کو کھلانا اس سے زیادہ مشکل ہے۔ روحانی بالیدگی مگر اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اہل ایمان کے بارے میں اسی لیے کہا گیا ”ایثار کرتے ہیں‘ خواہ تنگ دست ہوں… اور یہ بھی کہ ”وہ غصّہ پی جاتے ہیں‘‘۔

    شکایت اور اختلاف ایک چیز ہے‘ عداوت اور بغض و عناد بالکل دوسری۔ اسی زمین پر آدمی کی جو آزمائشیں ہیں‘ ان میں سے ایک بڑی آزمائش کو اسی طرح بیان کیا گیا ہے:” تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے‘‘۔ فضیلت معاف کرنے میں رکھی گئی‘ انتقام میں نہیں۔
    عمران خان اور اس کے حریفوں میں اختلاف نہیں‘ اب بغض و عناد کارفرما ہے۔ دونوں ہی گروہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ سرکاری اخبار نویس اور بعض وزراء کرام اس کو ہوا دیتے ہیں۔ سرکاری صحافیوں کی تنقید بے ثمر ہو گی۔ تمام کاوشیں بے نتیجہ رہیں گی۔ درباریوں کی گواہی کون تسلیم کرتا ہے؟

    جمعہ کے جلسہ عام کے لیے قافلے ملک بھر سے آئے۔ انتظامات میں بھی سلیقہ دکھائی دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف پارٹی بنتی جا رہی ہے۔ اب یہ امکان موجود ہے کہ کسی وقت وہ اقتدار حاصل کر لے۔ پاکستانی تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ کسی بھی حکمران کو زیادہ سے زیادہ دس گیارہ برس تک گوارا کیا جاتا ہے۔ پھر حامی بھی اکتا جاتے ہیں‘ وہ بھی ووٹ ڈالنے نہیں جاتے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ پنجاب‘ سرحد میں یہ سانحہ ہو چکا۔ نون لیگ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔

    احتساب کا مطالبہ جائز مگر عمران خان کا لہجہ ناموزوں ہے ۔ ظاہر ہے کہ نون لیگ کا بھی۔ اگر پی ٹی آئی ‘شریف حکومت کو اکھاڑ پھینکے۔ فرض کیجئے ‘اس کے بعد وہ اقتدار بھی پا لے تو ملک کو قرار اور استحکام حاصل نہ ہو گا۔
    قوموں اور ملکوں کو سب سے بڑھ کر امن اور استحکام درکار ہوتا ہے۔ بھارت ایسا دشمن ہے جس کی پشت پہ امریکہ کھڑا ہے اور اس پر یہ غیر ذمہ داری ‘غور فرمائیے‘ حضور والا‘ غور فرمائیے۔

  • جمعیت نے مجھ پر بہت تشدد کیا – طارق حبیب

    جمعیت نے مجھ پر بہت تشدد کیا – طارق حبیب

    طارق حبیب میں نے سوال کیا کہ آخر تم بتا کیوں نہیں دیتے کہ جمعیت نے تم پر کیا ”مظالم“ ڈھائے ہیں تو وہ بولا:
    ”میں اپنے اوپر کیے گئے اسلامی جمعیت طلبہ کے مظالم کبھی بھول نہیں سکتا۔ جمعیت کے دیے گئے ”زخم“ آج بھی رستے ہیں۔ مجھے جب موقع ملتا ہے میں جمعیت اور جمعیت والوں سے اس کا ”بدلہ“ لیتا رہتا ہوں اور لیتا رہوں گا۔ مجھے اسی طرح کچھ سکون ملتا ہے.“
    پھر اس نے تفصیل بتانی شروع کی ۔
    ۔
    میں کراچی کے علاقے لانڈھی کورنگی کے ماحول میں بڑا ہوا۔ کالج تک پہنچتے ہوئے ہمارے علاقے میں متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قومی موومنٹ کی جنگ عروج پر تھی۔دونوں جانب سے ایک دوسرے کے نوجوانوں کا قتل عام جاری تھا۔ میرے اسکول کے زمانے کے دوستوں کی اکثریت مہاجر قومی موومنٹ میں شامل ہوچکی تھی اور متحدہ قومی موومنٹ کے ”مرغے“ مارنے کے کارنامے بڑے فخر سے بتاتے تھے۔ میں اگرچہ اردو بولنے والا نہیں تھا مگر ماحول کے عطاکردہ دوستوں کے ساتھ ان کے رنگ میں ڈھلتا جارہا تھا۔ ان کی یونٹ آفس پر حاضری ہوتی تو میں ساتھ ہوتا جہاں گزرے دن کی کارروائیوں کی تفصیل پوچھی جاتی اور آنے والے دن کی منصوبہ بندی کی جاتی۔ رات کو خوب شراب و شباب کی محفلیں، دن رات اسی طرح گزرتے جارہے تھے، اور میں زمانے کی رنگینیوں سے خوب لطف اندوز ہو رہا تھا۔
    ۔
    ایک دن یونٹ آفس سے حکم نامہ جاری ہوا کہ لانڈھی ڈگری کالج میں متحدہ قومی موومنٹ کا قبضہ ہے، وہ چھڑانا ہے۔ سخت مزاحمت ہوگی اس لیے مکمل تیاری سے جانا۔ قبضہ چھڑانے والی ٹیم میں شہباز (کشمیری)، یاسر (کشمیری)، دانیال (پٹھان)اور مجھ سمیت مختلف قومیتوں کے 22 لڑکے تھے۔ سب کے سب مفت کی عیاشی، بدمعاشی اور فحاشی کے ساتھ ساتھ معاشی فائدے کے عوض مہاجر نظریے کا ساتھ دے رہے تھے۔ خیر لانڈھی ڈگری کالج جو ایک گرائونڈ میں قائم ہے۔ اس کے سامنے کے علاقے پر متحدہ اور عقبی علاقے پر مہاجر قومی موومنٹ کا قبضہ تھا۔ کالج کے اطراف میں ہو کا عالم ہوتا تھا۔ کالج کا گرائونڈ نامعلوم تشدد زدہ لاشیں ملنے کے حوالے سے مشہور تھا، (اسلم مجاہد شہید کی لاش بھی اسی علاقے سے ملی تھی)۔ اس کالج کے سامنے تقریبا دو کلومیٹر کے فاصلے پر گرلز کالج تھا۔ ان لڑکیوں کو کالج جانے اور واپسی کے لیے بوائز کالج کے سامنے والا بس اسٹاپ ہی استعمال کرنا ہوتا تھا۔ وہاں سے ”کال مارکسی“ نظریات کے فروغ میں مصروف درویش کی بہنیں، جو سچی محبتوں کی متلاشی ہوتی تھیں، انھیں رکشہ، ٹیکسی اور نجی گاڑی کے ذریعے کالج کے عقب میں رہائش کے لیے فراہم کردہ تنظیمی کمروں میں لے جا کر خوب محبت فراہم کی جاتی تھی۔
    ۔
    کالج پر قبضہ کی لڑائی ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔ فائرنگ سے پورا علاقہ گونج رہا تھا۔ مہاجر قومی موومنٹ کو علاقے کا فائدہ تھا جس کی وجہ سے متحدہ قومی موومنٹ کے لڑکوں نے کالج چھوڑنے میں ہی عافیت جانی۔ کالج کے اسٹاف کے کمرے صرف دو کاموں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اسلحہ ڈمپ کرنے، مفروروں اور قاتلوں کو روپوش اور ”سہولیات“ فراہم کرنے کے لیے۔ ویسے تو مہاجر قومی موومنٹ نے اس کالج پر چار سال قبضہ بنائے رکھا، اور جب مشرف حکومت آئی، متحدہ کو اقتدار ملا تو بیت الحمزہ کو مسمار کیے جانے کے ساتھ ہی کالج کا قبضہ بھی متحدہ کے پاس چلا گیا۔ اس دوران ایک سال تک ہمارا ٹولہ مسلسل کالج آتا رہا۔
    ۔
    اس کالج میں پہلی دفعہ اسلامی جمعیت طلبہ سے واسطہ پڑا۔ ہوا کچھ یوں کہ متحدہ نے دوبارہ انٹری کی کوشش نہیں کی، مگر پھر بھی منصوبہ بندی کے تحت 8 لڑکوں کو کلاشنکوفوں اور ٹی ٹی پسٹل کے ساتھ کالج کی عمارت کی عقبی دیوار کے ساتھ بیٹھنا ہوتا تھا، جبکہ دو لڑکے فرنٹ سائیڈ پر متحدہ کے لڑکوں پر نظر رکھنے کے لیے موجود ہوتے تھے۔ متحدہ کی جانب سے خاموشی کے بعد توجہ اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب ہوئی۔ اس وقت لانڈھی کالج میں جمعیت کے 20 سے 25 نوجوان آتے تھے، پڑھتے تھے، آپس میں بیٹھتے تھے، اساتذہ سے نشستیں کرتے تھے اور آپسی نشستیں کرکے واپس چلے جاتے تھے۔ ایک دن فیصلہ کیا گیا کہ کالج میں مہاجر قومی موومنٹ کے علاوہ کوئی تنظیم نہیں ہوگی۔جمعیت والوں کو بلایا گیا اور کہا گیا کہ کل سے کالج مت آنا۔ اس دوران تین لڑکوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ لڑکے چلے گئے مگر اگلے روز وہ پھر کالج میں موجود تھے۔ انھیں بلا کر گالیاں دی گئی۔ اس حوالے سے یاسر اور ابراہیم نے انھیں دیواروں کے ساتھ کھڑا کرکے ان کے دائیں بائیں نشانہ بازی بھی کی۔ ایک کو کہا کہ کلمہ پڑھو۔ وہ بس ایک بات کہہ رہے تھے کہ ہمارا تمہارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ یہ حربے آزمانے کے بعد انھیں گھر جانے کی اجازت دیدی۔ مگر اگلے روز زخمیوں سمیت یہ لڑکے پھر کالج میں تھے۔ اپنی کلاسوں میں، اساتذہ کے ساتھ، پرنسپل کے ساتھ۔ ہمیں پتہ تھا یہ ظہر کی نماز کے لیے اکٹھے جاتے ہیں۔ ہم تیاری سے بیٹھ گئے اور جب یہ لوگ مسجد کی طرف روانہ ہوئے تو ہم نے راستے میں حملہ کردیا۔ تمام لڑکے ہی بری طرح زخمی ہوچکے تھے اور چلنے کے بھی قابل بھی نہیں تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ اب یہ لوگ کالج نہیں آئیں گے۔ اور واقعی وہ اگلے دن کالج نہیں آئے۔ مگر تین چار دن بعد ان لڑکوں میں سے بیشتر واپس کالج میں موجود تھے۔ ہم ان لڑکوں سے چھٹی میں نمٹنے کی منصوبہ بندی کر ہی رہے تھے کہ متحدہ کے لڑکوں نے پوری قوت سے کالج کا قبضہ واپس لینے کے لیے حملہ کردیا۔ وہ قبضہ تو واپس نہیں لے سکے مگر انھیں نے ہر دوسرے دن قبضے کے لیے ہم پر حملے شروع کردیے۔ جس کی وجہ سے ہماری توجہ جمعیت کی جانب سے ہٹ گئی۔
    ۔
    جمعیت کے کچھ لوگ میرے محلے میں بھی رہتے تھے، انھوں نے ہم پانچ دوستوں کو تشدد کا بدلہ لینے کے لیے ”ہدف“ بنا لیا۔ وہ جس جگہ ٹکراتے، مجھے اور میرے دیگر چار دوستوں کو زبردستی پکڑ لیتے۔ اپنے ساتھ بٹھا لیتے۔ انھیں پتا تھا کہ ہمیں کرکٹ کا جنون ہے۔ جب بھی کوئی میچ ہوتا زبردستی ساتھ لے جاتے۔ یہ تعلقات آہستہ آہستہ بڑھتے چلے گئے۔ پھر کھیل کے بعد مغرب کی نماز میں بھی شمولیت ہونے لگی اور نماز کے بعد مسجد کے لان میں ہلکی پھلکی گفتگو۔ انھی دنوں میں متحدہ نے انٹری کی کوشش کے دوران حملہ کیا تو ہمارے ٹولے کے دو کشمیری لڑکے یاسر اور دانیال مارے گئے۔ جس کے بعد مہاجر قومی موومنٹ کے ذمہ دار فیروز حیدر (اے پی ایم ایس او حقیقی کا سربراہ تھا جو بعد میں متحدہ میں شامل ہوا) نے گروپ توڑ دیا اور لانڈھی کالج جانے سے منع کردیا۔ پھر ایک لڑکا لانڈھی بابر مارکیٹ کا رہائشی ”ابراہیم“ فیروز حیدر سے اختلاف کرنے کے بعد گھر جاتے ہوئے نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں مارا گیا۔ لڑکوں کے مارے جانے اور گروپ توڑنے سے ہمارا جمعیت کے لڑکوں کے ساتھ میل ملاپ بڑھ گیا۔ اب معاملات کرکٹ، نمازوں سے بڑھتے جارہے تھے۔ اس جانب ایک عجیب سا سکون محسوس ہونے لگا مگر پھر جمعیت نے اپنے تشدد کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ پہلا تشدد یہ کیا کہ ہمارا تعلیمی سلسلہ بحال کرایا جو ایک عرصہ سے چھوٹ چکا تھا مگر ہماری جگہ کوئی ”ماہر“ بیٹھ کر پرچے دیتے تھے اور جو مارک شیٹ ہم گھروں پر دکھاتے تھے وہ اے ون گریڈ کی ہوتی تھیں۔ جمعیت کے لڑکوں نے میرے اور میرے دوستوں کے تعلیمی اخراجات ادا کیے۔ تعلیمی سلسلہ بحال ہوا تو ”فرینڈز اکیڈمی“ کے نام سے کورنگی جے ایریا میں ایک ٹیوشن سینٹر ہوتا تھا جس میں دو لڑکے بطور اساتذہ پڑھاتے تھے۔ اس سینٹر میں انھوں نے بلامعاوضہ ہمیں ٹیوشن پڑھانی شروع کی۔گھر والے بھی جمعیت کے اس تشدد سے ہمارے اندر ہونے والی تبدیلیوں سے خوش تھے۔ جمعیت کے تشدد سے مجھ میں اور میرے دوست میں آنے والی تبدیلیوں کو محلے والوں نے بھی محسوس کیا کیونکہ اب محلے والے ہمارے شر سے خود کو محفوظ محسوس کرتے تھے۔
    ۔
    اسی دوران گھر والوں نے علاقہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ میں پریشان ہوگیا کہ نئے علاقے میں نئے لوگ پتا نہیں کیسے ہوں گے۔ اور اگر متحدہ کے ہوئے اور انھیں میرے مہاجر قومی موومنٹ سے تعلق کا علم ہوگیا تو مسئلہ ہو جائے گا۔ مگر اس کا حل بھی جمعیت والوں نے نکال دیا اور جس میں علاقے میں شفٹنگ ہوئی، وہاں جمعیت اور شباب ملی کے لوگوں کو پہلے سے آگاہ کردیا گیا اور ساتھ ہی مجھے ان سے ملوا بھی دیا گیا۔ جب علاقہ تبدیل کرکے نئے علاقے میں پہنچا تو مجھے نئے علاقے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی۔ تعلیمی سلسلہ چل نکلا۔ جمعیت کا تشدد انٹر تک ہی محدود نہیں رہا۔ جمعیت کا یہی تشدد ہمیں گریجویشن اور پھر ماسٹر میں بھی برداشت کرنا پڑتا۔ یہ جمعیت کا تشدد ہی تھا کہ ہم نے تعلیمی سلسلہ بحال کیا ورنہ لانڈھی کالج کے گرائونڈ سے ملنے والی نامعلوم لاشوں میں چند نامعلوم لاشوں اضافہ ہی ہوتا۔
    ۔
    نئے علاقے کے لوگوں میں جماعت کے لوگوں سے واقفیت ہوئی۔ تشدد کرنے میں وہ اپنے بچوں سے زیادہ تیز تھے۔ تشدد کا باقاعدہ سلسلہ باقاعدہ طور پر میرے ہاتھ میں ”شہادت حق“ نامی کتابچہ تھما کر شروع کیا گیا اور ساتھ ہی یہ الفاظ کہے گئے کہ اس کا مطالعہ کرنا ایک دو دن میں اس پر بات کریں گے۔ تشدد سخت ہوتا گیا اور صفحات کی بڑھتی تعداد کتابچے سے کتب میں بدل گئی۔
    ۔
    اور ہاں سنو۔ جب عملی زندگی کا آغاز ہوا تو بھی نہیں چھوڑا۔ ”نمک کی کان میں نمک مت ہوجانا“ ان الفاظ کی گردان مسلسل خود احتسابی کا شکار رکھتی ہے۔ یہ الفاظ ہتھوڑے کی طرح برس رہے ہوتے ہیں، ہتھوڑے کے وار سہنا آسان کام ہے، اس سے بھیانک تشدد ہوسکتا ہے؟
    ۔
    یہ لوگ بدترین تشدد کے عادی ہیں۔ وحشیانہ تشدد کے ذریعے ہمارے اندر کے جانور کو مار دیا۔ ہمیں تعلیم کی جانب راغب کردیا۔ ہمارتے بہکتے جگ راتوں کو درسی شب بیداریوں سے بدل دیا، نفس کے غلاموں کو آزاد کرایا، دوستی، دشمنی اللہ کے لیے کرنا بتایا،گولی سے جھکانے کی خصلت رکھنے والوں کو محبت سے اسیر کرنے کے گر سمجھائے، درس قرآن سے دل نرم بنائے، اب اس سے بڑھ کر تشدد کیا ہوگا کہ ترکی، افغانستان، چیچنیا، بوسنیا، عراق، شام سمیت کہیں امت کے کسی فرد کو تکلیف میں دیکھیں تو آنسو نکل پڑیں، راتیں رب سے دعائیں کرتے گزر جائیں۔ جمعیت کے ”تشدد“ کے ان بھیانک ”طریقوں“ نے کیا حال بنا دیا ہے ہمارا، ہم جمعیت کے ”مظالم” کبھی نہیں بھول سکتے۔ آج ہمارے ٹولےکا ایک فرد دفاعی ادارے میں، ایک سول ایوی ایشن میں اور ایک کسٹم میں ہے، ایک لڑکا سعید جسے مہاجر قومی موومنٹ سے تعلق توڑنے پر اس کے دہشت گرد ناصر چنگاری نے فائرنگ کرکے زخمی کردیا تھا مگر وہ بچ گیا تھا، دائود انجینئرنگ سے پڑھنے کے بعد اب دبئی میں جاب کر رہا ہے۔ یہ سب لوگ اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ جمعیت کے تشدد کا ہی نتیجہ ہے، ورنہ آج کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ہو کر چہرہ پر کپڑا ڈلوا کر کسی عدالت میں پیشیاں بھگت رہے ہوتے اور پٹھانوں، پنجابیوں سمیت سو سو قتل کا اعتراف کر رہے ہوتے۔
    ۔
    چلو اب ان کی تنقید پر بات کرلیتے ہیں:
    سنا ہے آج کل سخت تنقید ہو رہی ہے جمعیت پر۔ لاہور کے کسی کونے کھدرے میں کیے جانے والے کسی فرد کے انفرادی فعل کو جواز بنا کر ایک عالمی سطح کی تنظیم کی اجتماعیت پر تنقید۔ ان کے مقابلے میں جب نام و نشان سے محروم ہو جانے والے لوگ اپنے نظریات کو عالمی کہتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ کراچی کے مشاہدات، لاہور کے کسی مشاہدے کا جواب نہیں ہوسکتے مگر یہ ضرور بتاتے ہیں کہ مختلف صوبوں، شہروں، علاقوں میں کام کرنے والی تنظیم پر تنقید کے لیے کم از کم کہانیاں بھی تو اسی سطح کی لائو۔ اس پر بات کیوں نہیں کرتے کہ کراچی کے تعلیمی اداروں میں جب متحدہ قومی موومنٹ داخل ہوئی اور طلبہ کی لاشیں ملنا معمول بن گیا تو ان تعلیمی اداروں سے نیشنلزم، سوشلزم، کمیونزم دبا کر بھاگ گئے تھے۔ کراچی کے تعلیمی اداروں میں اگر کسی نے لسانیت و فسطائیت کا مقابلہ کیا اور ہر قسم کے حالات میں ان کے سامنے موجود رہی تو وہ تھی اسلامی جمعیت طلبہ۔

    کوئی کہتا ہے کہ اس کا شجرہ نسب کارل مارکس سے ملتا ہے۔ ہے نا حیرت کی بات۔ کارل مارکس جو کہ نسب کے شجر پر یقین ہی نہیں رکھا۔ ولدیت کا خانہ ہی نہیں ہوتا۔ اس کے نسب کا شجر؟۔ ارے ان کے ”نسب“ کا شجر نہیں بلکہ خودرو جھاڑیاں ہوتی ہیں، خود ہی پیدا ہوتی ہیں، ایک دوسرے میں پیوست، پتا ہی نہیں چلتا کہ کون سے جھاڑی ”کہاں سے نکلی“، بات کرتے ہیں نسب کے شجر کی۔
    ۔
    چلو سنو امریتا پریتم کہتی ہے کہ میرے بڑے بیٹے کی شکل ساحر لدھیانوی سے ملتی ہے۔ ایک دن بیٹا پوچھنے لگا کہ امی مجھے بتائیں اگر میں ساحر ”انکل“ کا بیٹا ہوں تو مجھے کوئی شرمندگی نہیں بلکہ فخر ہے۔ تو امریتا نے کہا کہ نہیں تم ساحر کے بیٹے نہیں ہو، بس جب تم پیدا ہونے والے تھے تو ساحر میرے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا۔ درویشوں کے بچے اپنی ولدیت سے مشکوک اور بات کریں شجرہ نسب کی۔ طوائف کہے میری بھی کوئی عزت ہے۔
    ۔
    کہتے ہیں مارکسی تعلیمات کے فروغ کو جمعیت روکتی ہے۔ جمعیت مزاحمت برداشت نہیں کرتی۔ ارے تاریخ تو پڑھو! مزاحمت تو برداشت ہی جمعیت نے کی ہے۔ جمعیت اپنا موقف پیش کرتی ہے، پھر جو چاہے اپنا لے۔ جامعہ پنجاب میں چار چھ کا ٹولہ اور جمعیت کی اکثریت، پھر تم لوگوں نے تعلیم مکمل کرلی اور کہتے ہو کہ جمعیت مزاحمت قبول نہیں کرتی۔ اگر تمہارا وہ حال جمعیت نے کیا ہوتا جو لانڈھی ڈگری کالج میں جمعیت والوں کا ہوا تھا تو تم امی کی گود سے ہی باہر نہ نکلتے۔

    ارے ہاں! ان کے اعتراض دیکھو، 100 اعتراض کرنے والوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں ملےگا جس کی تحریر میں لڑکا لڑکی کے تعلق پر جمعیت کے مشتعل ہونے کا ذکر نہ ہو۔ اصل میں مارکسی پیروکاروں کے دماغ ازار بند میں مقید ہوتے ہیں۔ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ جمعیت تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتی اور اپنے نظریات مسلط کرتی ہے۔ یہ کون سی تعلیم ہے جس آغاز اور اختتام اپنی”کارل مارکسی“ ہم خیال سے چمٹ کر ہی ہوتا ہے، اس لیے سوچ اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ یہ جو تشدد کا رونا روتے ہیں نا۔ انھیں بتائوں کہ تشدد کیا ہوتا ہے۔تشدد وہ ہوتا ہے جو یونٹ آفسز میں سکھایا جاتا تھا۔ جسم میں قدرتی سوراخ یونٹ والوں کو کم لگتے تھے، اس لیے ڈرل مشین کے ذریعے جسم کو چھلنی بنا دیا جاتا تھا۔ یہ ہوتا ہے تشدد، جو جمعیت نے تیس سال تک سہا ہے، پامال لاشوں کی تصاویر گواہ ہیں۔ اور تم غلطی سے جلتی سگریٹ پر بیٹھ گئے تو اس کا نشان لے کر گھوم رہے ہو اور الزام جمعیت کے سر تھوپ دیتے ہو۔
    ۔
    اور ہاں ہمیں معلوم ہے کہ تمھارا غم کیا ہے، این ایس ایف تاریخ کا حصہ ہوئی، ترقی پسندی امریکی تیل میں تلی جا رہی ہے، سرخ سویرے نے یہاں کیا آنا تھا، ماسکو میں ہی اسے جگہ نہ ملی اور سب کو بےیارومددگار چھوڑ گیا، اور تم میں ایک بھی صاحب کردار نہ نکلا، سب نے رنگ بدلنے میں گرگٹ کو بھی مات دے دی، اسی امریکہ کو مائی باپ بنا لیا، جس کے خلاف صبح شام انقلاب کی نوید سناتے تھے. جمعیت اس کے مقابلے میں اب تک ملک کے کونے کونے میں موجود ہے، پہلے سے زیادہ توانا ہے. اور تمھارے لیے سستی ریٹنگ کے حصول کا ذریعہ بھی، اور نہ سہی یہی احسان مان لو جمعیت کا کہ تمھاری بھی روٹی روزی کا ذریعہ ہے. ماسکو سے واشنگٹن تک.

    اچھا چھوڑو ان کو! بس میں نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ جمعیت سے بدلہ لیتا رہوں گا۔ اس کے تشددکا۔ تو اب میں اپنے جیسے کسی کو بھی پکڑتا ہوں اور اس پر یہی تشدد کرتا ہوں جو جمعیت نے مجھ پر کیا۔ جمعیت کا کوئی فرد ہاتھ لگے تو اس کے دماغ پر ہتھوڑے برسا کر ہی تشدد کرتا ہوں۔ یہ سلسلہ جاری رہےگا کیونکہ اس سے مجھے تسکین ملتی ہے۔

    (طارق حبیب آج نیوز میں سینئر پروڈیوسر ہیں)

  • یوم دفاع-جاوید چوہدری

    یوم دفاع-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    یہ فیصلہ 26 اگست 1941ء کو ناگپور میں ہوگیا تھا‘ آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا پانچواں سالانہ اجلاس تھا‘ قائداعظم صدارت کر رہے تھے اور شرکاء نوجوان طالب علم تھے‘ قائداعظم نے فرمایا ’’ہمیں ایمان‘ تنظیم اور اتحاد کی ضرورت ہے‘ آپ انھیں اپنا جماعتی نعرہ بنائیں اور عہد کریں‘ آپ ہمیشہ اس پر قائم رہیں گے‘‘ قائداعظم نے بمبئی (موجودہ ممبئی) میں 27 جولائی 1946ء کو کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے بھی کہا تھا ’’آپ اپنا ماٹو معلوم کرنا چاہتے ہیں‘ ہمارا ماٹو ہے‘ ڈسپلن‘ یونٹی اور ٹرسٹ‘‘ قائداعظم کی ٹرسٹ سے مراد ایمان تھی‘ وہ ہمیشہ ایمان کو فوقیت دیتے تھے‘ قیام پاکستان کے بعد ملک کے مونوگرام کا مرحلہ آیا‘ وزیراعظم لیاقت علی خان نے ایمان‘ اتحاد اور نظم تین لفظ لکھے اور یہ الفاظ پاکستان کا مونو گرام بن گئے۔

    یہ مونو گرام آپ کو آج کے ہر سرکاری خط‘ ہر سرکاری لیٹر ہیڈ‘ ہر سرکاری دستاویز اور ہر سرکاری معاہدے پر نظر آتا ہے اور آپ اس کے نیچے ایمان‘ اتحاد اور نظم یہ تین لفظ بھی پڑھ سکتے ہیں‘ یہ تین لفظ پاکستان کے تین بڑے مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں‘ میں جب بھی ملک کا مونو گرام دیکھتا ہوں‘ میں اٹھ کر قائداعظم کی بصیرت کو سلام کرتا ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ ہمارے قائد 75 سال پہلے 1941ء میں بھانپ گئے تھے پاکستان کے اصل مسائل کیا ہوں گے اور ہمیں وقت گزرنے کے ساتھ اپنی بقا کے لیے کیا کیادرکار ہوگا۔

    ہمارے قائد جان گئے تھے ایمان کے نام پر بننے والے پہلے اسلامی ملک کے عوام بڑے بے ایمان ہوں گے‘ یہ سجدہ ایک خدا کو کریں گے لیکن ان کے دل میں ہزاروں خدا ہوں گے‘ یہ امریکا سے لے کر چین تک اور ڈالر سے لے کر یوآن تک ہر خدا کو اصل خدا پر فوقیت دیں گے‘ یہ لوگ جہاد بھی امریکی ڈالر سے کریں گے‘ یہ بے ایمانی کے ان درجوں تک چلے جائیں گے جہاں یہ جعلی آب زم زم بیچیں گے‘ قرآن کی اشاعت کے نام پر مسلمانوں کو لوٹیں گے‘ مسجدوں کے چندے ہڑپ کر یں گے‘ حاجیوں سے فراڈ کریں گے‘ چور اور فراڈیئے فراڈ سے پہلے داڑھی رکھ لیں گے۔

    یہ مخالف فرقے کی مسجدیں اور امام بارگاہیں ڈھا دیں گے‘ یہ کفر کے فتوے جاری کریں گے‘ اسلام کے نام پر لوگوں کو قتل کریں گے‘ یہ درگاہوں اور گدیوں کو دکانیں بنائیں گے‘ یہ دواؤں‘ دودھ‘ چینی‘ آٹے اور دالوں میں زہر ملائیں گے‘ یہ بچوں کے اعضاء نکال کر بیچ دیں گے‘ یہ عورتوں کے منہ پر تیزاب پھینکیں گے‘ بیویوں پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دیں گے‘ یہ عیسائیوں‘ ہندوؤں اور سکھوں کو قتل کریں گے اور یہ اللہ‘ رسولؐ اور قرآن کا نام لے کر جھوٹ بولیں گے چنانچہ قائداعظم جانتے تھے ان کی قوم کو ایمان کی سب سے زیادہ ضرورت ہو گی۔

    وہ یہ بھی جانتے تھے یہ قوم اس وقت تک قوم نہیں بنے گی جب تک یہ مذہبی‘ سماجی اور اخلاقی ایمان کے اعلیٰ درجے تک نہیں پہنچ جاتی‘ پاکستان میں جب تک مسلمان کے ہاتھ سے مسلم اور غیر مسلم دونوں پاکستانی محفوظ نہیں ہو جاتے‘ یہ لوگ جب تک سماجی تقاضوں‘ سماجی فرائض اور سماجی حقوق کو ایمان جتنی اہمیت نہیں دیتے‘ یہ جب تک ٹریفک لائیٹس کو احترام‘ ایمبولینس کو گنجائش اور گھر کے کچرے کو ٹھکانا نہیں دیتے‘ یہ جب تک سماج کو ایمان کا حصہ نہیں بناتے اور یہ لوگ جب تک اخلاقیات کو ایمان کا چھٹا رکن نہیں سمجھتے‘ یہ کم تولنا‘ ملاوٹ کرنا‘ جھوٹ بولنا ‘ عورتوں کی توہین اور بچوں پر ظلم کرنا نہیں چھوڑتے یہ قوم نہیں بن سکیں گے۔

    ہمارے قائد یہ بھی جانتے تھے یہ جس ہجوم کو قوم بنانا چاہتے ہیں وہ اتحاد کے شدید بحران کا شکار ہو گا‘ یہ لوگ تقسیم در تقسیم در تقسیم کا شکار ہوں گے‘ بلوچی بلوچی رہے گا‘ پاکستانی نہیں بنے گا‘ پٹھان پشتون کلچر‘ زبان اور ڈی این اے کو ملک سے زیادہ اہمیت دے گا‘ سندھی 70 سال بعد بھی پاکستانی نہیں بن سکے گا‘ پنجابی خود کو ملک کا مالک سمجھے گا‘ یہ اکثریت کی بنیاد پر حاکم بن جائے گا اور پیچھے رہ گئے بنگالی تو یہ 24 سال بعد ہی بنگلہ دیش بن جائیں گے‘ ہمارے قائد جانتے تھے پاکستان کا مسلمان بھی تقسیم ہو جائے گا‘ یہ پہلے سنی اور شیعہ میں تقسیم ہو گا اور پھر یہ شیعہ در شیعہ اور سنی در سنی در سنی ہو جائے گا۔

    یہ پوٹھوہاری پنجابی‘ جانگلی پنجابی‘ سینٹرل پنجابی‘ فیصل آبادی پنجابی‘ سیالکوٹی پنجابی‘ لاہوری پنجابی اور سرائیکی پنجابی میں بھی تقسیم ہوگا‘ پشتون بھی پہلے قبائلی پٹھان‘ پشاوری پٹھان‘ سواتی پٹھان اور ہزاروی پٹھان ہوں گے اور پھر وزیر‘ محسود‘ مہمند‘ آفریدی‘ خٹک‘اورکزئی‘ یوسفزئی‘جدون‘ مندوخیل اور مروت میں تقسیم ہو جائیں گے‘ بلوچ بھی بگٹی‘ مری‘ابڑو‘ مگسی‘ مزاری‘ مینگل‘ بوزدار‘ پتافی‘ رئیسانی‘ زہری اور قیصرانی ہو جائیں گے اور سندھی بھی بچانی‘ مُکھی‘ منگرانی‘ چاچڑ‘ چانڈیو‘ چنا‘ میربہار‘ سانگھڑ‘ سومرو ‘سولنگی اور کھوڑو ہو جائیں گے اور آخر میں مہاجر بھی قومیت بن جائیں گے‘ یہ بھی کراچی اور حیدرآباد کو سندھ سے الگ کر دیں گے۔

    ہمارے قائد یہ بھی جانتے تھے ہمارے سرکاری ادارے بھی تقسیم ہوں گے‘ یہ پہلے سول اور ملٹری میں تقسیم ہوں گے اور پھر سول ادارے سول در سول در سول اور فوجی ادارے فوج درج فوج در فوج ہو جائیں گے یہاں تک کہ فضائیہ اور بحریہ ایک دوسرے کے خلاف ہوں گی پھر یہ دونوں مل کر ملٹری سے دور ہو جائیں گی یہاں تک کہ 1965ء کی جنگ ہو‘ 1971ء کی ہو یا پھر کارگل کا ایشو ہو فوجوں کے درمیان رابطے کا فقدان ہو گا‘ ہمارے قائد جانتے تھے سول ادارے فوج کی نہیں مانیں گے اور فوج سول ادارں سے دور ہوتی چلی جائے گی۔

    سویلین حکمران میرٹ کو روند کر اپنی مرضی کے آرمی چیف لائیں گے اور آرمی چیف سیاسی جماعتیں بنا کر سیاستدانوں کی نرسری لگا دیں گے‘ حکومتیں جرنیلوں کو فضا میں برطرف کر دیں گی اور جرنیل حکومتوں پر دھرنے چڑھا دیں گے‘ قائد جانتے تھے سرکاری دفتر دوسرے سرکاری دفتروں کے احکامات نہیں مانیں گے‘ بیورو کریسی عدالتی احکامات تسلیم نہیں کرے گی اور عدالتیں حکومتی فیصلے نہیں مانیں گی‘ ایک ادارہ اسٹیل مل بیچے گا دوسرا روکے گا‘ ایک اورنج لائین ٹرین بنائے گا دوسرا بند کرے گا ‘ایک ادارہ گٹر کھولے گا دوسرا بند کرائے گا اور ایک سرکاری محکمہ سڑک بنائے گا اور دوسرا محکمہ اسے توڑے گا‘ ہمارے قائد کو معلوم تھا ملک کے سیاستدان بھی آپس میں لڑیں گے۔

    یہ آئین‘ قانون اور ضابطوں پر بھی دست و گریباں ہوں گے چنانچہ ہمارے قائد جانتے تھے یہ ہجوم جب تک اپنے اندر اتحاد پیدا نہیں کرے گا‘ پاکستان میں رہنے والا ہر ادارہ‘ ہر قومیت‘ ہر فرقہ اور ہر نسل خود کو جب تک پاکستانی نہیں سمجھے گی‘ یہ لوگ اس وقت تک قوم نہیں بن سکیں گے اور ہمارے قائداعظم یہ بھی جانتے تھے یہ قوم ڈسپلن کے بحران کا شکار بھی ہو گی‘ پولیس اہلکار یونیفارم نہیں پہنیں گے‘ لوگ نمبر پلیٹ کے بغیر گاڑیاں چلائیں گے‘ ملک میں ستر سال بعد بھی ریڈ لائیٹ پر گاڑی نہیں رکے گی‘ لوگ میٹرو بس کے جنگلے پھلانگ کر سڑک پار کریں گے‘ لوگ ائیر پورٹ پر بھی قطار نہیں بنائیں گے‘ ملک کے ہر اسکول کا یونیفارم‘سلیبس‘ کتابیں اور امتحانات مختلف ہوں گے۔

    قوم ستر سال بعد بھی سرکاری چھٹیوں‘ چاند اور ڈیموں پر متفق نہیں ہو سکے گی‘ یہ سرکاری دفتروں کے اوقات طے نہیں کرسکیں گے اور اگر طے ہوگئے تو یہ اس پر عمل نہیں کرسکیں گے‘یہ چھٹی کا وقت بھی مقرر نہیں کرسکیں گے‘ یہ شام کے وقت مارکیٹیں بھی بند نہیں کرا سکیں گے‘ یہ ون ڈش کی پابندی بھی نہیں کرسکیںگے اور یہ بسوں‘ ٹرینوں اور جہازوں کے شیڈل پر بھی عمل نہیں کر سکیں گے۔

    ہمارے قائد جانتے تھے ہمارے ملک میں نرس ڈاکٹر کی ہدایت نہیں مانے گی‘ استاد پرنسپل کی اتھارٹی تسلیم نہیں کرے گا‘ ایس پی کرپٹ ایس ایچ او کو نہیں ہٹا سکے گا‘ حکومت عدالتی احکامات کی پرواہ نہیں کرے گی‘ فوج حکومت کی نہیں مانے گی اور حکومت پارلیمنٹ کو گھاس نہیں ڈالے گی‘ وزیراعظم‘ وزیر دفاع اور سیکریٹری دفاع آرمی چیف کے ماتحت ہو جائیں گے اور آرمی چیف رفقاء کار کے فیصلوں کے پابند ہوں گے چنانچہ ہمارے قائداعظم جانتے تھے یہ ہجوم جب تک ڈسپلن پیدا نہیں کرے گا یہ جب تک اداروں کو سپریم نہیں بنائے گا اور یہ جب تک قانون کو اپنا حکمران تسلیم نہیں کرے گا یہ اس وقت تک قوم نہیں بن سکے گا۔

    ہم نے تین ہفتے پہلے اپنا 69 واں یوم آزادی منایا تھا اور ہم آج اپنا یوم دفاع منا رہے ہیں‘ کاش ہم آج اپنا قومی ماٹو دیکھ لیں‘ ہم اپنا مونو گرام پڑھ لیں اور یہ مان لیں ہمارے صرف تین مسائل ہیں‘ ہم بے ایمان ہیں‘ ہم نفاق کا شکار ہیں اور ہم ڈسپلن سے عاری ہیں‘ کاش ہم یہ فیصلہ کر لیں ہم آج سے ڈسپلن میں رہیں گے‘ ہم متحد ہو جائیں گے اور ہم کسی قیمت پر ایمان کا سودا نہیں کریں گے تو آپ یقین کر لیں ہمیں اگلے سال یوم دفاع منانے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ کیوں؟ کیونکہ ہم اگلے سال تک یہ جان چکے ہوں گے ملک فوج کے بغیر بچ نہیں سکتے اور یہ جمہوریت کے بغیر چل نہیں سکتے اور یہ وہ بنیادی نقطہ ہے جسے صرف قومیں سمجھ سکتی ہیں‘ ہجوم نہیں۔

  • عمران قادری گٹھ جوڑ-خورشید ندیم

    عمران قادری گٹھ جوڑ-خورشید ندیم

    m-bathak.com-1421245366khursheed-nadeem

    عمران خان اور طاہرالقادری صاحب ایک بار پھر ہم سفر ہیں۔ ان راہنماؤں سے اس قوم کو ایک سادہ سا سوال ضرور پوچھنا چاہیے۔ اگر وہ جواب نہ دیں تو پھر اپنے آپ سے۔ 2014ء میں اس گٹھ جوڑ نے پاکستان کو کیا دیا؟

    یادداشت کے باب میں بطور قوم ہماری شہرت بہت اچھی نہیں۔ 2014ء کو گزرے مگر بہت دن نہیں ہوئے۔ ابلاغ کے جدید ذرائع نے ان شب و روز کے ایک ایک لمحے کو منکر نکیر کی طرح محفوظ کر دیا ہے۔ کتنے لوگ جمع ہوئے؟ کیا کیا کہا گیا؟ کس عزم کا اظہار ہوا؟ بات کہاں سے چلی اور کہاں تک پہنچی؟ پی ٹی وی پر حملہ۔ امپائر کی انگلی۔ ایک خاص لمحے میں چہرے پر مچلتی بشاشت۔ ہجوم کا چھٹنا۔ طاہرالقادری صاحب کے مریدوں کا موسم کی شدت میں کسی سائبان کے بغیر مشقت اٹھانا۔ نوجوانوں کا سڑکوں پر راتیں بسر کرنا، بچوں کا بلکنا اور اس پر راہنماؤں کے پُرتعیش کنٹینرز۔ یادداشت ناقابل بھروسہ سہی لیکن ایسی بھی نہیں کہ دو برس پہلے کے مناظر آنکھوں اور ذہن میں محفوظ نہ ہوں۔

    اِن دنوں CPEC کا بہت شہرہ ہے۔ آرمی چیف نے بھی دبنگ لہجے میں بتا دیا کہ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہونے دی جائے گی۔ کیا اس قوم کو یاد ہے کہ یہی دھرنے کے دن تھے جب چین کے صدر کو پاکستان آنا تھا اور وہ نہیں آ پائے تھے؟ اس قوم کا ایک سال سعیء لاحاصل کی نذر ہو گیا۔ عدالتی کمیشن بنا، اس نے فیصلہ دیا لیکن کسی نے مان کر نہ دیا۔ یہ کوئی ماضی بعید کا قصہ نہیں۔ فطری تقاضا یہی ہے کہ چھ سات سال کے بچے کو بھی یہ روداد یاد ہو۔ آخر اس ملک کے میڈیا نے کتنے پاپڑ بیلے کہ اس تاریخ ساز واقعہ کا ایک ایک لمحہ نہ صرف محفوظ کیا جائے بلکہ براہ راست پوری قوم کو دکھایا بھی جائے۔ کون کب کنٹینر پر چڑھا۔ کون کب اترا۔ کس نے کہاں ناشتا کیا، اس میں کیا کھایا۔ نوجوانوں نے کپڑے کیسے پہنے۔ اس اہتمام کے بعد اس قوم کو سب کچھ یاد ہونا چاہیے اور اگر ذرا ذرا بھی یاد ہے تو اُس کو ان راہنماؤں سے پوچھنا چاہیے کہ اس وقت جب لوگوں کو گھروں سے نکالا گیا۔ ملک کو ایک آزمائش میں مبتلا کیا گیا۔

    اسلام آباد چار ماہ تک ایک شہر بے اقتدار کا منظر پیش کرتا اور جگ ہنسائی کا باعث بنا رہا۔ اس سب کچھ کے بعد اس قوم کو کیا ملا؟ کیا نواز شریف کا اقتدار ختم ہو گیا؟ کیا کرپشن کا خاتمہ ہو گیا؟ کیا ملک میں کوئی تبدیلی آئی؟ ایک بات کہی جاتی رہی ہے کہ عوام میں بیداری پیدا ہوئی۔ جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ جب صبح شام میڈیا پر اظہار خیال کی سہولت میسر ہے تو شعوری تبدیلی کے لیے، کیا یہ کافی نہیں؟ وہ خطبات جو دھرنے میں ارشاد فرمائے گئے، کیا ٹی وی کی زبانی پہلے بھی نہیں سنوائے جا رہے تھے؟ محض اس ‘بیداری‘ کے لیے قوم کو اس عذاب میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟

    اس دوران میں، قادری صاحب اور عمران خان نے اس قوم کی نفسیات پر جو منفی اثر ڈالا، اس کے اثرات سمیٹنے میں نہیں معلوم کتنے سال لگ جائیں۔ اس قوم کو جس طرح ہیجان میں مبتلا کیا گیا، کاش کوئی ماہر نفسیات اس کا تجزیہ کرے اور بتائے کہ اس نے نوجوانوں کے اصل اثاثے، قوت برداشت کو کس طرح پامال کیا۔ ان کی شخصیت کی باگ عقل سے چھین کر جذبات کو تھما دی۔ انہیں تعمیر کے بجائے تخریب کے راست پر ڈالا۔ گفتگو اور اختلاف کی اس روایت کو پامال کیا جو باہمی احترام پر مبنی ہے۔ جس میں اختلاف ہوتا ہے دوسروں کی توہین نہیں۔ یہ خسارے کا ایسا سودا ہے، جس کے اثرات مدتوں رہیں گے۔ مو لانا مودودی اور نواب زادہ نصراللہ خان کی برسوں کی محنت چار ماہ میں برباد کر دی گئی۔

    بارہا لکھا گیا کہ سماج کی مضبوطی اور تعمیر کے بغیر، کوئی سیاسی عمل تنہا حالات میں جوہری تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتا۔ وہاڑی اور جہلم کے انتخابات اسی کا اظہار ہیں۔ عوام کو روایتی خاندانوں اور دھڑوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ ماضی میں ن لیگ کے مقابلے میں یہ دھڑا پیپلز پارٹی کے جھنڈے تلے جمع تھا۔ آج اسے تحریک انصاف کا بینر میسر ہے۔ تحریک انصاف نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ دوسرے دھڑے کو اپنا کندھا پیش کر دیا ہے۔ ن لیگ کے بارے میں تو ہمیں معلوم ہے کہ وہ روایتی سیاست کی علامت ہے۔ تحریک انصاف نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ بھی اسی سیاست کا حصہ ہے۔ کیا ایسی تبدیلی کے لیے پورے ملک کو اضطراب میں مبتلا کرنا چاہیے؟ کیا اس کے لیے لوگ گھروں سے نکلیں اور ایک انتشار کا حصہ بنیں؟ کیا کرپشن اس طرح ختم ہوتی ہے؟

    CPEC کا منصوبہ پاکستان کی معاشی سالمیت کے لیے بے پناہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں جو سیاسی مفادات مضمر ہیں، وہ معاشی مفادات سے بھی اہم تر ہیں۔ قوم کو پہلی بار ایک تعمیراتی سوچ کے ذریعے مجتمع کیا جا رہا ہے۔ یہ تعمیر اور ترقی کی ایک نہر ہے جو پانچوں صوبوں کو سیراب کر ے گی۔ گوادر پاکستان کے ایک جدید ترین شہر کی صورت میں ابھر رہا ہے۔ ترقی کی یہ شاہراہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے گزرے گی۔ سندھ، پنجاب اور گلگت سے بھی۔ اگر صوبے صرف اپنے اپنے مفاد میں سوچیں تو بھی یہ منصوبہ انہیں مجبور کر دے گا کہ وہ اپنی بھلائی کے لیے دوسرے صوبوں کا خیر چاہیں۔ پھر امن سب کی مشترکہ ضرورت بن جا ئے گا۔ یوں سب ایک دوسرے کے دست و بازو ہوں گے۔ کوئی چاہے تو اس کا کریڈٹ نواز شریف یا موجودہ حکومت کو نہ دے۔ چاہے تو یہ ہار کسی اور کے گلے میں ڈال دے۔ لیکن اُسے اس منصوبے کی افادیت کا اعتراف ضرور کرنا چاہیے۔

    اگر یہ مقدمہ درست ہے تو مان لینا چاہیے کہ اس کی کامیابی کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ سیاسی استحکام کے بغیر یہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس میں چین شامل ہے۔ چین وہ ملک نہیں جو ہماری طرح وقت کی قیمت سے بے خبر ہے۔ اس کے لیے ایک ایک دن اہم ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو سالوں کا سفر دنوں میں طے کر رہی ہے۔ اگر ہم نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تو اس کا نقصان ہم ہی کو اٹھانا ہے۔ پھر کیا ہم اس سے بھی بے خبر ہیں کہ اس منصوبے کے حوالے سے بھارت اور دوسرے ہمسایہ ممالک کیا سوچ رہے ہیں؟ تاریخ کے کٹہرے میں کتنے بڑے مجرم ہوں گے وہ لوگ جو ان نازک لمحوں میں، امکان کے روشن چراغوں کو اپنی پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کریں گے۔

    ایک سوال وہ ہے جو ماضی کے بارے میں ہے: 2014ء میں کزنز کے اس گٹھ جوڑ نے پاکستان کو کیا دیا؟ ایک سوال مستقبل کے حوالے سے ہے: اس مر حلے پر احتجاجی تحریک کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس سے کرپشن ختم ہو جائے گی؟ سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ عمران بہت زور لگائیں تو بھی اس تحریک میں سال گزر جائے گا۔ ایک آدھ مہینہ تو عید کی نذر ہو جائے گا۔ بات 2017ء تک جا پہنچے گی۔ تو کیا یہ مناسب نہیں کہ اس دوران میں وہ پُرامن طور پر اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کریں؟ اس کارِ خیر میں میڈیا ان سے چار قدم آگے ہے۔ وہ اس دوسرے کزن کی مدد سے رائے عامہ پر اثر انداز ہوں اور انتخابات کے ذریعے چہروں کو تبدیل کر دیں۔ تین کزنز مل جائیں تو کیا نہیں کر سکتے۔؟

    آج مسئلہ نواز شریف صاحب کا اقتدار نہیں، پاکستان کا استحکام ہے۔ CPEC کا انحصار اسی پر ہے۔ پاکستان کی نئی نسل کا مستقل بھی اسی میں ہے کہ اسے ہیجان کے بجائے عقل و بصیرت کے راستے پر ڈالا جائے۔

  • قادری آ رہے ہیں – آصف محمود

    قادری آ رہے ہیں – آصف محمود

    آصف محمود طاہر القادری راولپنڈی میں نہیں رکیں گے۔ وہ اسلام آباد کا رخ ضرور کریں گے۔
    ہو سکتا ہے یہ میرا ضعف بصارت ہو لیکن مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ تحریک قصاص اور تحریک احتساب کا اصل مقصد وہ نہیں جو بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ مقصد کچھ اور ہے ۔ طاہر القادری صاحب مری روڈ سے اسلام آباد کا رخ ضرور کریں گے۔ یوں دارلحکومت میں وہی کھیل شروع ہو جائے گا جو اس سے قبل ناکام ہو چکا۔

    چند پہلو اس باب میں انتہائی قابل توجہ ہیں۔
    1۔ احتجاج ظاہر ہے جمہوری حق ہے لیکن کیا احتجاج کے نام پر دارالحکومت پر یلغار کرنے کے کلچر کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے۔ یہ سلسلہ چل نکلا تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ کیا اسلام آباد میں آ کر ڈیرے جمانے سے جیسا ماضی میں ہوا ہے، آپ دنیا میں اپنی ریاست کا مذاق نہیں اڑاتے۔
    2۔ اگر کوئٹہ میں ہونے والے دھماکوں کو سی پیک کے خلاف سازش تصور کیا جاتا ہے تو اسلام آباد پر اس طرح کی یلغار کو بھی ایسی ہی ایک سازش کیوں تصور نہیں جا تا۔ اگر ہم سی پیک کی کامیابی کے لیے ہر قیمت دینے کو تیار ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ان لشکریوں کو ایک پیغام تک نہیں بھیجا جا سکتا کہ احتجاج ضرور کیجیے لیکن ریاست کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
    3۔ منتخب وزرائے اعظم کو ہمیشہ اس ملک میں ولن بنا کر کیوں پیش کیا جاتا رہا۔ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا۔
    4۔ بطور ادارہ فوج بہت محترم ہے، اور ہمارا آخری دفاعی حصار بھی۔ اسی طرح پارلیمان بھی بہت محترم ہے اور قومی وحدت کی علامت بھی ہے۔ دونوں کا احترام لازم ہے، اور دستور کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
    5۔ یہ سوچ ختم ہونی چاہیے کہ نواز شریف ملک دشمن ہے اور اسے ملک کی سلامتی اور بقاء سے کوئی دل چسپی نہیں۔ حب الوطنی نصاب نہیں جس کے جملہ حقوق بحق پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ محفوظ ہوں۔ سوچنے کا انداز مختلف ہو سکتا ہے اور ایک جمہوری وزیر اعظم کو اس کا حق بھی ہے۔ اس پر تنقید بھی ضرور ہونی چاہیے لیکن اس کی حب الوطنی کا آملیٹ بنانے کی کوششوں کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے دودھ کے دانت اب گر جانے چاہییں۔
    6۔ جو چین آف کمانڈ سپاہی سے آرمی چیف تک ہوتی ہے وہی چین آف کمانڈ آرمی چیف سے وزیر اعظم تک قائم ہونے میں کیا چیز رکاوٹ ہے۔
    7۔ اس ملک کے نظام قانون و انصاف کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قادری صاحب کے لوگ مرے ہیں۔ حکومت نے نہیں مارے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ پھر کس نے مارے۔ قاتل پکڑنا کس کی ذمہ داری ہے۔ ریاست انسانی جان کی حرمت کے بارے میں اس طرح بے نیازی کا مظاہرہ کیسے کر سکتی ہے۔ کیا اس طرح سماجی توازن قائم رہ سکتا ہے اور انتہا پسندی ختم کی جا سکتی ہے۔
    اور آخری بات کسی کو اچھی لگے یا بری، یہ ہے کہ نواز شریف کی جمہوری حکومت اگر غیر فطری طریقے سے گھر بھیجی گئی تو یاد رکھیے معاملات سنبھالنا بہت مشکل ہو جائیں گے۔ جمہوری عمل کو آگے بڑھنے دیجیے۔ یہ راستہ کٹھن سہی لیکن راستہ یہی ہے۔ اور کسی راستے سے تبدیلی نہیں آ سکتی۔ تبدیلی کا یہی ایک فطری راستہ ہے جسے ارتقاء کہتے ہیں۔

  • آثار قدیمہ کے مجاور-محمد بلال غوری

    آثار قدیمہ کے مجاور-محمد بلال غوری

    m-bathak.com-1421246902muhammad-bilal-ghouri

    تاریخی ورثے کے مجاوروں کی منطق بہت نرالی ہے۔ان کا استدلال ہے کہ پرانی عمارتوں اور آثار قدیمہ کی بقا و حفاظت زندہ انسانوں کی تعمیر و ترقی اور سہولت و آسائش سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ہاں جب ہم لوگ مر کھپ جائیں گے تو تین سو سال بعد ان مجاوروں کے سجادہ نشین اٹھیں گے اور خستہ حال عمارتوں کی جانچ پڑتال لگا کر یہ سراغ پانے کی جستجو کریں گے کون سا پتھر کتنا پرانا ہے۔جب ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ چکی ہونگی تب ہمیں وہ حقوق حاصل ہونگے جو آج اورنج ٹرین کے راستے میں آنے والی مقدس عمارتوں کو حاصل ہیں۔گاہے خیال آتا ہے کہ جب ان بلند و بالا تاریخی عمارتوں کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا تھا ،تب بھی آثار قدیمہ کی حیثیت رکھنے والے ماضی کے کئی نشانات کو منہدم کیا گیا ہو گا؟اگر ایسے ہی مجاور اس وقت مغلیہ دربار میں موجود ہوتے تو کیا کچھ تعمیر ہو پاتا؟

    اگر تاریخ انسانی کے ہر دور میں ثقافتی ورثے کی حفاظت کا یہی مفہوم لیا گیا ہوتا کہ ماضی سے منسوب کسی شے کو نہ چھیڑا جائے تو تعمیر و ترقی کا سفر شروع ہی نہ ہو پاتا،نئے شہر نہ بسائے جاتے تو نسل انسانی برسہا برس پہلے معدوم ہو چکی ہوتی اور آج آثار قدیمہ کے سوا کچھ بھی باقی نہ ہوتا۔ترقی یافتہ ممالک کو تو چھوڑیں ،دہلی میں میٹرو چلانے کا فیصلہ ہوا تو کسی کے پیٹ میں مروڑ نہیں اٹھا۔ دہلی میٹرو کے ٹریک میں سے9.4کلومیٹر طویل روٹ جو تاریخی عمارتوں کے پاس سے گزرتا ہے اسے ’’ہیریٹیج کاریڈور‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔جنترمنتر،دہلی گیٹ،خونی دروازہ،فیروز شاہ کوٹلہ،سنہری مسجداور لال قلعہ جیسی تاریخی اہمیت کی حامل عمارتوں کے اوپر ،نیچے ،دائیں ،بائیں سے میٹرو گزرتی ہے مگر آثار قدیمہ کے کسی مجاور نے صف ماتم نہیں بچھائی۔کھدائی کے دوران کشمیری گیٹ کے قریب 113سالہ پرانی عمارت مسمار ہو گئی مگر کسی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت محسوس نہیں کی البتہ بھارتی حکومت نے ’’ماس سپرنگ سسٹم ٹیکنالوجی‘‘ کو بروئے کار لانے کے لئے ایک آسٹرین فرم کی خدمات حاصل کیں تاکہ ٹریک کی کھدائی کے نیچے ایک ایسا ’’کشن‘‘ فراہم کردیا جائے جو میٹرو ٹرین کی تھرتھراہٹ جذب کر لے اور تاریخی عمارتوں کو نقصان نہ پہنچے۔

    جب تاریخی ورثے کے مجاوروں نے عدالت میں دلائل دیئے تو جلال الدین محمد اکبر کے دور کا ایک شاہی فرمان بھی پیش کیا گیا کہ حضرت موج دریا کا مزار اور اس سے ملحق احاطہ محفوظ عمارتوں میں شامل ہیں اور مہابلی کے حکم کی روشنی میں یہاں کوئی دوسری عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی۔تاریخی نظائر پیش کرنے والوں میں اخلاقی جرات ہوتی تو یہ بھی بتایا ہوتا کہ اکبراعظم کے دور میں کسی عدالت کو کار سرکار میں مداخلت کا حق حاصل نہ تھا۔مغلیہ سلطنت کی نشانیوں سے محبت کرنے والے ان مجاوروں کو فرصت ملے اپنے آبائو اجداد کے کارنامے بھی پڑھ دیکھیں۔

    خافی خان نے لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے اپنے بھائی مُراد کو چکمہ دینے کے لئے خط لکھااور کہا’’میں تو تمہیں تخت پر بٹھا کر خود گوشہ نشین ہونا چاہتا ہوں تاکہ اپنے آپ کو ریاضت و عبادت کے لئے وقف کر سکوں۔‘‘دھوکے سے مُراد کو گرفتار کر کے قلعہ گوالیار میں قید کر دیا اور پھر اس پھندے کی تلاش شروع ہوئی جو مُراد کی گردن ماپ سکے۔جلد ہی ایک ایسا شخص ڈھونڈ نکالا گیا جس نے الزام عائد کیا کہ اس کے باپ کو مُراد نے قتل کیا تھا۔یوںاورنگ زیب عالمگیر نے عدل و انصاف کی عدیم النظیر مثال قائم کرتے ہوئے اپنے پہلے سے گرفتار بھائی کو پھانسی دیدی اور اپنے تاج و تخت کو محفوظ کر لیا۔مشاہدے اور مطالعے کی بات یہ ہے کہ اس نے نہ کوئی نماز ترک کی اور نہ ہی اپنے کسی بھائی کو زندہ چھوڑا۔یہ ہیں وہ آبائو اجداد جن کی تاریخی عمارات پر ہمیں اپنا حال اور مستقبل قربان کرنے کو کہا جا رہا ہے۔

    اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی زیب النساء کا مقبرہ جس کے پاس میٹرو کا ٹریک گزرنے پر غُل مچ گیا ہے ،وہاں مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ زیب النساء کے درمیان پہلے ہی ریل کی پٹری گزر رہی ہے ،بلا ناغہ وہاں سے مال بردار ریل گاڑیاں گزرتی ہیں ،آس پاس کی سڑکوں سے ہر قسم کا ٹریفک رواں دواں ہے مگر کبھی ان تاریخی مقامات کے تقدس و حرمت پر حرف نہیں آیا لیکن میٹرو کاٹریک بننے لگا تو دہائی پڑ گئی۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ مورخین کو اس بات پر اتفاق ہی نہیں کہ اس مزار میں کون دفن ہے ،کسی کا خیال ہے کہ یہ زیب النساء کا ،مقبرہ ہے جبکہ بعض روایات کے مطابق یہاں اس کی چہیتی نوکرانی انامیا بائی دفن ہے۔چوبرجی میں زیب النساء کا باغ ہوا کرتا تھا جو قیام پاکستان سے پہلے ہی مٹ چکا اور اس کے مرکزی دروازے کی چوبرجیاں باقی تھیں۔یہاں برسہا برس سے نشے کے عادی افراد کے ڈیرے ہیں اور ’’چوبرجی والے جہاز‘‘ کی اصطلاح لاہور بھر میں مستعمل ہے لیکن کبھی کسی مجاور کو یہ خیال نہیں آیا کہ اس تذلیل و تحقیر پر آواز اٹھائے۔ان چوبرجیوں کے چاروں طرف 200گز تو کیا محض دو گز کے فاصلے پر سڑکیں بنیں ،دن رات وہاں سے ٹریفک گزرتا ہے لیکن کسی کو کو ئی اعتراض نہیں ہوا۔مگر جب میٹرو کا ٹریک بننا شروع ہوا تو یہ مجاور اٹھ کھڑے ہوئے۔

    گلابی باغ کے تقدس کی یہ اہمیت بتائی جاتی ہے کہ یہاں شاہ جہاںکی خادمہ دائی انگہ کا مزار ہے۔بدھو کا آوا یوں تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ بدھو نامی ایک کمہار نے اینٹیں بیچ بیچ کر اتنی دولت جمع کر لی کہ اپنے لئے شاندار مقبرہ تعمیر کروایا۔جی پی او کی تاریخی اہمیت یہ بتائی جاتی ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی یاد میں 1887ء میں یہ عمارت تعمیر ہوئی۔لکشمی بلڈنگ،ایوان اوقاف،سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کی عمارت اور سینٹ اینڈریو پریسٹرئین چرچ کی عمارتیں اس لئے مقدس ہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے تعمیر ہوئیں۔ان میں سے کسی بھی تاریخی عمارت کو کلی یا جزوی طور پر مسمار نہیں کیا جا رہا،اس طرح کا کوئی خدشہ نہیں کہ میٹرو ٹرین چلنے سے ان میں سے کسی عمارت کو کوئی نقصان پہنچے ۔

    آثار قدیمہ کے مجاوروں کا اعتراض یہ ہے ان عمارتوں کی بغل سے میٹرو گزرے گی تو اس تاریخی ورثے کاحسن ماند پڑ جائے گا۔سادہ سا سوال یہ ہے کہ کیا ان میں سے کوئی ایک تاریخی مقام ایسا ہے جہاں پہلے سے ٹریفک نہ گزرتا ہو؟اگر اس ٹریفک کی روانی سے تاریخی مقامات کی بے حرمتی نہیں ہوتی تو میٹرو ٹرین چلنے سے ان کی شان میں گستاخی کیسے ہو سکتی ہے؟اگر آپ کو میٹرو پروجیکٹ پر تکنیکی اعتبار سے کوئی اعتراض ہے تو ضرور تنقید کریں۔یہ بات ہو سکتی ہے کہ مواصلاتی منصوبوں کی طرح صحت و تعلیم کے شعبوں کو ترجیحات میں سرفہرست رکھا جائے،یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ تمام صوبے کے وسائل لاہور پر خرچ کیوں کئے جا رہے ہیں لیکن آثار قدیمہ کے مجاور اس بات پر تو بغلیں نہ بجائیں کہ بے جان پرانی عمارتوں کو زندہ انسانوں پر فوقیت دیدی گئی۔