ہوم << لاہور میٹرو بس، کچھ میٹھا کچھ کھٹا - نعیم احمد

لاہور میٹرو بس، کچھ میٹھا کچھ کھٹا - نعیم احمد

نعیم احمد پاکستان اور ترکی کے اشتراک سے لاہور میں بننے والی پہلی میٹرو بس سروس کا افتتاح 10 فروری 2013 کو ترکی کے نائب وزیراعظم باقر بوزداگ (Baqir Bozdage) اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے ہاتھوں ہوا۔ میٹرو بس سروس 27 کلومیٹر طویل سڑک پر مشتمل ہے، جو گجومتہ سے شاہدرہ تک ہے۔ اس سے 27 کلومیٹر کا سفر ایک گھنٹے میں سمٹ آیا ہے۔ اس پر 27 بس اسٹیشن ہیں۔ اس منصوبے کی لاگت تقریبا 25 بلین پاکستانی روپیہ ہے۔
افتتاح کے بعد جب پہلی مرتبہ سفر کیا تو حیرت کی انتہا نہ رہی، ایک انتہائی آرام دہ، ائر کنڈیشنر اور وی آئی پی سواری اور کرایہ صرف بیس روپے، الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ اس کی تیاری کے دوران میں گھر سے دفتر تک کا راستہ جو کہ ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے، وہ تین گھنٹے میں طے کرنا اور شدید پریشانی کا سامنا سب ہوا ہو گئے۔ بس کیا ہے گویا پانی پر ہلکورے لے کر چلتی ہوئی لگژری فیری ہے۔ سیٹ پر بیٹھ کر سفر کے دوران نیند کا اس طرح آنا جیسے کسی پنگھوڑھے میں بیٹھے جھولے لے رہے ہیں۔ میٹرو بس کا ایسا رعب و دبدبہ کہ اندر بیٹھی سواریاں بس کے اندر تھوکنے کی ہمت بھی نہ کریں۔ جن سواریوں کو پان کھانے کی عادت ہے اور بس میں بیٹھ کر بھی پان کھانا ان کی مجبوری ہے، انھیں اپنے ساتھ پولی تھین بیگ لے کر سفر کرتے دیکھنا اور بس کو آخری حد تک گندگی سے بچانے کی سعی کرنا ایک انتہائی خوشگوار تجربہ ہے۔ صفائی کا نظام ایسا کہ اچھے بھلے کپڑوں میں ملبوس افراد کو فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھے دیکھا۔ بس میں کوئی پھیری والا، کوئی چندہ لینے والا اور کوئی گداگر دکھائی نہیں دے گا۔
میٹرو بس میں سفر کے لیے ای ٹکٹنگ (E Ticketing) کے ساتھ ساتھ اسمارٹ کارڈ کی سہولت نے سفر کو اور زیادہ آسان بنا دیا ہے، اس کی بدولت قطار میں صرف ہونے والے وقت کی بھی بچت ہے۔ کارڈ میں بیلنس لوڈ کرانے کے لیے ہر میٹرو اسٹیشن پر مشین نصب ہے۔ جس کے ذریعے بآسانی لوڈ کرایا جا سکتا ہے۔ اسٹیشن پر ایک کے بعد دوسری گاڑی کے آنے کا وقفہ دو منٹ کا ہے، یعنی یہاں بھی انتظار کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی۔ بس میں ہر اگلے اسٹیشن کی آمد کی اناؤنسمنٹ اور احتیاطوں سے متعلق اعلانات ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن کے وقفے کے درمیان نشر ہوتے ہیں۔ سفر کے بارے میں معلومات نہ رکھنے والی سواریوں کے لیے میٹرو کا اسٹاف رہنمائی کے لیے ہر وقت حاضر ہے۔ خواتین اور طالب علم بچیوں کے لیے یہ سہولت کسی نعمت سے کم نہیں ہے، کیونکہ ٹرانسپورٹ کے دوسرے ذرائع میں محدود نشستوں کی وجہ سے ان کے لیے خاصی مشکلات ہیں۔ میٹرو بس نے ان کے طرز زندگی میں بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔ لاہور کے ساتھ ساتھ راولپنڈی/ اسلام آباد میں اس کی تکمیل کے بعد اب ملتان اور کراچی میں بھی اس منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے۔
میٹرو بس نے ہمارے روزمرہ معاملات میں جہاں بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں، وہاں ہم اپنی عادات میں پائی جانے والی کچھ کمزوریوں کا شکار اب بھی ہیں۔ شاہدرہ اسٹیشن پر سواریوں کے بس میں سوار ہونے کے لیے نظم و ضبط کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ بس میں سوار ہونے کے لیے ایسی دھکم پیل کہ خدا کی پناہ۔ بس میں نشستوں کی کل تعداد صرف انتالیس ہے جو کہ بزرگ، خواتین، بچوں اور معذور افراد کے لیے مختص ہیں، میٹرو بس کا فارمیٹ کھڑے ہو کر سفر کرنا ہے۔ نوجوان طبقہ اپنی طاقت کے زور پر ان نشستوں پر براجمان ہو جاتا ہے۔ بزرگ ان کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے کھڑے رہتے ہیں۔ دس میں سے دو افراد اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نشست کسی بزرگ کے لیے خالی کر دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ جذبہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ سواریوں کے بس میں سوار ہوتے ہی گیٹ کے سامنے والی جگہ پر جم کر کھڑے ہو جانے کا ہے جس کی وجہ سے بس کے اندرونی حصے میں جگہ ہوتے ہوئے بھی باہر کھڑی سواریاں حسرت کی تصویر بنی دکھائی دیتی ہیں، کوئی بھلا مانس شریف آدمی انھیں پیچھے ہٹنے کا کہہ دے تو چند شغل پسند نوجوانوں کا ٹولہ اس کی اچھی خاصی کلاس لے لیتا ہے۔ سو میں سے جو بیس فی صد جگہ خواتین کے لیے مختص ہے، اس میں سے بھی پانچ فی صد حصے پر چند منچلے نوجوان قابض رہنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ خواتین اور مردوں کے حصوں کے لیے درمیان میں کوئی حد بندی نہیں ہے اس کی وجہ سے خواتین خصوصاً اسکول و کالج کی بچیوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ مزید زیادتی یہ کہ محکمۂ پولیس کے ملازمین کو ڈی آئی جی کی ہدایت کے مطابق نظم سے ماورا قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مؤقف یہ اختیار کیا گیا ہے کہ انھیں اپنی ملازمتوں پر جلد پہنچنا ہوتا ہے اس لیے انھیں بس میں جلدی سوار ہونے کے لیے نہ روکا جائے۔ کیا باقی عوام گھر سے روزانہ تفریح کے لیے نکلتی ہے؟ ٹکٹ خرید کر سفر کرنے کے معاملے میں پولیس اور عام عوام بالکل برابر ہیں، چلیں یہ بھی غنیمت ہے۔ نوجوانوں سے خصوصی طور پر التماس ہے کہ وہ اپنے فرائض کو احسن انداز سے ادا کیجیے۔ خواتین، بزرگ اور معذور افراد کے لیے فوری طور پر نشست خالی کر دیجیے۔
میٹرو ٹریک کا کارپٹ اس وقت کئی جگہ سے گڑھے پڑنے کی وجہ سے خراب ہو چکا ہے۔ بھاٹی چوک اسٹیشن کی حالت تو بہت ہی بری ہے۔ بس جب وہاں سے گزرتی ہے تو ایسے ہچکولے کھاتی ہے جیسے کسی ناہموار پہاڑی سڑک سے گزر رہی ہو۔ میرے میٹرو بس کے آفیشلی فیس بک پیج کے ذریعے سے توجہ دلانے پر ایک مرتبہ اس ٹریک کی مرمت ہو چکی ہے۔ سڑک کی خرابی کی وجہ سے یقیناً بسوں کو بھی اندرونی طور پر نقصان پہنچ رہا ہے۔ شہباز شریف صاحب، عوام ٹیکس اس وقت بھی دے رہی تھی جب ان کے پاس یہ سہولت موجود نہیں تھی، اس سہولت کی موجودگی میں ٹیکس اب بھی دے رہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس منصوبے میں بہتری لانا تو ایک طرف رہا، ٹریک کی انتہائی ضروری مرمت کو بھی مؤخر کیا ہوا ہے۔ پورے پاکستان سے شہریوں کی ایک بڑی تعداد صرف اسے دیکھنے اور اس میں سیر کرنے لاہور آتی ہے۔ جب وہ اس تجربے سے گزریں گے تو کیا تاثر لے کر اپنے شہروں کو لوٹیں گے؟ کسی بھی منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دینا ہی کافی نہیں ہوتا اسے جاری رکھنے اور اس میں بہتری لانے کے لیے اور بھی بہت سے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ سے انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے اس پر بھرپور توجہ دیجیے۔ یہ ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہے۔

Comments

Click here to post a comment