اسلام کے اس تفوق اور فضلیت کے بارے میں یقنا دو رائے نہیں ہوسکتی، کہ یہ وه عظیم ترین مذہب ہے، جو عالم انسانیت کے تمام ازلی وابدی معاملات کے بارے میں منطقی اور واضح حکمت عملی رکھتا ہے، اس عظیم مذہب کی اشاعت و ابلاغ اور قبولیت عام میں اس کی اعلی ترین تعلیمات کو دخل حاصل ہے، اور اہل اسلام کے لیے اس روز افزاں پذیرائی کی وجوہات کا ادراک چنداں دشوار نہیں. لیکن اسلام کا بڑھتا ہوا اثر ونفوذ یہود و نصاری کے اس طبقے کے لیے باعث حیرت ہے، جو اپنے مخصوص مذہبی رجحانات کے مقابل کسی اور مذہبی فکر کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتے، اور کسی دوسری آفاقی صداقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں.
یہود و نصاری کے علماء وحکماء کا ایک اہم طبقہ جو استشراق (Orientalism) سے وابستہ ہے، اس نے 19 ویں صدی سے تادم تحریر تمام فکری کاوشووں کا رخ اسلام کی طرف موڑ رکھا ہے. عوام الناس کی مطالعہ اسلام میں دلچسپی اور قبول اسلام کی بڑھتی ہوئی روش کے پیش نظر یورپ کے متعصب اور تنگ نظر صاحبان ثروت اور حکومتوں نے بھی اسلامو فوبیا کے زیر اثر اس طرف توجہ مبذول کر لی. لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں استشراق کی تفہیم کےلیے کوئی عالمانہ و منظم کاوش و تحقیق نظر نہیں آتی، دینی مدارس کے علمائےکرام و طلبہ انگریزی زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے اس اہم موضوع کا مطالعہ اور اس پر تحقیق نہیں کرسکتے، جبکہ ہمارے کتب خانوں میں بھی اس حوالے سے مایوس کن صورتحال ہے، جس کی وجہ سے طلبہ اس موضوع کے بارے میں وسیع علم کے حصول سے قاصر ہیں.
الحمد للہ راقم الحروف كو عصری علوم کے ساتھ ساتھ علوم دينيہ كى تحصيل كا شرف بھى حاصل رہا ہے، اور مختلف مکاتب فکر کے علماء سے استفادے کا موقع بھی ملا ہے، لیکن مدارس میں چونكہ فقہی مباحث پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، اس ليے اساتذہ ہر موضوع پر بقدر حاجت طالب علموں کو ائمہ أربعہ کے مذاہب سے روشناس کراتے ہیں، اور بعض اساتذہ اپنے مکتب فکر كو برحق تصور كرتے ہوئے مخالف کے دلائل کو شد و مد سے رد کردیتے ہیں، يہيں سے طلبہ کے ذہنى خلفشار كا آغاز ہوتا ہے، اور وہ درست و غلط كى الجھن ميں گرفتار ہو جاتے ہيں.
اگرچہ اعتدال پسند علماء کی بھی کمی نہیں ہے، اور الحمدللہ مجھے زیادہ تر ان سے تحصيل علم کى سعادت حاصل رہى ہے، جہاں تک فروعی اختلافات كا تعلق ہے تو یہ اختلاف حق اور باطل کا نہیں جیسا کہ عموما بعض حضرات اس كا اظہار کرتے ہیں، اور نہ جواز و عدم جواز کا ہے، بلکہ أولی اور غیر اولی کا ہے، جیسا کہ ابو بکر جصاص الحنفی (وت370ھـ) نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر أحکام القران میں سورۃ البقرۃ أيت (183) يا أيھا الذين آمنوا كتب عليكم الصيام کے تحت ذکر فرمایا ہے. مدرسہ ميں پڑھنے كے دوران مجھے بحیثيت طالب علم يہ تجسس رہا، کہ غیر مسلم علماء ہمارے ان فقہی مباحث کے بارے ميں کس فكر كے حامل ہیں، اگرچہ بعد ازاں مجھے معلوم ہوا، کہ غیر مسلم فقہ کے بارے ميں کم اور اس کے مآخذ کے بارے ميں زیادہ بحث کرتے ہیں.
جب علامہ تفتازانی(وت 792ھـ) كى علم الکلام کے حوالے سے معروف کتاب شرح العقائد النسفیہ پڑھی، اور اشاعرہ و ماتوردیہ کے علاوہ اور باطل فرقوں کے عقائد اور مناہج کے ساتھ ساتھ پہلی مرتبہ مستشرقین (Orientalists) کا نام سنا تو مختلف ذرائع سے معلومات كے حصول كى كوشش كى، ليكن جذبه تجسس تسكين نہ پا سكا. بين الاقوامي اسلامي يونيورسٹي اسلام آباد سے ايم فل كرنے كے بعد جب دسمبر 2013ء ميں ترکی كى ايک معروف يونيورسٹي ميں بحیثیت لیکچرار فرائض کی انجام دہى كا موقع ملا، تو معلوم ہوا کہ تركي كی جامعات ميں استشراق كے ماہرين موجود ہیں، جن سے یہ علمى تشنگى ختم ہو سكتى ہے، چنانچہ اسی سوچ کے زیراثر ڈاکٹریٹ كے مقالے كے لیے استشراق كو بطور موضوع منتخب كيا.
پی ایچ ڈی كورس ورک كے دوران اور مابعد معروف مستشرقین کو پڑھنے کا موقع ملا، اسلام کے بارے ميں ان کے وقیع مطالعے اور تحقيقى باریک بینی کو دیکھا، تو ذہن ميں كئى اور سوالات ابھرے، کہ آخر وہ كيا وجوہات و مقاصد ہیں جن کی وجہ سے مستشرقين بطور خاص اپنا فوكس اسلام پر کیے ہوئے ہیں، وہ دیگر مذاہب كى تشريحات و تعبيرات پر اتنى توجه كيوں نہيں ديتے، حالانكہ ان كى اكثريت كا تعلق انھى مذاہب سے ہے. اس تحقيقى تجسس نے مختلف كتب اور مقالات کے مطالعے كے طرف راغب کیا تاکہ ان اسباب تک پہنچا جا سکے جن کی وجہ سے یہ لوگ اسلام کے بارے ميں پڑھنے پر مجبور ہوئے. مختلف قومی اور بین الاقوامی کانفزنسز میں بھی اپنا یہ سوال کئی اہم شخصیات كے سامنے رکھا جو اس میدان کے شہسوار ہیں، لیکن وہ سارے وہی اسباب بیان کرتے تھے، جو ایک مسلمان ان کی کتب پڑھنے کے بعد محسوس کرتے ہے کہ ان کا بنیادی مقصد صرف مسلمانوں کے ذہنوں ميں اسلام کے بارے ميں شكوك وشبہات پيدا كرنا ہے وغیرہ وغیر، لیکن مطالعے کے دوران Dr Harald Motzki جو ایک عظیم مستشرق ہے، اور اسلام کے بارے ميں عموما اور حدیث کے بارے ميں خصوصا کافی معلومات رکھتا ہے، اوراس نے کئی مواقع پر اسلام کا دفاع بھی کیا ہے، اس کا ایک مقالہ Dating Muslim Traditions. A Survey پڑھنے کو ملا، اس کے مطابق مستشرقین حدیث کے پڑھنے میں اس لیے دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ اسلامی تاریخ کو از سر نو مرتب کر سکيں. یہ پڑھ کر مجھے اپنے سوال کا ادھورا جواب ملا، که یہ لوگ تاریخ سے آگاہى کےلیے حدیث كا مطالعہ كرتے ہیں لیکن سوال يہ ہے كہ تاریخ اسلامی تو ہماري كتب ہائے تاريخ میں موجود ہے، تو دوبارہ تاریخ کے مرتب كرنے ميں ان كی کیا غرض پوشيدہ ہے.
اسی تلاش و جستجو میں ایک ایطالی مستشرق Leone Caetani (وت 1935م) سے باقی آدھا جواب ملا. اس کو مستشرقین میں ایک عظیم تاریخ دان سمجھا جاتا ہے، صاحب ثروت تھا، اسلام کے بارے ميں تحقیق کے ضمن ميں لاكھوں ڈالر خرچ كيے، خود ہندوستان، ایران، مصر اور شام کا سفر کیا، تاکہ وہاں کے علماء سے ملاقات اور مشرقی سوسائٹی کا عموما اور مسلمانوں کا خصوصا قریب سے مشاہدہ کرسکے. اس کی ایک عبارت ڈاکٹر قحطان حمدی محمد کے عربي مقالہ ”أدوار المستشرقین فی تشویہ العالم“ میں ملی، جو كہ اس کے کتاب كے مقدمہ سے لي گئی ہے، اس ميں اس نے خطير رقم خرچ كر نے اور تحقيقى كاوشوں كے حوالے سے کاوشوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ”ہم اسلام کو اس لیے سمجھنے كى كوشش اور اس پر تحقیق کرتے ہیں کہ ان اسباب کو تلاش کريں، جنھوں نے عیسائیوں کو عیسائیت ترک کرنے پر آمادہ کیا ہے، اور جو ابھی تک محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان کی رسالت پر یقین رکھتے ہیں.“ Leone Caetani وہ شخص تھا جس كے بارے ميں مشہور تھا کہ وہ ايسے گروہ تیار کر تا تھا، جو مسلمانوں ميں انتشار پیدا کرکے مفتوحہ علاقے ان سے چھين لیں.
مستشرقین بنیادی طور پر اسلام کا مطالعہ اس مخصوص غرض كى بنا پر کرتے ہیں کہ ان اسباب کو تلاش کرسکيں جس کے بدولت اسلام یہودیت اور نصرانیت پر غالب آيا ہے اور تیزی سے دنیا میں پھیل رہا ہے، اس مقصد كے حصول کے لیے مستشرقین نہ صرف انفرادی طور پر مال و دولت خرچ کرتے ہیں بلكہ ان كے مشنرى جذبے كو فروغ دينے كے لیے يہودى و عیسائي حکومتیں بھی ان كى سرپرستى کرتی ہیں. Robert payne (وت 1631م) نے اپنی کتاب The Holy Sword The Story Of Islam کے مقدمہ میں بھى اس مقصد كى طرف اشارہ كيا ہے، وہ لکھا ہے کہ
we have good reasons to study the Arabs and probe into their ways of thoughts, for have conquered the world before, and may do it again, the fire lit by Muhammad still burns strongly and there is every reason to believe that the flame is unquenchable.
اس سے ان كا خوف اور اسلام كے بارے ميں تحقيق كا مقصد بخوبى واضح ہو جاتا ہے.
Ignác Goldziher (وت 1921م) کا سن (1873م) میں دورہ شام، فلسطين اور مصر بھی اس کی ايک کڑی ہے، اس نے حکومتی خرچے پر شام میں شيخ طاہر الجزائرى (وت 1920م) اور مصر میں شيخ محمد عبدہ (وت1905م) کے دروس میں شرکت کی تھى، اس کے بعد اس نے اسلام کے بارے ميں جو لکھا اس سے پورے یورپ میں اسلام كے حوالے سے تہلكہ مچ گيا، مسلمان ابھی تک اس کے جواب تحرير كر رہے ہیں.
اگرچہ اور بھى كئى اسباب ہوں گے، مگر بنیادی مقصد اسلام كى مقبوليت اور غلبہ كے بنيادى اسباب كى جانچ پركھ ہے، اور ظاہر ہے، فہم قرآن اور علم حديث كے بغير مستشرقين كے لیے ان اسباب و وجوہات كا پتہ لگانا كار دشوار ہے، سو ہم كہہ سكتے ہيں، كہ اسلام كا تيزي سے بڑھتا ہوا اثر و نفوذ مستشرقين اور ان كى سرپرست حكومتوں كے لیے ايک اہم سوال ہے، جس كے حل كے لیے انھيں اسلام كى تفہيم كي ضرورت پيش آتى ہے.
(عالم خان گوموشان يونيورسٹى، تركى سے بطور لیکچرار وابستہ ہیں، اسی موضوع پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھ رہے ہیں)
تبصرہ لکھیے