Tag: عبادت

  • عبادت کا اصل مقصد اور طبی فوائد – بشارت حمید

    عبادت کا اصل مقصد اور طبی فوائد – بشارت حمید

    بشارت حمید کچھ عرصہ قبل ایک دوست سے گفتگو ہو رہی تھی، اس نے فجر کی نماز کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا کہ بزرگوں سے سنا ہے کہ فجر کی نماز ادا کرنے والے کا رزق کشادہ کر دیا جاتا ہے، اس لیے فجر کی نماز ضرور پڑھنی چاہیے۔ میں نے سوال کیا کہ فرض کریں، اگر یہ فائدہ حاصل نہ ہو تو پھر کیا نماز چھوڑ دینی چاہیے؟ اس کا اس کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔

    ہم روز مرہ زندگی میں اسلام کے فرائض کے بارے میں مختلف طبی اور دنیاوی فوائد کی باتیں کرتے اور سنتے ہیں جیسے کہ روزے سے معدے پر اچھا اثر پڑتا ہے، معدے کو سکون میسر آتا ہے، صحت بہتر ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ

    اسی طرح نماز کے دوران بلڈ سرکولیشن کے حوالے سے مختلف طبی فوائد کے بارے تفصیلات ملتی ہیں۔ اچھی بات ہے کہ ہم اس حوالے سے بھی علم رکھتے ہوں کہ سجدے میں دل کا لیول دماغ سے اونچا ہو جاتا ہے اور دماغ کو خون کی سپلائی بہتر ہو جاتی جو کہ دماغ کی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ وغیرہ وغیرہ

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے عبادت کا جو بھی طریقہ بیان فرمایا ہے کیا اس کا مقصد انسان کا روحانی پہلو سے تزکیہ ہے یا پھر اسکی جسمانی صحت کی بہتری ہے؟ اگر دنیاوی فائدہ ہی پیش نظر رکھا جائے تو پھر زکوۃ اور حج کے بارے کیا خیال ہے؟ ان دونوں عبادات میں بظاہر تو دنیاوی طور پر مالی نقصان ہو رہا ہوتا ہے کہ انسان اپنی محنت سے کمائے ہوئے مال میں سے بنا کسی دنیاوی فائدے کے اچھی خاصی رقم خرچ کرتا ہے اور میرا سوال یہ ہے کہ ان سے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

    ہمارے پاس ہدایت کا اصل منبع و سر چشمہ قرآن مجید اور حضور اکرم صل اللہ علیہ و سلم کی سنت مبارکہ ہے۔ اگر ہم ان کی طرف رجوع کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ صرف ایک عبادت “نماز” کے بارے ہمیں کیا جواب ملتا ہے تو قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا، پھر ارشاد فرمایا کہ میری یاد کے لیے نماز قائم کر، پھر ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ جب آخرت میں جہنمیوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس چیز نے جہنم میں داخل کروایا تو وہ کہیں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں شامل نہیں تھے۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ صبر اور نماز کے ساتھ (اللہ سے) مدد چاہو اور یقیناً یہ(نماز پڑھنے کا) کام بہت بھاری ہے (ان لوگوں پر) سوائے اللہ سے ڈرنے والوں کے۔

    مندرجہ بالا چند مقامات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نماز کی ادائیگی کا اصل مقصود اللہ کی یاد اور اس کا قرب اور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے اور ہماری نیت صرف اور صرف یہی ہونی چاہیے۔

    اسی طرح کتب احادیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے مکان کا کمرہ تعمیر کیا اور اس میں ایک سوراخ بھی رکھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا تو پوچھا کہ یہ سوراخ کس لیے ہے تو ان صحابی نے جواب دیا کہ روشنی اور ہوا کے لیے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اس نیت سے رکھتے کہ یہاں سے آذان کی آواز سنائی دیتی رہے تو تمہیں اس کا اجر بھی ملتا اور اس سے ہوا اور روشنی بھی مل جاتی۔

    اس تمام بحث سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم عبادت کو خالص اللہ کی رضا کے لیے بجا لائیں اور دل میں کوئی دنیاوی فائدے کے حصول کی نیت نہ ہو تو اس سے ہمیں دونوں فوائد حاصل ہوتے رہیں گے۔ اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ چاہے کوئی دنیاوی فائدہ حاصل ہو یا نہ ہو ہم اللہ کی عبادت کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالٰی ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔

  • آؤ اک سجدہ کریں – عدنان کیانی

    آؤ اک سجدہ کریں – عدنان کیانی

    ایک وقت تھا جب کائنات میں اللہ کے سوا کچھ نہ تھا اور ایک وقت ہو گا باقی رہ جائے گا تو بس اللہ، ہماری ساری کہانی اس بیچ کی ساعت میں لپٹی ہے۔

    ایک خاک کے پتلے میں خدائے بزرگ وبرتر نے اپنی روح پھونکی اور کائنات کے کسی گوشے میں کوئی مخلوق ایسی نہ تھی جس کے بدن میں شک کے نشتر نہ اتر گئے ہوں۔تشکیکیت کے اسی پانی میں اس اولی العزم کے پر بھی گیلے ہو گئے جس نے ہزار برس کی بےریا ریاضت سے مقامِ بلند پایا تھا۔

    سوال انوکھا تھا۔ بھلا کیونکر ایک رذیل اور بےحقیقت مخلوق روحِ الوہیت کے اظہار کا ذریعہ بن سکتی ہے؟ بھلا کیونکر پستی کا یہ مکیں کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کا مسکن بن سکتا ہے؟ تو کائنات گہری فکر کے سمندر میں غوطے کھاتی تھی کہ امتحان اور بھی مشکل کر دیا گیا۔ ایک مہرباں مسکراہٹ کے جلو میں سجدے کا حکم صادر ہو گیا اور ہر سوال کی گردن پر ایک جملہ تیرنے لگا
    ’’ ہم وہ جانتے ہیں جو تم نہیں جانتے‘‘

    صدورِ حکم کے بعد کھیل بڑا واضح ہو گیا۔ ایک گروہ فرشتوں،اور موجودات کا تھا جنہوں نے اپنے سینوں میں اٹھنے والے ہر سوال کو تقدس کی موٹی چادر میں لپیٹ کر اونچے طاقچوں میں رکھ دیا(جہاں انکے بے اختیار ہاتھ اگر چاہتے بھی توپہنچ نہ پاتے) اور سجدے میں گر پڑے۔ ایک گروہ شیطان اور اس کے حوارین کا تھا جنہوں نے اپنی جبینوں پر مچلتے سجدوں کو اس وقت تک روک رکھنے کا عزم کیا جب تک کہ ان پر اس حکم کی منطق کھول نہیں دی جاتی۔ جیسے ہی دلیل مکمل ہو گی انہیں سجدے میں گرتے ایک لمحے کا توقف نہ ہو گا۔ اور تیسرا گروہ خود انسانوں کا ہے۔ ہم دونوں گروہوں کے کہیں بیچ میں ہیں۔ ہم بنا دلیل کے مانیں تو فرشتوں ، جمادات، نباتات اور حیوانات کے مقام پر جا گریں اور اگر دلیل مکمل ہونے کا انتظار کریں تو شیطان اور اسکے حواریوں میں ملا دیے جائیں۔

    وقت کی اس گہری رات میں ہم بہت بار فرمانِ رب پر اندھے ہو کر گرے اور بہت بار شک کی دیو قامت لہریں ہمیں اٹھائے اتنا اونچا لے گئیں کہ ہم خود رب کے باب میں بھی بدگمان ہو لگے۔ لیکن ہم کسی ایک مقام پر ٹھہر نہ سکے۔ ہمارے اندر کچھ ہے۔ ایک دو رخا آئینہ جس میں ایک سمت دیکھتے ہیں تو ایک ایسی مجبورِ محض مخلوق کو پاتے ہیں جس کی سانس بھی چلتی ہے تو رحمتِ پروردگار کے طفیل اور دوسری سمت دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں خود خدا کا چہرہ۔

    ہم اگر صبحِ ازل کے ان ملگجے اندھیروں میں دیکھ پاتے تو دیکھتے کہ آدم کے سامنے سجدے میں گر جانے کا حکم محض شیطان اور فرشتوں کے لیے نہیں تھا بلکہ خود آدم کے لیے بھی تھا۔وہ سجدہ تو اس روح کو تھا جو پروردگارِ عالم نے آدم میں پھونکی تھی تو پھر بھلا آدم کو اس سجدے سے رخصت کیسے مل سکتی تھی؟

    آدم کو بہشت سے محض شجرِ ممنوعہ نے نہیں نکالا بلکہ اس سجدے کی تڑپ نے نکالا جو اس نے ابھی کرنا تھا۔ بہشت جیسے مقام پر جہاں کسی کو نہ کوئی غم ہوتا ہے اور نہ کوئی حزن سے دوچار ہوتا ہے، تبھی ہم آدم کو شجرِ ممنوعہ کے لیے مضطرب پاتے ہیں تو صرف اس لیے کہ اسے ایک سجدہ ابھی کرنا تھا۔ ایک ایسا سجدہ جو حکمِ الہی کی اندھی تقلید میں ہوتا اور نہ وہ دلیلِ الہی کا منتظر رہتا بلکہ اسے تو اپنی دلیل خود بننا تھا۔ بھلے اس کے گرد کتنا بھی اندھیرا ہو مگر اسے ٹٹولتے، گرتے پڑتے، ٹھوکریں کھاتے اس دیے تک پہنچنا ہی تھا جو اِک محبت کرنے والے نے اس کے اندر رکھ دیا تھا۔ وہ دیا جو اگر جل اٹھا تو اس پتلا خاکی میں خدا کے چہرے کی جھلک نظر آئے گی اور شیطان سے فرشتوں تک ساری کائنات ایک ابدی سجدے میں گر جائے گی۔

    پر یہ تلاش آسان نہیں ہے۔ ہم جسم کے بام ودر میں جتنا چاہیں بھٹک لیں خدا کو نہیں ڈھونڈ پائیں گے۔ ہمارا دو رخا آئینہ کوئی کنجی نہیں بس ایک قطب نما ہے۔ بس ایک ندا ہے ہمیں بتانے کو کہ ’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘۔ ہم علم ، عقل، وجدان کی کتنی بھی اونچی سیڑھی پر چلے جائیں مقامِ خدا اور ہم میں لا متناہی فاصلے حائل رہیں گے۔ اور لامتناہی فاصلے بھلا کون طے کر سکتا ہے؟

    تو مان لیں کہ آپ خدا تک نہیں پہنچ سکتے۔ پر لامتناہی لفظ کے سارے بھید میرے رب کے سامنے کھلے ہیں۔وہ تو لامتناہی کائناتوں کی تخلیق کیلئے ‘‘کن فیکون’’ کہنے کا بھی محتاج نہیں ہے۔تو بھلے آپ خدا تک نہیں پہنچ سکتے پر مان لیں کہ وہ آپ تک پہنچ گیا ہے۔ کوئی آئینہ شاید اتنا شفاف نہ ہو کہ ہم جس میں اسے اپنے چہرے میں دیکھ پائیں مگر ہم کم ازکم دوسرے انسانوں کیلئے تو اس چہرے کے اظہار کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ جب ہم بھوک سے بلکتے بچوں کو اپنے حصے کی روٹی دیتے ہیں، جب ہم دشمن کی چھاتی پر بیٹھ کر تیز دھار خنجر کو اسکی گردن پر رکھتے ہوئے اسے معاف کر دیتے ہیں، جب ہم علم کی روشنی سے لوگوں کے دلوں کو منور کرتے ہیں تو ہمارا اپنا چہرہ کہیں پیچھے چھپ جاتا ہے اور وہ لوگ دیکھ پاتے ہیں تو بس ان کے رب کا چہرہ۔

    زندگی ہر روز ہمارے سامنے نئے سوال رکھے گی۔ لیکن سوال جو ہمارے دل میں اٹھنا چاہیے وہ ایک ہی ہو گا کہ ‘‘میرا رب اگر یہاں ہوتا تو انکے ساتھ کیا معاملہ کرتا؟’’
    کیا وہ سردی سے ٹھٹھرتے بوڑھے کو چھوڑ کر اپنی گرم پوشاک میں آگے بڑھ جاتا؟
    کیا وہ دشمن کی تلواروں کے خوف سے کلمہ حق سے منکر ہو جاتا؟
    کیا وہ علم دینے میں بخیلت سے کام لیتا؟

    جب ہم خدا کے حکم اور بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے جواب دینے کی سعی کرتے ہیں تو دیکھنے والے کو ہمارے چہرے پر واحد و لا شریک رب العزت کے ہونے کا یقین کامل کر دیتا ہے ۔ اور ایک وقت آئے گا جب نوعِ انسانی خواہشات کی بے معنی ردا ئیں اتار پھینکے گی، جب وہ اپنی آرزؤں کی تلوار اس بادشاہِ عظیم کے قدموں میں لا رکھے گی اور پھر کائنات میں کچھ بھی نہ رہے گا سوائے خدائے واحد لا شریک کے۔ وہ دن ہو گا جب پوری کائنات یکسو ہو کر ایک سجدہ عظیم میں گر جائے گی_

  • عبادت کیا ہے؟ محمد یعقوب غازی

    عبادت کیا ہے؟ محمد یعقوب غازی

    محمد یعقوب کسی بھی مسلمان سے ملو اور اس سے پوچھو بھائی تم دنیا میں کیوں آئے؟ اس کا جواب ہوگا عبادت کے لیے، اچھا! تو عبادت کے مفہوم پہ روشنی ڈالو تو جواب ندارد۔
    آپ ہمیں جاہل سمجھتے ہو؟ نہیں بالکل بھی نہیں۔ میں اکثریت کی بات کر رہا ہوں۔
    تو چلیں! آج اس پہ روشنی ڈالتے ہیں۔ عبادت عبد سے ہے اور عبد انتہائی عاجزی وانکساری کانام ہے۔
    جب بندہ اللہ کی بندگی کرتا ہے اور عاجزی وانکساری میں انتہا کردیتا ہے تو وہ عبدِ مطیع بن جاتا ہے۔ عبدِ مطیع کیا چیز ہے؟ فرمانبردار بندہ۔
    اور اگر بندہ اللہ کے سامنے تکبر کرتا ہے تو وہ عبدِ عاصی بن جاتا ہے۔ باقی تو ٹھیک ہے یہ عاصی ذرا! سمجھا دیتے؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے تو آپ فرما رہے تھے: آپ ہمیں جاہل سمجھتے ہیں کیا؟ پرانی باتیں چھوڑیں۔ اچھا چھوڑدیا!
    ہو سکتا ہے آپ کو بُرا لگے لیکن میں نے کافی لوگوں کو مخلوق کے سامنے عاجز پایا اورخالق کے سامنے متکبر۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ جی ہوسکتا ہے۔ بلکہ آپ مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ کیسے ؟
    وہ ایسے کہ آپ کسی ایسے شخص کے پاس جاؤ جس کو اللہ نے دنیا کی نعمتوں میں سے کچھ عطا کیا یا چھوٹا موٹا عہدہ ۔لوگ اس کو ملنے آئے ہوئے ہوں تو غور سے لوگوں کو دیکھنا تو لوگ عاجزی اور انکساری کی مثال بنے کھڑے ہوں گے۔ پسینہ سے شرابور ہوکےگرمی کا ہوش اور نہ ہی سردی سے ٹھٹھرتے ہوئیے سردی کا ہوش۔ اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ سانس لیتے ہوئیے بھی ادب کو ملحوظ خاطر رکھ رہے ہوں۔ اُن سب کی نظر وں کا نقطہ وہی صاحب ہوں گے لوگوں کی نظریں بہت کم دائیں بائیں متوجہ ہوں گی۔ لیکن خالق ومالک کے گھروں میں سے کسی گھر جاؤ اور لوگوں کو دیکھو تو کوئی اِدھر دیکھ رہا، تو کوئی اُدھر دیکھ رہا، تو کوئی بے چارہ گرمی سے بے حال ہوکے کہہ رہا اوئے ذرا! پنکھا چلا دو ، تو کوئی کھڑکی کھول دینا گرمی لگ رہی، تو کوئی بے چارہ آنکھوں سے اشارہےکر رہا جیسے مقروض سے قرضہ وصولنے آیا ہو۔

    بندگی کیا ہے ؟
    صحابہ کرام کو مصر میں دشمن کا سامنا تھا۔ دشمن نے ایک معاہدہ کیا۔ معاہدہ کیا کہ جمعہ چونکہ مسلمانوں کی عبادت کا دن ہے اور اتوار عسائیوں کی عبادت کا دن اور ہفتہ یہودیوں کی عبادت کا دن اس لیے ان دنوں میں لڑائی نہ ہوگی۔ ہفتہ گزرا جنگ نہ ہوئی، اتوار گزرا جنگ نہ ہوئی لیکن جب جمعہ کا دن آیا، صحابہ کرام نماز جمعہ میں مشغول تھے، ایک رکعت مکمل ہوچکی تھی اور دوسری رکعت ابھی باقی تھی کہ معاہدہ کو توڑتے ہویے دشمن نے حملہ کردیا. آخری ایک رکعت میں صحابہ کرام کی ایک پوری صف شہید ہوگئی اور وہ بندے بندگی میں ایسے عاجزی و انکساری کے مثال بنے مصروف رہے کہ جب السلام علیکم ورحمۃ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کی صدا بلند ہوئی، تب پتہ چلا کہ ہمارے ساتھی نماز میں کٹ گئے اور جو کٹ گئے وہ عاجزی کے پتلے بنے کھڑے تھے کہ دشمن کی تلواروں کی جھنکار بھی سنائی نہ دی. (واقعہ بحوالہ مولانا طارق جمیل مدظلہ العالی)

  • سجدے کی قیمت – جنید اعوان

    سجدے کی قیمت – جنید اعوان

    جنید اعوان ہزاروں سال پہلے کی بات ہے۔ اردن میں دقیانوس نامی بادشاہ کی حکومت تھی جو خودبھی بتوں کی پوجا کرتا اور عوام بھی بتوں کی پرستش کرتے۔ شرک کا راج اور رواج تھا۔ اللہ کوماننے والےکہیں پائے ہی نہ جاتے۔کوئی سلیم الفطرت اگر عیسیٰ ؑ کی تعلیم کوتسلیم کرکے اللہ پر ایمان لے آتا تو اس کو مار دیا جاتا۔ان حالات میں کون اللہ کی عبادت کرکے اپنی دنیا برباد کرتا اور اپنی جا ن خطرے میں ڈالتا۔؟؟

    لیکن پھر اس قوم میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ طبقہ اشرافیہ کے کچھ نوجوان ۔۔ شاید تین یا پانچ نوجوان ۔۔ شاید چھ یا سات نوجوان۔۔ان کے دل ودماغ میں سودائے جنوں سمایا اور انھوں نے بتوں کی پوجا کرنے سے انکار کردیا۔ واصرار کرنے لگے کہ زمین و آسمان کا خالق و مالک اللہ ہے ، اس کی عبادت کرنی چاہیے اور وہی لائق اطاعت ہے۔ پہلے پہل تو والدین نے ان کو سمجھایا کہ ان “گمراہ” خیالات کو ترک کردو۔ پرانی روش پر واپس آجاؤ۔لیکن نوجوان تھے ، گرم خون تھا ، جوش و جذبات تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایمان کی حقیقت سے آشنا بھی ہو چکے تھے ، وہ بازنہ آئے۔پیار سے سمجھانے والے والدین دھونس پر اتر آئے ، ڈراوے اور دھمکیاں دیں لیکن سب بے سود۔ برادری کے دیگر لوگ بھی سمجھا بجھا کر بالآخر تھک گئے۔

    ایلیٹ کلاس کے نوجوانوں کا پنے دین سے پھرجانا ایک بڑا واقعہ تھا۔ آج کی دور کی طرح جھوٹی سچی خبریں نشر کرنے والا میڈیا تو موجود نہیں تھا لیکن پھر بھی خبر پھیل گئی۔ عوام میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ہوتے ہوتے بات دقیانوس بادشاہ تک جا پہنچی۔بادشاہ اس پر بہت برہم ہوا۔ اس نے اپنے ان مصاحبین کو طلب کر لیا جن کے گھرانوں کے بچے “باغی” ہو چکے تھے۔ ان مصاحبین نے بادشاہ کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کیا کہ ہمارے ہی بچے ہمارے قابو میں نہیں رہے۔بادشاہ کے لیے یہ ایک ناقابل برداشت بات تھی کہ اس کی مملکت میں کوئی اس کے دین سے پھر جائے لیکن پھر کچھ سوچ کر اس نے ان نوجوانوں کو خود سمجھانے کافیصلہ کیا۔

    بادشاہ نے ان نوجوانوں کو اپنے دربار میں طلب کرلیا۔ وقت مقررہ پر نوجوان دربار میں موجود تھے۔ دقیانوس نے ان کو دوبارہ بت پرستی اختیار کرنے پر مجبور کرنا چاہا لیکن نوجوانوں نے اس کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ بادشاہ غضبناک ہوگیا اور ان کو مہلت دیتے ہوئے کہا کہ وقت مقرردہ تک اپنا دین ترک کرکے پرانے دھرم پر نہ لوٹے تو قتل کر دیے جاؤگے۔

    نوجوان بادشاہ کے دربار سے نکلے اور سوچنےلگے کہ اب کیا کیا جائے ؟؟؟ دین سے پھرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، گھر واپس جائیں گے تو بھی مصیبت ، شہر میں رہیں گے تو بادشاہ کے سپاہی مہلت ختم ہوتے ہی بادشاہ کے پاس لے جائیں گے ۔ اللہ کی زمین میں کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں وہ اللہ کی بندگی بجا لاسکیں۔بتوں کے آگے ماتھا ٹیکنے کی تو پوری آزادی تھی بلکہ عیش و عشرت ، آسائش و دلت سب قدموں میں ڈھیر تھالیکن اللہ کے حضور سجدے کی قیمت جان کی قربانی تھی۔
    ان نوجوانوں نے شہر سے دور ایک غار میں جانے کا فیصلہ کیا۔ غار میں ڈر کے مارے نہیں گئے تھے بلکہ مطلوب اللہ کی عبادت تھی ، مقصوداپنی عاجزی کا اظہارتھا ، اپنی بے بسی کا اعتراف تھا اور بادشاہ کی دھمکی سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دینا تھی۔

    ان نوجوانوں کی ادائے استقامت اللہ کوا تنی پسند آئی کہ انھیں اپنی رحمت کی آغوش میں لے کر سلا دیا۔ اللہ کو ان کی بندگی اتنی اچھی لگی کہ تین سو سال سلانے کے بعد دوبارہ زندگی عطا کی۔ ان اصحاب کہف کی توحید اتنی خالص تھی کہ اللہ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں اپنے ان گمنام محبوب امتیوں کا ذکر کیا اور قیامت تک کے لیے انھیں امر کردیا۔

    کیا نوجوان تھے، زندگی داؤ پر لگادی لیکن بندگی ترک نہ کی۔
    عیش و آرام تج دیا لیکن دین سے بے وفائی نہ کی۔
    گھر بار اور ملک و ملت کو چھوڑدیا لیکن عقیدے کو نہیں چھوڑا۔
    دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
    عجب چیز ہے لذت آشنائی
    آج کےنوجوان۔۔۔ مستقبل کے بارے میں فکر مند ، کیریر کے لیے پریشا ن ،سٹیٹس بڑھانے کےخواہاں ، آسائشوں کے خوگر،خواہشات کےاسیر ۔۔!!
    کاش ۔۔!!سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھتےاور زیادہ سے زیادہ گریڈ لینے کی جستجو کرتےان نوجوانوں کو کوئی غٖار والے نوجوانوں کی داستان سنادے ، کوئی انھیں اصحاب کہف کا قصہ سنادے ، کوئی انھیں بندگی کی زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھادے۔ کوئی انھیں خدا رخ کردے ، کوئی انھیں توحید آشنا کردے۔۔۔!!

    کا ش۔۔!!کوئی انھیں بندگی کے لطف سے آشنا کردے۔ کوئی انھیں بتادے آج اللہ کو سجدہ کرنا اتنا آسان ہے تو سربسجود ہوجاؤ۔
    اس ایک سجدے کے لیے ماضی میں اہل ایمان نے اپنی جان کو داؤ پر لگادیا تھا اور مستقبل میں اگر تمھیں بھی اس سجدے کی قیمت ادا کرنی پڑی تو کیا کرو گے۔؟؟؟

  • انسانی چہرے اورجسمانی ڈیل ڈول پر ’’اعمال‘‘ کے اثرات – ادریس آزاد

    انسانی چہرے اورجسمانی ڈیل ڈول پر ’’اعمال‘‘ کے اثرات – ادریس آزاد

    ادریس آزاد کسی مذہبی شخص کی دولت وہ عقائد نہیں جو اس کے دماغ میں بھرے ہوئے ہیں اور جنہیں وہ اپنی خوش فہمی کی وجہ سے پختہ ایمان کا نام دیتاہے بلکہ اس کی دولت اس کی وہ قلبی کیفیات ہیں جو بعض اعمال کی وجہ سے گاہے بگاہے پیدا ہوتی اور اُسے مذہب کی قدروقیمت یاد دلاتی رہتی ہیں۔ مذہب کسی سکول کا مضمون نہیں کہ اسے عقلی سطح پر یاد رکھا جائے بلکہ یہ ایک ایسا عملی نظام ہے جس کا عادی ہوجانا پڑتاہے۔ چونکہ مذہب کا تعلق جذبات کے ساتھ ہے اس لیے اس کی حیثیت کسی دوا کی سی ہے نہ کہ فقط لکھے ہوئے نسخے کی سی۔ مذہبی لوگوں کے ساتھ مباحث میں عقائد پر بات کرنے والے مخالفین ہمیشہ اس بڑی حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ شخصیت کی گہرائیوں میں پرورش پانے والا ایک ایسا نظام ہے جو انسانی وجود کی فقط ذہنی ہی نہیں کیمیائی ساخت کو بھی تبدیل کردیتاہے۔ یہ سب باتیں تو ہمیں اہل تصوف کی کتابوں میں پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔ یہاں میرا مدعا جس حقیقت سے ہے وہ قدرے مختلف ہے۔

    دیکھیں! فرض کریں، ایک شخص جھوٹ کا عادی ہے۔ وہ مسلسل جھوٹ بولتاہے۔ تو مسلسل جھوٹ سے کیا ہوگا کہ سب سے زیادہ واضح اثرات اس کے چہرے پر نظر آئیں گے۔ میں اس سے بھی آسان الفاظ میں بات کرتاہوں۔ آپ ایک دوست فرض کریں جسے آپ ملنے کے لیے گئے اور آپ نے نہایت مجبوری کے عالم میں اس سے تھوڑے سے پیسے قرض مانگے۔ اُس کے پاس پیسے پڑے ہوئے تھے، وہ آپ کو دے سکتا تھا لیکن اس نے نہیں دیے بلکہ آپ سے کہا، ’’اوہ ہو! آپ ایک دن پہلے آئے ہوتے تو ضرور بندوبست ہوجاتا‘‘۔ ایسا کہتے وقت ظاہر ہے وہ ایک خاص قسم کی شکل بنائے گا۔ فرض کریں کہ وہ یہ شکل دن میں کئی بار بناتاہے اور گزشتہ بیس سال سے بنا رہا ہے تو کیا یہ عین سائنسی بات نہیں کہ اس کی شکل ایک خاص قسم Shape اختیار کرجائے گی۔ کتنے بچوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ جب وہ معصوم بچے تھے تو فرشتے معلوم ہوتے تھے اور جب وہ دنیا میں رہے، بڑے ہوئے، ایک خاص قسم کی تربیت حاصل کی تو اب ہمارا دل بھی نہیں کرتا کہ اُن کی طرف چہرہ گھما کر بھی دیکھ لیں۔ اور ایسے بھی کتنے لوگ ہم نے دیکھے ہیں جو بچپن میں کالے پیلے، بیمار، موٹے ہونٹوں والے اور نالائق قسم کے ہوتے تھے لیکن وقت کی ٹھوکروں، غموں، حادثات اور اچھی تربیت نے انہیں ایسا بنادیا کہ اب ہم ان کے پاس بیٹھ جائیں تو اُٹھنے کو دل نہیں کرتا۔

    شکل و صورت بظاہر تو مادی چیز ہے لیکن اس کا نہایت گہرا تعلق اعمال کے ساتھ ہے۔ دل کی خوبصورتی اور کمینگی دونوں ہی وقت کے ساتھ ساتھ چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کے بارے میں قران کہتاہے فی قلوبہم مرضٌ ، ان کے چہروں پر اتنا موٹا موٹا لکھاہوتاہے کہ ’’جی ہاں! ہمیں دل کا عارضہ لاحق ہے‘‘ اور عارضہ ہرگز وہ عارضہ نہیں جس کے لیے میڈیکل ڈاکٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسانی جسم کا ڈیل ڈول اور چہرے کی ساخت کا نہایت گہرا تعلق انسان کے اعمال ِ حسنہ اور اعمالِ سیٗہ کے ساتھ ہے۔ ملاوٹ والا دودھ بیچنے والے تین چار گوالوں کو ایک ساتھ کھڑا کرکے دیکھیں! آپ کو حیران کن حد تک ان میں ایک خاص قسم کی مشابہت نظر آئے گی جسے آپ الفاظ میں بیان نہ کرپائینگے لیکن پہچان ضرور جائینگے۔ ویسے ایک بہت آسان مثال بھی موجود ہے۔ پولیس میں اور خاص طور پر پنجاب پولیس میں ہمیں بہت سے ایسے کردار مل جاتے ہیں جنہیں اگر ایک جگہ اکھٹا کھڑا کردیں تو ان میں ایک خاص قسم کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ مزید گہرا مشاہدہ اور معلومات کرنے پر معلوم ہوتاہے کہ ان تمام لوگوں کی کوئی قباحت مشترک تھی۔

    ایسی ہی ایک شکل بعض میڈیکل ڈاکٹروں کے چہروں پر مشترک ملتی ہے۔ اور خاص طور پر ٹیوشن پڑھانے والے ٹیچروں کو باقاعدہ ریسرچ کے ارادہ سے جاکر ملیں، آپ کو ان میں ایک خاص قسم کی قباحت، سب کے سب میں، مشترک نظر آئے گی۔

    دوسروں کی قباحتیں گنوانا کوئی اچھی بات نہیں۔ میرا مدعا کسی کی قباحت گنوانا نہیں، اس بات کی طرف اشارہ کرناہے کہ مذہب اگر فقط عقائد کا نظام ہوتا تو اس کے اثرات ’’روح کی کھڑکی یعنی آنکھوں میں‘‘ اور چہرے پر اتنی شدت سے مرتب نہ ہوتے۔ کہنے کو یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ بغیر کوئی مذہب تسلیم کیے بھی تو ایسے اچھے برے اثرات سے چہرے کو روشن یا تاریک بنایا جاسکتاہے۔ ہاں ایسا ممکن ہے لیکن آپ کبھی ان چہروں کو غور سے دیکھیں جو ایسے ہیں۔ جو ایتھسٹ ہیں لیکن بہت ہی اچھے انسان ہیں۔ اس میں بلاشبہ تنکا بھر شک نہیں کہ وہ بھی اچھے اعمال کی بدولت بہت من بھانونے اور خوبصورت ہوجاتے ہیں لیکن اگر ایسے چند لوگوں کو ایک ساتھ کھڑ اکرکے ان کا سائنسی نظر سے مشاہدہ کریں تو آپ کو ان میں بھی ایک شئے مشترک نظر آئے گی جو ’’بے رُوح‘‘ ہونے جیسا کچھ ہوگا۔ حی و قیّوم خدا کے ساتھ کوئی رشتہ نہ ہونے کی صورت میں، وقت کے ساتھ ساتھ جیسی لاپرواہ اور قدرے خشک شکل بن جاتی ہے وہ خوبصورت ضرور ہوسکتی ہے لیکن اس میں ایک اضافی چمک جسے شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول شہیدؒ کے ’’اِلُمینیشنزم‘‘ کے مطالعہ سے بخوبی سمجھا جاسکتاہے، قطعی طور پر مفقود ہوتی ہے۔

  • آج کی چھوٹی سی نیکی – عظیم الرحمن عثمانی

    آج کی چھوٹی سی نیکی – عظیم الرحمن عثمانی

    عظیم عثمانی پچھلے دسمبر ایک روز جب انگلینڈ میں شدید برف باری ہو رہی تھی اور ہر کسی کو سردی نے جکڑ رکھا تھا، میں نے اپنی آفس کی کھڑکی سے دیکھا کہ میرا ایک ساتھی اس منجمد کردینے والی ہوا میں باہر دستانے چڑھائے اور ہاتھ میں بیلچہ تھامے راستے سے لوگوں کے لیے برف کے انبار صاف کر رہا ہے. میں حیرت سے ٹھٹھرتا ہوا اسے دیکھتا رہا، کچھ دیر بعد جب اس سے ملاقات ہوئی تو پوچھا کہ تم تو میری طرح انجینئر ہو، پھر تمہارے ذمہ اس سردی میں یہ سخت کام کس نے لگادیا؟. اس نے مسکرا کر جواب دیا کہ ” یہ میری آج کی چھوٹی سی نیکی ہے.”
    .
    چند روز پہلے آفس کے کچن میں رکھا ڈش واشر خراب ہوگیا. نتیجہ یہ ہوا کہ صفائی کرنے والوں کے لیے برتنوں کے انبار لگنے لگے. دن کے اختتام پر کام ختم کرکے جب میں گھر جانے لگا تو دیکھا کہ ایک سینئر مینیجر آستینیں چڑھائے سارے برتن مانجھ مانجھ کر دھو رہی ہے. میری استفسار کرتی نظروں کو دیکھا تو مسکرا کر مخاطب ہوئی کہ ”یہ میری آج کی چھوٹی سی نیکی ہے.”
    .
    ایسے ہی ان گنت مشاہدوں سے مجھے یہ سمجھ آنے لگا کہ نیکی صرف یہ نہیں کہ میں دو رکعت نماز زیادہ پڑھ لوں یا چندے کے ڈبے میں چند روپے ڈال آؤں بلکہ برتر نیکی یہ ہے کہ ایسے مواقع تلاش کروں جہاں مخلوق کے خاموشی سے کام آسکوں، کسی کی اذیت کم کرسکوں. کچھ روز پہلے ہمارے فلیٹس کی لفٹ خراب ہوگئی، جس کے بغیر کچرا نیچے لے جانا محال تھا. گھر کا کچرا پھینکنے کے لیے نکلا تو دیکھا کہ ایک پڑوسی خاتون نے بھی اپنا بہت سا کچرا باہر رکھ رکھا ہے. میں نے اس کا کچرا بھی ساتھ اٹھا لیا. پھر اس خیال سے کہ کچرے والے کو مشکل نہ ہو، ان کچرے کے بڑے بڑے بستوں کو گرہ لگا کر باندھ دیا. ظاہر ہے کہ اس سے میرے ہاتھ خراب ہوگئے. ساتھ چلتی ہوئی ایک کم عمر بچی نے حیرت سے میری طرف دیکھا تو بے اختیار میرے منہ سے نکلا ”یہ میری آج کی چھوٹی سی نیکی ہے.”

  • پھر ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا – محمد نعمان بخاری

    پھر ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا – محمد نعمان بخاری

    نعمان بخاری ہمیں اچھی طرح یاد ہونا چاہیے کہ خدا نے تمام بنی آدم کو پُشتوں سے ظاہر فرما کر وقتِ الَست ایک اہم عہد لیا تھا کہ اَلستَ بِربکم.. (کیا میں تم سب کا رب نہیں ہوں؟). ہم نے اپنی مرضی اور اختیار سے یہ اقرار کیا تھا کہ بے شک ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہی ہمارے رب ہیں. تب خدا نے فرمایا تھا کہ اس بات کو بھول نہ جانا کہ روز قیامت کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہیں؟

    کیا کہا؟ آپکو یاد نہیں ہے؟ واقعی؟ اچھا اپنا دائیاں کان میرے قریب کرو اور بائیں میں انگلی ڈالو. یار ویسے آپس کی بات ہے کہ مجھے بھی یاد نہیں ہے،، تھوڑا سا بھی نہیں. میں نے بہت دماغ لڑایا، بہتیرا سوچا، اپنے احساس کو دور، کہیں بہت ہی دور لے جانے کی جدوجہد کی،، کافی دیر آنکھیں موندے لائٹ بجھائے تخلیہ کیا، مگر عہد ہے کہ مجال ہے ذرا یاد آ جائے. پھر کیسے مان لوں کہ واقعتاً مجھ سے ایک ایسا وعدہ لیا گیا جس کی مجھے خبر ہی نہیں؟ کمال ہے بھئی،، یہ تو گویا سیاستدانوں والا وعدہ ہوا کہ جھٹ کیا اور پَٹ بھلا دیا.!

    ہفتے کے روز مجھے دفتر سے چھٹی ہوتی ہے تو میں عموماً صبح کو دکان سے دودھ لینے چل نکلتا ہوں، اس بہانے ہفتہ وار مارننگ واک بھی ہو جاتی ہے. پچھلی بار جب میں دودھ لے کر واپس آرہا تھا تو راستے میں ایک دوست نے لفٹ دی اور رہائش تک چھوڑ گیا. آج واپسی پہ وہ مجھے خواہ مخواہ یاد آگیا. خیالوں پہ بھلا کس کا بس چلتا ہے، سو اگلا خیال یہ آیا کہ اُس دن ہم نے میس میں کون سا سالن بنایا تھا؟ ذہن پہ زور دیا تو یاد آیا کہ شاید آلو گوبھی پکائی تھی. پھر خیال کوندا کہ اُس سے پچھلے ہفتے اور پھر اُس سے پچھلے ماہ ہم نے کیا کھایا تھا؟ ارے یہ کیا.! مجھے میری ایک پرانی خلش کا جواب مل رہا تھا جو ملحدین کے مباحثے میں تب پیدا ہوئی تھی جب میں ایک ملحد کے عہدِ الست پر اٹھنے والے اعتراض کا آسان فہم اسلوب میں ازالہ نہ کر سکا تھا.!

    میں نے اپنے مکمل ہوش، کلی اختیار اور پورے شعور کے ساتھ جنوری کی تین تاریخ کو جو کچھ کیا تھا، اب میرے ذہن سے مٹ چکا ہے. میں یکسر بھول گیا ہوں کہ میں مارچ کی انیس تاریخ کو کس کس سے کہاں ملا تھا اور میں نے کیا کچھ بولا تھا. ہاں ایک طریقہ ہے یاد رکھنے کا کہ اپنے ہر لمحے کو کہیں لکھ کر محفوظ کر لیا جائے،، جیسا کہ میں نے میس میں پہنچ کر حساب والی کتاب اٹھائی، پچھلے ہفتے کا گوشوارہ دیکھا تو علم ہوا کہ اوہ، ہم نے آلو گوبھی نہیں بلکہ اپنے ذاتی فیصلے اور ارادے سے دال چنا پکائی تھی، جس کے لیے ہم پر کسی کا کوئی جبر اور پریشر نہیں تھا، پھر بھی نجانے کیونکر بھول گیا. آپ کو بدگمانی سے بچانے کےلیے واضح کرتا چلوں کہ ہم کھانے پینے کے معاملے میں کنجوس بالکل بھی نہیں ہیں، کیونکہ ہم نے ابھی کل ہی تو چکن بریانی اور پرسوں کڑاھی گوشت بنایا تھا. مگر اگلے سال تک میں یہ سب بھول چکا ہوں گا..!

    بھول جانا یا بُھلا دیا جانا ہم انسانوں کی ایک بِلٹ اِن خصلت ہے. یہ کبھی ہمارے لیے انعام ثابت ہوتی ہے تو کبھی امتحان. دار دنیا میں یہی ہمارا امتحان ہے کہ ہم عہد الست کے لمحے کو بھلا چکے ہیں،، بالکل ویسے جیسے ہمارے ماضی کے کئی واقعات ہمارے ذہن سے غیر ارادی طور پر محو ہو گئے ہیں. لیکن فطرت سلیم رہے تو ہمارا ضمیر ہمیں ہمیشہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ “خبردار! دیکھو تم عہد کی پاسداری نہیں کر رہے، یہیں رک جاؤ..” کہیے! یاد دلاتا ہے یا نہیں؟ اگر بالفرض نہیں دلاتا تو کتابِ مبین اُٹھا کے دیکھ لو. یاد کرنے کی “نیت” سے پڑھو اور سوچو گے تو کتاب میں عہد نامے کی ساری شقیں لکھی پاؤ گے. احساس کو جتنا چاہے وسیع اور پختہ کر لو، تب بھی ضروری نہیں کہ عین وہی منظر آپ کو دکھائی بھی دینے لگے، جیسا کہ مجھے کماحقہ احساس اور حقیقی ادراک نہیں ہو پا رہا کہ کہ مجھ پہ نومبر دو ہزار تیرہ کی کسی خنک صبح کو کیا بیت رہی تھی، حالانکہ تب میں اپنے مکمل حواس میں تھا. چلیں چھوڑ دیں یہ سب اُلجھی اُلجھی باتیں،، اگر آپ اتنے ہی لاپروا ہیں کہ خدا کی گواہی کو کافی نہیں سمجھتے تو پھر کچھ مزید دن عیاشیاں کر لیں. کر لیں اپنی نفسانی خواہشات کی اندھی پیروی. مہلت تمام ہونے اور سانسیں تھمنے کی دیر ہی تو ہے. پھر “حساب کی کتاب” میں سب کہا سُنا اور کیا دھرا آنکھوں کے سامنے ہو گا. پھر آپ جانو گے کہ اوہ واقعی، ہم سے ایک عہد تو لیا گیا تھا.. تب یہ نہ کہنا کہ “کاش مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی. کاش میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے. کاش دنیاوی موت ہی میرے لیے فیصلہ کُن ہوتی. وائے ناکامی، آج یہاں کوئی کسی کا یار اور غمگسار نہیں ہے.”
    دراصل یہ صرف پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے جو کتاب (نامہ اعمال) کے ملنے اور اپنے رب سے ملاقات ہونے پر کامل یقین رکھتے ہیں.. فھل مِن مدَّکر؟؟