کسی بھی مسلمان سے ملو اور اس سے پوچھو بھائی تم دنیا میں کیوں آئے؟ اس کا جواب ہوگا عبادت کے لیے، اچھا! تو عبادت کے مفہوم پہ روشنی ڈالو تو جواب ندارد۔
آپ ہمیں جاہل سمجھتے ہو؟ نہیں بالکل بھی نہیں۔ میں اکثریت کی بات کر رہا ہوں۔
تو چلیں! آج اس پہ روشنی ڈالتے ہیں۔ عبادت عبد سے ہے اور عبد انتہائی عاجزی وانکساری کانام ہے۔
جب بندہ اللہ کی بندگی کرتا ہے اور عاجزی وانکساری میں انتہا کردیتا ہے تو وہ عبدِ مطیع بن جاتا ہے۔ عبدِ مطیع کیا چیز ہے؟ فرمانبردار بندہ۔
اور اگر بندہ اللہ کے سامنے تکبر کرتا ہے تو وہ عبدِ عاصی بن جاتا ہے۔ باقی تو ٹھیک ہے یہ عاصی ذرا! سمجھا دیتے؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے تو آپ فرما رہے تھے: آپ ہمیں جاہل سمجھتے ہیں کیا؟ پرانی باتیں چھوڑیں۔ اچھا چھوڑدیا!
ہو سکتا ہے آپ کو بُرا لگے لیکن میں نے کافی لوگوں کو مخلوق کے سامنے عاجز پایا اورخالق کے سامنے متکبر۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ جی ہوسکتا ہے۔ بلکہ آپ مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ کیسے ؟
وہ ایسے کہ آپ کسی ایسے شخص کے پاس جاؤ جس کو اللہ نے دنیا کی نعمتوں میں سے کچھ عطا کیا یا چھوٹا موٹا عہدہ ۔لوگ اس کو ملنے آئے ہوئے ہوں تو غور سے لوگوں کو دیکھنا تو لوگ عاجزی اور انکساری کی مثال بنے کھڑے ہوں گے۔ پسینہ سے شرابور ہوکےگرمی کا ہوش اور نہ ہی سردی سے ٹھٹھرتے ہوئیے سردی کا ہوش۔ اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ سانس لیتے ہوئیے بھی ادب کو ملحوظ خاطر رکھ رہے ہوں۔ اُن سب کی نظر وں کا نقطہ وہی صاحب ہوں گے لوگوں کی نظریں بہت کم دائیں بائیں متوجہ ہوں گی۔ لیکن خالق ومالک کے گھروں میں سے کسی گھر جاؤ اور لوگوں کو دیکھو تو کوئی اِدھر دیکھ رہا، تو کوئی اُدھر دیکھ رہا، تو کوئی بے چارہ گرمی سے بے حال ہوکے کہہ رہا اوئے ذرا! پنکھا چلا دو ، تو کوئی کھڑکی کھول دینا گرمی لگ رہی، تو کوئی بے چارہ آنکھوں سے اشارہےکر رہا جیسے مقروض سے قرضہ وصولنے آیا ہو۔
بندگی کیا ہے ؟
صحابہ کرام کو مصر میں دشمن کا سامنا تھا۔ دشمن نے ایک معاہدہ کیا۔ معاہدہ کیا کہ جمعہ چونکہ مسلمانوں کی عبادت کا دن ہے اور اتوار عسائیوں کی عبادت کا دن اور ہفتہ یہودیوں کی عبادت کا دن اس لیے ان دنوں میں لڑائی نہ ہوگی۔ ہفتہ گزرا جنگ نہ ہوئی، اتوار گزرا جنگ نہ ہوئی لیکن جب جمعہ کا دن آیا، صحابہ کرام نماز جمعہ میں مشغول تھے، ایک رکعت مکمل ہوچکی تھی اور دوسری رکعت ابھی باقی تھی کہ معاہدہ کو توڑتے ہویے دشمن نے حملہ کردیا. آخری ایک رکعت میں صحابہ کرام کی ایک پوری صف شہید ہوگئی اور وہ بندے بندگی میں ایسے عاجزی و انکساری کے مثال بنے مصروف رہے کہ جب السلام علیکم ورحمۃ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کی صدا بلند ہوئی، تب پتہ چلا کہ ہمارے ساتھی نماز میں کٹ گئے اور جو کٹ گئے وہ عاجزی کے پتلے بنے کھڑے تھے کہ دشمن کی تلواروں کی جھنکار بھی سنائی نہ دی. (واقعہ بحوالہ مولانا طارق جمیل مدظلہ العالی)
تبصرہ لکھیے