عامر لیاقت حسین نے کافی حد تک بھانڈا پھوڑ دیا ہے. دوسری طرف پریس کانفرنس کو ابھی چند گھنٹے نہیں گزرے کہ بیانات بدلنے لگے ہیں. پہلے کہا گیا کہ پارٹی پاکستان سے چلائیں گے، اب خبر ہے کہ مشاورت میں لندن آفس بھی شامل تھا جبکہ قائد تحریک کو صرف وقتی آرام کا مشورہ دیا گیا ہے.
ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ کوئی مائنس الطاف حسین بات نہیں ہوئی ہے. بس ڈیمج کنٹرول کی شاندر سیاسی پرفارمنس نے پارٹی کو بچالیا ہے. البتہ اتنی جلدی فاروق بھائی اینڈ کمپنی اپنا ہی راز خود کھول دے گی، یہ امید نہ تھی. ہم تو ایک سال سے کہہ رہے تھے کہ عامر لیاقت مردار کا گوشت نوچنے آئے ہیں، آپ کو سمجھ نہ آئی. ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ عامر خان جھاڑو پھیرنے کے واسطے بھیجے گئے ہیں مگر آپ کو یہ بھی سمجھ نہیں آئے گی.
گزارش یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنما اور کارکنان قوم کے جذبات کو اتنا ہلکا نہ لیں. خود آپ کے مہاجر ووٹرز نے آپ کو تنہا چھوڑ دیا ہے جبکہ فوج اور سیاسی اکابرین آپ کو مزا چکھانے کے لیے بدستور یکسو ہیں. صرف فوجی قیادت ہی نہیں, وزیر اعظم کا بیان بھی بہت واضع اور بھرپور ہے. اپوزیشن پہلے ہی آپ سے نالاں تھی.
ملک میں کوئی سیاسی جماعت اور مکتب فکر ایسا نہیں جو آپ سے ہمدردی رکھتا ہو. کیا مذہبی لوگ اور کیا سرخے، لبرل اور قوم پرست، سب آپ سے زخم کھائے ہوئے ہیں. میڈیا کا کوئی گروپ آپ کو کاندھا دینے اور کوئی دانشور آپ کے حق میں لکھنے پر رضامند نہیں ہے. اس کیفیت کو آپ نے سمجھا اور شاندار سیاسی کوشش سے قابو بھی کرلیا. لیکن پھر آپ صبر اور تقیہ برقرار نہ رکھ سکے، ضبط ٹوٹ گیا اور دل کا چور باہر آنے لگا.
صاحبو! یہ کوئی معمولی بات نہیں ہوئی ہے. الطاف حسین ایک عظیم جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، جس کی کوئی معافی نہیں بنتی. دنیا میں ایسی کوئی بیماری نہیں جس میں کوئی اپنے وطن کو مغلظات سے نوازے اور دشمن کو مدد کے لیے پکارے. سیدھی سی بات ہے کہ یہ قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا گیا تھا. ایم کیو ایم کے رہنما اگر ملک اور مہاجروں سے ذرا سا بھی مخلص ہیں تو انہیں واقعی میں الطاف حسین سے جان چھڑا لینی چاہیے.
Tag: عامر لیاقت حسین
-
ڈرامے کا ڈراپ سین – کاشف نصیر
-
عامر لیاقت کا کیا قصور – حافظ یوسف سراج
عامر لیاقت صاحب کا بھلا قصور ہی کیا ہے جناب خاکوانی صاحب؟
افسوس ہم پر اور افسوس ہماری جہالت مآب برداشت پر کہ جنھوں نے شہرت کو خدا کہا اور چند ٹکوں کی خاطر وہ کچھ بھی برداشت کر گئے کہ کسی مہذب عہد میں شاید ہی کسی انسان نے یہ برداشت کیا ہو. افسوس کہ ہماری خود پر عائد کردہ اخلاقی و صحافتی پابندیاں کھلے عام بات کہنے سے مانع ہیں. ورنہ عامر لیاقت فی الاصل کیا ہے؟ کائنات کے شریف ترین انسانوں کی ناموس پر کیچڑ اچھالنے کی کمائی کھانے والا یہ آدمی کس زبان دراز قبیلے کا بےعلم علمبردار ہے. یہ سب کھل کے کہہ دیا جاتا. بہرحال کیا بھلا لوگ اتنا بھی نہیں جانتے؟ پھر مجھے بھلا بتانے کی بھی کیا ضرورت ہے کہ انٹرنیٹ اور یو ٹیوب وغیرہ پر وہ ہفوات اب بھی موجود ہیں. ان شرفائے زمیں پر کی گئی گھٹیا ترین بکواس کہ اغیار تک جن مقدس شخصیات کا نام احترام سے لیتے ہیں. اس شخص کی اسی بےلگام زبان کی صلاحیت کو جیو نے اٹھایا اور پہلی بار پھر اس اذیت ناک فنکاری کو ٹی وی پر بیچنے کا تجربہ کیا. دونمبر اور گھناؤنے کاروباروں کی طرح یہ دھندہ بھی پھر خوب چل نکلا. آپ ذرا اس ہمچو ما دیگرے نیست نفسیات رکھنے والے موصوف کا ٹریک ریکارڈ دیکھ لیجیے، کوئی صاحب عزت پھر آنجناب کی زبان دراز سے بھلا بچ بھی پایا ہے؟ ہاں ایسا ضرور ہوا کہ ہر طاقت کے سامنے آنجناب نے سجدہ کیا اور ایسا کہ عبرت کا نمونہ ہوگیا. اگر راحیل شریف ہے اور نواز شریف ہے اور ظاہر ہے یہ دو قوتوں کے نام ہیں تو اب جناب کی رمضان کی ٹرانسمیشن کا نام بھی رمضان “شریف “ہوگا. اگر فوج نے ان کے ٹی وی کا ناطقہ بند کیا ہے تو تب رمضان” پاک” ہو جائے گا. ایم کیوایم کی قوت موصوف سے بھاری ہے چنانچہ اس طاقت کے سامنے یہ صاحب اکیلے ہی نورتنوں کا پیکر واحد بن جائیں گے. اس کردار پر بھی مگر شرمسار تو وہ ہو کہ جس کی آنکھ میں ابھی حیا کی کچھ نمی باقی ہو. یہاں مگر وہ کہاں؟ چنانچہ تکبر اور سرکشی میں ڈوبا بدترین تکبر!
تکبر ہر ایک کے لیے تباہ کن ہے. بے علموں کے لیے تو مگر یہ ایسی تباہ کن رسوائی کی کبھی نہ ختم ہونے والی داستان ہو جاتا ہے کہ الامان! بد زبانی سے شرفا دامن بچاتے ہیں، اوچھے لوگ مگر اس کو اپنی طاقت جاننے لگتے ہیں اور اسی چیز کو نیچ خصلت اپنی چرب زبانی کی فتح گردان کے خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگتے ہیں. کیا آپ کو یاد ہے کہ اسی گزشتہ رمضان سے پہلے جیو ٹی پر لائیو ان صاحب نے کیا فرمایا تھا؟ کہا تھا کہ رات کو روزہ و رمضان ختم ہو جاتا ہے اور پھر پرائم ٹائم شروع ہوجاتا ہے. یہ ہے اس پیارے سکالر کا مبلغ علم اور احترام رمضان و ایمان! پھر کس تکبر اور رعونت سے اس نے کہا تھا کہ تمھیں پتا بھی ہے کہ تم کس (عامر لیاقت) کے پروگرام کے بارے می بات کر رہے ہو؟ (اگرچہ درست !) اس نے کہا تھا کہ وہ یہی کرے گا ( کہ جس سے خواہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت سارے مسلمانوں کے دل دکھتے رہیں) پھر اس نے پوری پاکستانی قوم کو چیلنج دیا تھا کہ اگر روک سکتے ہو تو عامر لیاقت کا پروگرام روک کے دکھاؤ. یہ فرعونی تکبر ہم نے سن تھا اور سہا تھا اور پھر لان کے ایک سوٹ، چائنہ کی ایک بائیک اور ٹی وی سکرین پر اپنی رونمائی کے عوض ہم نے اس کا عرش ہلا دیتا اور نبی کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دکھا دیتا تکبر بھلا ڈالا تھا.
پھر جناب ! وہ کون سا اخلاق ہے جو محترم کے کالموں اور ٹی وی پروگراموں کی زبان سے جاری و ساری رہتا ہے. ایک لفظ اور صرف ایک لفظ اس کے لیے جامع ہے. رکاکت! جی ہاں پرلے درجے کی رکاکت اور رذالت. کیا یہ بات آپ جیسے سکالرز اور اس قوم سے اوجھل ہے کہ وہ سارے الفاظ کہ گھٹیا سمجھ کے جنھیں لغت نے بھی اپنے دامن میں جگہ نہ دی تھی، ان سب کو آں جناب نے اپنا سرمایۂ دانش جان کے سمیٹ لیا تھا اور اخبار نے انھیں ریٹنگ کی خاطر بیچا اور کس دھڑلے سے بیچا. ہم دیکھا کیے، ہم چپ رہے. منظور تھا پردہ تیرا!
اے میری بھولی پاکستانی قوم اور مکرم خاکوانی صاحب ! کیا آپ کو یاد نہیں کہ انھی موصوف نے جنید جمشید کو کس قدر گھٹیا، غلیظ اور غلاظت کی آخری پستی میں اتری بازاری اور نیچ گالی ٹی وی سکرین پر دی تھی. ماں کی گالی. اللہ کی قسم مجھے نہیں پتا کہ ایک ماں کی کوکھ سے پیدا ہونے والا کسی کو ماں کی گالی کیسے دیتا ہے؟ اور ہمیں اسلام سکھانے والے عامر لیاقت حسین نے بتایا تھا کہ ایسے! ہم جانتے ہیں کہ جنید جمشید کا وہ میدان نہ تھا، اس سے بے احتیاطی ہو گئی تھی. ایسا موقع لیکن جناب عامر لیاقت حسین کو اللہ دے. بخدا لکھتے قلم کانپتا ہے جو اس نے کہا. براہ راست جنید جمشید کی والدہ محترمہ کو ‘فاحشہ ‘ قرار دے دیا. اور کیا آنجناب کو معلوم نہ تھا کہ پیغمبر کے فرمان کی رو سے یہ دراصل انھوں نے خود اپنی پیاری والدہ ماجدہ کو گالی دی تھی. آپ نے صحابہ سے فرمایا : کوئی اپنے والدین کو برا بھلا نہ کہے! حیرت سے دنگ صحابہ نے دریافت کیا ، کیا اپنے والدین کو بھی کوئی گالی دیتا ہے؟ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ہاں اس وقت کہ جب تم کسی کے والدین کو گالی دے کر اسے جوابی گالی کے لیے مجبور کرتے ہو تو گویا یہ اپنے ہی والدین کو گالی دینے کے مترادف ہے. بہرحال یہ بدترین اتہام تھا. یہ گندی ترین دہشت گردی تھی. مگر ہم چپ رہے. لان کے ایک سوٹ اور چائنہ کی ایک بائیک کے عوض ہم نے معاشرے کی ماں کو، اپنی ماں کو دی گئی گالی برداشت کی. یاد آیا امریکی وکیل نے ایمل کانسی کے کیس میں یہی تو کہا تھا کہ چند ڈالروں کی خاطر پاکستانی اپنی ماں تک بیچ دیتے ہیں. اور ہم نے بیچ دی. یہ الگ بات کہ مکافات عمل کی گرفت میں آئے عامر صاحب جلد ہی کسی طرف سے اپنی سگی والدہ پر ہوئے حملے کے دفاع میں جھاگ اڑا رہے تھے.
جناب مکرم ! قصور عامر لیاقت کا نہیں. عامر لیاقت ٹھیک وہی کچھ ہے جو آج منکشف ہوا ہے. اس کا اندر عین وہی ہے جو آج کے کالم سے باہر نکلتا دکھائی دیا ہے. عامر لیاقت وہی ہے، جس نے ٹی وی پر ایک محترمہ کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہوئے، منصب شریعت سنبھالتے ہوئے، اسے دوپٹے کی رخصت عطا فرما دی تھی. سوچتا ہوں کس منہ سے اس نے کہا ہوگا کہ جس کے گلے میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پٹہ ہو اسے کسی دوپٹے شوپٹے کی ضرورت نہیں رہتی. صرف اتنا سوچیے کہ تب کسی نے کیوں نہ پوچھا کہ اہل بیت اطہار نے، سیدہ فاطمہ الزہرا نے اور امہات المومنین نے حجاب کے جو دوپٹے اوڑھے تھے تو کیا وہ اس لیے تھے کہ نعوذباللہ ان کے گلوں میں محبت رسول کے پٹے نہ تھے؟ ہم نے یہ بھی سنا اور ہم یہاں بھی چپ رہے. کسی زبان دراز سے اپنا دامن عزت بچانے اور لان کا ایک سوٹ کمانے کی خاطر . ہم چپ رہے!
حضور سانپ زہریلا ہوتا ہے، اس کے باوجود اگر ہم اسے پالتو کر لیں تو قصور سانپ کا تو نہیں نا، ہمارا ہی ہوگا! جناب مکرم اور میرے سادہ دل قارئین محترم! اگر ہم اپنا دین، اپنی ماؤں کی عزت اور اہل بیت کی ناموس بچانا چاہتے ہیں تو چپ کے روزے کے خلاف دو حرف حق ادا کرنے کی کچھ ذمے داری ہمیں بھی ادا کرنی ہوگی. سوال صرف یہ ہے کہ کیا آج کچھ لوگ اپنی ذمے داری کا احساس کرسکیں گے؟ کیا آج ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم سیاہ کو سفید کہنے، جعلساز کو رہنما ماننے سے انکار کرتے ہیں؟ تاکہ معاشرے کو ہر قسم کی دہشت گردی سے نجات دلانے میں ہم بھی اپنا کردار ادا کر سکیں؟؟ کیا ایک زبان دراز ، ایک ٹی وی، ایک اخبار ہم عوام کی رائے سے زیادہ طاقتور ہیں ؟ کیا ابھی اگلے دن ہماری رائے نے ترکی میں ٹینکوں کو شکست نہیں دی؟ یا ابھی ہمیں اپنی اور مومنوں کی ماؤں کے لیے ابھی اور ناروا باتیں سننا اور برداشت کرنا ہیں؟؟
-
ڈرامے باز مداری – عامر خاکوانی
جعلی ڈگری والے عامر لیاقت حسین کے بارے میں اس اخبارنویس کی رائے بہت ہی منفی ہے۔ میرے نزدیک یہ شخص دین کا مذاق اڑانے والا، رمضان کا تماشا بنانے، بدترین ڈرامہ بازیوں کے ذریعے ریٹنگ لینے والا ایک نہایت فضول انسان ہے، حماقت جس کے چہرے سے برستی، جہالت لبوں سے ابلتی اور کمینگی و شیطنیت اس کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے۔ حیرت ہے کہ ایسے بدترین شخص کے پروگرام کو ریٹنگ مل جاتی ہے۔ اس سال 12 ربیع الاول کے موقع پر بدقسمتی سے چند منٹ کے لیے مجھے اس کی جیو ٹی وی پر ٹرانسمیشن دیکھنے کا موقع ملا تو بیٹھا دوبھر ہوگیا۔ اس کی حرکتیں اس قدر افسوسناک، گھٹیا اور بازاری تھیں کہ خون کھولنا شروع ہوگیا۔
میں سمجھتا تھا کہ یہ شخص جسے دنیا عامرلیاقت کہتی ہے، اپنے بدترین لمحات تک پہنچ چکا ہے، شر اس کے انگ انگ میں بھرا ہے، جسے بیچ کر یہ کروڑوں کماتا ہے، مگر نہیں میں غلطی پر تھا، کمینگی، گھٹیا پن اور بے شرمی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ تحث الثریٰ سے بھی نیچے کی بعض منزلیں ایسے لوگوں کے لیے وقف ہوتی ہیں۔ آج جنگ میں اس نے کالم لکھا. ایسا شرمناک، فضول اور گھٹیا کالم کہ مجھے افسوس ہوا، اسے جنگ اخبار نے چھاپا۔ جنگ پر تنقید کی جا سکتی ہے کئی حوالوں سے، مگر بہرحال اس قسم کے شرمناک کالم کبھی یہاں شائع نہیں ہوئے تھے۔ افسوس صد افسوس۔
اور یہ کالم اس نے بزرگ کالم نویس ہارون الرشید کے خلاف لکھا۔ ہارون صاحب کی تحریروں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان پر تنقید کی بھی گنجائش ہے، اس خاکسار نے کئی بار ان سے اختلاف کیا اور ان کے سامنے کیا۔ وہ ایک انسان ہیں، خامیاں جس میں موجود ہونا فطری امر ہے۔ لیکن بہرحال ہارون الرشید صاحب کا کالم نگاری میں ایک بہت معتبر نام ہے۔ ان کا سحرانگیز اسلوب آج بھی ہزاروں لاکھوں کو مسحور کر دیتا ہے۔ یہ ان کا کریڈٹ ہے کہ کالموں میں قرآن وحدیث کے حوالے دینا، صوفیا کے اقوال دینا شروع کیے، اس وقت جب ایسا کرنا جرم سمجھا جانے لگا تھا۔ ہارون صاحب ٹی وی اینکرز میں بھی اپنا مقام رکھتے ہیں، بے لاگ، تیز اور کھری کھری گفتگو سنانے میں ان کا ثانی نہیں۔ اتفاق سے کل میں نے وہ پروگرام خود دیکھا جس میں یہ مجسم شر عامر لیاقت اور ہارون الرشید صاحب موجود تھے۔ ہارون صاحب کا جرم یہی ہے کہ انھوں نے ایم کیوایم جیسی بدمعاش اور فسطائیت کی علمبردار قاتل جماعت پر تنقید کی اور صاف صاف کہہ ڈالا کہ ایم کیو ایم نے میڈیا کو ہائی جیک کر رکھا تھا، اس کے خلاف ایک لفظ کوئی نہیں چھاپ سکتا تھا، اس کی بدمعاشی، ظلم اور فسطائیت کی وجہ سے۔ اس پر عامر لیاقت الجھ پڑا۔ ہارون صاحب نے اس پر کوئی غیر شائستہ جملہ نہیں کہا اور صرف اتنا کہا کہ یہ شخص جھوٹ بولتا ہے۔ اینکر نے اس پر بریک لی اور پھر بریک کے بعد عامر لیاقت نے کہا کہ میں ہارون صاحب کا احترام کرتا ہوں، وہ سینئر کالم نگار ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
یہ شخص ہارون الرشید کا جس قدر احترام کرتا ہے اور منافقت سے لبریز جملہ اس نے جس طرح ادا کیا، اس کی سچائی آج کے جنگ میں اس کا کالم پڑھ کر معلوم کی جا سکتی ہے۔ کالم اس قدر گھٹیا ہے کہ پوسٹ کے ساتھ اسے لگانا بھی مجھے ناگوار لگ رہا ہے۔ صرف عنوان لکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔’’دنیا کا ایک بوڑھا کیڑا‘‘اپنے قارئین اور دوستوں سے ایک معذرت کہ میں نے خلاف معمول سخت زبان لکھی اور اس بدبخت عامر لیاقت کا نام بھی کھردرے الفاظ میں لکھا، مگر یہ میرے ضبط کی انتہا ہے، ورنہ اس کا جواب قابل اشاعت زبان میں دینا ممکن ہی نہیں تھا۔ میرا بلڈ پریشر ہائی ہوگیا، اس کا کالم پڑھ کر.